skip to Main Content
سارنگئے کی جوتی

سارنگئے کی جوتی

محمد زکریا مائل

۔۔۔۔۔۔۔۔

بغداد میں ایک سارنگیارہتاتھا۔یہ جس جوتی کو پہنے رہتاتھاوہ بہت پرانی ہو چکی تھی۔سارنگئے نے اس کو پہنتے پہنتے سات سال گزار دئیے تھے۔یہ جوتی جب پھٹ جاتی اس پر ایک پیوند چڑھ جاتا۔ اس طرح پیوند پر پیوند ہونے کی وجہ سے یہ بہت بھدی اور بد صورت ہو گئی تھی اور اپنی اس بات میں بغداد بھر میں مشہور ہو گئی تھی۔

اصل بات یہ تھی کہ سارنگیا بے حد کنجوس تھا۔ سارنگی بجا بجا کر روپیہ پیدا کرتا تھا مگر جتنا کماتااس میں سے بہت ہی کم اپنے اوپر خرچ کرتاتھا۔ تکلیفیں اٹھا اٹھا کر زندگی بسر کرنا اور روپیہ جمع کرنا، بس یہی اس کے جینے کا مقصد بن گیا تھا۔ وہ نہ خود جی بھر کے کھاتا اور نہ اس پیسے سے کسی کے کام آتا۔

ایک دن سارنگیا بازار گیا توکیا دیکھتا ہے کہ حلب کا سوداگر شیشے کے بہت سے سنہرے اور خوب صورت برتن بیچنے لایا ہے۔سارنگیا تھا بڑا چالاک ۔ اس نے جلد ہی بھانپ لیا کہ سوداگر کو اپنا مال جلد بیچنے کی فکر ہے مگر اسے کوئی اچھا گاہک نہیں مل رہا ہے۔اتنے اچھے برتن جو دیکھے تو سارنگئے کی لالچ نے زور کیا۔ اس کے دل میں بے ایمانی آگئی۔ اس نے سوداگر سے جھوٹی باتیں بنانا شروع کیں اور کہا:

’’میاں سوداگر! یہاں اس مال کا نکلنا بہت مشکل ہے۔ تم ناحق پریشان نہ ہو۔میری مانو،اگر کوئی قدردان مل جائے تو جیسے تیسے بیچ کر اپنا بوجھ ہلکا کرو۔‘‘

سوداگر سارنگئے کی چکنی چپڑی باتوں سے فریب میں آگیا اور تھوڑے ہی بھاؤ تاؤ کے بعد اس نے اتنے اچھے برتن ساٹھ دینا رمیں سارنگئے ہی کو بیچ دئیے۔اگر وہ اس دھوکے میں نہ آتاتو یہی برتن سارنگئے کی دی ہوئی قیمت سے دس گنی زیادہ قیمت میں بکتے۔

سارنگیا اپنے دل میں یہ سوچ کربہت خوش ہوا کہ آج تو میں نے سوداگر کو خوب الو بنایا۔بڑا آیا تھا وہاں سے تجارت کرنے۔اب میں انہی برتنوں سے کئی گنا زیادہ نفع پیدا کروں گا۔ان باتوں کو سوچتا ہوا وہ ایک عطر فروش کی دوکان پر گیا اور اس سے بھی گلاب کا عطر طرح طرح کی چالاکی سے سستے داموں خرید لیا اور ان خوب صورتوں کنٹروں(شیشے کے برتنوں) میں بھر لیا۔ جب وہ یہ چیزیں لے کر گھر پہنچا تو یہ سنہرے کنٹر بریکٹوں پر سجا کر رکھ دئیے۔

ایک دن سارنگئے کے دل میں آئی کہ وہ حمام جاکر غسل کرے۔اس دن وہ بہت سویرے اٹھا اور بغداد کے ایک مشہور حمام میں جا پہنچا۔ اتفاق سے وہاں اس کا ایک دوست بھی موجود تھا۔اس کی نظر سارنگئے کی جوتی پر پڑی جو اب جوتی تو کیا، کئی جوتیوں کا مجموعہ بلکہ جوتی کے نام پر تہمت بن کر رہ گئی تھی اور اس پر پیوند پر پیوند لگے ہوئے نظر آرہے تھے۔ یہ دیکھ کر دوست بے چارے سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا:

’’میرے عزیز! تمہارے پاس خدا کا دیا سب کچھ موجود ہے۔خدا نے تم کو دولت دی ہے اور پھر تمہارے بال نہ بچے۔ایک اکیلی جان ہو’’جورونہ جاتا،اللہ میاں سے ناتا‘‘آخر کہاں تک سینت سینت کے رکھو گے اور اس جوتی کے پیچھے کب تک پڑے رہو گے۔خدا ے لیے اسے پنشن دو۔اس میں تمہارا کون سا بڑا روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ جتنے میں ایک جوتی آئے گی اس سے تو کئی گنا زیادہ تم روز کما لیتے ہو۔‘‘

اتفاق سے گھڑی اچھی تھی۔دوست کی بات سارنگئے کے دل میں گھر کر گئی اور اس نے جواب دیا:

’’بھائی تم سچ کہتے ہو۔ میں ان شاء اللہ کل ہی تمہاری نصیحت پر عمل کروں گا۔‘‘

اتنا کہنے کے بعدسارنگیا حمام کے اندر گیا اور بہت دیر تک مل مل کر ہفتوں کا میل کچیل صاف کرتا رہا۔جب جی بھر کے نہا چکا اور حمام سے نکل کر کپڑے پہننے کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کی نظریں یہ دیکھ کر حیران ہوگئیں کہ اس کی سات سال کی رفیق جوتی کے قریب ہی ایک نئی جوتی بھی رکھی ہے۔

سارنگئے نے فوراً ہی سو چا کہ واقعی میرا دوست بھی کتنا شریف ہے ، آخر اس سے نہ رہا گیا اور وہ میرے لئے یہ نئی جوتی چھوڑ ہی گیا۔ خدا اسے اچھا بدلہ دے،دوستی ہوتو ایسی ہو۔سارنگئے نے خوشی کے مارے جلد جلد قدم بڑھائے اور فوراًنئی جوتی پہن کر گھر کی راہ لی۔

آج سارنگیا اپنے دل میں بہت خوش تھا کہ اللہ میاں نے بے پیسے کوڑی یہ نئی جوتی دلوائی۔مگر اسے یہ نہ معلوم تھا کہ اس کی ساری خوشی خاک میں مل جائے گی اور اس جوتی کے گھر میں آتے ہی بلائیں اس کا گھر دیکھ لیں گی۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تقدیرنے سارنگئے سے اس کی کنجوسی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی،اور اس بات کی سزا دینا چاہتی تھی کہ سات سال کی لگاتار خدمت کے باوجود جوتی کو چھوڑتے وقت ذرا بھی افسوس نہ کیا اور اسے یوں ہی چھوڑ کر چلا آیا۔

جس جوتی کوسارنگیااپنے دوست کا تحفہ سمجھے ہوئے تھا وہ اس کی بدقسمتی سے بغداد کے قاضی کی جوتی نکلی۔قاضی جی بھی اس وقت حمام کرنے گئے تھے ۔جب قاضی جی غسل سے فارغ ہوئے اور جوتی تلاش کی تو نہ ملی ۔ اس پر ان کو بے حد غصہ آیا ۔انہوں نے حمام کے مالک کو حکم دیا کہ تمام جگہ کی تلاشی لی جائے،شاید کوئی ایسی جوتی مل جائے کہ جس کا کوئی والی وارث نہ ہو اور اسی سے جوتی چرانے والے کاکھوج لگ جائے۔ بہت ڈھونڈھنے کے بعد ایسی جوتی سارنگئے ہی کی نظر آئی جس کا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔چونکہ یہ جوتی بغداد بھر میں مشہور ہو گئی تھی، اس لئے دیکھتے ہی لوگ پہچان گئے اور قاضی سے سارا واقعہ بیان کر دیا۔

قاضی نے جب یہ حال سنا تو اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ فوراً سارنگئے کو گھیر لیں اور اندر پہنچ کر جوتی کا پتا لگائیں ۔انہوں نے ایسا ہی کیا اور گھر کی تلاشی لی تو قاضی کی جوتی مل گئی۔ انہوں نے اس پر قبضہ کیا اور سارنگئے کو بھی پکڑ کر لے گئے۔اس لئے کہ وہ اپنے دل میں سارنگئے کو چور سمجھ چکے تھے۔

سارنگیا قاضی کے سامنے پیش ہوا تو اس نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی مگر قاضی نے ایک نہ مانی کیوں کہ چوری کا مال اس کے گھر سے برآمد ہو چکا تھا۔پھر بھی قاضی نے سزا کا حکم دینے میں سختی سے کام نہ لیا،صرف کوڑے لگوائے اور تھوڑے دن قید کرنے کے بعد ایک بڑی رقم جرمانہ کر دی۔

قید کی معیاد پوری ہوگئی تو سارنگیا قید خانے سے چھوٹ کر نکلا۔ اب اس کا غم و غصے کے مارے برا حال تھا۔وہ کبھی اپنے آپ کو کوستا اور کبھی منحوس جوتی کوسیکڑوں بری بھلی باتیں سناتا کہ یہ سب اسی نحوست کی پوٹ (پوٹلی)کا اثر ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو میں بیٹھے بٹھائے اتنی پریشانیوں میں نہ پھنستا۔مجھ کو جیسی جیسی ذلتیں اٹھانی پڑی ہیں،سب اسی کے کرتوت ہیں۔سارنگیا اپنی ان حالتوں پر جتنا غور کرتا ،جوتی پر اس کا غصہ اتنا ہی بڑھتا جاتا۔آخر کڑھتے کڑھتے اس نے اپنے جی میں ٹھان لی کہ سب سے پہلے اس پرانی جوتی کو اس طرح دفع کیا جائے کہ ہمیشہ کے لئے اس سے پیچھا چھوٹ جائے۔

اس کے جی میں یہ بات آئی کہ جوتی کو دریاءِ دجلہ میں کسی گہری جگہ ڈبو دیا جائے۔ سارنگیا سویرے ہی اپنی مدت کی ساتھی جوتی کو ایک پرانے کپڑے میں لپیٹ کر دریاءِ دجلہ پہنچا اور ایک ایسی جگہ پر جہاں اس کا خیال تھا کہ پانی کی گہرائی بہت زیادہ ہوگی،جوتی کو زور سے گھماکر پھینک دیا۔جوتی بھاری تو تھی ہی، وزن کی وجہ سے فوراً تہہ میں چلی گئی۔ سارنگئے نے جب پانی پر جوتی کا نشان نہ پایا تو اطمینان کا سانس لیا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا گھر پہنچا۔

سارنگئے کی بد قسمتی نے ابھی تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا تھا۔دوسرے ہی روز دجلے کے اسی مقام پر ایک قسمت کا مارا مچھیرا جا پہنچا اور اس نے بڑی امید باندھ کر جال پھینکا اور تھوڑی دیر بعد جب جال بھاری معلوم ہوا تو اسے خوش ہو کر آہستہ آہستہ کھینچا مگرجال نکالنے کے بعد جب اس میں سارنگئے کی بھدی جوتی نظر آئی تو اس کی ساری امیدوں پر پانی پھرگیا۔ مچھیرا اس کو دیکھتے ہی پہچان گیا۔کیوں کہ بغداد بھر میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس جوتی کاحال نہ جانتا ہو۔اس نے کہا:

’’ ہو نہ ہو یہ جوتی کسی طرح سارنگئے سے چھوٹ کر دریا میں گر گئی ہے اور چونکہ سارنگئے میں غوطہ لگانے کی ہمت نہ تھی اس لئے یہ تہہ میں پڑی رہ گئی۔ اب میں اسے سارنگئے کو واپس کر دوں گا،تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی چیز پا کر خوش ہو جائے۔‘‘

مچھیرے نے جوتی اٹھائی اور سارنگئے کے گھر پہنچا۔ مکان پر آواز دی تو کسی نے جواب نہ دیا۔مجبوراً اسے بغداد کے بازاروں میں تلاش کرنے لگا کہ کہیں مل جائے تو اس کی جوتی اس کے حوالے کردے۔قسمت کا مارا سارنگیاتلاش کرنے پر کہیں نہ ملا تو مجبوراً مچھیرا پھر اس کے گھر کی طرف لوٹا اور بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا کہ شاید سارنگیا سو رہا ہو تو شور وغل سے اس کی نیند کھل جائے۔

جب یہ امید بھی پوری نہ ہوئی تو اس نے دوسرے دن صبح کو پھر آنے کی ٹھانی۔الٹے قدم واپس ہونے کا اردہ کر ہی رہا تھا کہ یکایک اس کی نظر سارنگئے کے گھر کی ایک کھلی ہوئی کھڑکی پر پڑی۔فوراً مچھیرے کو خیال آیا کہ اس جوتی کو اس کھڑکی میں سے گھر کے اندر پھینک دے تاکہ سارنگیا جب گھر آئے تو اسے کھوئی ہوئی جوتی مل جائے۔مچھیرے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک بار زور سے جوتی کھڑکی سے اندر پھینکی تو بریکٹ پر پڑی ۔جس پر سارنگئے نے شیشے کے برتن سجا رکھے تھے۔فوراً سارے برتن چکنا چور ہو کر نیچے آرہے اور سارنگئے کی امیدوں کا قلعہ اڑ اڑ کر دھڑام کرکے گر پڑا ۔ساتھ ہی کنٹروں میں بھرا ہوا گلاب کا عطر بھی بہہ گیا۔

جب سارنگیا گھر واپس آیا اور یہ تباہی دیکھی تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔صدمے سے برے حال ہو گیا۔آخر اس سے یہ غم برداشت نہ ہو سکا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے اور اپنا منہ نوچنے لگا۔جب اس طرح کچھ تسلی ہوئی تو تھوڑی دیر بعد اس نے جوتی کو اس طرح ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کیا جیسے جوتی بھی کوئی جان دار اور سمجھ بوجھ والی مخلوق ہو۔اس نے جوتی سے کہا:

’’بڑی منحوس تھی وہ گھڑی۔ اے ملعون جوتی جب میرا تجھ سے سابقہ پڑا تھا۔تو تو میرا پیچھا بھی نہیں چھوڑتی اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تو نے عمر بھر میرے ساتھ رہنے کی قسم کھارکھی ہے۔اے جوتی تجھ پر ہزار بار لعنت۔ تو نے مجھے وہ وہ دکھ دئیے ہیں کہ اٹھائے نہیں اٹھتے ہیں۔رہ تو سہی میں بھی تجھے ایسے گڑھے میں دفن کروں گا جس سے تو قیامت تک نہ نکل سکے۔لعنت کی ماری جوتی ۔اگر میں ایسا نہ کروں تو سارنگیا نہیں چمار سمجھنا۔‘‘

پھر سارنگیا فوراً اٹھا۔ اس وقت غصے کے مارے اس کا سر پھٹا جا رہا تھااور چہرہ لال ہو گیا تھا۔اس نے ایک کدال ہاتھ میں لی اور گہرا گڑھا کھودنا شروع کیا تاکہ جیسے تیسے جوتیوں کو اس میں دفن کر دے اور ان تمام مصیبتوں سے نجات حاصل کر لے۔

رات کے سناٹے میں کدال چلنے سے جو دھمادھم مچی اس سے محلے والوں پر دہشت چھا گئی۔ ہرایک کو یہی خیال ہوا کہ کوئی چوراسی کے گھر میں نقب لگا رہا ہے اور اب گھر میں گھسا ہی چاہتا ہے۔وہ ڈرتے ڈرتے گھر سے نکلے اور محلے کے چوکیدار کو تلاش کرکے یہ واقعہ بیان کیا۔چوکیدار اپنے ساتھ سپاہیوں کو لے کر سیٹی بجاتا ہوا دوڑا اور ادھر ادھر ڈھونڈھنا شروع کیا ۔آخریہ لوگ سارنگئے کے گھر پہنچے۔ جہاں سے زمین کھودنے کی آواز بڑے زور سے آرہی تھی اور مکان کے اندر جا کر سارنگئے کو پکڑ لیا۔اس مرتبہ سارنگئے کو حاکم کے سامنے پیش کیا گیا اور اس نے اس کو قصور وار قرار دے کر بہت سے روپے جرمانے کے طور پر وصول کئے اور قید کی سزا الگ دی۔

اب کی مرتبہ جب سارنگیا سزا بھگت کر نکلا تو اس کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔اس نے گھر آتے ہی سب سے پہلے جوتی سے پیچھا چھڑانے کی ٹھانی ۔جلدی کے مارے اس نے صبح کا بھی انتظار نہ کیا۔رات ہی کو اپنی جوتیوں کا پلندا ایک کپڑے میں باندھااور بغداد کے ایک بڑے ہوٹل کے پاس پہنچ کر یہ پلندا ہوٹل کے نابدان(گٹر) میں پھینک آیا۔اب اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ اس جوتی کی منحوس صورت پھر نظر نہ آئے گی۔

مگر آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا ہے کچھ اور۔ہوا یہ کہ تھوڑے دنوں کے بعد نابدان کی نالی بند ہو گئی اور اس کی وجہ سے آس پاس خوب سڑاند مچی۔لوگوں نے چاروں طرف ڈھونڈھا تو نابدان میں کوئی چیز اڑی ہوئی تھی جس کی وجہ سے پانی سب کی طرف پھیل رہاتھا۔ جب اس چیز کو نکالا تو یہ دیکھ کر لوگوں کو سخت غصہ آیا کہ یہ تو وہی سارنگئے کی جوتی ہے، جس نے لوگوں کو پریشانی میں ڈال رکھا تھا۔آخر سب نے پولیس کو اطلاع دی اور سپاہی پھر سارنگئے کو پکڑ کے قاضی کے سامنے لے گئے جس نے تین تین جرمانے کئے۔ایک جرمانہ اس نقصان کے معاوضے کے لئے جو ان جوتیوں سے پہنچا تھا۔دوسرا ہوٹل کے مالک کو ادا کرنے کے لئے اور تیسرا سزا کے طور پر۔یہ تہرے جرمانے ادا کرنے پڑے تو سارنگئے کی ہمت جواب دے گئی اور اب اسے یقین ہو گیا کہ معلوم ہوتا ہے یہ جوتی میرا ساتھ ہر گز نہیں چھوڑے گی۔

چار و ناچار بے چارہ قسمت کے فیصلے پر راضی ہو گیا اور دل میں یہ طے کر لیا کہ اب جوتی کو زیادہ نہیں چھیڑے گا ۔ پھر اس نے جوتی کو خوب دھو کر مکان کی چھت پر رکھ دیا اور دل میں یہ سوچا کہ اب نہ میں جوتی سے کوئی مطلب رکھوں گا اور نے اسے مجھ سے کوئی واسطہ رہے گا۔

بد قسمتی سے سارنگئے کا یہ خیال بھی غلط نکلا۔ابھی جوتی کو چھت پر رکھے ہوئے ایک ہی دن ہوا تھاکہ کہیں سے ایک کتا ادھر آنکلا اور اس کی نظر جوتی پر پڑی تو خدا جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ وہ اس جوتی پر لپکا۔کچھ پتا نہ چلا کہ وہ شریر لڑکوں کی طرح یوں ہی اس سے کھیلنا چاہتا تھا یا پھر بھوک کے مارے بے دم ہوا جا رہا تھاجس کی وجہ سے وہ اسے کوئی کھانے کی چیز سمجھ بیٹھا اور بھوک کی آگ بجھانے کے لئے اسے اپنے منہ میں دبا کر بھاگا۔اور اسے لئے لئے پاس کے مکان کی چھت پر کودا۔اس حرکت سے جوتی کا بنڈل اس کے منہ سے چھوٹ کر ایک راہ گیر کے سر پر گرا جو بری طرح زخمی ہو کر سڑک پر گر پڑا۔

لوگوں نے غریب راہ گیر کے سر سے خون کا فوارہ چھوٹتے دیکھا تو سب اس کے آس پاس جمع ہو گئے اور اس کے زخمی ہونے کی وجہ معلوم کرنے لگے۔جیسے ہی جوتی کا بنڈل قریب پڑا ہوا نظر آیا فوراً سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ سارنگئے ہی کی جوتی ہے۔ جس کے کرتوت اس زمانے میں بغداد بھر میں مشہور ہو رہے تھے۔

پھر سارنگئے کو قا ضی صاحب کے حضور میں پیش کیا گیا اور انہوں نے سارے مقدمے پر غور کرکے زخمی راہ گیر کے علاج اور تکلیف کے معاوضے کے علاوہ اس حرکت کی سزا دینے کی غرض سے سارنگئے پر بہت بڑا جرمانہ کر دیاکہ آئندہ ایسی غفلت نہ کرے ورنہ قید خانے میں ڈلوا دیا جائے گا۔

یہ لگاتار جرمانے جو ادا کرنے پڑے تو سارنگئے کی ساری جمع پونجی جو اس نے اپنی جان پر مصیبت اٹھا اٹھا کر رکھی تھی ختم ہو گئی اور وہ اچھا خاصا مال دارہونے کے بعد مفلس اور فقیر بن گیا۔آخر اس نے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد قاضی صاحب کے ہاں درخواست دی جس میں اس جوتی کے ہاتھوں جوجو مصیبتیں بھگتی تھیں ،سب بیان کیں۔

قاضی صاحب نے سارنگئے سے درخواست لے کر پڑھی تو ہنستے ہنستے ان کا برا حال ہو گیا۔وہ حیران ہو گئے کہ اس پر کیا فیصلہ کریں۔مجبور ہو کر سارنگئے ہی سے پوچھا:

’’آخر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

سارنگئے نے ہاتھ جوڑ کر کہنا شروع کیا:

’’حضور بس اتنا ہی چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے لئے اس جوتی سے میرا پیچھا چھڑا دیں۔میں اس سے بے حد تنگ آگیا ہوں اور اب عمر بھر اس سے کوئی مطلب نہیں رکھنا چاہتا۔آپ پورے شہر میں ڈھنڈورا پٹوا ٰدیں کہ اب سارنگئے کا اس جوتی سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس کی وجہ سے کسی پر کوئی آفت بھی آئے تو اس کی ذمے داری اس بوڑھے بے گناہ پر ہر گز نہ ہوگی۔آج سے نہ میں اسے جانتا ہوں ،نہ یہ مجھے جانے گی۔پھر اس نے جوتی کی طرف منہ کرکے بڑی دکھ بھری آواز میں یہ شعر پڑھے:

اے راحتوں کی دشمن ۔۔۔۔۔۔۔ اے آفتوں کی مخزن
اے بد نصیب جوتی اے جڑ نحوستوں کی
کب تک میں تیرے ہاتھوں صدمے اٹھائے جاؤں
جا دور ہو اسی دم پھٹکار تجھ پہ پیہم

قاضی کو سارنگئے پر بڑا ترس آیا اور اس نے پورے شہر میں منادی کرادی کہ اب سے اس جوتی کی وجہ سے کسی کو تکلیف ہوئی تو سارنگیا اس کا ذمے دار نہ ہوگا۔

اس منادی سے سارنگئے کے دل کو ڈھارس بندھی اور ذرا اطمینان نصیب ہوا۔ سارنگئے کی جوتی شہر میں تو ہر جگہ مشہور تھی ہی اس کے قصے ایک سے دوسرے تک پہنچتے پہنچتے خلیفہ کے محل میں بھی جا پہنچے۔ مصاحبوں نے ایک دن اس کا واقعہ خلیفہ سے بیان کیا۔

سارنگی کی قسمت جاگ چکی تھی۔اتفاق سے اس دن خلیفہ کسی بات پر بہت ناراض تھا اور اپنے دل میں بڑی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے جوتی کے یہ حالات سنے تو اس کی الجھن اور فکر دور ہو گئی ۔غم کی جگہ خوشی نے گھیر لیا اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا۔مصاحبوں کو حکم دیا کہ سارنگئے کو جلد سے جلد حاضر کیا جائے۔

ادھر خلیفہ سارنگئے سے ملنے کے لئے بے چین تھا۔ادھر سارنگیا اپنے گھر میں چین سے سو رہا تھا۔اس رات اس نے ایک عجیب اور انوکھا خواب دیکھا۔خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ جوتی کی صورت آدمی کی سی بن گئی ہے اور وہ سارنگئے کو ڈانٹ ڈپٹ کر یہ کہہ رہی ہے کہ’’ میرے ہاتھوں جو بلائیں تجھ پرٹوٹی ہیں ان پر تو مجھ جیسی پرانی ساتھی سے ناراض ہے۔ اتنا نہیں سمجھتا کہ میرااس میں کیا دخل ہے۔ یہ توجو کچھ کیا خدا ہی نے کیا ہے۔ شاید وہ تجھے ان تکلیفوں میں ڈال کر تیری کنجوسی کے گناہ سے تجھے پاک کرنا چاہتا ہے اور تجھ سے یہ مال جمع کرنے کی لالچ اور ہوس چھڑانا چاہنا ہے۔توتو نے بھی تو غضب کر دیا کہ اب تک کبھی اللہ کی راہ میں ایک درہم بھی خرچ نہ کیا۔سات برس سے تو میں ہی تیری یہ حالت دیکھ رہی ہوں اب اگر تجھے اس حرکت پر خدا کی طرف سے سزا مل رہی ہے تو اس پر اتنا تعجب کیوں کرتا ہے اب بھی کچھ نہیں گیا ہے۔ اگر تو مجھ سے وعدہ کرے کہ فقیروں اور محتاجوں کو اپنے روپے سے مدددے گا تو میں یقین دلاتی ہوں کہ تیری مصیبت ٹل جائے گی کیوں کہ جو شخص دوسروں کے کام آتا ہے۔ وہ اصل می خدا کی دی ہوئی نعمت کا شکر ادا کرتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے۔‘‘

سارنگیا جوتی کی اس نصیحت سے بہت خوش ہوا اور اس نے خدا کو گواہ کرکے جوتی سے وعدہ کیا کہ اب میں اس نصیحت پر دل سے عمل کروں گا اور پہلے والی بری عادتیں بالکل چھوڑ دوں گا۔

ابھی سارنگئے نے جواب میں اپنی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ کسی کے زورزور سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔گھبرایا ہوا اٹھا اور باہر گیا تو خلیفہ کے سپاہی اسے ساتھ لے جانے کے لئے باہر کھڑے تھے۔خلیفہ کا حکم سنتے ہی اس نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور سپاہیوں کے ساتھ ہو لیا۔

خلیفہ سارنگئے کو دیکھتے ہی مسکرایا اور ہنس کر کہا:

’’ہاں بھئی !ذرا اپنی جوتی کا ماجرا اپنے منہ سے سناؤ۔‘‘

یہ قصہ سن کر خلیفہ بے حد خوش ہوا اور سارنگئے کو اتنا روپیہ انعام دیا کہ وہ عمر بھر کے لئے امیر ہو گیا۔مگر اب سارنگیا پہلے جیسا کنجوس مکھی چوس نہ تھا۔ اس نے خواب میں جوتی سے جو وعدہ کیا وہ پورا کر دکھایا۔غریبوں اور محتاجوں کی خوب مدد کرتا۔خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top