skip to Main Content
دریابھی نہ چھوڑے ہم نے

دریابھی نہ چھوڑے ہم نے

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحابہ کرام کے وہ کا رنامے جو میدانِ جنگ میں سامنے آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین گھر بار چھوڑنا،آباء واجداد کا وطن چھوڑنااور باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا اور حق کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔مجموعی زندگی کے علاوہ جنگی زندگی میں بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بے مثال کار نامے انجام دئیے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میدان جنگ میں بہادری اور دلیری کے ساتھ ساتھ فہم وفراست سے بھی کام لیتے اور جنگی تدابیر بھی کیا کرتے تھے۔ذیل کے واقعات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہادری اور تدبیرکی چند مثالیں ہیں۔
منجنیق کا استعمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روم کی جنگوں میں قلعہ بہنسا کی لڑائی مشہور لڑائی ہے۔اس میں صحا بہ کرام کوکافی دشواریوں اور مصائب کا سا منا کرنا پڑا۔یہاں کا بادشاہ بطلیموس انتہائی شاطر ،مکار اور سر کش جرنیل تھا ۔یہ مسلمانوں کو کئی دفعہ دھوکا دے چکا تھا۔مسلسل لڑائی کے بعد بالآخر اس سے صلح تو ہو گئی لیکن حضرت خالد بن ولید کو اس پر پورا اعتماد نہیں تھا۔آپ نے دوسو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قلعے کے اندر متعین فرمادیا۔ بطلیموس صحابہ کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کرتا رہااور اعتماد دلاتا رہااور ساتھ ہی سامانِ رسد بھی قلعے کے اندر جمع کرتارہا۔دوماہ میں اس نے کافی حد تک صحابہ کو مطمئن کرلیااور سامان رسد بھی مکمل کرلیالیکن پھر دوبارہ بغاوت کردی۔ اندر جتنے صحابہ تھے سب کو سوتے میں زنجیروں میں جکڑ دیااور باہر کی فوج پر عام حملہ کردیااور ایک مرتبہ پھر شکست کھاکر قلعہ بند ہو گیااور اندر والے قیدی صحابہ کو قلعے کی فصیل پر لاکر سب کے سامنے شہید کر دیاجس سے صحابہ میں مزید غصہ پیدا ہو گیا۔ شہداء کو دفنانے کے بعد صحابہ حضرت خالد کے پاس جمع ہوئے کہ اس قلعے کا کیا علاج کیا جائے کہ اب اس جنگ کو تین برس گزرچکے ہیں۔ایک صحابی حضرت عبدالرزاق نے تجویز دی کہ آپ لوگ ہم چند سا تھیوں کو روئی کی بھری ہوئی بوریوں میں اسلحہ سمیت بند کرکے منجنیقوں کے ذریعے قلعے کی فصیل پر پھینک دیں۔ ہم بوریوں کوکاٹ کر نکل آئیں گے اور پھر کارروائی کریں گے۔چنانچہ منجنیقوں کا انتظام کیا گیااوررات کی تاریکی میں انہیں فصیل پر پھینکا گیا۔انہوں نے فصیل پر پہنچ کر بوریاں کاٹیں اور پہرے داروں کو قتل کرکے دروازہ کھول دیا۔رات کی تاریکی میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوگیا۔ادھر شہر والے بھی جاگ گئے۔اب ہر سڑک،ہررستے اور ہر گلی کوچے میں دست بدست لڑائی ہونے لگی۔بڑے گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ بطلیموس حضرت خالد کے ہتھے چڑھ گیا۔آپ نے تاک کر نیزہ مارا جو اس کے سینے سے باہر ہو گیا۔پھر تلوار مار کر اس کا سر دوٹکڑے کر دیا۔کفار کے تیس ہزار آدمی مارے گئے اور بیس ہزار گرفتار ہو ئے اور روم میں کفار کی کمر ٹوٹ گئی۔
روئی کی بوریوں میں چندآدمیوں کا اندر جانا بے شک بہادری اور حسنِ تدبیر کی ایسی مثالیں ہیں کہ جن کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
ہاتھیوں کا مقابلہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگِ قادسیہ اسلام کی مشہور جنگوں میں سے ہے۔اس جنگ میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ایرانی فوج جب میدان میں اتری تو اس کے ساتھ جنگی بھی تھے جن پر ایران کے چوٹی کے بہادر سوار تھے۔ان ہاتھیوں کی سونڈوں کے کناروں پر تلواریں لگائی گئیں تھیں یہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس کرسونڈیں ہلاتے جس سے مسلمان سپاہی شہید ہو جاتے اور ان دیو ہیکل ہاتھیوں کو دیکھ کر گھوڑے بھی بھاگ جاتے اور اس طرح ان ہاتھیوں نے کافی نقصان پہنچایا۔صحابہ نے اس کے بدلے میں یہ تدبیر نکالی کہ اونٹوں پر چادریں ڈال دیں اورانہیں ہاتھیوں سے کہیں زیادہ خوفناک بنادیا۔اب یہ مصنوعی ہاتھی جدھر کا رخ کرتے ایرانی گھوڑے بدک جاتے اور ایرانی پسپا ہو جاتے۔
انوکھا انداز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگِ قادسیہ میں لشکرِ اسلام کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص کو دانے نکلے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ خود نہ لڑ سکتے تھے۔آپ ایک اونچی جگہ خیمہ لگائے جنگ کی کمان کررہے تھے۔ہر کونے پر آ پ کی نظر تھی۔فوج کو کوئی پیغام دینے کے لئے یا جنگ کا نقشہ بدلنے کے لئے آپ کاغذ پر لکھ کر اس کی گولی بنا کر سامنے والے سپاہی کی طرف پھینکتے وہ اپنے سامنے والے کی طرف پھینکتا اسی طرح بغیر کسی وقفے کے حکم پہنچ کر نافذ ہو جاتا۔
اسی جنگ میں ایران کا مشہور جرنیل رستم قتل ہوا۔یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جرأت اور بہادری کے کارناموں کی وہ لازوال حقیقی داستان ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے ’’رستم اور سہراب‘‘جیسی فرضی کہانیاں گھڑی گئیں۔
ایک تیر سے تین قتل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزوۂ احد میں کافروں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی طرف ایک تیرچلایاآپ نے وہ تیر اٹھا کر ایک کافر کو مارا اور قتل کردیا۔کفار نے وہی تیردوبارہ آپ پر چلایا آپ نے پھر اسی تیر سے ایک اور کافر کو قتل کردیا۔کفار نے وہی تیر تیسری مرتبہ آ پ پر چلایا۔آپ نے پھر وہی تیر چلاکر تیسرے کافر کو ڈھیر کردیا۔مسلمان حضرت سعد کے اس کارنامے سے بڑے حیران اور خوش ہوئے جبکہ دونوں جہاں کے سردار نبی اکرم ﷺنے اس دن حضرت سعد سے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا۔
بھیس بدلنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگِ نہاوند کے دوران سپہ سالار حضرت نعمان بن مقرن شہید ہو گئے۔ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے آپ کا لباس پہن کر علم ہاتھ میں لے لیا اور لشکروالوں کو آخر تک پتا نہ چل سکا کہ سپہ سالار شہید ہو گئے ہیں۔اس طرح نہاوند صحابہ کے زبردست صبر واستقلال، بہادری اور حکمت عملی سے فتح ہو گیا اور دشمنان اسلام کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔
سیف اللہ کی کاٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر مز ایران کا مشہور جنگ جو سردار تھا۔اس کی دھاک تمام عرب اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی۔ کیوں کہ وہ جنگی بیڑہ لے کر ہندوستان کے ساحلوں پر بھی حملہ آور ہو جایا کرتا تھا۔جنگِ ذات السلا سل میں سیف اللہ( حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لقب جو حضو ر ﷺ کی طرف سے انہیں ملا جس کا مطلب ہے اللہ کی تلوار)اور ہرمز کے درمیان پیدل لڑائی جاری تھی۔ہرمز نے حضرت خالد پر وار کیا آپ نے اس کا وار خطا کردیا اور نیچے بیٹھ کر اس کی کلائی پکڑ لی اور اس سے تلوار چھین لی۔وہ آ پ سے لپٹ گیا اور کشتی ہونے لگی۔آپ نے اٹھا کر اسے اس زور سے زمین پر مارا کہ حرکت نہ کر سکا۔آپ نے فوراً اس کا سر تن سے جدا کردیا۔اس کے بعد عام جنگ شروع ہو ئی مگر کفار تھوڑی دیر میں ہی بھاگ گئے۔اس جنگ میں کفار کی فوج کا ایک حصہ پاؤں میں زنجیریں باندھ کر آیا تھا تاکہ میدانِ جنگ سے بھاگ نہ سکیں مگر انہیں بھی زنجیریں کاٹ کر بھاگنا پڑا۔انہیں زنجیروں کی وجہ سے اس لڑائی کانام ذات السلاسل پڑا۔سلاسل زنجیروں کو کہتے ہیں۔
 

ساٹھ ہزار بمقابلہ ساٹھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین روم کی فتح میں مصروف تھے۔مسلمانوں عرب عیسائیوں کے سردارجبلہ بن ایہم کو اسلام کی دعوت دی اور سمجھایا کہ تم بھی عرب ہو اور ہم بھی۔لہٰذا ہم نہیں چاہتے کہ تم رومیوں کی خاطر ہم سے لڑو اور اگر تم لڑوگے تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو تم سے پہلے والوں کا ہوا۔یہ سن کر وہ ڈر گیا اور اپنے لشکر میں واپس چلا گیا۔اس کا خوف دیکھ کر رومیوں نے اس کا حوصلہ بڑھایااور کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں بلکہ تمہارے جیسے عرب ہیں۔آخر وہ جنگ پرآمادہ ہو گیا ۔اپنے ساٹھ ہزار عربی سپاہی لے کر سونے کی زرہ پہنے میدان میں نکلا۔ادھر حضرت ابو عبیدہ  رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو سپہ سالار تھے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔حضرت خالد نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں ان ساٹھ ہزار کے مقابلے میں تیس آدمی لے کر جاؤں جن میں سے ہر ایک دوہزار پر حاوی ہو۔صحابہ نے کہا کیاآپ مذاق فرماتے ہیں ؟کہنے لگے خدا کی قسم مذاق نہیں کرتا۔ایک صحابی نے کہا آپ ساٹھ ہزار کے مقابلے میں کم از کم ساٹھ تو لے جائیں چنانچہ آپ ساٹھ جرنیل صحابہ کو اپنے ساتھ لے کر نصرانی عربوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے نصرانیوں نے چند آدمیوں کو دیکھا تو کہنے لگے ہم لڑنے کی تیاری کر چکے ہیں اور تم ابھی تک صلح کے خواب دیکھ رہے ہو۔ہم قیا مت تک صلح نہیں کریں گے۔حضرت خالد نے تعجب سے پوچھا کہ کیا تم ہمیں قاصد تصور کرتے ہو حالانکہ ہم لڑنے آئے ہیں۔ جبلہ کہنے لگا اے نوجوان! تو غرور میں اپنی قوم کو تباہی کی طرف لے کر نکلا ہے۔آپ نے فرمایا تو ہمیں تھوڑا نہ جان ہم غرور میں نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ کرکے نکلے ہیں۔جبلہ نے اپنے ساتھیوں کو حملے کا حکم دے دیا۔صحا بہ نے بھی ثابت قدمی سے لڑنا شروع کر دیا۔دونوں طرف سے بہادروں کی چیخ وپکار اور تلواروں کی جھنکار کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔جنگ کے شعلے بلند تھے۔صحابہ تکبیر کی آوازیں بلند کر رہے تھے۔ حضرت خالد نے صحابہ سے فرمایا کہ آج اسی میدان کو میدان ِ حشر سمجھو اور کفار کو سبق سکھاؤ۔صحابہ کفار کے اندر گھرے ہو نے کے باوجود بڑھ بڑھ کر حملے کرتے رہے۔شام تک صحابہ ایسے لڑتے رہے جیسے بالکل تازہ دم ہوں اور ابھی ابھی لڑائی شروع کی ہو۔ادھر لشکر اسلام پریشانی کے عا لم میں تھا۔ابو عبیدہ سمجھے کہ صحابہ شہید ہو گئے۔لشکر اسلام لڑنے کے لئے تیار ہو گیا مگر شام ہوتے ہی کفار کو شکست فاش ہو گئی اور صحابہ وا پس آ گئے۔واپس آنے والے صحابہ بیس تھے ۔ایک مرتبہ پھر پریشانی بڑھ گئی کہ شاید چالیس صحا بہ شہید ہو گئے مگر میدان جنگ میں جا کر دیکھا گیاتو صرف دس لاشیں ملیں صحابہ نے کہا ضرور تیس لوگوں کو کفار گرفتار کر کے لے گئے ہیں۔صحابہ نے کفار کا پیچھا کیا تو مزید تیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مل گئے جو کفار کی شکست کے بعد انکا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے تھے۔اس جنگ میں دس صحابہ شہید ہوئے جبکہ پانچ گرفتار ہوئے جبکہ نصرانی عربوں کے پانچ ہزار آدمی مارے گئے ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی کو شش کریں تو بھی ایسی شاندار مثال نہیں لاسکتے۔
دریا میں گھوڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدائن کی فتح کے موقع پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔مدائن سے پہلے فتح دہشیر کے موقع پر جب کفار کی فوج مدائن کی طرف بھا گی تو جاتے ہو ئے درائے دجلہ کا پُل توڑ دیا۔اب لشکر اسلام اِس طرف تھا اور مدائن اُس طرف ۔اب مدائن کی طرف جانے کا کوئی راستہ نہ تھا بالآخر حضرت سعد نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔آپ کے پیچھے باقی صحابہ نے بھی اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے۔کفار نے تیر اندازی شروع کردی مگر صحابہ نے کوئی پروا نہ کیااور پار ہو گئے۔ایران کا بادشاہ یزد گرد مسلمانوں کی اس طرح آمد سن کر بھاگ گیااور مسلمان مختلف سمتوں سے مدائن میں داخل ہو گئے اور مدائن فتح ہو گیا۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے

آج بھی ان واقعات کو پڑھ کر مسلمان اپنے دل میں ایمان کی تازگی اور جذبۂ جہاد کی لذت محسوس کرتے ہیں جبکہ غیر مسلم آج بھی پڑھتے ہیں تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں اور آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آتے ہیں۔

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top