skip to Main Content
خونی جنگل

خونی جنگل

ناول: Amazon Adventure
مصنف: Willard Price
مترجم: اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھمکی
صولت مرزا کی ساری زندگی شکار کھیلتے گزری تھی۔ لیکن آ ج تک کبھی شکارپر جانے سے پہلے اس قسم کا کو ئی تار انھیں نہیں ملا تھا۔تار کا مضمون مختصر تھااور نیچے بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ انہوں نے تار کے مضمون کو تیسری مرتبہ پڑھا۔
”اگر خیریت چاہتے تو ایمیزن کے علاقے سے دور رہو۔“
یہ تار انہیں جنوبی امریکا کے ایک ملک ایکواڈور کے دارالحکومت کو یتو کے ایک ہوٹل میں ملا تھااور نیویارک سے بھیجا گیا تھا۔ صولت مرزا اس وقت ایک میز پر اپنے دونوں بیٹوں، کامران اور عدنان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ہوٹل کا مالک ڈان پیڈرو صولت مرزا کا گہرا دوست تھا۔ اس لیے دہ بھی انہی کی میز پر چلا آیا تھا۔ ان کی گفتگو کا موضوع ایمیزون کا علاقہ تھا۔ صولت مرزا جب سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان سے امریکا آئے تھے۔پانچویں مرتبہ جنوبی امریکا کے شکار پر نکلے تھے۔ اس سے پہلے چاروں مرتبہ وہ تنہا ہی گئے تھے لیکن اس مرتبہ ان کے دونوں بیٹوں کی ضد کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور آخرکاروہ انہیں ساتھ لے جانے پر آمادہ ہو گئے۔ کامران اور عدنان بھی شکار کے معاملے میں اناڑی نہیں تھے۔وہ اس سے پہلے کئی مرتبہ شکار پر جا چکے تھے۔ ان لوگوں کا پیشہ ہی یہی تھا شکار کرنا، جانوروں کو لانگ آئی لینڈ میں جمع کرنا اور پھر مختلف ملکوں کے چڑیا گھروں کو فروخت کر دینا۔
صولت مرزا اس وقت تک سینکڑوں جنگلی اور دریائی جانور اور پرندے پکڑ کر مختلف ممالک کے چڑیا گھروں کوسپلائی کر چکے تھے۔ ہوٹل کا مالک ڈان پیڈرو کامران اور عدنان کو بتا رہا تھا:
”تم لوگ دنیا کا سب سے بڑا دریا دیکھنے جا رہے ہو، اور ایک ایسا جنگل جہاں سے آج تک کوئی زندہ بچ کر نہیں آیا۔ہاں تمہارے والد اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔“
”کیا وہاں بڑے بڑے مگرمچھ بھی ہیں؟“ کامران نے پوچھا۔
”لا تعداد۔ اتنے کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور صرف مگر مچھ ہی نہیں، ہزاروں قسم کے جنگلی جانور بھی۔تمہارے والد اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔“
جنگلی جانوروں کے شکار پر یوں تو کامران اور عدنان اپنے ملک میں کئی مرتبہ جا چکے تھے لیکن غیر ملک میں اتنے خطرناک شکارکا یہ پہلا موقع تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا شوق لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ ان کے والد نے سر اوپر اٹھایا اور کہنے لگے:
”ہاں! میں چار مرتبہ پہلے بھی جنوبی امریکا کے علاقے میں شکار کے لیے جاچکا ہوں ادر اب پانچویں مرتبہ جا رہا ہوں لیکن اس مرتبہ ایک ایسے مقام پر شکار کا ارادہ ہے جہاں اس سے پہلے کوئی نہیں گیا۔ کوئی شخص یہ بات نہیں جانتاکہ ایمیزن کے علاقے میں کتنے جانور ہیں، کیونکہ ابھی بہت سا علاقہ ایسا ہے جو دریافت ہی نہیں ہو سکا۔ اس بار ہم جس علاقے میں جا رہے ہیں اس کا نام ”دریائے پاسٹیزا“ ہے اور یہ دریائے ایمیزن ہی کی ایک شاخ ہے۔“
”پاسٹیزا!“ ڈان پیڈروچلا اٹھا۔”اس علاقے میں توآج تک مہذ ب دنیا کا کوئی آدمی جا کر زندہ واپس نہیں آیا۔پچھلے سال دو آدمیوں نے کوشش کی تھی۔ آج تک ان کے بارے میں کچھ سننے میں نہیں آیا۔ جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ وہاں ایسے ریڈ انڈین آباد ہیں جنھیں ”سروں کے شکاری“ کہا جاتا ہے۔ سناہے کہ یہ لوگ انسانی سروں کو کسی عجیب و غریب طریقے سے بہت ہی چھوٹا سا بنا لیتے ہیں۔“
”کیا؟ انسانی سروں کو؟“ عدنان کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
”ہاں! وہ اپنے مردہ عزیزوں یا دشمنوں کے سروں کو چھوٹاکر کے اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔“
”حیرت ہے۔مجھے اس بات پر یقین نہیں آتا۔“کامران نے کہا۔
”تمھیں یقین نہیں آتا؟ اچھاادھر دیکھو۔وہ کیا چیزہے؟“
دونوں نے اس طرف دیکھا، جدھر ڈان پیڈرو نے اشارہ کیا تھا۔ آتش دان پر ایک ننھا سا سکڑا ہوا سر رکھا تھا۔ عدنان نے قریب جا کر اسے دیکھا، ڈرتے ڈرتے اسے چھوا اور بولا”یہ تو کسی بچے کا سر معلوم ہوتا ہے۔“
”بچے کا نہیں، یہ ایک جوان آدمی کا سرہے۔سکڑ کر اس قدر چھوٹا ہو گیا ہے۔“
”کہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی نہ ہو؟“
”اسی لیے تو کہتا ہوں کہ اپنی ضد سے باز آجاؤ۔ علاقہ بہت خطرناک ہے۔تمہارا میرے ساتھ جانا ٹھیک نہیں۔“ صولت مرزا فوراً بولے۔
”جی نہیں۔ خواہ کچھ ہو، ہم شکار پر ضرور جائیں گے۔ اور وہ انسانی سر ضرور دیکھیں گے۔“ کامران نے اٹل لہجے میں کہا۔
کامران ایف اے کا امتحان دے چکا تھا اور عدنان ابھی میٹرک میں تھا۔ کامران لمبے اور مضبوط قد کا نوجوان تھا۔ عدنان کا قد اتنا لمبا تو نہیں تھا لیکن خوب گٹھا ہواتھا۔دونوں بجلی کی طرح تیز اور طرار تھے۔
وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہوٹل کے ملازم نے وہ تار صولت مرزا کو لا کر دیا۔ انہوں نے لفافہ کھولا اورتار پڑھنے لگے۔
”کیا بات ہے اباجان۔“کامران نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔ شاید کوئی شخص ہمیں بے وقوف بنانا چاہتاہے۔“صولت مرزا نے تاران دونوں کی طرف بڑھا دیا۔
انھوں نے تار پڑھا اور سوچ میں ڈوب گئے۔ آخر کامران بولا۔”شاید کوئی دشمن ہمیں شکار پر جانے سے روکنا چاہتا ہے۔“
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ کسی بزدل آدمی کی شرارت ہے۔“ صولت مرزا بولے۔
”بزدل آدمی کی؟ آپ نے یہ کیسے جانا“ کامران نے پوچھا۔
”اس نے تار کے نیچے اپنا نام نہیں لکھا۔ یہی اس کی بزدلی کا ثبوت ہے۔“
”میں ہوائی جہاز کے بارے میں معلوم کر کے آتا ہوں۔“ کامران نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ ہوٹل سے نکل کر پیدل ہی چل پڑا۔ اس کا رخ اپنے دوست ٹیری کے گھر کی طرف تھا۔ ٹیری ایک ماہر پائلٹ تھا اور اس کا اپنا ہوائی جہاز تھا۔ اس سے پہلے بھی صولت مرزا چار مرتبہ اس کے ہوائی جہاز کے ذریے ایمیزن کا سفر کر چکے تھے۔ کل شام ٹیری نے بتایا تھا کہ اس کے جہاز کے بریک ٹھیک نہیں ہیں، لیکن کل صبح تک وہ ان کی مرمت کرالے گا۔
اچانک کامران کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہاہے۔ اس کے جوتوں کی چاپ بالکل صاف اس تک پہنچ رہی تھی۔لیکن وہ جان بوجھ کر ایک دم ایک گلی میں مڑ گیا۔ اس کا خیال ٹھیک نکلا۔ تعاقب کرنے والا بھی گلی میں داخل ہو گیا۔ آخر کامران نے فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کر ہی لوں۔ چلتے چلتے اس نے جیب سے ٹارچ نکالی۔ پھر ایک دم مڑا اور ٹارچ کی روشنی اس آدمی کے منہ پر ڈالی۔ وہ ایک بہت بد صورت آدمی تھا۔ اس کے سر پر ہیٹ تھا۔ آنکھوں سے نفرت اور کینہ جھانک رہا تھا۔ چند لمحوں کے لیے توکامران اس کی خوفناک شکل دیکھ کر گھبرا گیا۔ پھر وہ سنبھل گیا اور کڑک کر پوچھا۔
”کیا بات ہے؟ تم میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟“
”تمہارا پیچھا؟ بھلا میں کیوں کرنے لگا تمہارا پیچھا۔میں تو سیر کر رہا ہوں۔“
”بکتے ہو۔ میں جس طرف بھی گیا، تم بھی اسی طرف گئے۔“
”تمھیں وہم ہوا ہے۔“ اجنبی نے کہا۔
”تم مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔“
اچانک اس خوفناک آدمی نے کامران پر چھلانگ لگائی۔ لیکن وہ پہلے ہی تیار تھا۔ فوراً ایک طرف ہٹ گیا۔ وہ شخص اپنے ہی زور میں دیوار سے جا ٹکرایا۔ کامران کی پھرتی دیکھ کر وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور بولا۔
”تم تویوں ہی ناراض ہو گئے۔میں تو گرجا گھر کا پتہ پوچھنے کے لیے تمہارے پیچھے چل کھڑا ہوا تھا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہاں سے نزدیک ترین گرجا گھر کس طرف ہے؟“ کامران نے اسے گرجا گھر کا پتا بتا دیا۔
”شکریہ۔“اجنبی نے کہا اور تیزی سے اس طرف مڑگیا۔لیکن مڑتے مڑتے اس نے ایسی نگاہوں سے کامران کی طرف دیکھا جیسے کہ رہا ہو ”میں تم سے سمجھ لوں گا۔“

روانگی
کامران نے ٹیری کے دروازے پر دستک دی۔ ہنس مکھ چہرے والے ٹیری نے کامران کو دیکھ کر خوشی سے بھرپور قہقہہ لگایا۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے بعد کامران نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے متعلق بتایا، اور اپنے والد کو ملنے والے تار کا بھی ذکر کیا۔ ٹیری کے چہرے پر جوش کے آثارنمودار ہوئے۔”کہنے لگایہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔“
”کیا اچھا ہوا؟“ کامران نے پوچھا۔
”تمہیں کوئی دشمن تو ملا۔ اب اس مہم میں اور لطف آئے گا۔“
”میں الجھن میں ہوں۔ آخر تار کس نے بھیجا۔اس کا مقصد کیا ہے؟ اور……اب یہ خوفناک چہرے والا شخص مجھے سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔“ کامران سوچ میں ڈوب گیا۔
”جہاں تک میرا خیال ہے، تار بھیجنے والے نے ہی اس غنڈے کو تمہارے پیچھے لگایا ہوگا۔ اس کا خیال ہوگاکہ تم آسانی سے اس کے ہتھے چڑھ جاؤ گے اور پھر تمہارے والد اور بھائی اس مہم کا ارادہ ترک کر دیں گے۔“
”تمہارا خیال ٹھیک ہے۔“
”لیکن ان کے خیال کے برخلاف تم کافی دلیر ثابت ہوئے۔اور وہ غنڈہ تم پر ہاتھ صاف نہیں کر سکا۔“
”سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے؟“
”یہی بات میری سمجھ میں نہیں آئی؟“
”اچھا دیکھا جائے گا۔ تم یہ بتاؤ کہ جہاز ٹھیک ہو گیایانہیں؟“کامران نے پوچھا۔
”کیا تم واقعی صبح روانہ ہونا چاہتے ہو؟“
”ہاں! بالکل!“
”تو ٹھیک ہے۔ جہاز تمہیں صبح بالکل ٹھیک ملے گا۔“
تھوڑی دیر دونوں گپیں ہانکتے رہے۔ پھر کامران ا ٹھ کھڑاہوا۔ جب وہ ہوٹل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ عدنان اور اس کے والد گہری نیند کے مزے لے رہے ہیں۔ دہ خود بھی دن بھر کا تھکا ماندہ تھا، اس لیے جلد ہی نیند کی پرسکون وادی میں پہنچ گیا۔
صبح سویرے وہ پروگرام کے مطابق جہاز میں آ بیٹھے۔ ٹیری نے ہنستے ہوئے انھیں بتایا کہ رات وہ جہاز کی مرمت نہیں کرا سکا۔ یہ سن کر ان تینوں کو بہت غصہ آیا۔ کا مران تو اس پر برس ہی پڑا۔
”تم عجیب آدمی ہو۔ تمہیں معلوم تھا کہ ہم صبح سویرے روانہ ہونے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔“
”اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ مستری کی ماں اچانک بیمار ہوگئی۔ وہ کام در میان میں چھوڑ کر چلا گیا۔ خیر تم فکر نہ کرو۔ میں اس حالت میں بھی تمہیں لے جاؤں گا۔“
یہ کہہ کر ٹیری نے اپنے چھوٹے سے جہاز کو گھاس کے میدان میں دوڑانا شروع کر دیا۔ ابھی جہاز کی رفتار تیز نہیں ہوئی تھی کہ ایک دم تیز ہوا چلنے لگی۔ جس سے جہاز کا رخ بدل گیا اور وہ تیزی سے آگ بجھانے والے انجن کی طرف بڑھنے لگا۔ اس وقت جہاز کی رفتار پچھتّرمیل فی گھنٹہ تھی۔ اگر جہازکے بریک ٹھیک ہوتے تو ٹیری اسے حادثے سے بچا سکتا تھا لیکن اب یہ چھوٹا سا جہاز لمحہ بہ لمحہ آگ بجھانے والے انجن کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہوائی اڈے پرلگے خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ لوگ بوکھلا کر ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ چند ایک کے منہ سے تو خوف کے باعث چیخیں بھی نکل گئیں۔ صولت مرزا اور کا مران کی آنکھیں بھی دہشت سے پھیل گئیں۔ لیکن ٹیری کا چہرہ پرسکون تھا۔ اس نے بغیر کسی گھبراہٹ اور بدحواسی کے جہاز کو انجن سے ٹکرانے سے پہلے ہی زمین سے اوپر اٹھا لیا۔
جہاز اب نو سو فٹ فی منٹ کے حساب سے اوپراٹھنے لگا۔ کامران نے بلندی بتانے والے آلے پر نظر ڈالی۔ سوئی سترہ ہزار فٹ بتا رہی تھی۔ ٹیری نے انھیں بتایا:
”یہ جہاز اس سے زیادہ اونچا نہیں اڑ سکتا۔“
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سامنے نظر آنے والی برف پوش پہاڑیوں کے اوپر سے نہیں گزر سکے گا۔“ کامران نے پوچھا۔
”نہیں۔ یہ چوٹیاں انیس ہزار فٹ تک بلند ہیں۔“
کامران نے چوٹیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ اسی وقت جہاز کو ایک دھچکاسا لگا اور وہ ایک دم نیچے گرنے لگا۔ ٹیری نے فوراً ہوشیاری سے اسے کنٹرول کیا۔ جلدہی جہاز معمول کے مطابق پرواز کرنے لگا۔ دہ رنگ برنگ بادلوں میں اڑتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ عدنان نیچے دیکھتے ہوئے بولا،”یہ نیچے کوئی ندی بہہ رہی ہے کیا؟“
”ندی!“ صولت مرزا کی ہنسی نکل گئی۔ ”ارے بھئی، یہ ہی تو دریائے ایمیزن ہے۔“
آخر کار وہ جگہ بھی آ پہنچی جہاں انھیں اترناتھا۔ ٹیری نے زمین کا ایک اچھا سا ٹکڑا دیکھ کر جہاز کو نیچے اتارنا شروع کر دیا۔ زمین پر لگتے ہی جہازپینسٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے لگا۔ اچانک گھاس پھوس کی بنی ہوئی ایک جھونپڑی اس کی زد میں آ گئی۔ ٹیری نے بہت کوشش کی کہ اس سے بچ کر نکل جائے لیکن ممکن نہ ہو سکا۔جہاز جھونپڑی کو روندتا ہوا گزرگیا۔ جھونپڑی میں رہنے والے ریڈ انڈین خوف زدہ ہو کر ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کا جھونپڑا تنکا تنکا ہوگیا تھا۔ لیکن جانی نقصان نہیں ہوا۔ورنہ ان چاروں کے ٹکڑے اڑا دیے جاتے۔
جہاز کے ٹھہرتے ہی سارے ریڈ انڈین برچھیاں لے کر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ عورتوں اور بچوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مردوں کے چہرے غصے سے تمتما رہے تھے۔ قریب تھا کہ وہ ان کی تکا بوٹی کر ڈالتے کہ ٹیری نے جہاز کی کھڑکی میں سے سرباہر نکال کر ایک ریڈ انڈین کو آواز دی، جو وضع قطع سے ان کا سردار دکھائی دے رہا تھا۔ سردار کی نظر ٹیری پر پڑی تو اپنی زبان میں چلا اٹھا۔
”آہا! یہ تو ہمارا دوست ٹیری ہے۔“
یہ دیکھ کر ریڈانڈیوں کا غصہ سرد پڑ گیا۔ ان کی برچھیاں نیچے جھک گئیں اور چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ربڑ کی تجارت کے سلسلے میں ٹیری اکثر یہاں آتا رہتا تھا اور ان لوگوں کادوست تھا۔ تھوڑی دیر بعد چاروں شان و شوکت کے ساتھ گاؤں میں داخل ہو رہے تھے۔ ریڈ انڈینوں کا جلوس ان کے ہمراہ تھا۔ وہ ڈھول بجا بجا کرمہمانوں کی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔ گاؤں میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان تھے اوراکثر بانس کے بنے ہوئے تھے۔ بعض جگہوں پر انہیں کپڑا بننے کی دستی کھڈیاں بھی نظر آ ئیں۔ ٹیری نے ان لوگوں کا تعارف کراتے ہوئے بتایا:
”یہ لوگ بہت محنتی اور بہادر ہیں۔ آج تک باہر کا کوئی شخص ان پر قابو نہیں پا سکا۔“
قبیلے کے سردار نے ان کی شان دار دعوت کی اور ان لوگوں نے وہاں اپنی زندگی کا عجیب ترین کھانا کھایا۔ سردار کے گھر کی دیواریں مختلف جانوروں کی کھالوں سے سجی ہوئی تھیں اور ان پر قسم قسم کے ہتھیار سجے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ شیر اور چیتے کے سربھی لٹک رہے تھے۔ عدنان ان عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اسی طرح کھانے کی چیزیں بھی حیران کرنے والی تھیں۔
کھانے کے دوران کامران اور عدنان نے خوفزدہ نگا ہوں سے ان چھوٹے چھوٹے انسانی سروں کو دیکھا جو سردار کے کمرے کی کارنس پررکھے تھے۔ ایک سردروازے کے قریب لٹک رہا تھا۔ صولت مرزا نے پوچھا۔ ”یہ سر دروازے پر کس لیے لٹکایا گیاہے؟“ سردارنے، جو انگریزی زبان نہیں سمجھتا تھا، ٹیری کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”یہ اس سرکے متعلق پوچھ رہے ہیں۔“ٹیری نے ریڈ انڈین زبان میں کہا۔ سردارنے جواب میں کچھ کہا تو ٹیری نے ترجمہ کر کے انہیں بتایا:
سروں کو اس طرح محفوظ کرنے کا طریقہ ہماری درندگی کا ثبوت نہیں ہے۔ مصر میں بھی تو فرعونوں کی لاشوں کو مسالا گا کر محفوظ کیا جاتا تھا۔ یہ سر جو آپ دیکھ رہے ہیں ہمارے بزرگوں کے ہیں، اور جو سر دروازے پر لٹک رہاہے، وہ میرے دادا کا ہے۔ مجھے اپنے دادا سے بہت پیار تھا۔“
یہ سن کر عدنان بول اٹھا۔”یہ تو سب ٹھیک ہے، لیکن یہ لوگ اپنے بزرگوں اور رشتے داروں کے علا وہ دشمنوں کے سر کیوں محفوظ کر لیتے ہیں؟“
”یہ صرف ان دشمنوں کے سر محفوظ کرتے ہیں جو بہادر اورجا نباز تھے، اور بہادری سے لڑتے ہوئے ان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ یہ ان سروں کوعزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟“
”تو اس کا مطلب یہ ہواکہ سرکٹانا عزت کا باعث ہے؟“ عدنان مسکرا کر بولا۔
”بالکل۔ بالکل۔ اور یہ لوگ سفید چمڑی کے لوگوں کے سروں کو تو بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ سفید فام لوگ بہت عقل مند ہوتے ہیں۔“
عدنان یہ سن کر سہم گیا۔ کامران نے اسے خوف زدہ دیکھا توکہنے لگا۔”فکر نہ کرو۔ سب سے پہلے یہ تمہار ا ہی سر اتاریں گے۔“
”پہلے تمہاری باری آئے گی۔ تم مجھ سے بھی بڑے ہو۔“ عدنان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”کیا ہم ان میں سے کوئی سر عجائب گھر کے لیے لے سکتے ہیں۔“ صولت مرزا نے ٹیری کے ذریعے یہ بات سردار سے کہی۔
”ہم ان سروں کا یہاں سے باہر جانا پسند نہیں کرتے۔“سردار نے کہا۔
لیکن یہ تو سوچو کہ عجائب گھر میں لاکھوں آدمی اس نمونے کو دیکھیں گے اوروہ سب تم لوگوں کے فن کی تعریف کریں گے۔“
سردار ٹیری کی بات سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے اپنے دادا کے سر کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔”میں تمہیں اپنے دادا کاسر تو نہیں دے سکتا، البتہ ان سروں میں سے ایک دیے دیتا ہوں۔“
اس نے ایک سراٹھا کر انہیں دے دیا۔ صولت مرزا نے اس کے بدلے سردار کوپچاس ڈالر ادا کیے۔
”اب سردار کو ہماری مہم سے آگاہ کر دو۔“ صولت مرزا نے ٹیری سے کہا۔
ٹیری نے صولت مرزا کے ارادے سے سردار کو آگاہ کیا۔ اس پر سردار نے کہا:
”یہ کسی طرح بھی مناسب نہ ہوگا۔ میری حد میں توکوئی آپ لوگوں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا، لیکن اس سے آگے جو ریڈ انڈین رہتے ہیں، وہ باہر کے لوگوں کے بدترین دشمن ہیں۔جوں ہی آپ ان کے علاقے میں قدم رکھیں گے۔وہ آپ کو ذبح کر ڈالیں گے۔“
”لیکن ہمارے پاس ہتھیار ہیں۔“ صولت مرزا بولے۔
”ان کے پاس بھی ہتھیار ہوتے ہیں اور ان ہتھیاروں میں زہر میں بجھے ہوئے تیر، نیزے اور بھالے سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔“ سردار اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”ہم ان سے دوستی کر لیں گے۔“ صولت مرزا بھی ہار ماننے والے نہیں تھے۔
”دوستی کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ بات کرنے سے پہلے ہی وہ تیروں کی بوچھاڑ کر دیں گے۔“
”ہم ہر قیمت پر جائیں گے۔ آپ بس ہمیں ایک کشتی مہیا کر دیں گے۔“ صولت مرزا بولے۔
ٹیری نے بھی سردار کی منت کی اور آخر کار وہ رضامند ہوگیا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ شرط لگائی۔”آپ لوگ آج کی رات میرے مہمان رہیں گے۔“ صولت مرزانے اس کی یہ بات مان لی۔
رات کا کھانا ان کی توقع کے خلاف بہت مزے دار تھا۔ کھانے میں سب سے عجیب چیز سفید سفید گوشت کے وہ ٹکڑے تھے جن کا ذائقہ کچھ مرغ اور کچھ مچھلی سے ملتا جلتا تھا۔
”یہ کس چیز کا گوشت ہے؟“ عدنان نے پوچھا۔
”یہ ایک بہت ہی زہریلے سانپ کا گوشت ہے۔“سردار نے بتایا۔
یہ سن کر عدنان کا رنگ اڑ گیا۔ کامران بھی خوف زدہ ہو گیا۔ ان کی طبیعت متلانے لگی۔
کھانے سے فارغ ہو کرٹیری نے ان سے اجازت مانگی اور اپنا جہاز اڑاکر وہاں سے رخصت ہو گیا۔

پہلا شکار
صبح سویرے ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے جنگلی درندوں کے دھاڑنے اور چنگھاڑنے کی آوازیں سنیں۔
”شکر ہے کہ ہم چار دیواری کے اندر سوئے ورنہ یہ درندے تو ہمیں پھاڑ کھاتے۔“کامران نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
”اور شکار کے دوران تم کیا کرو گے؟وہاں چار دیواری کہاں سے لاؤ گے؟“ عدنان نے پوچھا۔
”ہاں یہ تو ہے، لیکن مجھے اس بات سے زیادہ فکر اس تعاقب کرنے والے کی ہے۔“ کامران نے کہا۔
”چھوڑو اسے۔بھلا وہ اس دور دراز علاقے میں کیسے آسکتا ہے۔“
تھوڑی دیر بعد کامران دریا کے کنارے پر پہنچ گیا۔یہاں ایک چھوٹی سی کشتی تیار کھڑی تھی۔ جو تقریبا بیس فٹ لمبی تھی۔ کامران نے کشتی میں سامان رکھنا شروع کر دیا۔ اس نے تمام چیزیں اس طرح رکھیں کہ بوقت ضرورت انہیں آسانی سے نکالا جا سکے۔ اپنے والد اور عدنان کے آنے سے پہلے ہی وہ تمام چیزیں رکھ چکا تھا۔
”بہت خوب! تم نے چیزوں کو بہت قرینے سے رکھا ہے۔“ صولت مرزا نے اس کی تعریف کی۔
تقریباً دو گھنٹے بعد کشتی اپنے تمام ساز و سامان سمیت روانہ ہونے کے لیے تیار تھی۔ ریڈ انڈین سردار اور اس کے ساتھی انہیں رخصت کرنے کے لئے آئے۔
”میرا ایک آدمی کچھ دور آپ لوگوں کے ساتھ جائے گا تاکہ مشکل وقت میں مدد کر سکے۔“ سردار نے اشاروں میں کہا۔ اس کا نام ’نیپو‘ ہے۔
”بہت بہت شکریہ!“ صولت مرزا نے کہا۔
عدنان کے لیے یہ سفر باعث مسرت بھی تھا اور حیران کن بھی۔ وہ کبھی دریا میں تیرنے والے آبی جانوروں کو دیکھتا تو کبھی آسمان کی گہرائیوں میں اڑنے والے عجیب عجیب پرندوں کو۔ اچانک ایک بہت بڑا گدھ ان کے اوپر سے گزرا۔ یہ تقریباً دس فٹ لمبا تھا۔
عدنان نے اسے دیکھ کر بندوق پر ہاتھ ڈالا اور جب وہ ان کے سروں پر منڈلاتے ہوئے گزرا تو اس نے بندوق سیدھی کر کے نشانہ لینا چاہا لیکن صولت مرزا نے اسے روک دیا۔ وہ بولے:
”اول تو اس چھوٹے سے کارتوس سے اس کا کچھ بگڑے گا نہیں،اور اگر یہ گر بھی گیا تو ہمارے کس کام کا۔ اسے کونڈر کہتے ہیں۔یہ چالیس چالیس دن بھوکا رہ سکتا ہے اور جب کھانے پر آتا ہے تو ایک وقت میں آٹھ نو سیر گوشت ہڑپ کر جاتا ہے۔ تمام پرندوں سے زیادہ اونچا اڑ سکتا ہے۔ جہاں کہیں کوئی مردار نظر آتا ہے، یہ بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹتا ہے اور بھوک کی حالت میں چھوٹے موٹے جانوروں کو بھی اٹھا کر لے جاتا ہے۔“
اتنے میں ان کی کشتی بھنور میں پھنس گئی اور چکر کھانے لگی۔دریا کا شور اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ جلد ہی وہ ایک دوسری مصیبت سے دوچار ہوئے۔ اس مرتبہ عمودی چٹانیں ان کی راہ میں حائل تھیں۔ انھوں نے پورا زور لگا کر کشتی کا رخ موڑا۔اگر ان سے ذرا بھی غفلت ہو جاتی تو کشتی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی ہوتی۔ تند موجیں کشتی سے بار بار ٹکرا رہی تھی اور ان کے کپڑے پانی میں شرابور ہو گئے تھے لیکن یہ وقت کپڑوں کی فکر کرنے کا نہیں تھا۔
چند لمحے بعد کشتی موجوں کے سہارے تیر رہی تھی۔ اب ہوا کا رخ بھی موافق تھا، اس لئے چپو چلانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔
”تمہیں معلوم ہے دریائے ایمیزن کو ایمیزن کیوں کہتے ہیں۔“سکون کا سانس لینے کے بعد صولت مرزا نے پوچھا۔
”جہاں تک میرا خیال ہے، یہ نام جنگ جو عورتوں کے ایک قبیلے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جنگجو عورتوں کا یہ قبیلہ سب سے پہلے دریائے ایمیزن کو دریافت کرنے نکلا تھا۔“
”ہوں! یہ بھی ٹھیک ہے۔“ صولت مرزابولے۔”لیکن عام خیال یہ ہے کہ اس دریا کا نام ایک ریڈانڈین لفظ ”ایموزونا“ پر رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کشتی کو تباہ کرنے والا۔ یہ دنیا کا سب سے چھوٹا اور خطرناک دریا ہے۔“ابھی یہ الفاظ ان کے منہ میں ہی تھے کہ ایک زبردست شور کی آواز آئی اور پھر دوسرے ہی لمحے دریا ان کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔
”خبردار! آگے آبشار ہے۔ ہمیں کشتی کو کنارے کی طرف لے جانا ہے۔“
سب مل کر کشتی کو دریا کے کنارے لے آئے۔ کنارے پر پہنچ کر انہوں نے ایک آبشار دیکھی۔ تھوڑی دیر بعد دریا تنگ ہونے لگا، یہاں تک کہ اس کی شکل بالکل نالے کی مانند ہوگئی۔ اس جگہ در یاد رختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ایک چھوٹی سی دلدل بھی نظر آئی۔ نیپونے پھرتی سے کشتی کو دلدل سے بچا لیااور اسے ایک جزیرے کی طرف کھیناشروع کردیا۔سب نے مل کر اس جزیرے میں کھانا کھایا۔ اس جزیرے کے ساتھ ہی بہت بڑا جنگل نظر آیا۔جنگل کو دیکھ کر عدنان کی باچھیں کھل گئیں۔
”کیا ہماری منزل قریب آ گئی ہے؟ اس نے پوچھا۔
”ہاں، خیال تو کچھ ایسا ہی ہے۔“ کامران بول اٹھا۔
دریا کے کنارے انہیں ریچھوں کے پاؤں کے نشان نظر آئے تھے۔صولت مرزا انہیں بتانے لگے:
”یہ ریچھ غول در غول یہاں پانی پینے آتے ہیں اور انسانوں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ان سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی فوراً درخت پر چڑھ جائے۔“
ان نشانات کے علاوہ وہاں اور بھی بہت سے جانوروں کے نشانات تھے۔ کشتی کو کنارے لگا دیا گیا تھا اور اب وہ چاروں مل کر ان نشانات کوشناخت کر رہے تھے۔ صولت مرزا بڑبڑا رہے تھے:
”ہرن کے پاؤں، جنگلی سؤروں کے پاؤں، اور یہ رہے شیر کے پاؤں۔“
یہاں انہوں نے اپنی مہم کا پہلا کیمپ لگایا۔ ایک اونچے اور مضبوط درخت پر تین مچانیں اوپر نیچے بنائی گئیں۔ صولت مرزا، کامران اور عدنان نے مچانوں پر ڈیرہ جمایا لیکن نیپو نے مچان پر چڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنے لیے زمین میں گڑھا کھودا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے تیر کمان لی اور مچھلی کے شکار کے لیے نکل گیا۔ عدنان نے تیر کمان سے مچھلی کا شکار کبھی نہیں دیکھا تھا،اس لئے وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔وہ تھوڑی دیر بعد چند مچھلیاں لے کرکیمپ میں واپس آ گئے،جہاں کامران نے آگ روشن کر رکھی تھی۔
مچھلی کھا کر وہ اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے۔یہ بستر درخت میں لٹکائے گئے تھے۔عدنان پہلے اس قسم کے کسی بستر میں نہیں لیٹا تھا۔ صولت مرزا نے اس سے کہا:”زیادہ ہلنا جلنا نہیں ورنہ نیچے گر پڑو گے۔“
ان ہدایات کے باوجود عدنان باز نہ آیا۔ وہ تجربے کا قائل تھا۔وہ سیدھا ہوکر لیٹ گیا اور لگا ادھر سے ادھر کروٹیں لینے۔نتیجہ یہ ہوا کہ دھڑام سے نیچے آگرا۔ سب کھل کھلا کر ہنس دیے۔ تھوڑی دیر بعد چاروں نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔ ابھی انہیں سوئے دو تین گھنٹے گزرے ہوں گے کہ جنگل خوفناک قسم کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ان آوازوں میں سب سے زبردست آواز شیر کے دھاڑنے کی تھی۔
صولت مرزااور عدنان تو لیٹتے ہی سو گئے تھے لیکن کامران کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ کسی درندے کے انتظار میں جاگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی اور عجیب قسم کی آوازیں بھی آئیں۔کامران نے فوراً ٹارچ روشن کی اور اس کا رخ آواز کی سمت کیا۔ جھاڑیوں میں سے نکل کر کھلے میدان میں آنے والے درندے نے غصیلی نظروں سے ٹارچ کی روشنی کو دیکھا۔کامران نے جھٹ کیمرہ سنبھالا اور ایک دم کیمرے اور فلیش لائٹ کا بٹن دبا دیا۔ ایک لمحے کے لیے بجلی چمکی اور پھر اندھیرا چھا گیا۔کامران نے اس عجیب و غریب جانور کی تصویر لے لی تھی۔
کامران کو یاد آیا کہ وہ اس کے بارے میں کتابوں میں پڑھ چکا ہے اور اسے ٹیپر(TAPIR) کہتے ہیں۔ یہ مادہ ٹیپر تھی۔ تقریباً پانچ فٹ اونچی اور چھ فٹ لمبی۔ اس کا جسم بڑے سور کاسا تھا،منہ اورٹانگیں گھوڑے کی،اورکمر کا حصہ ہاتھی سے ملتا جلتا تھا۔کامران نے سوچا کہ کسی طرح اسے زندہ پکڑ نا چاہیے،لیکن اتنے بڑے جانور کا کشتی میں سمانا بہت مشکل تھا۔اچانک اس کے دل میں ایک خواہش نے جنم لیا:
”کاش!اس کا کوئی چھوٹا سا بچہ ادھر نکل آئے۔“
اس کی یہ خواہش پوری ہوگئی۔اس مادہ ٹیپر کا بچہ بھی یہیں کہیں تھا۔اچانک وہ دوڑتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا۔اسے دیکھ کر کامران کا دل باغ باغ ہو گیا۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ اپنے والد اور عدنان کو بھی جگا لے۔لیکن پھر اس نے تنہا ہی ا سے پکڑنے کا ارادہ کر لیا۔
اسے معلوم تھا کہ ٹیپر جان بچانے کے لیے پانی کا رخ کرتا ہے۔وہ بستر سے نیچے اتر آیا اور اس کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ اچانک اس کے پاؤں کے نیچے کوئی لکڑی ٹوٹی۔اس کی آواز نے خاموش فضا میں ہل چل سی مچا دی۔ مادہ ٹیپرچونک کروحشت ناک نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ساتھ ہی اس کے حلق سے سیٹی کی سی آوازبھی نکلی۔ جسم کے لحاظ سے یہ آواز ایسی تھی جسے سن کر ہنسی آئے۔ اتنا بڑا جانور اور اتنی چھوٹی آواز۔اس شورسے باقی لوگ بھی جاگ اٹھے۔انہوں نے یہ خوفناک منظر دیکھا تو دم بخود رہ گئے۔ کامران ٹیپر کی زد میں تھا اور اس کے والد اور بھائی اس کی مدد کرنے سے لاچار تھے۔
کامران نے اپنے حواس پر قابو رکھا اور جوں ہی مادہ ٹیپر ٹکر مارنے کے لیے بڑھی، اس نے اچھل کر درخت کی شاخ پکڑلی۔لیکن قسمت کی خرابی کہ شاخ تڑاخ کی آواز سے ٹوٹ گئی۔ عین اسی لمحے ٹیپر اس درخت کے نیچے سے گزری اور کامران اس کی کمر پر آ رہا۔ ٹیپر کی کمر سے زیادہ دیر چمٹے رہنا بہت مشکل تھا کیونکہ اس کے والد اسے بتا چکے تھے کہ ٹیپراپنے سوار کو اپنی کمر سے علیحدہ کرنے کے لئے خاردار جھاڑیوں یا گھنے درختوں میں سے گزرتا ہے، جس سے وہ بری طرح لہو لہان ہو جاتا ہے۔اس خیال کاآ نا تھا کامران نے فوراً اس کی کمر سے چھلانگ لگا دی۔ زمین پر گرنے سے اسے معمولی چوٹیں آئیں۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔
اسی وقت ٹیپر واپس پلٹی اور طوفانی رفتار سے دوڑتی ہوئی کامران کی طرف آئی۔کامران فوراً ہی چھلانگ لگا کر اس کے راستے سے ہٹ گیا۔ٹیپر اپنے زور میں آگے بڑھتی چلی گئی۔
اسی اثنا میں صولت مرزا کو موقع مل گیا۔ وہ بہت اچھے نشانہ باز تھے۔ ان کی ایک ہی گولی سے ٹیپر زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔ سب لوگ بھاگ کر اس کے قریب آگئے۔ٹیپرکا بچہ خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگا تھاکہ کامران نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

خون چوسنے والی چمگادڑ
اگلے دن وہ وہاں سے روانہ ہوئے۔کشتی پر ٹیپر کا بچہ بھی سوار کر لیا گیا۔اس جگہ سے آگے نیپونے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے اشاروں میں بتایا کہ ان کا علاقہ یہاں ختم ہوتا ہے اور وہ آگے نہیں جا سکتا۔ صولت مرزا نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ ان کے ساتھ چلاچلے لیکن وہ نہ مانا اور اپنی زبان میں الوداع کہتے ہوئے دریا کے کنارے کنارے واپس روانہ ہو گیا۔
ان کی کشتی تھوڑی دیر بعد ایک اور آبشار کے قریب پہنچی۔ یہاں انہوں نے کشتی کا سارا سامان اتار لیا اور خالی کشتی کو بڑی احتیاط سے ساحل کے ساتھ ساتھ آگے لے گئے۔ اس آبشار کے بعدکشتی اس علاقے میں داخل ہوئی جہاں سے آج تک کوئی آدمی واپس نہیں پلٹا تھا۔
ننھا ٹیپر بھوک محسوس کر رہا تھا اور بے چینی سے ادھر ادھر منہ مار رہا تھا۔ عدنان نے اس کا نام”نوزی“ رکھ دیا تھا۔اس نے اپنے والد سے کہا کہ”نوزی بھوکا ہے۔یہ کیا کھاتا ہے، آپ جانتے ہیں؟“
یہ پتے اور سبزیاں کھاتا ہے، لیکن یہ تو ابھی بچہ ہے۔ اس کے لئے تودودھ کی ضرورت ہے۔“ صولت مرزا نے بتایا۔
انہوں نے کشتی کو کنارے کے قریب کر لیا تا کہ عدنان نوزی کے لئے گھاس وغیرہ لے آئے۔عدنان بھاگ کر نرم نرم پتے اور گھاس لے آیا لیکن اس نے انہیں سونگھ کر چھوڑ دیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔ آخرتنگ آکر صولت مرزا نے اسے ایک کونے میں باندھ دیا۔
اسی اثنا میں کامران کاغذ پنسل اور کمپاس لے کر اس راستے کی نقشہ کشی کرنے میں مصروف ہوگیا تھا،جس پر وہ چل رہے تھے۔ یہ نقشہ اگرچہ بالکل درست نہیں تھا، پھر بھی بعد میں آنے والوں کے لئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔
کشتی چلتی رہی، نقشہ تیار ہوتا رہا اور نوزی بھوک سے بے چین کشتی میں اچھلتا کودتا رہا۔حتیٰ کی رات آ پہنچی۔ یہ رات انہوں نے ایک چھوٹے سے جزیرے میں کیمپ لگا کر کاٹی۔ ساری رات انہیں ریڈ اندینوں کے حملے کا خطرہ رہا لیکن کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا۔ البتہ جنگلی جانوروں کا شور ضرورسنائی دیتا رہا۔ اگلا دن بھی خیریت سے گزرا،سوائے اس کے کہ ننھے ٹیپر کی بھوک ہڑتال جاری رہی۔ اس نے گھاس کو منہ نہیں لگایا۔تینوں اس کے لیے پریشان تھے۔ عدنان ڈر رہا تھا کہ کہیں چڑیا گھر میں جانے سے پہلے ہی نوزی مر نہ جائے۔
تیسرے دن انھوں نے کنارے کے ساتھ چلتے ہوئے دو بکریاں کھڑی دیکھیں۔ان میں سے ایک کے تھنوں میں دو دھ بھرا ہوا تھا۔عدنان بھاگ کرکنارے پر گیا اور اس کا دودھ دوہ لایا۔
پندرہ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک تیر سنسناتا ہوا ان کی کشتی میں آکر لگا۔ انہوں نے اس سمت میں دیکھا جدھر سے تیر آیا تھا۔تین انڈین ان کی کشتی کی طرف شور مچاتے بھاگے آ رہے تھے۔ان میں سے ایک تیر چلا رہا تھا۔ دوسرے دو کشتی چلا رہے تھے۔ انہوں نے ان کے حملے سے بچنے کے لیے کشتی کو تیزچلانا شروع کر دیا لیکن دشمن کی کشتی لمحہ بہ لمحہ ان کے قریب آتی گئی۔
اسی اثناء میں انڈینو ں کی ایک اور کشتی نمودار ہوئی۔ اور انہوں نے بھی ان پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔وہ اس بوچھاڑ سے بچنے کے لیے کشتی کے فرش پر لیٹ گئے۔ صولت مرزا نے اس موقع پر عقل مندی سے کام لیا۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیے تاکہ ریڈ انڈین سمجھ جائیں کہ وہ ان سے لڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن وحشی انڈینوں نے اپنا حملہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں ایک تیر صولت مرزا کے بازو میں اتر گیا۔ کامران یہ دیکھ کر طیش میں آگیا۔اس نے اپنی بندوق اٹھالی۔
”گولی مت چلانا۔“صولت مرزا چلائے۔
”میں صرف انہیں ڈراؤں گا۔“ کامران نے جواب دیا۔
عدنان نے جلدی سے اپنے والد کے بازو سے تیر نکالا۔ کامران نے نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ گولی کی آواز سے پورا علاقہ گونج اٹھا اور ریڈانڈین شور مچاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔صولت مرزا نے چاقو نکالا،اپنازخم چوڑا کیا اور اس میں نمک بھر دیا۔ کیونکہ ہوسکتا تھا کہ تیر زہر میں بجھا ہوا ہو۔اس کے زہر سے بچنے کا بس یہی ایک طریقہ تھا۔
”کشتی کو کنارے سے لگا دیں تاکہ آپ کچھ دیر آرام کر لیں؟“ کامران نے پوچھا۔
”نہیں، ٹھہرنا خطرناک ہوگا۔چلتے رہو۔“انہوں نے کہا اور لیٹ گئے۔
دریا اب سنگلاخ چٹانوں میں سے گزر رہا تھا۔ اس کا بہاؤ بہت تیز تھا اور کشتی کو قابو کرنا مشکل ہورہا تھا۔ دونوں بھائی بڑی پامردی سے اس مشکل کا سامنا کر رہے تھے کہ اچانک چیخنے چنگھاڑنے کی آوازیں ان کے کانوں سے ٹکرائیں۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا۔انڈین کشتی میں سوار ان کے تعاقب میں چلے آرہے تھے۔ ساتھ ہی شور مچا رہے تھے۔ ان کی آواز چٹانوں سے ٹکرا کر آتی تواور بھی خوف ناک ہوجاتی۔رفتہ رفتہ درمیانی فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا اس کے ساتھ ہی تیروں کی بوچھاڑ ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ عین اسی وقت دواور کشتیاں نمودار ہوئیں۔ عدنان اور کامران پورا زور لگا کر کشتی چلانے لگے۔
”کیا خیال ہے، فائر کروں؟“ عدنان نے پوچھا۔
”نہیں۔ اگر ہم نے مقابلہ کیا تو زندہ نہیں بچیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ کشتی کو جس قدر تیز ممکن ہو چلایا جائے تا کہ درمیانی فاصلہ زیادہ ہوجائے اور ہم ان کے تیروں سے محفوظ ہو جائیں۔“ صولت مرزا نے کہا۔
اچانک ایک ہولناک سرنگ سامنے آ گئی۔ اگرچہ دریا کا ایک بڑا حصہ چٹانوں کے اردگرد سے ہو کر بھی گزر رہا تھاتاہم کامران نے اس موقع پر سرنگ میں داخل ہونا بہتر خیال کیا اور بے دھڑک کشتی سرنگ میں ڈال دی۔ پانی کا شور کانوں کے پردے پھاڑے ڈال رہا تھا۔ اندھیرا بھی اس قدر تھا کہ ہاتھ کوہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ا س پر مصیبت یہ کہ دریا کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ کامران نے کشتی کو چلانا بند کر دیا اور کوشش کرنے لگا کہ کشتی کم سے کم رفتار سے آگے بڑھے۔ اچانک کچھ پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔ وہ چونک اٹھے۔
”میرا خیال ہے یہ چمگادڑیں ہیں۔“کامران نے چیخ کر کہا۔
کافی دیر بعد سرنگ کا یہ سفر ختم ہوا۔ سرنگ نے انہیں ریڈانڈینوں سے بچا لیا تھا لیکن سرنگ سے باہر نکلتے ہی انہیں ایک اور آبشار کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی یہ لوگ آبشار سے بچنے کی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کہ کشتی پانی کے تیز ریلے سے ایک دم فضا میں بلند ہوئی، پھر دھم سے دوبارہ پانی میں گری اور گرتے ہی الٹ گئی۔
عدنان کشتی سے چمٹ گیا اور اسے کنارے کی طرف کھینچنے لگا۔ صولت مرزا بازو میں تکلیف کی وجہ سے تیر نہیں سکتے تھے۔وہ پانی میں بہتے چلے جا رہے تھے کہ کامران ان کی مدد کو پہنچ گیا اور انہیں کھینچتا ہوا کنارے پر لے آیا۔ادھر عدنان نے بھی کسی نہ کسی طرح کشتی کو کنارے سے لگا دیا اور باپ اور بھائی کے برابر بے دم ہو کر زمین پر گر پڑا۔ لیکن پھر اچانک اسے نوزی کا خیال آگیا۔وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نوزی کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اسے فکر ہوئی کہ کہیں ان کی محنت بیکار نہ جائے۔یہ بچہ بہت قیمتی تھا۔ چڑیا گھر والے اس کی بہت بڑی قیمت دے سکتے تھے۔اور پھر اسے تو اس بچے سے ویسے بھی انس ہوگیا تھا۔
اسے خیال آیا کہ نوزی کو اس کے والد نے کشتی کے ایک کونے میں باندھ دیا تھا۔ اس نے اس جگہ کا معائنہ کیا۔رسی ابھی تک بندھی ہوئی تھی لیکن اس کا دوسر سراا پانی کے اندر تھا۔ اس نے رسی کے سہارے آگے بڑھنا شروع کردیا اور آخر ایک چٹان کے پیچھے پانی کے ایک چھوٹے سے گڑھے میں اسے نوزی نظر آہی گیا۔ وہ پانی میں اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔ عدنان نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اپنے والد اور بھائی کے پاس آگیا۔
اس رات وہ زیادہ دیر تک نہ سو سکے۔ انھیں سوئے ہوئے بمشکل ڈیڑھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ عدنان کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے تووہ سمجھ نہ سکا کہ وہ سوتے سوتے یک دم کیوں بیدار ہو گیا ہے، لیکن پھر اسے اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے میں شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ اس نے اندھیرے میں ہاتھ انگوٹھے پر رکھا تو معلوم ہوا کہ انگوٹھا گیلا ہے۔
اس نے ٹارچ روشن کی توہاتھ پر خون لگا ہوا نظر آیا۔ اس کا انگوٹھا خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ وہ گھبرا گیا اور چلااٹھا:
”اف…… مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا ہے……!“
کامران نے اس کی آواز سن لی۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بولا:”کیا بات ہے؟کیوں ہماری نیند حرام کر رہے ہو؟“
”ارے میں مرا! ذرا میرے انگوٹھے کو تو دیکھو۔“
کامران نے اس کے انگوٹھے کو ٹارچ کی روشنی میں دیکھا اور پھر بولا:”معلوم ہوتا ہے کوئی کانٹا چبھ گیا ہے۔ سوتے وقت تمہیں تکلیف کا احساس نہیں ہوا ہوگا۔“
”غلط۔یہاں کہیں بھی کانٹے نہیں ہیں۔“
صولت مرزابھی ان کی آواز سن کر جاگ گئے۔وہ اٹھتے ہوئے بولے۔”کیا بات ہے؟“
”عدنان کے پاؤں کا انگوٹھا زخمی ہو گیا ہے۔ اس سے خون بہہ رہا ہے۔“
صولت مرزا کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ وہ کچھ عجیب قسم کی آوازیں سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا:
”دیکھو!سنو! تمہیں کسی قسم کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں؟“
”نہیں تو۔“ کامران بولا۔

”یہاں کہیں ضروربھڑیں موجود ہیں۔“ صولت مرزا نے کہا۔
”بھڑیں؟“کامران سوچ میں ڈوب گیا۔ اچانک اسے سرنگ والی چمگادڑیں یاد آئیں۔
”اوہ! مجھے یاد آگیا۔ یہ ضرور چمگادڑیں ہوں گی۔ اب بات سمجھ میں آگئی۔ عدنان کے پاؤں کا انگوٹھا ضرور کسی چمگادڑ نے چوسا ہے، اور یہ ’ویمپائر بیٹ‘ ہوگی۔“
”ویمپائر بیٹ یعنی خون چوسنے والی چمگادڑ!“عدنان کی آواز میں خوف تھا۔ وہ اپنے انگوٹھے پر رومال باندھ رہا تھا۔
”ہاں، لندن کا چڑیا گھر ایک ویمپائر بیٹ کے دو ہزار ڈالر دے سکتا ہے۔“کامران نے بڑے جوش سے کہا۔
”عدنان!تم جہاں ہو وہیں ٹھہرو۔ زخمی انگوٹھے کی وجہ سے تمہیں بھاگ دوڑ میں دقت ہو گی۔“ صولت مرزا نے کہا۔
”یہ ویمپائر بیٹ بہت خطرناک ہوتی ہے؟“کامران نے عدنان کو چڑانے کے لیے کہا۔
”ہاں۔“ صولت مرزا نے جواب دیا۔
”اور جس انسان کو کاٹ لے، وہ زندہ نہیں بچتا؟“
”خاموش رہو! تم جھوٹ کہتے ہو۔“ عدنان غصے سے چلایا۔
”عدنان! تم نے انگوٹھے پرآئیوڈین لگائی ہے؟“
”جی ہاں۔“
”بس ٹھیک ہے۔ فکر نہ کرو۔ تم زندہ رہو گے۔ان شاء اللہ۔“
”لیکن ڈیڈی، کیوں نہ ہم اس وقت تک انتظار کریں جب تک کہ ایک اور ویمپائر بیٹ عدنان کا خون چوسنے کے لیے نہیں آ جاتی۔ اس وقت ہم اس کو پکڑ لیں گے۔“ کامران عدنان کو جلانے پر تلا ہوا تھا۔
عدنان جھلا گیا۔ اس نے سر سے لے کر پیروں تک کمبل اپنے اوپر لپیٹ لیا لیکن جلدہی اس کی ایک بار پھر چیخ نکل گئی۔ ایک ویمپائر بیٹ بستر کے نیچے سے اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ جوں ہی اس نے عدنان کو کاٹنے کی کوشش کی، اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس چیخ سے ڈر کر ویمپائر بیٹ بستر سے باہرنکلی اور پھر سے اڑ گئی۔
کامران اپنے سامان میں سے ایک چھوٹا سا جال اٹھا لایا۔ اس نے کہا:
”ڈیدی!میں اسے جال سے پکڑو ں گا۔“
”لیکن چارے کے طور پر کیا چیز استعمال کرو گے؟“ صولت مرزا نے پوچھا۔
”اپنے آپ کو استعمال کروں گا۔“
کامران جال ہاتھ میں لئے خاموشی سے لیٹ گیا اور ویمپائر بیٹ کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر تک ویمپائر بیٹ نے اس طرف کا رخ نہ کیا۔پھر اچانک کامران نے محسوس کیا کہ اس کے سینے پر کوئی چیز آ بیٹھی ہے۔ یہ چیز بہت ہلکی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ یہ ضرور کوئی ویمپائر بیٹ ہے۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔
اسی وقت ایک دوسری چمگادر نے اس کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی بائیں کلائی پر چمگادڑ کی موجودگی کا احساس کیا۔ اب اس پر خوف طاری ہونے لگا۔ حملہ آور تین تھے اور وہ تنہا۔اس کے والد اپنی جگہ کوئی چمگادڑ پکڑنے کی دھن میں تھے اور عدنان بے چارہ ان خونی چمگادڑوں کے ڈر سے کمبل میں لپٹا پڑا تھا۔
کلائی پر بیٹھنے والی ویمپائر بیٹ کامران کی جلد میں سوراخ کرچکی تھی اور آہستہ آہستہ خون چوس رہی تھی، اس طرح کہ کامران کو تکلیف کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔وہ خاموش لیٹا رہا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ یہ چمگادڑ جب خون چوسنے میں پوری طرح محو ہو جائے تو اسے پکڑنا آسان ہو تا ہے۔
اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا جال آہستہ آہستہ اوپر اٹھایا اور اپنی بائیں کہنی پر دے مارا۔ویمپائر بیٹ پھڑ پھڑائی۔ کامران نے احتیاط سے بائیں ہاتھ سے ٹارچ روشن کی۔
جال میں ایک ویمپائر بیٹ اسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہی تھی۔ باقی دو اڑ گئی تھیں۔
”ڈیڈی! میں نے اسے پکڑ لیا۔“وہ بڑے جوش سے چلایا۔
”بہت خوب! شاندار! ٹھہرو! میں آتا ہوں۔“
”بے فکر رہیے۔ یہ پوری طرح میرے قابو میں ہے۔“
ویمپائر بیٹ کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں نفرت بھری ہوئی تھی۔ اس کی شکل بہت خوفناک تھی۔ اس کی طرف دیکھتے ہی کامران کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔
صولت مرزا اسے دیکھ کر کہنے لگے۔”یہ تو بالکل ایسی ہے جیسے کسی بھوت کی شکل پر ضرب کا نشان لگا دیا جائے۔“ پھر وہ چونک کر بولے۔”ارے تمہاری کہنی سے خون بہ رہا ہے۔“
”جی ہاں۔ میں نے کہا تھا ناکہ میں اپنے آپ کو بطور چارہ استعمال کروں گا۔“
”اوہ! تو کیا یہ تمہارا خون چوستی رہی ہے؟“
”جی ہاں۔میں نے کافی دیر تک اسے کافی اپنا خون پلایا ہے۔“
”ہوں! اسی لیے یہ پکڑی گئی۔“
اچانک ویمپائر بیٹ نے غصے سے اپنا منہ کھولا۔اس کا منہ خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے دانت چھوٹے چھوٹے لیکن تیز تھے۔ منہ کھولنے پر وہ اور بھی خوفناک دکھائی دی۔ سامنے کے دو دانت بالکل سوئی کی مانند نوکیلے تھے۔صولت مرزانے کامران کی کہنی پر آئیوڈین لگا کر پٹی باندھ دی۔
ویمپائر بیٹ اب جال کو کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جال بہت مضبوط تھا۔
کامران سوچنے لگا کہ اگر وہ اس کواپنے گھر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو ہزاروں لوگ اسے دیکھنے آئیں گے۔اچانک اسے خیال آیا۔وہ بولا۔”ڈیڈی، ہم اسے کھلا ئیں گے کیا؟“
”اس بارے میں میں خود بھی حیران ہوں۔“ صولت مرزا سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔”اسے ہر روز تقریباً آدھی پیالی خون کی ضرورت ہوا کرے گی۔“
یہ سن کر کامران نے عدنان کی طرف دیکھا۔عدنان چلایا:
”میں اس کو اپنا خون ہرگز ہرگز نہیں پلاؤں گا۔“
کامران نے ہنس کر کہا۔”اگر تم نہیں چاہتے کہ اسے تمہارا خون پلایا جائے تو تمہیں ہر روزاپنی بندوق سے اس کے لئے کوئی جانور شکار کرنا ہوگا۔“
اس تجویز سے عدنان خوش ہو گیا۔ بولا۔”مجھے منظور ہے۔میں اس کے لیے روز کوئی جانور ماروں گا۔“
رات بھر ویمپائر بیٹ جال میں ہی قید رہی۔عدنان جوصبح سویرے ہی ناشتا کرنے کا عادی تھا، اس صبح ناشتا کیے بغیر ہی بندوق لے کر جنگل میں نکل گیا۔اس کی چھوٹی سی بندوق آٹومیٹک تھی اور ایک وقت میں پندرہ فائر کر سکتی تھی۔
اسے امید تھی کہ آج ضرور جنگل میں کسی شیرسے مڈبیڑھ ہو جائے گی، لیکن کافی دیر مارا مارا پھرنے کے بعد وہ صرف ایک خرگوش مارسکا۔
”لو میرا بہادربھائی کتنا بڑا شکار لایا ہے۔“ کامران نے خرگوش دیکھ کر عدنان کا مذاق اڑایا۔
صولت مرزا صرف مسکرا کر رہ گئے۔بہرحال، خرگوش کاخون ویمپائر بیٹ کے لئے کافی تھا۔اس کا ناشتا جال میں ہی دیا گیا۔اسی اثنا میں صولت مرزا ایک پنجرا بنا چکے تھے۔چمگادڑ کو اس پنجرے میں بند کر دیا گیا۔
اس روز انہوں نے ایک چھوٹا سا بندر”پگمی مارمو سیٹ“ بھی پکڑا۔ یہ جانور تھا تو چھوٹا لیکن اہمیت کے لحاظ سے بہت بڑا تھا۔ ویمپائر بیٹ جتنی بدصورت تھی، یہ اتنا ہی خوبصورت اور پیارا تھا۔ یہ صرف تین انچ لمبا تھااور اس کا وزن دو چھٹانک سے کسی طرح بھی زیادہ نہ تھا۔ بال سنہرے تھے اور وہ دھوپ میں سونے کی مانند چمکتے تھے۔عدنان اور کامران اسے پکڑ کر بہت خوش ہو ئے۔ عدنان نے اس کا نام ”سپیک“ رکھا۔ صولت مرزا نے انہیں بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے چھوٹا بندر ہے۔

موسیقی کے ذریعے شکار
وہ پانچ روز تک مسلسل سفر کرتے رہے۔اس دوران میں کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔پانچویں روز ان کی کشتی ایسے مقام پر پہنچی جہاں دریا بہت چوڑا ہو گیا تھا۔
”ڈیڈی! کیا یہی ایمیزن ہے؟“ کامران نے پوچھا۔
”ہاں، یہیں سے دریائے ایمیزن شروع ہوتا ہے۔“ صولت مرزا نے کہا۔
اس مقام پر دریا کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ صولت مرزا نے یہاں ٹھہرنے کا پروگرام بنایا۔ دریاکے ساحل سے ایک میل کے فاصلے پر ہوا بہت خوش گوار تھی۔ اس جگہ پھولوں سے لدے ہوئے درختوں کا جھنڈ بھی تھا۔
انہوں نے کشتی سے سامان نکال کر کیمپ لگایا۔عدنان اپنی بندوق لینے گیا تو اسے ایک جگہ پرندوں کا جھنڈ نظر آیا۔ اس جھنڈمیں ہرقسم،ہر رنگ کے پرندے تھے۔اس جگہ کو اگر پرندوں کی جنت کہا جاتا تو بے جا نہ ہوتا، لیکن ان پرندوں میں بگلے کی قسم کا ایک پرندہ بہت ہی حیرت انگیز تھا۔یہ آدمی کے قد کے برابر تھا اور دریا کے کنارے بالکل اسی طرح قدمی کر رہا تھا جیسے کوئی آدمی مٹر گشت کررہا ہو۔ اس کا نام ”جبیرو سٹارک“ تھا۔
اس جگہ انہوں نے ایک بڑا بیڑا بنانے کا کام بھی شروع کردیا۔لکڑی کے بڑے بڑے تختے لچکیلی بیلوں کی مدد سے جو ڑے گئے اور دو دن کی متواترمحنت کے بعد آخر کار ان کا بیڑا تیار ہوگیا۔ ان دو دنوں میں انہیں کئی بیڑے تیرتے ہوئے نظر آئے۔
عدنان ایک درخت کے پاس سے گزرتے ہوئے ٹھٹک گیا۔ درخت کی ایک شاخ بہت نیچے جھک آئی تھی اور اس پر ایک بہت بڑی چھپکلی بیٹھی تھی۔عدنان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
چھپکلی کی دم کچھ سیاہ اور کچھ سبز تھی اور اس کے اوپر کانٹے سے جڑے ہوئے تھے۔کامران نے اورغور سے دیکھا تو کانٹوں کی ایک قطار اس کی ٹھوڑی کے نیچے بھی نظر آئی۔وہ چندلمحے گم صم اسے تکتا رہا۔ پھر واپس کیمپ میں لوٹ آیا۔
”میں نے ایک عجیب و غریب چیز دیکھی ہے۔“اس نے آ کر بتایا۔
”کیا؟“ صولت مرزا نے پوچھا۔
”کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہو سکتا ہے میری نظروں نے دھوکا کھایا ہو اور دراصل میں نے کچھ بھی نہ دیکھا ہو۔ بہرحال، میں نے اسے درخت کی شاخ پر دیکھا ہے اور وہ چھپکلی جیسی ہے۔میرے ساتھ آئیں اورخود دیکھ لیں۔“
وہ تینوں احتیاط سے قدم اٹھاتے ہوئے اس درخت کے پاس پہنچے۔ وہ ابھی تک اس شاخ پر موجود تھی اور اونگھ رہی تھی۔
”اوہ! یہ……“ صولت مرزا اسے دیکھتے ہی چونکے۔
”تمہیں یاد ہوگا سردار کے دسترخوان پر بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا تھا، جسے میں نے تمہیں کھانے نہیں دیا تھا۔“
”ہاں۔ یاد ہے۔“ کامران نے کہا۔
”وہ گوشت اسی کاتھا۔ اسے ”اگوانا“ کہتے ہیں۔یہ ریڈ انڈینوں کی بہت مرغوب غذا ہے اور بہت قیمتی ہوتی ہے کیونکہ بہت کم ملتی ہے۔ اسے پکڑنے کے لیے وہ ایک عجیب طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم بھی انہی کے طریقے سے اسے پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ڈوری کا پھندا لے آؤ۔“انہوں نے کامران سے کہا۔
”وہ تو میری جیب میں موجود ہے۔“
”بہت خوب! جیب سے نکال لو اور تیار رہو۔“انہوں نے کہا۔
”کیا ہم اس کے قریب جا سکتے ہیں؟“ کامران نے پوچھا۔
”نہیں۔ پہلے ہمیں اسے گانا سنانا پڑے گا تاکہ وہ ہم سے مانوس ہو جائے۔“
”آپ مذاق کر رہے ہیں؟“ عدنان نے آنکھیں جھپکا کرکہا۔
”نہیں،ریڈ انڈین اسی طریقے سے اسے پکڑتے ہیں۔ یہ موسیقی سن کر جھومنے لگتی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک چھڑی اٹھائی۔
”عدنان تم گاناگاؤ۔کامران چھڑی کی نوک دھیرے دھیرے اگوانا کی دم پر مارے گا۔“
عدنان کو گانا نہیں آتا تھا۔ اس نے بھدی سی آواز میں گانا شروع کر دیا اور کامران اگوانا کی دم پر آہستہ آہستہ چھڑی مارنے لگا۔
اگوانا نے آہستہ آہستہ ہلناشروع کیا اور اس کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں۔ پھر اس نے اپناسر گھمایا تاکہ ان لوگوں کو دیکھ سکے۔اس کے ساتھ ہی اس کا منہ کھل گیا۔عدنان اس کے تیز دانت دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا اور اس نے گانا بند کر دیا۔
”یہ تمہیں کاٹ بھی سکتی ہے لیکن اگر ہم نے اسے احتیاط سے پکڑا تو پھرنہیں کاٹے گی۔عدنان! تم نے گانا کیوں بند کر دیا؟ گاؤ۔“ عدنان دوبارہ گانے لگا۔
کچھ دیر تک یہ عمل جاری رہا، پھر صولت مرزا بولے۔”میرا خیال ہے اب یہ مست ہو گئی ہے۔لاؤ کامران۔ چھڑی مجھے دو۔میں پھندہ باندھ دوں۔“
انہوں نے پھندے کو چھڑی کے سرے سے کس کر باندھ دیا۔ پھر چھڑی کے سرے کواگوانا کے سر کے پاس پہنچا دیا۔اب پھندہ اس کی عین ناک کے اوپر تھا۔ وہ آہستہ آہستہ پھندے کو نیچے لانے لگے اورپھر اچانک اس کے سر کوجھکڑ لیا۔
”اب اسے اٹھا لیں۔“ عدنان خوشی سے چلایا۔
”خاموش رہو! جلد بازی سے کام لیا تو یہ اپنی دم جھاڑ دے گی اور دم کے بغیر دو کوڑی کی بھی نہیں بکے گی۔“
انہوں نے احتیاط سے اسے کھینچنا شروع کیا۔ شروع شروع میں اس نے کوئی حرکت نہ کی اور اپنی جگہ چپکی رہی۔ لیکن پھر اس نے شاخ پر گھسٹنا شروع کیا اور زمین پر آرہی۔ یہ لوگ اسی طرح اسے اپنے کیمپ تک لے آئے۔
”اب ہمیں اس کی خوراک کی فکرکرنی ہوگی۔“عدنان نے مسکرا کر کہا۔”ڈیدی! یہ کیا کھاتی ہے؟“
”تمہیں اس سلسلے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہر چیز کھا لیتی ہے۔پتے، پھل، سبزیاں، چھوٹے پرندے اور جانور بھی اس کی خوراک بنتے ہیں۔“
اس کے بعد انہوں نے جس پرندے کا شکار کیا وہ بھی کچھ کم قیمتی نہیں تھا۔ہوا یہ کہ اس دن کامران نے دریا کے کنارے ٹوکری میں شکار کی ہوئی چندمچھلیاں رکھ دیں۔ پھر کسی کام سے اسے کیمپ تک جانا پڑا۔اس دوران میں مچھلیاں ٹوکری میں دریا کے کنارے پڑی رہیں۔جب وہ واپس آیا تو بگلے کی قسم کے اس پرندے کو دیکھا۔یہ”جبیرو سٹارک“ تھا۔عدنان اسے پہلے بھی پرندوں کے جھنڈ میں دیکھ چکا تھا۔
اتنے لمبے چوڑے پرند ے کا پتلی پتلی ٹانگوں پر چلنا کامران کو خاصا دلچسپ لگا۔مچھلیوں پر ہاتھ صاف کرنے سے پہلے وہ چند لمحوں تک انہیں دیکھتا رہا جیسے سوچ رہا ہو کہ ٹوکری میں پڑی ہوئی مچھلی کھانا بہتر ہے یا دریا میں سے شکار کرکے کھانا؟
بلاشبہ وہ بہت شاندار پرندہ تھا۔اس کا قد گردن سمیت پانچ چھ فٹ تھا۔پر سفید تھے لیکن سر سیاہ تھااور گلے پر ایک سرخ رنگ کا دائرہ تھا۔ ا س نے آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلانے شروع کر دیے۔کامران نے سوچا کہ جب یہ کسی چڑیا گھر میں پہنچے گا تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسے دیکھنے آئیں گے۔
جبیرو سٹارک نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی لمبی سی چونچ مچھلیوں کی ٹوکری میں ڈال دی اور ایک ایک کر کے ساری مچھلیاں ہڑپ کر گیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
کامران کو اس کے غائب ہوجانے پر بے حد ملال ہوا۔ پھرنہ جانے اسے کیوں یہ یقین سا ہو گیا کہ وہ ضرور واپس آئے گا۔یہ سوچ کر اس نے مچھلیوں کی ٹوکری دوبارہ مچھلیوں سے بھر دی۔
اس کے بعد اس نے چار کیلیں لکڑی کی اس ٹوکری کے چاروں کونوں میں ٹھونکیں اور ان کیلوں کے ساتھ جال اس طرح باندھا کہ کھینچنے پر چھت کی شکل میں تن جائے۔پھر جال سے ایک رسی باندھی جو اس جگہ تک جاتی تھی جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اس نے بگلے کا انتظار شروع کردیا، یہاں تک کہ شام ہوگئی۔وہ مایوس ہونے لگا تھا کہ بگلا آہستہ آہستہ چلتا ہوا ساحل پر آیا اور ٹوکری سے بیس فٹ کے فاصلے پر ٹھہر گیا تا کہ حالات کا جائزہ لے سکے۔ اس وقت وہ ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔
چند لمحے اسی طرح گزر گئے۔ کامران کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور وہ چپ چاپ بیٹھا تھا۔اچانک بگلاآگے بڑھا۔اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ آس پاس خطرے والی کوئی بات نہیں۔ پھر بھی اس نے احتیاط سے ادھر ادھر دیکھااور پھر اپنی چونچ گردن تک ٹوکری میں داخل کر دی۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کا کامران کو انتظار تھا۔ اس نے پھرتی سے رسی کھینچ لی۔ جال فوراً ہی تن کر چھت کی شکل اختیار کرگیا اور بگلے کی گردن جال میں پھنس گئی۔

اس سے پہلے کہ بگلا کمزور جال کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔عین اسی وقت عدنان اور صولت مرزا بھی وہاں پہنچ گئے۔ کامران ٹوکری کی طرف سرپٹ دوڑ رہا تھا۔
”فوراًاس کی ٹانگیں رسی سے جکڑ دو۔“صولت مرزا چیخ کر کہا۔
کامران نے بگلے کے پیروں کو رسی سے جکڑناشروع کر دیا۔ اس نے اڑنے کے لیے زور لگایا اور کچھ اونچا اڑنے بھی لگا۔کامران گھبرا گیا۔
صولت مرزا اور عدنان کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں بگلے کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف بگلاہوا میں اڑنے کے لئے پھڑپھڑانے لگا۔ ایک لمحے کے لئے بالکل ایسا لگا جیسے وہ ان دونوں کو اڑا لے جائے گا۔وہ تقریباً چار پانچ فٹ اونچا اڑا۔پھر اس نے طیش میں آکر اپنے بازوؤں کو جھٹکا دیا لیکن پھندے سے نجات حاصل نہ کرسکا اور دائرے کی شکل میں کچھ دیر تک چکر لگانے کے بعد کشتی میں آگرا۔ انہوں نے جھٹ سے اسے دبوچ لیا۔
اس وقت تک وہ ایک ٹیپر، ایک ویمپائر بیٹ،ایک پگمی مارمو سیٹ،ایک اگوانا اورایک جبیرو سٹار ک پکڑچکے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے پاس ریڈ انڈین کا ایک سر بھی تھا۔
صولت مرزابیڑے کے کپتان تھے،کامران اُن کا نائب اور عدنان جانوروں اور پرندوں کا نگران۔ جانوروں کو کھلانا پلانا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔تمام جانور اور پرندے رات کے وقت بیڑے کے تختے پر سوتے۔ بیڑے پر ایک کیبن بھی بنائی گئی تھی جو ان تینوں کے لئے سونے کے کمرے کا کام دیتی تھی۔ اس میں بستر اوپر نیچے لگائے گئے تھے۔ عدنان اوپرسوتا تھا اور اس سے نچلے بستر پر کامران۔صولت مرزافرش والے بستر پر سوتے تھے۔
جب عدنان نیچے اترنا چاہتا تو پہلے وہ کامران کے بستر پر پاؤں رکھتا اور پھر صولت مرزا کے بستر پر۔اسے اترنے چڑھنے میں بڑا لطف آتا تھا اس لیے وہ بغیر ضرورت بھی اترپڑتا اور چند لمحے ادھرادھر ٹہلنے کے بعد پھر اوپر چڑھ جاتا۔
نیچے اترنے کے لیے لکڑی کے تختوں میں نوکیلے پتھر لگائے گئے تھے۔ایک رات کامران نے اس کی حرکتوں سے تنگ آکر ایک پتھر اکھاڑ دیا۔ عدنان اس وقت گہری نیند سو رہاتھا اور بیڑا دریا کے کنارے لگا کھڑاتھا۔
آدھی رات کے وقت عدنان کی آنکھ کھل گئی۔اس نے سوچا نیچے اترنا چاہیے۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کامران اور صولت مرزا گہری نیند سو رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بہانا بنانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
اچانک رات کی گہری تاریکی میں ایک تیزچیخ کی آواز گونجی۔ کامران اور صولت مرزا ہڑبڑا کراٹھ بیٹھے۔
”کامران!میرا خیال ہے میں نے عدنان کی چیخ کی آواز سنی ہے۔“
”میں نے بھی سنی ہے۔ ضرور باہر کہیں گیا ہوگا۔“ کامران نے ہنستے ہوئے کہا۔
اس وقت عدنان کے منہ سے ایک اور چیخ نکلی۔ اس چیخ سے صولت مرزا نے آسانی سے معلوم کر لیا کہ وہ کس سمت میں ہے۔ انہوں نے ٹارچ نکالی اور عدنان کی مدد کو لپکے، کامران بھی ان کے ساتھ تھا۔
”مجھے مگرمچھ نے پکڑ لیا ہے۔“ عدنان چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
کامران ایک دم سنجیدہ ہو گیا، کیونکہ یہ سب اسی کی وجہ سے توہوا تھا۔ نہ وہ پتھر نکالتا اورنہ عدنان پانی میں گرتا۔دریا مگرمچھوں اور خطرناک قسم کی مچھلیوں سے بھرا پڑا تھا اور عدنان کی جان سخت خطرے میں تھی۔
کامران نے جلدی سے اپنا شکاری چاقو نکالا۔ اس نے اپنے والد سے سن رکھا تھا کہ جب کسی مگرمچھ سے مڈبیڑھ ہو جائے تو چاقو سے اس کی آنکھ پر حملہ کرنا چاہیے۔ اس نے عدنان کو غوطے کھاتے دیکھا تو صولت مرزا سے پہلے پانی میں چھلانگ لگادی۔دوسرے ہی لمحے وہ تیزی سے تیرتا ہوا عدنان کی طرف بڑھا، لیکن اسے کوئی مگرمچھ نظر نہ آیا۔ البتہ پانی میں آدھی ڈوبی ہوئی ایک لکڑی ضرور ملی۔
عدنان بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کوئی مگر مچھ ہی تھا، جس نے اس کی ٹانگیں پکڑ لی تھی۔ البتہ اس نے یہ ضرور محسوس کیا تھا کہ اس کی ٹانگوں کو کسی چیز نے پکڑا تھا۔ اس دوران میں صولت مرزا بھی پانی میں چھلانگ لگا چکے تھے۔جب تینوں پانی سے نکلے تو انہوں نے ایک دوسرے کو پکڑا ہوا تھا۔ تمام جانوروں نے اپنی اپنی زبان میں ان کا مذاق اڑایا۔
باقی کی رات انہوں نے آ گ کے پاس بیٹھ کر گزاری اور اگلے دن بیڑا پھر دریا میں چھوڑ دیا۔ وہ آپس میں باتیں کرتے اور جانوروں کی چھیڑ خانیوں سے لطف اندوز ہوتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک عدنان چلا یا۔”ہماری کشتی ایک چٹان کی طرف جارہی ہے۔“
صولت مرزانے چونک کرسامنے دیکھا۔ چٹان اچانک سامنے آ ئی تھی۔ وہ گھبرا گئے۔پریشانی والی بات یہ نہیں تھی کہ ان کے سامنے اچانک ایک چٹان آ گئی تھی۔ بات دراصل یہ تھی کہ ان کی دائیں اور بائیں طرف بھی دو چٹانیں تھیں۔وہ کشتی کو کسی طرف بھی نہیں موڑ سکتے تھے۔ انہوں نے چپوؤں سے کشتی کی فتار آہستہ کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور پھر دوسری مصیبت یہ نازل ہوئی کہ کامران کا چپو دو ٹکڑے ہو گیا۔ اب بیڑے کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہ تھا کہ بیڑہ چٹان سے ٹکراتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور اس طرح نہ صرف جانور بلکہ کھانے پینے کا سامان اور دوسری تمام چیزیں بھی ضائع ہو جائیں گی۔
بیڑے کے تختے میں کیلیں اور میخیں وغیرہ نہیں جڑی گئی تھیں۔ بس لکڑی کے تختوں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا۔ اتنا کمزور بیڑا بھلا کسی چٹان کی ٹکرکیا برداشت کرسکتا تھا۔ اگلے چند لمحے ان کی زندگی کے اہم ترین لمحے تھے۔
لکڑی کے تختے پانی میں بھیگنے کی وجہ سے پھسلواں ہو گئے تھے۔ جب بیڑاچٹان سے ٹکرایا تو وہ پھسلتاچلا گیا اور اس طرح سوائے کیبن کی چھت کے، کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچا۔تمام جانور بھی بال بال بچ گئے۔
ان کا بیڑا دریا کے اوپر بہتا رہا۔ اس دوران میں انہیں سوائے جنگل کے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ پھر اچانک ایک دن صبح کے وقت انہیں ایک شہرنظر آیا جس کا نام ”ایکویٹوس“ تھا۔ دریائے ایمیزن کے گھنے جنگلوں سے گزرنے کے دوران پہلی مرتبہ انہیں کوئی شہر نظر آیاتھا۔ انہوں نے بیڑے کو ایک لکڑی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ اس جگہ سینکڑوں کشتیوں سے مال اتارا اور لاداجا رہا تھا۔صولت مرزا اپنے بیڑے پر ہی ٹھہرے رہے تاکہ چیزوں کی حفاظت کر سکیں اورکامران اور عدنان شہر میں گھومنے کے لیے نکل گئے۔
اپنے والد کی ہدایت پر وہ یونائیٹڈ سٹیٹس کونسل بھی گئے۔یہاں انہیں ایک تار ملا۔کامران نے تار وصول کیا اور وہ دونوں تیز تیزچلتے واپس بیڑے پر آئے۔ صولت مرزا نے لفافہ چاک کیا تو کامران کو اس تار کا خیال آگیاجوانہیں روانگی سے پہلے ملا تھا۔اس نے سوچا ”کیا یہ بھی کسی دشمن کی کارستانی ہے!“صولت مرزا نے تارپڑھنے کے بعد کامران کی طرف دیکھا تووہ بے حد سنجیدہ تھے۔ آخر وہ بولے”میرے بچو! اب ہمیں گھر واپس چلنا ہوگا۔“

وہی شخص
کامران اور عدنان کے لیے باپ کا یہ جملہ بڑا عجیب تھا۔ چند لمحے تک دونوں صولت مرزا کا منھ تکتے رہے۔پھرکامران نے ان کے ہاتھ سے تارلے لیا۔ یہ ان کی والدہ کی طرف آیا تھا۔ لکھا تھا:
”گھر کی عمارت کو آگ لگ گئی۔ تمام جانور جل گئے۔ کسی نامعلوم شخص نے آگ لگا ئی ہے۔ پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔آپ فوراً پہنچیں۔“
چند لمحے کے لیے تینوں خاموش کھڑے رہے۔ کامران سوچ میں ڈوبا ہو بڑ بڑا یا۔”آخر وہ کون ہے جس نے ایسا کیا؟“ پھر اچانک وہ چونکا اور کہنے لگا:
”میں نے آپ کو ایک بدصورت آدمی کے متعلق بتایاتھا جس نے میرا تعاقب کیا تھا، اور پھر مجھ پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ٹیری سے ملنے جا رہا تھا۔ آپ نے اس واقعے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور نہ میں نے ہی۔ لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے……“وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”آگ لگنے کے واقعے کا تعلق اس شخص سے کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ واقعہ کویتو میں پیش آیا تھا جب کہ آگ ہمارے گھر لانگ آئی لینڈ میں لگی ہے۔“
”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن اس شخص کو کویتو میں ہمارے پیچھے کس نے لگایا تھا؟“کامران کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا۔”ہو سکتا ہے یہ حرکت کسی نے ذاتی دشمنی کی بنا پرنہ کی ہو بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہو۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ عدنان نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ دراصل میرا مطلب یہ ہے کہ شاید کوئی شخص ہمیں اپنے راستے سے ہٹا کر فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔“
”وہ کیسے؟“ صولت مرزا نے پوچھا۔
”ہو سکتا ہے کوئی شکاری، جو جانور اکٹھے کر کے چڑیا گھروں اور سرکسوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہو، ہمیں اپنے راستے کا پتھر خیال کرتا ہو۔“
”میں تمہارے خیال کو درست نہیں سمجھتا۔ کوئی شکاری میرادشمن نہیں۔ اکثر شکاری میرے دوست ہیں۔“
”آپ کے علاوہ سب سے مشہور شکاری کون ہے؟“ کامران نے پوچھا۔
”البرٹ۔ لیکن وہ اب یہ پیشہ ترک کر چکا ہے۔“
”کیا مطلب؟“
”اس نے اپنے تمام جانور ایک اور شکاری کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں۔ اس کا نام’جان‘ ہے۔“
”کیا آپ اس شخص’جان‘ سے واقف ہیں؟
”میری اس سے جان پہچان نہیں، البتہ میں نے اسے دیکھا ہے۔سنا ہے بہت مکار آدمی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس شخص پر قتل کا الزام بھی لگایا جا چکا ہے اور یہ کہ وہ بھاگا ہواہے۔“
”گویا وہ ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کا عادی ہے۔“ کامران نے کہا۔
”ہاں۔ اور ہمیں اب گھر جانا ہی پڑے گا۔ اس مقام سے ایک جہاز منگل، جمعرات اور ہفتے کے روز جاتا ہے۔ہم کل ہی یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔“ صولت مرزا نے کہا اور جہاز پر سیٹیں محفوظ کرانے شہر چلے گئے۔
اس رات کامران کو رات گئے تک نیند نہیں آئی۔ وہ سوچ میں ڈوبا رہا۔ صبح چائے پیتے وقت اس نے کہا۔”ڈیڈی، آپ جہاز کی ایک سیٹ کینسل کرا دیں۔“
”کیا مطلب!“صولت مرزا نے حیران ہو کر کہا۔
”میں یہیں رکنا چاہتا ہوں تاکہ شکار جاری رکھا جا سکے۔ دشمن ہمیں اس سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گیا ہے۔ لیکن میں اسے کامیاب نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے ہمارے جانور اور سارا گھر تباہ کر دیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ ہم دریائے ایمیزن سے جانوروں کا نیاذخیرہ نہ لے جا سکیں لیکن میں اس کی امید خاک میں ملادوں گا۔ آپ دونوں بے شک چلے جائیں۔ میں تنہامہم جاری رکھوں گا۔“
”میں اسے مناسب نہیں سمجھتا۔تم ابھی بچے ہو۔“
”میں بھی کامران کے ساتھ ٹھہروں گا۔“ عدنان نے کہا۔
صولت مرزا مسکرائے۔”نہیں۔ تم دونوں بچے ہو اور اس خطرناک جنگل میں تنہا نہیں رہ سکتے۔“
”یہ دیکھیں ڈیڈی، ہمارے سب جانور مر چکے ہیں۔ اگر ہم یہاں سے خالی ہاتھ گئے تر ہمارا کاروبار بالکل ختم ہو جائے گا۔“
”یہ بہت خطرناک علاقہ ہے۔“ صولت مرزا نے فکر مند ہو کر کہا۔
”کم از کم میں عدنان کریہاں نہیں چھوڑ سکتا۔ عدنان بہت چھوٹا اور چلبلاہے۔“
”میں چلبلانہیں ہوں، اور نہ اتنا چھوٹاہی ہوں۔“ عدنان نے کہا۔ ”میں ثابت کردوں گا کہ میں کسی طرح بھی کامران سے کم نہیں ہوں۔“
”میں جانتا ہوں، تم ہر کام اپنی مرضی سے کروگے اور کامران کی کسی بات پر عمل نہیں کروگے۔“صولت مرزا بولے۔
”اچھا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کامران کی ہدایات پر عمل کروں گا۔“
”بہت اچھا۔ تم جیتے، میں ہارا…… لیکن یاد رکھو! کوئی شرارت نہ کرنا۔“
صبح کے جہاز سے صولت مرزا واپس روانہ ہو گئے۔
دہ دونوں صولت مرزا کو رخصت کرنے ہوائی اڈے تک گئے اور اس وقت تک جہاز کو دیکھتے رہے جب تک کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ انھوں نے سنجیدگی سے ایک دوسرے کودیکھا اور پھر اچانک انہیں ایسا محسوس ہواجیسے وہ بالکل تنہا رہ گئے ہوں۔
پھروہ دونوں واپس لوٹے۔ بیڑا اسی جگہ موجود تھا، جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ پاس ہی پولیس کا وہ سپاہی بھی موجود تھا جسے وہ نگرانی کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کروہ زور زور سے چلانے اور اشارے کرنے لگا۔ وہ نہ سمجھ نہ سکے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب انھوں نے اسے بتایا کہ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے تو سپاہی نے انہیں اشاروں میں بتایا:
”چند آدمی ایک کشتی میں بیٹھ کر ادھر آئے تھے۔ میں نے انہیں بیڑے کو کھولتے ہوئے دیکھا۔ میرے اعتراض کرنے پر ان میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے گا کہ میں اس بیڑے کے مالکوں میں سے ایک ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ جب تک دوسرے مالک نہیں آجاتے،میں بٹیرا نہیں لے جانے دوں گا۔ تم لوگ انتظار کرو لیکن انھوں نے انتظار نہیں کیا اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ تھوڑی دیر بعد آئیں گے۔“
”کیا آپ اس شخص کا حلیہ بتا سکتے ہیں؟“ کامران نے کہا۔
”وہ ایک لمبا اور بدصورت آدمی تھا۔“
کامران نے پولیس والے کو انعام دیا اور اس کے ساتھ تھانے پہنچا۔ وہاں اس نے رپٹ لکھوائی۔ پولیس والوں نے اس واقعے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ صرف اتنا وعدہ کیا کہ وہ اس شخص کا خیال رکھیں گے۔
لیکن اس کا تلاش کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ٹھہریے!میں آپ کو پوری بات تفصیل سے سناتا ہوں۔“کامران نے کہا اور پولیس افسر کو شروع سے آخر تک ساری کہانی سنا دی۔
”اس کو تلاش کر نابہت مشکل ہے۔“پولیس افسرساری رام کہانی سن کربولا۔
”تب پھر یہ کام میں خود کروں گا۔“
”تم کروگے؟مگر اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم اسے جیل میں نہیں ڈال سکتے۔ اگر تم اسے پکڑنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔“
”پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ کامران بولا۔
”میرا مشورہ تو یہی ہے کہ جہاز میں بیٹھواور گھرچلے جاؤ۔ یہاں تو ہم تمہاری مدد کر سکتے ہیں لیکن جوں جوں تم دریا میں آگے بڑھتے جاؤ گے، ہماری مدد سے محروم ہوتے جاؤگے۔ وہاں صرف جنگل کا قانون چلتاہے۔ہم وہاں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔تم یوں بھی ابھی بچے ہو۔“

آخری الفاظ سن کر کامران کو غصہ آ گیا۔ اس نے پولیس افسر کا جائزہ لیا۔ وہ افسر سے قد میں لمبا اور مضبوط تھا۔
”مشورے کا بہت بہت شکریہ۔ لیکن ہم واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔“
پولیس افسر ان نے اسے مسکرا کر دیکھا۔”بہت خوب! تم بہت باہمت ہو۔ اچھا، خدا حافظ!“
ٍ جب کامران واپس پہنچاتو اس نے عدنان کواس حالت میں پایا کہ اس کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی، دوسرے میں والد کا ریوالور اور پیٹی میں شکاری چاقو۔
”بہت خوب! تم آج کل کافی عقل مند ہو رہے ہو۔“
”اور کیا کرتا۔ خطرہ کسی وقت بھی سامنے آ سکتا ہے۔“
”اب ہمیں اپنے بیڑے کوبھی کچھ اور مضبوط بنانا پڑے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“
دونوں نے چند مزدوروں کی مدد سے بیڑے پر کام شروع کر دیا۔ انہوں نے جانوروں کے لیے بھی کچھ جگہیں بنائیں۔ پھر ایک ملاح کی مدد سے چھ آدمی اپنے ساتھ سفر کرنے پر آمادہ کیے اور ان کے لیے دو کشتیاں خریدیں۔
جب وہ ان کاموں سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ کامران کا ارادہ صبح سویرے سفر شروع کر نے کا تھا۔ اس دوران میں ان کے بیڑے اور کشتیوں کے پاس بہت سے مقامی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جو جانوروں اور پرندوں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں مشورے بھی دینے لگے۔
اچانک ایک جانی پہچانی شکل آدمیوں کے گروہ میں سے ابھری۔ اس بد صورت شکل پر نظر پڑتے ہی کامران بری طرح چونکا۔و ہ شخص اب قریب آ چکا تھا۔ یہ وہی تھا جس سے اس کی مڈبھیڑ ٹیری کے گھر جاتے ہوئے ہوئی تھی۔
”آہا مجھے یقین ہے کہ ہم پہلے بھی مل چکے ہیں۔“ کامران نے کہا۔
”ہاں، مجھے بھی یاد آ گیا۔ہم کویتو میں ملے تھے۔ میں اس وقت ایک گرجا گھر کی تلاش میں تھا۔“
”ہاں۔ شاید یہی بات تھی۔ اور کیا تم ہی نے کچھ دیر پہلے اس بیڑے کو لے جانے کی کوشش کی تھی؟“ کا مران نے پوچھا۔
”نہیں دوست۔تم نے یہ بات کیسے کہی؟ بھلامیں کیوں تمہارابیڑا لے جاتا۔ دراصل ہم ایک دوسرے بیڑے کے دھوکے میں اسے لے جانے لگے تھے۔“
”اچھا! یہ بات تھی۔ کیا میں تمہارا نام معلوم کر سکتا ہوں؟“
”میرا نام؟“ اجنبی ہنسا۔”میرا نام جان کر کیا کرو گے؟ میں لڑکوں کا بہترین دوست ہوں اور تم بھی مجھے دوست کہہ کربلا سکتے ہو۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا جس سے اس کا منہ پوری طرح کھل گیا۔ اس کا جبڑا بالکل کسی مگرمچھ کے جبڑے کی مانند تھا، اسی وقت کامران کو اس کا ایک نام سوجھا۔وہ بولا:
” بہت اچھا۔ تم مجھے اپنا نام نہیں بتاتے، نہ بتاؤ۔میں تمہیں آج سے ’کروک‘ کے نام سے پکاروں گا۔“
اس نام کا خیال کامران کو اس کا جبڑادیکھ کے آیا تھا۔ اس کا جبڑاچونکہ مگر مچھ کی مانند تھا اور مگر مچھ کو انگریزی میں ’کروکو ڈائیل‘ کہتے ہیں، اس لیے کامران نے اس کا نام’کر وک‘ رکھ دیا۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”ہاں تو مسٹر کر وک! اب تم کیا چاہتے ہو؟ کیا میں تمہیں اٹھا کر دریا میں پھینک دوں؟“
”میں تم سے ایک سودا کرنا چاہتا ہوں۔“ کروک نے کہا۔
”اور وہ سودا کیا ہے؟“
”تم اپنے یہ تمام جانور میرے ہاتھ بیچ دو۔“
”بہت خوب!یہ جانور میں تمہارے ہاتھ بیچ دوں؟ بھلا تم ان کا کیا دو گے؟“
”ایک ہزار ڈالر۔“
”یہ اس سے پانچ گنا قیمت کے ہیں۔سمجھے؟“کامران نے غصے سے کہا۔
”تمہاری مرضی۔ اگر تم ان کو فروخت نہیں کروگے تو میں زبردستی چھین لوں گا۔“
”یہ گیدڑ بھبکیاں کسی اور کودینا۔ میں تمہارے جھانسے میں آنے والا نہیں۔“
”سوچ لو۔ نقصان میں رہو گے۔“
”تم جاتے ہو یا میں تمہیں سچ مچ اٹھا کر پھینک دوں؟“
کروک کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں۔ اس نے ہونٹ کاٹ کر کہا ”میں تمھیں دیکھ لوں گا۔“
یہ کہ کر وہ لوگوں کے ہجوم کو چیر تا ہوان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
”اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ عدنان نے پوچھا۔
”رات کی تاریکی میں یہاں سے روانہ ہو جانا چاہیے؟“ کامران بولا۔
”اس صورت میں بھی وہ ہمیں آلے گا۔“
”نہیں، دریامیں سفر کرتے ہوئے بے شمار چھوٹے چھوٹے جزیرے راستے میں آتے ہیں۔ ہم ان میں سے کسی جزیرے میں چھپ جائیں گے اوراس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے اور ہمارے دشمن کے راستے الگ الگ ہو جائیں۔“
”ہوں! بات تو ٹھیک ہے۔ تو کیا ہم اپنے آدمیوں کو تیار ہونے کا حکم دے دیں؟“
”میں ان سے بات کرتاہوں۔“
کامران نے اپنے چھ ہمراہیوں کوتیاری کا حکم دیا تو ان میں سے ایک بول اٹھا۔”ہرگز نہیں۔ ہم رات کو سفر نہیں کریں گے، صبح روانہ ہوں گے۔“
”ہم آج رات دس بجے روانہ ہو رہے ہیں۔“ کامران نے اٹل لہجے میں کہا۔
”رات کو سفر کرنا بہت خطرناک ہے، جناب۔“
کامران سمجھ گیا کہ یہ لوگ آسانی سے آمادہ نہیں ہوں گے۔اس نے ایک آخری وار کیا۔”اچھا! جیسی تمہاری مرضی۔ تم اپنی اس وقت تک کی مزدوری لے لو۔ ہم اکیلے ہی چلے جائیں گے۔“
ان میں سے ایک جس کا نام بینکوتھا، یہ سن کرچونک اٹھا،بولا۔”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم دونوں ہماری مدد کے بغیر ہرگز یہ سفر جاری نہیں رکھ سکوگے۔ تم اس دریا سے واقف نہیں ہو۔“
”ہم یہاں تک بھی توتمہاری مدد کے بغیر ہی آئے ہیں، اور تمہاری مدد کے بغیرآگے بھی جا سکتے ہیں۔“
”اچھا! تم جیتے اورہم ہارے۔ہم دس بجے رات کو چلنے کے لیے تیار ہیں۔“
وہ سفر کی تیاری میں جٹ گئے اور ٹھیک دس بجے روانہ ہو گئے۔ بینکو بیڑے کے عرشے پر کھڑا تھا۔ اس کے تین ساتھی ایک ایک کونے پر کھڑے ہو گئے۔ باقی دو جانوروں کی حفاظت کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔ کامران اور عدنان باری باری چکر لگا کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔
وہ ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے۔ایک جگہ ہوا خوشگوار ہو گئی تو کامران نے رکنے کا حکم دیا۔ اس جگہ بینکو نے ایک بار پھر کامران کو سفر جاری رکھنے سے باز رکھنا چاہا۔ اس نے کہا۔”رات کی تاریکی میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا توبیڑے کے پرخچے اڑ جائیں گے۔“
کامران جانتا تھا کہ بینکوجو کچھ کہہ رہا ہے، وہ سچ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتاتھا کہ اگر انہوں نے سفرجاری نہ رکھا تو وہ اپنے اور دشمن کے درمیان فاصلے کو بڑھانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس نے بینکوکی تجویز ماننے سے انکارکر دیا۔
منہ اندھیرے انھوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ دن کی ہلکی ہلکی روشنی میں انہیں ایک میل دورایک چھوٹا سا جزیرہ دکھائی دیا۔ ان کے چہروں پہ رو نق آ گئی۔
جزیرے کے ساحل پر بیڑے کا لنگر ڈال دیا گیا۔وہ سب بے حد تھک گئے تھے، اس لیے ساحل پر اترتے ہی لیٹ گئے اور آناً فاناً گہری نیند سو گئے۔ بینکواور اس کے دو ساتھی کیڑے مکوڑوں کے خوف سے بیڑے پر سو رہے۔
سب سو چکے تھے لیکن عدنان جاگ رہا تھا۔

خوں خوارمگرمچھ
عدنان خیالی پلا ؤ پکا رہا تھا۔”ابھی ایک مگر مچھ آئے گا۔ وہ اپنا جبڑا میرے پاؤں کی طرف بڑھائے گا۔ میری ٹانگ پکڑنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن میں اس پر جھپٹ پڑوں گا اور اپنے شکاری چاقوسے اس کو مار ڈالوں گا۔“
یہ سوچتے سوچتے اس نے سچ مچ چاقو نکال لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ عین اسی وقت ساحل کے قریب ”شڑاپ شڑاپ“ کی آوازیں سنائی دیں۔ عدنان نے چونک کر اس طرف دیکھا تو خوف سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک بہت بڑامگرمچھ تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پانی سے نکل آیا اور ریت پر تیزی سے بڑھنے لگا۔ عدنان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مگرمچھ ریت پر بھی اتنی تیزی سے چل سکتا ہے۔
عدنان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ ایک دم بیڑے کی طرف بھاگا۔مگر مچھ بھی اس کے پیچھے لپکا۔ عدنان بدحواسی میں بیڑے کو نہ پکڑ سکا،پانی کا ریلا اسے بیڑے سے کچھ فاصلے پر لے گیا۔ اس وقت اسے چاقو کا خیال آیا لیکن چاقو اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔
اب مگرمچھ اس تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا پورا جبڑا کھل گیا تھا۔ ایک خوفناک چھپاک کی آواز آئی۔ عین اسی وقت عدنان نے بھی پانی میں ڈبکی لگائی۔مگرمچھ کا وار خالی گیا۔
چھپاک کی آواز سے بیڑے پر سونے والے تینوں آدمی جاگ اٹھے۔ انہوں نے عدنان اور مگرمچھ کو دیکھ لیا۔ عدنان مگرمچھ کا ہر حملہ جھکائی دے کر بچارہا تھا۔ بینکو اور اس کے ساتھیوں نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں۔ ان کے ہاتھوں میں شکاری چاقولہرا رہے تھے۔اب مگر مچھ پرچاروں طرف سے حملہ شروع ہوگیا۔
عدنان کو بیڑ ے تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔ وہ ساحل پر کھڑاہو کر اس خوفناک لڑائی کوپھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے گا۔ اس دوران میں کامران اور تین دوسرے ساتھی بھی بیڑ ے پر پہنچ گئے۔ دریا سے شڑاپ شڑاپ کی خوفناک آوازیں آرہی تھیں۔
اچانک پانی کی سطح پرکچھ سرخ لہریں دکھائی دیں۔ عدنان نے سوچا، کیا ہمارا کوئی ساتھی زخمی ہو گیا ہے؟ لیکن دوسرے ہی لمحے چاروں ساتھی پانی میں تیرتے ہوئے بیڑ ے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں پکڑا ہواچاقو خون سے سرخ ہو رہا تھا۔
”تویہ مگر مچھ کا خو ن تھا۔“ عدنان نے اطمینان کا سانس لیا۔”کیا ہم اس مگر مچھ کو بیڑے پر نہیں لے جا سکتے؟“ عدنان نے پوچھا۔
بینکوہنسا۔”کیا بات کرتے ہو۔یہ پورے بیڑے کو الٹ کر رکھ دے گا۔“
”کیا وہ مرگیا ہے؟“
”نہیں۔ صرف زخمی ہوا ہے اور بھاگ نکلا ہے۔ لیکن دریائے ایمیزن کی گوشت خور مچھلیاں ا سے نہیں چھوڑیں گی۔ وہ زخمی ہے۔ ان مچھلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔“
وہ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور پھر سو گئے۔
وہ ساحل پر بے سدھ پڑے تھے، اسی لیے آنے والے اس بن بلائے مہمان کو نہ دیکھ سکے۔ وہ بارہ فٹ لمبا ایک اژدہ تھا، جسے بوا (Boa) کہتے ہیں۔ یہ اپنے شکار کے گرد لپٹ کر اس کی ہڈیاں توڑ دیا ہے اور پھر اسے ہڑپ کرجاتا ہے۔ وہ اس طرح چکر لگا رہا تھا جیسے ناچ رہا ہو۔ پھر اس کا جسم سیدھا ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کاسر اوپر اٹھا اور اٹھتا چلا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا اژدہا تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ ایک سوئے ہوئے شکاری کی طرف بڑھناشروع کیا، اس طرح کہ سوئے ہوئے آٹھ آدمیوں میں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
پہلے آدمی کے پاس سے گزرتا ہوا دوسرے تیسرے اور پھر اس طرح چلتے چلتے عدنان تک پہنچ گیا۔ عدنان کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا، جیسے سوچ رہا ہو کہ اسے کھانا مناسب رہے گا۔ یہ دوسروں سے چھوٹاہے۔ اچانک بیڑے کی طرف سے جانوروں کی ملی جلی آوازیں ابھریں تو اژدہے کا رخ اس طرف ہو گیا۔ بیڑ ے میں جانور دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھرآیا۔ وہ عدنان کا خیال چھوڑکر بیڑے کی طرف بڑھا۔ بیڑ ے کو ایک موٹے سے رسے سے ساحل پر باندھ دیا گیا تھا۔ اژدھا اس رسے کے گرد لپٹ گیا اور بل کھاتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ ابھی تک بیڑے پر موجود جانوروں نے اسے نہیں دیکھا تھا۔
جوں ہی وہ بیڑے پر اترا،جانوروں نے اسے دیکھ لیا۔ وہ خوف سے چیخنے لگے۔ اژدھابرابر آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے سامنے ننھا ٹیپر تھا۔ وہ اس سے خوفزدہ ہو کر دوسری سمت میں دوڑ پڑا۔ اس وقت تک کامران شوروغل کی آواز سن کر وہاں پہنچ چکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔
اژدہا ٹیپر کے پاس پہنچ چکا تھا۔ پھردیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپناجسم ٹیپر کے جسم کے گرد لپیٹنا شروع کر دیا۔ کامران پریشان ہو گیا۔ وہ اژدہے کو گولی نہیں مارنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے صحیح سلامت پکڑ لے، لیکن دوسری طرف ٹیپر کی زندگی خطرے میں تھی۔ آخر کامران نے ایک فائر اس طرح کیا کہ گولی اژدہے کے سرکے اوپر سے گزر گئی۔ عین اسی وقت عدنان اور بینکو بھی دوڑتے ہوئے آگئے۔
”تمہارا نشان خطا گیا۔ ٹھہرو! میں اسے نشانہ بناتا ہوں۔“ بنکونے کہا۔
”نہیں۔ میں اسے زندہ پکڑوں گا۔ گولی نہ چلانا۔ٹھہرو! میں رسی لے کر آتا ہوں۔“
کامران رسی لینے کے لیے دوڑا، اور جب وہ رسی لے کر آیا تو حالات کچھ اور تھے۔ اس وقت تک اگوانا اژدہے پرجھپٹ پڑی تھی اور اس نے اپنے دانت اس کے سر میں گاڑ دیے تھے۔
اب حالت یہ تھی کہ اژدہے نے اپنا جسم ٹیپر کے گرد کسا ہوا تھا اور خود اس کے سر میں اگواناکے دانت گڑے ہوئے تھے۔آخر اژدہے کو ٹیپر کو چھوڑنا پڑا۔
کامران، عدنان اور دوسرے لوگ حیران پریشان کھڑے یہ حیرت انگیز تماشا دیکھ رہے تھے کہ اچانک کامران کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے اگوانا کی رسی کو پکڑ کر کھینچنا شروع کیاتاکہ اس کو وہاں سے ہٹا لے۔وہ اپنی کوشش میں کامیاب رہا۔ اس وقت ٹیپر بھی آزاد ہو چکا تھا۔ یہی وقت کام کرنے کا تھا۔
کامران جانتا تھا کہ اژدہے کے جسم کا ایک حصہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ اس نے لپک کر دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن کے قریب کے حصے کو جکڑ لیا اور اسے دبانے گا۔ اژد ہے نے اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپناجسم کامران کے گرد لپیٹنا شروع کر دیا۔ کامران کو اپنی ہڈیاں کڑکڑاتی محسوس ہوئیں،لیکن اس نے اس کی گردن کو نہ چھوڑا اور برابر زور لگاتا رہا۔
اژدہے کا پورا جسم کامران کے گردلپٹ چکا تھا اور شدید تکلیف کی وجہ سے کامران کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ پھر بھی اس نے اژدہے کی گردن نہ چھوڑی۔
اس وقت عدنان ادر با قی لوگ شش و پنج کی حالت میں یہ مقابلہ دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ایسے میں عدنان کو ایک عجیب بات سوجھی۔وہ تیزی سے آگے بڑھا اوردونوں ہاتھوں سے اژدہے کی دم پکڑ کراس کے بل کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔یہ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس کی مدد کرنے لگے۔انہوں نے دم پکڑ کر زور لگایا تو بل کھلتے چلے گئے۔ادھر کامرا ن نے بھی اژدہے کی گردن پر پورا زور لگادیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اژدہے کے دم خم نکل گئے اور وہ بے دم ہو گیا۔ یہ دیکھ کر کامران نے اس کی گردن چھوڑ دی۔بے جان گردن نیچے گر کر جھولنے لگی۔ انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور اژدہے کو فرش پر ڈال دیا۔
”اب اس کا کیا کریں؟“عدنان نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے کہ اسے بیڑے کی کوٹھڑی میں بند کردیا جائے۔“بینکو نے کہا۔
بینکو اور اس کے ساتھیوں نے مل کر اژدہے کو کندھوں پر اٹھا لیا اور کوٹھڑی میں لے گئے۔اسے کیبن کے فرش پر ڈال کر دروازہ بند کردیا گیا۔شدید تھکن کے باعث انہیں بہت جلد نیند آگئی اور وہ بیڑے کے صحن میں ہی لیٹ گئے۔
اچانک عدنان کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ کوئی چیز اس کی پتلون میں رینگ رہی ہے۔ اس کے منہ سے خوف کی وجہ سے چیخ نکل گئی۔ عین اسی وقت اسی قسم کی ایک اور چیز اس کے گریبان میں بھی دا خل ہو گئی۔ اب تواس کے منہ سے چیخوں پر چیخیں نکلنے لگیں۔
سب ہڑ بڑا کر بیٹھے۔ کامران نے پھرتی سے ٹارچ روشن کی اور روشنی فرش پر ڈالی تو سناٹے میں آگیا۔ فرش پرسینکڑوں ننھے ننھے سانپ چکر پھیریاں کھا رہے تھے۔ ان میں سے دوتین عدنان پر چڑھ گئے تھے۔ عدنان تیزی سے اٹھا اور انھیں اپنے جسم سے جھٹک دیا۔ ”اف میرے خدا! یہ اتنے سانپ کہاں سے آگئے؟“
”یہ اژدہے کے بچے ہیں۔ ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل بے ضرر ہیں۔“بینکونے کہا۔
”ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟“ کامران نے کہا۔
”چھٹکارا حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پکڑ کر کیبن میں بند کر دیتے ہیں۔ چڑیا گھر والے ان کے اچھے پیسے دے دیں گے۔“ عدنان نے تجویز پیش کی۔
انہوں نے سپولیوں کوپکڑ پکڑ کر کوٹھڑی میں پہنچاناشروع کردیا۔ اژدہا اب ہوش میں آ چکا تھا اور کیبن کے ایک کونے میں چکر لگا رہا تھا۔ آخری سپولیے کو کوٹھڑی میں پہنچاکر انہوں نے دروازہ بند کیا ہی تھا کہ اچانک ایک فائر ہوا!

خوف ناک ریچھ
انھوں نے چونک کر دیکھا۔ ایک نئی مصیبت ان کے سر پر کھڑی تھی۔ فائر ایک کشتی پر سے کیا گیا تھا جو ابھی کافی فاصلے پر تھی۔گولی ان کے سروں پر سے گزر گئی تھی۔
وہ سب بیڑے کے فرش پر گر گئے۔اس وقت صبح کا اجالا پھیل رہا تھا۔ اچانک کامران نے محسوس کیا کہ عدنان نے اپنی بندوق اٹھائی ہے۔
”کیا کر رہے ہو؟ فائر نہ کرنا۔“ وہ چلایا مگر عدنان اس سے پہلے ہی فائر کر چکا تھا۔ انھوں نے آنے والی کشتی میں سے دو آدمیوں کو پانی میں گرتے دیکھا۔
”بہت خوب! کتنا سچا نشانہ ہے۔ فائر ایک اورشکار دو۔ خوش رہو!“ کامران خو شی سے چلا اٹھا۔
پھر اچانک اس نے کچھ سوچ کرکہا۔”ہم اس طرح ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ لنگر اٹھا دو اور بیڑے کو کھیناشروع کر دو۔“
”وہ ہمارا تعاقب کریں گے۔“
پروا نہیں۔ ہم کسی نہ کسی جزیرے میں پناہ لینے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔“
انہوں نے بیڑے کو پوری طاقت سے چلانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر دوسری کشتی بھی حرکت میں آ گئی۔ اب دونوں کشتیاں تیزی سے دوڑ رہی تھیں۔
کامران کے بیڑے نے اچانک ایک موڑ کاٹا۔ موڑ مڑتے ہی دشمنوں کی کشتی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔
”یہی موقع ہے۔ہمیں جلد کسی جزیرے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔“کامران نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔“ بینکونے کہا۔
کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ درختوں سے ڈھکے ہوئے ایک جزیرے کے پاس پہنچ گئے۔ ساحل پر اترنے والا سب سے پہلا آدمی عدنان تھا اور ساحل پر گر کر سونے والوں میں بھی اس کا پہلا نمبر تھا۔ لیکن چند منٹ ہی سویا ہوگاکہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سمجھا میں نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ لیکن یہ خواب نہیں، حقیقت تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت تھی کہ اس قسم کاجانور اپنی زندگی میں عدنان نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھ کسی آہٹ سے کھلی تھی اور آنکھ کھلتے ہی اس نے اسے اپنے سامنے دیکھا تھا۔
وہ ریچھ کی طرح پچھلی ٹانگوں پر کھڑا تھا۔ گردن تک اس کا جسم بالکل ریچھ جیساتھا لیکن گردن سے اوپر اس کا منہ نہیں تھا، نہ جبڑے ہی تھے۔ بس تھوتھنی میں سوراخ سا تھا۔ قدایک گوریلے جتنا تھا، پنجے مڑے ہوئے اور تقریباً چار پانچ انچ لمبے تھے۔
عدنان بت بنا اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ کامران وہاں پہنچ گیا۔وہ چلایا۔”یہ اینٹ بیئر ہے، عجیب و غریب ریچھ۔ اسے ضرور پکڑ نا چاہیے۔“
”میں نے اتنا عجیب جانور پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔“ عدنان اس کی آواز سن کر ہوش میں آ گیاتھا۔
”اس کی اور بھی کئی قسمیں ہیں، لیکن یہ سب سے بڑی قسم ہے۔ یہ چیونٹیاں کھاتاہے۔اس لیے اسےAnt Bear کہتے ہیں۔“
”اسے میں پکڑوں گا۔“عدنان نے کہا اور اس کی طرف بڑھنے لگا!
”ٹھہرو! یہ بہت خطرناک ہے۔“
”خطرناک! بھلا یہ خطرناک کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کے منہ میں تو دانت ہی نہیں ہیں۔صرف ایک لمبی سی زبان ہے اور اس سے یہ مجھے کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟“
”اس کے پنجے تو ہیں۔“ کامران نے کہا۔
”میں اسے پیٹھ کی طرف سے پکڑوں گا۔“ عدنان نے جواب دیا۔
اینٹ بیئر کی آنکھیں اگرچہ کمزور تھیں تاہم اسے معلوم ہو گیا کہ کوئی اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس نے اپنے اگلے پنجے زمین پر ٹکا دیے اور محتاط ہو گیا۔ عدنان کو اس کے پیچھے ایک شاندار دم بھی دکھائی دی۔ یہ تقریباً ایک فٹ موٹی اور کئی فٹ لمبی تھی اور اس پر گھنے بال تھے۔
اچانک عدنان نے ایک جست لگائی اور اس کی گردن سے لپٹ گیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک اینٹ بیئر پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور ایک زور دار جھٹکا دیا۔ عدنان کئی گز تک لڑھکتا چلا گیا، لیکن پھرفوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے۔ اینٹ بیئر حملہ کرنے کی پوزیشن میں اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پھر اچانک اس نے عدنان پر چھلانگ لگائی، لیکن عین اسی وقت عدنان ایک طرف کود گیا۔ اینٹ بیئر اپنے زور میں ایک درخت سے جاٹکرایا لیکن گرتے ہی اٹھا اور پھر عدنان کی طرف بڑھا۔ ایک بار پھر اس نے عدنان پر چھلانگ لگائی۔ اس بار بھی عدنان جھکائی دے گیا۔
اور عین اس وقت جب وہ دونوں تیسرے حملے کے لیے ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے، درختوں کے جھنڈ میں سے ایک دوسرا اینٹ بیئر نکلا۔ عدنان کے ہوش اڑ گئے۔
یہ دیکھ کر بینکو کا ایک ساتھی ایکوا آگے بڑھا۔ اس نے اپنا شکاری چاقو دائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ وہ چاقو لہراتا ہوا دوسرے اینٹ بیئر پرحملہ آور ہوا۔سب لوگوں کی توجہ اب اس مقابلے کی طرف ہو گئی تھی۔ ایکوا نے چاقوکا ہاتھ ریچھ کی گردن پر مارا تو وہ پھرتی سے نیچے جھک گیا۔ چاقو اس کے سرپر سے گزر گیا اور اسی وقت اس نے ایکوا کو اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا۔ اب ایکوا بے بس ہو گیا اور اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ عین اسی وقت کامران نے ایک پتھر اٹھایا اور ریچھ کے سر پر دے مارا۔ وہ گھبرا گیا اور اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ ایکوا نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور زور لگا کر اس کے بازوؤں سے نکل آیا۔ ریچھ ابھی سر پر لگنے والی چوٹ کی وجہ سے پوری طرح ہوش میں نہیں آیا تھا کہ ایکوا کا چاقو اس کی گردن پر لگا اور گردن کٹ کے دور لڑھکتی چلی گئی۔ اس کا دھڑ زمین پر گر کر تڑپنے گا۔
اب انہوں نے عدنان کی طرف توجہ دی تو اسے دوسرے ریچھ سے گتھم گتھاپایا۔ ایکوا اور کامران چاہتے تواس اینٹ بیئر کا بھی آناً فاناً خاتمہ کر سکتے تھے لیکن عدنان کی ضد تھی کہ وہ اسے زندہ پکڑے گا۔ اس کا سانس بری طرح پھول گیا تھا لیکن اس وقت بھی اس نے ریچھ کی گردن پیچھے سے پکڑی ہو ئی تھی اوربرابر زور لگا رہا تھا۔
اچانک اس نے سوچا کہ کیوں نہ ریچھ کو پانی میں لے جایا جائے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے سوچے سمجھے بغیر ریچھ کو چھوڑ کر دریا کے کنارے کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔وہ بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر یک دم عدنان ایک طرف ہٹ گیا اور اینٹ بیئر اپنے ہی زور میں دریا میں جا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی عدنان نے اس پر چھلانگ لگا دی اور ایک بار پھر پیچھے سے اس کی گردن پکڑ لی۔ لیکن اسے اس بات کا خیال نہیں آیاتھا کہ ریچھ تیر بھی سکتا ہے۔ ریچھ اسے دریا میں ادھر ادھرلیے پھر رہا تھا۔ کامران اوردوسرے ساتھی دم بخود اس جنگ کو دیکھ رہے تھے۔
اچانک عدنان کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ اینٹ بیئر کی گردن پکڑ کر لٹک گیا۔ وہ اس کا بوجھ نہ سہار سکا اور دونوں پانی کی تہ کی طرف جانے لگے۔ چند سیکنڈبعد ریچھ کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑنے لگے اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ یہ دیکھ کر عدنان نے اسے چھوڑ دیا اور پانی کی سطح سے باہرآ کے زور سے چیخا:
”وہ بے ہوش ہو گیا ہے۔“
تھوڑی دیر بعد اینٹ بیئر پانی کی سطح پر ابھرا۔وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ کامران اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کے نعرے لگائے اور ریچھ کوکنارے پر کھینچ کر لے آئے جہاں اسے رسیوں سے باندھ دیا گیا۔

شیروں کی بستی
انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ایک جزیرے کے پاس سے گزرتے ہوئے کامران چیخ اٹھا۔”آگ! جزیرے میں آگ لگی ہوئی ہے۔۔“
”یہاں ایک نوجوان رہتا تھا۔ شاید ریڈ انڈین اسے لوٹ کر لے گئے اور جاتے ہوئے آگ لگا گئے ہیں۔“
”جزیرے کے ساحل کی طرف چلو۔“کامران نے حکم دیا۔
”جزیرے کے پاس جانا خطرناک ہوگا۔“بینکو نے کہا۔
”کیوں؟“
”ہو سکتا ہے انڈین ابھی تک وہاں ہوں۔“
”دیکھا جائے گا۔ ہمیں اس شخص کی مدد کرنی چاہیے۔“
مجبوراً بینکونے بیڑے کا رخ جزیرے کی طرف کر دیا۔ بیڑا ساحل سے چند گز دور رک گیا۔ وہ سب ساحل پر اترپڑے۔ کامران اور عدنان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔انھیں معلوم تھا کہ انڈین تیر کمان اور بھالوں سے مسلح ہوتے ہیں۔
وہ آگ کی سمت بڑھتے رہے۔ راستے میں انہیں کوئی ریڈ انڈین نہ ملا، یہاں تک کہ وہ لکڑی کی بنی ہوئی اس جھونپڑی کے پاس پہنچ گئے جوآگ کی لپیٹ میں تھی۔ یہاں انہیں ایک نوجوان ملا جو آگ پر پانی ڈال کر اسے بجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تمہارے پاس کچھ بالٹیاں ہیں؟“کامران نے چلا کر انگریزی میں پوچھا۔
”ہاں۔ اس طرف شیڈمیں ہیں؟“اس نو جوان نے انگریزی میں جواب دیا۔
کامران اور اس کے ساتھی شیڈ کی طرف دوڑے۔ یہاں کئی بالٹیاں موجود تھیں۔ انہوں نے ایک ایک بالٹی اٹھائی اور ان میں پانی بھربھر کر آگ پر ڈالنا شروع کر دیا۔ اب آگ پر پانی زیادہ مقدار میں پڑ رہا تھا۔ اس لئے اس پر قابو پانے میں دیر نہ لگی۔ ابھی وہ پوری طرح فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ نوجوان بے ہوش کر گر گیا۔کا مران نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کیے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”کیا آگ بجھ گئی؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں۔ مگر اب جھونپڑی میں بچا ہی کیا ہے؟“ کامران نے کہا۔
”آگ کیسے لگی؟“ عدنان نے پوچھا۔
”میں اس جزیرے میں تنہا ہی رہتا ہوں۔ مجھے تنہائی بہت پسند ہے۔ خوراک اور دوسری ضرورت کی چیزیں ہفتے میں ایک بار کشتی کے ذریعے قریبی شہر سے لے آتا ہوں۔ آج صبح ایک بڑی سی کشتی ساحل پر آ کر رکی۔ اس میں سے آٹھ نو آدمی اترے اور انہوں نے ایک ایسے بیڑے کے متعلق پوچھا جس میں جنگلی جانور سوار ہیں۔“اس نے بتایا۔
”کیا انھوں نے انگریزی میں گفتگو کی تھی؟“ کامران نے پوچھا۔
”ہاں۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس طرف سے ایسا کوئی بیڑا نہیں گزرا۔ اس پر انھوں نے کچھ کھانے کے لیے مانگا۔ میں نے تھوڑی سی خوراک انہیں دی۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے چٹ کر گئے،پھر اور خوراک کا مطالبہ کیا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس پر انہیں غصہ آ گیا۔ انہوں نے زبردستی ساری خوراک چھین لی اور جاتے ہوئے جھونپڑی کو آگ بھی لگاگئے۔“
”ہوں! وہ ہم ہی ہیں جن کے متعلق وہ پوچھ ہے تھے۔“کامران نے کہا۔
”وہ ضرور کروک اور اس کے ساتھی ہوں گے۔“ عدنان نے کہا۔
”اس میں کیا شک ہے۔“ بینکونے کہا۔
”تم کہاں کے رہنے والے ہو؟“ عدنان نے پوچھا۔
”میں برازیلی ہوں۔میرا نام’پیرو سوسا‘ہے۔میں نے انگریزی شہر’ریو‘ کے سکول میں پڑھی تھی۔“ نوجوان نے کہا۔
”میں نے سنا ہے کہ ’ریو‘ بہت خوب صورت شہر ہے۔ تم نے ایسے خوبصورت شہر کو کیوں چھوڑا؟“
نوجوان مسکرایا، تھوڑی دیر خاموش رہا پھرکہنے لگا۔”میں نے بتایا ناکہ مجھے تنہائی پسند ہے۔“
”اب تمہارا گھر جل چکا ہے، تم یہاں کیسے رہوگے؟ واپس اپنے وطن چلے جاؤ۔“
”نہیں، میں یہیں رہوں گا۔“
”اس کی وجہ؟“
”وجہ میں تمہیں صبح بتا سکوں گا۔“ پیرو سوسا نے کہا۔
وہ رات انہوں نے اس نوجوان کے ساتھ بسرکی۔ صبح ان کو معلوم ہوا کہ پیر سوسا جزیرہ چھوڑنے پر کیوں آمادہ نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کروک اور اس کے آدمی اس کا بہت سا سامان لے گئے تھے، لیکن اس کی اگائی ہوئی فصلیں جوں کی توں موجود تھیں۔ ان میں گندم، چاول، دالیں اور سنگترے وغیرہ کی فصلیں شامل تھیں۔
”لویہ سنگترے کھاکر دیکھو۔ اتنے مزے دار اور رس بھرے سنگترے تم نے کبھی نہ کھائے ہوں گے۔“ نو جوان نے سنگتروں کی ٹوکری ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔سنگترے کھا کر انہوں نے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور جانے کیلئے اجازت مانگی۔
چلتے وقت انھوں نے پیرو سوساکو ایک ریوالور اور بہت سے کارتوس دیئے تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکے۔ اس کے بدلے میں پیرو نے انھیں گوشت اور سبزیاں دیں۔ اس کے بعد ان کا بیٹراوہاں سے روانہ ہو گیا۔ پیرو ساحل پر کھڑا اس وقت تک ہاتھ ہلاتا رہا جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے۔
ان کا سفر جاری رہا۔ اس دوران میں انھوں نے بہت سے عجیب و غریب جانور اور پرندے پکڑے۔ کامران چوکناتھا کہ نہ جانے کب کروک سے مڈبھیڑ ہو جائے۔ ابھی تک کروک کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ دہ حیران تھا کہ کروک چاہتاکیا ہے؟
”ہم کافی جانور جمع کر چکے ہیں۔ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے؟“ ایک دن بینکونے کہا۔
”نہیں۔ ابھی ہم نے کوئی امریکی شیر نہیں پکڑا۔ اور جب تک میں شیر نہ پکڑلوں، واپس نہیں جاؤں گا۔“ کا مران نے کہا۔
اس سلسلے میں اس نے ایکواسے علیحدگی میں بات کی تھی کیونکہ اسے ایکوا پر بہت اعتماد ہو گیا تھا۔ وہ اس سے انڈین بولی سیکھتے رہے تھے اور اب تو اچھی خاصی بولنے بھی لگے تھے۔انہیں پتا چلا تھا کہ ایمیزن کے علاقے میں مختلف جگہوں پر مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں، مگر ایک بولی ایسی ہے جو تمام لوگ سمجھتے ہیں۔یہی بولی ایکوا نے انہیں سکھائی تھی۔
”میرا خیال ہے، ہم جلد ہی شیر پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔“ ایکوانے کہا۔”اب ہم شیروں کی بستی میں پہنچنے ہی والے ہیں۔“
”کچھ اس جگہ کے شیروں کے متعلق بھی بتاتے چلو۔“کامران نے کہا۔
”اس جگہ کا شیر’ساؤتھ امریکن ٹائیگر‘ کہلاتا ہے۔ اس کی کھال زرد رنگ کی ہوتی ہے اور اس پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔بعض شکاری اسے برچھی کے ذریعے مارتے ہیں۔“
”جب تم برچھی سے شیر کو مارو گے تو مجھے بہت لطف آئے گا۔“ عدنان نے ہنس کر کہا۔
”تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہوگی۔ہمیں شیر کو زندہ پکڑنا ہے۔ اس لیے برچھی استعمال نہیں کی جا سکتی۔“ کامران نے اسے ڈانٹا۔
اب وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں شیروں کے دھاڑنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے اسی مقام پر پڑاؤ کیا اور اپنے کیمپ کے ارد گرد آگ روشن کر دی تاکہ بے خبری میں کوئی شیر ان پر نہ آن پڑے۔
ایک رات جب کہ دوسرے تمام ساتھی سوچکے تھے، کامران کو نیند نہیں آرہی تھی۔ آگ جل رہی تھی اور رات کے سناٹے میں لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں عجیب سماں پیدا کر رہی تھیں۔ اچانک اسے ایک شیر دکھائی دیا۔وہ زرد رنگ کا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ دھاریاں تھیں۔ شیر آگ کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔
شیر کی نظر کامران پر نہیں پڑی تھی، اس کیلئے و ہ اطمینان سے زمین پر لیٹ گیا۔ اس حالت میں بھی اس کی نگاہیں آگ پر جمی رہیں۔ اس کی آنکھیں شعلوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ کامران کو اس سے خوف آنے لگا۔لیٹے لیٹے اس نے انگڑائی لی تو کامران کو اس کے پنجے کھلتے نظر آئے۔اف! کتنے خوفناک تھے! کامران کانپ اٹھا۔
وہ اس وقت شیر کوپکڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس وقت تک نہ تو انہوں نے شیر کے لیے کسی پنجرے کا انتظام کیا تھا اور نہ کوئی ایسا جال ہی بنایا تھا جس سے اسے پکڑا جا سکے اور پھر اس وقت اس کے تمام ساتھی گہری نیند کے مزے لے رہے تھے۔ ان میں سے کچھ ساحل پر تھے اور کچھ بیڑے پر۔ اگر وہ انہیں آواز دیتا تو شیر خبردار ہو جاتا۔ اگرچہ اس کی بندوق پاس ہی پڑی تھی تاہم وہ اسے استعمال نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ اس طرح شیر کے مرجانے کا خطرہ تھا اور مردہ شیران کے کس کام آسکتا تھا؟
اسی وقت بینکوکاایک ساتھی انڈین آگ میں لکڑیاں ڈالنے کے لیے اٹھا۔ اس کے پاؤں کی آہٹ سنتے ہی شیراٹھ کھڑا ہوا اور انڈین کو دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ انڈین اس سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھا۔ کامران نے آواز پیدا کیے بغیر بندوق اٹھا لی اور شیر کو بندوق کی زد پرلے لیا تاکہ اگر وہ انڈین پر چھلانگ لگائے تو اس کی زندگی بچانے کے لیے کچھ کیا جا سکے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ جب تک شیر بھوکا نہ ہو یا اسے تنگ نہ کیا جائے، وہ انسان پر حملہ نہیں کرتا۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ انڈین کام سے فارغ ہو کر دوبارہ اپنی جگہ جا پر لیٹ گیا، توشیر بھی لیٹ گیا۔ عین اسی وقت ایک بڑاٹیپر ادھر آ نکلا۔ ا سے دیکھتے ہی شیردھاڑ مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔ادھر ٹیپرکے منہ سے خوف کی وجہ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس نے ایک زقند بھری اوریہ جا وہ جا۔ شیر اس کے تعاقب میں دوڑنے لگا۔ شیر کی دھاڑ سے سب کی آنکھ کھل گئی۔
”کیا بات ہے بھائی جان؟“عدنان نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔ کہیں کوئی شیر دھاڑا تھا۔“ کامران نے کہا۔وہ اصل بات بتا کر عدنان کوپریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
صبح اس نے سارا واقعہ سنایا اور عدنان اوردو تین ساتھیوں کو ساتھ لے کر ٹیپر کی تلاش میں چل کھڑاہوا۔ا سے بتایا گیا تھا کہ جب شیر کسی بڑے جانورکو شکار کرتا ہے تو اس کا کچھ حصہ کھا کر اگلے دن کے لیے اسے چھوڑجاتا ہے۔
کافی تلاش کے باوجود انھیں ٹیپر کی لاش نہ ملی۔ کامران مایوس ہو چلا تھا کہ اسے ایک چوڑا سا راستہ دکھائی دیا جو جھاڑیوں کو دائیں بائیں ہٹا کربنایا گیا تھا۔
”یہ راستہ ریڈ انڈینوں نے بنایا ہوگا۔“ عدنان نے خیال ظاہر کیا۔
”نہیں، ہم جس شیر کی تلاش میں ہیں، وہ اس طرف سے گزرا ہے۔“بینکونے کہا۔
”کیا مطلب؟اس کے گزرنے سے اس قدر چوڑا راستہ کیسے بن سکتا ہے؟
”وہ اس ٹیپر کو گھسیٹتا ہوا لے گیا ہے اوراسی سے یہ راستہ بنا ہے۔“
”واہ! یہ ہوئی نا بات۔ تو چلو،ہم اسی راستے پر چلتے ہیں۔“ کامران نے کہا۔
چلتے چلتے آخر وہ دریا کے کنارے پر پہنچ گئے۔ یہاں اس راستے کا نشان غائب ہو گیاتھا۔
”یہاں سے شیر کدھر گیا؟“ عدنان نے پوچھا۔
”وہ شاید دریا پار کر گیا ہے۔“ ایکوا بولا۔
”کیا کہتے ہو؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“
”کیوں نہیں ہو سکتا۔ یہ شیر بہت اچھے تیراک ہیں۔“ ایکوا نے کہا۔
”تو کیاو ہ ٹیپر کوبھی ا پنے ساتھ لے گیا ہے؟“
”بالکل۔ وہ اسے اپنے بیوی بچوں کے لیے لے گیا ہے۔“
”لیکن جس جگہ ہمارا کیمپ تھا، وہ اس جگہ سے کیوں نہ دریا میں کودا؟“ کامران نے پوچھا۔
”شیر جتنا طاقتور ہے، اتنا ہی سمجھ دار بھی ہے۔ اس نے ہمارا کیمپ دیکھ لیا تھا۔ ہمیں چکر میں ڈالنے کے لیے اس نے ایک بڑا چکر کاٹا اور کافی دور پہنچ کر دریا پار کیا۔ ہمیں تو اتفاق سے ہی وہ راستہ نظر آ گیا ورنہ ہمیں شیر کا سراغ کبھی نہ ملتا۔“
تو پھر چلو۔ دریا کے دوسرے کنارے پر چلتے ہیں۔“
انھوں نے بیڑا دریا میں چھوڑ دیا۔ دریا اس جگہ کئی میل چوڑا تھا۔ دوسرے کنارے پرپہنچتے پہنچتے انہیں شام ہوگئی۔ کنارے پر پہنچنے سے پہلے انہیں ایک کھائی دکھائی دی۔ اس کھائی پر ایک درخت آرپار پڑا تھا اور اس درخت پر ایک بہت بڑاشیر بیٹھا تھا۔

شیر کا شکار، دُم سے
انہوں نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔شیر اپنی دم سے مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ وہ سب حیرت سے بت بنے اسے دیکھنے لگے۔ شیر کا منہ دوسری طرف تھا، اس لئے وہ انہیں نہیں دیکھ سکاتھا۔
ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شیر نے اپنی دم پانی پر ماری اور ساتھ ہی اس کا پنجہ بھی پانی پرپڑا۔ دوسرے ہی لمحے اس کا پنجہ پانی سے باہر آیا تو اس میں ایک مچھلی تھی۔ مچھلی شیر کے منھ میں غائب ہوگئی اور شیر دوسری مچھلی کی تاک میں بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک وہ یہ دلچسپ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر اچانک شیر نے انہیں دیکھ لیا۔وہ آہستہ سے اٹھا اور جنگل کی طرف چلا گیا۔
”بہت عمدہ شیر ہے۔“ ایکوا نے کہا۔
”حیرت ہے، کیا وہ واقعی اپنی دم سے مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔“ عدنان بولا۔
”میں اس قسم کا ایک شیر پکڑنا چاہتا ہوں۔“ کامران نے کہا۔
”لیکن اس کے لئے تیس چالیس آدمیوں کی ضرورت ہوگی۔“
”کیوں؟ کئی شکاری تنہا شیر کو مار لیتے ہیں۔“ کامران نے کہا۔
”ٹھیک ہے شکاری شیر کو مار لیتا ہے، پکڑ تو نہیں لیتا۔ پکڑنے اور مارنے میں بہت فرق ہے۔“ بینکو نے کہا۔
کامران سوچ میں پڑ گیا۔ آخر وہ اٹل لہجے میں بولا۔”کچھ بھی ہو، ہم شیر ضرور پکڑیں کریں گے۔“
اس کے بعد پنجرا بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ مضبوط بانس اکٹھے کئے گئے اور ان کی مدد سے چار فٹ چوڑا، چھ فٹ اونچا اور دس فٹ لمبا ایک پنجرا بنایا گیا۔ پنجرے میں ایک طرف ایک دروازہ بھی بنایا گیا۔ پنجرا بنا کر فارغ ہوئے تو انہوں نے ایک درخت کے نیچے گڑھا کھودنا شروع کیا۔ان سارے کاموں میں کامران، عدنان،ایکوا اور دوسرے ساتھی جوش و خروش سے حصہ لیتے رہے مگر بینکو نے ان کاہاتھ نہیں بٹایا۔ وہ شیر پکڑنے کے خلاف تھا۔
”تم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکو گے۔“ اس نے درمیان میں کئی باریہ جملہ دہرایا۔
کامران نے پروا نہ کی اور کام میں جتا رہا، یہاں تک کہ ایک دس فٹ گہرا گڑھا کھود لیا گیا، اس گڑھے پر چار بانس رکھے گئے۔ بانسوں پر مضبوط رسیوں سے بنا ہوا ایک جال لگا دیا گیا اور اس کی رسی درخت کی ایک مضبوط شاخ سے باندھ دی گئی۔ اس کے بعد گڑھے کے اوپر گھاس پھوس ڈال کر اسے ڈھک دیا گیا۔
وہ ان کاموں سے فارغ ہوئے تو شام ہو چلی تھی۔ انہوں نے شام کا کھانا کھایا اور شیر کی آمد کی امید لے کر بیٹھ گئے لیکن کافی دیر انتظار کرنے پر بھی کسی شیر کی شکل نظر نہ آئی تو کامران اور عدنان اکتا گئے۔
”آخر ہم کب تک اس کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے؟“ عدنان نے پوچھا۔
”میں شیر کو بلانے کا انتظام کرتا ہوں۔“ ایکوا نے کہا۔
اس نے کسی جانور کا سینگ نکالا جو بگل کی شکل کا تھا۔ اس نے سینگ کو منہ لگاسے کر پھونکا تو اس سے شیر کے دھاڑنے کی آواز نکلی۔ دور کسی جگہ سے ایک شیر نے اس دھاڑ کا جواب دیا۔ ایکوا نے ایک بار پھر شیر کی آواز نکالی۔ دوسری طرف سے پھر جواب ملا۔اس مرتبہ جواب کم فاصلے سے آیا تھا۔ ایکوا نے یہ عمل جاری رکھا۔ اسے برابر جواب ملتا رہا اور ہر مرتبہ فاصلہ کام ہوتا رہا۔
”اب تو شیر سامنے والی جھاڑیوں میں معلوم ہوتا ہے۔“ کامران نے کہا۔
ایکوا نے ایک مرتبہ پھر آواز نکالی۔ دوسری طرف سے جواب ملنے کے بجائے غراہٹ سنائی دی۔
”معلوم ہوتا ہے شیر گڑھے میں گر پڑا ہے۔“
انہوں نے کھڑ بڑ کھڑ بڑ کی آوازیں بھی سنیں اور اس یقین کے ساتھ گڑھے کی طرف دوڑے کہ شیر اس میں گر چکا ہے۔
یہ دیکھ کر ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ گڑھے میں واقعی ایک بہت بڑا شیر چھلانگیں لگا کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”وہ مارا!ہم کامیاب ہو گئے۔“ کامران چلایا۔
”کامیابی ابھی بہت دور ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو۔“بینکو نے کہا۔
”کیوں؟“
”شیر کو پنجرے میں بند کرنا کوئی آسان کام نہیں۔“ بینکو نے کہا۔
”دیکھتے جاؤ۔“ کامران نے کہا اور اس درخت پر چڑھ گیا جس سے پھندے کا رسا بندھا ہوا تھا۔ اس نے رسا کھول لیا اور نیچے اتر آیا۔
”سب لوگ جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر رسے کو کھینچیں۔“ کامران نے کہا۔
”پہلے پنجرے کو گڑھے کے منہ کے بالکل پاس رکھ دو۔“ ایکوا نے مشورہ دیا۔
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب پنجرے کو مناسب جگہ پر رکھا جا چکا تو سب لوگ جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے، لیکن بینکو نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا رہا۔ کامران نے بھی پروا نہ کی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رسے کو کھینچنے لگا۔ یہ بالکل ایسا ہی منظر تھا جیسے رسا کشی کا مقابلہ ہو رہا ہو۔وہ سب ایک قطار میں کھڑے ہو کر رسا کھینچ رہے تھے۔ شیر جال میں پھنسا ہوا تھا، اس لیے وہ اوپر اٹھنے لگا اور آخرکار آہستہ آہستہ گڑھے سے باہر آ گیا۔
باہر نکلتے ہی اس کی نظر بینکو پر پڑی۔ وہ زور سے دھاڑا اور ان سب کے رسا کھینچنے کے باوجودبینکو کی طرف بڑھنے لگا۔یہ دیکھ کر بینکو کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ درخت پر چڑھنا شروع کر دیا اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ خوف کی وجہ سے یہ بھول گیا کہ اس علاقے کا شیر درخت پر بھی چڑھ سکتا ہے۔ شیر نے اس کا پیچھا کیا اور بلی کی سی تیزی سے درخت پر چڑھنے لگا۔
”بچاؤ! خدا کے لئے مجھے بچاؤ!“بینکوچلایا۔
لیکن کامران نے فائر نہ کیا۔رسا ان کے ہاتھوں میں سے نکلا جا رہا تھا۔بینکو درخت کے اوپر چڑھتا چلا گیا۔یہاں تک کہ درخت کی چوٹی پر پہنچ گیا۔شیر اس کے پیچھے پیچھے تھا اوراب اس کے بہت نزدیک آچکا تھا۔یہ دیکھ کر کامران سے نہ رہا گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے رسی پر گرفت ڈھیلی کی اور پھر ایک زبردست جھٹکا دیا۔ شیر نیچے آگرا۔ بینکو نیچے اتر آیا، لیکن یہ اس کی دوسری غلطی تھی۔اسے دیکھتے ہی شیر کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے ایک زور دارجھٹکا مارا جس سے رسا درمیان میں سے ٹوٹ گیا۔
بینکو شیر کے سامنے کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اسے اپنی موت نظر آرہی تھی۔ اچانک شیر جست لگانے کے لئے جھکا۔کامران کے لیے اب فائر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے بندوق اٹھائی اور فائر کردیا۔ گولی شیر کے سر میں لگی۔ وہ غصے میں پلٹا۔ اسی وقت دوسری گولی اس کے پیٹ میں لگی۔ اس نے زور کی جھر جھری لی اور دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ دیا۔
انہیں اس فتح کی کوئی خوشی نہیں تھی بلکہ کامران اور عدنان تویہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ یہ بازی ہار چکے ہیں، کیونکہ اب پھر انہیں ایک زندہ شیر پکڑنا تھا۔
کامران نے ایک دن اور ایک رات شیر کا انتظار کیا اور پھر تنگ آکرفیصلہ کیا کہ”اگر شیر یہاں نہیں آتا تو ہم شیر کے پاس جائیں گے۔“
وہ سب مل کر شیر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ جنگل بہت گھنا تھا اور انہیں جھاڑیوں کو ہٹا ہٹاکر راستہ بنانا پڑ رہا تھا۔
ایک جگہ انہیں ایک غار دکھائی دیا۔ غار کا منہ کافی چوڑا تھا اور اس کے اندر گہری تاریکی تھی۔کچھ دیر تک وہ اس کا باہر سے جائزہ لیتے رہے۔
”ہمیں اس کے اندر چل کر دیکھنا چاہیے۔“ عدنان نے کہا۔
”اندر جانا خطرناک ہوگا۔“ایکوا نے کہا۔
”تو پھر کیا کریں؟“
”جہاں تک میرا خیال ہے، اس غارمیں ضرور کوئی شیر رہتا ہے۔“ ایکوا نے کہا۔
”بہت خوب!تب توپھر ہم غار کے منہ پر جال لگا کر اسے آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔“ کامران نے کہا۔
اس کی ہدایت پر دوسرے ہی لمحے عمل کیا جانے لگا۔غار کے منہ پر ایک جال تان دیا گیا اور اس کے چاروں کونوں پر چار آدمی بٹھا دیے گئے۔ ان کے ہاتھوں میں جال کے رسے تھے۔ جوں ہی شیر جال میں پھنستا، یہ چاروں جال کی رسیاں کھینچ لیتے اوراس طرح شیر جال میں قید جاتا۔
لیکن ایک دن کے انتظار کے بعد بھی غار کے اندر سے کوئی شیر نہ نکلا تو کامران کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ایکوا نے اسے نا امید دیکھ کر کہا۔”میں ایک اور ترکیب بتاتا ہوں۔“
”وہ کیا؟“ کامران نے پوچھا۔
”رات کے وقت شیر دریا میں پانی پینے آتے ہیں۔“
”پھر……؟“
”میرے ساتھ چلو۔میں وہیں بتاؤں گا۔“ ایکوا نے کہا۔
کامران نے چاروں آدمیوں کو غار کے منہ پر چھوڑا اور ایکوا کو ساتھ لے کر کشتی پر چلاآ یا۔ انہوں نے کشتی کھینی شروع کر دی۔
”آخر اس طرح ہم شیر کو کیسے پکڑ سکتے ہیں؟“
”جال کے ذریعے۔“ ایکوا نے کہا۔
”جال کے ذریعے؟ لیکن کیسے؟“
”جس طرح مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔“
”مگر یہاں تو دور دور تک کوئی شیر دکھائی نہیں دیتا۔“ کامران نے کہا۔
”میں شیر کو بلاؤں گا۔“ ایکوا نے کہا اور بگل نکال کرشیر کی آواز نکالی۔
جلد ہی اسے جواب مل گیا۔شیر کی آواز قریب آتی گئی۔ یہاں تک کہ ایکوانے شیر کی آواز نکالنا بند کر دی۔
”کیوں؟ کیا ہوا؟“ کامران نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے شیر دریا میں اتر چکا ہے۔ تم اس کی آواز نہیں سن رہے ہو؟“
اب کامران نے اس طرف توجہ دی تو واقعی دریا میں سے شڑاپ شڑاپ کی آوازیں آ رہی تھیں۔
”اب تم جال تیار رکھو۔ میں کشتی چلاتا ہوں۔جوں ہی شیر دکھائی دے، اس کے اوپر جال پھینک دینا۔“
رات کی تاریکی میں انہوں نے کشتی کو کھینا شروع کر دیا۔ اچانک کامران چلایا۔”ارے! میرے ہاتھ میں شیر کی دم آ گئی ہے۔“
”کیا؟؟“ ایکوا نے حیرت سے کہا،”کیوں مذاق کرتے ہو!“
”میں مذاق نہیں کر رہا۔ دم میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ کشتی سے ٹکرائی تھی۔ اس وقت میرا ہاتھ اس پر پڑ گیا۔“
”تو ہاتھ کو اس طرح اٹھا ئے رہو کہ شیر کا سر پانی کے اندر رہے اور اوپر ابھرنے نہ پائے۔“
یہ کہہ کر ایکوا نے کشتی کو تیزی سے چلانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف کامران دم کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔ اس نے ایک بار بھی شیر کے سرکو اوپر ابھرنے نہ دیا۔ آخر کار وہ بولا:
”شیر بے جان ہو چکا ہے۔ وہ نیچے جا رہا ہے۔“
”اسے اوپر اٹھا لو۔“ایکوا نے کہا۔
”یہ اکیلے آدمی کے بس کا روگ نہیں۔“ کامران نے ہانپتے ہوئے کہا۔
ایکوا کی مدد سے کامران نے شیر کوکشتی پر لاڈالا۔ شیر بے ہوش دکھائی دیتا تھا۔ کامران نے اس کے دل پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن سنی اور بولا:
”ابھی زندہ ہے۔“
”بہت خوب! ٹارچ جلاؤ۔“
ٹارچ کی روشنی میں انہیں ایک بہت ہی خوبصورت شیر دکھائی دیا۔ یہ زرد رنگ کا تھا اور اس پرسیاہ دھاریاں تھیں۔لیکن تھا بہت چھوٹا سا۔
”افسوس! یہ توبہت چھوٹا سا ہے۔“ کامران نے کہا۔
”لیکن ہے کتنا خوبصورت۔ چڑیا گھر والے اسے ہاتھوں ہاتھ خریدیں گے۔“
”لیکن میں ایک بڑا شیر پکڑنا چاہتا ہوں۔“
”پہلے اسے تو قابو میں کر لو۔“ایکوانے کہا۔ اسی وقت شیر کے جسم میں حرکت ہوئی۔
”ارے! اسے فوراً جکڑ دو۔“ ایکوا گھبرا کر بولا۔
دونوں نے شیر کو مضبوط رسوں سے باندھ دیا۔
وہ واپس پلٹے تو انہوں نے ایک دل خوش کن منظر دیکھا۔ غار کے منہ پر پھیلے ہوئے جال میں ایک بہت بڑا شیر دھاڑ رہا تھا۔ کامران نے انڈینوں کو پنجرہ لانے کے لیے کہا۔ اور پھر جال کی رسی پنجرے میں سے گزار کر آہستہ آہستہ جال کوپنجرے کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ دوسرے بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
شیر آہستہ آہستہ پنجرے کی طرف بڑھنے لگا اور آخر کار جال اپنے شکار سمیت پنجرے میں داخل ہو گیا۔ پنجرے کا دروازہ بند کر کے اسے تالا لگا دیا گیا۔

انا کونڈا
سفر جاری رہا۔ کامران کے پاس اب کافی جانور تھے۔ ایک شام وہ ایک ایسے جزیرے میں پہنچے جہاں دور دور تک کوئی سایہ دار درخت نظر نہیں آتا تھا۔ جزیرے پر ریت کم تھی لیکن دلدل بہت زیادہ تھی۔ ایکوا کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے خوفناک اژدہے، جنہیں انا کونڈا کہتے ہیں، اسی قسم کے جزیروں میں ملتے ہیں۔ رات انہوں نے اسی ساحل پر بسر کی۔
اگلی صبح کامران بیڑے پر گیا۔ وہ جانوروں کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔ جب اس کی نظر جبیرو سٹارک کے پنجرے پر پڑی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ پنجرا خالی تھا اور اس میں جبیرو سٹارک کے پر بکھرے ہوئے تھے۔
کامران نے دوسرے جانوروں کی طرف غور سے دیکھاکہ شاید ان میں سے کسی نے شرارت کی ہو۔ اگوانا ابھی آنکھیں بند کیے اونگھ رہی تھی۔وہ جبیرو سٹارک تک نہیں پہنچ سکتی تھی کیوں کہ اس کی ڈوری بہت چھوٹی تھی۔ کامران اب ویمپائر بیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔ ویمپائر کو بھوک لگی تھی اور وہ زور زور سے چیخ رہی تھی۔ کامران اس کے لیے ناشتے کا انتظام کرنے لگا۔ وہ سٹور سے جمے ہوئے خون کی ایک بوتل اٹھا لایا اور ماچس کی تیلی گھس کر آگ جلانے لگا۔جوں ہی اس نے تیلی جلائی اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کی نظر بیڑے کے بڑے مستول پر پڑی تھی جس کے ساتھ ایک بہت بڑا اژدھا لپٹا ہوا تھا۔ اسے فوراً خیال آیا کہ یہ انا کونڈا ہے۔ وہ ایک فٹ سے بھی زیادہ موٹا تھا۔ اس کی لمبائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا کیونکہ وہ مستول سے لپٹا ہوا تھا۔
انا کونڈاکا دھڑ گہرے سبز رنگ کا تھا اور سرسیاہ رنگ کا۔ اس کی آنکھیں کامران پر جمی ہوئی تھیں۔ کامران میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ پاؤں تک ہلا سکے۔ وہ چیخ کر اپنے ساتھیوں کو بلانا چاہتا تھا لیکن آواز اس کے گلے میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ آخر وہ بڑی مشکل سے ساحل پر پہنچا اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس نے بیڑے پر انا کونڈا دیکھا ہے۔
اس کے ساتھی اس خبر سے بہت خوش ہوئے۔عدنان تو فوراً ہی پکار اٹھا۔”آؤ ہم اسے پکڑیں۔“
”لیکن پکڑیں گے کیسے؟“ بینکو بولا۔
ایکوا ایسے موقعوں پر ہمیشہ ان کے کام آتا تھا۔ عدنان ایکوا کی طرف بڑھا لیکن وہ خاموش رہا۔
”ہم نے کبھی انا کونڈا نہیں پکڑا۔“ ایکوا نے کہا۔”ہم لوگ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔“
”لیکن تم لوگ تو سانپوں کو عام جانوروں کی طرح پالا کرتے ہو۔“
ایکوا مسکرایا۔”یہ عام سانپ نہیں ہے۔یہ ہمارا زبردست دشمن ہے۔ یہ تو سالم ہرن چٹ کر جاتا ہے۔“
”کیوں نہ ہرن کو انا کونڈا کے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے۔“ کامران نے کہا۔
”خیال تو برا نہیں ہے۔“ ایکوا نے کہا اور اس طرح یہ بات طے ہوگئی۔ لیکن انڈین اس کام کے لیے کسی قیمت پر بھی تیار نہیں تھے۔ ایکوا بھی کنی کترا رہا تھا۔
آخر کار کامران کو خود ہی ہمت کرنا پڑی۔دہ دوبارہ بیڑے کی طرف بڑھا۔ لیکن آناکونڈا جا چکا تھا۔
ایکوا ایک بار پھر ان کے کام آیا۔ اس نے کامران کوبتایا کہ انا کونڈا ساحل کے پاس پانی میں بل بنا کہ رہتاہے۔ ہمیں اسے یہیں کہیں تلاش کرنا چاہیے۔ کامران ایکواکو ساتھ لے کر اناکونڈا کا بل تلاش کرنے لگا۔ ایک جگہ اچانک پانی اس قدر زور سے ابلا کہ ان کی کشتی الٹتے الٹتے بچی۔ کامران پانی میں اتر کر خود اناکونڈا کو تلاش کرنے لگا اور ایکوا کو اس نے واپس بھیج دیا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اسے انا کونڈا کا بل مل گیا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اگر وہ انا کونڈا کوساحل پر لے بھی آیا اور اسے پکڑ بھی لیا تواس کو رکھے گا کہاں؟
ایکوا نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ وہ بولا۔”ہمیں ایک بہت بڑا پنجرا تیار کرنا پڑے گا اور اس پنجرے میں پانی کا ایک ٹب بھی ہوگا۔
وہ سب پنجرے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور پورے ایک دن کی محنت کے بعد پنجرا تیار ہو گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر کامران نے ایک مضبوط رسا لیا اور اس کا ایک سرا بیڑیے کے مستول سے اور دوسرا ایک درخت سے باندھ دیا۔ دریا کے کنارے کے قریب ہی اس نے ایک ہرن اس رسے سے باندھ دیا۔ پھر اس نے تین پھندے تیار کرائے۔ ایک انا کونڈا کے سر کے لیے اور دوسرے دو اس کی دم کو جکڑنے کے لیے۔ پنجرا بھی ساحل پر رکھ دیا گیا۔ اب صرف انا کونڈا کی کمی رہ گئی تھی۔
سب آدمی جھاڑیوں میں ادھر ادھر چھپ گئے۔ وقت گزرتا رہا۔ لیکن انا کونڈا کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ تین گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد کامران جھاڑیوں میں سے باہر آ گیا اور دریا میں ادھر ادھر انا کونڈا کو ڈھونڈنے لگا۔ وہ ایک بار پانی سے ابھرا، سانس لیا اور دوبارہ پانی میں غوطہ لگا گیا۔ آخر ایک جگہ اسے ایک بڑا سا بل نظر آیا۔ وہ ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ یہ انا کونڈا کا بل ہے یا کوئی اورچیزکہ دو چھوٹے چھوٹے سانپ جن کا قد پانچ فٹ سے زیادہ لمبا نہیں تھا، بل سے باہر نکلے اور ساحل پر اگے ہوئے سرکنڈوں میں گم ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک دیو جیسا انا کونڈا بل سے باہر نکلا۔ اس کا رخ کامران کی طرف تھا۔
کامران فوراً سطح پر ابھرا۔ آناکونڈا تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کامران موت کو یوں اپنی طرف منہ کھولے بڑھتے دیکھ کر اپنے ساتھیوں کی طرف بھاگنے لگا۔
”کیا بات ہے؟ اس قدر پریشان کیوں ہو؟“ عدنان نے پوچھا۔
”میں ابھی ابھی انا کونڈا کو دیکھ کر آ رہا ہوں۔“
ایک دفعہ پھر انتظار شروع ہوا۔ کافی دیر کے بعد ایک بہت بڑا سر ہرن کی طرف بڑھتا دکھائی دیا۔ کامران جلدی سے جھاڑی میں سے نکل کر درخت کے پاس آ کھڑا ہوا اور رسے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔انا کونڈا پانی سے باہر آیا اور پھر تیزی سے ہرن کی طرف لپکا۔ کامران نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اگلے ہی لمحے پھندا انا کونڈا کی گردن کو جکڑ چکا تھا۔ اس کی دم بھی قابو میں آچکی تھی۔
انا کونڈا اس اچانک حملے سے گھبرا گیا۔ اس نے اپنی دم کو آزاد کرانے کے لیے پورا زور لگایا، لیکن کامران کے ساتھی بھی پوری طرح تیار تھے۔اس لیے انا کونڈا کی ایک نہ چل سکی۔ اس کھینچا تانی میں ایک پھندا کھسک گیا۔ انا کونڈا نے ایک دفعہ بھر زور آزمائی کی اور اپنی دم کو ایک زور دار جھٹکا دیا۔ بینکو اور اس کے دو ساتھی زمین پر آ رہے۔ ایکوا ابھی تک پھندے کو تھامے ہوئے تھا۔ اژدہے نے ایک اور جھٹکا دیا تو
ایکوا دور تک گھسٹتا چلا گیا اور اس کا سر درخت سے زور سے ٹکرایا۔ عدنان نے دم کوقابو میں کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی دور جا گرا۔
اب اناکونڈا کی دم آزاد ہو چکی تھی اور وہ کامران کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کامران نے اپنے حواس قائم رکھے۔ جوں ہی اژدہا اس پر لپکا، وہ ایک طرف ہٹ گیا۔ اب اژدہا ایکوا کی طرف لپکا۔ کامران ایکوا کی امداد کے لیے آگے بڑھا تو اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ مر چکا ہے۔
ایکوا جیسے مخلص ساتھی کی موت نے کامران کے حوصلے کر اور بھی بڑھا دیا اور اس نے انا کونڈا کو ہر قیمت پر پکڑنے کا فیصلہ کیا۔
اژدہے کے سر والا پھندا پنجرے میں سے گزار کر سامنے درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا اور اب دم کو قابو میں کرنا باقی تھا۔ دس منٹ کی طویل اور صبر آزما محنت کے بعد وہ ژدہے کی دم کو بھی قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پنجرے اور اژدہے کا درمیانی فاصلہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا۔ آخر انا کونڈا پنجرے میں بند ہو گیا۔
کامران اژدہے کو پکڑنے کے باوجود بہت اداس تھا۔ اس کا ایک مخلص ساتھی مرگیا تھا۔ انھوں نے پنجرے کو اٹھا کر بیڑے پر رکھا اور ٹب کو پانی سے بھر دیا۔
غروب آفتاب کے وقت انھوں نے ایکوا کو ایک گڑھے میں دفن کیا اور چپکے سے جا کر سو رہے۔

نو سر کٹی لاشیں
کامران کو دریا سے اب خوف سا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ جلد سے جلد مینوس کی بندرگاہ پر پہنچنا چاہتا تھا اور وہاں سے کسی جہاز کا بندوبست کر کے جانوروں کو گھر لے جانے کا خواہش مند تھا۔
انہی دنوں عدنان بخار میں مبتلا ہو گیا جس نے کامران کو اور بھی دل برداشتہ کر دیا۔ لیکن ایک چیز اس کی ہمت بندھا رہی تھی۔ اسے امید تھی کہ کروک اور اس کے ساتھیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اس کی طرف سے اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس کا خیال تھا کہ ریڈ انڈینیوں کا گاؤں اسی نے جلایا ہے، کیونکہ اس نے کروک کی کشتی ساحل پر کھڑی دیکھی تھی۔
کامران اپنے آپ کو بے بس سمجھ رہا تھا۔ ایکوا جیسا مخلص ساتھی مر چکا تھا اور عدنان بھی بیمار پڑا تھا، اس لیے اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بیڑے کو تیزی سے کھیتے ہوئے آگے لے جائیں۔ کوئی پانچ میل آگے جا کر انھوں نے ایک جزیرے میں قیام کرنے کا ارادہ کیا۔
کیمپ لگاتے وقت بینکوکے ساتھیوں کے دل دھڑکتے رہے۔ کیوں کہ دور سے انہیں ڈھول بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ کامران ان کی طرف بڑھا اور بولا:
”بینکو، کیا بات ہے؟“
”یہ ڈھول! میرے ساتھی ان آوازوں سے خوف زدہ ہیں۔“
”آخر کیوں؟ انڈین اپنے ہم وطنوں کو توہلاک نہیں کرتے۔“
”وہ ہمارے قبیلے کے نہیں ہیں اور بہت خطرناک لوگ ہیں۔ وہ اجنبی لوگوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ وہ تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔“
کامران اگرچہ خود بھی خوف زدہ تھا لیکن ان لوگوں کے سامنے وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے ان کے حوصلے اور پست ہو جائیں۔وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا:
”بینکو! میرا خیال ہے اس میں خوف کی کوئی بات نہیں۔“
کامران کی اس بات کا ان پر بہت اثر ہوا۔ وہ ساحل پر ادھر ادھر ہنسی خوشی کام کاج میں جت گئے۔ اسی وقت کامران کو دور سے آتی ہوئی ایک کشتی دکھائی دی۔ وہ بڑے غور سے کشتی کو دیکھنے لگا لیکن کشتی چلانے والا اسے نظر نہ آیا۔
آہستہ آہسنہ کشتی ان کے قریب آتی گئی۔ لیکن وہ ابھی تک کشتی میں سوار آدمیوں کو نہیں دیکھ سکا تھا۔۔ اور پھر اچانک پانی کی ایک لہر اٹھی اور اس نے کشی کو اٹھا کر ساحل کی طرف پھینک دیا۔
کامران کانپ اٹھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بینکو کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ کشتی میں نو سر کٹی لاشیں پڑی تھیں۔ ان کے کپڑے صاف بتا رہے تھے کہ وہ انڈین نہیں ہیں۔
”یہ ضرور کروک کے ساتھی ہیں۔“کامران نے سوچا اور پھراسے نہ جانے کیوں ایک سکون سا محسوس ہوا جیسے اسے دشمن سے نجات مل گئی ہو۔ جلد ہی شام ہوگئی اور وہ سب گہری نیند سو گئے۔
صبح کو سورج کی ایک شوخ کرن نے کامران کو نیند سے بیدار کر دیا۔ وہ کچھ دیر آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔ لیکن آج اسے نہ تو ساتھیوں کی آوازیں سنائی دیں اور نہ برتنوں کی کھنکھناہٹ۔
اس نے آنکھیں کھولیں اور اپنے ارد گرد دیکھا۔ چاروں طرف کسی آدم زاد کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو کشتی بھی نظر نہ آئی۔ اس کے ساتھی اسے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا بیڑے پر پہنچا۔ تمام قیمتی چیزیں غائب تھیں۔ لیکن جانوروں کو کسی نے چھوا تک نہ تھا۔
اسی وقت اسے ایک کمزور سی آواز سنائی دی۔ عدنان پانی کے لیے پکار رہا تھا۔ کامران نے پانی کے برتنوں کو دیکھا تو اسے آنکھوں کے سامنے تارے ناچتے نظر آئے۔ پانی کا ایک قطرہ تک موجود نہ تھا۔
”اب کیا ہوگا؟“ اس نے سوچا اور پریشانی میں ادھر ادھر پانی تلاش کرنے لگا۔ دریا کا پانی بغیر ابالے پینے کے قابل نہ تھا اور اسے ابالنے کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔ لیکن ماچس کی ایک تیلی کا نہ تھی۔ انڈین سب کچھ لے گئے تھے۔
کامران اسی پریشانی میں ساحل کی طرف جا نکلا۔ دور تاریکی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو اسے وہ منحوس اور مکروہ آدمی نظر آیا جسے دیکھنے کی اس میں اب ہمت نہ تھی۔ یہ کروک تھا۔
کروک ایک جگہ رک کر کامران کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ پھر ایک دم اس کی طرف لپکا۔ کامران نے بندوق کی نال اس پر تان لی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ کروک غیر مسلح ہے اس نے بندوق نیچی کر لی۔ کروک کامران کے پاؤں سے لپٹ گیا۔
”میرے دوست! خدا کے لیے مجھے ان وحشی انڈینوں سے بچالو۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ تم جانتے ہو وہ ہم لوگوں کے جانی دشمن ہیں۔ وہ تمہیں بھی مار ڈالیں گے۔“
”اس گاؤں کو تم ہی نے جلایا ہے؟“ کامران نے سختی سے پوچھا۔
”ہاں! لیکن یہ میری غلطی تھی۔ مجھے اس کا افسوس ہے۔“
”کسی ریڈ انڈین کو بھی قتل کیا ہوگا؟“
”بہت سے نہیں، صرف چند ایک۔“ وہ آہستہ سے بولا اور خوف سے پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔ کامران چاہتا تو اسے ایک منٹ میں ختم کر سکتا تھا لیکن ایسا کرنا اس کے نزدیک انسانیت کی توہین تھی۔
”اب ہم دونوں دوست ہیں۔ بہت اچھے اورگہرے دوست۔ اب ہمیں پچھلی باتوں کو بھول کر ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے۔ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟“
”وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔“
”اور تمہارا چھوٹا بھائی کہاں ہے؟“ کروک نے پوچھا۔
”وہ بیمار ہے۔“
”یہ تو بہت بری بات ہوئی۔ تم واقعی اکیلے ہو۔“
کامران نے تیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ عین اسی وقت ایک تیر اس کے سر کے اوپر سے گزر کر سامنے درخت کے تنے میں ترازو ہو گیا۔ کروک دوڑ کر ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ کامران آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جدھر سے تیر آیا تھا۔ اس نے بلند آواز سے تیر چلانے والے سے کہا کہ وہ اس کا دشمن نہیں، دوست ہے۔ لیکن جواب میں ایک اور تیر سنسناتا ہوا اس کے کندھوں کے پاس سے گزر گیا۔
کامران آہستہ آہستہ جنگل کی طرف بڑھنے لگا۔ بندوق اس کے ہاتھ میں تھی۔ اگر دشمنوں نے اس کی پیش کش کوٹھکرادیا تو وہ بندوق سے ان کا خاتمہ تو کر سکے گا۔
جوں ہی وہ جنگل میں داخل ہوا ایک اور تیرسنسناتا ہوا اس کے کان کے قریب سے گزر گیا۔ لیکن وہ اس بات پر حیران تھا کہ تیر ہمیشہ ایک ہی کیوں چلایا جاتا ہے۔
اور پھر اسے اس بات کا جواب بھی مل گیا۔ وبان صرف ایک انڈین تھا۔ جب اس نے کامران کو بندوق ہاتھ میں لئے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلا۔
کامران ریڈ انڈین سے فارغ ہو کر جنگل سے باہر نکلا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ان کا بیڑا دریا کی لہروں پر رواں دواں تھا۔ کروک نے ایک ہاتھ میں چپو سنبھالا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے الوداع کہہ رہا تھا۔

کروک کا انجام
کامران، عدنان کے پاس کھڑا کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اب کروک سے بدلہ لینے کی تمام امیدیں خاک میں مل گئی تھیں۔ عدنان بخار میں پھنک رہا تھا۔ ریڈ انڈینیوں کے حملے کا بھی خطرہ تھا۔
بیڑا اگرچہ کامران کی پہنچ سے باہر تھا لیکن پھر بھی وہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ فوراً ایک مضبوط کشتی تیار کی جائے۔ لیکن اس کے پاس تو چاقو تک نہ تھا۔ کشتی کیسے تیار ہو گی؟ اچانک اس کی نظر دریا میں تیرتے ہوئے ایک جزیرے پر پڑی اور اگلے لمحے وہ خوشی سے چلا اٹھا۔
”آہا! ہم ایک ایسے ہی جزیرے پر سفر کریں گے۔“
کامران کسی مضبوط سے جزیرے کا انتظار کرنے لگا۔ جلد ہی اس کی تمنا پوری ہو گئی۔ ایک سرسبزوشاداب جزیرہ تیرتا ہوا ان کی طرف آ رہا تھا۔ کامران نے عدنان کو اٹھایا، خیمے کو ساتھ لیا اور جوں ہی جزیرہ اس کے قریب آیا،اس نے عدنان کو آہستہ سے اس پر بٹھا دیا اور پھر خود بھی سوار ہو گیا۔
کامران نے ایک اچھی سی جگہ دیکھ کر اس میں خیمہ لگا دیا اور عدنان کو اس پر لٹا کر باہر نکل آیا۔ اب خوراک حاصل کرنا اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اس کے پاس ڈوری بھی نہیں تھی جس کی مدد سے وہ مچھلیاں پکڑ لیتا۔ پیاس بھی تنگ کر رہی تھی۔ کامران نے بانس کی ایک نرم لیکن مضبوط شاخ توڑ لی، اس کے سرے پر اپنا شکاری چاقو باندھا اور پھر جزیرے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ جوں ہی کوئی مچھلی سطح پر ابھرتی وہ چاقو سے اس پر حملہ کر دیتا۔ کوئی دو گھنٹے کی زبردست کوشش کے بعد وہ کئی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔
اس نے محدب عدسے کی مدد سے سوکھے پتوں کو آگ لگا کر پانی بھی گرم کر لیا اور اسی آگ میں مچھلیوں کو بھی بھون کر کھانے کے قابل بنا لیا۔
تیسرے روز ایک بات جو کامران کے لیے حیرانی کا باعث بنی،وہ ان کا بیڑا تھا، جو ان سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر جا رہا تھا۔ کامران چاہتا تھا کسی نہ کسی طرح اس تک پہنچ جائے لیکن جزیرہ کشتی نہ تھا جسے کھے کر وہ بیڑے تک لے جاتا۔ وہ تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا۔
اگلی صبح اس نے ایک اور حیران کن بات دیکھی۔ ان کا جزیرہ آگے سفر کرنے کے بجائے ایک بھنور میں پھنس گیا تھا اور دائرے کی شکل میں چکر لگا رہا تھا۔ کامران مایوس ہونے لگا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ان کا بیڑا بھی اسی بھنور میں چکر کھا رہا ہے۔
کامران نے بیڑے کو غور سے دیکھا۔ اس میں کوئی بھی نہ تھا۔ بھنور میں پانی کا بہاؤ اس قدر تیز تھا کہ اتنے بڑے بیڑے کو کسی اکیلے آدمی کے لیے قابو میں رکھنا بالکل نا ممکن تھا۔ اب اسے کسی وقت بھی کروک سے سامنا ہونے کی توقع تھی، اس لیے وہ چوکس ہو کر بیٹھ گیا۔
عدنان کا بخار اتر چکا تھا لیکن کمزوری کے باعث وہ اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہ تھا۔ کامران ایک درخت پر چڑھ کر بیڑے کو دیکھنے لگا۔
”خاموش لیٹے رہو۔“ اس نے عدنان سے کہا۔”میں کروک سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتا ہوں۔“
لیکن عدنان لیٹنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا۔ اس نے کہا،”کروک بہت طاقت ور ہے۔ تمھیں میری مدد کی ضرورت ہو گی۔“
آخر ایک تیز لہر بیڑے کو ان کے جزیرے کے بالکل قریب لے آئی۔ بیڑے پر موجود جانور بھوک پیاس سے بلبلا رہے تھے۔ اب بیڑے پر سوار ہونے کا بہترین موقع تھا۔وہ دونوں چپکے سے بیڑے پر پہنچ گئے۔ جانوروں نے انہیں دیکھا تو زور زور سے بولنے لگے۔
کروک بیڑے کے ایک کونے میں گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے گندے اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے کامران کی قمیض پہن رکھی تھی اور کامران کا ریوالور بھی اس کے پاس تھا۔ کامران ایک لمحے کے لیے رکا۔ پھر آہستہ سے ریوالور کو اٹھایا اور اس کا دستہ زور سے کروک کے سر پر دے مارا۔ کروک کے منہ سے ”آہ“ نکلی اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔
”اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ کامران نے پوچھا۔ عدنان کے ذہن نے تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے پہلے انا کونڈا کے پنجرے کو اور پھر سامنے پڑے کروک کو دیکھا۔
کامران مسکرایا۔”بخار نے تمہارے دماغ کو اور تیز کر دیا ہے۔ میں تمہارا مطلب سمجھ گیا ہوں۔“
وہ تیزی سے اپنے کام میں لگ گئے اور جب کروک انا کونڈا کے پنجرے میں بند کیا جا چکا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
ان کا تیرتا ہوا جزیرہ وہاں سے جا چکا تھا اور بھنور ختم ہو گیا تھا۔ انھوں نے جانوروں کو خوراک دی اور پھر بیڑے میں سوار ہو کر چل دیئے۔
دس میل سفر کرنے کے بعد وہ مینوس کی بندرگاہ میں پہنچ گئے، جہاں کئی چھوٹے بڑے جہاز کھڑے تھے۔ عدنان کو بیڑے پر چھوڑ کر کامران خود تھانے پولیس کو اطلاع دینے کے لئے چلا گیا۔
کامران ڈر رہا تھا کہ کہیں پولیس والے اس کی بات مذاق میں نہ ٹال دیں۔ لیکن پولیس انسپکٹر نے اس کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور اسی وقت چند سپاہیوں کر ساتھ لے کر بیڑے پر پہنچا۔ کروک کو گرفتار کر لیا گیا۔وہ کئی آدمیوں کا قاتل تھا، اور پولیس کو کافی عرصے سے اس کی تلاش تھی۔
کروک سے فارغ ہو کے کامران جہاز ران کمپنیوں کے دفتر میں گیا اور آخر ایک معقول رقم کے عوض”سی گل“ نامی ایک جہاز کرائے پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد وہ تار گھر پہنچا اور اپنے والد صولت مرزا کو اپنی مہم کی کامیابی کی اطلاع دی۔ اگلی صبح اسے صولت مرزا کا جواب موصول ہو گیا۔ انھوں نے لکھا تھا:
”میری طرف سے تم دونوں اس مہم کی کامیابی پر مبارک بادقبول کرو۔ ہم تمہارا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔“
اگلے چند روز انہوں نے بڑے مصروف گزارے۔ جانوروں کے لئے کریٹ بنوائے گئے اور انہیں کریٹوں میں بند کر کے جہاز پر پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعد وہ مینوس سے لانگ آئی لینڈ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جوں جوں منزل آتی جا رہی تھی ان کی خوشی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
سولہ دن کے سفر کے بعد وہ لانگ آئی لینڈ کے ساحل پر لنگر انداز ہوئے، جہاں ان کے ابو اور امی ان کے استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھے۔
صولت مرزا نے بتایا کہ وہ تار اسی بدمعاش کروک نے انہیں بھیجا تھا۔ اس کا مقصد تھا کہ ہم اپنی مہم ادھوری چھوڑ کر واپس چلے جائیں۔ در اصل یہ بدمعاش بھی شکاری ہے اور ایمیزن کے جنگلوں سے جانور پکڑ کر چڑیا گھروں اور سرکس والوں کے ہاتھ بیچتا ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا بھی یہ پیشہ اختیار کرے۔ اس لیے جو شکاری ایمیزن کے جنگلوں میں قدم رکھتے ہیں،وہ انہیں طرح طرح کے حربوں سے پریشان کرتا ہے اور انھیں ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اب تک وہ کئی شکاریوں کو قتل کر چکا ہے۔ تم نے اسے پکڑ کر بہت بڑا کارنامہ کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تمھیں اس کارنامے پر انعام دیا جائے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top