skip to Main Content
دنیا کے عجوبے

دنیا کے عجوبے

محمد فرحان اشرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہرام مصر:قدیم دنیاکاعجوبہ


قدیم دنیاکے ساتھ عجائبات میں سے اہرام مصرواحدعجوبہ ہے،جو اب تک اس دنیامیں موجودہے۔ہزاروں سال گزرنے کے بعدبھی اہرام مصراپنی اصل حالت میں موجودہیں۔ان اہرام کی تعمیرمیں استعمال ہونے والاسامان،پیمائش اوران پردرج پیش گوئیوں نے دنیاکے ماہرین کوحیران کررکھاہے۔یہ اہرام مربع بنیادوں پرقائم کیے گئے تھے۔ان کے پہلو تکونے ہیں ،جواوپرجاکرایک نقطہ پرمل جاتے ہیں۔یہ اہرام کس نے بنوائے،ان کے بنانے کامقصدکیاتھا،کس دورمیں یہ تعمیرکیے گئے،کس طرح ان کو بنایاگیا،آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا۔یہ اہرام قبل ازتاریخ کے ترقی یافتہ سائنس کاکرشمہ ہیں۔ان اہراموں کوقدم مصرکے شہرممفس کے قریب صحرائی چٹانوں میں تعمیرکیاگیا ۔ ان کے باہرکی طرف سیڑھیاں کھدی ہوئی ہیں ،جواوپرکی طرف بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔ان پتھروں پر مصورتحریریں کندہ کی گئی ہیں۔ہربادشاہ نے اپنی ممی کومحفوظ رکھنے کی خاطر اپنا علیحدہ ہرم تعمیرکرایا۔سب سے بڑاہرم جیزہ میں خوفو کاہے۔اس کارقبہ تیرہ ایکڑپرپھیلاہواہے۔ابتدا میں یہ 482 فیٹ بلندتھا ۔اس کی ایک منزل گرنے سے اس کی بلندی اب450فیٹ رہ گئی ہے۔اس کی تعمیرمیں23لاکھ پتھرکے بلاک استعمال ہوئے۔ہرپتھرکاوزن اڑھائی ٹن اورجسامت40مکعب فٹ ہے۔پوری دنیامیں اس طرح کی کوئی دوسری عمارت نہیں ہے،جس میں اس قدرزیادہ پتھراستعمال ہواہو۔دنیاکے تمام ماہرین نے ان اہرام کی تعمیرکے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ ان اہرام کودیکھ کرایک محقق نے کہاکہ’’وقت ہرچیزکامذاق اڑاتاہے،مگریہ اہرام وقت کامذاق اڑارہے ہیں۔‘‘
ابوالہول:خوف کاباپ


قدیم مصری آثارمیں ابوالہول مشہورعجوبہ ہے۔یہ جیزہ کے مقام پرعظیم الجثہ بت ہے،جس کاسرآدمی کااوردھڑشیرکاہے۔لوگوں کاخیال تھاکہ یہ بت ایک طلسم ہے،جووادی نیل کی حفاظت کرتاہے۔یہ بت ایک چٹان کوتراش کربنایاگیاہے۔یونانیوں کے نزدیک یہ ایک پردارمادہ ببرشیرتھا،جس کاچہرہ نسوانی تھا۔اس مجسمے کی لمبائی 189فیٹ اورانچائی65فیٹ ہے۔دورسے دیکھنے پریہ ایک پہاڑنظرآتاہے۔اسے تین ہزارسال قبل ازمسیح ایک بڑی چٹان کوتراش کربنایاگیاتھا۔یہ مصرکے دارالحکومت قاہرہ سے 60میل دورجیزہ کے ریگستان میں واقع ہے۔اسے چونے کے پتھرکی پہاڑی کوکاٹ کربنایاگیاہے۔ہزاروں سال گزرنے کے بعدبھی اس میں مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔اس کے سرپرفرعون کاروایتی رومال اورپیشانی کے درمیان سانپ کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔مجسمے کی ناک اور داڑھی ٹوٹی ہوئی ہے،ناک قاہرہ کے عجائب گھراورداڑھی برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔820ء میں ہارون الرشیدکے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام مصرکے اندرونی حصے کی مکمل معلومات کے حصول کے لیے ماہرین کے ہمراہ مصرمیں قدم رکھا۔کافی عرصہ تک باوجودکوشش کے جب ان کوکوئی کامیابی نہ ملی توانہوں نے غصے میں ابوالہول کی ناک اورداڑھی کوتوڑدیا۔اس کے اگلے پنجوں کے درمیان سنگ خاراکاکتبہ موجودہے۔یہ انسانی تعمیرکاقدیم شاہ کارہے۔اس کی عمرکے بارے میں کوئی حتمی رائے اب تک قائم نہیں کی جاسکی۔
بابل کے معلق باغات


دریائے فرات کے کنارے میسوپوٹیمیاکاقدیم ترین شہربابل اپنے معلق باغات کے باعث دنیامیں ایک عجوبے کی حیثیت رکھتاہے۔یہ شہربغدادسے70میل جنوب کی طرف واقع تھااور دنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے تھا۔یہ شہراپنے معلق باغات کے باعث دنیامیں دوسرے نمبرپرہے۔ایک ہزارسال قبل یہ ایک چھوٹاساگاؤں تھا ۔جب حمورابی نے اس کواپنادارالحکومت بنایاتویہ دنیاکا بڑااورخوب صورت شہربن گیا۔689قبل ازمسیح میں اشوری بادشاہ سیناچرب نے اس کوفتح کرکے تباہ کریا۔اس شہرکو پھردوبارہ تعمیرکیاگیا۔612قبل ازمسیح میں اشوری حکومت کے خلاف بغاوت میں یہ شہرمکمل تباہ ہوگیا۔اس کے بعداس شہرکوپھرتعمیرکیاگیا اوریہاں آزادحکومت قائم ہوئی۔ 630قبل ازمسیح میں شاہ بخت نصرپیداہوا۔605قبل ازمسیح میں بخت نصرتخت نشین ہوا،یہ بابل کاعظیم ترین بادشاہ تھا۔بخت نصرکے دورمیں بابل کوعروج حاصل ہوا۔بخت نصرنے اپنی ملکہ کے لیے دریائے فرات کے کنارے معلق باغات بنوائے۔یہ باغ نشیب سے فرازتک جاتے تھے،ان کومحرابوں پرمحرابیں تعمیرکرکے اگایاگیاتھا۔ ہرمحراب نیچے والی محراب سے چوڑائی میں چھوٹی رکھی گئی۔ان کے اطراف میں20فیٹ چوڑی چاردیواری بنائی گئی تھی۔ایشیاکے کونے کونے سے خوش بودارپودے اورپھل داردرخت لاکر لگائے گئے تھے۔اس باغ کودریائے دجلہ اورفرات سے سیراب کیاجاتاتھا۔دورسے دیکھنے پریہ باغ ہوامیں لٹکے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔یہ باغات580قبل ازمسیح میں تعمیرہوئے۔یہ کس طرح تباہ ہوئے آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔
ڈائناکامندر


ایشیائے کوچک کی قدیم سلطنت لیڈیاکے حکم ران کروسس نے ایفی سس شہرمیں ڈائناکامندرتعمیرکرایاتھا۔یہ مندر550قبل ازمسیح میں تعمیرکیاگیاتھا۔رومیوں کے مطابق یہ مندرایک قدیم یونانی چاندکی دیوی کاتھا۔جس کے ایک ہاتھ میں کمان ہوتی ہے۔اس مجسمے کوکمان کی وجہ سے شناخت کیاگیا۔یونانی لوگ اس دیوی کوبہت مقدس سمجھتے تھے۔یہ مندر دنیاکے ساتھ عجائبات میں شمارہوتاہے۔
جب ایفی سس شہرکی کھدائی کی گئی تواس شہرکے بیشترآثارظاہرہوئے۔جن میں سڑکیں،ستون،سنگ تراشی اوربت تراشی کے بعض اعلیٰ نمونے بھی برآمد ہوئے۔یہ عالی شان عمارت قدیم مصرکے معبد واقع کرناک کے نمونے کے مطابق تعمیرکی گئی تھی۔اس کی اندرونی لمبائی425فیٹ ،چوڑائی290فیٹ اورچھت 127منقش ستونوں پر مشتمل تھی۔جب کہ ہندوستان میں سومنات کے مقام پرواقع ہندوؤں کے مندرکے صرف56ستون تھے۔اس مندرکے ستونوں کی لمبائی60فیٹ تھی۔ہرستون کسی ایک بادشاہ کی یادگار تھا۔اس مندرکی بنیادیلسی فون بادشاہ نے رکھی۔اس کے بعدہرحکم ران نے اس مندرکی توسیع اورآرایش میں حصہ لیا۔اس مندرکی تعمیرکروسس بادشاہ کے دورمیں مکمل ہوئی۔مندرکو قیمتی پتھروں اوردھات سے بنایاگیاتھا۔سکندریونانی کی پیدایش کے دن ایک سردارارسطراسوتش نے اس مندرکوآگ لگادی۔بعدمیں اس مندرکوپھرتعمیرکرایاگیا۔اس کی تعمیرمیں دنیابھرکے لوگوں نے ایفی سس والوں کی مددکی۔صدردروازے پرایک قربان گاہ بنائی گئی ،جہاں قربانی کی جاتی تھی۔مندرکے صحن میں بھی ایک قربان گاہ تھی۔262ء تک یہ عبادت گاہ دنیامیں موجود تھی،مشرقی یورپ سے آنے والے نامعلوم گوتھوں نے اسے آگ لگادی۔اس مندرکے127ستونوں نے پوری عمارت کاوزن سنبھال رکھاتھا۔ان ستونوں کے زیریں حصے لندن کے عجائب گھرمیں موجودہیں۔
اسکندریہ کالائٹ ہاؤس


332قبل ازمسیح میں سکندریونانی نے مصرکوفتح کیاتووہاں ایک شہرآبادکیا،جس کانام اپنے نام کی نسبت سے اسکندریہ رکھا۔یہ شہربعدمیں مصرکی اہم بندرگاہ اورتجارتی مرکزبن گیا۔اس شہرکے قریب ایک جزیرہ نمافاروس تھا۔ابتداء میں یہ ساحل سے دورایک جزیرہ تھا،جسے سکندرنے ایک مصنوعی بندرگاہ کے ذریعے اسکندریہ سے ملادیا۔فاروس جزیرے پرایک لائٹ ہاؤس تعمیرکرایا،جوسفیدسنگ مرمرکابناہواتھا۔روشنی کایہ مینار280سے270قبل ازمسیح کے دوران بنایاگیاتھا۔جس وقت یہ لائٹ ہاؤس بنایاگیا،اس وقت مصرپربطلیموس دوم کی حکومت تھی۔لائٹ ہاؤس بنانے کامقصدسمندرمیں آنے والے جہازوں کوکسی چٹان وغیرہ سے ٹکرانے سے بچاناتھا۔دنیامیں یہ سب سے پہلااوربڑاروشنی کامینارتھا،جس کی اونچائی 500 فیٹ تھی۔اس میں لگائی گئی لائٹیں اتنی تیزتھیں کہ سمندرمیں36سے56کلومیٹرتک پھیل جاتی تھیں۔اس لائٹ ہاؤس کاخاکہ یونان کے ماہرتعمیرات سیسٹراٹوس نے بنایاتھا۔اس کانچلا حصہ چکورشکل کاتھا،جس کادرمیان کاحصہ ہشت پہلواوراوپرکاحصہ گول تھا۔سب سے بڑاٹاورسب سے نیچے رکھاگیاتھا۔اس کے اوپراس سے چھوٹا،پھراس سے چھوٹاٹاورنصب کیاگیا تھا ۔ اسی طرح یہ لائٹ ہاؤس مکمل کیاگیاتھا۔اس کے آخری سرے پرتانبے کابہت بڑاطباق رکھاہواتھا ،جس میں دہکتے ہوئے انگارے رکھے جاتے تھے۔اس میں رات کے وقت آگ جلائی جاتی تھی۔بحیرہ روم میں سفرکرنے والے سمندری بحری جہاز40کلومیٹردورسے اس روشنی کودیکھ لیتے تھے۔بحیرہ روم میں بنایاگیایہ پہلالائٹ ہاؤس نہیں تھالیکن سب سے بڑااور غیرمعمولی تھا۔یہ مینار900سال تک بحیرہ روم میں سفرکرنے والے جہازوں کی رہنمائی کرتارہا۔عرب سپہ سالاروں نے جب اسکندریہ پر قبضہ کیاتوقسطنطنیہ کا حکم ران نہیں چاہتاتھا کہ مسلمان اس لائٹ ہاوس کواپنے جہازوں کی رہنمائی کے لیے استعمال کریں۔اُس نے اپناایک جاسوس خلیفہ الولیدکے پاس بھیجا۔جس نے خلیفہ کویقین دلایاکہ اس لائٹ ہاؤس کے نیچے خزانہ دفن ہے ۔ خلیفہ نے خزانے کی تلاش کے لیے اسے توڑنے کاحکم دیا۔جب لائٹ ہاؤس کی آدھی سے زیادہ عمارت ٹوٹ گئی ،تب خلیفہ کواحساس ہواکہ اس کے ساتھ دھوکاہواہے۔تب تک لائٹ ہاؤس کابڑاآئینہ گرکرٹوٹ چکاتھا۔اس مینارکے جوآثارباقی بچے وہ1375ء میں اسکندریہ میں آنے والے زلزے سے تباہ ہوگئے۔اب اس بندرگاہ پرسفیدسنگ مرمرکے چند ٹکڑے ہی باقی بچے ہیں۔
دیوارچین:دنیاکاچوتھاعجوبہ


دیوارچین کودنیاکے سات عجائبات میں شمارکیاجاتاہے۔یہ دیوارچین میں تیسری صدی قبل ازمسیح میں چین کوتاتاریوں اورمنگولوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے تعمیرکی گئی تھی۔اس دیوارکی تاریخ2000سال سے زیادہ پرانی ہے۔یہ دیوارمشرق سے مغرب تک6700کلومیٹرلمبی ہے اوراس کاگزرپانچ صوبوں میں ہوتاہے۔یہ دیواربل کھاتی ہوئی ریگستانوں،سبزہ زاروں اور پہاڑوں سے گزرتی ہے۔اس دیوارکے کچھ حصے تباہ ہوچکے ہیں۔1987ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کے ادارے یونیسکونے اسے عالمی ورثہ قراردے کراس کی تعمیر اورتوسیع پرتوجہ دی۔جب اس دیوارکی تعمیر کے منصوبے کاآغازہواتومختلف ریاستوں کی خودمختاردیواریں تھی اورکن کے دورتک یہ دیوارمکمل نہ ہوسکی۔جب شانگ خاندان نے چین میں اقتدارسنبھالاتوتمام دیواروں کوملانے کاآغازکیا۔یہ دیوارجوچین میں5000کلومیٹرسے زیادہ علاقے میں پھیلی ہوئی ہے،چینی تاریخ کی یارگارہے۔زیادہ دیوارسطح مرتفع منگولیاکے کنارے کنارے گزرتی ہے۔یہ دیوارشی ہوانگ ٹی حکم ران کے عہدحکومت 228سے210قبل از مسیح کے دوران شروع ہوئی اور17ویں صدی عیسوی کے وسط میں منگ حکم رانوں کے دورمیں مکمل ہوئی۔بعدمیں اس دیوارکی تعمیراوربحالی کاکام ہوتارہا۔اس دیوارپربیک وقت سات گھڑسواراپنے گھوڑوں کودوڑاسکتے ہیں۔موجودہ دیوارچین زیادہ ترمنگ عہدمیں تعمیرکی گئی اوراس کے ڈیزائن پرتوجہ دی گئی۔اس کی تعمیرکے دوران قیدیوں،سپاہیوں اورمقامی لوگوں نے مل جل کرکام کیا۔یہ دیوار20سے30فیٹ تک اونچی اورتقریباًپانچ میٹرچوڑی ہے۔ہر 100گزکے فاصلے پراسے برجوں کے ذریعے مستحکم کیاگیاہے۔دیوارکے دونوں طرف نیچے سے اوپرتک اینٹیں یاپتھرلگے ہوئے ہیں۔اس دیوارکوملکی اورغیرملکی سیاحو ں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہاہے۔سیاحوں نے اس دیوارکی ہراینٹ پراپنانام کندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔دیوارچین کی کل لمبائی6300کلومیٹرتھی۔جس میں سے اب صرف2500کلومیٹرکاحصہ اپنی اصل حالت میں موجودہے۔
زیوس کامجسمہ


یونانی دیومالامیں زیوس کوہ اولمپس کے مقدس دیوتاؤں کاسردارتھا۔یونانیوں کے نزدیک زیوس سب سے عظیم دیوتاتھا۔یونان کے شمال مشرق میں اولمپس نامی پہاڑتھا۔یونان کے جنوبی شہراولمپیامیں یونانی اپنے دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے۔اس شہرمیں776قبل ازمسیح میں زیوس کے اعزازمیں اولمپک مقابلے منعقدہوئے۔آج بھی دنیامیں ہر چارسال بعد اولمپک کھیل ہوتے ہیں۔ پانچویں صدی قبل ازمسیح میں یونانیوں نے زیوس کے لیے مندربنانے کافیصلہ کیا۔جب مندرمکمل ہوگیاتومشہورسنگ تراش اورمجسمہ سازفیڈیاس نے زیوس کا شاندارمجسمہ تیارکیا۔یہ مجسمہ433قبل ازمسیح میں تیارہوا۔یہ دیوہیکل مجسمہ60فیٹ اونچاتھااورسونے اورہاتھی دانت سے بنایاگیاتھا۔فیڈیاس نے مجسمہ کے مختلف حصے لکڑی اورپتھرسے بناکران پرہاتھی دانت سے کندہ کاری کی تھی۔مجسمے کالباس اورزیورات سونے کے بنے ہوئے تھے۔زیتون کی لکڑی سے تاج بنایاگیاتھا۔جس تخت پرمجسمہ بٹھایاگیاتھا،وہ تخت صنوبرکی لکڑی سے بنایاگیاتھا۔تخت کوسونے،ہاتھی دانت ،آبنوس اورقیمتی پتھروں سے مرصع کیاگیاتھا۔تخت پرجنگلی جانوروں کی تصاویربھی بنائی گئی تھیں۔زیوس کے پورے جسم کوہاتھی دانت سے بنایاگیاتھا ۔ اس کے بال اورداڑھی سونے کی اورآنکھوں میں قیمتی پتھرلگائے گئے تھے۔مجسمے کے ہاتھ میں سونے اورہاتھی دانت سے بناہوافتح کی دیوی کاایک مجسمہ تھا۔دائیں ہاتھ میں ایک عصاتھا ، جس کے سرے پرایک عقاب بیٹھاتھا۔شہنشاہ تھیروڈورس اس مجسمے کوقسطنطنیہ لے گیا۔جہاں 457ء میں آتش زدگی کے دوران یہ مجسمہ جل کرتباہ ہوگیا۔اس مندرکے کھنڈرات اب بھی اولمپیامیں موجودہیں۔وہ سانچے جن سے مجسمہ سازفیڈیاس نے سونابھرکرمجسمہ کے مختلف حصے تیارکیے تھے،حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں۔
برج خلیفہ:حیرت انگیزعجوبہ


برج خلیفہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں واقع دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ یہ انسان کی تعمیر کردہ تاریخ کی بلند ترین عمارت ہے۔ اس عمارت کی تعمیر کا آغاز 21 ستمبر 2004ء کو برج دبئی کے نام سے ہوا۔اس عمارت کی کل بلندی 828 میٹر ، جبکہ اس کی کل منزلیں 162 ہیں۔ اس طرح یہ دنیا میں سب سے زیادہ منزلوں کی حامل عمارت ہے۔ 21 جولائی 2007ء کواس عمارت کی 141 منزلیں مکمل ہونے پر اس کی بلندی 512 میٹر (1680 فٹ) ہوگئی۔ باضابطہ طور پر بلندترین عمارت کا اعزازبرج خلیفہ کو 4 جنوری 2010ء کو حاصل ہوا ۔برج خلیفہ میں دنیا کی تیز ترین لفٹ نصب کی گئی ہے، جو 18 میٹر فی سیکنڈ (65 کلومیٹر فی گھنٹا، 40 میل فی گھنٹا) کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ پورے عمارتی منصوبے میں 30ہزار رہائشی مکانات، 9 ہوٹل، 6 ایکڑ باغات،19 رہائشی ٹاور اور برج خلیفہ جھیل شامل ہیں۔ اس عمارت کی تعمیر پر 8 ارب ڈالرز لاگت آئی۔اپنی تکمیل کے بعدیہ ٹاور 20 ملین مربع میٹر رقبے پر پھیل گیا۔علاوہ ازیں برج خلیفہ ٹاور میں دنیا کی بلند ترین مسجدبھی واقع ہے ،جو 158 ویں منزل پر موجود ہے۔
اس کی 160 منزلوں تک رسائی کے لیے 2909 زینے ہیں، جہاں برج کی سیر کو آنے والے وقفے وقفے سے مختلف اقسام کی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس مقصد کے لئے 18 مقامات پر الگ الگ خوشبوؤں کے احساس کے لیے عطریات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے ۔جو آنے والوں کو ایک منفرد اور خوش گوار احساس دلاتا ہے۔برج خلیفہ کی تعمیر کے دوران دنیا کی بڑی اور اونچی کرینوں کا استعمال کیا گیا۔ جن میں سے ایک کرین کا وزن 25 ٹن سے زیادہ تھا۔برج خلیفہ کرہ ارض پرعمودی شکل کا سب سے بڑا شہر ہے ،جس میں بہ یک وقت 10 ہزار افراد موجود رہتے ہیں۔برج خلیفہ کی 123 ویں منزل پر ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔اس ٹاور کی چوٹی پر نصب ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے لیے انتباہی لائٹ ایک منٹ میں 40 مرتبہ ٹمٹماتی ہے۔برج خلیفہ کی زیر زمین منزل اور آخری منزل کے درجہ حرارت میں سات درجے سینٹی گریڈ کا فرق ہوتاہے۔ اس ٹاور کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ایلومینیم کا وزن دنیا کے سب سے بڑے A380 پانچ طیاروں کے برابر ہے۔اس ٹاور کی تمام کھڑکیوں کی صفائی کے لیے 120 دن درکار ہوتے ہیں۔2014ء میں عمودی شکل میں ملبوسات فیشن شو اسی ٹاور میں منعقد کیا گیاتھا۔
پیٹروناس ٹوئن ٹاور 


1483فٹ بلند پیٹروناس ٹاورز کی عمارت جب 1998ء میں مکمل ہوئی تو بلا شبہ یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ سب سے زیادہ بلندی کا ورلڈ ریکارڈ اس عمارت کے پاس6 سال تک رہا۔ ان ٹاورز کی تعمیر1992ء میں شروع ہوئی اور 1998ء میں سات سال کے بعد یہ عظیم عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی۔ سرکاری طور پر اس عمارت کا افتتاح 28اگست 1999ء کو کیا گیا۔ یہ عمارت پیٹروناس کمپنی کی ملکیت ہے، جو ملائیشیا کی اسٹیٹ آئل کمپنی ہے۔ اس کمپنی کا مرکزی دفتر بھی اسی عمارت میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ باقی جگہ دوسری مشہور کمپنیوں کو کرایہ پر دی ہوئی ہے۔ پیٹروناس ٹاورز ملائیشیا کے لیے ایک قابل فخر سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس عمارت کے دفتر کا کل رقبہ دس لاکھ مربع میٹر ہے۔ ان دونوں ٹاورز کے 1800دروازے ، 3200 کھڑکیاں، 765زینے اور78 لفٹس ہیں۔ اس ٹاورز کی 88منزلیں ہیں۔ منزل 41 اور 42 کے درمیان ان دونوں ٹاورز کے درمیان براہ راست رابطہ رکھنے کے لیے ایک190فیٹ طویل پل بنایا گیا ہے۔ یہ پل سطح زمین سے558فیٹ بلند ہے۔ اس پل کا وزن 750ٹن ہے اور یہی بات دنیا کی تعمیر کی گئی جڑواں عمارتوں میں پیٹرناس ٹاورز کو ممتاز کرتی ہے۔
پیٹروناس ٹاورز کی تعمیر پر1.6بلین ڈالر لاگت آئی تھی۔ اس کا نقشہ ایک ارجنٹائنی نژاد امریکن Cesar Pelli اور ایک فلپائنی ماہر تعمیرات Deejay Cericoنے مل کر بنایا تھا ۔ پیٹروناس ٹاورز کے ایک ٹاور کی تعمیر ایک جاپانی تعمیراتی کمپنی Hazama Corp نے مکمل کی۔ جبکہ دوسرے ٹاور کی تعمیر کورین کمپنی سام سنگ کارپوریشن نے مکمل کی۔ اس عمارت کی بنیادیں 400فٹ گہری کھود کر کنکریٹ سے بھر دی گئی تھیں۔ اس عمارت کاخاکہ ا ور نقشہ بناتے وقت اسلامی طرز تعمیر کو مد نظر رکھا گیا۔ پیٹروناس ٹاورز میں کنونشن سنٹر، آرٹ گیلریز ، سائنس سنٹر اور کنسرٹ ہا ل بھی بنائے گئے ہیں۔ دونوں ٹاورزکے درمیان والا پل نا گہانی آفت کے وقت بچ نکلنے کا حفاظتی راستہ بھی ہے۔ یہ پل 170 میٹر کی بلندی اور 42 ویں منزل پر قائم کیا گیا اور 58 میٹر طویل ہے۔ یہ پل عوام کے لئے کھلا رہتاہے، تاہم ایک دن میں 1400 سے زیادہ پاس جاری نہیں کئے جاتے جو بالعموم دوپہر سے قبل ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام پاس بالکل مفت ہیں۔یہ پل سوموار کے دن بند رہتا ہے۔پہلا ٹاور مکمل طور پر ملائیشیا کے ادارے پیٹروناس کمپنی کی ملکیت ہے، جبکہ دوسرے ٹاور میں الجزیرہ انٹرنیشنل، بلوم برگ، بوئنگ، آئی بی ایم، مائیکرو سوفٹ اور دیگر اہم قومی و بین الاقوامی اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top