skip to Main Content

دوستی

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب!جلدی سے کچھ کیجئے۔‘‘
’’کیا ہوا ہے اسے؟‘‘
’’یہ سائیکل سے گرا ہے اور اس کا سر ایک نوکیلے پتھر سے ٹکرایا ہے۔ بہت خون بہہ رہا ہے۔پلیز جلدی سے کچھ کیجئے۔‘‘
’’نرس اسٹریچر کو ایمرجنسی وارڈ میں لے جاؤ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے نرس کو ہدایت کی۔ بلال اسٹریچر کو وارڈ میں داخل ہوتے دیکھتا رہا۔وارڈ کا دروازہ بند ہوا تو بلال قریب پڑے بینچ پر افسردگی سے بیٹھ گیا۔ گزشتہ دنوں کا خاکہ اس کے ذہن میں گردش کرنے لگا۔

*****

’’عامر تمھارے لیے خوش خبری لایا ہوں۔‘‘
’’جلدی بتاؤ!‘‘ عامر نے بے چینی سے پوچھا
’’تمھارانام سائیکل ریس کے مقابلے میں منتخب کر لیا گیا ہے۔میں ابھی ابھی لسٹ دیکھ کر آرہا ہوں۔‘‘
’’زبردست!مگر مقابلہ کب ہے؟‘‘
’’دو دن کے بعد یعنی جمعرات کو اور ہفتے کو شاندار تقریب میں انعامات دیئے جائیں گے اور سوموار سے گرمیوں کی لمبی چھٹیاں۔‘‘
’’مزہ آگیا!‘‘ عامر نے نہایت مسرت سے کہا
مگر ایک مسئلہ بھی ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘عامر نے چونک کر پوچھا
’’مقابلے کے لیے بلا ل بھی منتخب ہو چکا ہے اور تم تو جانتے ہو کہ وہ پچھلے دوسال سے مقابلہ جیت رہا ہے۔اس بار بھی۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں!اس بار میں اسے نہیں جیتنے دوں گا۔‘‘عامر نے بات کاٹتے ہوئے کہا
’’کہنا بہت آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ۔نئی سائیکل خر ید لینے سے کو ئی مقابلہ نہیں جیت جاتا۔محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور تو اور۔۔۔۔‘‘
’’تم اقوال زریں بتانا بند کر و۔ پچھلے سال بھی بلال کو چیلنج کیا تھا۔اس بار مجھے ہر حال میں جیتنا ہے۔ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔‘‘عامر نے خوشی سے کہا
’’میرے خیال میں تم روزانہ دس گھنٹے سائیکل چلاؤ۔‘‘ایک بولا
’’پاگل تو نہیں ہو گئے۔۔۔۔۔۔دس گھنٹے ۔۔۔۔۔ ٹانگیں ہیں میری،مشین نہیں!‘‘عامر نے کہا تو سب کھلکھلا کر ہنس دیئے۔
’’مقابلے سے پہلے بلال کی سائیکل سے ہوا کم کر دیں گے یوں وہ ہا ر جائے گا۔‘‘ایک دوست نے مشورہ دیا۔
’’تم اس کو دھکا دے کر یا ٹانگ ما ر کر گرا دینا۔ایک تو ہارے گا دوسرا گرمیوں کی چھٹیاں چین سے گزارے گا۔‘‘ایک اور دوست بولا
’’ان کو چھوڑو تم میری بات سنو!میرے خیال میں تمھیں بلال کے ساتھ مل کر تیاری کرنی چاہیے۔‘‘یہ احمد تھا عامرکا واحد دوست جو کبھی عامر کو غلط مشورہ نہیں دیتا تھااور عامر بھی اسے دوسرے دوستوں سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔
’’تم کیا کہہ رہے ہو میں اور بلال مل کر!۔۔۔۔ناممکن!!!‘‘عامر نے اپنی گردن کو دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے کہا
’’اس میں کیا مسئلہ ہے؟ذرا سوچو اگر تم اس کے ساتھ مل کر تیاری کرو گے تو اس طرح تم وہ تمام بائیں جان جاؤ گے جن کی بنا پر وہ ہر ایک کو ہرا دیتا ہے یا پھر کم از کم دوسرے لڑکوں سے تمھاری تیار ی ضرور بہتر ہوگی پھر مسئلہ کیا ہے؟وہ تمھارے گھر کے قریب بھی رہتا ہے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔‘‘ عامر نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا
’’شاید نہیں یقیناًٹھیک کہہ رہا ہوں۔‘‘احمد نے زور دیتے ہوئے کہا
’’ٹھیک ہے میںآج شام کوہی اس سے ملتا ہوں۔‘‘
’’یہ ہوئی نہ بات!‘‘ احمد نے خوشی سے اپنا ہاتھ عامر کے کندھے پر مارا۔
’’بیٹا!بیٹا۔۔۔۔۔۔!ڈاکٹر صاحب نے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جھنجوڑا تو بلال سوچوں کی دنیا سے حقیقت میں آگیا۔
’’جاجاجا۔۔۔۔ج۔۔۔ج۔۔۔جی!‘‘ بلال بوکھلاتے ہوئے بولا
’’تمھارا دوست خطرے سے باہرہے۔کچھ دیر میں اسے ہوش بھی آجائے گا۔‘‘
’’یااﷲ! تیر ا شکر ہے۔‘‘بلال کے منہ سے فوراً دعا نکلی۔
’’مگر اس کے والدین کدھر ہیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا
’’میں نے انھیں فون کر دیا ہے وہ آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’وہ جیسے ہی آئیں آپ انہیں میرے کمرے میں بھیج دیجئے گا مجھے ان سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘
’’بہت بہتر!‘‘بلال نے مودبانہ انداز میں کہا
’’فی الحال جب تک آپ کے دوست کے گھر والے نہیں آتے ،آپ یہیں رکے رہنا۔‘‘اتنا کہہ کر ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔بلا ل نے وارڈ کا دروازہ کھولا تو سامنے بستر پر عامر بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔بلال واپس بینچ پر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر میں اس کا ذہین واپس انھی خیالوں میں کھو گیا۔

*****

’’کیسے ہو بلال؟تیاری کیسی ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔مگر تم یہاں۔۔۔۔۔میرے ساتھ؟‘‘
’’دراصل تمھیں معلوم ہے کہ میرا نام مقابلے کے لیے منتخب ہو چکا ہے۔‘‘عامر نے فخر سے بتایا۔
’’تو میں چاہتا ہوں کہ میں تمھارے ساتھ مل کر تیاری کروں کیونکہ تم اس سلسلے میں زیادہ مہارت رکھتے ہو۔‘‘
’’اچھا!تو یہ بات ہے۔‘‘
’’تم پھرمیری مدد کرو گے نا؟‘‘عامر نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’کیوں نہیں!دوست دوست کے کام نہیں آئے گا توکیا دشمن کے کام آئے گا۔‘‘
’’ویسے یہ وہی سائیکل ہے نا جو تم پچھلے سالوں سے استعمال کر رہے ہو۔‘‘عامر نے تنگ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
’’ہا ں!وہی ہے۔‘‘
’’میں نے تو ابھی پچھلے ہفتے نئی سائیکل خریدی ہے ۔بڑی خوبصورت اور تیز رفتار ہے۔‘‘عامر نے اپنی سائیکل کی خوبیاں بتائیں۔
’’جیت۔محنت،لگن اور کوشش سے حاصل ہوتی ہے۔نئی سائیکل جیتنے کے لیے ضروری نہیں۔‘‘
’’پھر کل سے مل کر تیاری شروع کرتے ہیں۔‘‘عامر نے بات کا رخ موڑا
’’ٹھیک ہے کل ملتے ہیں۔خدا حافظ۔‘‘

*****

تمھارا بہت بہت شکریہ!اگر آج تم وقت پر عامر کو ہسپتال نہ لاتے تو نجانے کیا ہو جاتا۔عامر کے والد نے بلال کو گلے لگاتے ہوئے کہا
’’انکل! اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔یہ میرا فرض تھا۔‘‘بلال نے نہایت مودبانہ انداز میں جواب دیا
’’مگر یہ سب ہوا کیسے؟‘‘
’’انکل آپ کو تو معلوم ہے کل ہم دونوں سارا دن سائیکل ریس مقابلے کے لیے تیاری کرتے رہے۔آج ہم سائیکل پر ریس لگا رہے تھے۔تاکہ دیکھیں کہ کس کی تیاری زیادہ اچھی ہوئی ہے۔شروع میں عامرمجھ سے آگے تھا مگر جب میں سائیکل تیز کر کے عامر سے آگے نکلنے لگا تو یوں محسوس ہو ا جیسے کوئی چیز زور سے میری سائیکل کے پچھلے حصے سے ٹکرائی ہو میں بڑی مشکل سے سنبھل پایا مگر پھر بھی گر گیا۔شکر ہے کوئی چوٹ نہیں لگی۔مگر جب میں نے مڑ کر دیکھا تو عامر سائیکل سے گر چکا تھا۔ اس کا سر بدقسمتی ایک بڑے نوکیلے پتھر سے ٹکرا گیا تھا۔سر سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔میں نے جلدی سے ٹیکسی رکوائی اور اسے ہسپتال لے آیا۔‘‘
’’بیٹا!تمھارا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ!‘‘
’’انکل!اب مجھے اجازت دیں۔میں کل عامر سے ملنے ضرور آؤں گا۔آپ ڈاکٹر صاحب سے مل لیجئے گا۔‘‘اتنا کہہ کر بلال چل دیا اور عامر کے ابووارڈ میں عامر کے پاس چلے گئے۔

*****

’’بیٹا!رات کو سر میں درد تو نہیں ہوا۔‘‘اگلے دن ڈاکٹر صاحب معائنہ کرنے کے لیے آئے تو پوچھنے لگے۔
’’نہیں ! اب میں کافی بہتری محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
’’زبردست!آپ اپنے بیٹے کو گھر لے جا سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب عامر کے والد کی طر ف متوجہ ہو کر بولے۔
عامر کے ابو اور ڈاکٹر صاحب باتیں کرتے ہوئے جیسے ہی کمرے سے باہر نکلے کچھ دیر بعد ہی دستک ہوئی۔
’’اندر آجاؤ۔‘‘
’’السلام علیکم!کیسی طبیعت ہے؟‘‘احمد نے داخل ہوتے ہوئے کہا
’’وعلیکم السلام!میں ٹھیک ہوں۔تمھیں کس طرح پتا چلا کہ میں یہاں ہوں۔‘‘
’’یہ باتیں توہوتی رہیں گی، میں تمھارے لیے خوشخبری لایا ہوں اور وہ یہ کہ سائیکل ریس ملتوی ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا!!!؟یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘عامر کی حیرانگی عروج پر تھی۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔آج صبح بلال نے پرنسپل صاحب کو تمھارے بارے میں بتایا اور تمھارے بغیر مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ دوسرے ساتھی بھی مقابلے کو تاخیر سے کروانے پر راضی ہوگئے۔پہلے تو پرنسپل صاحب نہ مانے مگر بہت زیادہ اصرار پر انھوں نے تاخیر تو کردی مگر بہت لمبی۔‘‘
’’بہت لمبی؟عامر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
’’تمھیں تو پتہ ہے کہ اگلے ہفتے گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔لہذا اب مقابلہ ان لمبی چھٹیوں کے بعد پہلے ہفتے میں کسی دن منعقد کیا جائے گا۔
’’مجھے تو یقین نہیں آرہا۔‘‘عامر نے حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں کہا
’’یقین تومجھے بھی نہیں آرہاتھا مگر بلال!‘‘
’’بلال ہے کہاں؟تمھارے ساتھ نہیں آیا۔‘‘عامر نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا
’’میرے ساتھ تو نہیں آیا مگر کہہ رہا تھا کہ ضرور آئے گا شاید راستے میں ہو۔‘‘
’’وہ نہیں آئے گا۔‘‘عامر نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟کیا تم اب بھی اسے اچھا نہیں سمجھتے؟‘‘
’’بلا ل تو اچھا لڑکا ہے مگر خرابی مجھے میں ہے۔اس نے تو ہر طرح میری مدد کی۔مگر میں نے کبھی اس کی عزت نہیں کی۔کل جب ہم نے مقابلہ کیا کہ دیکھیں کس کی تیاری اچھی ہے تو اپنے سے آگے نکلنے پر میں نے ہی اس کی سائیکل کو ٹانگ مار کر گرانے کی کوشش کی مگر وہ خود ہی اپنی سائیکل کا توازن کھو بیٹھا اور گر گیا۔قدرت نے مجھے سزادی اور میرا سر پتھر سے ٹکرا گیا۔اور اب میں تمھارے سامنے ہوں۔‘‘ عامر نے سر جھکالیا۔
’’کسی نے سچ کہا ہے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔ یہ تم نے اچھا کیا نہیں کیا۔‘‘احمد نے عامر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
’’میں خود بہت شرمندہ ہوں،جب سے مجھے پتا چلا ہے کہ مجھے ہسپتال لانے والا بلا ل ہی ہے میرا ضمیر مجھے سخت ملامت کر رہا ہے، میں نے جسے زخمی کرنا چاہا اسی نے ہی میرے زخموں پر مرہم رکھی اور اب تمھارے منہ سے یہ سننے کے بعد کہ اس نے میرے لیے مقابلہ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔میرا دل تو ڈوب مرنے کو چاہتا ہے‘‘۔ عامر کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔
’’میرے خیال میں تمھیں بلا ل سے معافی مانگنی چاہیے۔میں خود بلال کو تمھارے بارے میں آگاہ کروں گا۔‘‘احمد نے تسلی دیتے ہوئے کہا
’’کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہمیں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔عامر کے ابو بلال کے ہمراہ دروازے پر کھڑے تھے۔
’’بلال تم کب آئے؟‘‘ احمد نے حیرانگی سے پوچھا
’’میں بس ابھی کچھ دیر پہلے آیا ہوں۔کمرے کی جانب آتے ہوئے انکل مل گئے جب ہم دروازے پر پہنچے تو عامر کی باتیں سن کر رک گئے۔‘‘
’’بلال ! میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔‘‘ عامر نے بھیگی نظریں جھکاتے ہوئے کہا
’’مگر مجھے تو خوشی ہے کہ تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔میں آج بھی تمھارا دوست ہوں اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دوستی میں معافی اور شکریہ جیسے الفاظ کم ہی استعمال ہوں تو اچھا ہے۔‘‘اتنا کہہ کر بلال عامر کے گلے لگ گیا۔
’’آج مجھے تم دونوں کو یوں دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔‘‘عامر کے ابو نے مسرت سے کہا
’’سائیکل ریس مقابلے کی تیاری میں میری مدد کروگے۔‘‘ عامر نے بلال سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
’’کیوں نہیں!دوست ،دوست کے کام نہیں آئے گا تو اوردشمن کے کام آئے گا۔‘‘بلا ل نے کہا تو سب مسکرانے لگے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top