skip to Main Content
جب دیو آئے

جب دیو آئے

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ایک تیر دیتے جاتے اور فرماتے۔ ’’سعد رضی اللہ عنہ تیر چلائے جاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسم برسات نے ہر چیز کو دھوکر اور بھی حسین بنادیا تھا مگر جہاں ہر چیز نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ وہیں سامنے موجود دریا میں بھی طغیانی آگئی تھی اور دریا کا پانی بہت چڑھا ہوا تھا۔ اسی دریا کے کنارے ایک بڑا لشکربھی موجود تھا۔ یہ کوئی عام لشکر نہیں تھا بلکہ یہ لشکر اسلامی تھا۔ جو دریا کے اس پار موجود مشرکین سے مقابلے کی خاطر آیا تھا جو مملکت اسلامی پر بار بار حملے کر کے وہاں رہنے والے مسلمانوں کو پریشان کرتا۔۔۔ بلاآخر سربراہ مملکت نے ایک بڑا اسلامی لشکر ترتیب دیا اور لوگوں کی راے سے ایک بہادر شخص کو اس لشکر کا سپہ سالار منتخب کیا۔ اب یہ لشکر اسلامی مختلف علاقوں کی مہم سر کرتے ہوئے مدائین پر حملہ کرنے اس دریا تک آن پہنچا تھا جو دریا کے اس پار موجود تھا۔ 
دریا پورے زور وشور سے بہہ رہا تھا۔ مشرکین کا خیال تھا کہ دریا کو لشکر اسلامی کے لیے پار کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ دریا پر اپنے ہاتھوں بنائے گئے پل بھی مشرکین نے خود ہی توڑ ڈالے تاکہ مکمل بچاؤ ہوسکے مگر یہ سپہ سالار ایک بہت نڈر شخص تھا۔ دریا پر پہنچ کر سپہ سالار نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ دریا کے اطراف جاکر کوئی ایسی جگہ تلاش کریں۔ جہاں سے دریا عبور کرنا نسبتاً آسان ہو اور ساتھ ہی دودستے تشکیل دیے۔ جنھیں فوج سے آگے دریا پار جانے کو کہا۔ تاکہ یہ اطمینان کیا جاسکے کہ کفار کی فوج دریا کے قریب ہی تو موجود نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر اسلامی دریا عبور کر کے دوسرے کنارے پہنچیں تو صفیں درست کرنے سے پہلے ہی مشرکین اسلامی فوج پر حملہ نہ کردیں۔ 
یہ اطمینان کرنے کے بعد سپہ سالار نے اسلامی لشکر کے سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’برادران اسلام! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔‘‘ اس کے بعد مجاہدین کو حکم دیا کہ وہ ’’حسبنااللہ ونعم الوکیل‘‘ پڑھیں اور خود بھی یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنا گھوڑا دریا میں اتار دیا۔ سپاہیوں نے بھی اپنے سپہ سالار کی پیروی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا کے اس کنارے سے اس کنارے تک فوجیوں کے سر ہی سر نظر آنے لگے۔ موجیں آتی رہیں سپاہیوں سے ٹکراتی رہیں مگر تمام فوج اس طرح ان موجوں سے لڑتی اور ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہیں کہ گویا وہ دریا میں نہیں بلکہ زمین پر چل رہے ہوں۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کی مدد تھی اور جب یہ لشکر اسلامی دریا عبور کر کے اس پار اترا تو سپاہیوں کی صفیں بالکل درست حالت میں تھیں اور ترتیب میں ذرا فرق نہیں آیا تھا۔ مشرکین جو یہ منظر دور کہیں سے دیکھ رہے تھے کچھ سمجھ نہ سکے کہ کیا ہورہا ہے؟ مگر جب لشکر اسلامی دریا عبور کر کے ان کے سر پر جاپہنچا تو وہ خوفزدہ ہو کر بھاگے اور چوں کہ وہ ایرانی قوم تھے۔ اس لیے ان میں ایک فارسی میں چیخا: ’’دیو آمدند دیو آمد ند‘‘ (دیو آگئے، دیو آگئے) اور دیکھتے ہی دیکھتے کفار کی تمام فوج ہی شور مچاتی بھاگ کھڑی ہوئی سواے اپنے سپہ سالار کے۔ جو اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ مقابلے پر ڈٹا رہا مگر اسلامی فوج کے بہادر سپاہیوں نے تھوڑے سے مقابلے کے بعد اسے بھی شکست سے دو چار کیا۔ یہ تاریخی شہر ’’مدائن‘‘ باآسانی فتح ہوا۔ لشکر اسلامی کے سپہ سالار جب مدائن شہر کے اندر داخل ہوئے تو شہر خالی پڑا تھا۔ یہ دیکھ کر سپہ سالار کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی۔ ’’اگلی قومیں کس قدر باغ چشمے اور کھیتیاں اور ہر طرح کی نعمتیں، عمدہ محلات چھوڑکر چل بسیں۔ جن میں خوش باش زندگی بسر کرتی تھیں اور ہم نے ان چیزوں کا مالک دوسری قوموں کو بنادیا۔‘‘ (سورۃ الد خان) فوج کے اس بہادر سپہ سالار نے اپنی بہادری پر غرور کرنے کے بجاے اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر سجدہ شکر ادا کیا۔
اس عظیم مہم کو کامیابی سے سر انجام دینے والے صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کانام سعد اور کنیت ابو اسحاق ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ رشتے میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے اور اس لحاظ سے حضورصلی ﷲ علیہ وسلم اکثر انھیں ماموں کہہ کر بھی مخاطب کرتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے یعنی وہ دس اصحاب رضی اللہ عنہ جنھیں جنت کی خوشخبری ان کی زندگی میں ہی دے دی تھی۔ پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ چوتھے مسلمان ہیں۔ اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں: ’’سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں میرا چوتھا نمبر ہے۔‘‘ 
جس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر سترہ برس تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کو ان کے قبول اسلام سے بے حد غصہ تھا مگر وہ ان سے بے حد محبت بھی کرتی تھیں۔ لہٰذا ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی مگر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے عزم کے آگے ہر طریقہ ناکام ثابت ہوا۔ آخر ایک ایسا حربہ آزمایا کہ ماں کو یقین تھا کہ اب تو سعد رضی اللہ عنہ ان کی محبت میں ضرور اپنا فیصلہ تبدیل کر لیں گے۔ 
ماں نے بھوک ہڑتال کردی اور اعلان کردیا: ’’جب تک سعد رضی اللہ عنہ اپنا یہ نیا دین چھوڑ کر واپس اپنی خاندانی بت پرستی کی طرف نہیں آئیں گے، میں نہ کچھ کھا ؤں گی نہ پیوں گی۔‘‘ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب ماں کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: ’’ماں جان لو کہ اگر آپ کی ہزار جانیں ہوں اور سب ایک ایک کر کے ختم ہورہی ہوں تب بھی میں اسلام نہیں چھوڑ سکتا اگر آپ چاہیں تو کچھ کھالیں نہیں تو نہ کھائیں مجھے اس کی پرواہ نہیں۔‘‘ ماں نے بیٹے کے اتنے پختہ عزائم دیکھے تو حیران رہ گئیں اور اپنے ارادے کو تبدیل کر دیا بعد میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو اسلام کے احکامات اتنے دلنشین انداز میں بتائے کہ ماں کا دل بھی اسلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو ایک ایسا اعزاز حاصل تھا جس پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ پر رشک کرتے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خود بھی اس پر بے حد ناز کرتے تھے۔ غزوہ احد کے موقع پر جب کفار نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر تیر برسانے شروع کیے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آپ کی حفاظت کی۔ اس موقع پر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ایک تیر دیتے جاتے اور فرماتے۔ ’’سعد رضی اللہ عنہ تیر چلائے جاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘ حالانکہ اس موقع سے پہلے اور بعد میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی اور صحابی کے لیے یہ الفاظ ادا نہیں کیے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے راہ اسلام میں تیر چلائے اور وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے تیر کھائے۔ 
مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعد غزوہ بدر پیش آیا توحضرت سعد رضی اللہ عنہ ان تین سو تیرہ اصحاب میں پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جنھوں نے مشرکین کو شکست فاش دی۔ اس کے دو سال بعد غزوہ احد میں پھر غزوہ خندق، فتح مکہ، حنین، طائف، تبوک غرض تمام غزوات اور اسلام کی خاطر لڑی جانے والی ہر ایک جنگ میں شریک ہوئے۔ جب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال سے قبل اپنا آخری حج ’’حجتہ الوداع‘‘ اداکیا تب بھی حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے مگر مستقل جنگی مہمات کے سبب حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے اور جب حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی مزاج پر سی کے لیے ان کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت افسردگی سے کہا: ’’مجھے لگتا ہے کہ یہیں مکہ مکرمہ کی خاک میں مجھے جگہ ملے گی حالانکہ میں اس سر زمین کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ چکا ہوں۔‘‘ 
حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی اور اپنا دست مبارک آپ کے سر سے شکم تک پھیرا اور اللہ سے ان کی صحت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ مکمل صحت یاب ہوگئے اور مدینہ کو روانہ ہوئے۔ جہاں کچھ عرصے بعد جب حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہی ایک طرف شام اور دوسری طرف ایران سے مدینہ پر ہر وقت حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ ایران پر اس وقت آتش پرستوں (آگ کی پوجا کرنے والوں) کی حکومت تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ایک بڑی فوج تشکیل دی جس کا سپہ سالار لوگوں کی متفقہ راے سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ جنہوں نے جنگ قا دسیہ جیسی عظیم جنگ لڑی اور یہاں سے فتوحات حاصل کرتے ہوئے پورا ایران فتح کر لیا اور ’’فاتح ایران‘‘ کہلائے اور مدینہ طیبہ کی اسلامی مملکت کو ایران وشام کے حملوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ جن کے لیے علامہ اقبال کا شعر ہے

دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

مدائن فتح کرنے کے بعد حضرت عمر کے حکم سے آپ نے نیا شہر کو فہ آباد کیا۔ جہاں لوگوں کے لیے چالیسں ہزار مکانات تعمیر کرائے اور مسجدیں، مدارس اور سراے بنوائیں اور کئی نہریں کھدوائیں۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمر کی شہادت ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت عثمان خلیفہ بنے تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضر ت سعد رضی اللہ عنہ کو دوبارہ کوفے کا گورنر مقرر کیا مگر کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ عنہ نے کنارہ اختیا ر کر لیا اور اسّی سال کی عمر میں عقیق کے مقام پر انتقال فرمایا۔ مہاجرین میں سب سے آخر میں انتقال کرنے والے اس عظیم صحابی کو مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top