skip to Main Content
جغرافیے کا پیپر

جغرافیے کا پیپر

قاسم بن نظر

…………………………………………………………

’’واہ، آپ کو تو جغرافیہ آتا ہے‘‘۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔

’’آپ ہمارے سارے کام کرتے ہیں، پیپر آپ کیوں نہیں دیتے‘‘۔

………………….………………….………………….

اتوار کے دن صبح دس بجے کے قریب ہماری آنکھ فون کے بجنے سے کھلی۔ فون کے بجنے کا انداز دوسری طرف انکل احمد کے ہونے کی نشاندہی کررہا تھا۔ (کیونکہ گزشتہ کئی ہفتوں (بلکہ اتواروں) سے موصوف عین دس بجے ہمیں اپنے کسی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بذریعہ فون بلاتے تھے) پایۂ تکمیل سے مراد صرف چارپائی میں پائے لگانا (اور پائے گلانا) ہی نہیں تھا۔ بلکہ ان کا ہفتے بھر کا سودا سلف بھی لاکے دینا تھا (اور ان کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ سارا سودا یکمشت نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً منگاتے تھے) ان کی ظلمت کی چکی میں ہمارے پیسے جانے کی وجہ وہ یہ گردانتے تھے کہ ’’میرا برخوردار چھوٹو ابھی بہت چھوٹا ہے) چھوٹو کی دوسری صفت وہ نہیں بتاتے تھے کہ وہ آٹھ مضامین میں کمزور ہے۔
’’صرف آٹھ‘‘ ایک مرتبہ ہم نے غلطی سے پوچھ لیا تو وہ لاٹھی لے کر ہمارے پیچھے دوڑ پڑے اور یہ کہہ کر ہماری دھنائی (اور بھلائی) کرڈالی کہ بے وقوف آٹھ مضامین ہی تو ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کئی عرصے تک ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی رہیں۔ (اسی عرصے میں انہوں نے ایک مرتبہ ہمیں زحمت دینے کی کوششیں ناکام و ناتمام کی کہ ایک شادی میں جانے کے لئے ’’نئے جوڑوں‘‘ کی خریداری کرنے جانا ہے ہم نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ’’آپ کی لاٹھی کی وجہ سے ہم ’’پرانے جوڑوں‘‘ کے درد میں مبتلا ہوگئے ہیں اور ہم انہیں تبدیل بھی نہیں کرسکتے) انہوں نے لاٹھی سے ہماری جو خاطر تواضع کی تویہ تدبیروہ اپنے ’’چھوٹو‘‘ پر آزماتے تو چھوٹو شاید اپنی کلاس میں اول آتا۔ یہ تو ہماری محنت تھی کہ چھوٹو پاس ہوجاتا۔ مگر اسی محنت کے بعد ہم اتنے ادھ موئے ہوجاتے کہ صرف آٹھ مضامین کے ہونے کا شکر ادا کرتے کہ اگر سولہ مضامین ہوتے تو چھوٹو تو ہماری جان ہی لے لیتا۔
تو بروز اتوار ہمیں انکل احمر نے چھوٹو کو جغرافیے کی تیاری کرانے کا مشن سونپا‘‘۔ اس کا جغرافیہ بڑا کمزور ہے‘‘۔
’’جی۔۔۔ ہم تو کئی عرصے سے خبروں میں یہ اربابِ اختیارات کی زبانی کلامی سن رہے ہیں کہ ہمارا جغرافیہ مضبوط ہے‘‘۔
’’ارے میں اس کے مضمون کی بات کررہا ہوں۔ کل اس کا پیر ہے‘‘۔
’’اوہ۔۔۔ اب ہماری غلط فہمی دور ہوئی‘‘۔
’’بہرحال چھوٹو تمہارے حوالے ہے‘‘۔
’’ہائیں‘‘۔ ہم نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔
’’آپ نے تو ہمیں بلا کے چھوٹو کے حوالے کیا ہے‘‘۔ ہماری یوں رونی صورت بن گئی جیسے کہ ہم مجرم ہوں۔
بہرحال چھوٹو ہمارے زیر تربیت آگیا۔ (اگر سارا سال ہمارے زیر تربیت رہتا تو شاید اس کے علم میں اور ہماری کمائی میں اضافہ ہوتا)
’’محل وقوع یاد ہے؟‘‘ یہ ہمارا پہلا سوال تھا۔
’’اپنے محلے کا وقوع؟‘‘ یہ اُس کا پہلا سوال تھا۔
’’اوہو پاکستان کا محل وقوع‘‘۔ یہ ہمارا جواب تھا۔
’’سندھ سرحد پنجاب بلوچستان‘‘۔ یہ اس کا جواب تھا۔
چھوٹو چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ ہم نے اسے پاکستان کا محل وقوع یاد کرانے کی (اس کا) سر توڑ اور (اپنا) سر بچاؤ کوشش کی۔
’’اچھا اب ہمسایوں کے نام بتاؤ‘‘۔
’’دیگ والے انکل، جگ والے انکل اور مگ والے انکل میرے ہمسائے ہیں‘‘۔
’’پاکستان کے ہمسائے کون سے ہیں‘‘۔ ہم نے غصے سے ہونٹ بھینچے۔
’’سندھ، سرحد، پنجاب، بلوچستان‘‘۔
’’بیٹا! اس طرح یاد کرو پاکستان کے ہمسائے۔ مشرق میں بھارت، مغرب میں ایران اور افغانستان، شمال میں چین اور جنوب میں بحیرہ عرب، آدھے گھنٹے تک ایک مرتبہ ہم پڑھتے رہے، ایک مرتبہ وہ دہراتا رہا۔
’’ہوگیا یاد‘‘۔
’’جی ایچ‘‘۔
’’جی ایچ کا کیا مطلب؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’صرف جی، بولا کرو‘‘۔
’’جی‘‘۔
’’سناؤ پاکستان کے ہمسایوں کے نام‘‘۔
’’مشرق مغرب شمال جنوب‘‘۔
اگر انکل احمر اپنی لاٹھی کے ہمراہ گئے ہوتے تو ہم اسی لاٹھی سے چھوٹو کو کوٹ ڈالتے۔
’’اچھا دنیا میں کتنے براعظم ہیں‘‘۔
’’تین سو پچاس‘‘۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’مجھے تین سو پچاس تک ہی گنتی آتی ہے‘‘۔
’’اُف۔ یار دنیا میں سات براعظم ہیں‘‘۔ ہم نے بتایا۔
’’کون کون سے؟‘‘ اس نے تصدیق (اور ثبوت) چاہا۔
’’ایشیا، یورپ، شمالی افریقہ، جنوبی افریقہ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، انٹارکٹیکا‘‘۔
’’واہ، آپ کو تو جغرافیہ آتا ہے‘‘۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ ’’آپ ہمارے سارے کام کرتے ہیں، پیپر آپ کیوں نہیں دیتے‘‘۔
’’چپ چاپ یاد کرو‘‘۔
ہمارے ڈانٹنے پر چھوٹو نے چپ سادھ لی۔
’’یاد کیوں نہیں کرتے‘‘۔
’’آپ ہی نے تو کہا ہے چپ چاپ‘‘۔
ہم نے اسے براعظموں کے نام یاد کرائے اور دل ہی دل میں کہتے رہے کہ کاش ہم اس زمانے میں ہوتے جب زمین صرف ایک ٹکڑے پر مشتمل تھی۔ (یا کم از کم چھوٹو ہی اس زمانے میں ہوتا، تاکہ ہم تو سکون سے رہتے)
’’یاد ہوگیا‘‘۔ چھوٹو نے پہلی مرتبہ کچھ یاد ہونے کا اقرار کیا۔
’’سناؤ‘‘۔
اس نے جھوم جھوم کر سنانا شروع کیا۔
’’شمالی ایشیا، جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا، مشرقی ایشیا‘‘۔
’’شمالی یورپ، جنوبی یورپ۔۔۔‘‘
’’بس بس بس۔۔۔‘‘ ہم چلا اُٹھے۔ ’’شمالی جنوبی ہر ایک میں نہیں ہے‘‘۔
’’کیوں نہیں ہے‘‘۔ اس نے بھی ترکی بہ ترکی حملہ کیا۔ ’’چار سمتیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں‘‘۔
’’اچھا چھوڑو۔ سمندروں کے نام یاد کرو‘‘۔ ہم نے اپنی جان چھڑانے کی فضول سی کوشش کی۔
’’وہ تو مجھے یاد ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘ ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا۔
’’سناؤ‘‘۔
’’کلفٹن کا سمندر‘‘۔
’’ارے بھئی وہ والا نہیں۔ یہ جغرافیے کا پرچہ ہے اس میں سات سمندروں کے نام لکھنے ہیں۔ اردو کا پرچہ نہیں کہ کلفٹن کی سیر پر مضمون لکھ لو‘‘۔
’’آپ کو مجھ سے زیادہ پتہ ہے کہ کل کسی کا پرچہ ہے‘‘۔ کبھی کبھی چھوٹو (سال میں ڈیڑھ پونے دو مرتبہ) فلسفیوں جیسی بات کرتا تو ہمیں (نہ جانے کیوں) بے حد ’’دکھ‘‘ ہوتا۔ ’’پرچہ میں دوں گا یا آپ؟‘‘
’’بیٹا! مجھے بعد میں کوس لینا پہلے سات سمندروں کے نام یاد کرلو‘‘۔
’’سات سمندر۔۔۔ کلفٹن کے سمندر میں بھی آپ شمالی، جنوبی وغیرہ لگالیں گے یہ کون سی بات ہے‘‘۔
’’نہیں بیٹا، سمندروں میں شمالی جنوبی نہیں ہوتا‘‘۔
’’اچھا۔۔۔ پھر قطب نما کیوں ایجاد ہوا‘‘۔
’’بیٹا۔۔۔ سمندروں کے نام‘‘۔
’’کیا قطب نما قطب الدین ایبک نے بنایا تھا‘‘۔
’’بیٹا۔۔۔ سمندروں کے نام۔۔۔‘‘
’’کیا قطب الدین ایبک شمالی قطب میں پیدا ہوا یا جنوبی قطب میں‘‘۔
’’بیٹا۔۔۔ سمندروں کے نام‘‘۔
’’قطب صرف شمالی اور جنوبی کیوں ہوتے ہیں مشرقی اور مغربی کیوں نہیں؟‘‘
’’بیٹا۔۔۔ سمندروں کے نام۔۔۔‘‘
’’اب سنادیں نا۔۔۔ رٹ لگائی ہوئی ہے آپ نے سمندروں کے نام سمندروں کے نام‘‘۔ چھوٹو نے ہمیں پیار سے ڈانٹا۔
’’بحرالکاہل۔۔۔‘‘
’’لو۔۔۔ سمندر بھی کاہل ہوگیا‘‘۔
’’بحر مردار‘‘۔
’’یہ سمندر کب مرا؟‘‘
’’بحر اوقیانوس، بحر منجمد شمالی، بحر منجمد جنوبی‘‘۔
’’آپ نے تو کہا تھا کہ سمندروں میں شمالی جنوبی نہیں ہوتا‘‘۔
’’اور بحر ہند‘‘۔
’’انڈیا کے سمندر کا نام آگیا بحر ہند اور کلفٹن والے سمندر کا نام نہیں آیا‘‘۔
’’بیٹا۔۔۔ وہ بحیرہ عرب ہے‘‘۔
’’تو وہ تو سعودی عرب کا ہوا نا۔۔۔ کلفٹن والے سمندر کا نام جغرافیے میں کہاں ہے‘‘۔
ہم نے جھنجھلا کر کتاب کھولی اور پاکستان کے نقشے میں جنوب کی طرف بحیرۂ عرب لکھا ہوا دکھایا۔ ’’تم جس سمندر کی بات کررہے ہو وہ یہی ہے‘‘۔
’’اچھا۔۔۔ تو اس کے برابر میں کلفٹن کہاں ہے نقشے میں‘‘۔
’’بیٹا، نہ میں نے یہ نقشہ بنایا ہے۔۔۔ نہ جغرافیہ‘‘۔ ہم نے بے چارگی ظاہر کی تو چھوٹو نے یہ کہہ کر ’’جب کچھ آتا ہی نہیں تو بنائیں گے کیا آپ‘‘۔
ہمیں ہماری تین گھنٹے کی محنت کا صلہ دیا اور ہم ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ کا نعرہ بلند کرکے گھر ہولئے۔ اور ہاں رپورٹ کارڈ میں جغرافیے کے خانے میں چھوٹو کے حاصل کردہ نشانات آپ کی توقع سے کچھ زیادہ نہیں تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top