skip to Main Content
جو کی روٹیاں

جو کی روٹیاں

فریال یاور

……………………………………………..

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سواے عید اور بقر عید کے ہمیشہ روزے سے ہوتے تھے۔

……………………………………………..

دوپہر ڈھل رہی ہے۔ بازار میں لوگ خریداری میں مصروف ہیں۔ قریبی مسجد سے ایک شخص نکلتا ہے اور تیز تیز قدموں سے ایک جانب کو چل دیتا ہے۔ اس شخص کے چہرے پر ایک عجیب سی بے تابی نظر آرہی ہے۔ شاید کہ بھوک نے اسے پریشان کیا ہوا ہے۔ یہ شخص تیز تیز قدم اٹھاتا ایک مکان کے سامنے جا کر رک گیا۔ پھر وہ شخص گھر کے اندر داخل ہوتا ہے۔ اس آدمی نے اپنی بیوی سے کچھ سوال کیا۔ جس کے جواب میں عورت نے ایک پیالے میں رکھے جو کے دانے اس آدمی کو دکھائے انہیں دیکھ کر اس آدمی نے عورت کو کچھ ہدایت دی اور خود بے تابی سے ٹہلنے لگا۔ 
اتنے میں عورت نے وہ جو پیسا اور آٹا گوندھ کر ان سے کچھ روٹیاں پکائیں۔ یہ دیکھ کر وہ شخص خوش ہو گیا۔ مگر یہ کیا؟ اس نے ان روٹیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا بلکہ اس کی یہ بے تابی تو کسی اور کے لیے ہے۔ اس نے سامنے بیٹھے اپنے سوتیلے بیٹے انس کو بلایا اور کچھ سمجھا کر باہر بھیجا۔ غالباً کسی کو کھانے کی دعوت بھجوائی ہے۔ وہ لڑکا تیز تیز چلتا ہوا مسجد نبوی کے اندر داخل ہوتا ہے اور سامنے بیٹھے ایک شخص کو اپنے والد کا پیغام دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ لڑکا کچھ کہتا۔ 
مسجد میں بیٹھے ہوئے صاحب نے لڑکے سے پوچھا: ’’تمہیں ابو طلحہ نے بھیجا ہے۔‘‘
لڑکے نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ پھر ان صاحب نے پوچھا:’’ کیا کھانے کے لیے بلایا ہے۔ ‘‘
لڑکے نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ اس پر ان صاحب نے ساتھ بیٹھے اپنے ساتھیوں سے کہا،’’ چلو۔‘‘
اب جو لڑکے نے یہ صورت حال دیکھی تو تیزی سے واپس جا کر اپنے والد کو سارا ماجرا سنایا۔ لڑکے کے والد نے یہ ماجرا سنا تو وہ بھی فکر مند ہو گئے۔ بات تھی ہی فکر کی۔ لڑکے کے والد نے صرف ان صاحب کو کھانے کی دعوت دی تھی۔ مگر وہ صاحب اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی لا رہے تھے۔ جو خاصی تعداد میں تھے۔ اسی فکر میں لڑکے کے والد اپنی بیوی کے پاس جاتے ہیں اور ساری بات انہیں بتاتے ہیں۔ ان کی بیوی نے ان کی فکرمندی دیکھ کر اطمینان سے جواب دیا کہ اﷲ اور اﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس بہت کم مقدار میں کھانا تھا جو صرف ان صاحب کو ہی کافی ہوتا۔
اتنے میں ان کے مہمان تشریف لاتے ہیں اور دونوں میاں بیوی ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ مہمان نے آنے کے بعد میزبان خاتون سے کہا:’’ جو کچھ ہے لے آؤ۔‘‘ وہ خاتون روٹیاں لے آئیں اور مہمان کے حکم کے مطابق ان روٹیوں کے ٹکڑے کیے پھر ان ٹکڑوں پر گھی کا ڈبہ الٹ دیا۔ جس سے روٹیاں تر ہو کر نرم ہو گئیں۔ اس کے بعد مہمان نے ان روٹیوں پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ دس آئیں اور کھائیں۔ مہمان کی ہدایت کے مطابق ساتھیوں میں سے دس افراد آئے۔ کھانا اچھی طرح سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ 
پھر دس افراد مزید آئے اور اچھی طرح سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ اسی طرح دس دس افراد آتے۔ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے اور باہر چلے جاتے مگر روٹیاں ویسی کی ویسی ہی بچی رہیں۔ دونوں میزبان میاں بیوی حیرت سے ایک کونے میں کھڑے یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ جب تمام مہمان کھانا کھا چکے تو آخر میں میزبان میاں بیوی اور ان کا بیٹا انس اور اس بابرکت مہمان نے کھانا کھایا مگر کھانا پھر بھی اتنا بچ گیا کہ ان میاں بیوی نے وہ کھانا پڑوسیوں کو بھیج دیا۔ یہ بابرکت مہمان جنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے کھانے میں برکت کی دعا کی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ان کے میزبان حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت اُمّ سلیم تھیں۔ اس بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دن دس دس افراد کرکے جتنے لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا ان کی تعداد ستر یا اسی تھی۔ جن کے آخر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کھایا۔
آپ رضی اللہ عنہ کا پورا نام ابوطلحہ رضی اللہ عنہ زید بن سہل بن اسود انصاری ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور بدری صحابی ہیں اور رشتے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں کی اولاد ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا جو کہ مسلمان ہو چکی تھیں۔ فرمایا کہ میرا نکاح آ پ سے کس طرح ہو سکتا ہے۔ میں مسلمان ہوں اور آپ کافر۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا تو مجھے کون مسلمان کرے گا؟ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے چنانچہ انہوں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرتے ہی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا شمار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں ہونے لگا۔
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری نہایت بہادر سپاہی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بدر، احد، خندق کے ساتھ ساتھ اور بھی غزوات میں شرکت کی اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ بیعت رضوان میں بھی شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوات میں بہادری کے بہت بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ غزوۂ احد میں جب فتح شکست میں بدلنے لگی اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری ہی تھے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تیروں کو اپنے جسم پر روک کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرما رہے تھے اور ساتھ ہی مشرکین پر تیر برسا رہے تھے۔ ایسے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیر اٹھا کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دیتے اور ان کے لیے دعا فرماتے اور وہ تیر ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگتا۔ 
جس طرح آپ بہادری میں آگے تھے۔ اسی طرح سخاوت میں بھی آپ رضی اللہ عنہ بہت آگے تھے۔ جب لن تنا لو اللبَّر حتٰی تنفقوا مما تحبو ن (اٰل عمران :۹۶)یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: ’’تم خیر کامل کو کبھی نہ حاصل کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کو خرچ نہ کر دو گے۔‘‘ تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اﷲ کا فرمان سنانے کے بعد فرمایا کہ میرے پاس سب سے بہتر مال ’’بیڑحا‘‘ ہے لہٰذا یہ اﷲ کے لیے صدقہ ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اسے جس طرح استعمال میں لائیں۔ یہ سن کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ’’واہ وا یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ جو تم نے کہا۔ وہ میں نے سن لیا۔ میرا خیال ہے کہ اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘
’’بیڑحا‘‘ ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی نہایت قیمتی جائیداد تھی جس میں کھجوروں کے باغات کے علاوہ ایک کنواں بھی تھا جس کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت شوق سے اس کا پانی پیا کرتے تھے۔ آپ کی سخاوت کا ایک مشہور واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ مسجد میں ایک مسافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں تھی۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’کون ہے جو اسے اپنا مہمان رکھے اور کھانا کھلائے۔‘‘ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری نے کہا:’’ میں لے جاتا ہوں۔‘‘ جب گھر لے کر گئے تو گھر میں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ سوائے بچوں کے تھوڑے سے کھانے کے۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیوی سے کہا:
’’بچوں کو سلا دو اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ کر چراغ بجھا دو۔ جب مہمان کھانا کھائے گا تو میں فرضی منھ چلاؤں گا تاکہ مہمان کو پتا نہ چلے۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اس بات کی خبر دی۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اپنے ایک ہرے بھرے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے دوران باغ کی خوب صورتی کی طرف توجہ چلی گئی اور نماز کی رکعتیں بھول گئے تو باغ اﷲ کی راہ میں صدقہ کردیا۔
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی۔ ہر غزوہ میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا اونٹ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کے ساتھ ہوتا تھا تاکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچے۔ اسی طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے بے انتہا محبت تھی اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے فخر کے لیے یہ بات ہی بہت ہے کہ حج کے موقع پر اونٹ ذبح کرنے کے بعد جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بال کٹوائے تو پہلے دائیں طرف کے بال کٹوائے اور وہ بال اپنے قریب بیٹھے لوگوں میں تقسیم کرا دیئے اور جب بائیں طرف کے بال کٹوائے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پاس بلا کر انہیں دیے۔
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں مسلمانوں کے لیے قبریں کھودا کرتے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کھودی تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سواے عید اور بقر عید کے ہمیشہ روزے سے ہوتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ۲۴ ہجری میں ہوا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top