skip to Main Content

جو لوگ

عبدالرشید فاروقی

…….

”یہ لیجئے پانی۔“دانیال نے غصے سے گلاس بھائی جان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
”غصہ نہیں چلے گاننھے…غصہ۔“بھائی جان نے گلاس پکڑتے ہوئے مسکراکرکہا۔
”بھائی جان!آپ بھی توحد کررہے ہیں،ہمیں یہاں آئے ہوئے قریباًنصف گھنٹہ ہوگیاہے اور آپ ہیں کہ کہانی سناکرہی نہیں دے رہے۔“ امجد نے براسامنہ بناکر کہا۔
”پانی پی لوں،پھرسناتاہوں کہانی۔“اُنہوں نے کہا۔انہوں نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کردیا۔پھر ہماری طرف دیکھ کر مسکرائے،بولے:
”ہاں توتم لوگ کہانی سننا چاہتے ہو۔“
”توابھی تک آپ کو معلوم ہی نہیں ہوا، ہم یہاں کیوں آئے بیٹھے ہیں۔“یاسمین نے جل کر کہا۔
”بھائی جان!آپ جانے کہانی کب شروع کریں۔پہلے میری ایک بات سن لیں۔آپ جو پانی ایک ہی سانس میں پی جاتے ہیں۔ براکرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین سانس میں پانی پیاکرتے تھے۔ ہم اُن کے امتی ہیں۔ہمیں ان کے طریقوں پر چلنا چاہیے۔“ میں نے جلدی جلدی کہا۔
بھائی جان نے عجیب سی نظروں سے میری جانب دیکھا،لیکن منہ سے کچھ نہ بولے۔
”بھائی جان کہانی…“امجد نے گویاانہیں یاددلایا۔
”بھائی جان کہانی،کیامطلب۔“بھائی جان نے گھورکراس کی طرف دیکھا۔
”مطلب یہ کہ آپ کہانی سنائیں۔“آصف جلدی سے بولا۔
”سناتورہاہوں۔“وہ مسکرائے۔
”کہاں سنارہے ہیں،آپ توخاموش بیٹھے ہیں اور فرمائشیں کرکرکے اپنا پیٹ بھررہے ہیں۔ پہلے آپ نے مجھ سے چپس منگوائی، پھرآصف سے برفی اور ابھی دانیال سے پانی منگواکر پیا ہے۔“ میں نے جل کر کہا۔
”جس طرح گاڑی کوسفر کرنے سے پہلے تیل پلایاجاتاہے، بالکل اسی طرح میں بھی پہلے اپنا پیٹ بھررہاہوں تاکہ دوران کہانی مجھے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔“بھائی جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے،آپ اپناپیٹ بھرچکے، اب شروع کیجئے کہانی۔“دانیال تلملا کر بولا۔
”ٹھیک ہے… سنو!ارے،یہ کون ہے؟“بھائی جان نے چونکتے ہوئے کہا۔
”کک…کک…کیاہوا بھائی جان؟“امجد بوکھلااُٹھا۔
”یہ میرے پلنگ کے نیچے کون گھسا ہواہے۔“
”میں ہوں…یعنی کہ میں۔“اصغر جلدی سے چارپائی کے نیچے سے نکل آیا۔
”یعنی کہ میں کون؟“بھائی جان نے غصے سے کہا۔
”یعنی میں…مم…مم…مطلب…میرا…یعنی کہ میں…اصغر۔“اصغر نے بوکھلاتے ہوئے کہا اورجلدی سے اُن کی چارپائی کے نیچے سے نکل آیا۔
”تم چارپائی کے نیچے کیا کر رہے تھے بے وقوف؟“ بھائی جان نے لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے پوچھا۔ اُن کی لال لال آنکھوں سے ہم سب بہت گھبراتے تھے۔
”وہ…میں اصل میں…میں اصل میں دیکھنا چاہتا تھا، چارپائی کے نیچے سے کہانی سننا کیسا لگتا ہے۔“ وہ گھبرا گیا۔
”تو پھر کیسا لگا کہانی سننا؟“ میں نے شوخی سے پوچھا۔
”کہانی کمال کی تھی اور پھر بھائی جان کی آواز…ایمان سے مزا آگیا۔“اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوہ…تم لوگ میرا مذاق اُڑا رہے ہو؟“ بھائی جان غصے سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
”جی نہیں، ہم آپ کا مذاق نہیں اُڑا رہے ہیں۔ ہم تو بس…“ اصغر کہہ رہا تھا کہ انہوں نے اُس کا جملہ درمیان سے اُچک لیا اور تڑ سے بولے:
”دُور چلاجایہاں سے،میں کہانی نہیں سناؤں گا۔تم توبدتمیزی پر اُترآئے ہو۔“
”کیا مطلب!آپ کہانی نہیں سنائیں گے اور یہ آپ کھڑے کیوں ہوگئے بھائی جان۔“ میں اور یاسمین چلا اُٹھے۔
”ہاں!میں اب نہیں سناؤں گاکہانی۔“انہوں نے بُرا سا منہ بنایا۔
”لیکن کیوں نہیں سنائیں گے کہانی…. آپ؟“ اصغر نے معصومیت سے پوچھا۔
”اس لیے کہ تم بدتمیزی پر اُترآئے ہو۔“غصے سے ان کا گول سا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
”بدتمیزی پر اُترآئے ہیں،آپ غلط کہہ رہے ہیں…ہم کہیں نہیں اُترے، یہیں تو بیٹھے ہیں۔“امجد مسکرایا۔
”اور ہمیں ضرورت بھی کیا ہے،بدتمیزی پر اُترآنے کی۔اوراگر ہمیں اُترنا ہی ہوتاتوکسی ڈھنگ کی جگہ پر نہ اُترتے۔“دانیال بھی مسکرایا۔
”تم…تم…اب مذاق پراُترآئے ہو اور وہ بھی میرا…اس کا انجام جانتے ہو تم لوگ۔“وہ چیخے۔
”لاحول ولاقو ۃ…آپ بھی عجیب ہیں۔پہلے بدتمیزی پر اُتاردیااوراب مذاق پر…یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔“اصغر نے منہ بناتے ہوئے بڑی بوڑھیوں کے سے انداز میں ہاتھ نچا کر کہا۔
”دیکھئے بھائی جان! آپ زیادتی کررہے ہیں۔آپ نے ہم سے چیزیں بھی کھالیں اور اب کہانی بھی نہیں سنارہے ہیں۔“ میں نے منہ بنایا۔
”پانی بھی پیا ہے آپ نے…“ دانیا ل شوخی سے بولا۔
”پانی پر پیسے تو نہیں خرچ ہوئے تمہارے۔“بھائی جان نے آنکھیں نکالیں۔
”میں جو گرمی میں باہر گیاتھا،اس کا ذکر ہی نہیں، کسی کی مہربانی کو ایسے ہی بھلایا نہیں کرتے بھائی جان۔“
بھائی جان اُس کی بات سن کر آہستہ سے مسکرائے اور پھر پیار سے کہنے لگے:
”اچھا!میں کہانی سناتاہوں۔ہاں توارے!ارے…یہ تم کیا کھانے لگے۔“بھائی جان گھبر ا گئے۔ وہ اصغر کی جانب دیکھ رہے تھے۔
”چپس ہے،لیکن یہ آپ کونہیں ملے گی، آپ اپنے حصے کی پہلے ہی کھاچکے ہیں۔“اُس نے منہ چلاتے ہوئے کہا۔
”اگر تم مجھے چپس نہیں دوگے تومیں کہانی نہیں سناؤں گا۔“وہ مسکرائے۔
”وہ تو آپ پہلے بھی نہیں سنارہے ہیں۔“اس نے جل کر کہا اور ایک بڑا سا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا۔
”یہ بات ہے تو نکل جاؤکمرے سے۔“بھائی جان کوغصہ آگیااور وہ لیٹ گئے۔
”ٹھیک ہے،نہ سنائیں۔ہم اباجان سے آپ کی شکایت کریں گے۔“میں نے دھمکی دینے والے اندازمیں کہاتو بھائی جان یوں اُچھلے جیسے بچھو نے ڈنک ماردیاہو۔
”کیاہوا بھائی جان۔“دانیا ل مارے گھبراہٹ کے اُچھلا تو اُن کے اُوپر گر گیا۔
”اُف…میں…مرگیا…پرے ہٹو پاگل۔“وہ چلائے۔
”یہاں کیاہورہاہے۔“اچانک داداجان کی آواز سن کر ہم سب گھبرا گئے۔دانیال جلدی سے چارپائی کے نیچے گھس گیا۔
”میں کہہ رہاہوں، یہاں کیا ہورہاہے۔تم لوگوں نے اودھم کیوں مچایاہواہے؟“جواب نہ ملنے پر و ہ گرجے۔
”دادا جان! ہم بھائی جان سے کہانی سننے آئے تھے لیکن۔“میں نے ہمت کرکے کہا۔
”لیکن کیا؟“وہ میری گردن پکڑتے ہوئے بولے۔
”اوہ داداجان! مم…میری گردن گئی۔“ میں نے مارے تکلیف کے کہا تو انہوں نے جلدی سے گردن چھوڑ دی۔
”دادا جان! میں کہانی سنانے لگاتھاکہ یہ شور کرنے لگے۔“بھائی جان جلدی سے بولے۔اُن کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”کیوں بھئی! شورکیوں کرنے لگے، کہانی نہیں سننا چاہتے تم؟“اُن کے چہر ے پر مسکراہٹ عود کر آئی۔
”آپ اِن کی بات پر مت جائیں۔یہ تو بے پرکی اُڑاتے ہیں۔لوگوں کو اُلّو بنانا انہیں خوب آتاہے،یہ تو وہ ہیں جووقت پر آنکھیں چینج کرلیتے ہیں اور…اور…دوسروں کوپھنسانا انہیں خوب آتاہے۔یہ بہت شاطرہیں۔“دانیال نے چارپائی کے نیچے سے نکلتے ہوئے، بُرے بُرے منہ بناتے ہوئے جلدی جلدی کہا۔
”کچھ اورکہناچاہوتو کہہ گزرو،لیکن پہلے یہ بتاؤ،تم چارپائی کے نیچے کیا کررہے تھے؟“داداجان نے اُسے گھورا۔
”آپ جب کمرے میں داخل ہوئے تو میں مارے ڈرکے،چارپائی کے نیچے چھپ گیا تھا۔باتی بھائی جان کے بارے میں مزیدکچھ نہیں کہنا،یہ بس اتنے ہی ہیں۔“دانیال نے جلدی سے کہا۔اُس کا انداز ایسا تھا کہ ہم سب کی ہنسی نکل گئی۔
”تمہیں کیاہوااَب؟“داداجان غصے سے ہماری جانب پلٹے اورہمیں جیسے سانپ سونگھ گیا۔حالاں کہ اس وقت وہاں سانپ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ چند لمحے خاموش رہے۔پھر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بھائی جان سے مخاطب ہوئے:
”جمشید کہانی شروع کرو…“
”کیا مطلب!!!؟“بھائی جان چلا اُٹھے۔
”اس میں چلانے کی بھلاکیا ضرورت ہے۔تم ان لوگوں کو کہانی سنانے لگے تھے، سو سناؤ۔“
”کک…کک…کیا آپ بھی کہانی سننا چاہتے ہیں دادا جان؟“ وہ بری طرح ہکلایا۔
”ہاں!مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔تمہاراشورسناتوسوچا،آج میں بھی کہانی سن لیتا ہوں اور پھر یہ بھی معلوم ہوجائے گا، تم کتنی اچھی کہانی سناتے ہو۔اب تم دیر مت کرو اورکہانی شروع سے شروع کرو۔“داداجان کہتے چلے گئے۔
”حد ہوگئی…میرے دوستوں کو اُن کے دادا جان رات کو کہانیاں سناتے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ اپنے پوتے سے کہانی سننا چاہتے ہیں، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی!“ بھائی جان نے رونی سی صورت بنا کر کہا۔
”میں تو ایسا ہی ہوں میاں…چلو تم شروع سے کہانی شروع کرو۔“ وہ مسکرائے۔
”شروع سے کیسے شروع کروں۔“ بھائی جان نے منہ بنا کر کہا۔
”جیسے پہلے شروع کی تھی میاں۔“ انہوں نے آنکھیں نکالیں۔
”لیکن انہوں نے کہانی ابھی شروع کب کی ہے …… یہ تو گزشتہ ایک گھنٹے سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہیں۔“ میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا تو دادا جان چونک کر بولے:
”تم اتنی دیر سے اِدھر اُدھر کی کیوں ہانک رہے ہو، کہانی کیوں نہیں سنا تے؟“
”اس لیے کہ میں کہانی بھول چکا ہوں۔“ بھائی جان نے مسکین سی صورت بنا کر کہا۔
”کیامطلب؟“ہم سب حیرت سے چیخ اُٹھے۔
بھائی جان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔داداجان کامنہ بھی ہماری طرح پھول گیاتھا۔پھروہ یک دم سنجیدہ ہوگئے اور اُن کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
”جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اُن کا بُرا وقت آتے دیر نہیں لگتی……“
”اوہ……“ سب گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top