skip to Main Content
رسُولِ پاک ﷺ کے پیارے اخلاق

رسُولِ پاک ﷺ کے پیارے اخلاق

رسُولِ پاک ﷺ کے پیارے اخلاق

طالب ہاشمی

………………

اخلاق خُلْق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں عادت،خصلت۔عام طور پر اخلاق سے مراد کسی شخص کی عادتیں، خصلتیں اور اس کا چال چلن ہوتا ہے۔کسی شخص کی عادتوں خصلتوں اور بول چال ہی سے اس کے اخلاق کی برائی یااچھائی کا پتا چلتاہے۔اسلام میں اچھے اخلاق پر بڑا زور دیا گیا ہے۔قرآن شریف میں ان تمام عادتوں اور کاموں کا ذکر موجودہے جن کو اللہ اور رسولِ پاک ﷺ پسند کرتے ہیں اور ایسی عادتو ں اور کاموں کا ذکر بھی ہے جن کو اللہ اور رسول پاکﷺ نا پسند کرتے ہیں۔
ہمارے رسول پاک ﷺ کے اخلاق سب لوگوں سے اچھے تھے۔آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘
ایک مرتبہ کسی نے امت کی ماں حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول پاک ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟انہوں نے فرمایا’’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھاجو کچھ قرآن میں ہے۔وہی رسول پاک ﷺ کے اخلاق تھے۔‘‘خود اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں رسولِ پاکﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایاہے:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم 

ترجمہ:بے شک (اے رسولؐ)آپ اچھے اخلاق کے بڑے رتبے پر ہیں۔
اخلاق کی تعلیم کے دو طریقے ہیں۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کسی کو زبانی نصیحت کی جائے کہ فلاں کام اچھاہے اور فلاں برا۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نمونہ بن کراپنے آپ کولوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ہمارے رسول پاکﷺ نے دونوں طریقوں سے لوگوں کو اخلاق کی تعلیم دی ہے۔جو نصیحت زبانی کی خود اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایاہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہ  اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

ترجمہ:(اے مسلمانوں!) بے شک تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔
ہمارے رسول پاک ﷺ کی ذات میں تمام اچھی عادتیں،خوبیاں اور بھلائیاں جمع ہو گئی تھیں اور آپ ﷺ نے زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں سیدھا راستہ دکھایاہے۔آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اللہ کے فرماں برداراور شکر کرنے والے،نیکیوں میں پہل کرنے والے،ہر بھلائی میں آگے آگے،زبان کے سچے،وعدہ کے پکے،امانت ادا کرنے والے،ہر قسم کی مصیبت اور سختی صبر سے جھیلنے والے،اپنی ضرورت پردوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینے والے،اپنی زبان پر قابو رکھنے والے،بہت شرم اور حیا کرنے والے،غصہ آنے پر معاف کردینے والے،برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے والے،غریبوں مسکینوں یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنے والے،پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے والے،غرور اور فخر سے بچنے والے،بچوں سے پیار کرنے والے،اللہ کی خاطر رشتہ دار،وطن،گھربار،مال جائداد سب کچھ قربان کر دینے والے،مہمانوں کی عزت کرنے والے،علم سیکھنے کی تاکید کرنے والے،نیکی کی نصیحت کرنے والے اور برائی سے روکنے والے،نماز قائم کرنے والے،روزہ رکھنے والے،حج کرنے والے،زکوٰۃ دینے والے،اللہ کے ڈر سے رونے والے،میٹھی زبان والے اور دشمن کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے تھے۔
ان معاملات میں آپ ﷺ نے ہمیں جو نمومہ دکھایااس کی کچھ مثالیں اگلے صفحات میں پڑھیے۔

رسولِ پاک ﷺ وعدہ کے بہت پکے تھے

…………………………………………..

ہمارے رسولِ پاک ﷺ جب کسی سے کوئی وعدہ کر لیتے تھے تو اسے ہر حال میں پورا کرتے تھے اور صحابہؓ کو بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ اپنا وعدہ ہمیشہ پورا کیا کرو۔
نبُوت سے پہلے کا ذکر ہے کہ آپﷺ نے مکہ کے ایک شخص عبداللہ سے کوئی معاملہ کیا ۔جس جگہ یہ معماملہ طے ہوا ،عبد اللہ آپﷺ کو یہ کہ کر وہاں سے چلے گئے کہ آپﷺ یہیں ٹھہریے میں ابھی آ کر حساب کر دوں گا ۔آپﷺ نے ان سے وعدہ کرلیا کہ میں تمہارے واپس آنے تک یہیں ٹھہروں گا۔ادھر عبدا للہ کو اپنی بات کا دھیان نہ رہا ۔تین دن کے بعد خیا ل آیا تو دوڑے دوڑے اس جگہ پر پہنچے ۔جہاں آپﷺ کو چھوڑ گئے تھے۔دیکھا تو آپﷺ وہیں بیٹھے تھے۔عبدا للہ بہت شرمندہ ہوئے اور معافی مانگنے لگے ۔آپ نے فرمایا:’’ میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں اگر چہ تم نے مجھے تکلیف دی ہے لیکن میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘
بدر کی لڑائی کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔آپﷺ کو ایک ایک آدمی کی سخت ضرورت تھی۔لڑائی سے پہلے دو مسلمان حضرت حسیلؓ اور ان کے بیٹے حضرت حذیفہؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ ﷺ ہم مکہ سے آرہے تھے کہ راستے میں کافروں نے ہم کو پکڑ لیا اور پھر اس شرط پر رہا کیا کہ ہم لڑائی میں آپﷺ کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن یہ مجبوری کا عہد تھا ہم کافروں کے ساتھ ضرور لڑیں گے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’ہرگز نہیں تم اپنا وعدہ ضرور پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے چلے جاؤ ‘ہمیں صرف اللہ کی مدد چاہئے۔‘‘
صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکہ سے جوشخص مسلمان ہو کر آپﷺ کے پاس جائے گا ‘مکہ والوں کے مطالبہ پر اس کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ابھی آپﷺ حدیبیہ ہی میں تھے کہ ایک مسلمان ابو جندلؓ مکہ سے بھاگ کر وہا ں پہنچے۔کافروں نے مکہ میں ان کو قید کر رکاھ تھااور پاؤں میں بیڑیا ڈال رکھی تھیں۔وہ کسی طرح قید خانے سے نکل کر بیڑیوں سمیت اس حال میں آپﷺ کے پاس پہنچے کہ پنڈلیوں سے خون ٹپک رہا تھا ۔مسلمان ان کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ اٹھے اور ان کو اپنی پناہ میں لینے کے لئے بیتاب ہو گئے لیکن آپﷺ نے فرمایا:
’’اے ابو جندل! صبر کرو میں مکہ کے کافروں سے جو عہد کر چکا ہوں اس کو نہیں توڑوں گا‘جاؤ اللہ تمہارے لئے کوئی راستہ نکالے گا۔‘‘
حضرت ابو رافعؓ مشہور صحابی ہیں ۔جس زمانے میں وہ اسلام نہیں لائے تھے‘ قریشِ مکہ انہیں کوئی پیغام دے کر رسولِ پاک ﷺ کے پاس بھیجا وہ آپﷺ کو دیکھتے ہی اسلام کی طرف مائل ہو گئے اور آپﷺ کی خدمت میں عرض کی:’’یارسو ل اللہ ﷺ ! اب میں کافروں کے پاس واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’میں نہ عہد توڑتا ہوں اور نہ قاصدوں کو اپنے پاس روکتا ہوں۔اس وقت تم واپس جاؤ بعد میں چاہو تو آجانا۔‘‘
چناچہ حضرت ابو رافعؓ واپس چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد آپﷺ کی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔
جب آپﷺ نے مکہ کو فتح کیا تو بہت سے ایسے لوگ مکہ سے بھاگ آئے جنھوں نے آپﷺ کو بہت ستایا تھا۔ان بھگوڑوں کے رشتہ دار مسلمان ہو گئے،انھوں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ بھاگ جانے والوں کو معاف کردیں۔آپﷺ نے وعدہ کرلیا۔جب وہ لوگ واپس آئے تو آپﷺ نے وعدہ کے مطابق ان سب کو معاف کردیا۔
رسولِ پاک ﷺ بڑے امانت دار اور دیانت دار تھے

…………………………………………………….
ہمارے رسولِ پاک امانت اور دیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔دوست دشمن اپنے پرائے چھوٹے بڑے سب آپﷺ کی امانت داری اور دیانت داری کو مانتے تھے۔اور آپﷺ کے پاس روپیہ اور دوسری چیزیں امانت رکھتے تھے۔جب وہ مانگتے تو آپﷺ ہر شے پوری پوری واپس کر دیتے۔کاروبار میں آپ ﷺ انتہائی دیانت داری سے کام لیتے۔اس لئے آپﷺ کی تجارت خوب پھلتی پھولتی۔ہجرت کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علیؓ کواسی لئے پیچھے چھوڑ گئے کہ وہ تمام لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آئیں۔
ایک دفعہ رسولِ پاک ﷺ بازار گئے اور غلے کے ایک ڈھیر پر سے گزرے۔آپﷺ نے اس میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو انگلیں میں کچھ تری محسوس ہوئی۔آپﷺ نے غلے کے مالک سے پوچھا ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘اس نے کہا ’’یارسول اللہ!اس پر کچھ بارش ہو گئی تھی۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’اس بھیگے ہوئے غلے کو تو نے اوپرکیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے ،جو شخص کسی کو دھوکا دے وہ میرے طریقے پر نہیں ہے۔‘‘
ایک صحابی طارقؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے قبیلے کے چند لوگ مدینہ کھجوریں خریدنے گئے۔میں بھی ان میں شامل تھا۔ہم شہر سے باہر سستانے کے لئے ٹھہرگئے۔اتنے میں شہر سے ایک شخص آیا جس کے بدن پر دو پرانی چادریں تھیں۔اس نے سلام کے بعد ہم سے پوچھا کہ آپ لوگ کدھر سے آئے ہیں اور کدھر جائیں گے۔ہم نے جواب دیا کہ ہم ربذہ سے مدینہ کی کھجوریں خریدنے آئے ہیں۔ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا۔جس کو مہار ڈالی ہوئی تھی۔اس نے کہا’’یہ اونٹ بیچتے ہو۔‘‘ہم نے کہا ’’ہاں،کھجوروں کی اتنی مقدار لے کر ہم دے دیں گے۔اس شخص نے اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر کے اندر چلا گیا۔بعد میں ہمیں خیال آیا کہ ہم نے اپنا اونٹ ایک ایسے آدمی کو دے دیا جسے ہم جانتے تک نہیں،اب ہم اونٹ کی واپسی یا قیمت کی وصولی کے لئے کیا کریں۔ابھی ہم اسی فکر میں تھے کہ شہر سے ایک آدمی کھجوروں کی ایک بڑی مقدار لے کر آیا اور کہا’’مجھے رسولِ پاک ﷺ نے بھیجا ہے۔اپنے اونٹ کے برابر کھجوریں تول کر یا ناپ کر پوری کرلو،باقی تمہاری دعوت کے لئے ہیں کھاؤ پیو۔‘‘
ہم کھا پی کر شہر میں داخل ہوئے تو وہی پہلے صاحب مسجد کے منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے اور یہی رسولِ پاک ﷺ تھے۔
رسولِ پاک ﷺ لین دین میں بے حد کھرے تھے

…………………………………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ لیں دین کے معاملات میں بہت کھرے تھے۔آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض کو اچھی طرح سے ادا کرتے ہیں۔کوئی آدمی فوت ہو جاتا اور آپﷺ کو معلوم ہوتا کہ اس پر قرض تھا تو آپﷺ اس وقت تک اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھاتے جب تک اس کا قرض ادا نہ ہوجاتا۔
ایک مرتبہ آپﷺ نے کسی سے ایک پیالہ تھوڑی مدت کے لئے لیا۔اتفاق سے وہ گم ہوگیا۔آپﷺ نے اس نقصان کا معاوضہ اد ا فرمایا۔
ایک دفعہ آپﷺ کو ایک دیہاتی آدمی سے قرض لینے کی ضرورت پیش آگئی۔وہ اپنا قرض وصول کرنے آیا تو بڑی سخت باتیں کرنے لگا۔صحابہؓ نے اس کو ڈانٹا کہ تمیز سے بات کرو تم کو معلوم نہیں کس سے بات کر رہے ہو۔اس نے کہا،میں تو اپنا حق مانگتا ہوں۔آپﷺ نے فرمایا:اسے کچھ نہ کہو قرض خواہ کو بولنے کا حق ہے۔پھر آپﷺ نے نہ صرف اس کا قرض اد اکیا بلکہ اس سے زیادہ عطافرمایا۔
نبُوت سے پہلے آپﷺ تجارت کرتے تھے اور آپﷺ کا اکثر لوگوں سے لین دین رہتاتھا۔یہ سب کہتے تھے کہ رسولِ پاک کاروبار میں بے حد کھرے تھے۔عرب کے ایک تاجر سائبؓ اسلام لانے کے بعد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔لوگوں نے ان کے اخلاق اور دیانت کی تعریف کرتے ہوئے آپﷺ سے ان کا تعارف کرایا۔آپﷺ نے فرمایا:’’میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔‘‘
سائبؓ نے عرض کی’’یارسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپﷺ کاروبار میں میرے ساجھی ہوا کرتے تھے اور اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔‘‘
ایک لڑائی کے موقع پر رسولِ پاک ﷺ جابر بن عبداللہ انصاری کے اونٹ پر ان کے ساتھ سوار ہو گئے۔یہ اونٹ سست رفتار تھا۔تھک کر اور بھی سست ہو گیا۔آپﷺ نے جابر سے یہ اونٹ خرید لیا اور پھر یہ فرماکر واپس کر دیا کہ اونٹ اور اس کے دام دونوں تمہارے ہیں(اونٹ کو میری طرف سے تحفہ سمجھو)۔
رسولِ پاک ﷺ بہت رحم دل تھے

…………………………………..
اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسولِ پاک ﷺ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔اس لئے آپﷺ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر رحم دل تھے۔آپﷺ دوست،دشمن ،بورھے،بچے،مرد،عورت،جانور،کافر اور مسلمان ہر ایک پر رحم کرتے تھے۔کسی کو مصیبت میں دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آ تا تھااور آپﷺ اس کا دکھ دور کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ایک دفعہ کسی شخص نے آپﷺ سے کسی کے لئے بد دعا کرنے کی درخواست کی۔آپﷺ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’میں دنیا میں لعنت کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
آپﷺ سے پہلے عرب اور دنیا کی دوسری قومیں لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں سے بہت برا سلوک کرتی تھیں۔آپﷺ نے حکم دیا کہ ان لوگوں سے بہت اچھا سلوک کیا جائے۔بد ر کی لڑائی میں مسلمانوں نے کافروں کے جولوگ پکڑے،ان کے بارے میں آپﷺ نے صحابہؓ کوتاکید کی کہ ان کو کھانے پینے کی تکلیف نہ ہونے پائے۔چنانچہ صحابہؓ خود بھوکے رہتے یا کھجوریں کھا کر گزر کرلیتے تھے لیکن قیدیوں کو اچھے سے اچھا کھانا کھلاتے تھے۔ان قیدیوں کے ہاتھ پاؤں رسی میں جکڑ کر باندھ دئے گئے تھے اور وہ درد سے بار بار کراہتے تھے۔ادھر آپﷺ ان کی کراہیں سن کر بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔لوگ سمجھ گئے کہ آپﷺ کو قیدیوں کی تکلیف کی وجہ سے نیند نہیں آرہی۔انھوں نے گرہیں ڈھیلی کردیں تو آپﷺ کی بے چینی بھی دور ہو گئی۔
حنین کی لڑائی میں چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔آپﷺ نے نہ صرف ان کو آزاد کردیا بلکہ ان کے پہننے کے لئے کپڑے بھی دیئے۔
ایک دفعہ ایک بدو آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپﷺ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔بدو کو معلوم نہیں تھا کہ مسجد پاک جگہ ہوتی ہے۔وہ مسجد ہی میں ایک طرف کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔لوگ اس کو مارنے کے لئے دوڑے۔آپﷺ نے فرمایا:
’’جانے دو اور پانی کا ایک ڈول لا کر بہا دو۔‘‘
ایک سفر میں مشہور منافق عبدا للہ بن ابی نے آپﷺ کی شان میں بہت بری باتیں کیں۔صحابہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ اس شخص کو قتل کرادیں۔لیکن آپﷺ نے فرمایا :نہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے کسی ساتھی کو قتل کراؤں۔عبدا للہ کے مسلمان بیٹے نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہا تو آپﷺ نے انھیں حکم دیا کہ اپنے باپ کا راستہ نہ روکو اور اس کو شہر میں داخل ہونے دو۔
ایک دفعہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے مکہ میں سخت قحط پڑگیا۔لوگوں نے ہڈیاں اور مردہ جانور تک کھانے شروع کر دیے۔ابو سفیان جو اس زمانے میں مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ،آپﷺ کے پا س آئے اور کہا:’’اے محمد! تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے تم اپنے خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے۔‘‘
اگرچہ مکہ کے کافروں نے آپﷺ کو بہت ستایا تھا اور بہت سکھ دیے تھے لیکن آپﷺ کو ان پر رحم آگیا اور آپ نے بڑی عاجزی سے بارش کے لئے دیا کی۔اللہ نے آپﷺ کی دعا قبول کرلی اور اتنا مینہ برسایا کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا اور قحط دور ہو گیا۔
حدیبیہ کے میدان میں آپﷺ صحابہؓ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ قریب کے پہاڑ سے اسی آدمی مسلمانوں پرحملہ کرنے کے ارادے سے اترے۔مسلمانوں کے پہرے دار ہوشیا ر تھے۔انھوں نے ان سب کو گرفتار کرلیا ۔صحابہؓ ان سب کو قتل کرناچاہتے تھے۔لیکن آپﷺ کو ان پر رحم آگیا اور آپﷺ نے ان سب کو آزاد کردیا۔
مکہ میں غلہ پیدا نہیں ہوتا تھا اور وہاں کے لوگ نجد سے غلہ منگوایا کرتے تھے۔نجد کے رئیس ثمامہؓ مسلمان ہوئے تو انھوں نے فیصلہ کیاکہ رسولِ پاک ﷺ کی اجازت کے بغیر غلہ کا ایک دانہ بھی مکہ نہیں جائے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش مکہ بھو کوں مرنے لگے۔آخر انھوں نے آپﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اناج کے ایک ایک دانہ کو ترس رہے ہیں،آپﷺ ثمامہ کو غلہ بھیجنے کی اجازت دیں۔
مکہ کے کافر آپﷺ کے دشمن تھے لیکن آپﷺ کو ان پر رحم آگیا اور آپﷺ نے ثمامہؓ کو پیغام بھیجا کہ اب لوگوں پر رحم کرو اور ان کو غلّہ بھیجا کرو۔
رسولِ پاک ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔
غلاموں اور خادموں پر رحم

………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے غلام اور خادم تمہارے بھائی ہیں۔اللہ نے ان کو تمہارے ما تحت کردیا ہے۔ہر مسلمان کو چاہئے کہ جو کھانا خود کھائے ،اپنے غلام اور خادم کو بھی وہی کھانا کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے اس کو بھی وہی پہنائے اور اس سے ایسی مشقّت نہ لے جو اس کی طاقت سے بڑھ کر ہو اور اگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لے تو اس کی مدد کرے۔
ایک مرتب ہ حضرت ابو مسعودانصاریؓ اپنے غلام کو کسی قصور کی وجہ سے پیٹ رہے تھے۔اتفاق سے رسولِ پاک ﷺ وہاں تشریف لے آئے۔آپﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا:
’’ابو مسعودؓ اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے،اللہ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔‘‘
حضرت ابو مسعودؓ کانپ اٹھے اور عرض کی’’اے اللہ کے رسولﷺ میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تم کو چھو لیتی۔‘‘
ایک دفعہ رسولِ پاک ﷺ نے دیکھا کہ ایک غلام آٹا پیس رہا ہے اور ساتھ ہی درد سے کراہ رہاہے۔آپﷺ اس کے قریب گئے تو معلوم ہواکہ وہ بیمار ہے لیکن اس کا ظالم آقا چھٹی نہیں دیتا۔آپﷺ نے اس کو آرام سے لٹا دیا اور ساراآ ٹا خود پیس دیا۔پھر فرمایا :’’جب تم کو آٹا پیسنا ہو مجھے بلا لیا کرو۔‘‘
مکہ میں ایک بوڑھے غلام کو اس کے آقا نے باغ میں پانی دینے کا کام سونپ رکھا تھا۔غلام کو بہت دور سے پانی لانا پڑتا تھا اور اس کام میں وہ سخت تھک جاتا تھا۔آپﷺ نے ایک دن دیکھا کہ وہ بڑی مشکل سے پانی لارہا ہے او ر اس کے پاؤں کانپ رہے ہیں۔آپﷺ کا دل بھر آیا۔بوڑھے کو آرام سے بٹھایا اور اس کا سارا کام خود کردیا۔پھر فرمایا:
’’بھائی جب تمہیں میرے مدد کی ضرورت پڑے مجھے بلا لیا کرو۔‘‘
آپﷺ کے خادم حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس آپﷺ کی خدمت کی۔اس سارے عرصے میں آپ ﷺ نے نہ مجھے کبھی جھڑکا اور نہ مارا اور نہ یہ پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہ کیا۔
جانوروں پر رحم

………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ بے زبان جانوروں پر بھی بہت مہربان تھے اور ان پر کسی قسم کا ظلم یا سختی ہوتے نہیں سیکھ سکتے تھے۔
ایک دفعہ ایک صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے۔آپﷺ نے پوچھا،یہ بچے کیسے ہیں ؟صحابی نے عرض کیا،اے اللہ کے رسولﷺ میں ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو ان بچوں کی آواز سنی۔میں ان کو جھاڑی سے نکال لایا،ان کی ماں نے دیکھا تو بے قرار ہو کر میرے سر پر چکر لگانے لگی۔آپﷺ نے فرمایا:
فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے لائے ہو۔‘‘
ایک دفعہ آپﷺ سفر میں تھے۔راستے میں ایک جگہ ٹھہرے تو ایک شخص نے چڑیا کے گھونسلے سے اس کا انڈہ اٹھالیا۔چڑیا بیقرار ہو کر ان کے سر پر منڈلانے لگی۔آپﷺ نے پوچھا:’’کس نے اس چڑیا کا انڈہ اٹھا کر اس کو تکلیف پہنچائی۔‘‘
وہ شخص بولے ’’یارسول اللہ میں نے انڈہ اٹھا یاہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’ یہ انڈہ وہیں رکھ دو۔‘‘
ایک د فعہ آپﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔وہا ں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا اور اس کا پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔آپﷺ سے بڑی شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فر مایا:
’’اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے؟‘‘
ایک دفعہ آپﷺ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔راستے میں ایک اونٹ پر نظرپڑی جو بھوک کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا۔آپﷺ کو بہت سکھ ہوا اور آپﷺ نے فرمایا:
لوگوں !ان بے زبانوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔‘‘
ایک دفعہ آپﷺ نے ایک عرب کو دیکھا جو اونٹ کو تیز چلا رہا تھا۔اونٹ بیمار تھا اور اس پر بھاری بوجھ لدا ہوا تھا لیکن اس کا مالک اس کو بار بار چابک مارتاتھا۔آﷺ نے اس سے فرمایا:
’’اپنے جانوروں پر رحم کیا کرو یہ اونٹ بیمار اور کمزور ہے اس پر ظلم مت کرو۔‘‘
عورتوں پر رحم اور شفقت

………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے عورتوں کو بہت ذلیل سمجھا جاتا تھا۔لیکن آپﷺ نے ان پر بہت احسان فرمایا۔ان کے حقوق مقرر فرمائے اور اپنے برتاؤ سے ظاہر فرمایا کہ عورتیں حقیر نہیں بلکہ عزت اور ہمدردی کے لائق ہیں۔آپﷺ کے پاس ہر وقت مردوں کا مجمع رہتا تھا ۔عورتوں کو آپﷺ کی پیاری باتیں سننے کا موقع نہ ملتا اس لئے آپﷺ نے عورتوں کے لئے ایک خاص دن مقرر فرما دیا تھا ۔وہ آپﷺ سے ہر قسم کے مسئلے پوچھتیں ،آپﷺ بڑی شفقت سے ان کے جواب دیتے ور ان کی خاطر داری کا خیال رکھتے تھے۔
عرب میں بعض ظالم لوگ اپنی بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔آپﷺ نے اس کو سخت گناہ قرار دیا اور اس ظلم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا ۔اس کے بجائے آپﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ جو شخص اپنی بیٹی یابیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرے گا اور ان کو اچھی تربیت دے گا،اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔آپﷺ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے اس لئے ماں کی عزت اور خدمت کرو۔
آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے۔
آپﷺ گھر پر ہوں یا سفر میں عورتوں کے آرام کا بہت خیال رکھتے تھے اور صحابہؓسے فرمایا کرتے تھے کہ عورتوں کا خیال رکھو،ان کے حقوق پورے کرو اور ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔
ایک سفر میں چند اونٹوں پر عورتیں سوار تھیں۔انجشہ نام کے ایک حبشی غلام ان کے ساربان تھے۔وہ کوئی گیت گانے لگے جس سے اونٹ تیز چلنے لگے۔
آپﷺ نے فرمایا:’’انجشہ دیکھنا کانچ کے شیشوں کو توڑ نہ دینا۔‘‘
آپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ کہیں اونٹوں کے تیز چلنے سے عورتوں کو تکلیف نہ ہو۔
سفر میں آپﷺ کے ساتھ اگر آپﷺ کی پاک بیویاں ہوتیں تو آپﷺ ان کو اونٹ پر اس طرح سوار کراتے کہ اپنا گھٹنا آگے بڑھا دیتے اور وہ اپنا پاؤں اس پر رکھ کر اونٹ پر چڑھتیں۔
ایک دفعہ اونٹنی پر آپﷺ کے ساتھ بی بی صفیہ بھی سوار تھیں ۔اونٹنی کا پاؤں پھسل گیا۔آپﷺ اوربی بی صفیہ دونوں گر پڑے۔ایک صحابی حضرت ابو طلحہ قریب تھے وہ دوڑتے ہوئے آئے اور آپﷺ کو اٹھانے لگے۔آپﷺ نے فرمایا:’’پہلے عورت کی خبر لو۔‘‘
آپﷺ اپنے گھر میں ہوتے تو گھر کے کام کاج میں بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے جب اذان سنتے تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
رسولِ پاک ﷺ غریبوں کے بڑے ہمدرد تھے۔

………………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ کو غریبوں اور مسکینوں سے بڑی محبت تھے۔آپﷺ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔ان سے ایسا برتاؤ کرتے کہ ان کو اپنی غریبی محسوس نہ ہوتی تھی۔آپﷺ ان کی مدد فرماتے اور ان کی دلجوئی کرتے ۔آپ ﷺ دعا مانگا کرتے تھے کہ خدایا مجھے مسکین زندہ رکھ ،مسکین اٹھا اور مسکینوں کے ساتھ حشر کر۔
اگر کوئی غریب قرض ادا نہ کر سکتا تو آپﷺ اس کا قرض ادا کردیتے تھے۔کوئی بھوکا ہوتا تو اس کو کھانا کھلاتے تھے۔کسی کو روپے یا اناج کی ضرورت ہوتی تو اس کی ضرورت پوری کردیتے تھے۔کسی کے پاس پہننے کے لئے کپڑے نہ ہوتے تو اس کو کپڑے دیتے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے کہ کوئی مسلمان قرض چھوڑ کر مر جائے تو مجھے اطلاع دو میں اس کا قرض ادا کروں گااور جو سامان اور جائیداد وہ چھوڑ جائے وہ وارثوں کا حق ہے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ۔ 
آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی یہ حالت تھی کہ گھر کا کام کاج کرتے اور چکی پیستے پیستے ان کی ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اور مشک میں پانی بھر کر لانے سے سینے پر نیلے داغ پڑ گئے تھے۔
ایک دفعہ انھوں نے آپﷺ کے خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ مجھے کوئی خادمہ دی جائے ۔آپﷺ نے فرمایا:
’’بیٹی صُفہ کے غریبوں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا اس لئے میں تمہاری درخواست کیسے قبول کروں۔‘‘
ایک دفعہ ایک پوراقبیلہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ کسی کے بدن پر ڈھنگ کا کپڑا نہ تھا سب ننگے بدن اور ننگے پاؤں تھے۔ان کو دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آیا ۔پریشانی میں گھر کے اندر گئے۔پھر باہر تشریف لائے ۔اس کے بعد سب مسلمانوں کو جمع کر کے ان لوگوں کی امداد کے لئے فرمایا۔ہر مسلمان نے اپنی طاقت کے مطابق ان کی مدد کی تو آپﷺ بہت خوش ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ یتیموں کے سر پرست تھے۔

………………………………………………
ہمارے رسول پاک ﷺ یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔خود بھی ان کی مدد اور سر پرستی فرماتے اور دوسروں کو بھی تاکید کرتے رہتے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ اس گھر کو بہت پسند کرتا ہے جس میں یتیم کی عزت کی جاتی ہے۔جو شخص یتیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
۱۔حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میرا دل بہت سخت ہے۔آپﷺ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیراکر اور مسکین کو کھانا کھلایا کر۔
۲۔ایک مرتبہ ایک یتیم لڑکا پھٹے پرانے کپڑے پہنے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:’’اے عبدالمُطّلب کے فرزند ،میرے باپ کے مرنے کے بعد ابو جہل نے اس کے مال پر قبضہ کرلیا اور اب وہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں دیتا یہاں تک کہ بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کا بھی محتاج ہوں۔‘‘
آپﷺ یتیم بچے کا حال سن کر اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور بچے کا ہاتھ پکڑ کر سیدھے ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے۔پھر بڑے دبدبے کے ساتھ فرمایا:’’اس بچے کا حق اس کو دے دو۔‘‘اُس پر آپﷺ کا ایسا رعب پڑا کہ کانپ اٹھا اور اسی وقت بچے کا مال لاکر اس کو دے دیا۔
۳۔ایک مرتبہ آپﷺ عید کے دن کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ سخت مغموم بیٹھا تھا۔آپﷺ نے اس بچے سے پوچھا:’’بیٹے کیا بات ہے تم مغموم کیوں بیٹھے ہو اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے کیوں نہیں۔‘‘
بچے نے جواب دیا:’’میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور ماں نے دوسری شادی کر لی ہے،اب میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ محمد ﷺ تمہارا باپ ہو اور عائشہؓ تمہاری ماں ہو۔‘‘بچہ خوش ہو گیا اورآپﷺ نے اس کو اپنی سر پرستی میں لے لیا۔
۴۔حضرت سعدؓ بن زُرارہ انصاری فوت ہونے لگے تو انھوں نے وصیت کی کہ میں دو چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ چلا ہوں۔میرے بعد ان کے سر پرست رسولِ پاک ﷺ ہوں گے۔
آپﷺ نے ہمیشہ ان یتیم بچیوں کا بڑا خیال رکھا۔جب وہ بڑی ہوئیں تو آپ نے اپنے پاس سے اس کو سونے کے زیور پہنائے اور ان کی شادی کردی۔اسی طرح آپﷺ نے اور بھی بہت سے یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش اور تربیت کی۔
رسولِ پاک ﷺ بے سہاروں کا سہارا تھے

………………………………………….
جن بے کس لوگوں کا کوئی سہارا نہیں اہوتا تھا ،ہمارے رسولِ پاک ﷺ ان کے سہارا بن جاتے تھے اور ہر طریقے سے ان کی مدد کرتے تھے۔
ایک دن آپﷺ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اجنبی آدمی نے آکر فریاد کی:
’’اے قریش کے لوگوں!تم باہر سے آنے والے مسافر کو لوٹ لیتے ہو۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’میں تین بہت عمدہ اونٹ بیچنے کے لئے لایا تھا،ابو جہل ان کو بہت کم قیمت پر خریدنا چاہتا تھا اور کسی دوسرے کو اس سے زیادہ قیمت لگانے نہیں دیتا۔‘‘
آپﷺ نے پوچھا:’’تم ان اونٹوں کی کیا قیمت لینا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے قیمت بتائی آپﷺ نے اتنی رقم دے کر اس سے خود اونٹ خرید لئے۔ابو جہل وہیں موجود تھا۔آپﷺ نے اس سے فرمایا:’’تم نے اس غریب دیہاتی سے جو حرکت کی ہے آیندہ ایسی حرکت کی تو تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا۔‘‘
ابو جہل پر آپﷺ کا ایسا رعب پڑا کہ اس کے منہ سے یہی نکلا ’’نہیں آیندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
ایک دفعہ ایک عورت مکہ کی ایک گلی سے گزر رہی تھی۔اس کے سر پر اتنا بھاری بوجھ تھا کہ مشکل سے قدم اٹھا سکتی تھی۔لوگ ہنسی اڑانے لگے۔رسولِ پاک ﷺ قریب ہی تھے۔آپﷺ اس عورت کو مشکل میں دیکھ کر فوراً آگے بڑھے اور اس کا بوجھ خود اٹھا کر اس کی منزل پر پہنچا دیا۔
ایک دن رسولِ پاک ﷺ ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک اندھی عورت ٹھوکر کھا کر گر پڑی۔لوگ اسے گرتے دیکھ ہنسنے لگے لیکن آپﷺ کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے۔آ پ نےﷺ اس عورت کو اٹھایا اور اس کے گھر پہنچا دیا۔اس کے بعد آپ روزانہ اس عورت کے گھر کھانا دے جاتے۔
مدینہ میں ایک پاگل عورت تھی۔ایک دن آپﷺ کے پاس آئی او ر آپ ﷺسے کہا :’’محمدﷺ!میرے ساتھ چلو اور میرا فلاں کام کردو۔‘‘آپﷺ نے فرمایا جہاں کہو وہاں جاؤں گا‘‘پھر آپﷺ اس کے ساتھ گئے اور اس کا کام کر کے واپس آئے۔
رسولِ پاک ﷺ بیماروں کی خبر گیری کرتے تھے

………………………………………………
بیماروں کی خبر گیری کو عیادت کہتے ہیں۔ہمارے ررسولِ پاک ﷺ بیماروں کی عیادت کا بہت خیال رکھتے تھے اور نہ صرف یہ کہ اپنوں کی عیادت کرتے تھے بلکہ کافروں تک کی بیمار پُرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔
ایک دفعہ آپ کا ایک یہودی خادم سخت بیمار ہو گیا۔آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور دیر تک اس کے سرہانے بیٹھ کر تسلی دیتے رہے آپﷺ کے اخلاق کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ مسلمان ہو گیا۔
ایک دفعہ مشہور صحابی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص سخت بیمار ہو گئے۔آپﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ رسولِ پاک ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے دل میں محسوس کی۔پھر آپﷺ نے میری صحت کے لئے تین مرتبہ دعا مانگی اور میں تندرست ہو گیا۔ایک مرتبہ قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار ہوئے۔آپﷺ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ان کی حالت دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔آپﷺ نے ان کی صحت کے دعا مانگی۔اللہ نے جلد ہی ان کی بیماری دور کردی۔
ایک دفعہ حضرت جابرؓ بن عبداللہ انصاریؓ بیمار ہو گئے۔ان کا گھر کافی فاصلے پر تھا لیکن آپﷺ ان کی بیمارپرسی کے لئے کئی بار پیدل تشریف لے گئے۔
ایک دن آپﷺ حضرت جابرؓ کے گھر پر پہنچے تو ان کو بے ہوش پایا۔آپﷺ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو ان کو ہوش آگیا۔

رسول پاک ﷺ لوگوں کے غم میں شریک ہوتے تھے

………………………………………………………..

کوئی شخص مر جائے تو اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے غم میں شریک ہونے کو تعزیت کہتے ہیں۔ہمارے رسولِ پاکﷺ کسی کی موت کی خبر سنتے تو آپﷺ تعزیت کے لئے اس کے گھر تشریف لے جاتے۔گھر والوں کو تسلی دیتے اور صبر کی تلقین فرماتے۔مرنے والا مسلمان ہوتا تو آپﷺ اس کے جنازے میں بھی شریک ہوتے۔
آپﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفرؓ بن ابی طالب موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تو آپﷺ کو بہت غم ہوا۔آپﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ان کی بیوی حضرت اسماءؓ بنت عمیس کو تسلی دی اور ان کے بچوں کو گلے لگا کر پیار کیا۔پھر اپنے گھر والوں سے فرمایاکہ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا پکاؤ کیونکہ وہ غم میں مصروف ہیں۔
ایک صحابی بیمار ہو ئے۔آپﷺ ان کی عیادت کے لئے کئی بار تشریف لے گئے۔وہ رات کے وقت فوت ہو گئے۔لوگوں نے انھیں رات ہی کود فن کر دیا اور آپﷺ کو اس خیال سے اطلاع نہ دی کہ آپﷺ کو تکلیف ہو گی۔صبح جب آپﷺ کو اطلاع ملی تو آپﷺ نے شکایت کی کہ تم نے مجھے کیوں خبر نہ کی۔پھر ان کی قبر پر جاکر نمازِ جنازہ پڑھی۔
حضرت ابو سلمہؓ بن عبدا لاسد فوت ہوئے تو آپﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے اور دیر تک ان کی بیوی بچوں کو تسلی دیتے رہے۔
بدر کی لڑائی سے پہلے حضرت سعدؓ بن زُرارہ انصاری فوت ہو گئے۔آپﷺ کو خبر ملی تو بہت رنج ہوا۔ان کے گھر تشریف لے گئے۔رشتہ داروں کو تسلی دی اور فرمایا کہ قضا کا کوئی علاج نہیں۔حضرت سعدؓ نے دو بچیاں چھوڑ ی تھیں ۔آپﷺ نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا اور دونوں کو سونے کی بالیاں جن میں موتی پڑے ہوئے تھے ،پہنائیں۔
رسولِ پاک ﷺ مہمانوں کی بہت عزت کرتے تھے

………………………………………………….
ہمارے رسولِ پاک ﷺ مہمانوں کی بہت عزت کرتے تھے اور خود بھوکے رہ کر مہمانوں کو کھانا کھلاتے اور ہر طرح سے خدمت کرتے تھے۔اس میں کافر اور مسلمان کی کوئی تمیز نہ تھی۔کوئی بھی مہمان آتا آپﷺ اس کو بغیر کھلائے پلائے نہ جانے دیتے تھے۔
ایک دفعہ ایک کافر آپﷺ کے پاس مہمان ٹھہرا ۔آپﷺ نے اسے ایک بکری کا دودھ پلایا ۔اس سے اس کا پیٹ نہ بھرا۔پھر آپﷺ نے دوسری بکری کا دودھ پلایاوہ بھی کافی نہ ہوا۔پھر آپﷺ نے تیسری ،چوتھی یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پلایا تب کہیں جاکر وہ سیر ہوا۔اس سارے عرصے میں آپﷺ خوش خوش رہے نہ آپ ﷺ کی پیشانی پر شکن آئی اور نہ حیرت کا کوئی لفظ آپﷺ کی زبان سے نکلا۔
ایک مرتبہ قبیلۂ غِفار کا ایک شخص آپﷺ کا مہمان ہوا۔رات کو کھانے کے لئے آپﷺ کے پاس بکری کا تھوڑا سا دودھ تھا۔آپﷺ نے یہ سارا دودھ مہمان کو پِلایا اور خود رات فاقہ سے گزاری۔
جو لوگ آپﷺ سے ملاقات کرنے یا اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ آتے آپﷺ ان کی بہت عزت اور خاطر تواضع کرتے۔ہجرت کے نویں سال نجران سے ساٹھ عیسائی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپﷺ نے ان کو مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا اور اپنے طریقے پر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دے دی۔آپﷺ نے ان لوگوں کی خود مہمان داری کی۔
ایک دفعہ ایک کافر آپﷺ کا مہمان بنا۔رات کو اس نے اتنا کھانا کھا لیا کہ پیٹ میں گڑ بڑ ہو گئی اور نیند کی حالت میں بستر ہی میں اس کا پاخانہ نکل گیا۔صبح کو شرمندگی کے باعث آپﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی اٹھ کر چلا گیا۔راستہ میں یاد آ یا کہ جلد ی میں تلوار وہیں چھوڑ آیا ہوں۔تلوار لینے کے لیے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رسولِ پاک ﷺ خود ہی بستر دھو رہے ہیں۔صحابہؓ عرض کرتے ہیں یارسول اللہ ﷺ ہم یہ کام کر لیں گے۔لیکن آپﷺ فرماتے ہیں:’’نہیں نہیں وہ شخص میرا مہمان تھا اس لئے یہ کام میں خود ہی کروں گا۔‘‘پھر آپﷺ کی نظریں اس شخص پر پڑی تو آپﷺ نے بڑی محبت سے فرمایا:’’بھائی تم اپنی تلوار یہیں بھول گئے تھے اسے لے جاؤ۔‘‘اس کے دل پر آپﷺ کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ اسی وقت مسلمان ہو گیا۔
رسولِ پاک ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو مانتا ہے اس کو چاہئے کہ مہمان کی عزت کرے۔اپنے مکان میں اتارے ،عمدہ کھانا ہو سکے تو کھلائے،اس کا حال اچھی طرح سے پوچھے،مہمان داری کا تین دن تک حق ہے،اس سے زیادہ کرے تو ثواب ہو گا۔ 
رسولِ پاک ﷺ لوگوں کی خدمت کر کے خوش ہو تے تھے

…………………………………………………………..
رسولِ پاک ﷺ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔اپنا ہو یا بیگانہ،مسلمان ہو یا کفر،آقا ہو یا غلام،آپﷺ ہر ایک کے کام آتے تھے اور ان کے ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی کر دیتے تھے۔مکہ میں آپﷺ ہر روز غریب اور بے سہارا عورتوں کا سودا سلف خود خرید کر اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر ان کے گھروں پر پہنچا دیتے تھے۔ایک دن ابوسفیا ن نے حقارت سے کہا:
’’تم نے غریب اور کمینے لوگوں کا سامان اٹھا اٹھا کر اپنے خاندان کا نام بدنام کر دیا ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’میں ہاشم کا پوتاہوں جو غریبوں اور امیروں سب کی مدد کرتا تھا اور اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو حقیر نہیں جانتا تھا۔‘‘
ایک دفعہ آپﷺ کے ایک صحابی حضرت خبابؓ بن ارت مدینہ سے دور ایک لڑائی پر گئے۔ان کے گھر میں کوئی مرد نہ تھا اور عورتیں جانور کا دودھ دوہنا نہیں جانتی تھیں۔آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ ہر روز حضرت خبابؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے جانور وں کا دودھ دوہ دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ آپﷺ نماز کے لئے کھڑے ہو چکے تھے کہ ایک بدو آپﷺ کا دامن پکڑ کر بولا:’’میر ا ذرا سا کام رہ گیا ہے ایسا نہ ہومیں بھول جاؤں پہلے اس کو کردو۔‘‘
آپﷺ اس کے ساتھ فوراً مسجد سے نکل آئے اور اس کا کام پورا کرکے نماز ادا کی۔
مدینہ منورہ کی لونڈیاں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور عرض کرتیں:’’یا رسول اللہ ﷺ میرا فلاں کام ہے۔‘‘
آپﷺ اپنا کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ساتھ جاکر ان کا کام کردیتے۔
غرض آپﷺ ہر ایک کی خدمت کر کے خوش ہوتے تھے۔
رسولِ پاک ﷺ بڑے سخی تھے

…………………………………
اپنے مال کو دوسروں کی بھلائی کے لئے دل کھول کر خرچ کر نا سخاوت ہے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاکﷺ سب سے بڑے سخی دل والے تھے۔
آپﷺ نے تمام عمر کسی مانگنے والے کو نہ جھڑکا بلکہ کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کیا۔اگر آپﷺ کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو قرض لے کر مانگنے والے کی ضرورت پوری کردیتے یا اس سے کہہ دیتے کہ تم میرا نام لے کر فلاں سے قرض لے لو میں ادا کر دوں گا۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسولِ پاک سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپﷺ نے فرمایا ہو،میں نہیں دیتا۔
ایک دفعہ ایک شخص نے آپﷺ کی بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ دو پہاڑوں کے درمیان چرتے دیکھا۔اس نے درخواست کی کہ اے محمدؐ! یہ تمام بکریاں مجھے دے دیں۔آپﷺ نے اسی وقت وہ سب بکریاں اس کو دے دیں۔یہ سخاوت دیکھ کر وہ شخص اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا۔
ایک دن رسولِ پاکﷺ کے پاس چھ اشرفیاں تھیں۔چار تو آپﷺ نے خرچ کر دیں اور دو بچ رہیں۔اس وجہ سے تمام رات آپﷺ کو نیند نہ آئی۔بی بی عائشہ صدیقہؓ نے عرض کیا،معمولی بات ہے صبح ان کو بھی خیرات کر دیجئے گا۔
آپﷺ نے فرما یا’’کیا خبر میں صبح تک زندہ رہوں گا یا نہیں۔‘‘
ایک دفعہ رسولِ پاک ﷺ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد عادت کے خلاف فوراً گھر تشریف لے گئے اور پھر فوراً واپس تشریف لے آئے۔صحابہؓ اس پر حیران ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا:’’گھر میں کچھ سونا پڑا تھا مجھے خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ رات کو بھی گھر میں پڑا رہے۔میں گھر والوں سے یہ کہنے گیا تھا کہ اسے رات ہونے سے پہلے خدا کی راہ میں دے دیں۔
ایک بار نوے ہزار درہم آئے۔آپﷺ نے ان کو ضرورت مندوں اور مانگنے والوں میں بانٹنا شروع کردیا۔یہاں تک کہ سب ختم ہو گئے۔پھر ایک مانگنے والا آگیا۔آپﷺ نے فرمایا کہ ا ب میرے پاس کچھ نہیں رہا لیکن تم میرے نام پر قرض لے لو میں ادا کردوں گا۔حضرت عمر فاروقؓ بھی وہاں موجود تھے۔انھوں نے عرض کیا،رسول اللہ ﷺ خدا کسی کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔آپﷺ خاموش ہو گئے۔اس پر ایک انصاری نے کہا’’یا رسول اللہﷺ آپ بے دریغ خرچ کریں۔اللہ مالک ہے وہ آپ کو محتاج نہ کرے گا۔‘‘آپﷺ یہ سن کر خوش ہوگئے اور فرمایاکہ ہاں مجھے ایسا ہی حکم ہے۔
ایک دفعہ بحرین کے علاقے سے بہت بڑی رقم آئی۔آپﷺ نے اس کو مسجد کے صحن میں رکھوا دیااور نماز سے فارغ ہو کر اسے تقسیم کرنا شروع کردیا۔جو آتا اسے کچھ عنایت فرماتے یہاں تک کہ باقی کچھ نہ رہااور آپﷺ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
ایثار

…..
ایثار کا درجہ سخاوت سے بڑھ کر ہے۔سخاوت یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے اور ایثار یہ ہے کہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت سے بڑھ کر سمجھا جائے اور اس میں خواہ اپنا نقصان ہو جائے لیکن اللہ کو راضی کرنے کے لئے اس کی پرواہ نہ کی جائے۔
ہمارے رسولِ پاک ﷺ سب سے بڑھ کر ایثار کرنے والے تھے۔ایک دن قبیلہ بنو غفار کا ایک شخص آپﷺ کے ہاں مہمان ٹھہرا ۔اس دن رات کے کھانے کے لئے آپﷺ کے گھر میں صرف بکری کا دودھ تھا۔آپﷺ نے سارا دودھ مہمان کو پلا دیا اور خود فاقہ کیا حالانکہ اس سے پہلے رات بھی آپﷺ فاقہ سے تھے۔
ایک دفعہ ایک خاتون نے آپﷺ کی خدمت میں چادر پیش کی۔آپﷺ کو چادر کی ضرورت تھی۔آپﷺ نے لے لی۔ایک صحابی نے اسی وقت چادر کے لئے اپنی ضرورت بتائی۔آپﷺ نے فوراًچادر ان کو دے دی۔ایک غریب صحابی نے شادی کی۔ولیمہ کی دعوت کے لئے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺنے اپنے گھر سے آٹے کی بوری منگوا کر ان کو ولیمہ کے لئے دے دی۔حالانکہ اس دن اس آٹے کے سوا آپﷺ کے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔
ایک صحابی نے فوت ہوتے وقت وصیت کی کہ میرے سات باغ رسول اللہ ﷺ کو دے دیے جائیں۔ یہ تین ہجری کا واقعہ ہے ۔اس زمانے میں آپﷺ کو مال کی سخت ضرورت تھی۔لیکن آپﷺ نے ساتوں باغوں کی آمدنی خدا کی راہ میں وقف کردی۔جو کچھ حاصل ہوتا آپﷺ ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہ رکھتے تھے اور سب غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردیتے تھے۔
رسولِ پاک ﷺ بڑے شرم وحیا والے تھے

………………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ بہت ہی شرم و حیا والے تھے۔آپﷺ بازار سے نظریں جھکا کرخا موشی سے گزرتے تھے۔قہقہہ لگا کر کبھی نہ ہنستے تھے ۔ہنسی کے موقع پر بھی اکثر مسکرا دیتے تھے۔بدن کا جو حصہ چھپانے کے لائق ہوتا اس پر بڑا دھیان دیتے ۔اگر کوئی بری حرکت یا زیادتی کرنے والا شخص آپﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو کر معافی مانگتا تو آپﷺ شرم سے گردن جھکا لیتے۔اگر کبھی آپﷺ کے سامنے کوئی شخص ایسی حرکت کرتاجو آپﷺ کو پسند نہ ہوتی تو آپﷺ اس کا نام لے کر منع نہ فرماتے بلکہ عام لفظوں میں ایسے طریقے سے منع فرماتے کہ سب کواس حرکت کے اچھا نہ ہونے کا علم ہو جاتا۔آپﷺ کبھی کسی کو طعنہ نہ دیتے تھے اور نہ برے نام سے پکارتے تھے۔
آپﷺ حاجت سے فارغ ہونے کے لئے شہر سے اس قدر دور نکل جاتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ سکتا تھا۔کبھی کبھی تین تین میل دور چلے جاتے تھے۔اس وقت عرب میں گھروں کے اندر پاخانے بنانے کا رواج نہ تھا۔لوگ رفع حاجت کے وقت میدانوں میں جاکر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور باتیں کرتے رہتے تھے۔آپﷺ نے لوگوں کو اس حرکت سے منع فرمایا اور ان کوبتایا کہ ایسا کرنے سے خدا ناراض ہوتا ہے۔
آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر ایک دین کی ایک صفت ہوتی ہے۔اسلام کی صفت حیا ہے اور حیا سے صرف بھلائی ہی حاصل ہوتے ہے۔
رسولِ پاک ﷺ خود تکلیف برداشت کرلیتے تھے لیکن شرم کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو کام کرنے کو نہ فرماتے تھے۔
ایک دفعہ آپﷺ نے ایک شخص کو میدان میں (ننگا) نہاتے دیکھا۔آپﷺ منبر پر چڑھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:’’بیشک اللہ حیادار ہے وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔اس لئے جب تم میں سے کوئی(میدان) میں نہائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کر لے۔
رسولِ پاکﷺ بہت خوش مزاج تھے

……………………………………….
ہمارے رسولِ پاک ﷺ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے۔آپﷺ کو خشک مزاج اور روکھا پن پسند نہ تھا۔آپﷺ کبھی کبھی لوگوں سے ہنسی مذاق بھی کرلیتے۔لیکن یہ ہنسی مذاق بھی بہت پاکیزہ اور پیارا ہوتا۔
ایک دفعہ ایک اندھا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:’’اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا میں جنت میں داخل ہو سکوں گا؟‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’نہیں بھائی کوئی اندھا جنت میں نہ جائے گا۔‘‘اندھا رونے لگا۔آپﷺ ہنس پڑے اور فرمایا:’’بھائی کوئی اندھا ،اندھا ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ سب کی آنکھیں روشن ہوں گی۔‘‘یہ سن کر اندھا بے اختیار ہنسنے لگا۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی صحابیہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے جنت کی دعا کریں۔آپﷺ نے فرمایا:’’کوئی بڑھیا جنت میں نہ جائے گی۔‘‘وہ رونے لگیں۔آپﷺ نے مسکراکر فرمایا:’’بوڑھیاں جنت میں نہ جائیں گی مگر جوان ہو کر جائیں گی۔‘‘اس پر وہ خوش ہو گئیں۔
ایک دفعہ آپﷺ کی کھلائی ماں حضرت اُمِّ ایمنؓ نے آپﷺ سے ایک اونٹ مانگا۔آپﷺ نے فرمایا:’’میں اونٹ کا بچہ دوں گا۔‘‘
انھوں نے کہا:’’میں اونٹ کا بچہ کیا کروں گی؟‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’میں تو انٹ کا بچہ ہی دوں گا۔‘‘اس پر وہ مغموم ہو گئیں۔آپﷺ نے ایک خادم کو اشارہ کیا ۔انھوں نے ایک جوان اونٹ لا کر حضرت اُمِّ ایمنؓ کے سپرد کر دیا۔اب آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا:’’کیا یہ اونٹ کا بچہ نہیں ،ہر اونٹ،اونٹ ہی کا تو بچہ ہوتا ہے۔‘‘یہ سن کر وہ مسکرا دیں۔
ایک دفعہ ایک صحابیہ نے حاضر ہو کر درخواست کی:’’یا رسول اللہؐ !میرا شوہر بیمار ہے،اس کی صحت کے لئے دعا فرمائیں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’تمہارا خاوند وہی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟‘‘ 
وہ حیران ہو گئیں اور گھر جاکر اپنے خاوند کی آنکھ کھول کر دیکھنے لگیں۔انھوں نے کہا،کیا بات ہے؟کہنے لگیں ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے۔‘‘وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے’’کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو۔‘‘اب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ مذاق کو سمجھیں ۔اس کا مقصد ان کے شوہر کو خوش کرنا تھا۔
رسول اللہﷺ بڑی میٹھی زبان والے تھے

……………………………………………
ہمارے رسولِ پاکﷺ بڑے خوش اخلاق اور نرم مزاج تھے۔آپﷺ کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے اور ہر ایک سے بڑی محبت اور نرمی سے گفتگو فرماتے تھے۔آپﷺ کاچہرۂ مبارک ہر وقت کھِلا رہتا تھا۔زبان مبارک میں اتنی مٹھاس تھی کہ ہر ایک کا دل مول لیتی تھی۔ایک دفعہ ایک شخص آپﷺ کے دروازہ پر حاضر ہوا اور آپﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔آپﷺ نے فرمایا:
’’اسے اندر آنے دو لیکن یہ اپنے قبیلے کا اچھا آدمی نہیں ہے۔‘‘
جب وہ اندر آیا تو آپﷺ اس سے بہت اچھی طرح پیش آئے اور بڑی محبت اور نرمی سے گفتگو فرمائی۔جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حیران ہو کر پوچھا:
’’یارسول اللہ آپﷺ کے نزدیک تو وہ شخص اچھا نہیں ہوتا تھا لیکن آپ نے اس کے ساتھ نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ گفتگو فرمائی۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’خدا کے نزدیک سب سے برا آدمی وہ ہے جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔‘‘
مدینہ میں ایک دفعہ قحط پڑا۔عباد بن شُرجبیل ایک صاحب بھوک سے مجبور ہو کر ایک باغ میں گھس گئے اور کچھ پھل توڑ کر کھائے کچھ اپنے پاس رکھ لئے۔باغ کے مالک نے ان کو پکڑ کر مارا اور پھر کپڑے اتر والئے۔عباد آپﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر حا ضر ہوئے۔ باغ کا مالک بھی ساتھ تھا۔اس نے عباد کی چوری کا حال بیان کیا۔آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ جاہل تھا تو تم نرمی سے اور محبت سے اسے تعلیم دیتے ،بھوکا تھا اس کوکھانا کھلاتے۔‘‘
پھر آپﷺ نے عباد کے کپڑے واپس دلوائے اور بہت ساغلہ اپنے پاس سے دیا۔
ایک دفعہ ایک بَدّو آیا اورآپﷺ سے کچھ مانگا۔آپﷺ نے عطا فرمایا اور پوچھا کہ خوش ہو؟اس نے کہا:’’نہیں تم نے میرے ساتھ کچھ بھی سلوک نہیں کیا۔‘‘
اس گستاخی پر صحابہ کو غصہ آگیا اور اسے قتل کرنے لگے۔آپﷺ نے اشارہ سے منع فرمایا …….اور پھر گھر سے لاکر اس کو کچھ اور دیا۔اب وہ خوش ہو گیا اور دعائیں دینے لگا۔آپﷺ نے نہایت محبت سے فرمایا:’’تیرا پہلا کام میرے ساتھیوں کو برا معلوم ہوا کیا تم پسند کرتے ہو کہ جو کچھ تم اب کہہ رہے ہو ان کے سامنے بھی کہہ دوتاکہ ان کے دل تمہاری طرف سے صاف ہو جائیں۔‘‘
اس نے کہا :’’میں کہہ دوں گا۔‘‘
دوسرے دن آپﷺ نے صحابہؓ کے سامنے اس سے سوال کیا:’’اب تو مجھ سے خوش ہے ناں؟‘‘
اس نے کہا :’’بے شک‘‘اور پھر دعا دی۔
آپﷺ نے فرمایا:’’ایک شخص کی اونٹنی بھاگ گئی۔لوگ اس کے پیچھے دوڑتے تھے اور وہ آگے بھاگتی تھی۔مالک نے دوسرے لوگوں سے کہا،تم سب رک جاؤ یہ میری اونٹنی ہے اور میں ہی اسے سمجھتا ہوں۔لوگ رک گئے۔اونٹنی ایک جگہ رک کر گھا س چرنے لگی۔مالک نے اسے پکڑ لیا۔میری اور اس بَدّو کی مثال ایسی ہی تھی۔تم اسے مار ڈالتے تو بیچارہ دوزخ میں جاتا۔‘‘
رسولِ پاکﷺ دوسروں پر اپنی بڑائی نہیں جتاتے تھے

…………………………….…………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ اللہ تعالیٰ کے بعد سارے جہانوں کی سب سے بڑی ہستی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عرب کی حکومت عطا کی تھی اس لئے آپﷺ کو ہر لحاظ سے سب سے بڑا رتبہ حاصل تھالیکن آپﷺ کبھی دوسروں پر اپنے بڑائی نہیں جتاتے تھے اور سب سے برابری کا برتا ؤ کرتے تھے۔اسی بات کو مُساوات کہا جاتا ہے۔آپﷺ نے مساوات کا جو نمونہ پیش کیا ۔دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مسجدِ قبا اور مسجدِ نبوی کی تعمیر شروع ہوئی تو رسولِ پاک ﷺ صحابہؓ کے ساتھ مل کر گارا ڈھو تے تھے۔وہ بہتیرا عرض کرتے کہ یارسول اللہ ﷺ آپ رہنے دیجئے ہم خود یہ کام کر لیں گے۔لیکن آپﷺ فرماتے تھے،نہیں میں بھی تمہارے ساتھ اس کام میں برابر حصہ لوں گا۔
اسی طرح خندق کی لڑائی میں آپﷺ صحابہؓ کے ساتھ مل کر خندق کھودتے تھے۔آپﷺ کا پاک بدن گردو غبار سے اٹ جاتا تھا اور آپﷺ سخت تھک جاتے تھے۔اس حال میں بھی آپﷺ کام جاری رکھتے تھے۔
صحابہؓ بار بار آپﷺ سے یہ کام چھوڑ دینے کی درخواست کرتے لیکن آپﷺ فرماتے کہ نہیں میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا اور تمہارے ساتھ رہوں گا۔بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کے پاس سواری کے جانور بہت کم تھے۔ہر تین آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا تھااس پر لوگ باری باری چڑھتے اترتے تھے۔رسولِ پاکﷺ اپنے باری سے اونٹ پر چڑھتے تھے اور پھر اتر کر پیدل چلنے والوں کے ساتھ شریک ہو جاتے تھے۔صحابہؓ نے عرض کیا:
’’یا رسولِ پاک ﷺ آپؐ اونٹ پر تشریف رکھیں ۔پیدل چلنے کی تکلیف گوارا نہ کریں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :میں تم سے کم پیدل نہیں چل سکتا اور نہ تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں۔‘‘
بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے جو لوگ قیدی بنائے ان میں آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے۔انھوں نے اس وقت تک اپنے اسلا م کا اعلان نہیں کیا تھا۔قیدیوں کی رہائی کے لئے مسلمانوں کو ایک خاص رقم (فدیہ)ادا کرنا ضروری تھا۔بعض صحابہؓ نے آپﷺ نے عرض کی :’’یا رسول اللہ آپﷺ اجازت دیں تو ہم (آپؐ کے چچا)حضرت عباسؓ سے کچھ لئے بغیر رہا کردیں۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’نہیں ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔‘‘
(یعنی میرے چچا ہونے کا لحاظ نہ کرو)
ایک مرتبہ آپﷺ سفر میں تھی کہ جوتی کاتسمہ ٹوٹ گیا۔آپﷺ اسے ٹانکنے لگے تو تو ایک صحابیؓ نے عرض کی :’’یارسول اللہ ﷺ لائیے میں ٹانک دوں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’مجھے دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا پسند نہیں۔‘‘
چنانچہ آپﷺ نے تسمہ خود ٹانکا۔
ایک مرتبہ رسولِ پاک ﷺ کسی لڑائی میں تشریف لے جارہے تھے۔راستے میں ایک جگہ بکری ذبح کرنے اور پکانے کی تجویز ہوئی۔صحابہؓ نے آپس میں کام بانٹ لئے۔ایک صحابیؓ نے کہا ،میں اسے ذبح کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں اس کا گوشت بناؤں گا۔تیسرے نے کہامیں اسے پکاؤں گا۔آپﷺ نے فرمایا:’’میں جنگل سے لکڑیا ں لاؤں گا۔‘‘صحابہؓ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ ﷺ ہمارے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں،آپﷺ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہم سب کام کرلیں گے۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنے کو تم پر ترجیح دوں۔‘‘
رسولِ پاکﷺ بہت سادہ مزاج تھے

………………………………………
ہمارے رسولِ پاکﷺ کے مزاج میں بہت سادگی تھی۔اللہ نے آپﷺ کے ہاتھ میں سارے عرب کی حکومت دی تھی لیکن آپﷺ میں ذرا غرور اور گھمنڈ نہ تھا۔گھر کا کام کاج خود ہی کرلیتے،اپنے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے،اپنا جوتاخود ہی گانٹھ لیتے ،گھر میں جھاڑو دے لیتے اور خود ہی دودھ دوہ لیتے تھے۔زمین پر ،چٹائی پر، فرش پر، جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے۔مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے۔چھوٹا ہو یا بڑا اسے سلام کر نے میں خود پہل کرتے تھے۔غریبوں اور غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے اور غریب سے غریب آدمی کی بیمار پُرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔خچر اور گدھے پر بھی خوشی سے سوار ہو جاتے تھے اور کبھی کبھی دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے ۔صحابہؓ کے ساتھ گھل مل کر بیٹھ جاتے۔ان سے الگ یا اونچی جگہ پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔مجلس میں کوئی اجنبی شخص آپﷺ کو آسانی سے نہ پہچان سکتا تھا۔بازار سے خود سودا خرید کر لے آتے اور اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے تھے۔
ایک دن آپﷺ گھر سے نکلے ۔لوگ آپﷺ کو دیکھ کر ادب سے کھڑے ہو گئے۔آپﷺ نے منع فرمایاکہ میرے آنے پر کھڑے نہ ہوا کرو۔
خندق کی لڑائی کے بعد آپﷺ بنو قُریظہ کے یہودیوں کی جانب تشریف لے گئے تو ایک گدھے پر سوار تھے۔جس کی لگام کھجور کی چھا ل سے بنی ہوئی تھی اور اس کی پیٹھ پر زین کی جگہ کھجور کی چٹائی پڑی ہوئی تھی۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاکﷺ حج کے لئے گئے تو میں نے دیکھا کہ جو چادر آپﷺ نے اوڑھ رکھی تھی اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔
ایک دن دوصحابی آپﷺکے گھر گئے دیکھا کہ آپﷺ خود اپنے مکان کی مرمت کر رہے ہیں۔وہ آپﷺکا ہاتھ بٹانے لگے۔کام ختم ہو گیا تو آپﷺ نے ان دونوں کو بہت دعائیں دیں۔
ایک دن آپﷺ نے ایک دکان سے پاجامہ خریدا ۔اٹھنے لگے تو دکاندار نے آپﷺ کا ہاتھ چومنا چاہا۔آپﷺ نے ہاتھ پیچھے ہٹالیااور فرمایا:’’یہ تو عجم کے لوگوں کا طریقہ ہے،میں بادشاہ نہیں ہوں تم ہی میں سے ہوں۔‘‘
ایک دفعہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ کو دیکھ کر کانپنے لگا ۔آپﷺ نے فرمایا:’’ڈرو نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں ،ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گھوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔‘‘
جس دن رسولِ پاکﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ نے وفات پائی،اتفاق سے اسی دن سورج گرہن تھا۔لوگوں کاخیال تھا کہ آپﷺ کے صدمہ کا اثر سورج پر بھی ہوا ہے۔آپﷺ نے سنا تو لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور فرمایا:
’’لوگوں! کسی کی موت سے سورج یا چاند گرہن نہیں لگتا ،یہ تو خدا کی قدرت کا ایک نشان ہے۔‘‘
ایک دفعہ ایک صحابی نے باتیں کرتے کرتے کہہ دیا:’’جو اللہ چاہے اور آپﷺ چاہیں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا تم نے مجھے خدا کا شریک بنا دیا……..یوں کہو جو اللہ تعالیٰ(اکیلا)چاہے۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاک ﷺ سے ہم نے سنا ،آپﷺ فرماتے تھے کہ لوگوں !میری حد سے زیادہ تعریف نہ کرناجس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی حد سے زیادہ تعریف کرتے ہیں۔(ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں)میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں اس لئے تم مجھ کو خداکا بندہ اور اس کا رسول کہو۔
رسولِ پاک ﷺ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے تھے

……………………………………………………
ہمارے رسولِ پاکﷺ کے ساتھ کوئی برائی یا زیادتی کرتا تو آپﷺ اس سے کوئی بدلہ نہ لیتے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کرتے۔
ایک دفعہ ایک بَدّو آیا اس نے آتے ہی رسولِ پاکﷺ کی چادر اس زور سے کھینچی کہ اس کا کنارہ آپﷺ کی گردن میں کھب گیا۔جس سے آپﷺ کو بہت تکلیف ہوئی۔پھر اس نے بڑی گستاخی سے کہا:’’محمدؐ!میرے یہ دو انٹ ہیں ان پر لادنے کے لئے مجھے سامان دو۔تیرے پاس جو مال ہے وہ نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا۔‘‘
آپﷺ نے بڑی نرمی کے ساتھ فرمایا:’’مال تواللہ کا ہے میں اس کا بندہ ہوں۔‘‘
پھر آپﷺ نے پوچھا:’’تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے کیا تم ا س پر ڈرتے نہیں ہو۔‘‘
بدو نے کہا:’’نہیں۔‘‘
آپﷺ نے پوچھا:’’کیوں۔‘‘
بولا:’’مجھے پورا یقین ہے کہ تم بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے۔‘‘
آپﷺ مسکرانے لگے اور اس کے اونٹوں پر کھجوریں اور جو لدوا دیئے۔
رسولِ پاکﷺ جب طائف گئے تو وہاں کے لوگو ں آپﷺ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اور پتھر مار مار کرآپﷺ کو زخمی کردیا۔لیکن چند سال بعد یہی لوگ مدینہ آئے تو آپﷺ نے ان کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا اور جب تک ٹھہرے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور ایک مرتبہ بھی ان کو نہیں جتایا کہ تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔
اُحد کی لڑائی میں آپﷺ کو کئی زخم لگے اور آپﷺ کے دو دانت بھی شہید ہو گئے۔آپﷺ سے کہا گیاکہ’’دشمنوں کے لئے بد دعا فرمایئے۔‘‘لیکن آپﷺ نے فرمایا :’’نہیں میں لعنت کرنے کے لئے نبی نہیں بنایا گیا۔‘‘پھر آپﷺ نے یہ دعا فرمائی:
’’اے خدا میری قوم کو ہدایت دے وہ مجھے نہیں جانتی۔‘‘
ایک صحابی زیدؓبن سعنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی تھے۔اسی زمانے میں ایک بار آپ ﷺ نے ان سے کچھ قرض لیا اور ایک مقرّرہ تاریخ تک اسے واپس کرنے کاوعدہ کیا۔زید وعدہ سے پہلے ہی مانگنے آگئے۔انھوں نے آپﷺ کی چادر پکڑ کر کھینچی اور بڑی گستاخی سے کہا:’’تم ٹال مٹول کر کے میری رقم مار لو گے۔‘‘حضرت عمرؓ وہاں موجود تھے ان کو غصّہ آگیااوروہ تلوار پکڑکر یہ کہتے ہوئے زید کی طرف بڑھے…….’’ او اللہ کے دشمن تو اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں ایسی بری باتیں کہتا ہے۔‘‘رسولِ پاکﷺ نے مسکرا کر حضرت عمرؓ کو روکا اور ان سے فرمایا:’’اے عمر تم کو چاہئے تھا کہ مجھ سے کہتے قرضہ ادا کروں اور اس سے کہتے بھائی نرمی کرو۔‘‘
اس کے بعد فرمایاکہ’’زید کا قرض ادا کردو اور اس کو بیس صاع(ایک وزن ہوتا ہے)کھجوریں زیادہ دے دو۔‘‘
زیدؓ آپﷺ کا ایسا اچھا اخلاق دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔
رسولِ پاکﷺ سب سے بڑ ھ کر معاف کر دینے ولے تھے

……………………………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ اپنے بیگانے ہر ایک کی غلطیوں اور زیادتیوں سے درگزر فرماتے تھے اور اپنے جانی دشمنوں پر بھی قابو پاکر انھیں معاف فرمادیتے تھے۔
مکہ کے کافر آپﷺ کو بیس برس تک ستاتے رہے۔جب آپﷺ مکہ میں تھے تو انھوں نے آپﷺ پر اور دوسرے مسلمانوں پر بڑے ظلم کئے۔آپﷺ کو گالیاں دیا،آپﷺ کو برے ناموں سے پکارا،آپﷺ کا گلا گھونٹا،راستے میں کانٹے نچھائے،قتل کرنے کی کوششیں کیںیہاں تک آپﷺ کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا۔کافروں نے مدینہ پر بھی بار بار چڑھائی کی اور آپﷺ کو دُکھ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔لیکن جب آپﷺ نے مکہ فتح کیا تو آپﷺ نے کسی سے بدلہ نہیں لیا اور سب کو معا ف کردیا۔
حضرت ابو سفیانؓ آ پﷺ کے سخت دشمن تھے۔آپﷺ سے کئے بار لڑے لیکن جب وہ مکہ کی فتح کے موقع پر آپﷺ کے سامنے آئے تو آپﷺ نے ان کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ جو ان کے گھر میں پناہ لے گا اسکو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔
اُحد کی لڑائی میں آپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تو ابو سفیان کی بیوی ہندہؓ نے ان کا پیٹ پھاڑ کر کلیجہ چبا ڈالا اور ناک کان کاٹ کر ہار بنایا۔لیکن جب فتح مکہ کے بعد وہ آپﷺ کے سامنے آئیں تو آپﷺ نے انھیں معاف فرمایا۔
ہبار بن اسود آپﷺ کا سخت دشمن تھے۔آ پﷺ کی پیاری بیٹی حضرت زینبؓ مکے سے مدینے ہجرت کرنے لگیں تو انھوں نے دوڑ کر اپنے نیزے سے حضرت زینبؓ کو انٹ پر سے گرا دیا۔ان کو ایسی سخت چوٹ آئی کہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں۔لیکن جب ہبا ر نے آکر معافی مانگی تو انھیں بھی معافی دے دی۔
عمیر بن وہب آپﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے مدینہ آئے لیکن پکڑے گئے۔ آپ ﷺکے سامنے پیش کئے گئے تو آپﷺ نے بالکل معاف کردیا۔
وحشیؓبن حرب نے احد کی لڑائی میں آپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ وہ اسلام قبول کرنے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپﷺ نے انھیں معاف فرمادیا اور صرف اتناکہا کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو کیونکہ تمھیں دیکھ کر مجھے اپنے چچا کی یاد آجاتی ہے۔
رسولِ پاک ﷺ ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کرتے تھے

………………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ کو اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔بڑی سے بڑی مصیبت ہو آپﷺ اللہ پر بھروسہ کرتے اور کسی قسم کے خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دیتے ۔
ایک مرتبہ رسولِ پاک ﷺ ایک لڑائی سے واپس آتے ہوئے ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ایک کافر بَدّو ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آپﷺ کوشہید کرنے کے ارادہ سے آیااور گستاخی کے ساتھ آپﷺ کو جگا کر پوچھا:
’’اب تم کو کون بچائے گا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’اللہ‘‘
یہ سن کر بدو کانپنے لگا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔آپﷺ نے وہی تلوار اٹھا کر اس سے پوچھا:’’اب تجھے کون بچائے گا۔‘‘
ڈر کے مارے اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’جاؤ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔‘‘
ایک رات کو کچھ صحابہؓ آپﷺ کے گھر کے ارد گرد پہرہ دے رہے تھے آپﷺ نے گھر سے سر باہر نکال کر ان سے فرمایا:
’’لوگوں ! واپس چلے جاؤ میری حفاظت اللہ کرے گا۔‘‘
مکہ سے ہجرت کر کے آپﷺ چند میل کے فاصلے پر غار ثور میں مقیم ہوئے۔کافر آپﷺ کو تلاش کرتے کرتے غار کے منہ پر پہنچ گئے۔آپﷺ کے پیارے ساتھی حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان کے پاؤں دیکھ لئے اور گھبرا کر آپﷺ سے کہا:
’’یا رسول اللہ اگر یہ ذرا جھک کر دیکھیں گے تو ہم ان کو نظر آجائیں گے۔‘‘
آپﷺ نے ان کو تسلی دے کر فرمایا: 
’’گھبراؤ نہیں ہمارے ساتھ اللہ ہے۔‘‘
اور پھر واقعی اللہ نے آپﷺ کو بچا لیا۔کافر آپﷺ کو دیکھ ہی نہ سکے اور واپس چلے گئے۔
ایک دفعہ صحابہؓ نے ایک شخص کو گرفتار کر کے آپﷺ کے سامنے پیش کیااور عرض کی کہ یہ آپﷺ پر چھپ کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔آپﷺ نے فرمایا:’’اس کو چھوڑ دو یہ مجھ کو قتل کرنا چاہتا تو نہیں کرسکتا تھا۔اللہ میری حفاظت کرنے ولاہے۔

رسولِ پاکﷺ بہت بہادر اور نِڈر تھے

………………………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ بہت بہادر اور نِڈر تھے۔آپﷺ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے اور بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ سینہ تان کر کرتے تھے۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسولِ پاک ﷺ سے زیادہ کوئی بہادر نہ تھا۔ایک رات مدینہ میں کچھ شور اٹھا۔صحابہؓ سمجھے کہ کسی دشمن نے حملہ کردیا ہے۔وہ فوراً تیار ہو کر جس طرف سے آواز آئی تھی ادھر دوڑے ،تھوڑی دور گئے تھے کہ انھیں رسولِ پاکﷺ گھوڑے پر سوار راستہ میں واپس آتے ہوئے ملے۔آپﷺ اس شور کی طرف اکیلے تشریف لے گئے تھے ۔آپﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا:
’’ڈرو نہیں، ڈرو نہیں ،میں شہر کے باہر دیکھ آیا ہوں ۔خطرہ کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب بہت سخت لڑائی ہو رہی ہوتی تو اس وقت ہم ر سولِ پاک ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے۔ہم میں سب سے آگے آپﷺ ہی دشمن کے قریب ہوتے تھے۔
ایک دفعہ کافروں نے کعبہ میں بیٹھ کر مشورہ کیا کہ محمد ﷺ اب جیسے ہی یہاں آئیں سب مل کر ان کو قتل کر ڈالیں۔آپﷺ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ نے کافروں کی گفتگو سن لی ۔وہ روتی ہوئی آپﷺ کے پاس آئیں اور آپﷺ کو کافروں کے ارادہ کی اطلاع دی۔آپﷺ نے فرمایا:’’میری بچی گھبراؤ نہیں اللہ میرے ساتھ ہے۔‘‘پھر آپﷺ نے وضو کیا اور سیدھے کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے۔جب آپﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو کافروں پر آپﷺ کی بہادری اور بے خوفی کایہ اثر ہوا کہ ان کی نظریں خود بہ خود جھک گئیں اور کسی کو آپﷺ پر حملہ کرنے کی جر أ ت نہ ہوئی۔
بدر کی لڑائی میں تین سو تیرہ کے مقابلے میں ایک ہزار کافر تھے۔جب لڑائی شروع ہوئی تو رسولِ پاک ﷺ دشمن کی صفوں سے سب سے زیادہ قریب تھے۔یہ اتنی خطر ناک جگہ تھی کہ آپﷺ کے قریب کھڑے ہونا بھی بڑی بہادری اور دلیری کا کام تھا۔
آپﷺ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو ابو جہل نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو زندہ پکڑ کر لائے گا اس کوسو اونٹ انعام دوں گا۔عرب کے ایک بہادر سراقہ نے آپﷺ کا تعاقب کیا اور آپﷺکے بالکل قریب پہنچ گیا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ آپﷺ کے ساتھ تھے۔اور ان کو آپﷺ کی حفاظت کی بہت فکر تھی اور وہ بار بار مڑ کر سراقہ کی طرف دیکھتے تھے لیکن آپﷺ نے ایک دفعہ بھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ دشمن کس ارادہ سے آرہاہے۔
اُحد کی لڑائی میں آپﷺ پر تیروں،تلواروں ،برچھیوں،اور پتھروں کا مینہ برس رہاتھا اور آپﷺ شدید زخمی بھی ہوگئے۔لیکن اخیر تک میدان سے نہیں ہٹے۔قریش کا ایک نامی بہادر ابی بن خَلَف اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار صفوں کو چیرتا ہوا آپﷺ کی طرف بڑھا۔مسلمانوں نے اس کا راستہ روکنا چاہا لیکن آپﷺ نے منع فرمادیا۔پھر ایک مسلمان کے ہاتھ سے برچھی لیکر اُبی کے سامنے ہوئے اوربرچھی کی انی اس کی گردن میں چبھو دی۔وہ چیختا ہوا واپس بھاگا۔اس کے ساتھیوں نے کہا:’’معمولی زخم ہے اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے۔‘‘
اس نے کہا:’’یہ سچ ہے لیکن یہ محمد ؐ کے ہاتھ کا لگایا ہوا زخم ہے۔‘‘چنانچہ اسی زخم نے اس کی جان لی۔
حنین کی لڑائی میں گھات میں بیٹھے ہوئے کافر وں نے مسلمانوں پر اس قدر تیر برسائے کہ اکثر مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔لیکن رسولِ پاک ﷺ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے۔آپﷺ کے خچر کی لگام حضرت عباسؓ نے پکڑ رکھی تھی۔اور آپﷺ اونچی آواز سے فرمارہے تھے: 
’’میں اللہ کا نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں اور میں عبدا لمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
پھر آپﷺ نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ مہاجرین اور انصار کو آواز دیں۔انھوں نے زور سے نعرہ مارا:
’’اے انصاریو!اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں۔‘‘
اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مسلمان پلٹ پڑے اور کافروں کو شکست دی۔
رسولِ پاکﷺ بڑے صبر و شکر کرنے والے تھے

…………………………………………………..
دنیا میں ہر انسان پر مصیبتیں اور تکلیفیں آتی ہیں۔اسی طرح ہر انسان کو خوشیاں او ر نعمتیں بھی نصیب ہوتی ہیں لیکن بہت ہی کم انسان ایسے ہوتے ہیں۔جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور خوشی کے مو قعوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ہمارے رسولِ پاک ﷺ پر کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی آتی،آپﷺ اس کو بڑے صبر سے برداشت کرتے تھے۔اور جب آپﷺ کو کوئی خوشی حاصل ہوتی تو فوراً اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتے تھے۔
مکہ میں تیرہ سال تک آپﷺ کو اور آپﷺ کے پیارے ساتھیوں کو سخت تکلیفیں دی گئیں اور ہر طریقہ سے آپﷺ کو ستایاگیا۔پھر مدینہ میں آپﷺ کو بار بار لڑائیوں کی مصیبت میں ڈالا گیالیکن آپﷺ نے نہایت صبر سے تمام تکلیفوں کو برداشت کیا اور کبھی اُ ف تک نہ کی۔آپﷺ کی پیاری والدہ،آپﷺ کے شفیق دادا،آپﷺ کے ہمدرد چچا،آپﷺ کی جاں نثار بیوی حضرت خدیجہؓ،آپﷺ کے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں اور کئی رشتہ داروں نے آپﷺ کے سامنے وفات پائی مگر آپﷺ نے کبھی آہ وزاری اور فریاد نہیں کی۔بلکہ ہمیشہ صبر کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا۔
دُکھ ہو یا سکھ آپﷺ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔لڑائی میں فتح ہوتی یا کوئی خوشی نصیب ہوتی تو آپﷺ فوراً سجدہ میں گر جاتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالا تے۔کئی دفعہ ساری ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے تھے۔
ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے عرض :’’یارسول اللہ!آپﷺ کو توں اللہ نے بخش دیا ہے آپ کو اتنی عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
آپﷺ نے فریاما:’’کیا میں اللہ کا (سب سے زیادہ)شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں؟‘‘
رسولِ پاکﷺ ہر ایک سے انصاف کرتے تھے

…………………………………………………
ہمارے رسولِ پاکﷺ ،اپنے بیگانے،دوست دشمن،مسلم غیر مسلم،امیر غریب ہر ایک کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے تھے۔آپﷺ اس بات کو بہت برا سمجھتے تھے کہ کوئی شخص کسی زیادتی یا ظلم کرنے والے آدمی کی صرف اس وجہ سے طرف داری کرے کہ وہ اس کی قوم یاقبیلے کا آدمی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپﷺ کے سامنے مقدمہ لایا گیا جس میں ایک فریق مسلم تھا اور دوسرا غیر مسلم ۔ آپﷺ نے گواہیاں سننے کے بعد غیر مسلم کے حق میں فیصلہ دیا۔اسی طرح جب تک کسی کے خلاف پورا ثبوت نہ مل جاتا۔آپﷺ کسی کو سزا نہیں دیتے تھے۔
ایک دفعہ آپﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن سہلؓ کھجوروں کی بٹائی کے لئے خیبر گئے۔ان کے چچا زاد بھائی حضرت مُحَّیصہؓ بھی ساتھ تھے۔عبدا للہ ایک گلی میں سے گزر رہے تھے کہ کسی نے انھیں شہید کر ڈالا۔بظاہر یہ کام یہودیوں کا تھا۔حضرت مُحَّیصہؓ نے مدینہ آکر آپﷺ کے پاس مقدمہ پیش کیا۔
آپﷺ نے ان سے فرمایا :’’کیا تم قسم اٹھا سکتے ہو کہ عبدا للہؓ کو یہودیوں نے شہید کیا۔ 
انھوں نے عرض کیا:’’یا رسو ل اللہ ﷺ میں نے اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھا۔‘‘آپﷺ نے فرمایا’’تو پھر یہودیوں سے قسم لے لی جائے۔‘‘
انھوں نے کہا:’’یارسو ل اللہﷺ ان لوگوں پر کیا اعتبار وہ تو سو جھوتی قسمیں کھا لیں گے۔‘‘
خیبر میں صرف یہودی آباد تھے۔اس لئے وہی حضرت عبدا للہؓ کے قاتل ہو سکتے تھے لیکن موقع کی کوئی شہادت نہیں تھی اس لئے آپﷺ نے یہودیوں پر الزام لگانے کے بجائے خون بہا کے سو اونٹ بیت المال سے دلادیے۔
ایک دفعہ آپﷺ مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص آپﷺ کو چمٹ گیا۔آپﷺ کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی۔آپﷺ نے اس چھڑی سے اس شخص کو ٹہوکا دیا۔اس سے اس کے منہ پر خراش آگئی۔آپﷺ نے فرمایا :’’آؤ مجھ سے بدلہ لے لو۔‘‘
اس نے عرض کیا:’’یا رسو ل اللہﷺ میں نے معاف کردیا۔‘‘
مکہ کی فتح کے موقع پر بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود چوری کرنے کے جرم میں پکڑی گئی۔بنو مخزوم کے لوگ حضرت اسامہؓ کے پاس گئے کہ وہ آپﷺ کے پاس رعایت کی سفارش کریں۔آپﷺ حضرت اسامہؓ سے بہت محبت کرتے تھے لیکن جب انھوں نے سفارش کی تو آپﷺ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی معزز یا امیر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب اس میں کوئی کمزور (معمولی) آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے،خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
رسولِ پاک ﷺ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کرتے تھے

……………………………………………………………………..
ہمارے رسولِ پاک ﷺ کو یہ بات نا پسندیدہ تھی کہ کوئی شخص بغیر شدید ضرورت کے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔آپﷺ لوگوں کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ محنت مشقت سے اپنی روزی خود کمائیں اور دوسروں سے خواہ مخواہ نہ مانگتے پھریں۔
ایک دفعہ ایک غریب لیکن تند ردست صحابی نے آپﷺ کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔آپﷺ نے ان سے پوچھا:’’کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟‘‘انھوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ صرف ایک بچھونا اور پانی پینے کا ایک پیالہ ہے۔‘‘
آپﷺ نے یہ دونوں چیزیں ان سے لے کر ایک دوسرے صحابی کے پاس دو درہم میں بیچ دیں۔پھر یہ دو درہم ان کو دے کر فرمایا کہ ایک درہم سے اپنی خوراک کا سامان کرو اور دوسرے سے ایک رسی خرید لو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچاکرو۔انھوں نے ایسا ہی کیا۔پندرہ دن کے بعد وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی’’یا رسو ل اللہ ﷺ اس کام کی بدو لت میرے پاس دس درہم جمع ہو گئے ہیں۔‘‘آپﷺ نے فرمایا’’یہ اچھا ہے یا وہ اچھا تھا کہ قیامت کے دن گدائی کا داغ لے کر جاتے۔‘‘
ایک صحابی حضرت قبیصہؓ بہت مقروض ہو گئے۔وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدد کی درخواست کی۔آپﷺ نے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیااور پھر فرمایا…….اے قبیصہؓ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف تین شخصوں کو جائز ہے،ایک جو قرض کے بوجھ تلے دب گیاہو،جب اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو پھر اسے سوال نہیں کرنا چاہئے۔دوسرا وہ جس پر یکایک مصیبت آ جائے اور اس کا مال و اسباب برباد ہوجائے۔البتہ جب اس کی حالت درست ہو جائے تو اسے مانگنا چھوڑ دینا چاہئے۔تیسرا وہ جو فاقہ میں مبتلا ہو اور محلہ کے تین آدمی گواہی دیں کہ وہ واقعی فاقہ سے ہے۔ان کے علاوہ جو کوئی مانگ کر حاصل کر لیتاہے وہ حرام کھاتا ہے۔
آخری حج کے موقع پر رسولِ پاک ﷺ صدقات(خیرات) کا مال تقسیم کر رہے تھے ۔یہ مال لینے والوں میں دو ایسے آدمی بھی آشامل ہوئے جو تندرست اور تنومند معلوم ہوتے تھے۔آپﷺ نے فرمایاکہ تمہاری خواہش ہو تو میں تمھیں اس مال میں سے کچھ دے سکتا ہوں لیکن تندرست و توانا کام کرنے کے قابل لوگوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔
رسولِ پاک ﷺکو صفائی بہت پسند تھی

…………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔آپﷺ ہمیشہ پاک صاف رہتے اور دوسروں کو بھی صاف ستھرا رہنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔آپﷺ کا لباس اگرچہ سادہ ہوتا لیکن صاف ستھرا ہوتا تھا۔دانتوں کی صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ ہر نماز سے پہلے مسواک کرتے ۔کھانا کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھوتے اور کھانے کے بعد بھی۔
ایک دفعہ آپﷺ نے ایک شخص کو میلے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا:’’ا س سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اپنے کپڑے دھولیا کرے۔‘‘
ایک مرتبہ ایک صحابی اس حالت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ان کی داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ’’ اپنے بال درست کر کے آؤ۔‘‘جب وہ بال درست کر کے آئے تو آپﷺ نے فرمایا ’’کیا تمہاری موجودہ حالت پہلی حالت سے بہتر نہیں؟‘‘
ایک دفعہ ایک آدمی خراب کپڑے پہنے ہوئے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپﷺ نے اس سے پوچھا’’تمہاری مالی حالت کیسی ہے؟‘‘
اس نے کہا’’اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’تو پھر اللہ کا شکر کیوں نہیں ادا کرتا۔‘‘
آپﷺ کا مطلب تھا کہ اپنی حیثیت کے مطابق صاف ستھرا لباس کیوں نہیں پہنتا۔
رسولِ پاک ﷺ مسجد کی صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے،اگر کبھی مسجد کی دیواروں پر تھوک کے دھبے دیکھتے تو بہت ناراض ہوتے اور ان دھبوں کو خود چھڑی کی نوک سے کھرچ کر مٹاتے تھے۔مسجد میں کوئی خوشبو جلاتا تو آپﷺ بہت خوش ہوتے تھے۔آپﷺ صحابہؓ کو یہ نصیحت کرتے رہتے تھے کہ مسجد میں لہسن اور پیازکھا کر نہ آیاکریں۔کیوں کہ ان سے بدبو پھیلتی ہے۔جمعہ کے دن آپﷺ نہا کر اور کپڑے بدل کر کر مسجد میں آنے کی تاکید فرماتے۔آپﷺ راستوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا کرتے تھے۔اگر راستے میں کوئی جھاڑو،پتھریا کوئی اور رکاوٹ ڈالنے والی چیز پڑی ہوتی تو آپﷺ خود اس کو وہاں سے ہٹا دیتے۔
جو شخص راستے میں گندگی پھیلاتا ،پیشاب پاخانہ کرتا،آپﷺ اس سے بہت ناراض ہوتے اور فرماتے کہ راستے میں گندگی پھیلانے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا۔آپﷺ سایہ دار درختوں کے نیچے بھی گندگی پھیلانے سے منع فرماتے تھے۔
رسولِ پاک ﷺ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے

……………………………………………………
ہمارے رسولِ پاک ﷺ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔آپﷺ کہیں جارہے ہوتے اور راستے میں بچے مل جاتے تو آپﷺ مسکراتے ہوئے نہایت محبت سے انھیں سلام کرتے۔پھر ان سے پیار بھری باتیں کرتے۔ایک ایک کوگود میں اٹھاتے،ان کا منہ سر چومتے اور کھانے کی کوئی چیز دیتے۔کبھی کھجوریں،کبھی کوئی پھل اور کبھی کوئی اور چیز۔
اگر کبھی کوئی شخص آپﷺ کی خدمت میں فصل کا نیا میوہ پیش کرتا تو آپﷺ سب سے پہلے اسے ننھے بچوں میں بانٹتے تھے۔
آپﷺ سفر سے واپس آتے تو راستے میں جو بچے ملتے،انھیں بڑی محبت سے اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیتے۔کسی کو اپنے آگے اور کسی کو پیچھے۔بچے بھی آپﷺ سے بڑی محبت کرتے تھے۔جہاں آپﷺ کو دیکھا لپک کر آپﷺ کے پاس پہنچ گئے۔
رسولِ پا کﷺ نمازپڑھاتے تو پردہ کے پیچھے جماعت میں عورتیں بھی ہوتیں ۔اگر ان عورتوں میں سے کسی کا بچہ رونے لگتا تو آپﷺ چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر نماز جلد ختم کر دیتے۔تا کہ بچہ کو تکلیف نہ ہو اور اسکی ماں بھی بے چین نہ ہو۔
رسولِ پاک ﷺ ہجرت کے موقع پر مدینہ میں داخل ہوئے تو انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں دروازوں پر کھڑی ہو کر یہ گیت گانے لگیں:
’’ہم خاندانِ نجار کی بیٹیاں ہیں ،محمد ﷺ کیا ہی اچھے ہمسایہ (مہمان)ہیں۔‘‘آپﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’کیوں بچیوں تم مجھے پیار کرتی ہو؟‘‘
سب نے کہا:’’ہاںیارسول اللہ ﷺ‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’میں بھی تمہیں پیار کرتا ہوں۔‘‘
رسولِ پاکﷺ کے ایک غلام تھے،حضرت زیدؓ۔آپﷺ نے انکو بچپن ہی سے پالا تھااور آزاد کرکے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔حضرت زید کے بیٹے حضرت اسامہؓ تھے۔آپﷺ ان سے بہت پیار کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اسامہؓ اگر لڑکی ہوتا تو میں اس کو بہت سے زیور پہناتا۔کھبی کبھی اپنے ایک زانو پر اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور دوسرے پر حضرت اسامہؓ کو بٹھا کر فرماتے ،خدا یا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ۔ 
ایک بار عید کے دن آپﷺ چہرے پر چادر ڈالے لیٹے ہوئے تھے۔کچھ بچیاں گھر میں آئیں اور خوشی کے گیت گانے لگیں۔اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آئے اور بچیوں کو ڈانٹا۔آپﷺ نے سنا تو چادر ہٹائی اور فرمایا:
’’ابو بکر انھیں کچھ نہ کہو،گانے دو آج ان کی عید ہے۔‘‘
ایک دفعہ عرب کے ایک دیہاتی رئیس نے آپﷺ کو بچوں سے پیار کرتے دیکھا تو کہا:’’آپﷺ بچوں کو اتنا پیار کرتے ہیں میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’اگر اللہ تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کروں؟‘‘
ایک دفعہ آپ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اتفاق سے وہاں آگئے۔دونوں بہت کمسن تھے۔آپ ﷺ انھیں دیکھ کر منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور دونوں کو گود میں اٹھا کر فرمایا:’’اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے فتنہ(آزمائش)ہیں۔‘‘
آپﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو فرماتے۔:میرے بچوں کو لاؤ،وہ ان کولاتیں تو آپﷺ ان کو سینہ سے لپٹاتے اور ان کا منہ چومتے۔
ایک دفعہ آپ اپنی کمسن نواسی حضرت امامہؓ کو کندھے پر چڑھائے ہوئے مسجد میں تشریف لائے اور اسی حالت میں نماز پڑھائی۔جب رکوع اور سجدے میں جاتے تو ان کو اتار دیتے پھر کھڑے ہوتے تو کندھے پر چڑھالیتے۔
ہمارے رسولِ پاک ﷺ دشمنوں کے بچوں سے بھی بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے اور کافروں کے بچے بھی دوڑ دوڑ کر آپﷺ کے پاس آتے تھے۔کافروں سے جنگ ہوتی تو آپﷺ صحابہؓ کو حکم دیتے کہ دیکھو کسی بچے کو مت مارنا ۔وہ بے گناہ ہیں،انھیں کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ایک بار فرمایا جوکوئی بچوں کو دکھ دیتاہے خدا اس ناراض ہو جاتا ہے۔
ایک دفعہ لڑائی میں کافروں کے چند بچے جھپٹ میں آکر مارے گئے۔آپﷺ کو خبر ہوئی تو ان کا بڑا غم کیا۔کسی نے کہا’’یا رسول اللہ ﷺوہ توکا فروں کے بچے تھے۔آپﷺ نے فرمایا:’’کافروں کے بچے بھی تم سے اچھے ہیں،خبر دار بچوں کو قتل نہ کرنا،خبر دار بچوں کو قتل نہ کرنا۔پھر فرمایا:’’ہر بچہ اللہ کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
رسولِ پاک ﷺ کی پیاری باتیں

………………………………
ہمارے رسولِ پاکﷺ جو باتیں فرماتے تھے یا جو کام کرتے تھے ان کے بیان کو حدیث کہا جاتا ہے۔آپﷺ کی پیاری باتوں پر عمل کر کے ہر شخص اپنی زندگی سنوار سکتا ہے اور زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔یہاں ہم رسولِ پاک ﷺ کی حدیثوں میں سے سو حدیثیں چن کر درج کرتے ہیں ۔ان پر عمل کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہیں۔
۱۔ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچو۔
۲۔کسی مسلمان کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ عرصہ تک روٹھا رہے۔
۳۔طاقت ور وہ نہیں ہے جو کسی کو گرالے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
۴۔کسی سے حسد نہ کرو کیونکہ حسدنیکیوں کو اس طرح برباد کردیتا۔جس طرح آگ لکڑیوں کو جلا دیتی ہے۔
۵۔کسی کی چغلی مت کرو۔سب سے برے لوگ وہ ہیں جو چغلیاں کھاتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں۔
۶۔کسی کو گالی یا طعنہ نہ دو اور نہ کوئی گندی بات منہ سے نکالو۔
۷۔مخلوق خدا کا کنبہ ہے اس لئے خدا کا سب سے پیارا وہ شخص ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
۸۔اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا ۔
۹۔جو چھوٹوں سے محبت نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۱۰۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر کوئی ظلم کرے نہ اسے ذلیل کرے اور نہ گھٹیا سمجھے۔
۱۱۔کوئی آدمی اس وقت تک سچا مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے اسی چیز کوپسند نہ کرے جسے وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
۱۲۔جب وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو۔
۱۳۔مہمان کی عزت کرو اور خدمت کرو۔
۱۴۔جو اپنے آپ کو بڑا کہے اور اکڑ کر چلے اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو جاتا ہے۔
۱۵۔پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو۔یہ بہت بڑا گنا ہ ہے۔
۱۶۔کسی کی بات چھپ کر اور کان لگاکر نہ سنو۔
۱۷۔غریب اور حاجت مندوں کی مدد کرو۔
۱۸۔فضول خرچی نہ کرو بخیل اور کنجوس بھی نہ بنو۔
۱۹۔ہمیشہ پاک صاف رہو اللہ تم کو بہت روزی دے گا۔
۲۰۔مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔
۲۱۔بیماروں کی خبر گیری کیاکرو۔
۲۲۔ماں باپ کا ادب کرو۔ان کی ہر طریقے سے خدمت کرو اور ان کے سامنے اونچی آواز سے بھی نہ بولو۔جب وہ بوڑھے ہوجائیں تو ان کے سامنے اُف بھی نہ کیا کرو۔
۲۳۔شرم اور حیا ایمان کی نشانی ہے۔
۲۴۔ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرو اور جب باہر نکلو تب بھی ان کو سلام کرو۔وہ شخص اللہ کو بہت پیارا ہے جو سلام میں پہل کرے۔چھوٹا بڑے کو،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کریں۔
۲۵۔جو شخص لوگوں کے ساتھ نرمی،محبت اور آرام سے گفتگو کرتا ہے،اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔
۲۶۔مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔
۲۷۔اپنے ملازموں اور خادموں سے اچھا سلوک کرو۔جو خود کھاتے ہو انھیں کھلاؤ جوخود پہنتے ہو انھیں پہناؤ۔
۲۸۔جو دوسروں کو معاف کردیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے۔
۲۹۔علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
۳۰۔سب سے پاک روزی یہ ہے کہ تم محنت سے کماکر کھاؤ۔
۳۱۔جانوروں کو مت ستاؤ۔جو ان پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔
۳۲۔جب تمہارے پاس اپنی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کرو اور اس کو اصلی حالت میں واپس کردو۔
۳۳۔ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی برائیوں سے محفوظ نہ ہوں جنت میں داخل نہ ہوگا۔
۳۴۔اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو اور ان سے تعلق مت توڑو۔
۳۵۔راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دو۔
۳۶۔بدگمانی سے بچو کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔
۳۷۔کسی پر زیادتی نہ کرو۔
۳۸۔غصہ نہ کرو۔
۳۹۔لوگوں کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرو۔
۴۰۔کسی پر احسان کر کے اسے کبھی نہ جتاؤ۔
۴۱۔تمام کاموں میں میانہ روی بہتر ہے۔
۴۲۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔(اگر کوئی نیکی دکھاوے کے لئے کی جائے تو اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔)
۴۳۔تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جس کا اخلاق اچھاہو۔
۴۴۔اپنی ہر حاجت اللہ سے مانگو یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ سے مانگو۔
۴۵۔اصل دولت مندی دل کی دولت مندی ہے۔
۴۶۔ہر نیکی ثواب ہے۔
۴۷۔رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔
۴۸۔ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔
۴۹۔برے کاموں سے بچو۔
۵۰۔کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا کرو۔
۵۱۔مصیبت میں صبر کیا کرو۔
۵۲۔مسلمانوں میں فتنہ اور فساد ڈالنے سے بچو۔
۵۳۔ظالم کو ظلم کرنے سے روکو۔
۵۴۔لالچ نہ کرو۔خدا نے تمہیں جو دیا ہے اس پر راضی رہو۔
۵۵۔کسی پر تہمت نہ لگاؤ۔
۵۶۔کسی کی نقل نہ اتارو۔
۵۷۔اپنی زبان قابو میں رکھو۔
۵۸۔کسی کا بر اسوچو بھی نہیں۔
۵۹۔آپس میں جھگڑا مت کرو۔
۶۰۔عاجزی اختیار کرو۔خدا غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۶۱۔بڑا سخی وہ ہے جس نے علم سیکھا اور پھیلایا۔
۶۲۔بے ضرورت مہمان نہ بنو۔
۶۳۔میزبان کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنو کہ وہ تمہیں بوجھ سمجھنے لگے۔
۶۴۔یتیم کی عزت کرو۔اس کے ساتھ زیادتی نہ کرو،اس کو کھانا کھلاؤ اور اس کی ضرورتیں پوری کرو۔
۶۵۔پڑوسی کی عزت کرو۔
۶۶۔بھولے بھٹکے اور اندھے کو راستہ بتانا صدقہ دینے جیسی نیکی ہے۔
۶۷۔جو کسی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔
۶۹۔جانوروں کو آپس میں مت لڑاؤ۔
۷۰۔کسی کے گھر جاؤ تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے گھر والے کی اجازت لو۔
۷۱۔مجلس میں جاؤ تو سلام کہو۔جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جاؤ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھو۔
۷۲۔زیادہ ہنسا نہ کرو۔
۷۳۔بات مختصر کیا کرو۔
۷۴۔اپنے بالوں کو سنوار کر رکھا کرو۔سر پر تیل لگایا کرو اور بالوں میں کنگھی کیا کرو۔
۷۵۔چھینکتے وقت منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیا کرو۔جمائی لیتے وقت بھی ایسا ہی کیا کرو۔
۷۶۔کسی بیمار کی خبر گیری کے لئے جاؤ تو زیادہ دیر اس کے پاس نہ بیٹھو۔
۷۷۔صبح سویرے جاگنے کی عادت ڈالو۔
۷۸۔نجومیوں کی باتوں پر یقین نہ کرو۔
۷۹۔جادو ٹونے کرنا سخت گناہ ہے۔
۸۰۔اپنے سر پر قرض کا بار نہ ہونے دو۔
۸۱۔کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے وقت اپنا نام بتاؤ۔
۸۲۔سونے سے پہلے بستر کو جھاڑ لیا کرو۔
۸۳۔جوتا پہننے سے پہلے جوتے کو جھاڑ لیا کرو۔
۸۴۔ہمیشہ بسم اللہ پڑھ کر دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔
۸۵۔کھانا ٹھنڈا کر کے کھاؤ۔
۸۶۔کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھو لو۔
۸۷۔ہمیشہ کچھ بھوک رکھ کر کھاؤ۔ٹھونس ٹھونس کر کھانا مسلمان کا طریقہ نہیں۔
۸۸۔کھانا کھاتے ہی نہ سو جایا کرو۔
۸۹۔کھانے میں عیب نہ نکالو۔خواہش نہ ہو تو چھوڑ دو۔
۹۰۔بیمار کو کھانے کے لئے مجبور نہ کرو۔
۹۱۔پانی کھڑے ہو کر نہ پیو ۔
۹۲۔پانی کے برتن میں سانس نہ لو نہ اس میں پھونک مارو۔
۹۳۔ایک سانس میں پانی نہ پیو بلکہ تین سانس میں پیو۔
۹۴۔کھانا کھاکر اور پانی پی کر اللہ کاشکر ضرور ادا کرو۔
۹۵۔سادہ لیکن صاف ستھرا لباس پہنا کرو۔
۹۶۔سفید لباس پاکیزہ اور پسندیدہ ہے۔ 
۹۷۔مردوں کو عورتوں جیسا اور عورتوں کو مردوں جیسا لباس نہیں پہننا چاہئے۔
۹۸۔مردوں کو شوخ یا سرخ رنگ کے کپڑے نہ پہننے چاہئیں۔
۹۹۔ایسا لباس نہ پہنو جس میں تم دوسروں سے بڑے یا بر تر دکھائی دو۔
۱۰۰۔ایسا لبا س نہ پہنو جو زمین پر گھسٹتا ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top