skip to Main Content

’’دیا جلائے رکھنا‘‘

سیما صدیقی

…………

دو دوستوں کی بذریعہ خط وکتابت گفتگو!

……..

پیاری دوست ثناء
سدا خوش رہو!
تم نے لکھا ہے کہ تم امتحانات سے فراغت کے بعد کوئی غیر معمولی کام کرنا چاہتی ہو، کوئی ایسا کام جس پر تم فخر کرسکو۔۔۔ تو ڈیئر بہت سوچنے کے بعد میں یہی مشورہ دے سکتی ہوں کہ تم کسی ناخواندہ شخص کو پڑھانا شروع کردو۔ کیسے؟ یہ تم خود سوچ لو۔ ویسے نیکی کا کام ہمیشہ اپنے گھر سے شروع کرنا چاہئے۔سب کو سلام۔ 
فقط تمہاری دوست
عائشہ
**
ڈیئر عائشہ!
میں تمہارا خط پڑھ رہی تھی کہ ہمارا جمعدار ’’بوٹا‘‘ آگیا۔ کام ختم کرنے کے بعد صحن میں بیٹھ کر رونے دھونے کا سیشن شروع کردیا۔ امی کے استفسار پر کہنے لگا کہ ساری زندگی کی جمع پونجی جوڑ کر بیٹے کو دبئی بھیجا تھا۔ وہ وہاں جاکر ہم کو بھول ہی بیٹھا۔۔۔ کوئی خیر خبرہی نہیں۔ گھر میں بڑی پریشانی ہے ایک خط اسے لکھنا ہے۔۔۔ اگر آپ لکھوا دیں تو جی بڑی مہربانی ہوگی۔امی نے ہم سے کہا کہ ذرا بوٹے کا خط لکھ دو! ہمیں سخت غصہ آگیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم میں لکھنے لکھانے کی کچھ تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب ہم جمعدار کے بیٹے کو دبئی خط لکھنا شروع کردیں۔ مگر امی کے آگے ہماری ایک نہ چلی۔ بوٹا نہ صرف خط لکھنا نہیں جانتا تھا بلکہ لکھوانے کے فن سے بھی قطعی نا آشنا تھا۔ ایک ہی بات بار بار گھما پھرا کر لکھوا رہا تھا۔ ٹیپ کا بند یہ تھا کہ پیسہ بھیج کر خیریت سے مطلع کرو، اللہ اللہ کر کے خط اختتام کو پہنچنے لگا تو اس نے سلام لکھوانے کا سلسلہ شروع کردیا۔
’’بے بے نذیراں سلام کہتی ہے۔ بے بے حنیفاں سلام کہتی ہے۔ بے بے پینو سلام بولتی ہے!‘‘ ہم پہلے ہی جلے ہوئے تھے مختصراً لکھ دیا۔
’’بھنگی پاڑے کی تمام ’’بے بیاں‘‘ تمہیں سلام کہتی ہیں!‘‘
اس وقت تو ہم نے غصہ میں نہایت غلط سلط اور انتہائی بری رائٹنگ میں جیسا تیسا خط لکھ دیا لیکن رات کو ٹھنڈے دل سے سوچا تو بے چارے پر بڑا ترس آیا کہ اگر وہ چار حروف پڑھنا جانتا تو کیوں تیرے میرے کی خوشامد کرتا اور ایسا خط کیوں لکھواتا، جسے پڑھوانے کے لئے اس کے بیٹے کو پورے دبئی میں کوئی شخص نہیں ملے گا۔
یہ سوچ کر اچانک ہمارے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ کیا ’’بوٹا‘‘ ہی وہ ناخواندہ شخص ہے، جسے پڑھانے کی ذمہ داری قدرت ہمارے سپرد کرنا چاہتی ہے؟
تمہارے مشورے کی طالب
صرف تمہاری ثناء
**
ڈیئر ثناء!
تم بڑی خوش قسمت ہو کہ تمہارے ہاتھ اتنی جلدی ایک ’’ناخواندہ شخص‘‘ لگ گیا ورنہ میں نے جب اس سلسلے میں نظر دوڑائی تھی تو مجھے دور دور تک کوئی ناخواندہ شخص نہیں ملا اور جو ملے وہ بھی ایسے بدتمیز کہ کہنے لگے کہ ہمیں خواندہ بننے کا کوئی شوق نہیں۔ اگر آپ کو کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری خواندگی بھی بڑھانی ہے تو اس کے پیسے الگ ہوں گے۔
میں تمہیں چند رنگین قاعدے بھیج رہی ہوں۔۔۔ فوراً سے پیشتر بوٹے کی پڑھائی شروع کر دو اس یقین کے ساتھ کہ اگر ملک کا ہر پڑھا لکھا شخص، ایک ناخواندہ کو پڑھا دے تو ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔
فقط صرف تمہاری
عائشہ
**

عائشہ!
استاد اور شاگرد کے درمیان ’’فاصلہ‘‘ قائم رہنا ضروری ہے۔ (خصوصاً اس صورت میں جب شاگرد سال میں ایک بار نہاتا ہو)۔ میں اس نظریئے کی سختی سے قائل ہوں۔ لہٰذا ہم بوٹے کو پانچ فٹ دور بیٹھ کر پڑھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں سب کچھ اس کے سر سے گزر جاتا ہے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ خود بھی اسے پڑھائی میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ایک دن امی سے کہنے لگا۔ ’’بیگم صاحبہ! قسم لے لو جو آئندہ کبھی بی بی جی سے کوئی خط لکھوایا ہو۔۔۔‘‘ وہ بے وقوف سمجھ رہا ہے کہ ہم اسے خط لکھوانے کی پاداش میں پڑھا رہے ہیں۔ اسے اتنی عقل ہی نہیں کہ ہم تو دراصل چراغ سے چراغ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ملک میں نیا سویرا ابھر سکے۔
فقط تمہاری ثناء
**
پیاری ثناء!
اپنا مشن جاری رکھو! میں اس دن کی منتظر ہوں جب تمہارا جمعدار بوٹا ایک پڑھے لکھے، مہذب اور باوقار انسان کے روپ میں سامنے ہوگا۔
فقط تمہاری عائشہ
**
مائی ڈیئر عائشہ!
ایسا نجانے کب ہوگا۔۔۔! فی الحال تو کل کا واقعہ سنو۔ کل جب ہم بازار جارہے تھے تو راستے میں ’’بوٹا‘‘ ایک بڑے نالے سے برآمد ہوتا دکھائی دیا۔ وہ اچک کر گندے نالے سے نکلا اور ایک طرف کو ہولیا۔ ہم نے ایک نظر نالے کے اندر ڈالی تو دھک سے رہ گئے۔ وہاں چار پانچ ہیرونچی سر جوڑے نشہ کرنے میں مصروف تھے۔ تم سوچ سکتی ہو کہ بحیثیت ’’استاد‘‘ ہمارے دل پر کیا گزری ہوگی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ بوٹا کبھی شریف، مہذب اور باوقار انسان نہیں بن سکتا تاوقت یہ کہ اس کے مزید پانچ نکمے اور نؤی دوستوں کو بھی سدھارنے کی کوشش نہ کی جائے۔
خدا حافظ
فقط تمہاری ثناء
**
ڈیئر ثناء!
تم بوٹے کی پڑھائی جاری رکھو۔۔۔ پڑھے گا تب ہی تو اس کو اچھے برے کی پہچان ہوگی۔ ظاہر یہ کرو کہ تمہیں اس کی منفی سرگرمیوں کی کچھ خبر نہیں۔ یہی ’’بڑے پن‘‘ کا مظاہرہ ہوگا اور تمہارے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت بھی!
فقط صرف 
تمہاری عائشہ
**

مائی ڈئیر عائشہ!
بوٹے کو اچھے برے کی پہچان ہو یا نہ ہو۔ کسی دن ہم ضرور، کسی کونے میں بیٹھے سوٹے لگاتے ہوئے پائے جائیں گے۔ ویسے بھی حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی ہے کہ اب ہمارے پاس ملک میں انقلاب لانے کے سلسلے میں کسی کاروائی میں حصہ لینے کا بالکل وقت نہیں!
میرا رزلٹ آگیا ہے، تمہیں نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دے رہی ہوں کہ میں تین مضامین میں فیل ہوگئی ہوں اور صرف اتنے سے جرم کی پاداش میں میرے والد نے مجھے ایک ظالم ٹیوٹر کے حوالے کردیا ہے جو مجھے خواندہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جو خود ناکام اور ناخواندہ ہو وہ بھلا دوسرے کو کیا پڑھا سکتا ہے؟ تمہارا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ بے داغ رہا ہے۔ چنانچہ تمام ’’رنگین قاعدے‘‘ تمہیں واپس ارسال کررہی ہوں اور بوٹے کو تمہارا ایڈریس بھی سمجھا دیا ہے۔ امید ہے اسے پڑھا کر بڑے پن کا مظاہرہ کرو گی۔
فقط انقلاب کی منتظر
ثناء
**

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top