skip to Main Content

جھگڑامٹھائیوں کا

ضیاء اللہ محسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فخرو کے جاتے ہی مٹھائیوں میں گھمسان کی لفظی جنگ چھڑ گئی۔۔۔
پڑھیے کہانی + مشاعرہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فخرو نے جیسے ہی اپنی مٹھا ئی کی دُکان کھولی، ایک اشتہا انگیز خوشبو اس کے نتھنوں سے ہوتی ہوئی دل و دماغ کو سرشار کرگئی۔ دُکان میں ترتیب سے رکھی تازہ مٹھائیاں دل فریب منظر پیش کر رہی تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے فخرو یہ سب مٹھائیاں ترتیب سے سجا کر گیا تھا۔ اب وہ اِنھیں بیچنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اِکادُکا گاہک دکان پہ آنا بھی شروع ہوگئے تھے۔
فخرالدین عرف فخرو بھائی کے ہاتھ کی بنی مٹھائی ناصرف گاؤں میں، بلکہ باہر کے لوگوں میں بھی خوب پسند کی جاتی تھی۔ صبح سے شام تک اس کی دُکان پہ ایک رش سا لگا رہتا تھا۔
ہاتھوں ہاتھ بکنے والے رس گلے، برفی، گلاب جامن، امرتی، جلیبی، چم چم، لڈو، سوہن حلوہ گویا یہ سب چیزیں فخرو کی مہارت اور ذہانت کا منھ بولتا ثبوت تھیں۔ وہ ہر وقت اپنی اسی دنیا میں مگن رہتا، اپنے ہاں اولاد نہ ہونے کا اسے دُکھ تو ضرور تھا لیکن وہ اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی مٹھائیوں کو اپنی بھرپور محبت سے نوازتا تھا۔ اس کام میں فخرو کی بیوی بھی اپنے شوہر کا ممکن حد تک ہاتھ بٹاتی تھی۔
آج فخرو کو دُکان پہ آئے کچھ دیر ہی گزری تھی، ایسے میں چودھری مختار کا لاڈلا نوکر رحمو خاں گنگناتا ہوا اُدھر آدھمکا۔ رحمو کو ہر وقت خیالوں کی دنیا میں رہنا پسند تھا۔وہ ہر بات کو چبا چبا کرلہر کے ساتھ کسی شعر کے انداز میں کہنے کا عادی تھا ۔فخرو کے پاس آتے ہی رحمو نے جلیبی کا ایک ٹکڑا اٹھا اوراسے اپنے پیٹ کی راہ دکھاتے ہوئے گنگنانے لگا:

گاؤں میں ہے اک حلوائی 
نام ہے اس کا فخرو بھائی 
محنت کرتا ہے وہ خوب 
روز بناتا ہے وہ مٹھائی

شعر ختم کرتے ہی رحمو نے مسکراکر فخرو کی جانب دیکھا ،تو دودھ گرم کرتا ہوا فخرو بھی بے اختیار ہنسنے پر مجبور ہوگیا: ’’ارے آؤ بھئی رحموخان ! کہو کیسے آنا ہوا آج۔۔۔گاؤ ں کی کوئی خبر شبر لائے ہو۔۔۔؟‘‘ فخرو نے ہوا میں دودھ کی لمبی دھار بناتے ہوئے خوش دلی سے پوچھا۔
’’ہونا کیا ہے فخرو بھائی۔۔۔اپُن تیرے لیے ایک بہت بڑھیا آڈر لایا ہے مٹھائی کا۔‘‘ رحمو نے بڑے لاڈ سے کہا ۔
’’اچھا۔۔۔؟کک کیسا آڈر ۔۔۔؟ بھئی اب کچھ بتاؤ بھی جلدی یار۔۔۔‘‘ 
’’اچھا اچھا ۔۔۔صبر کرو بھئی ۔۔۔بتا تا ہوں۔پہلے پانی تو پی لوں ۔‘‘ رحمو نے گلاس منھ کو لگاتے ہوئے کہا ۔پھرتھوڑی دیر بعد خود ہی اس نے بولنا شروع کیا: ’’فخرو میاں! اپنے وہ ’’دادا گیر مالک‘‘ ہیں ناں چودھری مختار، اللہ اُنھیں سلامت رکھے ۔ آج وہ سچ مچ کے دادا بن گئے ہیں۔ بس اُنھوں نے ہی بھیجا ہے مجھے مٹھائی لانے کو ، گویاآج تو سارے گاؤں والے ہی منھ میٹھا کریں گے۔‘‘
’’ہاے ،واقعی ۔۔۔؟‘‘ فخرو نے بچوں کی طرح چہک کر کہا،’’ کون کون سی مٹھائیاں تیار کروں میں۔۔۔ذرا جلدی بتاؤ۔‘‘
’’ہمم۔۔۔تم ایسا کرو کہ ۔۔۔‘‘رحمو کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا ۔پھر دھیرے سے اس کے ہونٹوں پہ جنبش ہوئی:

چم چم ، لڈو یا رَس گلے 
برفی کھویا اور ملائی 
گرما گرما جلیبی مہکے 
تازہ تازہ نان خطائی

یہ سب چیزیں تیار کر لینا :
’’اوہو۔۔۔یار ایک تو تمھاری شاعری نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے۔۔۔اُف۔۔۔!! چلو خیر،کوئی بات نہیں ،میں چیزیں تیار کرتاہوں ، تم دوپہر کو آکر لے جانا مٹھائی ۔۔۔‘‘ فخرو نے رحموکے کندھے پہ ایک پیار بھری چپت رسید کرتے ہوئے کہا ،پھر اپنے کام میں جُت گیا۔

بیچ کے ان سب چیزوں کو 
فخرو کرتا خوب کمائی 
دیکھو میں بھی لینے آیا 
پاؤ برفی دے دو بھائی

’’ارے فخرو بھیا، پاؤ برفی کے ساتھ آدھ کلو جلیبی بھی کر دینا ذرا ،گرما گرم شیرے والی ۔۔۔‘‘ اقبال عرف بالی نے دکان میں داخل ہوتے ہی پہلے ایک تازہ بہ تازہ شعر فخرو کی سماعتوں کے حوالے کیا ، پھر اپنا آڈرلکھوا کر قریب پڑے نمک پاروں کا ذائقہ چکھنے لگا۔
دوپہر تک تمام مٹھائیاں تیار ہو چکی تھیں ۔اب فخرو نے انھیں بڑے سلیقے سے گول گول تھالوں میں سجا کر میزوں پہ رکھ دیا تھا۔ چمکتا ہوا چم چم، مہکتی ہوئی جلیبیاں، لذیذ لڈو، خوشنما برفی، شیریں گلاب جامن اور دل بہار رَس گُلے بڑی شان کے ساتھ اپنی اپنی جگہوں پہ جلوہ افروز تھے۔ شیرینی ان کے وجود پہ چمک رہی تھی۔
سارے کاموں سے فارغ ہو نے کے بعد فخرو نے ذرا دیر کے لیے دُکان کا دوازہ نیچے کر دیا، تاکہ وہ جلدی سے بازار سے دودھ لے آئے ۔ دکان کوبند ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی، اچانک ایک کونے سے کھسر پھسر کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔عجیب و غریب آوازیں سن کے تمام مٹھائیوں کے کام کھڑے ہوگئے۔
’’ارے !یہ کون ہے بھائی ۔۔۔؟ کہیں کوئی چور تو نہیں؟‘‘ برفی خوفزدہ ہو کر بولی ۔
’’نہیں ،یہ چور نہیں ہوسکتا ۔ضرور کوئی بلی وغیرہ ہوگی۔‘‘ رس گلے نے فورا جواب دیا۔
’’ ہاں ! مگر جو بھی ہو ،سب سے زیادہ خطرہ تو مجھے ہے ناں، کیونکہ سب مٹھائیوں میں خوبصور ت بھی زیادہ میں ہی ہوں اور لذیذ بھی ۔۔۔!! ‘‘ برفی نے ذرا تفاخرانہ انداز میں کہا تو رَس گلے کو غصہ آگیا ۔
’’کبھی شکل دیکھی ہے اپنی آئینے میں۔۔۔؟‘‘ 
’’ہاں ہاں بھئی ! کیوں نہیں ۔۔۔بہت بار دیکھی ہے ،تبھی تو مجھے اپنے بارے میں یہ گمان ہونے لگا ہے کہ :

لب و لہجے کو جو میٹھا کرے وہ ایک برفی ہے 
بزرگوں نے یہ فرمایا ، یہ ان کی اعلا ظرفی ہے

برفی کے اس شعر پہ رس گلا چڑ سا گیا ۔پھر خود بھی اس نے شاعری کا سہارا لے لیا ۔
رس گلا :

ڈوبا غرورمیں ہے ، یہ سخنِ برفیانہ 
انداز بچگانہ، لہجہ بھی جاہلانہ

برفی کو رس گلے کا یہ تندو تیز جواب ایک آنکھ نہ بھایا ،چناں چہ وہ بھی اب پوری طرح میدان میں آچکی تھی۔
برفی :

رس گلے ! کیوں جلتا ہے
اپنا تھوک اُگلتا ہے 
تیرے اندر کا غصہ 
باہر کیوں نکلتا ہے

اب تو دونوں میں گویا باقاعدہ جنگ شروع ہوچکی تھی۔
رس گلا:

برفی اپنا منھ سنبھال 
چلتی ہے تُو اُلٹی چال
اب جو باز نہ آئی تو
کرووں گا میں بُرا حال

ایسے میں امرتی بھاگ کر درمیان میں آگئی: ’’ حد ہے بھئی تم لوگ اتنی جلدی آگ بگولا ہوجاتے ہو۔ میری امی تو کہتی ہیں جو لڑتا ہے ،وہ بہت بُرا ہوتا ہے ۔ امی کہتی ہیں۔
امرتی:

جو اعلا ظرف ہیں، لڑتے نہیں ہیں
کبھی تکرار وہ کرتے نہیں ہیں
ہمیشہ بات وہ سیدھی کریں گے
وہ سچی بات سے ڈرتے نہیں ہیں

واہ ۔۔۔وا ۔۔۔بہت خوب ۔۔۔شاندار۔
شور کی آوازیں سن کر ڈبے میں لیٹا ہوا چم چم بھی واہ وا کرتا باہر نکل آیا ۔آتے ہی چم چم نے اپنے پُر مزاح اندازمیں تفتیش شروع کر دی ۔’’ ارے ! کس نے کس کو ماردیا۔؟ کس کا سر پھاڑدیا؟ ذرا ہمیں بھی تو پتاچلے۔ ‘‘ 
چم چم کی آواز سن کر برفی اور رس گلا دونوں اس کی طرف لپکے۔ 
’’چم چم بھیا ! چم چم بھیا ! پہل رس گلے نے کی تھی۔‘‘ برفی جھٹ سے بولی ۔
’’ اپنے کرتوت بھی تو بتاؤنا چم چم بھائی کو ۔۔۔ہونہہ ۔‘‘ رس گلے نے منھ بناتے ہوئے غصہ جھاڑا ۔ ایسے میں ادھر گلاب جامن بھی آدھمکا ۔ اس نے آتے ہی رس گلے کو آڑے ہاتھ لیا ۔پھر ذرا توقف کے بعد گلا کھنکھارتے ہوئے بولا:
گلاب جامن:

میں نرم خو ہوں ، نفیس دامن 
ہے نام میر ا گلاب جامن 
یہ برفی میرے چچا کی بیٹی 
میں اس کا حامی ،میں اس کا ضامن

گلاب جامن کا پلڑا برفی کے حق میں جاتا دیکھ کر رس گلے کی شکل رونے والی ہوگئی۔ ایسے میں چم چم نے اسے حوصلہ دیا ۔پھر اسے تھپکی دیتے ہوئے گلاب جامن کو مخاظب کر کے بولا :
چم چم :

رس گلے کا بھائی ہوں میں ،چم چم میرانام
لوگوں کا منھ میٹھا کرنا ،میرا بس اک کام
برفی بی نے رس گلے کو، کر ڈالا بدنام 
خود ہی اب وہ دیکھے کی کہ کیا اس کا انجام

باتیں اور شور سن کر پیٹھا، سوہن حلوہ ، جلیبی اور اندرسے بھی باہر نکل آئے تھے۔ان میں ذیادہ مٹھائیاں برفی کی حمایتی تھیں۔ اپنا پلڑا بھاری دیکھ کر برفی نے رس گلے پہ غصے والی نگاہ ڈالی پھر اٹھلاتے ہوئے بڑے فخر سے بولی۔

برفی:

رنگ ہے میرا گورا گورا
دودھ اور مکھن کی میں جائی 
تُو ہے اڑیل تُو ہے سڑیل 
خود تُونے آگ لگائی

اب رفتہ رفتہ لڑائی میں شدت آرہی تھی ۔برفی کی باتیں سن کر رس گلا آگ بگولہ ہو رہا تھا ۔آخر اسے بھی لنگوٹ کَس کے برفی کی خبر لینا پڑی۔
رس گلا:

تُو نے میری ذات کو تولا 
لے اب میری باری آئی 
لڑنے سے میں بچتا تھا
تُوضدی ہے، باز نہ آئی 
کیوں مغرور ہو برفی بیگم 
کیوں ایسی وقات دکھائی 
ظاہر باطن خشک ہے تیرا 
لہجے میں ہے زہر چھپائی

ابھی رس گلا اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پہ لگا۔اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ۔اب اس سے پہلے کہ رس گلا اس تھپڑ کا بدلہ لیتا ، ساری مٹھائیاں بھاگ کر بچ بچاؤکرانے کے لیے درمیان میں آگئیں۔کسی کو لڑائی کے اس قدر شدت پکڑنے کا یقین نہیں تھا۔گلاب جامن برفی کو روکتے ٹوکتے ایک طرف لے گیا۔
اس گرما گرم صورت حال کو دیکھ کر اندرسہ اپنے اندر کا شاعر جگانے میں کامیاب رہا تھا۔
اندرسہ :

برفی کی بات ٹھیک ہے پر یہ بھی دیکھیے
تھپڑ یہ اس نے مار کے اچھا نہیں کیا 
یوں ہاتھ چالاکی سے وہ معصوم نہ رہی 
اب میں بھی اس چڑیل کا حامی نہیں رہا

اندرسے کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ ایک شور کے ساتھ دکان کا دروازہ کھل گیا ۔ فخرو بازار سے واپس آچکا تھا ۔ کچھ دیر کے لیے وہاں سناٹا رہا پھر فخرو نے ادھر اُدھر صفائی شروع کر دی ۔صفائی کے بعد وہ مٹھائی کو ڈبوں میں ڈالنے لگا۔ابھی اس نے دو ڈبے ہی بنائے تھے کہ باہر رحمو خاں آگیا ۔
’’ارے فخرو بھیا ! سنیے، چودھری صاحب کی پھوپھی انتقال ہوگیا ہے ۔اس لیے ابھی مٹھائی نہ بھیجنا ۔ وہ اگلے ہفتے بنوالیں گے تم سے۔ ‘‘ رحمو کی بات سن کر فخرو بنے چارا پریشان ہوگیا ۔ اتنا بڑا آڈر ہاتھ سے جاتا دیکھ کر اس کی شکل رونے والی ہوگئی ۔ 
یہ سب صورت حال دیکھ کر مٹھائیاں بھی سکتے میں آگئیں۔ پھر کچھ دیر بعد لڈو نے سب لڑنے والی مٹھائیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا ۔پھر انھیں خوب ڈانٹ پلائی۔
’’تمھاری لڑائیوں کی نحوست سے ہمارے مالک کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ دل تو کرتا ہے کہ تم سب کو سخت سزا دوں ۔‘‘پھر لڈونے سخت لہجہ اپناتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہارکچھ یوں کیا : 
لڈو :

لوگ کہتے ہیں جلیبی گرم آنی چاہیے
ہو وہ لڈو یا کہ برفی ، نرم آنی چاہیے 
ہاں مگر تم سخت دل ہو نام شیریں رکھ لیے 
میں تو کہتا ہوں تمھیں کچھ شرم آنی چاہیے

لڈو کی بات سن کر سب مٹھائیوں کے سر شرم سے جھک گئے تھے۔وہ سب اپنے کیے پہ شرمندہ تھے۔ سب نے لڈو میاں سے معافی مانگی اورعدہ کیا کہ وہ آئندہ مل جل کے رہیں گے۔ ابھی ساری مٹھائیاں لڈو سے اقرار کر ہی رہی تھیں کہ دکان کے باہر ایک بڑی جیپ آکر رکی۔ 
’’فخرو بھائی ! ذرا ایک من مٹھائی بنا دیں ، بھائی کی شادی ہے ناں کل ، تو آج سارے مہمان اکھٹے ہوچکے ہیں ۔‘‘ ایک نوجوان نے جیپ سے اتر کر آڈر لکھوایا تو خوشی سے فخرو کی باچھیں کھل گئیں۔ اللہ کی اس مدد پہ ساری مٹھائیوں نے بھی شکریہ ادا کیا ۔ اب وہ سب ایک عظیم الشان محفل میں پیش ہونے کو تیار تھے۔

*۔۔۔*

مشکل الفاظ کے معنی
اشتہا انگیز: بھوک لگانے والا سرشار: مست کردینا
جنبش: حرکت چپت: چانٹا، تھپڑ
تفاخرانہ: فخریہ زناٹے دار: زوردار، تیز

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top