skip to Main Content

ذرا سیالکوٹ تک۔۔۔۔

محمدعلی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنی حیرت کی بات ہے یارکہ۔۔۔۔۔‘‘ ارسلان نے فقرہ اُدھورا چھوڑتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو چبانے لگا۔
’’یار تجھے تو معلوم ہی ہے کہ بیس سال سے ہم اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ‘‘حیدر نے تحمل مزاجی سے کہا اور ہوم ورک کرنے میں مصروف ہوگیا۔
’’پھر بھی یار! اچھا یہ بتاؤ چھٹیوں میں گاؤں جاتے ہو۔کبھی اس بارے میں خیال نہیں آیا۔‘‘ارسلان نے ایک دفعہ پھرحیرت کا اظہار کیا۔
’’یار سکول کی مصروفیات اتنی ہیں کہ کبھی موقع ہی نہیں ملا۔‘‘ حیدر نے بہانہ بناتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
’’ویسے یار ایک خوشی کی بات معلوم ہوئی ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘
’’سکول میں اکٹھی تین چار چھٹیاں آرہی ہیں۔‘‘ حیدر نے ارسلان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے۔اس طرح تفریح کی تفریح ہو جائے گی اور معلومات بھی حاصل ہوجائیں گی۔‘‘ارسلان نے حیدر کی طرف متلاشی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا
’’ٹھیک ہے یار!اگر تیری اسی میں خوشی ہے تو چلتے ہیں۔‘‘حیدر نے ہاں میں جواب دیا
ارسلان اور حیدر ایف جی ماڈل سکول آئی ٹین ٹو اسلام آباد میں زیر تعلیم تھے۔پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ا چھے دوست بھی تھے۔ بس کسی بات پر اگر تُو تُو مَیں مَیں ہو جاتی تو والدین کو بڑی فکر پڑ جاتی تھی۔آج جب استاد صاحب نے علامہ اقبال کا سبق پڑھایا تو دونوں دوستوں میں ایک اشتیاق پید اہوگیا۔ یہ ان کو پتہ تھا کہ علامہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے ارسلان ،حیدر سے اِسی بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ 21اور 22اپریل کو ہفتہ اور اتوار آرہے تھے اور جمعہ والے دن اُن کا سپورٹس کا دن تھا۔ جس کی وجہ سے ان کو تین چھٹیاں اکٹھی آرہی تھیں۔ ایسے وقت میں سیالکوٹ کی سیر اور علامہ اقبال کا گھر دیکھنا ہی اولین ترجیح تھا۔
20اپریل کو ارسلان اور حیدر نے اپنے اپنے والدین سے اجازت لی اور سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔ ارسلان اور حیدر کا گھر نیول اینکرج میں تھا۔جوکہ نئی کالونی آباد ہوئی تھی۔اس لیے یہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بالکل نہیں تھا۔ارسلان اور حیدر،حیدر کے بھائی حسن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر فیض آباد تک آئے۔ حسن بھائی اُنہیں چھوڑ کر اپنے دفتر چلے گئے۔سیالکوٹ کی گاڑی میں بیٹھے جسے اﷲ اﷲ کر کے چار گھنٹے میں ہمیں اپنی منزل تک پہنچا دیا۔
’’ہاں جی استاد جی کتنا کرایہ ہے۔‘‘ ارسلان نے آگے بڑھ کر ایک رکشے والے سے پوچھا
’’کتھے جانا اے(کہاں جانا ہے)‘‘رکشے والے نے چھالیہ کی یلغار سڑک پر کرتے ہوئے جواباً پوچھا
’’تحصیل بازار جانا ہے۔‘‘حیدر نے جواب میں کہا
’’بھاؤ جی80 روپے لوؤں گا۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ پٹرول نے بھی اپنی سنچری مکمل کر لی ہے اور ٹنڈولکر نے بھی اس لیے ہم نے مہنگائی کے ہاتھوں سے پریشان ہوکر،یہ کرایہ بتایا ہے۔‘‘رکشہ والے نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے پورا کا پورا خبرنامہ ارسلان اور حیدرکو سُنا دیا۔اس خبرنامہ سے ارسلان اور حیدر پریشان ہوکر سواری والے رکشہ کی طرف چلے گئے جو منزل کے قریب لے جائے گا۔
’’شہر جانا اے۔۔۔۔شہر‘‘ کی آوازیں بلند ہورہی تھی جس کی کا مطلب یہ تھا کہ یہ ہی سواری والا رکشہ ہے۔رکشہ خالی تھی جس میں ارسلان اور حیدر دونوں بیٹھ گئے۔سواریاں مکمل ہونے کے بعد رکشہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ارسلان ارگرد کی عمارتوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’یار یہ رکشہ ہمیں ڈرموں والے چوک پراُتار دے گا،آگے ہمیں پیدل ہی جاناہو گا۔‘‘ حیدر نے ارسلان کے کان میں کہا
تھوڑی دیر بعد رکشہ والے نے ڈرموں والے چوک پر رکشہ روک دیا۔ رکشہ میں صرف آخر میں بھی ارسلان اور حیدر ہی رہ گئے تھے۔ رکشہ جہاں روکا وہاں ایک جوس والی بڑی سی دکان تھی جسے دیکھ کر ارسلان کی پیاس جاگ اُٹھی ۔ دکان سے جوس پی کر ارسلان اور حیدر اپنے کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈرموں والے چوک سے سامنے والی گلی میں ناک کی سیدھ میں جانے سے تحصیل بازار کی رونقیں نظر آنے شروع ہوگئیں۔ تحصیل بازار میں داخل ہوتے ہی ساتھ دو بڑی جوسوں کی دکانیں تھیں جو حیدر کے ماموں کے گھر آجانے کی نشانی تھی۔دکانوں کے ساتھ ایک گلی میں حیدر کے ماموں کا گھر تھا۔حیدر نے گھر پر پہنچ کر دستک دی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ماموں کا بیٹا عمران باہر نکلا۔ عمران نے گرم جوشی سے ارسلان اور حیدر کو گلے لگایا۔
’’کیوں بھئی! آج تم سکول نہیں گے؟‘‘ حیدر نے ہنستے ہوئے کہا
’’بس بھائی جان !آج چھٹی کر لی ہے۔ ہفتہ کے دن سکول جانے کا دل ہی نہیں چاہتا ہے۔‘‘عمران نے وضاحت سے جواب دیا۔
ممانی جان ارسلان اورحیدر کے لیے شربت لے آئیں۔ شربت پینے کے ساتھ ساتھ گھر کا بغور معائنہ کررہے تھے۔
’’ممانی جان! گھر بہت بہترین بنالیا ہے۔‘‘حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا
’’ہاں حیدر بیٹا! چودہ سال تک مصبیت برداشت کی۔ اب اﷲ کا شکر ہے کہ گھر اچھا بن گیا ہے۔‘‘ ممانی جان نے جواباًکہا
’’حیدر بھائی یہ آپ کے ساتھ یہ کون ہیں۔‘‘عمران نے ارسلان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’او۔۔۔معاف کرنا۔اس کے بارے میں بتانا بھول گیا۔یہ میرا دوست ارسلان ہے ۔ اس کو علامہ اقبال کا گھر دیکھنا تھا۔ اس لیے میں اپنے ساتھ لایا ہوں۔‘‘ حیدر نے اپنے دوست کا اورآنے کا مقصد بتایا۔
’’علامہ اقبال کا گھر مجھے بھی دیکھنا ہے۔‘‘ عمران نے ہامی بھرتے ہوئے کہا
’’ویسے ماموں کہیں نظر نہیں آرہے ہیں؟‘‘ حیدر نے سوالیہ انداز میں پوچھتے ہوئے کہا
’’وہ فیکٹری گئے ہیں۔‘‘ ممانی جان نے جواب میں کہا
ارسلان اور حیدر نے تھوڑی دیر آرام کیا اور گھومنے کے لیے عمران کو ساتھ لے لیا۔ سیالکوٹ میں دیکھنے کی کم ہی جہگیں تھیں۔ سب سے پہلے عمران اُن کو امام صاحب لے گیا۔جہاں بہت سے اولیا ء اﷲ مدفن ہیں۔ عورتوں، بچوں کا کافی ہجوم تھا۔ وہاں سے تھوڑی دیر روکے ،دعا پڑھی اور امام صاحب کے مختلف کمروں کا جائزہ لیا۔اس کے بعد باری آئی قلعہ دیکھنے کی۔
’’یار یہ قلعہ کوئی بادشاہی قلعہ ہے کیا؟‘‘ارسلان نے اشتیاق سے پوچھا
’’نہیں یار! ویسے ہی قلعہ بنا ہوا تھا۔اب اُس کی بس ایک دیوار ہی سلامت بچی ہے۔جس کے ارگرد مختلف ہوٹلز اور دکانیں کھل گئی ہیں۔‘‘ عمران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’اگر وقت ہوتو مرے کالج بھی چلیں گے،دیکھتے ہیں علامہ اقبال کیسے کالج میں پڑھتے تھے۔مرے کالج کیسا نظر آتا ہے۔‘‘حیدر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا
’’ضرور چلیں گئے۔‘‘عمران نے تحمل مزاجی سے جواب دیا
مرے کالج کی قدیم عمارت بھی حکومت کی عدم توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس لیے افسردہ چہرہ لے کر واپس گھر آگئے۔گھر پر ماموں ارسلان ،حیدر اور عمران کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔
’’تمھاری ممانی جان بتا رہیں تھیں کہ بچوں نے علامہ اقبال کا گھر دیکھنا ہے۔‘‘ ماموں جان نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے پوچھا
’’جی!ہمارا یہاں آنا کا مقصد بھی یہی تھا۔‘‘حیدرنے جواب دیا
’’آج تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔کل ویسے بھی علامہ اقبال کی برسی ہے اور علامہ اقبال کے گھر کو خوب صورت بنایا ہوگا۔جسے دیکھنے میں بھی لطف آئے گا۔‘‘ ماموں جان نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا
’’ٹھیک ہے ماموں جان۔‘‘ اس بار ارسلان نے جواب دیا
ارسلان ، حیدر اور عمران اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور رات کے ساہ سائے گھر کے آنگن میں چھانے لگے۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ سب کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔
’’تم دونوں تھک گئے ہوگئے۔ اس لیے اب آرام کرلو۔‘‘ ماموں جان نے پیار بھرے انداز میں کہا
تھکاوٹ تو ویسے بھی ارسلان اور حیدر کو بہت تھی۔ا س لیے جیسے ہی وہ بستر پر لیٹے نیند کی وادی میں چلے گئے۔

*****

’’جلدی کرو عمران،ورنہ ہم تمھیں چھوڑ کر چلے جائیں گئے۔ ‘‘ ماموں جان نے بلند آواز میں کہا
’’بس ایک منٹ ابو،دروازے کی چابی نہیں مل رہی ہے۔وہی ڈھونڈرہا ہوں۔‘‘عمران نے پریشانی سے اپنا مسئلہ بتایا
آوہو۔۔۔چابی میرے پاس ہے۔اب آجاؤ۔‘‘اس دفعہ ممانی جان نے کہا
اﷲ اﷲ کر کے علامہ اقبال کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ دو تین گلیاں چھوڑ کر علامہ اقبال کا گھر آگیا
علامہ اقبال کے گھر کے باہر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر کنندہ تھا’’اقبال ہاؤس‘‘
’’بچوں یہ ہے ہمارے علامہ اقبال کا گھر ،جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔‘‘ ماموں جان نے پیار بھرے انداز سے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا
سارے گھر کے اندر چلے گئے۔جہاں پر دو آدمی ایک طرف کو بیٹھے ہوئے تھے اور میز پر ایک رجسٹر پڑا ہواتھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’تاثرات والا رجسٹر‘‘۔حیدر ، اسلارن اور عمران بائیں طرف کے کمرے میں چلے گئے۔کمرے کے اُوپر لکھاتھا’’علامہ اقبال کی پیدائش گاہ‘‘۔
’’عمران یہ دیکھو، اس پنگھوڑے میں علامہ اقبال بچپن میں جولا لیتے تھے۔‘‘حیدر نے عمران کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا
لکٹری کا پنگوڑا بہت خوبصورت بناہواتھا۔پنگوڑے کے سامنے ایک زنگ آلود صندوق رکھا ہوا تھا۔
’’یار اس صندوق میں علامہ اقبال اپنے کپٹرے رکھتے ہوں گئے۔‘‘ ارسلان نے انکشا ف کیا۔
عمران جو دیواروں پر لگی تصاویر و اسناد دیکھ رہاتھا بالاآخر بول پڑا’’یار جوانی میں علامہ اقبال کتنے پُر کشش اور خوبصورت تھے اور تحریک پاکستان کے سپاہیوں کے ساتھ اُن کی تصاویر کتنی اچھی آئی ہوئی تھیں۔‘‘
اُس کمرے کو دیکھنے کے بعد وہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھے۔ کمرے پر لکھا تھا’’علامہ اقبال کی زیر استعمال چیزیں‘‘ ۔ارسلان سب سے پہلے وہ
رولنگ چیئر ڈھونڈنے لگا،جس پر بیٹھ کر علامہ اقبال سوچ کے ساغر میں ڈوب جاتے تھے۔ بڑی کوشش کے بعد بھی کہیں دکھائی نہ دی۔ تھک ہار کر ارسلان بول پڑا’’ حیدر اور عمران کام کی چیز ہے ہی نہیں۔ اب کیا فائدہ۔۔۔۔‘‘ ارسلان کی ناسمجھ آنے والی گفتگو سے تھوڑے سے پریشان ہوگئے کہ آخر ارسلان کو ہوا کیا ہے؟کیوں یہ بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے؟
’’کیا ہوا ہے؟کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘حیدر نے پوچھ ہی لیا
’’حیدر میرے خواہش تھی کہ علامہ اقبال کی رولنگ چیئر پر بیٹھ کر
علامہ اقبال والا اسٹائل بناتا۔‘‘ ارسلان نے معصومانہ انداز میں اپنا مسئلہ بتایا۔
باہر والے دروازے کے سامنے ہی سیٹرھیاں بنی ہوئی تھیں۔ارسلان،حیدر اور عمران سیٹرھیوں سے اُوپر والی منزل پر چلے گئے۔ایک کمرے پر لکھا ہوا تھا ’’علامہ اقبال کی آرام گاہ‘‘۔اُس میں داخل ہو گئے۔ علامہ اقبال کے آرام گاہ میں ایک طرف ایک پلنگ رکھا ہوا تھا۔ جسے دیکھ کر ارسلان نے حیرت سے کہا’’ اتنے سال ہوگئے یہ پلنگ ابھی بھی نیا کا نیا ہی لگ رہا ہے۔‘‘
’’چھت کا پنکھا دیکھو، ایسا لٹکا ہوا ہے کہ کبھی بھی زمین پر آسکتا ہے۔ ‘‘ عمران نے بھی اپنی رائے دی۔
ڈارئنگ روم میں ایک بڑی گول میز اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔کمرے کے ساتھ ایک بالکونی بھی تھی۔ ارسلان نے بالکونی کا دروازہ کھولا اور شہر کا نظارہ کرنے لگا۔
’’ارسلان یہ وہی عظیم بالکونی ہے۔ جہاں پر کھڑے ہوکر قائداعظم نے خطاب کیا تھا۔‘‘حیدر نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا
’’ارے۔۔۔۔۔ یہ دیکھو،ایک خفیہ راستہ بناہوا ہے۔‘‘عمران نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا
’’ پرانے وقتوں میں گھروں میں ایک خفیہ راستہ ضرور بنایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشکل وقت میں وہاں سے آسانی سے نکلا جاسکے۔‘‘ ارسلان نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا
’’علامہ اقبال کی مطبوعات‘‘والے دروازے پر ایک بڑا سا تالا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ تقربیاً دو تین گھنٹے میں علامہ اقبال کا پورے گھر گھوم چکے تھے۔ ارسلان ، حیدر اور عمران نے تاثرات والے رجسٹر میں اپنا نام ، پتہ اور تاثرات لکھے۔
’’کیوں کیسا لگا علامہ اقبال کا گھر‘‘ ماموں جان نے پوچھا
’’بہت بہت اچھا لگا۔‘‘ حیدر اور ارسلان نے خوشی کے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے جواب دیا
’’بیٹا!تمھاری وجہ سے پہلی مرتبہ میں نے بھی گھر دیکھ لیا۔ ورنہ میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔‘‘ ممانی جان نے پیار کرتے ہوئے کہا
علامہ اقبال کے گھر سے تقریباً دس منٹ میں اپنے گھر پہنچ گئے۔ سب کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔اگلے دن ارسلان اور حیدر واپس اپنے گھر روانہ ہوگئے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top