skip to Main Content
حیات سے آبِ حیات تک

حیات سے آبِ حیات تک

نذیر انبالوی

………….………….………….………….………….………….

کیا آپ بھی آب حیات پینا چاہتے ہیں؟تو دیر کس بات کی ہے آؤ مل کرآبِ حیات پیتے ہیں۔

………….………….………….………….………….………….

’’کیا؟‘‘میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’میں صحیح کہہ رہا ہوں بھائی!‘‘حیات بولا۔
’’سنا تم نے کچھ۔‘‘میں نے محسن کو مخاطب کیا۔
’’کیاہوا؟‘‘محسن بولا۔
’’حیات یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے آبِ حیات پی لیا ہے۔‘‘
’’آبِ حیات‘‘محسن نے دہرایا۔
’’ہاں آبِ حیات‘‘میری بات سن کر حیات بولا۔
’’میں نے واقعی آبِ حیات پی لیا ہے۔‘‘
’’یہ تو جھوٹ ہے‘‘محسن نے کہا۔
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘
’’تم لوگ اس کو جھوٹ سمجھو یا سچ مگر یہ حقیقت ہے کہ میں نے آبِ حیات پی لیا ہے۔‘‘
’’یہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘محسن جھٹ سے بولا۔
’’میرے دوستوں ایسا ہو گیا ہے۔‘‘
’’تم نے کہاں سے آبِ حیات پیا ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’سب کچھ بتاؤں گا۔‘‘
’’تو بتاؤ انتظار کس بات کا ہے؟‘‘
’’ابھی اس کا وقت نہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب تم گپ ہانک رہے ہو یا ہمیں بیوقوف بنا رہے ہو۔‘‘میں نے کہا۔
’’جو پہلے ہی بیوقوف ہو اسے بھلا…………‘‘
’’حیات کے بچے ابھی تمہارا آبِ حیات نکالتا ہوں۔‘‘میں حیات کو مارنے کے لیے اسکی طرف بڑھا تو وہ گراؤنڈ کی طرف دوڑ پڑا۔ایک گھنے پیڑ کے نیچے حیات کا سوئیٹر میری گرفت میں آچکا تھا۔
’’اب بھاگ کر کہاں جاؤ گے، کس کو بیوقوف کہا تھا بتا!۔‘‘ 
’’تمہیں………..تمہیں………..تمہیں\”یہ کہہ کر حیات میری گرفت سے آزاد ہو گیا۔کرکٹ گراؤنڈ کا ایک چکر لگانے کے بعد ہم دونوں ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔
’’بولوتم نے کہاں سے پیا آبِ حیات۔‘‘
’’بس پی لیا۔‘‘
’’ہمیں نہیں بتاؤ گے؟۔‘‘
’’یہ ہمیں ہر گز نہیں بتائے گا۔‘‘محسن بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔
’’اچھے دوستوں…..بتاؤں گا…..بتاؤں گا، ضرور بتاؤں گا، بس ذرا انتظار کرو۔‘‘
تینوں آبِ حیات کے متعلق باتیں کرنے میں اس قدر کھوئے کہ تفریح کا وقت ختم ہونے کا انہیں علم ہی نہ ہوا۔وہ مزید باتیں کرنا چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی نے ان کو دور سے آواز دی:
‘‘بوائز اپنی اپنی کلاسز میں چلے جاؤ۔‘‘
یہ آواز سنتے ہی تینوں اپنی جماعت میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔تینوں آئیڈیل ہائی سکول میں جماعت دہم کے طالب علم تھے۔ چند ہفتوں پہلے اردو کے استاد نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’آج ہم تلمیح کے بارے میں پڑھیں گے۔‘‘
’’سر !تلمیح کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘‘حیات نے پوچھا۔
’’بیٹا! کسی بات کو اچھی طرح سمجھانے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اسے کہانی یا ماضی کے کسی سنے یا دیکھے ہوئے واقعے کے حوالے سے واضح کیا جائے۔یہ وضاحت دو طرح سے ہوتی ہے،پہلے ہے کہ سننے والے کو پورا قصہ سنایا جائے یا اس قصے کی جانب اشارہ کر دیا جائے۔ تحریر میں کسی واقعے کی طرف ایک لفظ یا چند مختصر الفاظ کے ذریعے کسی مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔‘‘سر بلال نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’سر!یہ تو بہت معلوماتی چیز ہے۔‘‘محسن بولا۔
’’ہاں واقعی چند الفاظ میں پورے واقعے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘
’’سر! تلمیح کی کچھ مثالیں لکھوا دیں۔‘‘میں نے کہا۔
’’ہاں……..ہاں ضرور…….لکھو…….آبِ حیات۔‘‘
’’سر! آبِ حیات کا کیا مطلب ہے؟‘‘حیات نے سوال کیا۔
’’آبِ حیات ایک چشمہ ہے جس کا پانی پینے والا کبھی نہیں مرتا۔یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے آبِ حیات پیا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ سکندر بادشاہ نے حضرت خضر علیہ السلام سے یہ پانی پینے کی خواہش کی تھی چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام سکندر کو آبِ حیات کے چشمے تک تو لے گئے تھے مگر سکندر کسی وجہ سے آبِ حیات نہ پی سکا۔\”سر بلال نے اسکے بعد کئی اور بھی تلمیحات لکھوائیں مگر حیات کا ذہن تو آبِ حیات تک اٹک کر رہ گیا تھا وہ سوچوں میں گم تھا کہ کیا آج بھی آبِ حیات تک پہنچا جا سکتا ہے؟ اردو کا پیریڈ ختم ہوا تو حیات نے میرا کندھا کھینچا:
’’یار کیا آج بھی آبِ حیات کا وجود ہے؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم، کیا میں نے آبِ حیات بنایا ہے۔‘‘
’’میں آبِ حیات کی تلاش کروں گا۔‘‘
’’بھئی حیات کے حیات ہی رہو آبِ حیات مت بنو۔‘‘میں نے مسکرا کر کہا۔
حیات کے گھر پہنچتے تک آبِ حیات اس کے سر پر سوار رہا۔ اس نے دوپہر کا کھانا لھاتے ہوئے آپی سے آبِ حیات کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں:
’’یہ آج تم پر آبِ حیات کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے۔‘‘
’’آج اردو کے استاد نے اس تلمیح کے بارے میں ہمیں بتایا ہے۔‘‘
’’یہ سب فرضی قصے ہیں۔ بھلا کوئی ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکتا ہے؟‘‘
’’نہیں آپی آبِ حیات کا وجود ہے ضرور ، میں اس کی تلاش کروں گا۔‘‘
’’تم نے بورڈ کا امتحا ن دینا ہے ایسی باتوں میں الجھے رہے تو پڑھائی سے غافل ہو جاؤگے۔‘‘یہ کہتے ہوئے گویا آپی کا لیکچر شروع ہو گیا۔حیات کھانا کھاتے ہوئے یہ لیکچر سنتا رہا مگر اسکا ذہن آبِ حیات کے بارے میں سوچتا رہا۔شام کو ابا سے بھی اس نے آبِ حیات کے بارے میں پوچھا۔ابا جان کسی دفتری کام میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ وہ بھی اس کو تسلی بخش جواب نہ دے پائے۔ٹیوٹر بیمار ہونے کی وجہ سے نہیں آئے تھے۔دوسرے دن آبِ حیات کی الجھن لئے وہ سکول میں موجود تھا۔آبِ حیات کا وہ اس قدر ذکر کر رہا تھا کہ سکول کے بچوں نے اس کو حیات کے بجائے آبِ حیات ہی کہنا شروع کر دیا ۔ وہ سکول میں داخل ہوتا تو اس کے کانوں میں آواز آتی:
’’وہ دیکھو آبِ حیات جا رہا ہے۔‘‘یہ سن کر حیات مسکرا دیتا۔سکول کے اساتذہ نے اسے سمجھایا کہ آبِ حیات پر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ پڑھائی پر توجہ دو مگر حیات کے سر پر تو آبِ حیات کا سودا سوار تھا۔ایک ہفتہ کے بعد ٹیوٹر آئے تو اس نے یہ سوال ان کے سامنے بھی کر ڈالا۔ٹیوٹر نے حیات کو بغور دیکھتے ہوئے کہا:
’’تو تم آبِ حیات تک پہنچنا چاہتے ہو۔‘‘
’’ہاں میں ایسا ہی چاہتا ہوں ۔‘‘
’’آبِ حیات تک رسائی تو بہت آسان ہے۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
’’کیا واقعی میں آبِ حیات تک پہنچ سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں، بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘
’’مگر کیسے؟‘‘حیات نے چونک کر پوچھا۔
’’تو پھر سنو۔‘‘ٹیوٹر نے آبِ حیات حاصل کرنے کا طریقہ بتایا تو حیات کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ اس شام حیات اور ٹیوٹر کے درمیان آبِ حیات ہی کے بارے میں بات ہوتی رہی۔
حیات نے اگلے دن آکر دوستوں کو بتایا کہ وہ بہت جلد آبِ حیات تک پہنچ جائے گا۔ ہم نے اسکا خوب مذاق اڑایا۔ چند ہی دنوں بعد اس نے آبِ حیات پینے کا دعویٰ کر دیا۔یہ بات ناقابل یقین تھی۔ حیات اپنی بات پر مصر تھا کہ وہ آبِ حیات پینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ چھٹی کے وقت وہ وین میں سوار ہونے لگا تو میں نے اس سے کہا:
’’اب تو بتا دو کہ کیسے اور کہاں سے تم نے آبِ حیات پیا ہے؟‘‘
’’دوستوں انتظار کرو۔‘‘
’’راحیل تم بھی کس گپی کی باتوں میں آگئے ہو۔‘‘محسن نے مجھے مخاطب کیا۔
’’اچھا یار مت بتاؤ، تمہاری مرضی۔‘‘
’’یار بتاؤ ں گا مگر وقت آنے پر۔‘‘حیات یہ کہہ کر وین میں سوار ہوگیا ۔ میں اور محسن بھی سکول گیٹ پر کھڑے اپنی وین کا انتظار کرنے لگے۔ہمیں کیا خبر تھی کہ ہم سے باتیں کرنے والا حیات تھوڑی دیر بعد ایک حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ جائے گا۔وین کو نئے پل کے پاس حادثہ پیش آگیاجس سے دو بچے ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ حیات کا شمار زخمیوں میں تھا۔اسکے سر پر گہری چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش تھا۔ یہ خبر جان کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے۔ چھٹی کے بعد ہسپتال گئے تو حیات کے ابو نے بتایا کہ ڈاکٹر پر امید ہیں کہ حیات جلد ہوش میں آجائے گا۔ہم دونوں دوست خصوصی نگہداشت کے وارڈ میں ایک شیشے میں سے اندر جھانک رہے تھے۔ بیڈ پر حیات بے سدھ پڑا تھا۔ حیات کو اس حالت میں دیکھ کر ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ ہم اپنے دوست کو دیکھ تو سکتے تھے مگر اندر نہ جا سکتے تھے۔ حیات چار دن تک بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تو سبھی کے چہرے کھل گئے۔ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ چوبیس گھنٹے کے بعد ہمیں حیات سے ملنے کی اجازت مل گئی۔ اندرونی دماغی چوٹ کے باعث حیات کی یادداشت بھی متاثر ہوئی تھی۔ دونوں دوستوں کو دیکھ کر اس نے کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
’’حیات کیسے ہو؟‘‘
یہ سن کر حیات کے ہونٹ ہلے مگر وہ بات نہ کر سکا۔
’’تم جلد ٹھیک ہو جاؤگے۔‘‘محسن کی اس بات کا بھی حیات نے کوئی جواب نہ دیا۔
ہم حیات کو مل کر آنکھوں میں آنسولیے ہسپتال سے واپس آگئے ہم دونوں کا خیال تھا کہ حیات نہیں مرے گا کیونکہ اس نے آبِ حیات جو پی لیا ہے۔ دوسرے دن مین اکیلا ہی ہسپتال گیا۔ وارڈ میں حیات کے پاس اس وقت کوئی دوسرا نہ تھا۔حیات اب اس قابل ہو گیا تھا کہ ٹوٹے پھوٹے جملے اپنی زبان سے ادا کر سکے۔حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے دھیمی آواز میں مجھے کہا:
’’میں اب زندہ نہیں بچوں گا۔‘‘
’’ایسی بات منہ سے نہیں نکالتے۔‘‘ 
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔‘‘
’’مگر تم کیسے مر سکتے ہو ؟تم نے تو آبِ حیات پی رکھا ہے۔‘‘
’’آبِ حیات۔‘‘
’’ہاں آبِ حیات ، اب تو آبِ حیات کے بارے میں بتا دو۔‘‘
’’بتاتا ہوں……..بتاتا ہوں……تو سنو۔‘‘اسکے بعد حیات نے سب کچھ مجھے بتا دیا مگر افسوس وہ جانبر نہ ہوسکا اور ایک ماہ ہسپتال میں زیرِعلاج رہنے کے بعد ہمیں روتا چھوڑ کر چلا گیا۔سارے سوچ رہے تھے کہ حیات مر گیا ہے،مگر ایسا نہ تھا۔
چند دنوں بعد میں حیات کے گھر والوں ،اساتذہ اور دوستوں کو لیے نہر کنارے ایک باغ میں کھڑا تھا۔ 
’’تم ہمیں یہاں کیاں لائے ہو؟‘‘حیات کے ابو نے پوچھا۔
’’میں اس باغ میں اس لیے لایا ہوں کہ آپ کو بتا سکوں کی حیات نے آبِ حیات اسی جگہ پیا تھا۔‘‘
’’تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘آپی بھی حیران ہوئیں۔
’’ہاں آپی یہی وہ باغ ہے جس میں حیات زندہ ہے۔یہ دیکھیں حیات کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا، اس پر حیات مظہر کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’حیات نے اس جگہ کیوں پودا لگایاتھا؟‘‘ایک استاد نے پوچھا۔
’’گھر میں جگہ ہوتی تو حیات یہاں پودا نہ لگاتا۔‘‘میں نے جواب دیا۔
پھر سب شہتوت کے اس پودے کو دیکھنے لگے جو تیزی سے درخت بن رہا تھا۔ اس لمحے میں نے ٹیوٹر کی آنکھوں میں اک انجانی سی خوشی دیکھی۔حیات انہی کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اس باغ تک پہنچا تھا۔
وقت گزرتا رہا ۔ میں تعلیم مکمل کر کے عملی میدان میں آگیا۔ مجھے ایک تعلیمی ادارے میں اردو کے استاد کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ میں نے پہلے پہل تو چھوٹی جماعتیں پڑھائیں ۔ پھر میرے تجربے کو دیکھتے ہوئے مجھے نہم اور دہم کی جماعتیں پڑھانے کے لیے دی گئیں ۔ ایک دن جماعت دہم کو پڑھاتے ہوئے تلمیحات کا باب آیا تو تلمیح \” آبِ حیات\”پر نظر پڑتے ہی مجھے حیات یاد آ گیا۔ وہی حیات جس نے آبِ حیات پیا تھا۔میں اس بات کو بھول چکا تھا تاہم اس دن سارا وقت حیات کی یادوں میں کھویا رہا۔چھٹی کے بعد میرا رخ گھر کے بجائے اس باغ کی طرف تھا ،جس میں حیات نے آبِ حیات پیا تھا۔ باغ کا مالی بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے اپنا تعارف اور حیات کا حوالہ دیا تو مالی بابا بولے:
’’وہ سامنے شہتوت کادرخت حیات نے لگایا تھا، بڑا پیارا بچہ تھا وہ۔‘‘
حیات کا لگایا ہوا ننھا پودا اب تنا ور درخت بن چکا تھا۔ایک طالب علم درخت کی چھاؤں میں بیٹھا پڑھ رہاتھا۔درخت پر کئی پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے تھے ۔حیات کے نام کی تختی ابھی تک دکھائی دے رہی تھی ۔اب میں وقتاًفوقتاًباغ میں آنے لگا تھا ۔مارچ کے مہینے میں شہتوت کا یہ تناو ر درخت پھل سے بھر گیا تھا ۔بچے بالے زمین پر گرے ہوئے شہتوت کھا تے رہتے تھے۔پرندے اپنے گھونسلوں میں بھی رہتے تھے اور مزے مزے کے شہتوت بھی کھاتے تھے۔ایک ٹھیکیدار نے شہتوت اتار کر ان کی فروخت بھی شروع کردی تھی۔میں نے جب پھل سے لدے درخت کو دیکھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ میرے ذہن میں آگئی ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمان درخت لگا تا ہے اور پھر اس میں سے جتنا حصہ کھا لیا جائے وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے اور جو اس میں سے چرالیا جائے وہ بھی صدقہ ہوتا ہے یعنی اس پر بھی مالک کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جتنا حصہ اس میں سے پرندے کھا لیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے(غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ(بھی پھل وغیرہ)لے کر کم کر دیتا ہے تو وہ اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اس درخت کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ حیات زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔آپ کو علم ہے کہ میں یہ کہانی کہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ؟اسی درخت کے نیچے جسے حیات نے لگایا تھا۔ میں بھی آبِ حیات پیوں گا۔کیا آپ بھی آب حیات پینا چاہتے ہیں؟تو دیر کس بات کی ہے آؤ مل کرآبِ حیات پیتے ہیں۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top