skip to Main Content

دیہاتی آفیسر

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’احمد دیکھ! تیرے دوست نے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے۔‘‘
’’کیا !ارے یہ تو کیا کہہ رہا ہے واقعی!!!‘‘
’’یہ دیکھ لے اگر تجھے یقین نہیں آرہا تو تیرے دوست کی تصویر اخبا ر میں چھپی ہے۔‘‘ اسلم نے ہاتھ میں پکڑا اخبار احمد کی جانب بڑھایا۔‘‘
’’ارے واقعی! ادھر تو آیار گلے نہیں لگے گا۔‘‘ احمد نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا اور دونوں دوست گلے لگے گئے۔
’’اتنی بڑی خبر اور خالی ہاتھ، کوئی مٹھائی شٹھائی‘‘
’’دراصل بات یہ ہے کہ یہ خبر سب سے پہلے تجھے دینا آیا ہوں اور ابھی تو گھر جا کر سب کو اطلاع کرنی ہے اس کے بعد مٹھائی بھی کھلادوں گا۔‘‘
’’اچھا پھر تو جلدی سے گھر جا اور خوب دعائیں اور مبارکیں اکٹھی کر۔ ‘‘احمد نے اخبار لوٹاتے ہوئے کہا
’’اچھاتو اجازت دے ، شام کو ملاقات ہوگی‘‘اتنا کہہ کر اسلم گھر کی جانب چل دیا۔
اسلم ایک غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا ذہین لڑکا تھا۔ نہایت قابل اور ذہین ہونے کی وجہ سے اس کا تعلیمی کیرئیر ہمیشہ شاندار رہا مگر اسے اپنی ایک ٹانگ کے ناکارہ ہونے کا احساس ہمیشہ رہا ایکسیڈنٹ کے بعد ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا اور خدا سے دعا کرنے کو کہا کیوں کہ ان کے مطابق ٹانگ کی نشوونما نہیں رکی تھی جس کا مطلب تھا کہ کسی بھی وقت اس کی ٹانگ ٹھیک بلکہ بالکل ٹھیک ہو سکتی تھی۔ اسکول میں لڑکے اسے بہت تنگ کرتے مگر اسے اس کے اساتذہ نے کبھی احساس کمتری میں مبتلا ہونے نہیں دیا۔ اسلم کا واحد دوست احمد تھا جو اس کا بچپن کا دوست بھی تھا اور پڑوسی بھی۔تمام بچوں کی طرح ان دونوں نے بھی اپنے بچپن کی خوشیوں کو خوب لوٹا۔ ایکسیڈنٹ سے قبل، صبح اکٹھے سیر کے لیے نکلنا، نہر پر جاکر نہانا، دوپہر کو آرام کی بجائے لوگوں کے درختوں سے پھلوں کا صفایا کرنا اور شام کو اکٹھے کھیلنا، الغرض دونوں نے اس طرح بچپن گزار ا گویا ایک ہی گھر کے افراد ہوں۔احمدہی تھا جو اسے مشکل وقت میں حوصلہ دیتا اس کے دکھوں میں شریک ہوتا اس کی خوشیوں کو اس لیے اور زیادہ رنگیں بناتا۔ احمدنے جونہی ہوش سنبھالا اور ورکشاپ میں کام کرنا شروع کردیا کیوں کہ اسے پڑھنے لکھنے کا ذرابھی شوق نہیں تھا مگر پھر بھی اسلم نے اسے لکھنے پڑھنے کی حد تک علم سے روشناس کرواہی دیا۔

*****

شام تک اسلم رشتہ داروں سے فارغ ہو چکا تھا لہذا وہ احمد کی طرف چل دیا۔
’’یہ لے یار منہ میٹھا کر‘‘ اسلم نے مٹھائی کا ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا
’’ٹھہرجا، میں نے چائے منگوائی ہے پھر مل کر کھاتے ہیں۔مجھے یہ بتا مستقبل کے کیا ارادے ہیں۔‘‘
’’پہلے سوچتا تھاکہ پڑھوں ،مگر اب لگتا ہے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔‘‘
’’ارے! یہ تو کیا کہہ رہا ہے، کیا تو کالج بھی نہیں جائے گا اور وہ جو تیرا افسر بننے کا خواب تھا اُس کا کیا ہوگا۔‘‘ احمد نے حیرت سے پوچھا
’’وہ سب خواب میری معذوری سے پہلے تھے مگر اب مجھے احساس ہے کہ ایک نارمل اور معذور انسان میں کتنا فرق ہے۔‘‘ اسلم نے سرد آہ بھری
’’نہیں ، یہ تیری غلط سوچ ہے،بھول گیا! تیرا پاؤں کسی بھی لمحے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ تجھ میں بے پنا ہ صلاحتیں ہیں اگر تو ان کا استعمال نہیں کرے گا تو خدا کا نا شکرا بنے گا۔خدانے تجھے کروڑوں سے بہتر بنایا ہے اُس کی ناشکری مت کر۔‘‘
’’یہ سب تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔۔۔‘‘ اسلم نے کچھ کہنا چاہا مگر رک گیا۔
’’مگر کیا۔۔۔۔۔؟‘‘
’’سکول میں تو اگر کوئی لڑکا مجھے تنگ کرتا تو اس کی خبرلینے کے لیے استاد صاحب موجود ہوتے مگر۔۔۔۔۔ تو تو جانتا ہے کالج کا ماحول کتنا آزاد ہوتا ہے۔ لڑکوں کے طنزیہ الفاظ کس قد ر اذیت ناک ہوتے ہیں اس کا احساس صرف مجھے ہے۔‘‘اسلم کی آواز بھرا گئی۔
’’تجھے ان کی باتوں کو دل پر لینے کو کس نے کہا ہے۔ تجھے کالج جا کر پڑھنا ہے اپنا خواب پورا کرنا ہے اور رہی بات لڑکوں کی ۔ اگر کسی نے کچھ کہا نا تو مجھے میں اس کاوہ حشر کروں گا کہ آئندہ ایک لفظ نہ بولے گا۔‘‘احمد نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی تسلی دی۔
’’ویسے دل تو میرا بھی کرتا ہے پڑھنے کو ، مگر حالات دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا ہوں۔‘‘
’’دیکھا! اصل بات آگئی نا منہ پر اور باقی باتوں کی تو فکر نہ کر ۔بس تو پھر پکا۔۔۔توکالج ضرور داخل ہوگا۔ ‘‘ احمد نے فیصلہ سنادیا
’’مگر یار کالج توگھر سے کافی دورہے میں روز اتنا سفر کیسے کروں گا۔‘‘ اسلم نے بنیادی مسئلہ بیان کیا۔
’’یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں میں روز صبح ورکشاپ آنے سے پہلے تجھے سائیکل پرکالج چھوڑ آیا کروں گا اور دوپہر کو گھر کھانا کھانے کے لیے جانے سے پہلے تجھے کالج سے ساتھ لے لیا کروں گا۔‘‘ احمد نے مسئلے کا فوری حل نکال دیا۔
’’مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس منہ سے تیرا شکریہ ادا کروں۔‘‘
’’ارے! آئندہ کے لیے شکریہ کا لفظ میرے لیے زبان پر ہرگز نہ لانا بھلا دوست بھی دوست پر کوئی احسان کرتا ہے۔۔۔۔۔چل اب چائے پی کہیں بالکل ہی ٹھنڈی نہ ہوجائے۔‘‘احمد نے کپ منہ سے لگاتے ہوئے کہا

*****

کالج میں داخل ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد اس کے تمام اساتذہ پر یہ بات افشا ہوگئی کہ اسلم ہی ان کی کلاس کا سب سے ذہین اور محنتی طالب علم ہے ۔ کلاس میں موجود کچھ لڑکے پہلے تو اسلم سے کھنچے کھنچے رہے مگر پھر وہ اس کے دوست بن گئے اور اس کے علاوہ پڑھائی میں اس کی مدد بھی حاصل کرنے لگے۔
ہرجگہ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی قابلیت سے جلتے ہیں ان کے دلوں میں ’’حسد‘‘ کا مادہ ہرلمحہ ابل رہا ہوتا ہے اور اس حسد کا شکار نہ صرف وہ شخص ہوتا ہے جسے خدا نے بے پناہ صلاحیتوں کو نکھارنے کی قوت دی ہوتی ہے بلکہ وہ دوسروں کے دلوں کو بھی اس شخص کے خلاف میلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح کے کچھ لڑکے اسلم کے کالج میں بھی تھے۔
ایک روز اسلم چھٹی کے بعد کالج کے گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اسے کچھ فاصلے پر لڑکوں کی آوازیں گونجتی محسوس ہوئیں۔
’’یار یہ تو بڑی چیز نکلا ہر استاد اس کی تعریف کرتا ہے۔‘‘ ایک لڑکا یوں بلند آواز میں بولا جیسے وہ اپنی بات اسلم کو بتانا چاہتا ہو۔
’’ہاں یار! بڑا پڑھا کو لنگڑا ہے۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔‘‘
’’بے چارہ کھیل کود تو سکتا نہیں اب پڑھے گا ہی اور کیا کرے گا۔‘‘ ایک اور آواز گونجی بہت عرصے بعد اسلم کا دل ایک مرتبہ پھر دکھا مگر اس بار اس نے ان باتوں کو ہرگز دل پر نہیں لیا اور اپنی پڑھائی میں یوں مگن رہا جیسے اس کا تعلق صرف کتابوں سے ہواس وجہ سے اس نے پہلے سال بہت عمدہ نمبر حاصل کیے۔ اس کی کامیابی سے جس کسی کو جتنی خوشی ہوئی ہو مگر سب سے زیادہ خوشی احمد کو ہی تھی۔
’’دیکھا اسلم! میں نہ کہتا تھا کہ تو پڑھ اوردیکھنا میرے خدا نے چاہا تو ایک دن ضرور تیرا خواب پورا ہوجائے گا اور تو بڑا افسر بن جائے گا مگر یار ایک عرض ہے۔‘‘
’’آج میں مقام پر تیری وجہ سے کھڑا ہوں ہرکوئی مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور توکہتا ہے کہ ’’عرض ہے‘‘ حکم کرتو حکم کر‘‘ اسلم نے بڑے جوشیلے انداز میں کہا
’’افسر بن کر اس غریب دوست کو مت بھول جانا۔‘‘ احمد نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا
’’یہ تو نے کیا بات کی بھلا میں تجھے بھول سکتا ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر اسلم نے احمد کو گلے لگا لیا۔
کالج آنے پر اس کے تمام اساتذہ نے اسے شاباش دی اب اسلم کو اس کی کلاس میں زیادہ اہمیت دی جانے لگی اس سے اس کے چاہنے والوں کی نظر میں تو اس کی اہمیت دوگنی ہوگئی مگر اس سے جلنے والے زیادہ حسد کرنے لگے مگر اسلم نے کوئی پروا ہ نہ کی ویسے بھی یہ سال اسلم کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ انٹرمیڈیٹ کلاس کا دوسرا اور آخری سال تھا۔ اس نے اور زیاہ دل جمعی سے پڑھنا شروع کر دیا تاکہ کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری جانب خدا کی رحمت جوش میں آئی ۔دوائیوں کے بلاناغہ استعمال سے آخر اسلم کی ٹانگ بالکل ٹھیک ہوگئی اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس کو تمام طعنوں سے نجات مل گئی اور آگ برسانے والے منہ بھی بند ہوگئے اب وہ اپنی خوشی سے پیدل کالج جانے لگا۔

*****

’’اسلم جلدی چل! بہت ضروری بات کرنی ہے۔‘‘احمد نے اچانک کالج آکر اسلم کو چونکا دیا۔
’’کیا ہوا؟ کیا بات ہے جو ادھر نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’توچل تو سہی سب بتاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر احمد نے اسلم کو سائیکل پربٹھایا اور تیزی سے سائیکل اسلم کے گھر کی جانب دوڑائی۔
’’یہ رش کیسا ہے؟‘‘ اسلم کے گھر کے اندر داخل ہوا تو معلو م ہوا کہ اس کے والد جوکئی دنو ں سے بیمار تھے آج اس دنیا کو چھوڑ گئے ہیں احمد اندر آیا اور اسلم کو دلاسا دیا۔یہ واقعہ اسلم کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا مگر قدرت کو جو منظور ہو ویسا ہی ہوتا ہے۔ ایک اچھا اور سچا دوست ہونے کے ناطے احمد نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی اسلم کو پھر دلاسہ دیا اور اس کی ہمت بندھائی۔
’’احمد میں فیصلہ کر چکاہوں کہ پڑھائی چھوڑ دوں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’پہلے ہی حالات نازک ہیں اوپر سے میری پڑھائی کا بوجھ۔۔۔‘‘اسلم کہتے کہتے رک گیا۔
’’کیا بھائی جان نے کچھ کہا ہے۔‘‘
’’نہیں! مگر مجھے خود احساس ہے کہ وہ اکیلے آخر کب تک میری پڑھائی کا خرچہ اٹھائیں گے۔اور گھر کو بھی سنبھالیں گے۔‘‘
’’اگر یہی بات ہے تو میں تیری فیس دینے کو تیار ہوں ویسے بھی وہ کون سی زیادہ ہے اتنا تو میرا ہفتے کا خرچہ ہے جتنی تیر ی مہینے کی فیس ہے۔‘‘
’’مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے میں تجھ سے پیسے نہیں لے سکتا ۔‘‘
’’اگرمیرا دوست ہے تو تجھے ایسا کرنا پڑے گا پھر جب تو افسر بن جائے گا تو میں اپنے پیسے پورے کروالوں گا۔پیسوں کے معاملے میں میں کسی کو نہیں بخشتا یہ تو اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘احمد نے بڑے شائستہ انداز میں کہا
’’مگر دوست۔۔۔‘‘اسلم نے پھر کچھ کہنا چاہا۔
’’میں کچھ نہیں سنوں گا۔کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔‘‘احمد نے بات منوا کر ہی چھوڑا
اب تو اسلم اپنی پڑھائی کے معاملے میں اور زیادہ محتاط ہوگیا اس نے رات دن ایک کردیا، امتحان ختم ہونے پر اسے محسوس ہونے لگا کہ کوئی بہت بڑی کامیابی اس کی منتظر ہو ،خدا نے اسے اس کی محنت سے کہیں زیادہ عطاکیا۔اُس نے ایک دفعہ پر بورڈ میں ٹاپ کیا یہ خبر بھی اس نے سب سے پہلے اپنے حقیقی دوست کو سنائی۔ اس کے گھر والوں کو پتہ چلا تو بلائیں لینے لگے ۔اُس کی ماں تو دعائیں دیتی نہ تھکتی تھی۔اسلم کو اپنا خواب پورا ہوتے ہوئے نظر آنے لگا۔ اسلم نے شہر میں جاکر نوکری کرنے کے لیے اپنے دوست اور گھر والوں کی اجازت لی اور پھر شہرجاکر نوکری کرنے لگا وظیفے کی رقم نے اسے تعلیم جاری رکھنے میں مدد دی نہ صرف وہ بلکہ اس کا
دوست بھی اس حقیقت سے باخوبی آشنا ہوچکے تھے کہ تعلیم کا متبادل کچھ اور نہیں ہے۔ کچھ سالوں میں ہی اسلم نے ترقی کی کئی منازل طے کر لیں۔بلندیوں کی جانب اپنے اس سفر میں وہ صرف ایک دفعہ گاؤں جا سکا وہ بھی تب جب اسے اپنی ماں کے جنازے کو کندھا دینا تھا۔ اس دن واپسی پروہ اپنے دوست احمد سے ملا تو گلے لگ کر اتنا رویا کہ اتنا تو وہ اپنی ماں کے جنازے کے سامنے بھی نہ رویا ہوگا۔
’’گاؤں لوٹ آ!!!‘‘ احمد نے الوداع کرتے ہوئے کہا
’’ہاں، میں واپس ضرور آؤں گا اور بہت جلد۔۔۔ہمیشہ کے لیے۔‘‘
’’اس اکڑی وردی کو پہننے کے بعد کہیں اپنے بے ڈھنگے سلوٹوں بھرے کپڑے تو نہیں بھول گیا ہے نا؟‘‘احمد نے لطیف انداز میں پوچھا
’’کہاں یار! شہر میں جاکر انسان عزت، دولت او شہرت تو خوب کماتا ہے مگر وہاں کوئی اپنا نہیں ہوتا، آج بھی گاؤں کی یادیں میرے ساتھ ہیں۔شہر میں تو پریشانیوں کا انبار میرا دوست ہے جبکہ گاؤں میں کبھی تو نے پریشان ہونے نہیں دیا تھا۔‘‘اسلم نے بڑے سنجیدہ انداز میں کہا
’’ایک بات اور۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ تم نے مجھ سے جو ادھارلیا تھا وہ واپس کردے۔‘‘
’’بول کیا چاہیے تجھے‘‘ اسلم کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا
’’تو ہر پیسے کے بدلے ہر لمحہ میرے ساتھ بتائے گا۔یہی میرے ادھار کی واپسی کا طریقہ ہے اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں۔
’’میں نے کہا نا کہ میں آؤں گا اور ضرور آؤں گا۔‘‘
’’آخر کب ؟ جب میں تیری ماں کی طرح۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ توکیا بکواس کر رہا ہے؟ انسان کو ہمیشہ اچھی بات منہ سے نکالنی چاہیے۔ بعض لمحات ایسے ہوئے ہیں جب منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ تو سمجھتا کیوں نہیں میری کچھ مجبوریاں ہیں ،میں کوشش کر رہا ہوں کہ میرا تبادلہ اسی گاؤں یا کسی نزدیکی علاقے میں ہو
جائے۔‘‘اسلم نے یقین دہانی کروائی۔
’’ٹھیک ہے میں انتظار کروں گااور دیکھنا جب تو آئے گا تو میں تیرے سے اچھے کپڑے پہن کر تیرا استقبال کروں گا۔تجھے یوں لگے گا جیسے کوئی دیہاتی آفسر ہو۔‘‘اتنا کہہ کر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے آخر جدائی کا وقت طے تھا سو ویسا ہی ہوا۔

*****

’’ ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا مگر اسلم کی کچھ خبر نہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احمد کے دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لینے لگے کہیں اسلم کو کچھ ہو نہ گیا ہو؟ شاید اب وہ کبھی نہ لوٹے 
گا ۔ کیاپتہ اسے کام نمٹانے میں دیر ہوگئی ہو یا کیا پتہ وہ۔۔۔۔۔‘‘
ایک روز معمول کے مطابق جب احمد ورکشاپ پہنچا تو اسے ایک گندمی رنگ کی چھٹی پکڑا دی گئی۔کھول کر پڑھی تو احمد کی خوشی کو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ مارے خوشی کے اس دن کوئی کام ہی نہ کرسکا۔ کہتے ہیں کہ جب انسان اورخوشی کے درمیان وقت حائل ہوجائے تو یہ بڑا بھاری اور طویل محسوس ہونے لگتا ہے سارادن ٹہل ٹہل کر گزرا وقت کاٹے نہ کٹتا تھا اور اس کے لیے تو ابھی رات بھی باقی تھی۔ جوں توں کر کے رات گزاری اوردن ہوتے ہی تیار ہونے لگا۔ گھر پر انتظار کرنے کی بجائے اس نے اڈے پرجانا پسند کیا۔ اپنی سائیکل پر بیٹھا اور تیزی تیزی سے پیڈل مارنے لگا۔ مین روڈ پر ٹریفک بہت زیادہ تھی احمد نے جلدی سے سڑک پارک کرنے کے لیے پیڈل مارا مگر سڑک پار کرنے سے پہلے ہی اسے عقب سے آتے ہوئے ٹرک نے زبردست ٹکر مار دی۔ احمد گرا اور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا لوگوں نے لاش کو اُٹھایا شناخت ہو جانے پر اس کے گھر کے باہر چارپائی پر اس کی لاش کو ڈال دیا۔ بہت جلد لوگوں کا مجمع لگ گیا تمام افراد کو افسوس تھا کہ ان کے گاؤں کا ایک بہت نیک اور اچھا شخص اس دنیا سے چل بسا۔
’’احمد!احمد!دیکھ میں آگیا ۔‘‘کوئی شخص دور سے آوازیں لگاتا ہوا آ رہا تھا۔
’’یہ آپ سب میرے دوست کے گھر کے باہر جمع کیوں ہوئے ہیں‘‘ وہی شخص مجمع کو چیرتا ہو ا آگے نکل آیا جو احمد ،احمد کی آوازیں لگا رہا تھا۔
’’احمد!اح۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔د! یہ تجھے کیا ہوگیا میرے دوست۔ دیکھ میں تیرا ادھار چکانے آیا ہوں میں تیرے ساتھ پورے لمحے بتاؤں گا۔احمد آنکھیں کھول میرے۔۔۔۔۔‘‘ اسلم ایک دم بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
ہوش آنے پر اسلم نے دیکھا کہ اس کے سامنے اس کے دوست کا جنازہ رکھا تھا۔جو قبرستان لے جایا جانے کے لیے بالکل تیار تھا اسلم کو رہ رہ کر احمد کیباتیں یاد آرہی تھیں۔ کب آئے گا جب میں بھی تیری ماں کی طرح،میں تیرا دیہاتی افسر بن کر انتظار کروں گا، تجھے میرا ادھار میرے ساتھ لمحے گزار کر چکانا ہو اگا!تجھے منع کیاتھا نہ کہ منہ سے بُری بات مت نکالنا آج تجھے بھی میری ماں کی طرح۔۔۔۔۔‘‘ اسلم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
آخر تدفین کا کام مکمل ہو گیا اسلم کا بھائی جو شہر میں اپنی زندگی بسا چکا تھا۔ اسلم کو شہر واپس لوٹ پر آنے پر بضد رہا مگر اسلم نے صاف انکار کر دیا دوستوں کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ انہیں کھو دیتا ہے۔ جس کا وہ سائبان ہوتے ہیں۔ اسلم نے شہر سے دولت تو اکھٹی کر لی مگر جب وہ سکون اور خوشیاں پانے کے لیے اپنے دوست کے گلشن میں رہنے آیا تو وہاں سے موسم بہار رخصت ہوچکا تھا اور چھائے ہوئے موسم خزاں کے ختم ہونے میں ایک طویل عرصہ درکار تھا۔ اب وہ شہر سے آنے والا افسر جو درحقیقت دیہاتی ہی تھا اپنے دوست کی یادوں کو تلاش کرنے لگا شاید کہ وہ ان یادوں کے راستے اپنے دوست کو پالے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top