skip to Main Content

سارس پری

انتظار حسین
۔۔۔۔۔

ایک بوڑھا آدمی تھا۔ ایک اس کی بوڑھی بیوی تھی۔ آل نہ اولاد۔ بوڑھا بڑھیا شہر سے دور سب سے الگ تھلگ رہتے تھے۔بوڑھا محنت مزدوری کے لیے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکل جاتا اور شام پڑے واپس آتا۔تھا وہ بہت رحم دل مگر جانے کیا بات ہے کہ رحم دل اور نیک لوگ کم کم ہی ہوتے ہیں۔اس شخص کا ہاتھ تو بہت ہی تنگ رہتا تھا مگر رحم دلی اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔کسی کو مشکل میں دیکھتا تو اپنے سارے کام چھوڑ کر اس کا ہاتھ بٹاتا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شام ہو گئی تھی اور وہ لپک جھپک گھر جا رہا تھا۔آج اسے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔صبح چلتے وقت بیوی نے کہا تھا کہ رات کے لیے گھر میں کچھ نہیں ہے۔پیسے لے کر آؤ گے تو روٹی پکے گی۔وہ ایکھ کے پاس سے گزر رہا تھا کہ پر پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔اس آواز پر اس کے کان کھڑے ہوئے۔سوچا شام ہو گئی ہے۔شاید کوئی پرندہ بھول بھٹک کر کسی مشکل میں گھر گیا ہے۔اس خیال سے وہ بہت بے چین ہوا اور اس کی آواز کے رخ پر ایکھ میں گھس گیا۔نکل کر اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سارس ہے۔جو جال میں پھنسا ہے اور پھڑپھڑاتا ہے۔ہانپتے پھر پھڑاتے سارس کو دیکھ کر اسے ترس آگیا۔اور اس نے فوراً جال کاٹ دیا۔سارس آزاد ہوگیا اور قائیں قائیں کرتا اڑ گیا۔
بوڑھا دیر سے گھر پہنچا اور بیوی سے کہا”بی بی،کیا بتاؤں۔ایک سارس جال میں پھنس گیا تھا۔بس اسے چھوڑ آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔“
ابھی وہ یہ کہتا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔پھر ایک میٹھی اور معصوم سی آواز آئی:
”میں اندر آجاؤں؟“
”ہاں،آجاﺅ بیٹا کون ہو تم؟“
بڑھیا نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ایک ننھی منی پیاری سی لڑکی اندر آئی۔کہنے لگی”میں گھر کا رستہ بھول گئی ہوں اور باہر اندھیرا بہت ہے۔“
بوڑھے بڑھیا نے کہا،”بیٹی گھبرانے کی بات نہیں۔رات کو یہاں آرام کرو صبح جب اجالا ہو جائے تو گھر چلی جانا۔“
اس لڑکی نے وہ رات وہیں گزاری۔تھی وہ بہت پیاری لڑکی،اور بھولی بھالی باتیں کرتی تھی۔بوڑھا بڑھیا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بعد میں اس نے بتایا کہ میرے ماں باپ مر چکے ہیں۔میں اکیلی ہوں۔یہ سن کر انہوں نے اسے بہت پچکارا اور کہا کہ تم ہماری بیٹی بن جاؤ اور ہمارے ساتھ رہا کرو۔اصل میں وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اللہ میاں نے ہم بے اولادوں کو یہ اولاد دی ہے۔اور لڑکی اپنی جگہ خوش تھی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔اسے ایک سہارا مل گیا۔بس وہ وہیں رہ پڑی اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
ایک دن لڑکی نے اپنے نئے ماں باپ سے کہا:
”میں کپڑا بننا جانتی ہوں مگر شرط یہ ہے کہ الگ کوٹھڑی میں بنا کروں گی۔کوئی اس وقت اندر نہ آئے۔“
بوڑھے بڑھیا کو اس پر تعجب تو ہوا مگر سوچا کہ بچی ہے۔ہٹ کرتی ہے۔انہوں نے اس کی یہ شرط مان لی۔
اس کے بعد سے یہ معمول ہو گیا کہ وہ لڑکی روز صبح کو کوٹھڑی میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیتی۔باہر کسی کو پتا نہ چلتا کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ بس ہلکی ہلکی آواز آتی رہتی جیسے کپڑا بنا جا رہا ہے۔شام کو وہ کپڑے کا ایک تھان لیے ہوئے نکلتی۔کپڑا اتنا باریک اور نفیس ہوتا کہ جو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔اس کپڑے کا دو دور چرچا ہوا اور مہنگے داموں بکنے لگا۔بوڑھا بوڑھیا اس کپڑے کی بدولت بہت امیر ہو گئے۔
دن گزرتے گئے اور تھان پہ تھان تیار ہوتے گئے۔بڑھیا کو یہ کر ید رہنے لگی کہ یہ بالشت بھر کی لونڈیا ایسا نفیس کپڑا کس ترکیب سے بنتی ہے ہے! ایک دن اس سے ضبط نہ ہوسکا۔وہ دبے پاؤں کو ٹھری کے پاس گئی اور دروازے میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔مگر وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ وہاں کوئی لڑکی نہیں ہے۔ایک سارس ہے جس نے اپنے سفید براق پر پھیلا رکھے ہیں۔اور اپنی لمبی چونچ سے کپڑا بن رہا ہے۔
جب شام ہوئی تو بوڑھا گھر واپس آیا۔ادھر وہ لڑکی کوٹھری سے نکلی اور بوڑھے سے بولی”میں وہی سارس ہوں جسے آپ نے جال سے چھڑایا تھا۔آپ کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے میں نے یہ روپ بھرا تھا۔لیکن آج اماں جی نے مجھے اصل روپ میں دیکھ لیا۔میں اصل میں سارس پری ہوں۔میرا بھید کھل گیا۔اب میرا یہاں رہنا ممکن نہیں۔مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے۔“
اس پر بوڑھا بہت حیران ہوا۔بڑھیا حیران بھی ہوئی اور پچھتائی بھی بہت کہ آخر اسے کیا پڑی تھی جو اس نے کوٹھڑی میں جھانکا۔
دونوں کو اس کی جدائی کا بہت دکھ تھا۔وہ اسے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتے تھے لیکن کیا کرتے مجبور تھے۔لڑکی اب دم بھر کو یہاں ٹکنے کے لیے تیار نہیں تھی۔اس نے انہیں سلام کیا اور اچانک اپنے اصلی روپ میں آ گئی۔
بوڑھا اور بڑھیا نے دیکھا کہ سفید براق سارس پر پھڑپھڑا کر اڑا اور بلندی کی طرف اٹھتا چلا گیا۔پھر اس نے آرام سے اپنے پر پھیلا کر چھوڑ دیے اور نیلے آسمان میں کھو گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top