skip to Main Content

جادو کی جھاڑو

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔

محبت پور گاﺅں کے رہنے والوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ اس کے ایک کونے پر کاسنی جادوگرنی رہتی تھی اور دوسرے کونے میں انتہائی بدطینت بونا سیمی اور ان دونوں آفتوں کے گھروں کے درمیان میں محبت پور کے باقی باسی رہتے تھے جن میں زیادہ پریاں، پریذار اور بالشیتے شامل تھے۔
جب یہ لوگ بازار میں یا کسی گلی کوچے میں ایک دوسرے کو ملتے تو ایک دوسرے سے دکھی لہجے میں کہتے ”ہم سب کتنے بدقسمت ہیں کہ اگر کسی دن ہماری ملاقات کاسنی جادوگرنی سے نہ بھی ہو تو سیمی بونا کہیں سے لڑتا جھگڑتا ہم سے آٹکراتا ہے۔ ہم ان دونوں میں سے کسی کو بھی ناراض نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ ہم سے کہیں طاقتور بھی ہیں اور ہم سے کہیں زیادہ جادو بھی جانتے ہیں۔“
لیکن ایک بالشیتا جس کا نام چالاک تھا۔ وہ نہ کاسنی جادوگرنی کو جانتا تھا اور نہ ہی اب تک اس کی ملاقات سیمی سے ہوئی تھی کیوں کہ ابھی وہ گاﺅں میں نو وارد تھا۔ وہ اپنے بھائی کو ملنے آیا تھا جس کا نام پوپٹ تھا۔ پوپٹ کا گھر سیمی بونے کے گھر کے قریب تھا۔ وہ سب لوگوں کی باتیں سن سن کر پریشان ہوگیا تھا اور اب گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
پوپٹ اسے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر گاﺅں کے دوسرے باسیوں کو فخر سے بتا رہا تھا ”میرا بھائی سوچ رہا ہے۔ سوچتے ہوئے جیسے ہی اس کا سر پھول جائے تو سمجھ جانا کہ میرے بھائی کو کوئی ترکیب سوجھ گئی ہے جس سے ہماری جان سیمی اور کاسنی سے چھوٹ جائے گی۔“
لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی تبھی کاسنی جادوگرنی بھی ادھر آنکلی اس نے دھکے دے کر لوگوں کو ادھر ادھر کیا۔ دوسری طرف سے سیمی بھی پہنچ گیا۔ وہ اپنی عادت کے مطابق خود سے بھی لڑ رہا تھا اور لوگوں کو بھی برا بھلا کہہ رہا تھا۔ لوگ اس سے خائف ہو کر ادھر ادھر ہوگئے لیکن چالاک اس سے خائف نہیں ہوا۔ وہ وہیں کھڑا رہا جہاں کھڑا تھا۔ تبھی اس کا سر پھولنے لگا۔ اس کے بھائی پوپٹ کو فوراً اندازہ ہوگیا کہ اس کو کوئی ترکیب سوجھ گئی ہے۔
کاسنی نے اسے گھورا اور اسے راستے سے دھکا دے کر پرے کیا وہ پرے ہوا تو سیمی اس سے آٹکرایا۔ اس نے دھکا دے کر چالاک کو دوبارہ راستے پر دھکیل دیا۔ وہ غرا کر چالاک سے بولا ”تم سب کا راستہ روک کر کون سے خوابوں میں کھوئے ہو؟“ چالاک بے چارگی سے بولا ”جناب! مجھے بہت افسوس ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ واقعی میں اس سوچ مین گم تھا کہ میری دادی اماں نے پتا نہیں اپنا حیرت انگیز جادو کا جھاڑو کہاں رکھ دیا ہے؟ ان دنوں میں یہ جادو کا جھاڑو میرے بہت زیادہ کام آتا کیوں کہ میری کار بہت خراب ہوگئی ہے۔ وہ جادو کا جھاڑو دنیا کا سب سے بہترین جھاڑو ہے کیوں یہ یہ جھاڑو بہت اونچی اڑان بھرسکتا ہے اور اس کی رفتار بھی بہت تیز ہوتی ہے۔“
کاسنی اور سیمی نے یکبارگی چالاک کو گھور کر دیکھا، اور اچانک اس سے بہت مہذب لہجے میں گفتگو کرنے لگے۔ کاسنی بولی ”کیا حیرت انگیز جادو کا جھاڑو ہے۔“ کاسی کے پاس اگرچہ اس کا اپنا جھاڑو تھا لیکن وہ بہت عام سا تھا جو زیادہ ٹھنڈی یا بارش والی راتوں میں اڑنے سے بھی انکار کردیتا تھا۔“
سیمی بولا ”آخر یہ جھاڑو کہاں رکھا ہوسکتا ہے۔“ سیمی کے پاس تو بالکل بھی کوئی جھاڑو نہیں تھا۔ چالاک بولا ”مجھے اسے ہر صورت ڈھونڈنا ہے۔ میں اتنی دیر اس کی تلاش جاری رکھوں گا جب تک وہ مجھے مل نہیں جاتا۔“
کاسنی بولی ”مجھے تو بتاﺅ تم اسے کہاں ڈھونڈوگے؟ میں یہ جھاڑو تم سے خریدنا چاہتی ہوں۔“ تبھی سیمی سخت غصے میں بولا ”تم نہیں میں اسے خریدوں گا۔ تم بہت ہی لالچی ہو۔“ کاسنی کو بھی غصہ آگیا وہ بولی ”میں تمھاری ناک کو پہلے لمبا کردوں گی اور پھر اسے گانٹھ دے دوں گی۔“
یہ جھگڑا شاید بہت بڑھ جاتا اگر چالاک بیچ بچاﺅ نہ کروادیتا۔ اس کے چہرے کے تاثرات اب بھی ایسے تھے جیسے وہ گہری سوچ میں ہو۔ پھر چالاک ایک طرف روانہ ہوگیا۔ کاسنی اور سیمی بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ سارا دن دونوں نے چالاک پر گہری نظر رکھی۔ ادھر چالاک بھی انھیں ہر طرف گھماتا رہا۔ آخر چل چل کر تینوں بہت تھک گئے۔
تبھی گاﺅں کے پیچھے ایک پہاری میں اکلوتی غار تھی جس میں اب چالاک داخل ہوچکا تھا اور سیمی اور کاسنی اس کے پیچھے۔ انھیں یقین تھا کہ اب چالاک کو ضرور جادو کے جھاڑو رکھنے کی جگہ مل گئی ہے۔ غار میں واقعی ایک بہت بڑی اور مضبوط جھاڑو پڑی ہوئی تھی جس کے ایک سرے پر لگے ہوئے برش کو دیکھ کر صاف محسوس ہورہا تھا کہ کسی نے اسے استعمال نہیں کیا ہے۔
چالاک نے خوشی سے کہا ”شکر ہے آخر جھاڑو مل ہی گئی ہے۔“ اس نے جھاڑو کو فوری قابو کرلیا اور اس کے ڈنڈے پر بیٹھ گیا اور پھر پرواز کرتے ہوئے غار کا چکر لگایا۔ سیمی اور کاسنی دونوں اس کی طرف بھاگے اور دونوں نے جھاڑو کو پکڑلیا۔ سیمی چیخ کر بولا۔ ”اسے مجھے بیچ دو۔“ کاسنی چلائی ”نہیں اسے مجھے بیچ دو۔“ پھر دونوں جھاڑو چھیننے کی کوشش کرنے لگے۔
چالاک بھونچکا ہو کر بولا ”ارے یہ کیا بدتمیزی ہے۔ کیا تم اسے درمیان سے توڑنا چاہتے ہو۔ اب سنو میں تمھیں بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ تم باری باری اس پر سواری کرو تاکہ خریدنے سے پہلے اسے اچھی طرح پرکھ لو۔“
کاسنی بولی ”ہرگز نہیں، اگر سیمی اس پر بیٹھ کر اڑ گیا تو یہ کبھی واپس نہیں لوتے گا۔ یہ بہت دھوکے باز بونا ہے۔“
جواباً سیمی بولا ”اور تمھارا محترمہ اپنے بارے میں کیا خیا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم رات کو اس پر بیٹھ کر غائب ہوگئیں تو ساری عمر جادو کا جھاڑو تمھارے پاس ہی رہے گا۔“
چالاک پریشان ہو کر بولا ”تب تو میں یہ جھاڑو تم دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں دوں گا۔ ہاں البتہ تم دونوں اکھٹے اس کی سواری کرلو تاکہ تم میں سے کوئی ایک اسے غائب نہ کرسکے۔“
سیمی اور کاسنی نے گھور کر چالاک کو دیکھا۔ کاسنی بولی ”اس میں تمھارا کوئی منصوبہ ہے، تم ہم دونوں کو جادو کے جھاڑو پر سوار کراکے یہاں دے دفعان کرنا چاہتے ہو تاکہ ہم دوبارہ واپس نہ آسکیں اور محبت پور گاﺅں ہم سے آزادی حاصل کرلے۔“
چالاک غصے سے بولا ”تو ٹھیک ہے تم نے جھاڑو پر سوار نہیں ہونا نہ سہی۔ میں تو اپنے جھاڑو پر سواری کروں گا۔“
کاسنی بولی ”نہیں تم اکیلے نہیں ہم سب اکھٹے جھاڑو پر پرواز کریں گے۔ آجاﺅ سیمی تم بھی بیٹھ جاﺅ۔ اب اگر یہ ہمیں چاند کی طرف بھی روانہ کردے گا تو یہ ہمارے ساتھ ہی ہوگا۔“ تبھی چالاک نے ایک پارسل زمین سے اٹھاتے ہوئے کہا ”ٹھہرو، ٹھہرو مجھے میرا پارسل اپنی کمر سے باندھ لینے دو تاکہ میں دونوں ہاتھ سے جھاڑو کو پکڑسکوں۔“
پھر وہ تینوں اڑنے والے جھاڑو پر بیٹھ گئے اور پھر اسی طرح چلتے ہوئے غار کے منہ پر چلے گئے اچانک چالاک نے زور سے جھاڑو کی موٹھ پر ہاتھ مارا اور زور سے بولا۔ ”ہمیں چاند پر لے چلو اور ایک ہفتے تک واپس نہیں آنا۔“
جھاڑو ایک زوردار شوں کی آواز سے ہوا میں بلند ہوگئی۔ کاسنی غصے سے چلائی۔ ”مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم ہم سے کوئی دھوکا کرو گے لیکن کوئی بات نہیں اب تم ہمارے ساتھ ہو۔ ہم چاند پر جا کر تمھیں اپنا ملازم بنائیں گے اور ایک ہفتے تم سے کام کروائیں گے۔“ تینوں نے بڑی مضبوطی سے جھاڑو پکڑ رکھی تھی۔
جھاڑو نے پہلے ہوا میں کوئی گول چکر کاٹے اور پھر اندھیری رات میں کسی روشن تھال کی طرح چمکدار چاند کی طرف روانہ ہوگئی۔
بچو! بوجھ کیا چالاک خوفزدہ ہوگیا تھا؟ کیا اسے معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ تو سنو جب وہ خاصے بلند ہوگئے اور بادلوں تک پہنچ گئے۔ چالاک نے اپنے سینے پر لگا ہوا ایک بٹن دبایا جو اس کے پیچھے بندھے ہوئے پارسل کی تنی سے لگا ہوا تھا اور پھر اس نے جھاڑو سے چھلانگ لگادی۔ گرتے وقت اس کے حلق سے اتنی بھیانک چیخ نکلی کہ ڈر کے مارے کاسنی اور سیمی بھی گرتے گرتے بچے۔
جادوگرنی چلائی ”وہ کود گیا ہے، اس کی ہڈیاں چور چور ہوجائیں گی۔“ سیمی بولا ”امید ہے اسے اچھا سبق مل جائے گا۔ اب یہ کسی اور کو دھوکا نہیں دے گا۔“
لیکن چالاک بہت چالاک تھا۔ وہ بھلا کہاں چوٹ کھاتا تھا۔ جو پارسل اس نے باندھا ہوا تھا وہ دراصل پیراشوٹ تھا اور جب اس نے اس کا بٹن کھنچا تھا تو پیرا شوٹ کھلنا شروع ہوگیا تھا۔ جلد ہی وہ پورا کھل گیا اور چالاک بڑے آرام سے زمین پر اتر آیا تھا۔
اس نے نیچے اس کے منتظر محبت نگر کے باسوں کو ہاتھ ہلا کر مبارکباد دی۔ وہ آگے ہی جھاڑو کے بلند ہونے کی آواز سن چکے تھے۔ سب بڑے اشتیاق سے اس سے پوچھنے لگے کہ اس پر کیا بیتی؟ پوپٹ نے پوچھا ”سیمی اور کاسنی کدھر ہیں؟“
چالاک نے انھیں بتایا ”امید ہے وہ چاند پر پہنچ چکے ہوں گے انھیں میری جھاڑو چاہیے تھی جو انھیں مل گئی۔ کم از کم ایک ہفتے تک وہ زمین پر واپس نہیں آتے اور جب وہ آئے تو امید ہے انھیں یہ سبق مل گیا ہوگا کہ لالچ اور غرور کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟“
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top