skip to Main Content

خوشی کے آنسو

اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔

میں جس دفتر میں کلرک تھا،رحیم بابا اس کا چپڑاسی تھا۔۔۔وہ ہم سب کا دوڑ دوڑ کر کام کرتا اور کبھی بے کار نہ بیٹھتا۔لیکن ایک عجیب بات یہ تھی کہ رحیم بابا کو آج تک کسی نے ہنستے نہیں دیکھا تھا۔وہ سب ہی کو اداس اداس نظروں سے دیکھتا۔میں نے اس سے بارہا پوچھا:
”رحیم بابا!۔۔۔کیا بات ہے۔آپ ہنستے مسکراتے کیوں نہیں،ہمیشہ اداس کیوں رہتے ہیں۔“
”ہنسنے مسکرانے کے دن تو آپ لوگوں کے ہیں بیٹا۔“وہ جواب دیتا۔
”کیوں بابا!۔۔۔کیا بڑھاپے میں لوگ ہنسنا بھول جاتے ہیں؟“
”یہ بات بھی نہیں ہے۔“ وہ کہتا ۔
” تو پھر کیا بات ہے ؟“
لیکن بات اس نے مجھے کبھی نہ بتائی اور مجھے ہی کیا کسی کو بھی نہ بتائی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ رحیم بابا بہت دکھی ہے۔ اسے کیا دکھ تھا؟ یہ کسی کو معلوم نہ تھا ۔ میں ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا رہتا۔ میرے دل میں اس کے لیے بے پناہ ہمدردی پیدا ہوچکی تھی ۔آخر ایک دن چھٹی کے وقت میں اس کے پیچھے چل پڑا کیونکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ رہتا کہاں ہے۔
کوئی ایک میل تک اس کے پیچھے چلنا پڑا ،پھر کچے مکانات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ ایک گھر کے دروازے پر رک کر اس کا تالا کھولنے لگا ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا ،وہ اکیلا رہتا ہے۔
” رحیم بابا!“ میں نے میٹھی آواز میں کہا تو وہ چونک کر مڑا اور مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”بیٹا !تم اور یہاں۔“
” ہاں بابا۔۔۔ میں تمہارے پیچھے چلتا ہوا یہاں تک آیا ہوں۔“
” لیکن کیوں۔۔۔“ اس کے لہجے میں حیرت تھی ۔
” آج میں یہ جان کر رہوں گا کہ آپ کو کیا دکھ ہے۔“
” تم جان کر کیا کرو گے۔“
” کچھ بھی نہیں ۔۔۔کرتا کیا۔۔۔ آپ کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا ۔“
” اچھا جناب تم بیٹھو ۔۔۔میں تمہارے لئے چائے بناتا ہوں۔“
”بابا مجھے چائے کی ضرورت نہیں۔۔۔ آپ بھی اطمینان سے میرے پاس بیٹھ جائیے اور مجھے اپنی کہانی سنائیے۔“
وہ چارپائی پر میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اپنی کہانی ان الفاظ میں شروع کی:
”بیٹا!یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ آج سے تیس سال پہلے پاکستان پہنچا اور پاکستان بننے کے موقع پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔۔۔ ان دنوں میرا ایک دس سال کا بیٹا تھا ۔جب فسادات ہوئے تو میری بیوی ماری گئی۔ میں کسی نہ کسی طرح بچ گیا ، لیکن جب میں گھر سے نکلا تو میرا بیٹا میرے ساتھ نہیں تھا۔ وہ ہندوو¿ں کے خوف سے بھاگ کر نہ جانے کہاں چھپ گیا تھا۔ میں نے چاہا کہ میں وہیں رک جاو¿ں لیکن میرے محلے والے مجھے زبردستی اپنے ساتھ ہی لے آئے اور میں پاکستان آگیا۔ آج تیس سال ہوگئے، میری آنکھوں کے سامنے میرے بیٹے کی تصویر آج تک گھومتی ہے۔۔۔وہ مجھے ہر وقت یاد آتا رہتا ہے۔ اگر وہ مر گیا ہوتا تو مجھے کبھی کا چین آ گیا ہوتا۔ اب خدا جانے وہ کہاں ہوگا ،کس حال میں ہوگا، زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔۔ میرے دل کو کسی طرح قرار نہیں۔“
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اس سے پوچھا :
” آپ ہندوستان میں کہاں رہتے تھے ؟“
” دہلی میں۔۔۔ بادشاہی مسجد کے پیچھے ۔“
” آپ کے بیٹے کا نام کیا تھا ؟“
” فیروز دین ۔“
” آپ کے پڑوس میں ایک ہندو بھی رہتا تھا نا۔۔۔ جس کا نام راج ناتھ تھا اور اس کی ایک بیٹی بھی تھی۔۔۔ اس کی بیٹی کا نام شیما تھا۔ وہ ایک بار دریا میں گر پڑی تھی اور اسے ایک مسلمان نے بچایا تھا ۔“
”وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ مسلمان میں ہی تھا ۔۔۔مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ بیٹا۔۔۔ تمہیں یہ سب کس طرح معلوم ہے؟“
”میں آپ کے بیٹے کو جانتا ہوں۔“ میں نے مسکرا کر کہا۔
”کیا کہا۔۔۔ تم جانتے ہو۔۔۔“ وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔” اگر تم جانتے تھے تو مجھے آج تک بتایا کیوں نہیں؟“ اس نے کہا۔
”بتاتا کیسے۔۔۔ آپ نے اپنی کہانی توآج سنائی ہے۔ اگر آپ پہلے یہ کہانی سناتے تو میں بھی آپ کو بتا چکا ہوتا۔“
”او ہ۔۔۔ تو پھر جلدی بتاو¿۔۔۔ میرا بیٹا کہاں ہے اور کس حال میں ہے اور تم اسے کیسے جانتے ہو؟“
”میرے پاس اس کے بچپن کی ایک تصویر بھی ہے ۔آئیے میرے ساتھ۔۔۔میں آپ کو اس کی تصویر دکھاو¿ں گا۔اگر وہی آپ کا بیٹا ہوا تو پھر آپ کو اس سے ملوا بھی دوں گا۔“
”اف۔۔۔خدا۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے۔ جلدی چلو۔۔۔ میرا دل بے تاب ہو رہا ہے۔“
اور میں رحیم بابا کو لے کر اپنے گھر آ گیا ۔ اسے تصویروں کے البم سے ایک تصویر نکال کر دکھائی۔ وہ ا سے دیکھ کر چلا اٹھا:
”یہ میرے بیٹے کی ہی تصویر ہے۔۔۔ جلدی بتاو¿۔۔۔ وہ کہاں ہے۔“
”ایک منٹ ٹھہریئے۔۔۔“ میں نے کہا ۔پھر اپنی بیوی کو آواز دی ،” بیگم ذرا یہاں تو آنا۔“
”بیٹا !۔۔۔تم اپنی بیوی کو کیوں بلا رہے ہو؟ میں تو تم سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔“ اس نے بے چین ہو کر کہا۔
”فکر نہ کریں۔۔۔ آپ کو آپ کے بیٹے سے ضرور ملوائیں گے ۔“میں نے کہا۔
اتنے میں میری بیوی اندر آ گئی اور ایک بوڑھے کو اندر بیٹھے دیکھ کر دروازے میں رک گئی ۔
”آجاو¿ سلمیٰ!۔۔۔ رک کیوں گئیں، یہ غیر نہیں ہیں۔“ میں نے کہا اور وہ شرماتی ہوئی اندر آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔
”بابا! اسے پہچانتے ہو؟“میں نے سلمیٰ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
”کیا مطلب۔۔۔بھلا میں اسے کیا پہچانوں گا۔یہ تو تمہاری بیوی ہے بیٹا اور میں نے آج اسے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔“
”بابا!۔۔یہ شیما ہے۔۔۔جسے تم نے دریا میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔تمہارے پڑوسی رام ناتھ کی بیٹی۔“
”کیا۔۔۔تم کیا کہہ رہے ہو؟“رحیم بابا دھک سے رہ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شیما کو دیکھنے لگا۔
”ہاں بابا!۔۔۔جب ہمارے گھر میں ہندو داخل ہوئے تو میںپچھلی کھڑکی سے باہر نکل گیا۔مجھے ادھر سے نکلتے رام ناتھ نے دیکھ لیا ۔تم اس کی بیٹی کو دریا میں ڈوبنے سے بچا چکے تھے۔اس لیے اسے تم سے بہت ہم دردی تھی۔اس نے مجھے اپنے گھر میں چھپا لیا اور پھر میں وہاں اس وقت تک چھپا رہا جب تک فسادات ختم نہیں ہو گئے، لیکن آپ جا چکے تھے اور آپ کا کوئی پتا بھی نہیں چل سکا تھا۔اس لیے رام ناتھ نے سوچا۔۔۔ہوش سنبھالنے تک مجھے وہیں روک لیا جائے۔۔۔اس نے مجھے لکھایا پڑھایا اور جب میں بڑا ہو گیا تو اپنی بیٹی کی شادی بھی مجھ سے کردی۔پھر ہم دونوں کو پاکستان بھیج دیا۔سرکاری افسروں کی منت سماجت سے یہ مسئلہ حل ہوگیا تھا۔۔۔میں نے پورے پاکستان میں آپ کو تلاش کیا مگر آپ کا کوئی پتا نہ چلا۔۔۔آخر میں اس شہر میں آگیا اور میں نے یہاں ایک دفتر میں ملازمت کرلی۔آپ وہاں چپڑاسی تھے۔۔۔جب میں آپ کو دیکھتا تو میرے دل کی حالت عجیب سی ہوجاتی۔میں نے آپ سے بہت دفعہ آپ کی اداسی کی وجہ پوچھی لیکن آپ نے نہ بتائی،حالانکہ آپ کو تو چاہیے تھا،ہر اس آدمی کو اپنی کہانی سناتے جو سننا چاہتا تھا۔ اس طرح لوگوں کو پتا چلتا رہتا،لیکن آپ شاید لوگوں کو دکھی کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔آپ اپنے غم کو سینے میں چھپا کے رہے۔میں تو یہ کہوں گا کہ خدا کی مرضی اسی طرح تھی۔تو بابا!۔۔۔آپ کا بیٹا فیروزدین آپ کے سامنے ۔۔۔۔اور یہ آپ کی بہو ہے۔۔۔اب اس کا نام سلمیٰ ہے اور خدا کی مہربانی سے یہ مسلمان ہو چکی ہے۔اور یہ سب صلہ ہے آپ کی نیکی کا جو آپ نے سلمیٰ کو دریا میں ڈوبنے سے بچا کر کی تھی۔اگر آپ ایک ہندو کی بیٹی کو ہندو خیال کرتے ہوئے ڈوبنے دیتے تو آپ کو آج آپ کا بیٹابھی نہ ملتا۔اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو رائیگاں جانے نہیں دیتا۔“
یہ کہہ کر میں خاموش ہوگیا۔میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلک آئے۔پھر میں اٹھا اور ان سے لپٹ گیا۔جو تیس سال تک میری یاد میں روتے رہے تھے۔آنسو تو اب بھی آنکھوں سے بہہ رہے تھے،لیکن یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔سلمیٰ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔بابا مجھ سے الگ ہو کر سلمیٰ سے لپٹ گئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
اور میں رام ناتھ کے متعلق سوچنے لگا۔۔۔دوسرے مذہب کے بھی کچھ لوگ اتنے اچھے ہوسکتے ہیں۔۔۔شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا،لیکن یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔۔۔جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتااور اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہم تینوں کی آنکھوں میں چمکنے والے آنسو تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top