skip to Main Content

سائمن کی حماقتیں!

کہانی: Simple Simon goes to camp
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔
سائمن نے اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کیا گُل کھلائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

سائمن ایک بہت بدھو لڑکا تھا۔ وہ کبھی اپنے گھر سے زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ ایک دن اس کے ٹیچر نے اس سے پوچھا کہ ان کی کلاس کے بچے کیمپنگ کے لیے شہر سے باہر جا رہے ہیں، اگر وہ چاہے تو ساتھ چل سکتا ہے۔
”اس سے تم پر اچھا اثر پڑے گاسائمن!“ انہوں نے کہا ”تم بہت بھلکڑ اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے بچے ہو۔ کل اپنی امی سے جانے کی اجازت لے کر آنا۔“
چھٹی کے بعد سائمن سیدھا گھر بھاگا۔ وہ بہت پرجوش تھا۔ آج سے پہلے کبھی وہ کیمپنگ کے لیے نہیں گیا تھا۔ اس کی امی نے اسے جانے کی اجازت دی تو وہ خوشی سے جیسے پاگل ہوگیا۔
”میں وہاں بہت سے کام سیکھوں گا امی۔“ اس نے کہا۔ ”میں سب کی مدد کروں گا، میں ٹینٹ لگانا اور اکھاڑنا سیکھوں گا، برتن دھونا اور کھانا پکانا سیکھوں گا۔ کتنا مزہ آئے گا۔“
خیر جناب، اس طرح سائمن زندگی میں پہلی بار کیمپنگ کے لیے روانہ ہوا۔ یہ لوگ شہر سے باہر کھیتوں کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کیمپنگ کرنے گئے تھے۔ سائمن کو اس کے ٹیچر نے ٹینٹ لگانا سکھایا مگر وہ اسے سیکھنے میں ناکام رہا۔ جیسے ہی وہ ٹینٹ لگا کر اس کے اندر داخل ہوتا تھا، ٹینٹ ہمیشہ اس کے اوپر گر پڑتا تھا۔ پھر اسے سکھایا گیا کہ چشمے پر جا کر گندی پیالیاں اور پلیٹیں کیسے دھوئی جاتی ہیں۔ مگر دو بار پانی میں گرنے کے بعد اسے مزید یہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ پھر ایک دن اسے ایک بڑا جگ دے کر کہا گیا کہ دودھ لے کر آئے۔ سائمن جگ لے کر چل پڑا مگر اگلے کھیت تک پہنچ کر وہ رُک گیا اور سوچنے لگا کہ وہ یہ پوچھنا تو بھول ہی گیا کہ دودھ اسے کہاں سے ملے گا۔ ”کیا حماقت ہے؟“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ”اب اگر واپس جا کر پوچھوں گا تو سب لڑکے مجھ پر ہنسیں گے، پتہ نہیں کل جمی کہاں سے دودھ لے کر آیا تھا؟“
”مواؤاؤ اؤ!“ قریب سے ہی ایک گائے بولی اور سائمن کو اتنا گھور کر دیکھا کہ اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسی کے سوال کا جواب دے رہی ہے۔
”اوہ! ظاہر سی بات ہے! دودھ تو گائے دیتی ہے۔“ سائمن نے کہا۔
”ارے گائے! ذرا ادھر تو آنا ایک منٹ کے لیے۔“ اس نے گائے کے سامنے جگ لہرایا، مگر اس نے اپنا سر دوسری طرف موڑ لیا اور جگالی کرتی رہی۔ وہ آرام کررہی تھی اور سائمن کے لیے کھڑے ہونے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”اس طرف دیکھو گائے!“ سائمن اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ ”تم جانتی ہو کہ یہ دودھ کا جگ کس لیے ہوتا ہے۔ زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ تم جانتی ہی نہیں کہ دودھ کیا ہوتا ہے۔ جلدی سے کھڑی ہو کر مجھے دودھ دے دو، وہاں سب لوگ ناشتے کے لیے انتظار کررہے ہیں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ مجھے ٹیچر سے ڈانٹ پڑے؟ جلدی کرو بھئی!“
گائے نے اس کی تقریر کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس نے اپنی دُم زور سے گھمائی اور سائمن کی ٹانگوں پر ماری۔
”ایسا مت کرو۔“ سائمن نے کہا۔ ”کیا تم سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا گائے؟ میں کھڑا ہونے میں تمہاری مدد کروں گا۔“ اس نے گائے کو دھکیلنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھی کی طرح ڈٹ کر لیٹی رہی۔ سائمن کے دھکے نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ سائمن ایک منٹ تک کھڑا اسے گھورتا رہا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے اور پھر اس نے کسی کو جنگلے کے اوپر سے اسے آواز دیتے ہوئے سنا۔
”سائمن! جلدی دودھ لے کر آؤ! ہم انتظار کررہے ہیں بھئی!“ سائمن بھاگ کر جنگلے کے پاس گیا۔ ”گائے مجھے ذرا سا بھی دودھ نہیں دے رہی، وہ بہت زیادہ ضدی ہے۔“ اس نے منہ لٹکا کر کہا۔
”ارے احمق! تمہیں دودھ فارم پر سے ملے گا۔“ لڑکے نے جنگلے کے اوپر سے کہا: ”میں یقین نہیں کر سکتا کہ تم اتنی دیر سے گائے کے ساتھ بحث کررہے تھے۔ حد ہو گئی، لاؤ جگ مجھے دو، میں لے کر آتا ہوں۔“ وہ جنگلے سے کود کر اندر آیا، غریب سائمن سے جگ چھینا اور فارم کی جانب دوڑ گیا سائمن کی کلاس کے بچوں کو جب پتہ چلا کہ وہ دودھ لینے کے لیے گائے سے بحث کررہا تھا تو سائمن کا خوب مذاق اڑایا گیا۔
”خیر اب ہم تم سے کوئی کام نہیں لیں گے۔“ انہوں نے کہا: ”تم بہت احمق ہو سائمن! تم کبھی اپنے دماغ سے کام نہیں لیتے۔“ بے چارہ سائمن! وہ بہت اداس تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ زیادہ سوچ نہیں سکتا تھا۔ اس کی ماں ہمیشہ اسے عقل سے کام لینے کی نصیحت کرتی تھی۔
اس واقعے کے بعد سے کسی نے بھی اسے مدد کے لیے نہیں کہا۔ اگر وہ مدد کرنے کے لیے خود کو پیش بھی کرتا تو بھی اسے اجازت نہیں ملتی تھی۔ کیمپ میں اگر آپ کو کوئی کام نہ کرنے دیا جائے تو کیمپ جانا بیکار ہے۔ غریب سائمن بے حد ناخوش تھا۔
٭….٭
”پلیز مجھے مدد کرنے دو۔“ اس نے جمی سے التجا کی جو لڑکوں کے لیے رات کا کھانا بنا رہا تھا۔ ”کیا میں آلو چھیل سکتا ہوں؟“
”نہیں! پچھلی دفعہ جب تم نے آلو چھیلے تھے تو آدھے چھلکے اسی پر چھوڑ دیئے تھے۔ چلے جاؤ! میں سبزیوں کا سوپ بنا رہا ہوں اور میں اس میں کوئی ادھ چھلی سبزی نہیں ڈالنا چاہتا۔“
”تم اس میں کون کون سی سبزیاں ڈال رہے ہو؟ سائمن نے پوچھا۔
”گاجر، مولی، پیاز، شلجم….“ جمی کہتے کہتے رک گیا۔
”اوہ! میرے پاس شلجم تو ہیں ہی نہیں۔“
”مجھے اپنے لیے شلجم لانے دو۔“ سائمن نے فوراً کہا۔
”تم شلجم اور کیلے میں فرق نہیں کرسکتے۔“ جمی نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”جی نہیں! میں دونوں کا فرق جانتا ہوں۔ شلجم وہاں کھیت میں اگتے ہیں ناں؟“ سائمن نے فخر سے کہا۔
”ہاں !“ جمی نے کہا: ”اور کسان نے کہا ہے کہ ہمیں جتنے شلجموں کی ضرورت ہو، ہم نکال سکتے ہیں۔ اچھا خیر ٹھیک ہے، تم میرے لیے کچھ شلجم لے کر آؤ اور خبردار جو تم پیاز اور گاجر لے کر آئے! مجھے شلجم چاہئےں، شلجم! سمجھے!!“ سائمن بھاگ کھڑا ہوا۔ مگر چند منٹ بعد ہی واپس پلٹ آیا۔
”تمہیں کتنے شلجم چاہئیں؟ پندرہ یا بیس؟“ اس نے پوچھا۔ ”ارے نہیں بے وقوف! تین سے کام چل جائے گا۔“ جمی نے آلو چھیلتے ہوئے کہا۔
”اب جاؤ بھی!“ سائمن چل پڑا۔ مگر ایک منٹ بعد ہی وہ پھر واپس پلٹ کر آیا۔
”تم نے مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ تمہیں کس سائز کے شلجم چاہئیں؟ بڑے یا چھوٹے؟“
”بڑے والے!“ جمی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”کتنے بڑے؟“ سائمن نے پوچھا۔ ”اوہو! تمہارے سر جتنے بڑے!“ جمی چلایا۔ ”اب چلے بھی جاؤ سائمن! ورنہ تم شام تک شلجم نہیں لا سکو گے۔“ سائمن پھر چل پڑا۔ اس نے باڑ پھلانگی اور شلجم کے کھیت میں گھس گیا۔
”پتہ نہیں میرا سر کتنا بڑا ہوگا؟“ سائمن نے اپنا سر چھو کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں کیسے یہ فیصلہ کرسکتا ہوں کہ یہ شلجم میرے سر کے برابر ہیں یا نہیں؟ میں اپنا سر نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی میں جانتا ہوں کہ میرا سر کتنا بڑا ہے؟“ وہ واپس جا کر یہ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سر کتنا بڑا ہے۔ اس نے سوچا اگر وہ واپس جا کر پوچھے گا تو جمی بہت خفا ہوگا مگر وہ اس بات پر بھی تو کتنا خفا ہوگا اگر وہ بہت بڑے یا بہت چھوٹے شلجم لے کر گیا۔ اب یہ ایک معمہ تھا جسے حل کرنا سائمن کے بس کی بات نہ تھی۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔
”یقینا کوئی ایسا طریقہ ہوگا جس سے مجھے معلوم ہوسکے کہ کون سے شلجم میرے سر کے برابر ہیں۔ مجھے اس پر غور کرنا چاہیے۔“
اس نے واقعی بہت غور کیا اور پھر وہ مسکرایا کیوںکہ اس نے یہ معمہ حل کرنے کی ایک ترکیب سوچ لی تھی۔
”میرا ہیٹ (ٹوپی) میرے سر پر فٹ آتا ہے۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا: ”اب اگر میں صرف تین ایسے شلجم تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاؤں جو میرے ہیٹ میں فٹ آجائیں تو وہ اتنے ہی بڑے ہوں گے جتنا میرا سر۔“
اس نے ایک شلجم اکھاڑا اور اس کے اوپر اپنا ہیٹ رکھ دیا۔ پھر اس نے شلجم اٹھا کر دور پھینک دیا۔ ”تم بہت چھوٹے ہو شلجم۔“ اس نے کہا۔ ”میرا ہیٹ تم پر فٹ نہیں آرہا۔“ اس نے ایک اور شلجم کھینچ کر نکالا۔ یہ ایک بڑا شلجم تھا جو اس کے ہیٹ کے نیچے پورا نہیں سمایا۔”تم بہت بڑے شلجم ہو۔ تم سے کام نہیں چلے گا۔“ اور اس نے اسے بھی پھینک دیا۔ اس نے ایک اور شلجم کی پیمائش کی مگر وہ بھی بہت بڑا نکلا۔ پھر اسے ایک ایسا شلجم مل ہی گیا جو اس کے ہیٹ کے نیچے بالکل فٹ آیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ ”اب دو اور چاہئیں۔“ اس نے خود سے کہا۔ اور ایک کے بعد ایک شلجم اکھاڑتا ہی چلا گیا۔ کافی دیر کے بعد اس نے بالآخر دو اور ایسے شلجم ڈھونڈ ہی لیے جو اس کے ہیٹ کے نیچے بالکل فٹ آئے۔ اس نے دو تین شلجم اپنی بغل میں دبائے، اپنا ہیٹ سر پر رکھا اور خوشی خوشی کیمپ کی جانب واپس روانہ ہو گیا۔
”اف توبہ! کتنی دیر لگا دی تم نے۔“ جمی اسے دیکھ کر چلایا۔ سائمن یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا کہ جمی نے شلجموں کے سائز کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا جو بالکل اس کے سر کے سائز کے تھے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ سے بہت خوش تھا۔ جب وہ رات کے کھانے پر دوسروں کے ساتھ بیٹھا تو اس نے ہر ایک کو الگ الگ بتایا۔ ”میں شلجم لےکر آیا، میں نے جمی کی مدد کی اور چونکہ میں نے اپنی عقل کا استعمال کیا۔ اس لیے میں نے آج کوئی احمقانہ حرکت نہیں کی۔“
لیکن چند لمحوں بعد ہی ایک لمبا چوڑا آدمی لمبے لمبے ڈگ بھرتا کیمپ کی طرف آیا۔ یہ کسان تھا اور بہت غصے میں لگ رہا تھا۔
”شام بخیر جناب!“ اس نے سائمن کے اسکول ٹیچر سے کہا۔ ”میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ آپ کے لڑکوں میں سے کون تھا جس نے میرے کھیت کے آدھے سے زیادہ شلجم اکھاڑ کر پھینک دیئے اور اب وہ کھیت میں بکھرے پڑے ہیں۔“
”ارے نہیں! وہ میرے لڑکوں میں سے کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔“ استاد نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ”یہ سب بہت تمیزدار ہیں۔“
”معاف کیجئے گا جناب! مگر وہ آپ ہی کے لڑکوں میں سے کوئی ایک تھا۔“ کسان نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”اور میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون تھا؟“
”میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ میرے لڑکوں میں سے کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔“ استاد نے کہا۔ ”وہ اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کرسکتے کہ شلجم توڑیں اور انہیں کھیتوں میں پھینک کر آجائیںکہ وہ ضائع ہوتے رہیں۔“ یہ کہتے کہتے اچانک ان کی نظر سائمن سے ٹکرائی جو چقندر کی طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”سائمن سچ سچ بتاؤ۔ یہ بدتمیزی کی حرکت تمہاری تو نہیں ہے؟“ انہوں نے سختی سے پوچھا۔
”اوہ سر! جمی نے مجھے تین شلجم لینے کے لیے بھیجا تھا جو بالکل میرے سر کے برابر ہوں۔“ سائمن نے روتے ہوئے کہا۔ ”اور میں نہیں جانتا تھا کہ میرے سر کا سائز کیا ہے، اسی لیے میں نے اپنا ہیٹ اتارا اور تین ایسے شلجم ڈھونڈتا رہا جو اس کے نیچے فٹ آجائیں اور باقی میں نے دور پھینک دیئے کیونکہ وہ میرے کام کے نہیں تھے۔“ کیمپ میں ایک دم خاموشی چھا گئی اور پھر قہقہوں کا ایک طوفان آگیا۔ سائمن کو سنجیدگی کے ساتھ شلجموں کے اوپر ہیٹ فٹ کرکر کے دیکھنے کا تصور ہی کس قدر مضحکہ خیز تھا۔ حتی کہ کسان بھی مسکرانے لگا۔
”خیر! میرا خیال ہے کہ اس بچے کا مقصد نقصان پہنچانا نہیں تھا مگر یہ بہرحال ایک احمقانہ حرکت تھی۔“ اس نے کہا اور سائمن کا منہ لٹک گیا، کیونکہ اس نے اپنے طور پر شلجموں کے کھیت میں اپنے دماغ کا بہترین استعمال کیا تھا۔
”میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا جناب کہ اس لڑکے کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ یہ سارے ٹوٹے ہوئے شلجم سمیٹ کر میرے گودام تک پہنچائے۔“
لہٰذا سائمن نے اگلا دن شلجم چن کر کھیت سے آدھا میل دور کسان کے گودام میں رکھنے میں گزرا۔ بے چارہ سائمن!! عقل کے استعمال کے لیے بھی عقل درکار ہوتی ہے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top