skip to Main Content
خاتون جنت

خاتون جنت

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور ان کے سر پر محبت سے اپنا ہاتھ پھیرا اور آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگی: ’’یااللہ فاطمہ تیری کنیز ہے اس سے راضی رہنا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس بچی کی عمر ابھی بہت کم تھی مگر اس کی ذہانت کا اندازہ اس کے سوالات سے ہوتا تھا۔ بچی کی والدہ جو کہ خود بھی ایک نیک خاتون تھیں۔ اس بچی کی تربیت پر خاص توجہ دیتیں اور اس کے ذہانت بھرے سوالات کا تسلی بخش جواب دیتی تھیں۔
ایک بار بچی نے اپنی والدہ سے سوال کیا: ’’اماں جان اللہ تعالیٰ کی قدرتیں (اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں) تو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ ہم کو خود نظر نہیں آسکتے‘‘۔ 
بچی کی والدہ نے کہا: ’’میری بچی اگر ہم دنیا میں اچھے اچھے کام کریں گے اور اللہ کے احکامات پر عمل کریں گے تو قیامت کے دن اللہ ہم سے خوش ہوگا اور وہیں (جنت میں) ہمیں اللہ تعالیٰ نظر آئیں گے۔‘‘
یہ بچی اپنی عادتوں میں دوسرے بچوں سے بالکل مختلف تھی۔ دوسرے بچوں کی طرح نہ اس نے کبھی کسی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ ہی گھر سے باہر قدم نکالا۔ بس ہمیشہ اپنی والدہ کے پاس بیٹھی رہتی تھی اور دین سے متعلق جو سوالات اس کے ذہن میں اٹھتے وہ اپنی والدہ سے ان کے جواب پوچھتی۔ اس بچی کو دوسری لڑکیوں کی طرح نئے نئے کپڑوں اور زیور کا شوق نہیں تھا بلکہ اس نے ہمیشہ صفائی اور سادگی اختیار کی۔ 
ایک مرتبہ بچی کی والدہ نے اپنے کسی عزیز کی شادی میں جانے کے لیے بچی کے پہننے کے لیے مہنگے جوڑے اور زیور منگوائے مگر بچی نے وہ زیور اور کپڑے اپنی امی کو واپس کردیے۔ خود صاف ستھرے مگر سادہ کپڑوں میں والدہ کے ساتھ شادی میں شرکت کی۔ بچی کے والدین نہایت نیک اور اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ اس لیے اس بچی کو بچپن ہی سے عبادت کا شوق تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ شوق سے نماز پڑھتی اور عبادت کرتی۔ اس بچی کی عمر جب صرف پانچ سال تھی تو اس کی امی کا انتقال ہوگیا۔ جو اس بچی کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ بچی کے والد دین کے اہم کاموں میں بے حد مشغول رہتے تھے۔ مگر اپنی بچی کی اداسی دیکھ کر پریشان ہوجاتے تھے ۔ اپنے کاموں میں سے تھوڑا وقت نکال کر بچی کے پاس آتے اور تسلی دیتے۔ ساتھ ہی اسے نہایت قیمتی باتیں بھی بتاتے۔ دین کا یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ 
اس کام کے کرنے پر شریر لوگ اس بچی کے والد کو بہت پریشان بھی کرتے اور طرح طرح کی شرارت کرکے تکلیف پہنچاتے تھے مگر یہ ننھی سمجھ دار بچی اپنے والد کو تسلی دیا کرتی اور اکثر اپنے والدکی تکلیف کو دیکھ کر رونے لگتی مگر اس بچی کے والد اپنی پیاری بیٹی کو سمجھاتے۔ ’’میری بچی گھبراؤ نہیں اللہ تمہارے باپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘‘
یہ ننھی ذہین بچی جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتون اوّل حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہر ا رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اپنی عادات اور طور طریقوں، انداز گفتگو میں اپنے والد محترم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتی جلتی تھیں۔ غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کرنے والی نہایت صبر کرنے والی اور بہت زیادہ عبادت کرنے والی تھیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ رضی اللہ عنہا بھی اپنے تمام کام خود کیا کرتی تھیں۔ اپنے گھر میں خود ہی جھاڑو لگایا کرتی تھیں اور خود ہی چکی سے آٹا پیس کر کھانا بنایا کرتی تھیں۔ اس کام کے لیے ان کے گھر میں کوئی خادم نہیں تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صاحبزادی سے بے حد محبت تھی مگر اس کے باوجود سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اپنے والدصلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور ناراضگی کا ہر وقت خیال رہتا تھا۔ ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ دیکھا دروازے پر رنگین پردے لٹکے ہوئے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں میں چاندی کے دو کنگن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا تو رونے لگیں۔ اتنے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے اور رونے کی وجہ معلوم کی۔ 
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے تمام ماجرا سنایا تو بولے: ’’حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کنگن اور پردے ناپسند ہیں۔‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فوراً دونوں چیزوں کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ میں نے انہیں راہ خدا میں دیا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور اپنی بچی کے لیے دعاے خیر کی پھر ان چیزوں کو بیچ کر قیمت اصحاب صفہ کی ضرورت کے لیے دے دی۔
ایک دفعہ ایک بوڑھا آدمی مسلمان ہوا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے ضروری احکام سمجھائے پھر اس سے پوچھا: ’’تیرے پاس کچھ مال بھی ہے۔‘‘ اس نے کہا :’’خدا کی قسم قبیلے کے تین ہزار آدمیوں میں سب سے غریب میں ہی ہوں۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’تم میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا؟‘‘
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا:’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک اونٹنی ہے جو میں اس کو دیتا ہوں۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کون ہے جو اس کا سر ڈھانک دے۔‘‘ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ اٹھے اور اپنا عمامہ اتار کر اس اعرابی کے سر پر رکھ دیا۔ 
پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون ہے جو اس کی خوراک کا بندوبست کرے؟‘‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اعرابی کو ساتھ لیا اور اس کی خوراک کا انتظام کرنے نکلے۔ چند گھروں سے دریافت کیا لیکن وہاں کچھ نہ ملا پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا :’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے سارا واقعہ سنایا اور التجا کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اس مسکین کی خوراک کا انتظام کردیجیے۔‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ارے سلمان رضی اللہ عنہ خدا کی قسم! آج ہم سب کو تیسرے وقت کافاقہ ہے، دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی۔ جاؤ میری یہ چادر یہودی کے پاس لے جاؤ اور کہو فاطمہ بنت محمد کی یہ چادر رکھ لو اور اس غریب انسان کو تھوڑے سے اناج دے دو۔‘‘
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اعرابی کو ساتھ لے کر یہودی کے پاس پہنچے اس کو سب بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور پکار اٹھا۔ ’’اے سلمان خدا کی قسم! یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے، گواہ رہنا کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہ کے باپ پر ایمان لایا۔ ‘‘
اس کے بعد کچھ غلہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دیا اور چادر بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو واپس کردی۔ وہ لے کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے اناج پیس کر جلدی سے روٹی پکائی اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے کہا:’’ اس میں سے کچھ بچوں کے لیے رکھ لیں۔‘‘ جواب دیا۔ ’’سلمان رضی اللہ عنہ جو چیز خدا کی راہ میں دے چکی وہ میرے بچوں کے لیے جائز نہیں۔‘‘ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روٹی لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ روٹی اعرابی کو دی پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور ان کے سر پر محبت سے اپنا ہاتھ پھیرا اور آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگی: ’’یااللہ فاطمہ تیری کنیز ہے اس سے راضی رہنا۔‘‘
جس طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیارے ساتھیوں نے کئی کئی دن فاقے کیے۔ اسی طرح سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ فاقے کیے۔ ہمیشہ صبر کیا اور اپنے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال نہ کیا۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے اور کچھ کھانے کو مانگا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آج تیسرا دن ہے۔ گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ رضی اللہ عنہ تم نے مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا؟‘‘ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے میرے محترم خاوند! میرے والدمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کرکے آپ رضی اللہ عنہ کو شرمندہ نہ کروں۔‘‘ کیوں کہ جس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پیسوں کی تنگی تھی اور ان کا زیادہ تر وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں گزرتا تھا لہٰذا جو کچھ مال غنیمت میں ملتا تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور آپ رضی اللہ عنہ کے بچوں کا اسی پر گزر بسر ہوتا تھا۔
ایک دفعہ دوپہرکے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے گھر سے نکلے۔ راستے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملے۔ وہ بھی بھوکے تھے۔ تینوں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے کھجوروں کے باغ میں پہنچے۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ خوشی میں ان سے لپٹ گئے۔ فوراً کھجوروں کا ایک گچھا توڑ کر لائے اور کھانے کو پیش کیا اور ٹھنڈا اور میٹھا پانی پینے کے لیے دیا۔ خود گھر کے اندر جا کر ایک بکری ذبح کی اور اسے بھون کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روٹی پر تھوڑا سا گوشت رکھ کر فرمایا:’’ یہ فاطمہ کو بھجوادو انہیں کئی دن سے فاقہ ہے۔‘‘
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی والدہ کو صبح سے شام تک عبادت کرتے اور خدا کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا مگر انہوں نے کبھی اپنی دعاؤں میں اپنی ضرورت کے لیے کچھ نہیں مانگا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے اپنی بیٹی سے محبت تھی۔ اسی طرح اپنے داماد اور نواسوں سے بھی پیار تھا۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بہت محبت سے بوسے دیتے (چومتے) اور اپنے کندھے پر اٹھائے پھرتے تھے۔
وصال نبوی سے کچھ دن پہلے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت معلوم کرنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تشریف لائیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور ان کے کان میں آہستہ سے کوئی بات کہی۔ جسے سن کر وہ رونے لگیں پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور بات ان کے کان میں کہی اور وہ ہنسنے لگیں۔ جب واپس جانے لگیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پوچھا۔ ’’اے فاطمہ تیرے رونے اور ہنسنے میں کیا راز تھا۔‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ جو بات حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے چھپائی ہے۔ میں وہ نہیں بتاؤں گی۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس واقعے کی تفصیل پوچھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ پہلی دفعہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پہلے جبریل علیہ السلام امین سال میں ہمیشہ ایک مرتبہ قرآن پاک سنا کرتے تھے۔ اس سال معمول کے خلاف دو بار سنا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔‘‘ یہ سن کر میں رونے لگی۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اور تم جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔‘‘ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل بے چینی دیکھ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بہت تکلیف ہوئی اور بے چین ہو کر فرمایا: ’’ہاے میرے باپ کی بے چینی۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا۔ ’’آج کے بعد تمہارا باپ بے چین نہیں ہوگا۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہر وقت غمزدہ رہنے لگیں اور چھ ماہ بعد ہی رمضان المبارک 11 ہجری کو وفات پاگئیں۔
آپ کی اولادیں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت محسن رضی اللہ عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے اٹھارہ احادیث مروی ہیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top