skip to Main Content
رحم دل

رحم دل

محمد الیاس نواز

کردار

شمشاد صاحب: ایک رحم دل انسان۔

بیگم: شمشاد صاحب کی اہلیہ۔

ممنون : ایک یتیم اور لاوارث بچہ۔

بچے: شمشاد صاحب کے اپنے اور محلے داروں کے۔

پسِ پردہ آوز: امام صاحب کی۔

عدنان: شمشاد صاحب کا بیٹا۔

پسِ منظر

شمشاد صاحب ایک انتہائی رحم دل اور ملنسار انسان ہیں۔کسی کی تکلیف دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مجبور کی مدد کئے بغیر رہ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سب لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔بعض دفعہ لوگ ان کی نیک دلی کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اور بعض لوگ انہیں بیوقو ف بھی کہتے ہیں۔مگر انہیں نہ تو اسکی پروا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی فرق پڑ تا ہے۔۔۔آئیے دیکھتے ہیں کہ آج عید کے دن وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

منظر

عید گاہ کا منظر ہے خوبصورت مصلّوں پر نئی پوشاکیں پہنے ،نئی ٹوپیاں لگائے نمازی بیٹھے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی شامل ہے۔اِرد گرد غبارے نظر آرہے ہیں ۔ہر طرف خوشبو ،خوبصورتی ،پاکیزگی اور رنگینی ہے۔نماز ہو چکی ہے۔امام صاحب بہت عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کروا رہے ہیں۔نمازی اسی جذبے کے ساتھ آمین کہہ رہے ہیں۔

 

پردہ اٹھتا ہے

 

امام :’’یارب العالمین !۔۔۔ہم پر اپنی رحمت نازل فرما۔‘‘

 

نمازی:’’آمین۔‘‘

 

امام:’’اے ہمارے رب !۔۔۔ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے رحم پیدا فرما۔‘‘

 

نمازی:’’آمین۔‘‘

 

امام:’’اے رب العزت! ۔۔۔ہمیں جہنم کی آگ سے نجات عطا ء فرما۔‘‘

 

نمازی :’’آمین۔‘‘

 

امام:’’اے ربِ رحیم!۔۔۔ہماری دعاؤں کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما۔

 

نمازی:آمین

 

امام:’’وَ صَلَّی اللَٰہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیرِ خَلقِہٖ مُحَمَّد وَ عَلیٰ آلہٖ وَ اَصحابہٖ اَجمَعِئن ،آمین،بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِین۔

 

(نمازی منہ پر ہاتھ پھیر کر دعا ختم کرتے ہیں۔پسِ منظر میں خوشی کا ترانہ بجنے لگتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے عید ملنے لگتے ہیں ۔شمشاد صاحب بھی بالکل سامنے ہی کھڑے لوگوں سے عید مل رہے ہیں۔لوگ ہاتھوں میں مصلے لئے آہستہ آہستہ عید ملتے ملاتے جارہے ہیں۔مگر شمشاد صاحب کے گرد اپنے بچوں کے علاوہ محلے کے کافی بچوں کا حصار ہے۔شمشاد صاحب ہر بچے کو گلے لگا کر جیب سے ایک نوٹ نکال کر دیتے جارہے ہیں۔عید ملنے اور عیدی بانٹنے کے بعد وہ بچوں کے جھرمٹ میں گھر جانے لگتے ہیں کہ اچانک ان کی نظر عید گاہ کی ایک طرف بیٹھے بچے پر پڑتی ہے۔پسِ منظر میں بجنے والے نغمے کی آواز بند ہو جاتی ہے۔اور کسی ساز کی آواز آنے لگتی ہے جس میں حیرانی کا تاثر ہے۔بچے بھی پیچھے پیچھے ہو لیتے ہیں۔وہ بچے کے پاس جاکر رک جاتے ہیں اور حیرانی سے چند لمحے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔بچہ حیرانی اور غیر یقینی کی کیفیت کے ساتھ آہستہ سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔اور سر اٹھا کر شمشاد صاحب کی طرف دیکھتاہے۔شمشاد صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں۔پسِ منظر میں جذباتی تاثر والے ساز کی آواز آتی ہے چند لمحے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔پھر ساز کی آواز یکا یک بند ہو جاتی ہے اور شمشاد صاحب کی آوازآتی ہے۔)

 

شمشاد صاحب:(حیرانی سے بچے سے مخاطب ہو کر)’’بیٹا کیا بات ہے؟آج عید کا دن ہے،اور عید کا دن تو خوشیوں کا دن ہوتا ہے۔ تمام بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہیں، نئے جوتے پہنے ہیں اور ان کے چہروں پر خوشیاں ہیں مگر تم نے ایسا نہیں کیا؟نہ تم نے نئے کپڑے پہنے ،نہ جوتے۔۔۔اور پھر تم اکیلے یہاں بیٹھے ہو،آخر کیوں ؟اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

 

بچہ:(پہلے چند ثانئے سر جھکائے زمین کو تکتا ہے اور پھر بولنے لگتا ہے۔)’’چچا جان میرا نام ممنون ہے اور میرے تو سر پرہاتھ رکھنے والا بھی کوئی نہیں تو بھلا مجھے کپڑے اور جوتے کون دلائے گا؟‘‘

 

(فضا مغموم ہو جاتی ہے۔ماحول میں پسِ منظر سے آنے والی بانسری جیسے کسی ساز یا کسی غمگین الاپ کی آواز سنائی دینے لگتی ہے۔شمشاد صاحب کے سوال کے ساتھ ساز کی آواز رکتی ہے۔)

 

شمشاد صاحب:’’کیوں بیٹا آپ کے والد کہاں گئے؟‘‘

 

ممنوں:’’اللہ کو پیارے ہو گئے۔‘‘

 

(ایک مرتبہ پھر غمگین سازاور الاپ سے ماحول افسردہ ہو جاتا ہے۔)

 

شمشاد صاحب:(افسردہ لہجے میں)’’اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔۔۔اور والدہ؟‘‘

 

ممنون:’’چچا جان !والدہ نے دوسری شادی کرلی۔۔۔اور ان کے گھر والے مناسب نہیں سمجھتے کہ وہ مجھے ساتھ رکھیں۔۔۔اس لئے والدہ مجبور ہیں۔۔۔ان کو اجازت نہیں کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھیں۔‘‘

 

(ماحول میں ایک مرتبہ پھر افسردگی چھا جاتی ہے۔ساز پھر بجنے لگتا ہے۔شمشاد صاحب اور ممنون چند ثانئے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر ممنون زمین کو تکنے لگتا ہے۔جبکہ شمشاد صاحب کسی گہری سوچ میں گم اسے ہی دیکھتے رہتے ہیں۔پھر چند لمحوں کے بعد جھر جھری سی لے کر خیالات کی دنیا سے باہر آتے ہیں، آنسو پو نچھتے ہیں اورمسکرا کر ممنون کی طرف دیکھتے ہیں اور دفعتاً اس کو گود میں اٹھا لیتے ہیں۔اور اس سے مخاطب ہوتے ہیں)

 

شمشاد صاحب:’’بیٹا مایوس یا غمگین ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کیا تم پسند کرو گے کہ ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلو۔۔۔ہم تمہارے والد کو تو واپس نہیں لاسکتے مگر تمہیں اپنا بیٹا تو بنا سکتے ہیں ناں۔۔۔۔تو چلیں؟

 

(ممنون شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلاتا ہے۔شمشاد صاحب اپنے بیٹے عدنان کے ہاتھ میں پکڑے غباروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔۔۔عدنان ایک غبارہ شمشاد صاحب کی طرف بڑھاتا ہے ،جسے وہ لے کر ممنون کو دے دیتے ہیں۔سب کے چہروں پر خوشی عیاں ہے۔پسِ منظر میں خوبصورت آواز میں’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘بجنے لگتی ہے۔شمشاد صاحب ممنون کو گود میں اٹھائے بچوں کے جھرمٹ میں گھر کی طرف جاتے ہیں)

دوسرا منظر

(بیگم شمشاد دستر خوان پر عید کے خاص ناشتے کا سامان چن رہی ہیں اور ساتھ ہی خود کلامی بھی کر رہی ہیں)

 

بیگم شمشاد :’’اللہ جانے کہاں رہ گئے۔۔۔آج تو کچھ زیادہ ہی دیر کردی۔۔۔ملنسار بھی تو بہت ہیں۔ بچہ بچہ تو انہیں روک لیتا ہے۔۔۔خیر آتے ہی ہوں گے اب تو۔۔۔‘‘

 

(اتنے میں شمشاد صاحب بچوں کے جھرمٹ میں اندر داخل ہوتے ہیں۔)

 

شمشاد صاحب:’’السلام علیکم۔۔۔اور بہت بہت عید مبارک۔‘‘

 

بیگم شمشاد:’’ وعلیکم السلام !ارے بھئی آپ کو بھی بہت بہت عید مبارک۔۔۔کہاں رہ گئے تھے آپ۔۔۔ہائیں یہ بچہ کس کا اٹھا لائے ہیں؟‘‘

 

شمشاد صاحب:’’کسی کا کیوں۔۔۔ہمارا پنا ہے بھئی۔‘‘

 

بیگم شمشاد: (حیرانی سے)’’عید گاہ میں اس بار بچے بٹ رہے تھے کیا؟‘‘

 

شمشاد صاحب:’’ایسا ہی سمجھ لیجئے کہ بچے بٹ رہے تھے مگر ہر کسی کے حصے میں نہیں آیا۔۔۔اور ہاں اس بار نہیں۔۔۔ہمارے بچپن سے بٹتے آرہے ہیں ۔۔۔آپ کو پتا ہے کہ ابا جی ہمیں بھی عید گاہ سے ہی لائے تھے۔۔۔آج ہم یہ قرض اور فرض دونوں ادا کر رہے ہیں بیگم!۔۔۔یہ بچہ عیدگاہ میں ایک طرف اداس بیٹھا تھا۔۔۔اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور والدہ کی جہاں دوسری شادی ہوئی انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔آگے آپ سمجھ دار ہیں۔۔۔ سمجھ گئی ہوں گی۔‘‘

 

بیگم شمشاد :’’بس بس عدنان کے اباہم سمجھ گئے ہیں۔۔۔واہ عدنان کے ابا واہ۔۔۔ میں کہتی ہوں آج تو آپ نے کما ل ہی کردیا۔۔۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں ایک یتیم کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا ہو اور وہ واقعہ تو آپ کو یاد ہو گا سیرت کا۔۔۔‘‘

 

(اتنے میں پسِ پردہ قصیدہ بردہ شریف کی آواز آنے لگتی ہے۔اور بیگم شمشاداپنی بات کو آگے بڑھاتی ہیں)

 

بیگم شمشاد:’’ہمارے نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ عید کی نماز کے لیے عید گاہ تشریف لے جارہے تھے تو بالکل اسی طرح ایک بچہ غمگین بیٹھا تھا جس کے ابو کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی امی کی جہاں دوسری شادی ہوئی انھوں نے اس بچے کو قبول نہیں کیا۔۔۔آپﷺ اس بچے کو گھر لے آئے اور فرمایا کہ آج سے محمدﷺ تمہارے والد اور عائشہؓ تمہاری والدہ ہیں۔۔۔‘‘

 

(بیگم شمشاد کھیر نکال کر اپنے ہاتھ سے ممنون کو کھلانے لگتی ہیں۔۔۔سب کے چہروں پر خوشی پھیل جاتی ہے۔)

 

پردہ گرتا ہے

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top