skip to Main Content
خاطر داریاں

خاطر داریاں

بینا صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچوں نے رشتے داروں سے ملنے کی مہم شروع کی ۔۔۔تو آگے کیا ہوا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

رافع کی ڈیوٹی آج دادا جان کے ساتھ تھی۔ وہ گزشتہ پانچ سال سے ٹانگوں کے فالج کا شکار ہوکے بستر پر آرام کررہے تھے۔

رافع کا کام ان کو اخبار سنا نا تھا۔ اخبار کے بعد دادا کو اونگھ آگئی تو رافع صا حب لگے مزے مزے سے اپنے موبا ئل سے اپنی تصویر کھینچنے۔

’’میاں یہ جو آ لہ لٹکاے پھرتے ہو ۔ یہ خود سے خود کی ملاقات کرانے کے علاوہ اورکیا کر تا ہے؟‘‘

دادا جان کی آواز پہ رافع ہڑ بڑا گیا۔

’’جی جی۔۔۔ وہ میں۔۔۔‘‘رافع گھبرا کے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’منے میاں ۔ اس آلے کا پہلا مقصد رابطہ ہے۔ دوسروں کے ساتھ۔ سمجھے؟‘‘ داداجان مخصوص طنز یہ لہجے میں بولے۔

’’جی میرا رابطہ تو ہے اپنے سارے دوستوں سے۔ فیس بک پہ روز کمنٹ ہوتے ہیں اور واٹس ایپ پر بھی بات ہوتی ہے۔‘‘ رافع جوش سے بولا۔

’’ارے لڑکے، تعلق اتنے قیمتی مو بائل کا محتاج نہیں ہوتا۔ مجھے یہ بتا ؤ اپنے فر حان چچا سے تم کب سے نہیں ملے؟ محسن ماموں کو جانتے ہو؟‘‘

’’سلمیٰ پھپھو سے واقف ہو؟ ‘‘ دادا جان گر ج اُٹھے۔

رافع تھوک نگل کے بولا۔ ’’جی یہ ہمارے شاید دور کے رشتے دار ہیں اور دور کے رشتے دار ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ دور ہی رہیں۔‘‘

’’حد ہو گئی ، محسن تمھاری امی کے خالہ زاد بھائی کا چچا زاد بھائی ہے۔ فرحان تمھارے ابو کے ماموں کے چچا کا سالا۔ جبکہ سلمی تو تمھارے ابو کی خالہ زاد بہن کی تایازاد ہے ہی۔ یہ دور کے رشتے ہیں کیا؟‘‘ دادا جان کو مزید غصہ آگیا۔ اتنے میں راکع اور ساریہ بھی دادا جان کی بلند آواز سن کے کمرے میں آچکے تھے۔

’’اچھا ہوا تم دونوں بھی آگئے۔ اب اس ڈانٹ میں اپنا حصہ بٹا ؤ۔‘‘ رافع آہستہ سے بولا۔

’’کیا کھسر پھسر لگارکھی ہے؟ میری بات کان کھول کے سن لو، کل ہفتہ ہے تم سب کی چھٹی ہے۔ تم کل ہی ان تینوں گھروں میں جاؤ گے اور خیریت لے کے آؤ گے۔یہ میرا حکم ہے، سمجھے؟ ‘‘

دادا جان نے گھن گرج کے ساتھ کہا۔ تینو ں بچوں کا دَم نکل گیا۔ دادا تو حکم سنا کے بستر پہ لیٹ گئے۔

تینوں بچوں نے سر تھام لیا۔ امی ابو سے کہنا بے کار تھا کہ وہ بھی دادا جان کے حکم کو بدل نہیں سکتے تھے۔

*۔۔۔*

راکع رافع اور ساریہ محسن ماموں کے ڈرا ئنگ روم میں دم سادھے بیٹھے تھے۔ ابھی تک کسی ذی روح نے ان کا سامنا نہ کیا تھا۔ گھر کا دروازہ خود کار تھا۔

گھنٹی بجانے پر گھر کے اندر سے کسی نے بٹن دبا کے کھول دیا تھا ۔ تینوں مشینی انداز میں چلتے ڈرائنگ روم میں آبیٹھے تھے۔

’’اب کتنی دیر تک ان دیواروں کو گھور یں گے اکیلے بیٹھ کر؟‘‘ ساریہ اُکتا کے بولی۔

’’کیا گھر والے بھی کسی روبوٹ یا مشین کے ذریعے ہم سے ملاقا ت کر یں گے؟ ‘‘ راکع جھنجھلا اُٹھا۔

تھوڑی دیر بعد روبوٹ تو نہیں ایک ماسی نمودار ہوئی اور خشک لہجے میں بولی۔ ’’پنکھا چلادوں جی؟ ‘‘

پچھلے آدھے گھنٹے سے گرمی میں بیٹھے بچے بلبلا اُٹھے۔ ’’جی نہیں ہم قطب شمالی سے آئے ہیں ، ہمیں گرمی نہیں لگتی۔ ‘‘ رافع کھول اُٹھا۔

’’اچھا جی ۔ شربت لے آؤں؟ ‘‘ ما سی بھی مشینی سے لہجے میں بولی۔ اسے گھر والوں نے یہ دو سوال ہی رٹائے تھے جو وہ ہر مہمان کی آمد پر کہہ ڈالتی تھی۔

’’شر بتِ فولاد لے آئیں۔ اس گھر کے لوگوں کی مہمان نوازی کا مقابلہ کر نے کے لیے۔ ‘‘ ساریہ جل کر بولی۔

’’جی وہ تو نہیں ہے۔ آ پ یہ بتا ئیں کہ آ پ لوگ قریبی رشتے دار ہیں یا دور کے؟ کیونکہ بیگم صا حبہ کہتی ہیں ۔ قر یبی رشتے داروں کو لال شربت اور دور کے رشتے داروں کوپانی ملا کے کولڈ ڈرنک دینی ہے۔‘‘ ماسی تفتیش پر اُتر آئی تھی۔اب لہجے میں تاثر تھا وہ بھی تھانے دار کا۔

’’جی ہم بہت ہی دور کے رشتے دار ہیں، اس لیے ہمیں پانی ملی کولڈ ڈرنک نہیں، صرف ٹھنڈا پانی پلا دیں۔ مہربانی ہوگی۔‘‘ رافع جل کے بولا۔

ماسی مشینی تیزی سے پلٹ گئی اور دو گندے گلاس اور پانی کی گندی بوتل میز پر پٹخ کے چلتی بنی۔

’’پورے چا لیس منٹ ہوگئے ہیں۔ اب اگر کوئی گھر والا ہم سے ملنے نہیں آیا تو میں اس تعلق داری مہم سے معذرت چاہوں گا اور یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘ راکع نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہو ئے غصے سے کہا۔

’’لو تو ہمیں بھی کون سے مزے آرہے ہیں ڈرا ئنگ روم کی دیواروں کو گھورتے ہوئے؟ رہی تعلق داری تو آج کل کے مشینی دور میں انسان کا سب سے گہرا تعلق مشینوں سے ہی رہ گیا ہے ۔ انسان کا انسان سے تعلق ختم ہو تا جارہا ہے۔ حد ہوگئی ہے ۔‘‘ ساریہ بلبلا اُٹھی۔

’’میرے خیال میں محسن ماموں کو ایک میسج کر کے واپس چلتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے گھر میں سب سورہے ہیں۔‘‘ رافع سلجھے ہو ئے لہجے میں بولا۔

*۔۔۔*

سلمیٰ پھپھو کے گھر میں مہمانوں کی آمد پر سر اسیمگی سی پھیل جاتی تھی جو اس موقع پر بھی پھیل گئی۔

راکع ، رافع اور ساریہ کو اُنھوں نے ایک تخت پہ بٹھایا، جس پہ پہلے ہی ایک بلی اپنے تین بچے لیے چڑھی بیٹھی تھی۔ ایک کر سی پہ گیلا گندا تو لیہ پڑاتھا۔

ساریہ کو بلی سے ڈر لگتا تھا اور گندے تولیے سے گھن آتی تھی۔ انتخاب مشکل تھا۔ بے چاری انگلی سے تولیہ سر کا کے کر سی کے ہتھے پہ ٹک گئی۔

راکع رافع بلی کے تختِ طاؤس پہ جا بیٹھے ، جس پہ بلی ان کو دانت دکھا نے اور کاٹنے لپکی۔

سلمی پھپھو بوکھلا کے بولیں:’’ارے بچو! بس گھر میں کوئی ہے نہیں تو گھر اُلٹا پڑا ہے اور یہ مانو نے بچے دیے ہیں۔ جب سے چڑ چڑی ہوگئی ہے۔ سب کو مارنے دوڑتی ہے۔ ‘‘

’’ہما صبا،حنا اور نداکہاں ہیں پھپھو؟ ‘‘ ساریہ نے پھپھو کی بیٹیوں کی خیریت جاننا چاہی جو مانو کی خیریت بتا کے آرام سے بیٹھ چکی تھیں۔

’’ارے بھئی، ہما صبا کالج کی طرف سے پکنک پر گئی ہیں اور ندا کوبخار ہے۔حنا کا انجینئرنگ کا داخلہ ٹیسٹ ہے تو کمرہ بند کر کے پڑھ رہی ہے، اس سے تو دو دن سے میں بھی نہیں ملی۔ تمھیں کیا آکے ملے گی وہ بے چاری؟‘‘

سلمی پھپھو بے زاری سے بو لیں ۔ پھر ذرا سوچ کے کہنے لگیں۔

’’بچیاں تو ہیں نہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا تم لوگوں کی کیسے خاطر دار ی کروں؟‘‘

’’رہنے دیجیے پھپھو۔ ہم تو صرف ملنے آئے ہیں۔‘‘ ساریہ خو ش اخلا قی کا بچا کچھا اسٹاک استعمال کرتے ہوئے بولی۔

’’اور جو مجھے صبح سے ایک پیالی چا ے نہیں ملی۔ سر درد سے پھٹ رہا ہے وہ ؟ ‘‘ سلمی پھپھو بھڑک کے بولیں۔

’’ارے ایسی کیا بات ہے پھپھو۔ چاے تو ساریہ بنا دے گی آپ کے لیے۔‘‘ راکع خوش مزاجی سے بولا۔ ساریہ نے اسے گھور کے دیکھا۔

’’ارے یہی میں بھی سو چ رہی تھی۔‘‘ سلمی پھپھو خوش ہو کے بولیں۔ ’’لیکن میں بالکل یہ نہیں سو چ رہی تھی۔‘‘ ساریہ دل ہی دل میں کبا ب ہوتے ہو ئے اُٹھی۔

’’کچن کہاں ہے؟‘‘ ساریہ مر دہ دلی سے بولی۔ ’’سیدھے ہاتھ پر۔‘‘ سلمی پھپھو بلی کو پیار کرتے ہوئے بولیں۔

سیدھے ہاتھ پر کچن اُلٹا پڑا تھا۔ جھوٹے بر تنوں کا ڈھیر، گزشتہ ہفتے گھر میں پکنے والے کھانوں کی باقیات، سبزیوں کے چھلکے، چکن کی ہڈیا ں اور بازار سے آئے کھانوں کے ڈبے اور تھیلے کچن میں بکھرے پڑے تھے۔

ساریہ نے گند ے برتنوں کے ڈھیر میں تیرتی کیتلی اُٹھائی اور اچھی طر ح دھو نے کے بعد پانی بھر کے چولھے پہ رکھی۔ ماچس کوڑے دان میں گر ی ہوئی ملی اور دودھ کا ڈبہ پیاز کی ٹوکری میں دھرا تھا۔

بدبودار بر تنوں میں سے چاے کے جھوٹے کپ نکال نکال کے دھوئے۔ اب چینی اور پتی ڈھونڈنے کا مرحلہ تھا۔ ساریہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی کہ بغیر چینی اور پتی کے چاے بنا نا دنیا کی سلیقہ مند ترین لڑ کی کے بس کی بات بھی نہ تھی۔

جیسے تیسے چاے پی کے اُٹھنے لگے تو سلمی پھپھو لاڈ سے بولیں:’’ارے رکو تو ۔ کھانا کھا کے جانا ۔ بس ساریہ پیاز ٹماٹر کٹوادے، ذرا فر ج سے چکن ڈھونڈ کے دھولے، مسالا پیس دے تو جلدی سے چکن کی کڑا ہی بھون لوں گی۔ آٹھ دس روٹی ساریہ ڈال لے گی۔‘‘

’’نہیں پھپھو۔ ہمیں فرحان چچا کے گھر بھی جانا ہے۔‘‘ راکع ساریہ کا غصے سے لال چہرہ دیکھ کے بولا۔

*۔۔۔*

’’مجھے تو معاف ہی رکھو اس تعلق داری مہم سے ۔ مجھے نہیں ر کھنا کسی سے تعلق۔‘‘ ساریہ غصے سے چہرے کا پسینہ صا ف کرتے ہوئے بولی۔

تینوں ابھی ابھی سلمی پھپھو کے گھر سے نکلے تھے، ساریہ رافع کے ساتھ موٹر بائیک پر تھی اور راکع اپنی بائیک پر تھا۔

’’صرف ایک فر حان چچا ہی تو ر ہ گئے ہیں، ان کے گھر بھی حا ضری لگا لیں ورنہ ایک اور چھٹی کا دن بر باد کر کرنے نکلنا پڑے گا۔‘‘ راکع بائیک قریب لاتے ہوئے بولا۔

فر حان چچا کے گھر میں سب لوگ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ راکع رافع اور ساریہ کو دیکھتے ہی سب کے چہروں پر بوریت نمودار ہوگئی۔

فر حان چچا کے دونوں بیٹے تو تیر کی طر ح اُٹھ کے اندر بھاگ گئے، فرحان چچا اور جمیلہ چچی بے زار مسکراہٹوں کے ساتھ سے بیٹھے رہ گئے۔

’’کیسے آنا ہوا؟‘‘ جمیلہ چچی چاہتے ہو ئے بھی لہجے کی خشکی نہ چھپا سکیں۔

’’بھی تم لوگ کم ہی کم شکل دکھاتے ہو۔ اس لیے پوچھ رہی ہیں تمھاری چچی۔‘‘ فر حان چچا نے وضاحت کی۔

’’آ پ لوگ سے ملے کافی دن ہوگئے تھے، اس لیے دادا جان نے کہا کہ جاکے مل آؤ۔‘‘ راکع نے کہا۔

’’بھئی ، اتنے بھی دن نہیں ہوئے، چھے مہینے پہلے ہی تو آئے تھے عید پر۔ ‘‘ جمیلہ چچی ناک چڑ ھا کر بولیں۔

’’بچوں کے لیے کچھ ٹھنڈا تو لے آؤ ناں۔ ‘‘ فر حان چچا نے چچی کے مزاج کی گرمی کا اثر بچوں پہ دیکھتے ہو ئے کہا۔

’’ٹھنڈا تو گھر میں کچھ نہیں۔ بچے رہنے ہی کب دیتے ہیں کولڈ ڈرنک فر ج میں؟ ‘‘ چچی سدا کی بیز ار تھیں۔

’’ایسا کرتے ہیں، تم بچوں کے لیے وہ کھیر لے آؤ جو تم نے بنائی تھی۔ ‘‘فر حان چچا نے بچوں کی خاطر تواضع کے پروگرام میں گر م جوشی لانا چاہی۔

’’لیجیے، چھے دن پہلے کی بنی کھیر دھری ہے گویا کہ۔ ‘‘ چچی کڑوا سا منھ بنا کے بولیں۔

’’میں ہی بازار سے کچھ لے آتا ہوں ، بچوں کے لیے۔ ‘‘فرحان چچا کھڑے ہوتے ہو ئے بولے۔

’’رہنے دیجیے چچا۔ ہم تو بہت تھوڑی سی دیر کے لیے آئے ہیں۔‘‘ راکع اس ساری بحث سے اُکتا کر بولا۔

’’تو یہ کون سا سچ مچ جارہے تھے؟‘‘ جمیلہ چچی ہنس کے بولیں۔

راکع رافع اور ساریہ کھول ہی تو اُٹھے مگر اد ب کا تقاضا تھا کہ خاموش بیٹھے رہیں۔

’’میرے خیا ل میں بچوں کو دوپہر کا کھانا ہی کھلا دیتے ہیں، وقت تو ہو ہی گیا ہے کھانے کا۔‘‘ فرحان چچا نے جمیلہ چچی کے ضبط کو آخری منزل تک پہنچا دیا۔

’’بھئی بات یہ ہے کہ گھر میں اس وقت کھانا یا کھانے سے ملتی جلتی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ صا ف بتا رہی ہوں اگر یہ بچے کھانا کھانے رک گئے تو کم ازکم ڈھائی گھنٹے بعد ان کو کھانا مل سکے گا۔‘‘

چچی نے تما م تر اخلا ق بالائے طاق رکھتے ہو ئے سفاک لہجے میں حقیقت بیان کی۔

’’رہنے دیجیے چچا، ویسے بھی ہم گھر جا کے کھانا کھائیں گے، امی نے ہمارے لیے ہر ے مسالے کی بر یانی بنائی ہوئی ہے۔‘‘ راکع غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

’’ارے ہر ے مسالے کی بر یانی تو با لکل بے ذائقہ ہوتی ہے۔‘‘ جمیلہ چچی کو ہر بات پر اعتراض کرنے کی عادت تھی۔

’’مگر وہ ہمیں کھانی ہے ۔کیونکہ ہمیں بہت پسند ہے اور ہماری امی بہت ہی مزے دار بناتی ہیں۔‘‘ رافع اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’ بھئی تمھاری امی کے کھانوں کی شہرت تو بڑی سنی ہے مگر کھائے کبھی نہیں۔‘‘ جمیلہ چچی طنز یہ لہجے میں بولیں۔

’’ شہرت کا کیا ہے چچی۔ وہ تو خاندان میں یہ بھی اُڑی ہو ئی ہے کہ آپ بہت مہمان نواز ہیں۔‘‘ ساریہ جل کے بولی۔

’’بھئی بچوں، اب تو تمھیں پانچ منٹ رُکنا پڑے گا۔ میں تم لوگوں کے لیے سامنے والی دکان سے کباب رول اور بر فی لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

فر حان ماموں نے خیالی خاطر دار ی میں مزید اضافہ کرنا چاہا۔

’’ارے نہیں چچا، ہم چلتے ہیں۔ امی انتظار کر رہی ہوں گی کھانے پر۔‘‘ راکع نے نر می سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔

ساریہ بھی بیگ کندھے پہ ڈال کے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’جانے دیجیے ۔ ان کو بھلا ماموں چچا کا کیا خیال۔ آپ ہی بچھتے رہتے ہیں اپنے بھتیجا بھتیجی کے سامنے۔۔۔ ان کو تو ہمارے گھر میں آدھے سے پونا گھنٹہ کر نا مشکل ہورہا ہے۔‘‘ جمیلہ چچی بھڑک کے بول اُٹھیں۔

فرحان چچا بے بسی سے کھڑے رہ گئے اور تینوں بچے جلدی سے باہر نکل آئے۔

*۔۔۔*

لیکن یہ کیا؟

گھر پہنچنے سے پہلے ان کی شکایتیں دادا کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں۔

’’محسن کے گھر والے نہادھو کے، گھر کے سب کام نمٹا کے، تیار ہو کے ڈرا ئنگ روم میں آئے تم لوگ غائب۔

سلمی نے تم لوگ کو کھانے پہ روکنے کے لیے منتیں کیں، تم لوگ نکل بھاگے۔

فرحان اور جمیلہ تو ہیں ہی اتنے مہمان نواز۔ اُنھوں نے قسم قسم کے کباب رول پیسٹری تم لوگوں کے آگے ر کھے مگر تم لوگ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ کچھ کھائے پیے بنا چلے آئے۔ لحاظ مروت تو ختم ہی ہوگئی ہے اس نئی نسل میں۔ حد ہوگئی ہے۔‘‘

دادا جان کو سب کے فون موصول ہوچکے تھے اور وہ تینوں بچوں کے گھر میں داخل ہوتے ہی گر ج اُٹھے تھے۔

تینوں بچے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے کہ عرصے سے فالج کا شکار مگر بے حد مہمان نواز اورخوش اخلا ق داد اجان کو معلوم نہ تھا کہ فالج ان کی ٹانگوں پہ ہی نہیں، لوگوں کے اخلاق پہ بھی اثر کرچکاہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top