skip to Main Content

جنگل میں تارے

محمد ضیاء اللہ محسن

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کم ظرف انسان! شیر کی کھال پہن کر انسانوں کو ڈراتے ہو؟ کچھ شرم کرو‘‘

جب بچوں کے مشہور تاریخی کردار ایک جگہ جمع ہوئے۔۔۔ایک مزیدار کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔

مونی بندر درختوں کی شاخیں پھلانگتا ہوا جنگل کے وسط میں پہنچ چکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دو انار تھے۔ آخر وہ کٹیا کے سامنے جا کر رُک گیا۔

’’مونی۔۔۔!‘‘ ایک تیز آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو مونی جھومتے ہوئے اس آواز کی طرف لپکا۔ سامنے ٹارزن جنگلی لباس میں موجود مونی کو پچکار رہا تھا۔ مونی بندر نے اپنے مالک کو دیکھا تو ایک انار اس کی طرف اُچھال دیا، پھر وہ دونوں کٹیا میں داخل ہوگئے۔

ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ آسمان پر بادل گرجنا شروع ہوگئے۔ شام کے ساے گہرے ہورہے تھے جب کہ گھنے جنگل میں اب اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زوردار بارش شروع ہوگئی۔ ٹارزن اور اس کا دوست مونی بندر اپنی کٹیا میں بیٹھے انار کھا رہے تھے، اچانک باہر کسی کے چیخنے چلانے کی آواز آئی۔

’’بچاؤ! بچاؤ! مجھے مار ڈالے گا بچاؤ۔۔۔‘‘ مونی نے کان کھڑے کرلیے لیکن ٹارزن اس سے پہلے ہی کٹیا سے باہر نکل کر درخت پر چڑھ چکا تھا۔ ٹارزن کی نظریں اس آواز کو تلاش کررہی تھیں۔ بارش اب تھم چکی تھی۔ درختوں کی شاخیں پانی میں نہائی ہوئی تھیں۔ اچانک ٹارزن کی نظریں اپنی دائیں طرف اُٹھ گئیں۔ ایک گدھا تیزی سے کٹیا کی طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ گدھے پر بیٹھا ایک بوڑھا آدمی چِلّا رہا تھا۔ ٹارزن نے یہ منظر دیکھا تو فوراً درختوں کی شاخوں سے جھولتا ہوا گدھے کی طرف لپکا۔ مونی نے بھی اس کی تقلید کی۔ کچھ ہی دیر بعد ٹارزن نے گدھے کو جالیا۔ گدھے پر چھوٹی مگر گھنی ڈاڑھی والے باباجی گھبرائے ہوئے بیٹھے تھے۔ مونی اور ٹارزن گدھے کے قریب پہنچ گئے۔ قریب جا کر مونی نے گدھے کی دُم پکڑلی۔ ٹارزن اب گھبرائے ہوئے بابا جی کی طرف متوجہ تھا جوکہ اپنی بڑی سی پگڑی درست کررہے تھے۔

’’آپ۔۔۔ آپ کون؟ اور یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘ ٹارزن کو دیکھ کر باباجی کو کچھ حوصلہ ہوا، تب وہ اپنے حواس پر قابو پا کر بولے:’’وہ۔۔۔ وہ میرے پیچھے شیر۔۔۔ وہ مجھے مار ڈالے گا۔‘‘ بوڑھے نے پیچھے اشارہ کیا تو ٹارزن حیران رہ گیا۔ پیچھے جھاڑیوں میں واقعی ہلکی سی سرسراہٹ ہورہی تھی۔ ٹارزن نے گدھے کے پاس مونی کو کھڑا کیا اور خود ایک جست لگا کر قریبی درخت پر چڑھ گیا۔ اس کی نظریں جھاڑیوں میں چھپے شیر کو تلاش کررہی تھیں۔ پھر اسے شیر نظر آگیا۔

’’اوہ! یہ تو بہت کمزور اور لاغر شیر ہے۔‘‘ ٹارزن نے جھاڑی کے پیچھے چھپے شیر کو دیکھ کر خود کلامی کی۔ پھر وہ درخت سے اتر آیا۔

’’باباجی! آپ یہیں رُکیں! میں شیر سے دو دو ہاتھ کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ٹارزن نے ہاتھ میں چھڑی پکڑی اور جھاڑی کی طرف دبے قدموں چل پڑا۔ جھاڑی کے عین قریب پہنچ کر اس نے شیر کو غور سے دیکھا۔

’’ہائے! اس کا تو جسم بھی شیر کی طرح نہیں ہے۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘ ٹارزن منھ میں بڑبڑایا۔ پھر دبے قدموں اس نے شیر کے عقب میں جا کر اپنے ہاتھ میں پکڑا کپڑے کا ایک بڑا سا تھیلا کھولا اور بڑی سرعت کے ساتھ شیر کے منھ پر کپڑا پھینک کر اسے دبوچ لیا۔ ٹارزن کو بڑی حیرانی تھی کہ اتنا چھوٹا اور لاغر شیر کہاں سے آیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے انسانی چیخوں نے ٹارزن کو حیران کردیا۔

’’مجھے چھوڑو۔۔۔ میں شیر نہیں۔۔۔ چھوڑ دو مجھے۔۔۔‘‘ حیرانی سے ٹارزن نے کپڑا اٹھایا تو نیچے شیر کی کھال میں سے ایک دبلا پتلا مگر پھرتیلا (اور ٹھوڑی پر باریک لمبی ڈاڑھی والا) انسان برآمد ہوا۔

’’یبڑغوں یبڑغوں کیا۔۔۔ کیا کررہے ہو بھیا۔۔۔ چھوڑو نا مجھے۔‘‘ چست لباس پہنے سر پر پرندے کے پر والی ٹوپی لیے اس آدمی نے ٹارزن کے آگے ہاتھ باندھ دیے۔

’’ابے کم ظرف انسان! شیر کی کھال پہن کر انسانوں کو ڈراتے ہو؟ کچھ شرم کرو۔‘‘ ٹارزن نے اسے ڈانٹا تو وہ چِلّا اُٹھا۔

’’حضور جان کی امان حضور۔۔۔ اُس بوڑھے نے میرے انڈے چرائے ہیں۔ میں جھاڑیوں کے قریب انڈے رکھ کر کچھ دیر آرام کررہا تھا تب وہ شخص انڈے چرا کر بھاگا۔ میرے پاس شیر کی کھال تھی۔ چناں چہ میں نے یہ کھال پہن کر بدلہ لینے کی کوشش کی۔‘‘ دبلا پتلا آدمی ایڑھیاں اُٹھا اُٹھا کر بات کررہا تھا۔ وہ کافی چالاک محسوس ہورہا تھا۔اس کی بات سن کر ٹارزن مُسکرا دیا۔

’’ابے سنگل پسلی! تمھاری تو صرف شکل و صورت ہی نہیں بلکہ باتیں اور عادتیں بھی عمر و عیار کی طرح ہیں۔ ہاہاہا۔۔۔ چل بھاگ یہاں سے۔‘‘

’’ہائیں! کک کیا۔۔۔؟ آپ کو کس نے بتایا کہ میں عمر عیار ہوں!‘‘ وہ آدمی حیرانی سے بولا۔

’’ارے! کیا تم واقعی عمرو ہو؟ مگر وہ تو عرب کے علاقے میں ہوتا تھا۔‘‘ ٹارزن بھی حیران تھا۔

’’مائی باپ! میں ہی عمرو ہوں بلکہ عمرو ہی نہیں عیار بھی! میں عرب میں ہوتا ہوں۔ افریقی جنگلوں میں سیر کے لیے آیا تھا۔ یہاں سے گزرا تو اس بوڑھے نے میرے انڈے چرا لیے۔‘‘

’’مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ عمرو کے پاس تو ایک زنبیل بھی ہوتی تھی۔ جس میں دنیا بھر کی چیزیں سما جاتی تھیں۔‘‘ ٹارزن کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔

’’ارے بھائی! زنبیل کا آج کل کیا کام۔۔۔ آج کے دور میں تو ہر کسی کے پاس زنبیل ہے۔۔۔ مم ۔۔۔میرا مطلب کہ گوگل ہے نا! جس میں ہر طرح کی چیز سمائی ہوئی ہے۔‘‘ یہ بات سن کر ٹارزن مسکرا دیا۔

تب چالاک عمرو دوبارہ بولا:’’ارے ننگ دھڑنگ بھائی! مجھے یہ جنگل پار کرادو تاکہ خوف ناک جانوروں سے بچ سکوں۔ میں نے تو سنا ہے افریقی جنگلوں میں ایک خطرناک شخص ٹارزن بھی رہتا ہے۔ اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تو کیا بنے گا میرا۔‘‘

’’ہاہاہا۔۔۔ارے عمرو۔۔۔ میں ہی ٹارزن ہوں۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ وہ میرا پالتو بندر مونی ہے۔‘‘

’’کک کیا۔۔۔؟؟ آپ تو بہت اچھے انسان ہو۔۔۔ اور ۔۔۔ اور میں نے تو۔۔۔ میں نے تو آپ کی بہت سی کہانیاں بھی پڑھ رکھی ہیں۔‘‘ عمرو عیار حیرانی سے بولا۔

’’ہاں بھئی! کہانیاں تو میں نے تمھاری بھی بہت سی پڑھ رکھی ہیں۔ واقعی تم ہو بہ ہو ویسے ہی ہو۔۔۔ چلو آؤچل کر دعوت اُڑاتے ہیں۔‘‘ ٹارزن نے کہا تو وہ دونوں چل پڑے۔ راستے میں ٹارزن نے مونی کو آواز دی تو وہ گدھے کے اوپر بیٹھا اس کے کان پکڑے سامنے حاضر ہوگیا۔ قریب ہی وہ بوڑھا آدمی بھی موجود تھا۔ ٹارزن نے جاتے ہی بوڑھے کو بازو سے پکڑ لیا۔

’’باباجی! آپ نے اس شخص کے انڈے کیوں چرائے؟‘‘

’’کک۔۔۔ کیا۔۔۔؟ وہ۔۔۔ وہ انڈے اس کے تھے؟ میں تو سمجھا کہ بطخوں کے تھے۔‘‘

’’زیادہ باتیں مت بناؤ۔۔۔ جلدی سے بتاؤ۔‘‘ ٹارزن دھاڑا توبوڑھا دبک گیا۔

’’وہ۔۔۔ وہ جھاڑیوں کے پاس پڑے تھے۔ میں نے سوچا کہ انڈے میں بازار جا کر بیچ آؤں گا جو پیسے ملیں گے ان سے ایک مرغی خرید لوں گا۔ مرغی روز انڈے دے گی۔ پھر وہ انڈے بیچ کر بہت سی مرغیاں خرید لوں گا۔ جب مرغیاں بہت زیادہ ہو جائیں گی تو اُنھیں بیچ کر ایک بکری خرید لوں گا۔ جب بکری بچے دے گی تو وہ بڑے ہوں گے، پھر ان ساری بکریوں کو بیچ کر ایک اونٹ۔۔۔‘‘

’’ابے چپ کر شیخ چلی کی لالچی اولاد۔۔۔‘‘ ٹارزن نے اُسے ڈانٹ پلائی۔ تو بوڑھے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’’کک۔۔۔ کک۔۔۔ کیا۔۔۔؟ ارے بھیا میں شیخ چلی کی اولاد نہیں خود شیخ چلی ہی ہوں۔۔۔ وہ دیکھتے نہیں میرا گدھا۔۔۔؟ ایران سے چل کر آیا ہوں ایران سے۔۔۔‘‘ بوڑھے نے زوردار آواز میں کہا۔

’’ہائیں! کیا واقعی۔۔۔؟ ارے تم واقعی شیخ چلی ہو؟‘‘ عمرو عیار حیرانی سے بولا۔

ٹارزن بھی حیرت کا بت بنا کھڑا تھا۔ پھر جنگل ان تینوں کے قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ وہ بوڑھا واقعی شیخ چلی تھا۔ ٹارزن نے اپنا اور عمرو عیار کا تعارف بھی کروایا تو شیخ چلی حیران رہ گیا۔

’’ارے میاں! بچے تو تمھاری کہانیاں بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ٹارزن نے خوش ہوتے ہوئے شیخ چلی سے کہا۔

’’بھئی نام تو تم دونوں کا بھی بہت مشہور ہے بچوں کی دنیا میں۔۔۔‘‘ شیخ چلی نے گدھا ہانکتے ہوئے کہا۔ اب وہ تینوں ٹارزن کی کٹیا کی طرف جارہے تھے۔ رات گہری ہورہی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش دوبارہ شروع ہوچکی تھی۔

کٹیا میں پہنچ کر ٹارزن نے دونوں مہمانوں کے آگے بھنا ہوا گوشت رکھا اور باہر بندھے ہوئے شیخ چلی کے گدھے کو گھاس ڈال دی۔

’’مونی! تم جاؤ اور پڑتل کے جھنڈ کے پاس جو انگوروں کی بیلیں ہیں۔ وہاں سے تازہ اور رس بھرے انگور لے آؤ!‘‘ ٹارزن نے مونی کو حکم دیا تو وہ فوراً سر ہلاتا ہوا باہر لپکا۔

اب وہ تینوں کٹیا میں بیٹھے باتوں سے دل بہلا رہے تھے۔

’’ٹارزن بھائی! تم تو واقعی کہانیوں والے ٹارزن ہی ہو۔۔۔ ویسا ہی جانگیہ، وہی چھڑی، کٹیا اور ساتھ مونی بھی۔۔۔ تم تو اپنی بہادری کی وجہ سے بچوں میں بہت مقبول ہو۔‘‘ عمرو عیار نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

’’ارے عمرو! تم اپنی سناؤ، بس تمھارے پاس زنبیل کی کمی ہے ورنہ تو میں تمھیں پہلے ہی پہچان لیتا۔ آخر تمھاری چالاکیوں کی داستانیں بھی تو بچوں کو بہت پسند ہیں نا۔‘‘ ٹارزن نے کہا اور شیخ چلی کی طرف متوجہ ہوا۔

’’جی شیخ چلی! اب تو تمھارا گدھا بھی کافی مشہور ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تمھاری یہ لالچی فطرت بچپن سے ہے یا بعد میں پیدا ہوئی؟‘‘

’’اے ٹارزن بھائی! ہم بچپن سے ہی ایسے ہیں۔‘‘ شیخ چلی بولا۔

’’تبھی تو تمھاری کہانیاں بہت پسند کرتے ہیں بچے!‘‘ ٹارزن نے قہقہہ لگایا۔ ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے کہ باہر کسی کے رونے کی آواز آئی۔

’’کوئی ہے یہاں۔۔۔؟ کوئی اللہ کا بندہ مدد کرے گا؟‘‘

وہ تینوں جھونپڑی سے باہر نکلے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سامنے ایک باریک لمبی ڈاڑھی والا آدمی، پھندنے والی سرخ ٹوپی پہنے کھڑا تھا۔ وہ بارش میں بھیگا ہوا تھا اور مدد کے لیے پکار رہا تھا۔

’’ارے میاں صاحب! آپ ادھر آجائیے۔ ہمارے پاس جگہ ہے رات گزارنے کی۔ پریشان مت ہوں۔‘‘ ٹارزن کی آواز سن کر ٹوپی والے آدمی نے رونا بند کردیا۔ پھر رات گزارنے کا سن کر خوشی سے جھوم اُٹھا۔ اس سے پہلے کہ ٹارزن کوئی اور بات کہتا۔ ٹوپی والے آدمی نے جھک کر اپنے کان پکڑے اور مرغا بن کر ککڑوں کوں۔۔۔ ککڑوں کوں کی صدائیں بلند کرنا شروع کردیں۔ یہ عالم دیکھ کر عمرو عیار اور شیخ چلی کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’ارے صاحب! کیا کررہے ہو تم۔۔۔؟‘‘ ٹارزن نے پوچھا۔

’’میں۔۔۔ میں پناہ ملنے پر خوشی کا اظہار کررہا ہوں۔ میں جب خوش ہوتا ہوں تو ہی ایسا کام کرتا ہوں۔‘‘

’’ہائیں! یہ کیا طریقہ بھلا۔۔۔ کمال ہے بھئی۔‘‘ عمرو عیار ہنسا۔

’’ارے بھیا! یہ تو کچھ بھی نہیں، مجھے تو اس سے بھی زیادہ طریقے آتے تھے ہنسانے کے۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ نہ وہ بادشاہ رہے۔۔۔ نہ ان کے مصاحب۔۔۔ اور۔۔۔ اور نہ وہ زمانے رہے۔۔۔ یہ کہہ کر بوڑھا افسردہ ہوگیا۔‘‘

’’کیا مطلب تمھارا۔۔۔؟‘‘ شیخ چلی حیران ہوا۔

’’مطلب یہ کہ میں جب سے ترکی کے درباروں سے در بدر ہوا ہوں کسی نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ دیکھو کتنا کمزور ہوگیا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے یہ کہہ کر اپنا شاہی لباس لہرایا۔

’’اوہ! تم۔۔۔ تم کہیں ملا نصیرالدین تو نہیں۔۔۔؟‘‘ ٹارزن نے حیرانی سے پوچھا۔

’’ہائیں! آپ نے پہچان لیا۔۔۔؟ بھئی واہ۔۔۔ بہت خوب! بہت ذہین ہیں آپ۔۔۔‘‘ لال پُھندنے والی ٹوپی پہنے اس شخص نے خوشی کا اظہار کیا تو شیخ چلی اور عمروعیار بھی حیران رہ گئے۔ پھر سب نے ایک دوسرے سے تعارف کروایا تو وہاں بڑا ہی پرجوش منظر تھا۔ اچانک شیخ چلی کی نظریں اِدھر اُدھر کچھ تلاش کرنے لگیں۔

’’ہاے! میرا گدھا۔۔۔ میرا پیارا گدھا کہاں گیا؟‘‘ وہ روہانسی صورت میں بولا۔ اس سے پہلے کہ گدھے کی گم شدگی پر وہ سب پریشان ہوتے۔ اچانک ایک راہ داری سے گدھے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ پھر ایک دم گدھا دکھائی دیا۔ اس کے اوپر مونی بندر سوار تھا جس نے گدھے کے کان دونوں ہاتھوں میں تھام رکھے تھے۔

’’مونی۔۔۔‘‘ ٹارزن غصے سے چلایا لیکن اگلے ہی لمحے سب منھ میں انگلی داب کر رہ گئے، کیوں کہ مونی کے ساتھ گدھے پر ایک آدمی کی ’’لاش‘‘ رکھی ہوئی تھی۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔

’’اوہ۔۔۔ مم۔۔۔ مونی۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟‘‘ ابھی ٹارزن نے اس سے دریافت کیا ہی تھا کہ اچانک ’’لاش‘‘ شور مچاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔

شیخ چلی اور عمرو عیار ڈر کر دبک گئے۔ ٹارزن بھی چوکنا ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ کہتا، لاش نے بولنا شروع کیا۔

’’صاحبو۔۔۔ !قدر دانو۔۔۔ !میزبانو۔۔۔! بات اتنی سی ہے کہ انگور اتارتے ہوئے آپ کا بندر درخت پر چڑھ چکا تھا کہ نیچے سے اس کا گدھا بھاگ نکلا۔ میں وہاں موجود تھا۔ چناں چہ بڑی کوشش کے بعد میں نے اسے منھ سے پکڑلیا۔ لیکن اس نے خود کو چھڑوا لیا۔ پھر اگلی ٹانگلوں سے پکڑا لیکن وہ پھر بچ نکلا۔ پھر اس کی کمر پہ وزن ڈالا لیکن یہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ پھر اس کی پچھلی ٹانگیں پکڑیں تو مجھے دوچار دولتیاں کھانے کو ملیں۔ جب کچھ بھی نہ سوجھا تو میں نے بندر کو اُٹھا کر گدھے پر لاد دیا اور خود بھی اس پر سوار ہوگیا۔ بس اتنی سی بات تھی۔۔۔ گدھا پکڑنا کون سا مشکل کام ہے۔ ہم تو تصویر بھی گھر میں ایسے ہی ٹانگتے تھے۔‘‘

گدھے سے اُترتے ہوئے بوڑھے نے ساری تفصیل بتائی تو سب کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

’’چچا چھکن۔۔۔؟‘‘ شیخ چلی زور سے چِلّایا۔

’’ہاں بھئی! میں ہی چچا چھکن ہوں۔ کوئی شک ہے؟ پاکستان سے آرہا ہوں۔‘‘ نو وارد کی بات سن کر ٹارزن نے ایک نعرہ لگایا۔ پھر سب لوگ ہنستے مُسکراتے کٹیا میں چلے گئے۔ اب چچا چھکن باری باری سب کا تعارف جان کر بہت خوش ہورہے تھے۔ ٹارزن نے سب کے لیے بھنا ہوا گوشت، جنگلی پھل اور جوس پیش کیا۔

’’صرف ٹارزن ہی نہیں عمرو! تم خود بھی تو اتنے چالاک ہو کہ بچوں کو تمھاری حرکتیں بہت پسند ہیں۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘ چچا چھکن نے کہا تو سب ہنس دیے۔

دنیا بھر کے بچوں کو اپنی کہانیوں سے مزے کرانے والے مشہور کردار ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش تھے۔

’’دوستو! میں آپ سب کے لیے جنگل کا مشہور جوس منگواتا ہوں۔‘‘ ٹارزن نے یہ کہا اور مونی کو آواز دی۔

اسے جنگلی پھلوں کا جوس لانے بھیج دیا۔ اب وہ سبھی لوگ ملا نصیرالدین کی ٹوپی، چچا چھکن کی عینک، ٹارزن کے مونی، شیخ چلی کے گدھے اور عمرو عیار کی زنبیل کے بارے میں مزے مزے کی باتیں کرنے لگے۔

ابھی کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ کٹیا کے باہر مونی بندر کے چیخنے چِلّانے کی آوازیں آئیں۔ سب ایک ساتھ باہر دوڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ جھونپڑی کے باہر مونی گر پڑا ہے اس کے جسم سے خون نکل رہا ہے وہ کراہ رہا تھا۔

’’اوہ! جن پھر اپنا کام کرگیا۔‘‘ ٹارزن نے دوڑ کر مونی کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔

’’کیا مطلب۔۔۔؟ کون سا جن ٹارزن بھائی؟‘‘ شیخ چلی نے حیران ہوکر پوچھا تو ٹارزن بتانے لگا۔

’’دوستو! میں طاقت ور ضرور ہوں، جنگل کے تمام درندوں کی خوب خبر لیتا ہوں لیکن۔۔۔ لیکن یہاں قریبی پہاڑی کے غار میں ایک جن رہتا ہے، بہت ظالم جن۔۔۔ میں اس سے بہت عاجز ہوں۔ کیوں کہ میں جادوگر نہیں ہوں اس لیے جن کا مقابلہ کرنا میرے بس میں نہیں۔۔۔ آئے روز وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ مونی بھی اسی جن کی وجہ سے زخمی ہوکر آیا ہوگا۔

’’کیوں مونی۔۔۔؟‘‘ ٹارزن نے مونی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا تو مونی نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ سر ہلا دیا۔

’’مم۔۔۔میں تو خود جنوں سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے آپ کی مدد نہیں کرسکتا ٹارزن بھائی۔‘‘ ملا نصیرالدین نے جنوں کے نام سن کر ڈرتے ہوئے کہا۔

’’اور ہم بھی جن سے مقابلہ نہیں سکتے نا۔‘‘ شیخ چلی نے چچا چھکن کی طرف دیکھ کر کہا۔ اب سب کی نظریں عمروعیار پر گئیں۔

’’اوہ! عمرو بھائی! آپ تو جادو گر ہیں نا۔ آپ اس جن کا مقابلہ کرسکتے ہیں، مجھے یقین ہے۔‘‘ ٹارزن نے عمرو عیار سے کہا تو وہ گھبرا گیا۔

’’نن۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں ٹارزن بھائی! میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، مجھ میں اب ایسی طاقت کہاں۔۔۔؟ ویسے بھی میرے پاس نہ جادوئی چھڑی ہے نہ زنبیل۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر عمرو عیار نے جیکٹ میں اپنا منھ چھپا لیا۔ ٹارزن پریشان ہوگیا۔ اچانک چچا چھکن بولے: ’’اوہ! مسٹر ٹارزن! ایک ترکیب ہے۔ میرے ملک پاکستان میں میرا ایک دوست رہتا ہے۔ وہ بہت بڑا جادوگر ہے، مجھے یقین ہے وہ ضرور اس جن کا مقابلہ کرسکے گا۔‘‘

’’ارے واہ! یہ تو بہت اچھی بات۔۔۔ لیکن۔۔۔! لیکن ہم اس جادوگر کو یہاں کیسے بلائیں؟‘‘ ٹارزن نے پوچھا۔

’’کوئی مشکل نہیں! یہ جدید دور ہے، میں ابھی بلاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر چچا چھکن نے اپنے جوتے کے سائز کا ایک آلہ واسکٹ کی جیب سے نکالا اور کچھ بٹن دبا کر کان سے لگا لیا۔ چچا چھکن نے کچھ دیر کسی سے بات کی۔ اسے جنگل کا پتا بتایا اور وہ آلہ واپس جیب میں رکھ لیا۔ ٹارزن سمیت سب لوگ کبھی چچا چھکن اور کبھی اس آلے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔

’’یہ۔۔۔ یہ کیا تھا چچا۔۔۔؟‘‘ شیخ چلی بولا۔

’’یہ موبائل ہے موبائل۔۔۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ آواز پہنچانے والا آلہ۔‘‘ یہ کہہ کر چچا چھکن نے فخر سے سینہ تان لیا۔اب وہ سب لوگ واپس کٹیا میں چلے آئے۔ ابھی اُنھیں بیٹھے ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کہ باہر شور سنائی دیا۔ شاید پاکستانی جن کٹیا کے باہر پہنچ چکا تھا۔ اُنھوں نے کٹیا سے باہر آکر دیکھا تو ایک چھوٹے قد کا خوف ناک شکل کا جن سامنے کھڑا تھا۔ سر سے گنجا لیکن دو سینگ اوپر کو اُٹھے ہوئے تھے۔ اچانک جن چِلّا یا۔

’’ہوہوہو۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں۔ زے ے ے ے ے بی نااااا۔‘‘ ایک لمحے کے لیے جنگل اس جن کے قہقہوں سے گونج اُٹھا تھا۔

’’ہیلو! کیا حال ہے زکوٹا بھائی!‘‘ چچا چھکن نے آگے بڑھ کر زکوٹا جن کو سلام کیا۔ پھر ٹارزن نے ڈرتے ڈرتے زکوٹا کو پہاڑی جن کے متعلق بتایا۔ یہ سننا تھا کہ زکوٹا جن غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ اس نے دو تین بار بازو اوپر کرکے ’’زے ے ے ے بی نا ا ا ا ‘‘ کہا اور ہوا میں اڑتا ہوا پہاڑی کی طرف روانہ ہوگیا۔ شیخ چلی، ٹارزن، عمرو عیار اور ملا نصیر الدین حیرت سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

کچھ دیر بعد جنگل پھر قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ اس بار زکوٹا کی آمد ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک عدد گھڑا بھی تھا۔ اس گھڑے میں زکوٹا نے پہاڑی جن کو قید کر لیا تھا۔

’’ارے واہ زکوٹا بھائی! آپ نے تو کمال کردیا۔ میں آپ کا احسان مند رہوں گا۔‘‘ ٹارزن نے آگے بڑھ کر زکوٹا کو تھپکی دی۔

’’اے ٹارزن بھائی! کوئی بات نہیں! مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کے کام آیا۔ کوئی اور خدمت ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ اس جن کو تو میں پاکستان لے جاؤں گا اور خوب مزہ چکھاؤں گا۔‘‘ زکوٹا نے کہا تو گھڑے میں ہلچل پیدا ہوئی، پھر ایک دبی سی آواز برآمد ہوئی۔

’’ارے۔۔۔رے حضور۔۔۔ مجھے پاکستان مت لے جاؤ! وہاں تو پہلے ہی بڑے بڑے جن موجود ہیں جو بڑی بڑی ملیں، سڑکیں، پلازے اور بینک ڈکار جاتے ہیں۔‘‘ پہاڑی جن نے کہا تو چچا چھکن مسکرا دیے۔

’’زکوٹا بھائی! یہ آپ کے ہاتھ میں بھی وہی آلہ ہے جس کے ذریعے چچا چھکن نے آپ کو بلایا تھا۔ یہ کہاں سے ملتا ہے۔ بڑی مفید چیز ہے یہ تو۔۔۔‘‘ شیح چلی نے تجسس سے پوچھا تو ملا نصیرالدین اور عمروعیار نے بھی اس کی بات آگے بڑھائی۔

زکوٹا ان کی بات سن کر مسکرایا اور بولا:’’اوہ دوستو! اسے موبائل کہتے ہیں۔ جدید دنیا کی نئی ایجاد ہے۔ دور دور کے لوگوں کو پاس لاتی ہے لیکن قریب کے لوگوں کو دور کردیتی ہے۔‘‘ اسی ایجاد نے تو دنیا بھر کے بچوں میں میری اور آپ سب کی اہمیت کم کردی ہے۔‘‘ زکوٹا نے ذرا افسردگی سے کہا۔

’’ہائیں! وہ کیسے؟‘‘ ٹارزن حیران ہوا۔

’’ٹارزن بھائی! پہلے بچے مزے لے لے کر آپ کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ شیخ چلی اور عمروعیار کی داستانیں پڑھ کر محظوظ ہوتے تھے۔ ملا نصیر الدین اور چچا چھکن کے لطیفوں پر ہنستے تھے۔ مگر۔۔۔ مگر آج کل تو اسی موبائل میں گم رہتے ہیں۔ آج کل کے بچوں کو نہ ٹارزن سے محبت ہے نہ شیخ چلی کا پتا ہے۔ عمرو عیار اور ملا نصیر الدین کو بھی سب بھولتے جارہے ہیں۔‘‘

زکوٹا نے ٹھہر ٹھہر کر اُداس لہجے میں کہا تو یک دم ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ پھر ٹارزن، شیخ چلی عمروعیار، ملا نصیر الدین اور چچا چھکن اپنے اپنے سنہرے دور کو یاد کرنے لگے۔ عمروعیار کی آنکھوں میں تو باقاعدہ آنسو تھے۔ اب زکوٹا نے باری باری سب سے سلام لیا اور اپنا موبائل ٹارزن کو تحفے میں دے کر فضا میں بلند ہوگیا۔ زکوٹا کو جاتے دیکھ کر سب ہاتھ ہلا رہے تھے۔ آج پہلی بار ٹارزن اور شیخ چلی کی آنکھیں بھی بھیگی ہوئی تھیں۔ کیوں کہ جدید ٹیکنالوجی میں وہ اُجڑی ہوئی داستان کا حصہ بن چکے تھے۔

*۔۔۔*

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

پچکارنا: تسلی دینا یا پیار کرنا ؍ تقلید: پیروی کرنا

جالینا: پکرلینا ؍ لاغر: کمزور

دو دو ہاتھ کرنا: لڑائی کرنا ؍ سرعت: پھرتی

زنبیل: ایک تھیلا جو عمر و عیار کے پاس تھا

جانگیہ: لنگوٹ ؍ مصاحب: خاص دوست

پُھندنا: موتی یا ریشم کا گچھا جو ٹوپی میں لگا ہوتا ہے

ٹَاپ: جانور کی ٹانگوں سے پیدا ہونے والی آواز

سانپ سونگھ جانا: چپ سادہ لینا

کراہنا: آہ بھرنا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top