skip to Main Content

حقیقی جیت

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’رفیق بہت جلد تمہارے اور میرے درمیان ایک اور مقابلہ ہونے والا ہے۔‘‘
’’کیسا مقابلہ ؟‘‘رفیق چونکا
’’تقریری مقابلہ۔۔۔بہ عنوان یوم آزادی تم ہر دفعہ مجھے شکست دیتے آئے ہو مگر اس مرتبہ جیت یقینی طور پر میری ہوگی۔‘‘ بلال نے تکبر انہ انداز میں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے کہا
’’جیت اسی کی ہوتی ہے جو محنت کرتا ہے۔‘‘رفیق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
’’یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘ بلال نے گھور کر کہا اور آگے بڑھ گیا
رفیق اس کو جاتا دیکھتا رہا گھڑی پر نظر دوڑائی تو دو بجنے کو تھے اس نے قدموں کو تیزی سے گھر کی جانب بڑھایا۔گھر پہنچا تو ماں کو بہت بے چین پایا۔
’’کہاں رہ گئے تھے تم؟‘‘ ماں کی آواز باورچی خانے سے گونجی
’’میں۔۔۔وہ۔۔۔‘‘رفیق نے کچھ بتانا چاہا۔
’’سیدھے گھر آیا کروہ پھر جہاں جانا ہو چلے جایا کرو۔‘‘ماں نے ٹوکتے ہوئے نصیحت کی۔
نماز اور بعد ازاں کھانے سے فارغ ہو کر رفیق جب آرام کی غرض سے لیٹا تو اس کے ذہن میں بلا ل کے الفاظ گونج رہے تھے کہ’’اس مرتبہ جیت یقینی طور پر میری ہے۔‘‘وہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ وہ اس مقابلے میں حصہ لے یا نہیں مگر ذہن کوئی آخری فیصلہ کرنے سے قاصر تھا۔ پھر اپنی سر کو وہ تین دفعہ جھٹک کر اس نے اپنے ذہن سے خیالات کا سلسلہ قطع کیا او ر کروٹ بدل کر خود کو نیند کے حوالے کر دیا۔
اگلے دن اسکول میں اعلان کیا گیا’’یوم آزادی کے حوالے سے تقریری مقابلہ منعقد کیا جارہا ہے مقابلے میں حصہ لینے کے والے خواہش مند طلباء اپنے نام کا اندراج کروالیں۔‘‘
اعلان سن کر رفیق کو کچھ حیرت ہوئی کہ بلال پہلے سے ہی اس مقابلے کا انتظار کررہا تھا اور ممکن ہے کہ اس مقابلے کی تیاری زبردست طریقے سے کرلی ہو اور وہ مقابلے میں مجھ سے برتری لے جائے۔ وہ فیصلہ نہ کرپا رہا تھا کہ مقابلے میں حصہ لے یا نہیں البتہ وہ ہمیشہ ہر تقریری مقابلے میں بلال پر برتری حاصل کرتا تھا آخر اس نے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے اپنے نام کا اندراج کروادیا۔

’’بلال تمہارے ابو تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘بلال کی والدہ نے اطلاع دی۔
وہ کمرے میں جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ والد صاحب کو میں نے جو کام کہا تھا ضرور اس بارے میں بتانے کے لیے مجھے بلایا ہوگا۔دروازے پر دستک دے کر بلال اندر داخل ہوگیا’’جی! آپ نے مجھے بلایا ۔‘‘
’’ہاں بیٹا! میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے جو کام کہا تھا وہ ہوگیا ہے تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔‘‘بلال کے والد نے مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
’’اچھا !اب میں جاؤں۔‘‘بلال نے مسرت بھرے لہجہ میں کہا
’’ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو۔‘‘ بلال کے والد نے ہا تھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
ادھر رفیق بھی ممکن حد تک مقابلے کی تیاری کررہا تھا مقابلے سے ایک روز قبل رفیق کے والد نے اس سے دریافت کیا’’بیٹا! تقریری مقابلے کی تیاری کیسی ہے۔‘‘
تیاری تو جو تھی سو تھی اس نے والد کو بلا ل کی باتوں سے آگاہ کیا تو انہوں نے جواباً چند نصیحتیں کیں اور پھر اپنے طور پر تقریر کے مواد کو موثر بنایا اور رفیق کی اچھے طریقے سے تیاری کروائی ،دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔
آخر کار مقابلے کا دن بھی آگیا اسکول کو مکمل طور پر سجایا گیاتھاہر فرد خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول سے کیا گیا جج کی کرسی پر اسکول کے پرنسپل تشریف رکھ چکے تھے مہمان خصوصی بھی اپنی نشت سنبھال چکے پھر تقریری مقابلے کا آغاز ہوا۔ باری باری طلباء کو بلایا جانے لگا تاکہ وہ 14 اگست کی اہمیت کو بھر پور طریقے سے واضح کر سکیں اسکول کے ہونہار طلباء باری باری آکر اپنے جوہر دکھانے لگے اسی نشست میں رفیق اور بلال کی باری بھی آئی او ر دونوں نے خوب تقاریر کیں۔ خیر فیصلہ تو جج صاحب کو دینا تھا۔ مگر حسب توقع تمام سامعین مجلس کو یقین تھا کہ آج بھی اول انعام رفیق ہی لے کر جائے گا۔
جب تک جج صاحب نے فائنل رزلٹ تیار کیا اس وقت تک سامعین کو لطف اندوز کرنے کے لیے ملی نغمے اور بعد ازاں میجک شو دکھائے گئے اس کے بعد اسٹیج سیکریڑی نے جج صاحب یعنی اسکول کے پرنسپل کو دعوت دی تاکہ وہ نتائج کا اعلان کریں۔
جج صاحب اسٹیج پر تشریف لائے مائیک سنبھالا مختصر اً گفتگو کے بعد وہ نتائج کی طرف آئے سوئم پوزیشن کے طالب علم کا نام پکارا پھر دوئم، مگر دوئم پوزیشن محمد رفیق کی تھی اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کانام پکارا گیا تو کسی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرت سے دیکھ رہے تھے جبکہ بلال اپنا انعام حاصل کرنے کے لیے اسٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا۔ رفیق نے اس کو تقدیر کا لکھا سمجھا کر ماں لیا۔
’’بھئی مجھے معلوم نہیں یہ کس طرح ہوگیا شاید بلال نے مجھ سے بہتر تقریر کی ہو۔ ‘‘دوستوں نے پوچھنے پر رفیق نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’نہیں یا ر ہم نے خود تقریر سنی تھی تمہاری تقریر تو اس کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر تھی۔‘‘ دوستوں نے وضاحیتں کیں۔
’’جو ہونا تھا ہوگیا میں کسی کے خلاف اپنا دل میلا نہیں کر سکتا خاص طور پر آج کے دن میں اپنے ذہن کو پریشان کیے بغیر خوشی سے گزارنا چاہتاہوں۔‘‘رفیق نے تقریر جھاڑی اور آگے بڑھ گیا۔
ایک روز حسب معمول عصر کی نماز ادا کر کے رفیق جب گھر آیا تو والد نے بتایا کہ تمہارے پرنسپل آئے ہوئے ہیں رفیق فوراً ڈرائنگ روم میں پہنچا تو وہاں پرنسپل صاحب کو صوفے پر بیٹھے پایا۔
’’خیریت ہے سر۔۔۔آپ میرے گھر۔‘‘ رفیق نے ادب سے پوچھا
’’بیٹا!میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں۔‘‘ پرنسپل صاحب نے نظریں نیچی کرتے ہوئے کہا
’’شرمندہ ۔۔۔مگر ‘‘رفیق کو کچھ سمجھ نہ آئی۔
رفیق نے بات بھی مکمل نہ تھی کہ پرنسپل صاحب نے بول پڑے’’ دراصل بات یہ کہ میں نے اسکول کی تقریر ی مقابلے میں تمہیں جان بوجھ کر دوسرے انعام کا حقدار ٹھہرایا تھا حقیقت میں تم پہلے انعام کے حق دار تھے۔‘‘
’’مگر آپ نے ایسے کیوں کیا؟‘‘ رفیق نے پرنسپل صاحب کے خاموش ہوتے ہی پوچھا
’’بلال کے والد میرے دوست ہیں انہوں نے میرے بیٹے کا علاج کروانے میں بھی میری بہت مدد کی مقابلے سے دو دن پہلے انہوں نے فون کر کے بتایا کہ بلال کو مقابلے میں پہلے انعام کا حقدار ٹھہرانا ہے کیوں کہ یہ ان کے بیٹے کی ضد ہے ان کے مجھ پر اتنے احسانات تھے کہ مجھے مجبوراً یہ کام کرنا پڑا مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا؟؟؟‘‘رفیق نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
’’مگر خدا نے مجھ سے میرا بیٹا چھین کر مجھے میرے گناہ کی سزادے دی۔‘‘ پرنسپل صاحب نے بار جاری رکھی’’ میرے بیٹے کی موت کے بعد میرے ضمیر نے مجھے اتنا ملامت کیا کہ میں تم سے اپنی غلطی کی معافی مانگنے چل پڑا میں تمہارا گناہ گار ہوں، مجھے معاف کردو۔‘‘پرنسپل صاحب کے گال اشکوں سے تر ہونے لگے۔
’’آپ میرے استاد اور قوم کے محسن ہیں ایسی باتیں کرکے مجھے میری ہی نظروں میں مت گرائیں مجھ سے معافی مانگنے کی بجائے اپنے خدا سے معافی مانگیے بے شک وہ معافی مانگنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘اتنے میں رفیق کے والد بھی کمرے میں داخل ہوئے وہ تما م باتیں سن چکے تھے۔
’’میرے بیٹے مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘رفیق کے والد نے اپنے بیٹے کو فخریہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
رفیق خود بھی بہت خوش تھا کیونکہ بظاہر تو وہ بلال سے ہار چکا تھا مگر حقیقت میں جیت اُسی کی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top