skip to Main Content
دل، زندگی کا اساس

دل، زندگی کا اساس

محمد عظیم قریشی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ہمارے جسم کا سب سے اہم عضو ہے۔ زمانہ قدیم سے انسانی جسم میں دل کی اہمیت مسلم ہے، اسی لئے ارسطو نے دل کی حرکت کو زندگی سے تعبیر کی ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اسے اردو زبان کے کئی محاورات میں استعمال کیا گیا ہے مثلاً دل دھک دھک کرنا، دل کا ڈوبنا، دل نہ کرنا اور دل خوش ہونا وغیرہ۔ اس کے علاوہ محبت، نفرت، ہمدردی، غم، خوشی اور حیرت جیسے جذبات بھی دل ہی سے مناسبت رکھتے ہیں، لہٰذا دل نہ صرف زندگی کا اساس ہے بلکہ یہ زندگی کے کئی دوسرے شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں، میں آپ کو دل کی اہمیت و افادیت کے علاوہ یہ بتاؤں گا کہ دل کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟
جہاں تک دل کی شکل و صورت (Structure) کا تعلق ہے تو یہ ایک پمپ کی طرح کام کرنے والا بیضوی، انڈے کی طرح کا عضو ہے، اس کا حجم (Volume) دو بند مٹھیوں سے کچھ کم اور ایک بند مٹھی سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ اس کی اوسط لمبائی تقریباً پانچ انچ، چوڑائی تین انچ اور موٹائی دو انچ ہوتی ہے اور وزن ڈھائی سو گرام یعنی ایک اچھے وزن کے سیب کے برابر ہوتا ہے۔ اس میں ایک وقت میں تقریباً 140 مکعب سینٹی میٹر خون سما سکتا ہے۔ یہ سینے کے قدرے بائیں جانب دوسری اور ساتویں پسلی کے درمیان موجود ہوتا ہے۔ دل جسم کے سب سے مضبوط پٹھوؤں کا مجموعہ ہے اگر کسی سبب یہ پٹھے کمزور ہوجائیں تو پھر دل بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ جسم کی ہئیت کا بھی دل پر بہت اثر پڑتا ہے مثلاً جو لوگ دبلے اور لمبے ہوتے ہیں اُن کا دل بھی لمبوترا اور مختصر وسعت کا ہوتا ہے اور جو لوگ موٹے ہوتے ہیں، اُن کا دل بھی اچھی خاصی جسامت کا ہوتا ہے۔
دل ایک غلاف میں لپٹا ہوتا ہے جسے PERICARDIUM کہتے ہیں۔ یہ ایک خاص رطوبت سے بھرا ہوتا ہے جو دل کی حرکت کے درمیان مزاحمت کو کم کرنے کے علاوہ اس کے سکڑنے اور پھیلنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ دل چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اوپر والے دو حصوں کا نام اوریکل (Auricle) یا اذین ہے جبکہ نچلے حصوں کو Ventricle یا بطین کہتے ہیں۔ ان حصوں کی دیواریں خاص قسم کے مسلز سے بنی ہوتی ہیں جنہیں Cardiac Muscels کہتے ہیں۔ اوریکل میں سارے جسم سے گدلا، نیلا خون جمع ہوتا ہے جبکہ بطین کا کام سارے جسم کو صاف خون مہیا کرنا ہے۔
دل ایک قسم کا دو دریاؤں کا سنگم ہے۔ ایک نیلے رنگ کا دریا ہے جو گندا خون دائیں اوریکل میں لاتا ہے یہاں سے خون دائیں بطین میں Tricuspid Valve کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔ دایاں بطین خون صاف کرنے کے لئے اسے پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے، جبکہ دوسرا دریا صاف اور لال خون کا ہے جو پھیپھڑوں سے صاف ہوکر Pulmonary Vien کے ذریعے بائیں اوریکل میں پہنچتا ہے اور یہاں سے بائیں بطین کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اور یہاں سے پورے جسم کو خون سپلائی ہوتا ہے۔ یہ پوری ہارٹ سائیکل صرف 0.8 سیکنڈ میں مکمل ہوجاتی ہے اور یوں تقریباً ایک دن میں 70 بیرل خون گردش کرتا ہے جبکہ کھیلنے کودنے اور سخت کام کرنے کی صورت میں یہ مقدار بڑھ کر چودہ بیرل فی گھنٹہ ہوجاتی ہے اس اعتبار سے دل کی تین دھڑکنوں سے تقریباً ایک پیالی خون خارج ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دل کو خوراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بذریعہ خون اپنی غذا حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ دل سارے جسم کے مقابلے میں سب سے پہلے خون اپنے استعمال کے لئے وصول کرلیتا ہے یعنی حقِ خدمت شروع ہی میں لے لیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ خون کارونری Coronary رگوں کے ذریعے ہی آنا چاہئے، کیونکہ اس کے چار حصوں میں جو خون جمع ہوتا ہے۔ دل اس سے قطعی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اگر دل یہ خون استعمال کرسکتا تو کبھی بھی حملہ قلب نہ ہوتا!!
دل ایک منٹ میں تقریباً بہتر (72) مرتبہ دھڑکتا ہے، لیکن بچوں میں دل کی رفتار ایک سو بیس دفعہ فی منٹ ہوتی ہے۔ چھوٹے دل، بڑے دل کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتاری سے دھڑکتے ہیں۔
مثلاً مختلف سائز کے جانوروں کے دلوں کی دھڑکن بھی مختلف ہوتی ہے جیسے ہاتھی کا دل ایک منٹ میں تقریباً 25 دفعہ دھڑکتا ہے جبکہ ایک چوہے کا دل تقریباً سات سو مرتبہ! یہ عجائبات میں سے ہے کہ اگر ایک آدمی ستر سال تک زندہ رہے تو اس کا دل چار کھرب دفعہ دھڑکے گا اور اس دوران دس کروڑ گیلن خون کا اخراج کرے گا۔ اس کے علاوہ پورے جسم میں صرف دل ہی ایسا عضو ہے جو بغیر کسی عصبی نظم کے خودبخود دھڑکتا ہے۔ یعنی اگر دل کو جسم سے علیحدہ کرکے سب اعصاب منقطع کردیئے جائیں لیکن خون کی رسد برقرار رکھی جائے تو بھی دل دھڑکتا رہے گا۔
دل کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اسے آرام کا وقت نہیں ملتا لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دل چوبیس گھنٹوں میں صرف آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے۔ یہ بات گو تعجب خیز معلوم ہوگی لیکن ہے بالکل درست۔ دراصل دل کی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک سکڑنے کی اور دوسرا ڈھیلا پڑنے کی۔ جب دل ایک تہائی وقفے کے لئے سکڑتا ہے تو خون دل سے پریشر کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ یہ حالت دل کے کام کی ہے لیکن جب دل دو تہائی وقفے کے لئے ڈھیلا پڑتا ہے تو خون دل میں داخل ہوتا ہے اور یہ حالت دل کے آرام کی ہے۔ اس طرح دل کے پٹھے ایک دھڑکن کے درمیان 0.2 سے 0.5 سیکنڈ تک آرام کرتے ہیں، لیکن جب دل کی رفتار تیز ہو تو آرام کا وقت بھی کم ہوجاتا ہے اور اسے زیادہ خوراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ جو دل تیز دھڑکتے ہیں وہ جلد تھک جاتے ہیں لیکن یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ پہلوانوں اور مستقل ورزش کرنے والوں کے دل کی رفتار آہستہ ہی ہوتی ہے اور زیادہ مشقت یا بھاگ دوڑ کے وقت بھی تیز نہیں ہوتی جو ان کے لئے مفید ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ورزش کے عادی نہیں ہیں انہیں اگر کبھی خلافِ معمول مشقت کرنا پڑجائے تو اُن کے دل کی رفتار بے قابو ہوجاتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ ہانپنے لگتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ دل بظاہر ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن اسے جس قدر کام اور جس نوعیت کا کام کرنا پڑتا ہے اُس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود کوئی بھی آج تک اس کی صحیح نقل تیار نہیں کرسکا۔ اس چھوٹی سی مشین میں ہنگامی حالت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی موجود ہے یعنی اگر کسی وجہ سے اس میں کوئی نقص پیدا ہوجائے تو یہ آپ ہی آپ اپنی مرمت بھی کرلیتا ہے۔ تمام انسان دل کی کارکردگی پر محو حیرت ہیں کہ یہ چھوٹا سا عضو کس قدر اور کتنے کام سرانجام دیتا ہے لیکن اس کے باوجود نہیں تھکتا اور یہی تو خدا کی قدرت ہے جس نے اس چھوٹی سی شے میں اتنی زیادہ صلاحیتیں جمع کررکھی ہیں۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top