skip to Main Content
تین بندوقچی

تین بندوقچی

مصنف: الیگزینڈر ڈوما

ترجمہ: مسعود احمد برکاتی

بہادری اور سازشوں کے واقعات سے بھرپوردنیا کا مشہور فرانسیسی ناول

 اس دن جب لوگوں نے ایک نوجوان کو بڈھے مریل سے گھوڑے پر سوار آتے دیکھا تو ان کو کچھ عجیب سا لگا اور وہ اپنے اپنے کام چھوڑ کر سرائے کے باہر جمع ہو گئے۔فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپریل ۱۶۲۵ء کی ایک صبح یہ نوجوان پہنچا۔لوگوں نے اس کے انداز دیکھ کر سمجھ لیا کہ یہ نوجوان جنوبی فرانس کے علاقے گاسکوں کا ہی ہو سکتا ہے ۔صرف اسی علاقے کے لوگوں میں یہ ہمت ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے بوڑھے اور مضحکہ خیز گھوڑے پر سوار ہوں ۔گھوڑے کے بال نارنجی پیلے تھے ،مگر دم میں کو ئی بال نہیں تھا ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گھوڑا خود اپنی حالت پر شر ما کر گردن جھکائے ہوئے ہے‘لیکن یہ نوجوان شخص گھوڑے کی پیٹھ پر بڑے فخرکے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔اس کانام دارتاگناں تھا۔(آئندہ ہم اس کو صرف ’’دارتا‘‘لکھیں گے)اس کو پیرس جانا تھا۔وہاں وہ بادشاہ کے بندوقچیوں میں شامل ہونا چاہتا تھا ۔یہ بندوقچی بڑے بہادر اور جیالے سپاہی تھے اور فرانس کے بادشاہ لوئی۔ ۱۳ کے محافظ تھے۔

اس زمانے میں فرانس میں لڑائیاں عام تھیں۔وہاں کا مذہبی رہنما کاردینال رشیلیو حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔وہ بادشاہ کے برابر طاقت ور ہونے کی کوشش میں تھا۔ بادشاہ سے اس کی بنتی نہ تھی۔ فرانس کے بڑے بڑے خاندان بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ اسپین بھی فرانس کے خلاف جنگ کرنے کو تیار تھا۔فرانس کے کسی نہ کسی شہر میں گڑ بڑ اور فساد ہوتا ہی رہتا تھا۔ مشکل ہی سے کچھ دن امن چین سے گزرتے ہوں گے۔

دارتا کو بندوقچیوں میں شامل ہونے کا شوق ہوا تو اس کے باپ نے اس کو اپنے دوست تریول صاحب کے نام ایک خط لکھ دیا۔تریول صاحب بادشاہ کے بندو قچیوں کے کپتان تھے۔خط کے علاوہ باپ نے دار تا کو ایک پرس بھی دیا جس میں پندر ہ سنہر ے سکے تھے۔ایک تلوار بھی دی۔یہ تلوار ان کے خاندان میں کئی پشتوں سے چلی آ رہی تھی ۔ چلتے وقت باپ نے بیٹے کو نصیحت بھی کی۔ اس نے کہا: ِِ’’میرے بیٹے!میں نے تمہیں تلوار چلا نا سکھادی ہے۔کبھی ڈوئل لڑنے کا موقع آ جائے تو ہر گز پیچھے نہیں ہٹنا ۔موت سے نہ ڈرنا۔تمہیں بہا دری سے کام لینا چاہیے،اس لئے کہ تم ایک گا سکو نی ہو اور اس لئے بھی کہ تم میر ی اولا د ہو۔ تمہیں چاہیے کہ تم صرف بہادری کے کا موں سے شہرت اور عزت حا صل کرو۔ڈوئل میں تلوار کے وہ ہاتھ دکھاؤ کہ تمہا ری تعریف ہو اگر چہ باد شاہ کے حکم کے مطابق ڈوئل پر پا بندی عا ئد کر دی گئی ہے، لیکن اگر ڈوئل لڑنا ہی پڑے تو تمہاری تلوار تمہاری جیت اور عزت کا ذریعہ بنے۔ اگر تم زخمی ہو جاؤ تو یہ تمہا ری ماں کا بنا یا ہوامر ہم ہے ۔اس سے زخم ٹھیک ہو جا تے ہیں ۔ میں نے تمہیں تریول کے نام خط لکھ دیا ہے۔وہ میرا بہت اچھا دوست ہے ۔ وہ بھی گا سکونی ہے ۔آج کل شاہی بندو قچیوں کا کپتان ہے اور بادشاہ اور کا رو ینال کے بعد فرا نس کا تیسرا اہم آدمی ہے ۔ اس کے پاس وقار کے ساتھ جاؤ‘ لیکن کوئی نا انصافی بر دا شت نہ کر نا۔ البتہ با د شاہ اور کا ردینا ل سے کوئی زیادتی ہو جا ئے تو اس کو گوارا کر لینا‘‘۔

دار تا فرانس کے ایک باعزت خاندان سے تھا ۔ یہ خاندان بہا دری میں مشہور تھا ۔ کئی صدیوں سے اس خاندان نے اپنے وطن فرانس کی حفا ظت اور آن کے لئے بے شمار جنگوں میں حصہ لیا تھا‘لیکن اب یہ خاندان غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔اب ان کے پاس ’’بیار‘‘ کے علاقے میں صرف تھوڑی سی زمین رہ گئی تھی۔ یہ علا قہ گا سکوں کے بیچوں بیچ وا قع تھا ۔اس علاقے کے لوگوں میں ایک خاص قسم کا گھمنڈ اور غرور تھا اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔

دارتاجب میوں میں جو لی ملر کی سرائے کے قریب پہنچا تو اس کے کا نوں میں اپنے باپ کے الفاظ گونج رہے تھے ۔ وہ گھوڑے سے اترا۔ دروازے کے قریب تین آدمی کھڑے ہوئے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔اس کے بعد انھو ں نے ایک بارپھر دارتا کو غور سے دیکھا اور بے اختیار قہقہے لگا نے لگے۔ دارتا ان کے قریب جا کر بولا :

’’جناب !مجھے بھی تو بتائیے کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں‘تا کہ ہم سب مل کر ہنسیں۔‘‘

ان تینوں میں سے ایک شخص سب سے لمبا تھا ۔ اس کے بال گہرے سیاہ تھے ۔اس کی ایک آنکھ پر دھبا اور اس کے گال پر زخم کا نشان تھا ۔وہ ایک معزز آدمی معلوم ہوتا تھا ۔ اس نے ایک بار پھر گھوڑے اور دارتا پر نظر ڈالی اور حقارت سے بولا :

’’جنا ب! میں آپ سے کب بات کر رہا ہوں!‘‘

دارتا نے غصے سے جواب دیا:

’’لیکن میں آپ سے کہہ رہا ہوں ۔‘‘

اس آدمی نے دارتا کو نظر انداز کر دیااور گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے دوستو ں سے آہستہ سے کچھ کہا ۔ تینو ں نے پھر قہقہہ لگایا۔ دارتا نے اپنی تلوار نکا ل لی اور چلا کر کہنے لگا :

’’حضرات ! آپ گھو ڑے پر ہنس رہے ہیں ‘لیکن اس کے ما لک پر ہنسنے کی جرات نہ کرنا ۔‘‘

اس پر معزز آدمی نے کہا :

’’کسی کو مجھ سے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کب ہنسوں اور کب نہ ہنسوں۔میرا جب دل چاہتا ہے میں ہنستا ہوں ۔‘‘

یہ کہہ کر وہ سرائے کے اندر چلا گیا۔ دارتا کو اتنی برداشت نہیں تھی کہ کوئی اس پر ہنسے اور پھر بچ کر چلا جائے ۔ وہ اس آدمی کے پیچھے چلاتا ہوا دوڑا:

’’رکیے جنا ب !ورنہ میں آپ کو پیچھے سے ما روں گا ۔‘‘

وہ آدمی پلٹا اور اس نے بھی اپنی تلوار نکا ل لی۔ اسی لمحے اس کے دو ساتھی لکڑ یاں اور بیلچے لے کر آ گئے ۔ ان کے پہلے ہی وار میں دارتا کا سر زخمی ہو گیا۔دوسری مار میں وہ بے ہوش ہو گیا۔

سرائے کے مالک نے دو آدمی بھیجے کہ زخمی نوجوان کو اٹھا کر سرائے کے اندر لے آئیں۔انہوں نے دارتا کو بستر پر لٹایا تو اس کی جیب سے ایک خط نکل کر گر پڑا۔ مالک نے خط اٹھا کر دیکھاتو وہ بندوقچیوں کے کپتان کے نام تھا۔ مالک نے دل میں سوچا:

’’شاید یہ معزز آدمی کے کام کا ہو۔‘‘

اور یہ خط واقعی معزز آدمی کے کام کا نکلا۔خط دیکھ کر وہ بڑبڑایا:

’’اس نوجوان کو میرے دشمن سے کیاکام ہو سکتاہے! خیر ابھی تو مجھے میلادی سے زیادہ ضروری کام ہے۔بعدمیں اس خط پر توجہ کروں گا۔‘‘

اس عرصے میں دارتا ہوش میں آگیااور لڑ کھڑاتا ہوا سرائے کے دروازے تک آگیا۔اس نے معزز آدمی کو ایک خوب صورت عورت سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا ،جو ایک نفیس گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی۔معزز آدمی اس سے کہہ رہا تھا:

’’میلادی! کاردینال نے تمہیں فوراً انگلستان واپس جانے کا حکم دیا ہے۔دربار میں جلدی جلدی جاتی رہنا اور جب ڈیوک اوف بکنگھم لندن سے روانہ ہوتو کاردینال کو فوراً مطلع کردینا۔‘‘

عورت نے جواب دیا کہ میں خوب سمجھ گئی،لیکن تمہیں بھی فوراً روانہ ہو جانا چاہیے۔ذرا سی دیر بھی ہمارے منصوبے کو ناکام کر سکتی ہے، یہ نوجوان بھی ہمارے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

معزز آدمی اچک کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا اور پیرس کی طرف چل پڑا۔یہ دیکھ کر دارتا اس کے پیچھے دوڑنا چاہتا تھا ،مگر زخموں نے اس کو بہت کمزور کر دیا تھا، اس لیے وہ چند قدم سے آگے نہ بڑھ سکا۔

سرائے میں واپس پہنچ کر دارتا سوچنے لگاکہ معزز آدمی اور اس عورت کے در میا ن پراسرار گفتگو کا کیا مطلب ہے؟ جس کاردینال کاوہ ذکرکر رہے تھے وہی کاردینال رشلیلیو ہوگا، جس کی طاقت کا حال یہ ہے کہ فرانس پر اصل میں اسی کی حکومت ہے۔اور اس میں ڈیوک اوف بکنگھم وزیر اعظم انگلستان کا ذکر بھی آیا،جو بادشاہ چارلس اول کی اصل طاقت ہے۔کیا دونوں ملکوں میں لڑائی کرائی جائے گی؟ میں جب پیرس پہنچوں گا تو معلومات کروں گا۔

دوسرے دن صبح جب وہ پیرس روانہ ہونے کیلئے کپڑے بدل رہا تھا تو ا سکو معلوم ہوا کہ مسٹر تریول کے نام اس کے باپ نے جو خط دیا تھاوہ خط غائب ہے۔وہ غصے میں سرائے کے مالک پر بھڑک اٹھا او ر اس سے کہا کہ معلوم کرو کہ میرا خط کہاں ہے ۔سرائے کے مالک نے خوف زدہ ہو کر جواب دیا :

’’جناب!جس اجنبی سے آپ کی تکرار ہوئی تھی ‘یہ اسی کا کام ہے۔جب آپ بے ہوش تھے اس نے اس وقت وہ خط اڑا لیا تھا ۔‘‘

’’اچھا ؟میں پیرس پہنچ کر اس خبیث کے متعلق کپتان تریول صاحب کو رپورٹ دوں گا ۔اس معزز آدمی نے گاسکوں کے دارتا خاندان کے آخری آدمی کو نہیں سمجھا۔اس کو ضرور سزا ملنی چاہئے۔‘‘

پیرس پہنچ کر دارتاجب تریول صاحب کے دفتر کے احاطے میں داخل ہوا تو ہر طرف بندوقچیوں کے ٹولوں کو باتیں کرتے ہو ئے دیکھا۔اس کو یہ منظر اچھا لگا۔کچھ بندوقچی ڈوئل کی مشق کر رہے تھے ۔ڈوئل دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کن لڑائی کو کہتے ہیں ۔اس لڑائی کے کچھ قاعدے ہوتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے ذاتی جھگڑے چکائے جاتے ہیں ۔تلواروں اور پستولوں جیسے خطرناک ہتھیاروں کا استعمال ہوتا ہے ۔سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی میں فرانس ، انگلستان اور اٹلی میں ڈوئل لڑائی کا جنون تھا ۔ بعض بندوقچی کھڑے ہوئے باتیں اور ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ کاردینال کے محافظوں کا مذا ق اڑایا جا رہا تھا۔یہ محافظ‘ بادشاہ کے بندوقچیوں کے مقابلے کے لئے رکھے گئے تھے ۔

دارتا نے عمارت کے بڑے دروازے پر پہنچ کر دربان سے کہا کہ وہ تریول صاحب کو اس کی آمد کی اطلاع کر دے ۔چند منٹ کے بعد تریول صاحب دروازے پر خود آگئے۔ انھوں نے دارتا کو اشارہ کیا کہ اوپر ان کے دفتر پہنچ جائے اور پھر زور سے آواز دی:

’’او لڑکو! ارے آتو!ارے پورتو اور ارامی !یہاں آؤ!‘‘

ان تینوں میں سے صرف دو بندوقچی اپنی ٹولی سے نکل کر آگے بڑھے اور تریول صاحب کے پیچھے پیچھے دفتر میں آگئے۔اور دارتا کے پاس سے گزرے جو دروازے کے بالکل قریب اندر کھڑا تھا ۔دونوں بندوقچی مستعدی سے کھڑے ہوگئے۔ کپتان تر یول جو ش میں کبھی دو قدم آگے بڑھاتے کبھی پیچھے ہو تے ۔ یکا یک وہ رک گئے اور بندو قچیوں کی طر ف رخ کر کے چیخ کر بو لے :

’’ عزت مآب کا ر دینا ل نے مجھے بتایا ہے کہ کل میرے تین آدمیوں نے شراب کی ایک دکا ن میں دنگا فسا د شر و ع کیا اور کا ردینال کے محا فظو ں نے ان کو گر فتار کر لیا ۔ انکا ر کر نے کی کو شش نہ کرنا کہ وہ تم نہیں تھے‘کیوں کہ تم لو گوں کو پہچا ن لیا گیا تھا۔ تم پورتو ‘تم ارامی اور تم۔۔۔لیکن آتو کہاں ہے؟میں نے اس کو بھی آواز دی تھی۔‘‘

ٍ ارامی نے افسوس کے ساتھ جواب دیا:

’’جنا ب والا! آتو بیمار ہے۔‘‘

تریول صاحب نے کہا:

’’زخمی ہو گیا ہو گا !‘‘

’’جی جنا ب ! ہم تین کے مقا بلے میں وہ چھ محا فظ تھے۔ ہم خوب لڑے ‘مگر آتو زیا دہ زخمی ہو گیا۔ اس کا سینہ اور کندھا بری طرح زخمی ہوا ہے‘ لیکن ہم سب وہاں سے نکلنے میں کا م یا ب ہو گئے۔‘‘

اب تریول صاحب مسکرائے ۔ وہ فخر سے بو لے:

’’اچھا! تو کا ر دینال نے مجھے صرف آدھی کہا نی بتائی۔‘‘

اسی وقت دروازہ کھلا اور سب کے سر اس طرف پھر گئے۔ تریول صاحب چیخے:

’’آتو !‘‘

’’جنا ب ! آپ نے مجھے بلا یا ہے۔‘‘

’’ہا ں میرے بچے! میں تمہا رے سا تھیوں سے کہنے والا تھا کہ تم لو گو ں کو اپنی زندگیاں بے کار خطرے میں نہیں ڈالنی چا ہئیں‘ لیکن میں تم سب پر فخر کرتا ہوں ۔‘‘

یہ کہہ کر تریول صاحب نے آگے بڑھ کر آتو سے ہا تھ ملا یا ‘ لیکن ان کو آتو کی تکلیف کا صحیح اندازہ نہیں ہوا۔ اس بہادر بندوقچی کے ہونٹوں سے ایک دبی ہوئی آہ نکلی۔ تریول صاحب نے پورتو اور ارامی کو بھی مبا رک با د دی۔

تینوں بندوقچی چلے گئے تو تریول صاحب نے دارتا کی طرف توجہ کی:

’’اچھا اب بتاؤ‘ میں تمہا رے لئے کیا کر سکتا ہوں !‘‘

دارتا نے جواب دیا:

’’جنا ب !میرا نام دارتا گناں ہے ۔میرے والد آپ کے پرانے دوست ہیں ۔ میں آپ کے بندوقچیوں میں شا مل ہونے کے لیے یہاں آیا تھا ‘ مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ میں اس اعزاز کا مستحق نہیں ہوں ۔‘‘

تریول صاحب نے کہا کہ ہاں ‘ تمہارا باپ میرا سب سے پرانا دوست ہے ‘ مگر جب تک کوئی شخص جرات کا کوئی بڑا کا م نہ دکھائے یا جب تک وہ دو سال تک نچلے درجے میں تربیت حاصل نہ کر ے اس وقت تک وہ بندوقچی نہیں بن سکتا۔

یہ سن کر دارتا بولا کہ اگر میرے پاس میرے والد کا تعارفی خط ہوتا تو جناب ! آپ خود اندازہ فرما لیتے کہ مجھے کسی تر بیت کی ضرورت نہیں ہے ‘لیکن وہ خط یہاں آتے ہوئے راستے میں چرالیا گیا۔ اس کے بعد دارتا نے ’’میوں‘‘ میں جو کچھ اس پر گزری تھی وہ پوری کہانی تریول صاحب کو سنا دی اور جس اجنبی شخص نے وہ خط چرایا تھا اس کا حلیہ بھی بیان کر دیا ۔یہ سن کر تریول صاحب نے پوچھا :

’’کیا اس شخص کے چہرے پر زخم کا نشان تھا؟‘‘

’’جی جناب !اس کے سیدھے گال پرزخم کا نشان تھا۔‘‘

’’کیا اس کی الٹی آنکھ پر کوئی دھبا بھی تھا؟‘‘

’’جی ہاں ! مجھے یقین ہے کہ تھا ۔‘‘

’’کیا تم نے اس عورت کا نام سنا تھا؟‘‘

’’وہ اس کو میلادی کہہ کر مخاطب کر رہا تھا ۔‘‘

’’اس شخص نے عورت کو کیا ہدایات دی تھیں؟‘‘

’’اس نے کہا تھا کہ کار دینال صاحب چاہتے ہیں کہ تم فوراََ انگلستان واپس جاؤاور جب ڈیو ک اوف بکنگھم لندن سے روانہ ہوتو تم اس کی اطلاع کاردینال کو کر دو۔‘‘

تریول صاحب بلند آواز سے بو لے :

’’یہ وہی ہے ‘یہ وہی ہے۔‘‘

’’دارتا نے کہا کہ مہربانی کر کے مجھے بتا دیجئے کہ وہ کون شخص ہے۔ میں اس سے انتقام ضرور لوں گا۔ تریول صاحب نے کہا کہ نہیں ‘ اس کی تلاش کبھی نہ کرنا ۔ انتقام کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔میں ابھی تمہیں رنگرو ٹوں میں شامل کر نے کا حکم لکھے دیتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ تم بہت جلد تر بیت حاصل کر لو گے ۔‘‘ یہ کہہ کر تریول صاحب خط لکھنے اپنی میز پر بیٹھ گئے اور دارتا کھڑکی کے قریب ہو کر ٹھنڈی ہوا کھانے لگا۔یکایک وہ اچھلا اور یہ کہتا ہوا باہر بھاگا :

’’اب وہ مجھ سے نہیں بچ سکتا‘ نہیں بچ سکتا!‘‘

تریول صاحب نے حیران ہو کر پو چھاکہ کون ؟ کون بھئی؟

دارتا نے جا تے جاتے جواب دیا :

’’جس آدمی نے میرا خط چرایا تھا !‘‘

وہ سخت غصے کی حالت میں زینے سے اترنے لگااور ایک بندوقچی سے بری طرح ٹکرا گیا۔اس نے کہا کہ معاف کیجئے ‘ میں اس وقت بہت جلدی میں ہوں ۔ بندوقچی نے جواب دیاکہ تمہارے جلدی میں ہو نے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم میرے اوپر چڑھ جاؤاور اس نے دارتا کا راستہ روک لیا ۔اب دارتا نے آتو کو پہچان لیا اور کہا:

ارے اللہ ‘ یہ کیا ہوا۔یقین کرو میں نے جان کر تمہیں تکلیف نہیں پہنچائی ہے۔اب مجھے مہر با نی کر کے جا نے دو ۔‘‘

آتو نے جواب دیا :

’’تم بہت غیر مہذب ہو !‘‘

دارتا کو بھی تاؤ آگیا ۔اس نے کہا:

’’اچھا خیر ‘ لیکن تم مجھے تہذیب سکھانے والے کون ؟‘‘

’’شاید میں تمہیں ڈوئل میں سبق پڑھا سکوں !‘‘

’’میں ڈوئل لڑنے کو تیار ہوں ‘ بتاؤ کہاں لڑو گے؟‘‘

’’ دو پہر کو چرچ کے پیچھے ۔‘‘

دارتا نے اقرار میں سر ہلا یا اور پھر نیچے اترتا ہواآنگن میں پہنچا۔ سڑک پر جانے کا جو دروازہ تھا وہاں پورتو اور ایک دربان کھڑے تھے۔دونو ں کے بیچ میں اتنا فاصلہ تھا کہ دارتا آسانی سے نکل سکتا تھا۔چنانچہ اس نے جھپٹ کر وہاں سے نکلنا چاہا‘لیکن عین اسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیااور پورتو کا چغا اڑ کر اس طرف آگیااور دارتا اس میں لپٹ گیا ۔

پورتو غصے سے چلایا :

’’کیا تم پاگل ہو کہ لوگوں کے اندر اس طرح گھسے جا رہے ہو !‘‘

’’معاف کیجئے ۔ میں اس وقت بہت جلدی میں ہوں ۔‘‘

ٍ ’’ کیا تم جب دوڑتے ہو تو اپنی آنکھیں کہیں چھوڑآتے ہو؟ تمہیں سزا ملنی چاہیے۔‘‘

’’سزا ملنی چاہیے؟مجھے سزا کون دے گا ؟‘‘

پورتو چلایا:

’’میں دوں گا ۔ ایک بجے دوپہر کو ‘ لکسمبرگ باغ کے پیچھے ۔‘‘

’’ بہت اچھا جناب !‘‘کہہ کر دارتا سڑک پر دوڑ پڑا ۔ اس نے چاروں طرف نظر یں دوڑائیں مگر اس کو وہ شخص کہیں دکھائی نہیں دیا۔ سڑک سے ملی ہوئی گلیو ں میں بھی اس نے گھنٹہ بھر تک تلاش کیا اور آخر مایوس ہو گیا ۔وہ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ میں بھی کتنا احمق ہوں ۔ مجھے پیرس پہنچے ہوئے ابھی صرف تین گھنٹے ہوئے ہیں اور میں نے تریول صاحب پر برا ا ثر چھوڑنے کے علاوہ دو ڈوئل لڑائیا ں بھی مول لے لیں ۔ یہ بندوقچی مجھے آسانی سے موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ اگر میں ان لڑائیوں کے بعدکسی طرح زندہ بچ گیا تو آئندہ ذرا نرم اور مہذب بننے کی کو شش کروں گا۔

اسی وقت اس نے آنگن کے دروازے پر ارامی کو تین محافظو ں سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا ۔وہ ان کی باتوں میں خلل نہ ڈالتا ‘مگر اس نے دیکھا کہ ارامی نے اپنا رومال زمین پر گرایا اور اس پر پاؤ ں رکھ دیا۔دارتا نے اس خیال سے کہ لاؤمیں اس کی مدد کروں ‘ بڑھ کر اور جھک کر رومال ارامی کے پاؤ ں کے نیچے سے کھینچا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بہت اچھے لہجے میں کہا :

’’جناب! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کا روما ل ہے جو زمین پر گڑ پڑا تھا ۔‘‘

ارامی سرخ ہو گیا اور دارتا کے ہاتھ سے رومال چھین لیا۔رومال سے خوشبو کے بھپکے اڑ رہے تھے جو محافظوں تک بھی پہنچے۔ان میں سے ایک نے بڑے جوش سے کہا :

’’اوہو ارامی صاحب ! اتنا اچھا رومال جس پر تاج بھی کڑھا ہوا ہے ۔یقیناًیہ ملکہ کی خادماؤں میں سے کسی کا تحفہ ہے ہمیں بھی تو کچھ بتائیے۔‘‘

دارتا کو احساس ہوا کہ اس نے ارامی کو پریشانی میں ڈال دیا ۔

اس نے کہا:

’’مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف کر دیں گے۔۔۔‘‘

’’تمہیں معاف کر دوں ؟ ایک احمق بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ کوئی شریف آدمی کسی خاتون کے رومال پر صرف اسی وقت پاؤں رکھ سکتا ہے جب وہ اسے چھپانا چاہے۔‘‘

دارتا چیخ پڑا :

’’آپ نے مجھے احمق کہا! میں نے تو معافی چاہی تھی ۔‘‘

’’ایسی توہین کرنے کی معافی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ میری تلوار ہی ڈوئل میں اس کا فیصلہ کرے گی ۔ میں دو بجے گرجا کے پیچھے تیار ملوں گا۔‘‘

’’ میں بھی آپ کو ٹھیک وقت پر وہاں ملوں گا ۔‘‘دارتا نے اسی ٹھسے سے جواب دیا ۔

دوپہر کا وقت تھا ۔ دارتا اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے آتو کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف لپکا۔ اس نے دل میں کہا کہ اگر آج میں ڈوئل میں مر گیا تو کم سے کم میری موت ایک بندوقچی کے ہاتھوں تو ہوگی۔

جب دارتا چرچ کے پیچھے خالی میدان میں پہنچا تو آتو پہلے سے وہاں موجود تھا۔انھوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا ۔ آتو نے کہا کہ اس کے گواہ بس آنے ہی والے ہونگے۔

دارتا بولا:

’’جناب ! میرا کوئی گواہ نہیں ۔ ہماری ڈوئل کو دیکھنے کے لئے میرا کوئی آدمی نہیں ہوگا۔ میں آج ہی صبح پیرس پہنچا ہوں اور یہا ں کے کسی شخص سے واقف نہیں ہوں ‘لیکن میں ایک بہادر بندوقچی سے تلوار لڑانے میں فخر محسوس کروں گا ۔ایسا بہادر جس کے زخم ابھی تک ہرے ہیں مگر پھر بھی وہ لڑنے کو تیار ہے ۔‘‘

یہ سن کر آتو نے بتایا کہ ہاں واقعی اس کے زخموں میں بہت تکلیف ہے ۔ دارتا بولا:

’’تو پھر آپ یہ مر ہم قبول کریں ۔ یہ میں گاسکوں سے لایا ہوں ۔ یہ میری ماں بناتی ہے ۔اور دو دن میں زخم کواچھا کر دیتا ہے۔‘‘

آتو نے خوش دلی سے جواب دیا :

’’بہت مہربانی! میرا خیال ہے کہ اگر اس لڑائی میں ہم دونوں بچ گئے تو پھر ہم آئندہ کے لئے اچھے دوست ثابت ہوں گے۔۔۔وہ دیکھئے ‘میرے گواہ آرہے ہیں ۔‘‘

دارتا نے پلٹ کر دیکھا تو دو بندوقچی آرہے تھے ۔ وہ چلایا:

’’آپ کے گواہ یہ ہیں ؟یہ تو پورتو اور ارامی ہیں !‘‘

آتو نے کہا کہ ہاں یہی میرے گواہ ہیں ۔ ہم تینوں کبھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔پورا پیرس ہمیں تین بندوقچیوں کے نام سے جانتا ہے ۔ہمارا نعرہ ہے: ہم سب ایک ہیں اور ہم میں سے ہر ایک سب کے لئے ہے۔

پورتو قریب آیا اور اس کی نظر دارتا پر پڑی تووہ چلایا کہ یہ شخص یہاں کیا کر رہا ہے۔آتونے بتایا کہ انہی صاحب کے ساتھ اس وقت مجھے ڈوئل لڑنی ہے ۔ پورتو نے کہا :

’’ مگر مجھے بھی ان سے ڈوئل لڑنی ہے۔‘‘

ارامی بھی بول اٹھا:

’’اور ان سے میری ڈوئل بھی طے ہو چکی ہے۔‘‘

دارتا اطمینان سے بولا:

’’تو پھر آتو صاحب !ہمیں شروع کر دینا چاہیے ۔ میں اپنے باقی دونوں عظیم محافظوں کو بھی زیادہ دیر انتظار میں رکھنا نہیں چاہتا۔‘‘

اب آتو اور دارتا نے اپنی اپنی تلواریں میانوں سے باہر نکال لیں ‘ لیکن تلواریں ابھی مشکل ہی سے اوپر لہرائی تھیں کہ کاردینال کے محافظوں کاایک دستہ نُکّڑ پر دکھائی دیا ۔پورتو نے جلدی سے کہا :

’’فوراً اپنی تلواریں میانوں میں رکھ لو ‘ ورنہ یہ محافظ کار دینال کے حکم سے تمہارے خلاف قانونی کارر وائی کریں گے ۔ ڈوئل لڑنا قانون کے خلاف ہے ۔‘‘

لیکن وقت نکل چکا تھا ۔ محافظ قریب پہنچ چکے تھے ۔انھوں نے بندوقچیو ں کو گرفتار کرنا چاہا ۔آتو بولا:

’’یہ محافظ پانچ ہیں اور ہم تین ‘لیکن ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے میں ‘میں مرنا پسند کروں گا ‘ورنہ میں تریول صاحب کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘

دارتا بیچ میں بول اٹھا :

’’آپ صرف تین نہیں ہیں ۔ہم چار ہیں ۔ میں نے بندوقچی کی وردی نہیں پہن رکھی ہے‘لیکن میرا دل ایک بندوقچی کا سا بہادر ہے ۔‘‘

آتو نے یہ سن کر آواز نکالی:

’’تو پھر آگے بڑھو ۔‘‘

چاروں نے محافظوں پرہلہ بول دیا اور وہ ایک ساتھ چلائے:

’’ ہم سب ایک ہیں اور ہم میں سے ہر ایک سب کے لئے ہے!‘‘

دارتا ایک شیر کی طرح لڑا ۔اسے بہادر بندوقچیوں کے ساتھ لڑنے پر فخر ہورہا تھا ۔منٹوں میں انھوں نے چار محافظ کو موت کی نیند سلا دیا ۔ پانچواں زخمی ہوگیا۔آتو نے کہا:

’’بس اتنا کافی ہے۔ہمیں اس زخمی محافظ کو چرچ کے دروازے تک پہنچادینا چاہیے اور پھر اپنا راستہ لینا چاہیے۔‘‘

تینوں بندوقچیوں نے خوش ہو کر دارتا کا بازو تھام لیا ۔اب وہ سب ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ایک ساتھ چلنے سے گلی پوری گھر گئی تھی۔راستے میں انھیں جو بندوقچی ملا اس کو انھوں نے سلام کیا اوراس سے دارتا کا تعارف کرایا۔وہ اپنانعرہ دہرا رہے تھے:

’’ہم سب ایک ہیں اور ہم میں سے ہر ایک سب کے لیے ہے !‘‘

اس کامیابی سے دارتا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔اب اس کے لئے باشاہ کے بندوقچی بننے کا راستہ ہموار ہو رہا تھا۔

کپتان تریول کو جب معلوم ہواکہ ان کے بندوقچیوں نے کس طرح کاردینال کے محافظوں کی پٹائی کی اور ختم کر دیا تو انھوں نے بندوقچیوں کو سب کے سامنے توڈانٹا‘لیکن اکیلے میں شاباشی دی۔بادشاہ لوئی ۱۳ بھی اس خبرسے خوش ہوا۔اس نے کاردینال رشیلیوکو کافی اختیارات دے دیئے تھے ‘مگر وہ دل میں اس سے خوش نہ تھا۔اس نے جب کاردینال کے محافظوں کی پٹائی کا واقعہ سنا تو اس کو اچھا لگا اور اس نے تریول کے چاروں آدمیوں کو محل میں طلب کیا اور ان کو بہا دری پر مبارک باد دی ۔ بادشاہ نے ان کو دیکھ کر کہا:

’’آؤ‘میرے بہادرو‘ آؤ!‘‘تینوں بندوقچی اور دارتا آگے بڑھ کر بادشاہ کے سامنے جھک گئے۔بادشاہ نے نوجوان دارتا کو دیکھا تووہ سمجھ گیا کہ یہ گاسکوں سے آیا ہے۔اس نے کہا:

’’ لڑکے ! تم ابھی کم عمر ہو ‘ لیکن میرے بندوقچیوں کے ساتھ پوری دلیری سے لڑے۔میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں ۔یہ چالیس اشرفیا ں تمہارے کام آئیں گی‘کیوں کہ تم ابھی پیرس میں نئے آئے ہو۔‘‘

ٍ دارتا نے مٹھی بھر سونے کے سکے خوش ہو کر لئے اورجھک کر بادشاہ کا شکریہ ادا کیا۔

بادشاہ نے اب چاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں تم سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم میرے سچے خیر خواہ اور وفا دار ہو ۔

محل سے باہر نکل کر دارتا نے اپنے تینوں دوستوں سے پوچھا کہ وہ انعام کی اس رقم کو کس طرح خرچ کرے؟ آتو نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں اچھاسا ڈنر کھلاؤ۔پورتو کی تجویز تھی کہ دارتا کو ایک ملازم رکھنا چاہیے جو اس کی خدمت کرے اوراس کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے۔ارامی نے مشورہ دیا کہ اس کواپنے رہنے کے لیے جگہ کا انتظا م کرنا چاہیے ۔دارتا نے تینوں باتوں پر عمل کیا ۔

اب دارتا ایک رنگروٹ کی حیثیت سے پیرس میں اپنے آپ کو جما رہا تھا ۔کئی مہینے تک وہ پوری دلچسپی اور جوش کے ساتھ تربیت حاصل کرتا رہا اور اپنا سارا باقی وقت تینوں بندوقچیوں کے ساتھ گزارتا رہا‘لیکن ان کے اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ ان تینوں کے ذاتی حالات سے بہت کم واقف ہوا۔ اس کو صرف یہ معلوم تھا کہ آتو ایک شریف آدمی ہے اور ایک بار ناکام محبت کر چکا ہے ۔ پورتو سے ایک ڈچ خاتون شادی کرنا چاہتی ہے اور ارامی ایک بندوقچی کی حیثیت سے اپنی نوکری ختم کر نے کے بعد ایک پادری بننا چاہتا ہے۔بس اس سے زیادہ دارتا کو ان کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دارتا کو اندازہ ہونے لگا کہ چالیس اشرفیاں ہمیشہ ساتھ نہیں دیں گی۔اس کی جیب خالی ہونے لگی۔ ایک دن یکایک ایک آدمی اس سے ملنے آیا۔اس کے نوکر پلانشے نے اس کو اطلاع دی تو اس نے مہمان کو اندر بلوالیا۔ چھوٹے قد اور گھٹے ہوئے بدن کا یہ آدمی پچاس سے اوپر ہوگا۔اس کا چہرہ دارتا کو مانوس معلوم ہوا‘ لیکن یہ یاد نہ آیا کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔سلام ودعا کے بعد دارتا نے اجنبی سے اس کے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے کہا :

’’دارتا صاحب !مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک بہادر انسان ہیں۔میں آپ کو ہمیشہ تین بندوقچیوں کے ساتھ دیکھتا ہوں ‘ اس لیے میں اپنا راز آپ پر ظاہر کر سکتاہوں ۔‘‘

دارتانے سوچا کہ کوئی خاص بات ہے اور کوئی مہم جویانہ واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے اجنبی سے کہا کہ ہاں ضرور ‘ فرمائیے‘میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ۔‘‘

’’دارتاصاحب ! میری جوان بیوی ملکہ کی معاون خاتون ہے ۔ کل وہ محل سے نکل رہی تھی کہ اس کو اغواء کر لیا گیا ۔‘‘

’’کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس کو کیوں اغواء کیا گیا ہے ؟‘‘

’’ دربار میں سیاست اور محبت کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں ملکہ کی محبت۔۔۔‘‘

’’کیا ملکہ اینی کا ذکر کر رہے ہیں ؟‘‘

’’جی جناب !فرانس میں ہر شخص جانتا ہے کہ بادشاہ بے چاری ملکہ کی طرف سے بے پروا ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان کی شادی سیاسی مقصد سے ہوئی تھی ‘یعنی فرانس اور اسپین میں امن قائم رکھنے کے لیے یہ رشتہ ہوا تھا‘لیکن ہماری خوبصورت ملکہ انگلستان کے وزیراعظم ‘ڈیوک اوف بکنگھم کو چاہتی ہے۔ڈیوک بھی ملکہ کو پسند کرتا ہے۔‘‘

’’لیکن یہ سب آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’اپنی بیوی سے ۔بیوی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ چندہفتوں سے ملکہ بہت خوفزدہ ہے ۔اس کو ڈر ہے کہ کاردینال ڈیوک کو کسی طرح پیرس بلا کر پھا نسنا چاہتا ہے اوراس طرح ملکہ کو بدنام کرنا چاہتا ہے ۔‘‘

’’لیکن ان سب باتوں کا آپکی بیوی کے اغوا سے کیا تعلق ہے؟‘‘

’’دارتا صاحب !میری بیوی کانستانس‘ملکہ کی رازدار ہے اور کاردینال اس سے ملکہ کے راز اُگلوانا چاہتا ہے ۔‘‘

’’آپ کی بیوی کو جس شخص نے اغوا کیا ہے آپ اسے جانتے ہیں ؟‘‘

’’مجھے اس کا نام تو معلوم نہیں ‘لیکن میں اس کا حلیہ بیان کر سکتا ہوں۔ وہ ایک لمبا ‘کالا معزز آدمی ہے ۔اس کی مونچھیں کالی ہیں ۔ اس کے سیدھے گال پر زخم کا نشان اور الٹی آنکھ پر ایک دھبا ہے۔‘‘

دارتا حیرت سے چیخ پڑا:

’’اچھا تو یہ وہی میوں والا آدمی ہے ۔تم نے جو حلیہ بیان کیاہے اس میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی؟‘‘

’’مجھے اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ میرا نام بوناسیوہے۔‘‘

’’اچھا آپ کا نام بوناسیو ہے!شاید میں نے یہ نام پہلے بھی سنا ہے۔‘‘

’’ضرور سنا ہوگا ۔میں آپ کا مالک مکان ہوں دارتاصاحب !اور آپ اپنی اہم مصروفیت کی وجہ سے پچھلے تین مہینے سے کرایہ ادا نہیں کر سکے ہیں ۔میں نے سوچا کہ آپ میری مدد کرنے کے لیے وقت نکال سکیں گے اور۔۔۔‘‘

’’بے شک بوناسیو صاحب !میں آپ کی مدد کروں گا ۔مجھے باقی باتیں بھی بتائیے۔‘‘

بوناسیو نے اپنی جیب سے ایک خط نکالااور بتایا کہ یہ خط مجھے گزشتہ رات ملا تھا ۔دارتا نے خط پڑھا ۔لکھاتھا:

’’تمہاری بیوی تمہیں اس وقت واپس کی جائے گی جب اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس کی تلاش کرو گے تو گرفتار کر لیے جاؤ گے۔‘‘

بوناسیوچلایا:

’’دارتا صاحب! مجھے جیل جانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔مہربانی کرکے میری مدد کیجئے۔میں آپ پر چڑھاہوا تین مہینے کا کرایہ چھوڑدوں گا۔‘‘

’’ہاں ہاں !اچھی بات ہے ۔مجھے آپ کی بات منظور ہے۔‘‘

’’اس کے بعد بوناسیو چلا گیااور دارتا نے اپنے نوکر پلانشے کوبھیج کر تینوں بندوقچیوں کو بلوایا اور ان کو بوناسیوکی پریشانی بتائی‘لیکن جیسے ہی دارتا نے اپنی بات ختم کی بوناسیو ہانپتا کانپتا اور چیختا ہوادوبارہ اندر آگیاکہ مجھے بچاؤ‘مجھے بچاؤ‘وہ مجھے گرفتار کرنے آگئے ہیں۔‘‘

کاردینال کے چار مسلح محافظ دروازے پر کھڑے تھے۔دارتا نے ان سے کہا:

’’حضرات! اندرآجائیے۔ہم سب بادشاہ اور کاردینال کے وفادار ہیں ۔آپ اس آدمی کو پکڑنے آئے ہیں تو لے جائیے۔‘‘

بوناسیوچلایا:’’مگر آپ نے وعدہ کیا تھا۔۔۔‘‘دارتا نے دھیرے سے کہا:

’’ہم آپ کو اسی وقت بچا سکتے ہیں جب ہم آزاد ہوں ۔اگر ہم پکڑ لیے گئے توہم آپ کی یا آپ کی بیوی کی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

چنانچہ بوناسیو کو کاردینال کے محافظ پکڑ کر لے گئے۔جیسے ہی وہ لوگ باہر گئے آتو نے کہا کہ دارتا ‘تم نے بڑی عقل مندی سے کام لیا۔دارتا نے جواب دیا:

’’شکریہ دوستو!بس آج سے کاردینال کے خلاف جنگ شروع!‘‘

بوناسیوکی گرفتاری کے بعد کاردینال کے محافظوں نے اس کے گھر کی نگرانی بھی شروع کر دی ۔بوناسیو ایک فلیٹ میں رہتا تھا ‘جو پہلی منزل پر تھا ۔جو بھی اس کے فلیٹ پر آتا اس کو محافظ روکتے اور اس سے سوالات شروع کر دیتے۔دارتا اسی فلیٹ کے اوپر والے فلیٹ میں رہتا تھا ‘ جس کے فرش میں ایک ایسا سوراخ تھا جس میں سے وہ بوناسیو کے فلیٹ میں دیکھ سکتا تھا اور اس کو آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ایک رات اس کو اسی سوراخ سے ایک عورت کی چیخیں سنائی دیں ۔دارتا نے دیکھا کہ یہ بدتمیز لوگ ایک عورت کو پریشان کر رہے ہیں ‘باندھ رہے ہیں اور اس کی تلاشی لے رہے ہیں ۔عورت کی آواز آئی:

’’میں تم سے سچ کہتی ہوں ‘یہ میرا گھر ہے ۔میں بوناسیوکی بیگم ہوں !‘‘

دارتا بڑبڑایا:’’بیگم بوناسیو؟تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسکو رہا کر دیا گیا ہے ‘لیکن یہ اس کو پھر کیوں پریشان کر رہے ہیں۔‘‘دارتا ایک دم کھڑا ہوگیا۔ اپنی تلوار سنبھالی اور بوناسیو کی کھڑکی کی طرف دوڑا۔

اس کے نوکر نے پوچھا :’’آپ کیا کرنے جارہے ہیں ؟‘‘دارتا نے جواب دیا کہ میں ا ن کو روکنے جا رہا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے کھڑکی پر لات ماری اور اس کو زمین پر گرا دیا اور اندرداخل ہو گیا۔وہ اپنی تلوار ان لوگوں کے سامنے لہرارہا تھا۔

چند منٹ بعد کاردینال کے محافظ دوڑتے ہوئے دروازے سے باہر آئے۔ان کی وردیاں تار تار ہو گئی تھیں ۔اندر دارتا کھڑاہوا بیگم بوناسیو کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔وہ آرا م کرسی پر بے ہوش پڑی تھی۔ وہ خوبصورت اور نوجوان تھی‘ ہو گی یہی کوئی۲۵ سال کی ۔دارتا نے سوچا کہ بوڑھے بوناسیو سے تو یہ بہت کم عمر ہے ‘مگر اس قسم کی شادیوں میں یہی ہوتا ہے۔بیگم بوناسیو ہوش میں آرہی تھی۔اس نے اپنے بازو دارتا کی طرف بڑھائے اور بولی:

’’اف آپ میری جان بچالی ‘مگر آپ کوکیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’آپ کے شوہر میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے آپ کو بچانے کے لیے مدد چاہی تھی۔‘‘

’’جس کمرے میں مجھے بند کیا گیا تھا‘اس کی کھڑکی سے میں بڑی مشکل سے نکل سکی ۔‘‘

دارتا نے مسکرا کر کہا:

’’سمجھ دار لڑکی ہو۔ہم کچھ اور باتیں کریں گے لیکن یہ جگہ محفوظ نہیں ہے ۔محافظ جلد ہی آنے والے ہوں گے۔‘‘

بیگم بوناسیو جلدی سے بولی :

’’مجھے آج ہی محل واپس پہنچ جانا چاہیے۔ملکہ کو میری ضرورت ہے۔آپ جوان اور بہادر ہیں ۔میرا شوہر بوڑھا اور بزدل ہے ۔اگر ذرا بھی خطرہ ہوا تو وہ میری مدد نہیں کرے گا۔‘‘

دارتا نے خوش ہوکر جواب دیا:

’’کانستانس !آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں ۔میں آپ کو دیکھ کر پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ میں آپ کے لیے سب کچھ کر سکتا ہوں ۔‘‘

کانستانس نے سر گوشی کے انداز میں جواب دیا:

’’اگر آپ ہماری مدد کریں گے تو آپ سے میری محبت میں اضافہ ہوگا اور ملکہ بھی آپ کی شکر گزار ہوں گی۔‘‘

دارتا نے جھک کر جواب دیا :

’’مجھے بتایئے کہ میں آپ کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں ۔‘‘

کانستانس نے بتایا کہ کاردینال کے محافظ میری تلاش میں ہیں ۔مہربانی کر کے محل تک میرے پیچھے پیچھے چلئے تاکہ میں حفاظت سے وہاں پہنچ جاؤ ں ۔‘‘

دارتا نے کہا کہ عزیزہ من !کوئی فکر نہ کریں ‘آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔میں قسم کھا کر کہتا ہوں ۔چنانچہ کانستانس روانہ ہوگئی۔دارتا اس سے کوئی بیس قدم پیچھے چلتا رہا ۔چند منٹ کے بعد کانستانس ایک دروازہ پر رکی اور اس نے تین باردروازہ کھٹکھٹایا۔دروازہ کھلا اور اندرسے ایک سایہ نکل کر کانستانس تک آیا ۔وہ ایک مرد تھا ۔ جب اس نے کانستانس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو دارتا غصہ سے بھڑک اٹھا ۔اس نے سوچا کہ ابھی چندمنٹ پہلے اس عورت نے کیا کہا تھا اور اب یہ کیا کر رہی ہے ۔وہ لپک کر ان دونوں کے سامنے آگیا اوران کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا ۔اس آدمی نے دارتا سے پوچھا کہ جناب!آپ کیا چاہتے ہیں ۔ہمیں جانے دیجئے۔اس آدمی کا لہجہ فرانسیسی نہیں تھا ‘وہ کسی دوسرے ملک کا معلوم ہوتا تھا ۔دارتا کانستانس کا بازو پکڑ کر چلایا :

’’اس خاتون کے کندھے پر سے اپنے ہاتھ ہٹا لیجیے۔‘‘

’’دارتا صاحب !میں نے آپ کو پیچھے پیچھے آنے کو کہا تھا ‘اپنے کام میں دخل دینے کے لیے نہیں کہا تھا ۔‘‘کانستانس بولی۔

دارتا نے اپنی تلوار سونت لی اور چلایا:

’’تمہارے کام میں دخل ؟یہ آدمی کون ہے؟‘‘

اسی لمحے اس آدمی نے بھی اپنی تلوار نکال لی ۔کانستانس فوراََچیخ پڑی:

’’میرے آقا !اللہ کے لیے ذرا ٹھہرجایئے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ ان دونوں مردوں کے درمیان آگئی۔دارتا’’ میرے آقا‘‘کے الفاظ سن کرکچھ سمجھ گیا ۔اس نے جلدی سے پوچھا کہ کون آقا؟شاید آپ۔۔۔

کانستانس نے بتایا کہ ہاں یہی ڈیوک اوف بکنگھم ہیں ۔میں ان کو ملکہ کے پاس لے جا رہی ہوں۔

دارتا ادب سے جھک کر بولا:

’’میرے محترم!ایک ہزار بارمعافی چاہتا ہوں ۔میں مادام بوناسیو کو پسند کرتا ہوں ۔میرے جوش میں آنے سے آپ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔میں کس طرح آپ سے معافی چاہوں؟‘‘

اس کے جواب میں ڈیوک نے کہا کہ تم ایک بہادر جوان ہو۔تم ہمارے ساتھ محل تک چل کر ہماری مدد کر سکتے ہو۔جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے اس کو مار ڈالنا۔

’’بہت بہتر میرے آقا!‘‘کہہ کر دارتا ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اور ان کو محل کے ایک بغلی دروازے تک پہنچادیا۔وہ دونوں دو وزنی فولادی دروازوں سے اندر چلے گئے۔کانستانس ڈیوک کو ایک اندھیرے زینے سے ایک کمرے میں لے گئی جہاں موم بتیوں کی ہلکی ہلکی روشنی تھی۔اب فرانس کی ملکہ اس کے سامنے تھی۔وہ گھٹنوں کے بل جھک گیا اور چلایا

’’اینی!‘‘

ملکہ نے دھیرے سے کہا:

’’میرے محترم !آپ کیوںآئے ہیں ؟آپ کو معلوم ہے کہ کاردینال آپ کو پھنسانے کی فکر میں ہے۔آپ اپنی زندگی اور میری عزت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘‘

ملکہ کا چہرہ ڈر کے مارے سفید ہورہا تھا۔ڈیوک نے جواب دیا:’’میں آپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔اس کے لیے میں بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لے سکتا ہوں۔‘‘

ملکہ چلائی:

’’لیکن یہ دیوانگی ہے ۔کاردینال مجھے برباد کرنے کے لیے ثبوت جمع کر رہا ہے ۔‘‘

ڈیوک خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ملکہ نے اپنی بات جاری رکھی:

’’میرے محترم !میں بادشاہ کی بیوی ہوں۔مجھے اس سے لگاؤ نہیں ہے، لیکن میں اس کی بدنامی نہیں چاہتی۔ مہربانی کرکے آپ تشریف لے جایئے۔‘‘

’’جی ہاں میں جا رہا ہوں ‘لیکن ہماری دوسری ملاقات تک کے لیے مجھے کوئی ایسی چیز دے دیجئے جو مجھے آپ کی یاد دلاتی رہے‘ کوئی انگوٹھی ‘کوئی زنجیر‘کوئی چیز جسے میں اپنے پاس رکھ سکوں ۔‘‘

ملکہ نے اپنے گلے میں سے ایک ربن کھولا۔اس میں ۱۲بڑے بڑے بٹن لگے ہوئے تھے۔اس کو ڈیوک کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ رکھ لیجئے یہ آپ کو میری یاد دلاتے رہیں گے۔ ڈیوک نے اس کو لیتے ہوئے بڑی محبت سے ملکہ کی طرف دیکھا اور بولا:

’’آئندہ میں آؤں گا تو میں فرانس فتح کر چکا ہوں گا ۔اس وقت ہم چھپ کر نہیں ملیں گے۔‘‘

یہ کہہ کر ڈیوک کمرے سے باہر آگیا۔کانستانس نے اس کو راستہ بتایا ۔وہ محل سے نکل کر اس گھرمیں آگیا جہاں وہ چھپا ہواتھا۔وہاں ایک گاڑی تیار کھڑی تھی تا کہ ڈیوک کو ساحل تک پہنچادے جہاں سے اس کو انگلستان جانا تھا۔

اس دوران بوناسیو گرفتار ہوچکا تھا اور اسے باستیل جیل پہنچا دیا گیاتھا ۔وہاں ایک خفیہ کوٹھری میں بند کر کے کاردینال کے محافظوں کا افسر اس سے سوال جواب کر رہا تھا ۔افسر نے کہا کہ اے قیدی! تم اورتمہاری بیوی نے فرانس کے خلاف سازش کرنے کا جرم کیا ہے۔

بوناسیو حیرت سے چلایا:

’’سازش ؟لیکن مجھے تو کچھ بھی نہیں معلوم اور میری بیوی کو تو اغوا کیا جا چکا ہے۔‘‘

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اسے کس نے اغوا کیا ہے؟‘‘

’’مجھے ایک لمبے‘کالے معزز آدمی پر شبہ ہے۔اس آدمی کی الٹی آنکھ پر ایک دھبا ہے۔‘‘

افسرنے لکھنا بند کر دیا اور حیرت سے منھ اٹھا کر اوپر دیکھنے لگا ۔پھر اس نے کہا:

’’اب تو اس معاملے سے کاردینال رشیلیو ہی نمٹیں گے۔‘‘

اس نے دو آدمیوں کو بلایا جو بوناسیو کو باستیل سے ایک بندگاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔گاڑی چلتی رہی اورآخر پیرس کی ایک بڑی سیاہ عمارت کے پچھلے دروازے پر جا کر رکی۔بوناسیو کو گاڑی سے اتارکر اس دروازے میں سے اندر لے جایا گیا ‘پھر ایک زینے پر سے گزار کر ایک کمرے میں پہنچادیا گیا ۔کمرہ بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا ۔وہاں ایک درمیانے قد کا سفید بالوں والا آدمی بیٹھا تھا۔بوناسیوکو اس کے سامنے لے جا کر کھڑاکر دیا گیا۔اس آدمی کے چہرے سے غرورٹپکتا تھا اور اس کی آنکھوں میں بڑی تیز چمک تھی۔اس کے سر کے پچھلے حصے پر ایک چھوٹی سی سرخ ٹوپی رکھی تھی ۔اس کا لمبا سرخ اوور کوٹ زمین کو چھورہاتھا۔اس کی گردن میں ایک سنہری ہار پڑا ہوا تھا۔یہ کاردینال رشیلیو تھا‘فرانس کا سب سے طاقت ور شخص۔اس نے بڑی حقارت سے کہا:

’’اچھا تو تم ہو بوناسیو!تم پر الزام ہے کہ تم اپنی بیوی اور ڈیوک اوف بکنگھم کے ساتھ مل کر فرانس کے خلاف سازش کر رہے ہو۔‘‘

’’لیکن حضور والا !میری بیوی کو تو اغوا کر لیا گیا ہے اور جب میں نے اس کے اغوا کرنے والے کا حلیہ بیان کیا تو آپ کاافسر مجھے باستیل سے یہاں لے آیا۔‘‘

کاردینال نے گھنٹی بجائی ۔یہ گھنٹی چاندی کی بنی ہوئی تھی۔چندلمحوں میں ایک آدمی اندر آیا ۔یہ آدمی وہی تھا جس کا حلیہ بوناسیو نے بیان کیا تھا ۔بوناسیو اس کو دیکھتے ہی چلایا:

’’یہ وہی ہے۔ اسی نے میری بیوی کو اغوا کیا ہے۔‘‘

کاردینا ل ر شیلیو مسکرایا اور اس نے دوبارہ گھنٹی بجائی۔دو آدمی فوراََ حاضر ہوئے۔کاردینا ل نے حکم دیا کہ بوناسیو کوباہر لے جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں باہر ہی رکھو۔‘‘

بوناسیوکے باہر جاتے ہی کاردینال اس آدمی کی طرف مڑا اور ہنسا۔

’’روشفور!تمہیں اس احمق نے پہچان لیا، لیکن پروا نہیں میرے دوست! اور کوئی نئی خبر لائے ہو؟‘‘

’’حضور!دوست نہیں کہیے۔میں آپ کا معتبر خادم اور جاسوس ہوں۔اگر چہ اس بار ناکامی ہوئی ۔بونا سیو کی بیوی بچ کر نکل گئی۔ لیکن خیر اب اس کی اہمیت بھی نہیں رہی، کیوں کہ میں بہت اہم خبر لایا ہوں۔ ملکہ اور ڈیوک اوف بکنگھم نے محل میں ملاقات کی ہے۔‘‘

رشیلیو نے پوچھا:

’’تو پھر ان کے درمیان کیا بات ہوئی؟‘‘

’’ملکہ کی ایک خادمہ پردے کے پیچھے سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ ملکہ نے ڈیوک کو اپنے ہیروں کے بٹن دے دیے ہیں ۔ یہ بٹن بادشاہ کو بہت پسند تھے اور اس نے ملکہ کی پچھلی سال گرہ پر تحفے میں دیے تھے۔‘‘

کاردینال نے یہ بات بڑی دلچسپی سے سنی۔ اس نے کہا:

’’بہت خوب! شاباش روشفور! یہ ہیرے جو اب انگلستان پہنچ گئے ہیں ملکہ کے زوال کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ میں لندن میں میلادی ونٹر سے رابطہ کرتا ہوں۔ وہ اکثر وہاں دربار میں جاتی رہتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ڈیوک کو یہ ہیرے پہنے ہوئے دیکھے گی۔ میں چاہوں گا کہ وہ ان میں سے دو ہیرے چرا لے اور مجھے لا کردے دے۔‘‘

یہ کہہ کر کاردینال نے جلدی جلدی ایک خط لکھا اور روشفور کو دے کر کہا کہ یہ اپنے سب سے تیز دوڑنے والے گھڑ سوار کو دے دو۔وہ فوراً لندن کے لیے روانہ ہوجائے اورمحافظوں سے کہہ دے کہ وہ بوسیو کو اندر لے آئیں۔ڈراسہما بوناسیو جیسے ہی دوبارہ اندر آیا گھٹنوں کے بل زمین پر ٹک کر کہنے لگا:

’’حضور ! میں کس طرح آپ کو اپنی بے گناہی کا یقین دلا سکتا ہوں۔‘‘

کاردینال رشیلیو نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر کہا:

’’اٹھ جاؤ میرے دوست !میں تمہارے بارے میں غلطی پر تھا‘لیکن معلوم ہوا کہ تم ایمان دار آدمی ہو۔‘‘

یہ سن کر بوسیو زورزور سے بڑبڑانے لگا:

’’کاردینال رشیلیو کو مجھ پر اعتبار آگیا۔ وہ مجھے اپنا دوست کہہ رہے ہیں، تعجب ہے!‘‘

رشیلیو بولا:

’’ہاں میرے دوست۔ تمہیں بلا وجہ پکڑ لیاگیا تھا۔میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔لو یہ ایک سو اشرفیوں کی تھیلی لو اور غصہ تھوک دو۔‘‘

کاردینال مکاری سے ہمدردی ظاہر کر رہا تھا ۔بے چارے بوسیو نے جھک کر سلام کیا اور بولا:

’’حضور والا!آپ عظیم آدمی ہیں۔‘‘

لیکن’’عظیم آدمی‘‘ دل میں سوچ رہا تھا کہ میں نے ایک اور جاسوس تیار کر لیا۔ایک ایسا جاسوس جو اپنی بیوی کی بھی جاسوسی کرے گا۔

میلادی ونٹرکو کاردینال رشیلیو کا خط مل گیا تھا۔دو ہفتے بعد اس نے جواب میں رشیلیوکو لکھا :

’’میں نے دو ہیرے حاصل کر لیے ہیں ‘ لیکن مجھے پیرس آنے کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔‘‘

کاردینال رشیلیو نے حساب لگایا کہ پیرس سے انگلستان رقم پہنچنے میں پانچ دن لگیں گے اور پانچ ہی دن میلادی کے پیرس آنے میں صرف ہوں گے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے دس دن چاہئیں۔

چنانچہ رشیلیو بادشاہ سے ملا اور ادھر ادھر کی باتیں ملا کر کہنے لگا:

’’عالی جاہ!ملکہ عالیہ ان دنوں کچھ خوش نہیں معلوم ہوتیں۔میرے خیال میں ان کا دل بہلانے کے لیے کوئی تفر یح پروگرام مثلاًکسی پارٹی کا انتظام کرنا چاہیے۔اس پارٹی میں وہ سال گرہ کے موقعے پر آپ کے دیئے ہوئے ہیرے کے بٹن پہن سکیں گی۔‘‘

بادشاہ خوش ہو کر بولا:

’’بہترین خیال ہے ۔میں ملکہ کو فوراََپارٹی کی اطلاع دیتا ہوں۔ہم کب یہ پارٹی کر سکیں گے؟‘‘

’’جناب والا!آج سے دس دن بعد کی تاریخ مناسب ہوگی۔‘‘

’’بہت خوب ! بہت خوب! میں ملکہ کو بتاتا ہوں کہ وہ تین اکتوبر کو اس پارٹی کی تیاری کریں۔‘‘

’’عالی جاہ! یہ کہنا نہ بھولئے گا کہ آپ ان ہیروں کو کتنا پسند کرتے ہیں۔‘‘

بادشاہ اسی وقت محل کے زنان خانے میں گیا اور ملکہ کو بتایا کہ دس دن بعد ان کے اعزازمیں ایک پارٹی ہوگی ۔اس پارٹی میں ملکہ ہیروں کے بٹن لگائیں گی۔پارٹی کا سن کر ملکہ کو جو خوشی ہوئی تھی وہ ہیروں کے بٹنوں کا سن کر خاک میں مل گئی ۔اس کے منھ سے آہ نکلی اور وہ پیلی پڑ گئی۔کمرے سے بادشاہ کے نکلتے ہی ملکہ نے دونوں ہاتھوں سے تھا م لیا۔اس کے منھ سے نکلا:

’’میں برباد ہوگئی۔کاردینال کو یقیناًپتا چل گیا ہے کہ ہیرے کے بٹن میرے پاس نہیں رہے۔اس لیے وہ پارٹی میں رسوا کرناچاہتاہے۔‘‘

’’ملکہ عالیہ!شاید میں آپ کی مدد کر سکوں!‘‘یہ آواز پردے کے پیچھے سے آئی تھی۔

’’اچھا کانستانس! تم نے یہ سب سن لیا؟کیا کوئی ایسا انسان ہے جو ڈیوک سے بٹن واپس لا کر دے سکے؟‘‘

کانستانس نے جواب دیا:

’’جی ضرور‘میں کوئی آدمی تلاش کروں گی جس پر بھروسا کیا جا سکے‘لیکن اس کو آپ کے خط کی ضرورت ہوگی تاکہ ڈیوک کو یقین آسکے کہ بٹن واقعی آپ نے منگائے ہیں۔‘‘

ملکہ ’’ہاں ضرور‘ضرور!‘‘کہتی ہوئی تیزی سے اپنی میز پر گئی اور خط لکھ کر کانستانس کو دے دیا۔خط کے ساتھ ملکہ نے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھی دے کر کہا:

’’یہ تمہارا اور تمہاری مدد کرنے والے کا انعام ہے۔میری عزیز! اگر تم کامیاب ہو گئیں تو میری عزت بچ جائے گی۔‘‘

کانستانس جلدی سے اپنے گھر پہنچی اور اپنے شوہر بوناسیو سے جس کو اس نے ہفتے بھر سے نہیں دیکھا تھا کہنے لگی:

’’مجھے تم سے ضروری باتیں کرنی ہیں۔تم ایک بہت اچھا کام کرسکتے ہو اور بہت بڑی رقم بھی کما سکتے ہو۔‘‘

’’بہت بڑی رقم ؟‘‘بوناسیو کے منھ میں پانی آگیا۔

’’ہاں ایک ہزار اشرفیاں‘اگر تم ایک خط لندن کے ایک بہت اہم آدمی کو پہنچادو۔‘‘

’’لندن؟کوئی نئی سازش ‘سازشیں ہی سازشیں! سازشیں مجھے صرف باستیل جیل ہی پہنچا سکتی ہیں۔ مجھے کاردینال نے سب کچھ بتادیاہے ان سازشوں کے بارے میں‘اور میں ان میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔‘‘

کانستانس نے حیرت سے پوچھا:

’’کاردینال؟کیا تم کاردینال رشیلیوسے مل چکے ہو؟‘‘

’’ہاں مل چکا ہوں۔اس نے مجھے اپنا دوست بنا لیا ہے اور مجھے سو اشرفیاں بھی دی ہیں۔‘‘یہ کہہ کربوناسیو نے اشرفیوں کی تھیلی بڑے فخر سے اپنی بیوی کو دی‘پھر کہنے لگا:

’’اس لیے میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا کہ تم ملکہ کی خاطر‘کاردینال یا فرانس کے خلاف کسی سازش میں شریک ہو۔‘‘

کانستانس اب پوری طرح سمجھ گئی کہ معاملہ کہاں تک پہنچ چکا ہے۔اب ذرا سی بے احتیاطی بھی ہوئی تو ملکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘کیوں کہ میرا شوہر بہت لالچی ‘بزدل اور کم زور آدمی ہے۔

دوسری طرف بوناسیو نے سوچا کہ میں نے کاردینال سے اپنی ملاقات کا ذکر کر کے اپنی بیوی سے مزید معلومات حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع کھو دیا۔یہ معلومات کاردینال کے لیے مفید ہوسکتی تھیں۔اس لیے بوناسیو نے پینترا بدلا۔اس نے بیوی سے کہا:

’’عزیز از جان کانستانس !میں نے جو کچھ کہا سب صحیح ہے‘لیکن میں تمہیں اتنا چاہتا ہوں کہ تمہاری بات نہیں ٹال سکتا ۔میں وہ خط پہنچانے کو تیار ہوں۔‘‘

مگر کانستانس تو پہلے ہی سمجھ چکی تھی اور وہ اب دھوکا کھا نے کو تیار نہیں تھی۔اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا :

’’نہیں کوئی خاص خط نہیں ہے ۔ایک خاتون لندن سے کچھ چیزیں منگوانا چاہتی تھیں۔‘‘

بوناسیو بھی کھٹک چکا تھا ۔اس نے سوچاکہ مجھے اتنی بات بھی کاردینال کو بتا دینی چاہیے۔اس نے بیوی سے کہا کہ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے‘مگر میں جلدہی لوٹوں گا اور تمہیں محل پہنچا آؤں گا۔

جیسے ہی بوناسیو باہر نکلا‘کانستانس بڑ بڑانے لگی:

’’بوناسیو! تم اس سے پہلے کبھی اتنے برے نہ تھے‘لیکن اب تم کاردینال رشیلیو کے جاسوس بن گئے ہو۔مجھے تم سے محبت تو کبھی بھی نہیں تھی‘لیکن اب مجھے نفرت ہے۔میں قسم کھا تی ہوں کہ تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔‘‘

ابھی اس کے منھ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ چھت پر کھٹکا ہوا۔کانستانس نے منھ اٹھا کر اوپر دیکھا۔چھت کے سوراخ میں سے آواز آئی:

’’پچھلے راستے سے اوپر آؤ ‘شاید میں تمہاری مدد کر سکوں ۔‘‘

یہ دارتا کی آواز تھی ۔کانستانس اوپر پہنچی تو دارتا نے دروازہ کھولا۔کانستانس نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے سب باتیں سن لیں؟

دارتا نے کہا کہ ہاں میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ملکہ کو ایک بہادر ‘وفادار اور ذہین آدمی کی ضرورت ہے جو لندن جا سکے ۔میں حاضر ہوں۔

شوہر کی حرکتوں پر کانستانس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے نکل رہے تھے۔بہادر دارتا کی بات سن کر وہ کچھ مسکرائی اور بولی:

’’شکریہ دارتا! میں تم پر بھروسہ کر سکتی ہوں ۔‘‘

’’میں ملکہ کو یا تمہیں نقصان پہنچانے کے مقابلے میں مرنا پسند کروں گا۔‘‘

کانستانس نے اپنی جیب سے اشرفیوں کی تھیلی نکال کر دارتا کو دی۔یہ وہ تھیلی تھی جو اس کے شوہر کوکاردینال نے دی تھی۔اس نے دارتا سے کہاکہ یہ رقم لندن جانے میں تمہارے کام آئے گی۔دارتا بے اختیار ہنسنے لگا۔اس نے کہا:

’’کاردینال کی دی ہوئی رقم ؟میں کاردینال کی دولت کی مدد سے ملکہ کو بچاؤں گا‘کتنی مزے دار بات ہوگی۔‘‘

کانستانس نے انگلی کے اشارے سے دارتا کو منع کیا :

’’شش ! نیچے سے آواز آرہی ہے۔شاید میرے شوہر کی ہے۔‘‘

پھر دونوں نے اپنے سر فرش پر سوراخ سے قریب کر لیے ۔انھوں نے دیکھا کہ بوناسیو اور ایک اور آدمی چغا پہنے ہوئے نیچے کمرے میں آئے ہیں ۔دارتا نے دیکھا تو وہ آدمی وہی تھا جس نے میوں میں اس کا خط چرایا تھا ۔کانستانس نے آہستہ سے کہا کہ یہ کاؤنٹ روشفور ہے۔اسی نے مجھے اغوا کیا تھا۔

اب ان دونوں نے کان لگا دئیے اور سنا کہ بوناسیو کہہ رہا تھا :

’’وہ(کانستانس)جا چکی ہے ‘شاید وہ محل واپس گئی ہے۔‘‘

روشفور نے پوچھا کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ جب تم گھر سے نکلے تو کانستانس کو شبہ تو نہیں ہوا تھا کہ تم ہمارے ہاں جا رہے ہو؟‘‘

بوناسیو نے جواب دیا:’’نہیں وہ بہت احمق ہے ‘‘

کانستانس کو اپنے متعلق یہ جملہ سن کر بہت غصہ آیا۔وہ بولی:

’’دیکھو یہ جانور کیا کہہ رہا ہے۔‘‘

روشفور کہنے لگا:’’مگر بوناسیو! اس بار تو تم بے وقوف بن گئے۔تمہیں وہ خط لے کر کاردینال کے پاس آجانا چاہیے تھا۔‘‘

بوناسیونے جواب دیا:

’’میں اب بھی لا سکتا ہوں ۔کانستانس میری بات بہت مانتی ہے۔وہ مجھے خط دے دے گی اور میں سیدھا کاردینال کے پاس چلا آؤں گا۔‘‘

یہ باتیں کرکے دونوں گھر سے نکل گئے ۔ان کے جانے کے بعد کانستانس نے اپنا غصہ نکالا۔وہ چیخ کر بولی:

’’اوبے وفا!‘‘

لیکن پھر ذرا سنبھلی اور کہنے لگی:

’’لیکن یہ وقت بہت قیمتی ہے‘ہمیں باتوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔مجھے ملکہ کے پاس پہنچنا چاہیے اور دارتا! تمہیں فوراََانگلستان روانہ ہوجانا چاہیے۔‘‘

دارتا نے اللہ حافظ کہا اور چل پڑا۔وہ سیدھا تریول صاحب کے پاس پہنچاتاکہ ان سے باہر جانے کی اجا زت لے۔تریول صاحب نے اس کی بات توجہ سے سنی اور کہنے لگے کہ کیا تم نے اندازہ کر لیا ہے کہ کاردینال کے آدمی تمہارے انگلستان جانے میں رکاوٹیں ڈالیں گے؟میرا خیال غلط تو نہیں ہے؟

دارتا نے جواب دیا:

’’جی جناب !آپ کا خیال صحیح ہے اور اسی لیے تو میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ سے آتو‘پورتو اور ارامی کو ساتھ لے جانے کی اجازت لے لوں ۔اس طرح ہم میں سے کم سے کم ایک توانگلستان پہنچ جائے گا ۔‘‘

تریول صاحب نے اس کی تجویز کو پسند کیا اور چار ’’پاس‘‘دارتا کے حوالے کیے۔

چند گھنٹوں بعد چاروں گھڑ سوار پیرس سے روانہ ہو کر شمال کی طرف کیلائس روڈ پر چلے جارہے تھے۔وہ پورے دن آرام سے چلتے رہے۔دوسرے دن ان کو ایک سرائے نظر آئی تو وہ وہاں رک گئے۔ابھی وہ کھانا کھا ہی رہے تھے کہ نشے میں مست ایک آدمی نے پورتو سے بحث شروع کردی۔وہ کاردینال رشیلیو کی حد سے زیادہ تعریف کر رہا تھا۔پورتو بھی اس سے الجھ گیا۔وہ دبنے والا نہیں تھا۔اس نے اپنے تینوں ساتھیوں سے کہا کہ وہ دیر نہ کریں ‘روانہ ہوجائیں ‘میں اس شخص سے تنہا نمٹ لوں گا۔

تینوں ساتھی پورتو کو چھوڑ کر چل پڑے ۔راستے میں ان کوکچھ آدمی ملے جو سڑک کی مرمت کر رہے تھے۔انھوں نے اچانک بندوقوں سے فائر نگ شروع کر دی ۔یہ بندوقیں انھوں نے ملبہ میں چھپا رکھی تھیں ۔دارتا سمجھ گیا۔اس نے کہا یہ ہمیں روکنے اور دیر کرنے کی چال ہے۔ان کو جواب مت دو ۔چلتے رہو۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھ جاتے بندوق کا ایک چھرّا آکر ارامی کے کندھے پر لگا ‘لیکن اس نے تکلیف کی پرواہ نہ کی اور چلتا رہا۔لیکن دو گھنٹے کے بعد خون بہنے سے وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ اب اس کے لیے چلنا ممکن نہیں رہا ۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے کسی کھیت پر رک کر کسانوں سے مدد حاصل کرے۔

اب صرف دارتا اور آتو رہ گئے۔انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔بیس گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد انھوں نے ایک سرائے میں ٹھہرنے اور کچھ دیر دم لینے کا ارادہ کیا۔سرائے والے نے پیشگی کرائے کا مطالبہ کیا۔آتو رقم ادا کرنے اس کے ساتھ دفتر میں پہنچا تو یکا یک چار مسلح آدمی آگئے اور آتو سے جھگڑنے لگے کہ تمہارے سکے جعلی ہیں ۔آتو سمجھ گیا کہ ان کا مقصد ہمارے سفر میں رکاوٹ ڈالنا اور ہمیں دیر کرنا ہے۔

آتو نے دارتا سے کہا کہ میں توالجھ گیاہوں ۔تم تنہا روانہ ہوجاؤ‘دیر نہ کرو۔

دارتا نے فوراََبات سمجھ لی اور آتو کو اس کے حال پر چھوڑکر اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوگیا اور گھوڑے کو سر پٹ دوڑادیا۔دوسرے دن شام تک وہ سمندر کے کنارے آباد کیلائس قصبہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اسٹیمر میں بیٹھ کر انگلستان روانہ ہونا تھا ۔جیسے ہی وہ بندرگاہ کے دفتر کے قریب پہنچا اس نے دیکھا کہ ایک لمبا سا آدمی جہاز کے کپتان سے باتیں کر رہا ہے۔وہ کہہ رہا تھا:

’’مجھے فوراََانگلستان پہنچنا ہے۔‘‘

کپتان نے جواب دیا :

’’جن لوگوں کے پاس کاردینال رشیلیو کا ’’پاس‘‘ہے صرف وہی لوگ جاسکتے ہیں ۔ہمیں یہ حکم آج ہی ملا ہے ۔‘‘

اس آدمی نے اپنی جیب سے کاغذ نکالتے ہوئے کہا:

’’جی ہاں‘میرے پاس کاردینال کا ’’پاس‘‘ہے۔‘‘

کپتان نے پاس کو غور سے دیکھااور اس آدمی کو واپس کرتے ہوئے کہا:

’’بہت خوب !ابھی جہاز کے روانہ ہونے میں کچھ دیر ہے۔مناسب ہے کہ جناب سڑک پار بنی ہوئی سرائے میں آرام سے انتظار فرمائیں ۔‘‘

جیسے ہی وہ آدمی دفتر سے باہر آیااور سرائے کی طرف مڑا دارتا کو اس کی آنکھ پر دھبانظر آگیا۔وہ پہچان گیا کہ یہ روشفور ہے ۔دارتا نے فوراََ تلوار سونت لی اور روشفور کے سامنے آکر ڈانٹ کر بولا:

’’اپنا پاس فوراََمیرے حوالے کر دو!‘‘

روشفور نے چونک کر دیکھا اور دارتا کو پہچانتے ہوئے بولا:

’’تم؟تم پیلے گھوڑے والے گاسکونی پا جی !تمہارے بندوقچی ساتھی کہا ں ہیں جو تمہاری مدد کریں؟‘‘

دارتا نے بڑے اطمینان اور زور سے جواب دیا:

’’مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔میں اکیلا ہی تم سے ’’پاس‘‘لے سکتا ہوں۔تمہارے ہاتھ سے یا تمہاری لاش سے۔‘‘

روشفورنے بھی اپنی تلوار نکال لی اور دونوں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے ۔منٹوں میں دارتا نے روشفور کو تین بار زخمی کر دیا۔ہر وار پر وہ کہتا جاتاتھا:

’’ ایک آتوکی طرف سے‘ ایک پورتو کی طرف سے اور ایک ارامی کی طرف سے !‘‘

تیسرے وار پر روشفور گر پڑا‘ دارتا سمجھا کہ شاید مر گیا ہے‘اس لیے ’’پاس‘‘تلاش کرنے کے لیے وہ روشفور پر جھکا‘لیکن روشفور مرا نہیں تھا وہ صرف زخمی ہوا تھا ۔اس نے جھکے ہوئے دارتا کے سینے میں یہ کہتے ہوئے اپنی تلوار اتارنی چاہی:

’’اور ایک تمہارے لیے!‘‘

مگر دارتا کے آگے اس کی کچھ نہ چلی ۔دارتا اپنی تلوار روشفور کے کندھے میں آر پار کرتے ہوئے چلایا:

’’اور ایک میری طرف سے!‘‘

یہ کہہ کر دارتا نے روشفورکی جیب سے پاس نکا ل لیااور جہاز کی طرف دوڑا۔جہاز پر سوار ہوکر اس نے زخم غور سے دیکھا ۔زیادہ گہرا زخم نہیں تھا۔البتہ وہ اتنے لمبے سفر سے تھک کرچور چور ہو چکا تھا۔چنانچہ وہ عر شے پر پہنچا اور لیٹ کر غافل سو گیا۔

دوسرے دن صبح اس کی آنکھ کھلی تو جہاز ڈوور کی بندر گاہ پر پہنچ چکا تھا۔دارتا نے زندگی میں پہلی بار انگلستان کی سر زمین پر قدم رکھا۔اس نے لندن پہنچنے کے لیے گھوڑا کرائے پر لیا۔اس پر زین کسی جا رہی تھی۔اس دوران دارتا بیٹھا ہوافرانس جانے کے منتظر مسافروں کو دیکھ رہاتھا۔ایک حسین عورت پر اس کی نظر یں رک گئیں ۔یہ وہی عورت تھی جو میوں میں ایک گاڑی میں نظر آئی تھی ‘اس کا نام میلادی وِنٹر تھا ۔کیا اسی عورت کے لیے روشفور انگلستان آرہا تھا ۔مگر پھر اس نے سوچا کہ کچھ بھی ہو مجھے جلد سے جلد لندن پہنچنا ہے۔

لندن پہنچ کر دارتا محل پر پہنچا تو ڈیوک کا خاص خد مت گار دروازے پر آیااور پوچھنے لگا:

’’کون صاحب ہیں ؟‘‘

’’صرف اتنا بتا دیں کہ وہ نوجوان ہے جس نے پیرس میں آپ کو للکارا تھا۔‘‘

یہ سن کرڈیوک خود فوراََباہر آیااور گبھرا کر پوچھنے لگاکہ خیریت تو ہے؟ملکہ کو تو اللہ نہ کرے کچھ نہیں ہوا؟‘‘

دارتا نے بتایا:

’’نہیں میرے آقا !ملکہ ٹھیک ہیں مگر ذرا پریشانی اور خطرے میں ہیں ۔انھو ں نے اس خط میں لکھ دیا ہے۔‘‘

ڈیوک نے جلدی جلدی خط پڑھا اور بولا:

’’یا اللہ! یہ میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔بے چاری اینی ‘کتنی پریشانی میں پڑ گئی۔میرے عزیز!جلدی سے میرے پیچھے پیچھے آؤ۔‘‘

ڈیوک ‘دارتا کو محل میں ایک زینے سے اوپر لے گیا اور چھوٹی سی سونے کی کنجی سے ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔کنجی ڈیوک کی گردن میں لٹک رہی تھی ۔ڈیوک کے پیچھے دارتا بھی کمرے میں داخل ہوا۔یہ عبا دت کا کمرہ تھا ۔دیوار پر لٹکی ہوئی ملکہ فرانس کی تصویر ہلکی ہلکی رو شنی میں مسکرا رہی تھی ۔ڈیوک نے آگے بڑھ کر لکڑی کی ایک خوبصورت نقشین چھو ٹی سی صندوقچی کھولی۔صندوقچی میں سے ہیروں کا ایک ربن نکالتے ہوئے ڈیوک نے کہا:

’’یہ رہے قیمتی ہیروں کے بٹن!‘‘

لیکن اس کے بعد ہی ڈیوک کے منھ سے ایک خوف ناک چیک نکلی۔دارتا نے گھبرا کر پوچھا:

’’کیا بات ہے ؟خیریت تو ہے؟‘‘

ڈیوک نے جواب دیا:

’’ دو ہیرے غائب ہیں ۔صرف دس ہیرے رہ گئے ہیں۔‘‘

’’ میرے آقا !کیا ہیرے یہا ں سے بھی کھو سکتے ہیں ۔‘‘

نہیں! ان کو چرایا گیا ہے۔دیکھو ‘ربن کٹی ہوئی ہے۔یہ کون۔۔۔ٹھہرو۔میں نے ا ن کوصرف ایک بار لگایا تھا ‘پچھلے ہفتے دربار کے موقع پر ۔میلادی ونٹر نے شام کا زیادہ حصہ میرے ساتھ گزارا تھا۔اچھا سمجھ گیا ۔یہ بات ہے!میلادی نے یہ ہیرے کاردینال رشیلیو کے لئے چرائے ہیں ۔اس روز وہ مجھ پر زیادہ ہی مہر بان تھی اور قریب ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔‘‘

دارتا نے بتایا کہ میں نے اسکو جہاز پر چڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ابھی چند گھنٹے پہلے۔

یہ سن کر ڈیوک عبادت کے کمرے سے باہر آیا اور ’’تو پھر ہمیں جلدی کرنی چاہیے‘‘کہتا ہوا تیزی سے راہ داری کی طرف جانے لگا۔دارتا اس کے پیچھے تھا۔کئی راستوں سے گزر کر وہ محل کے جوہریوں کے کمرے پر پہنچے۔ڈیوک نے بڑے جوہری کو مخاطب کر کے کہا:

’’دیکھو ‘یہ ہیرے دیکھو!اور مجھے بتاؤ کہ ان میں سے ہر ہیرا کتنے کا ہے۔‘‘

’’جوہری نے ہیروں کو توجہ سے دیکھا اور بولا:

’’میرے آقا!ہر ہیرے کی قیمت ۱۵سو اشرفیاں ہے۔‘‘

’’اور بالکل ایسے ہی دو ہیرے بنانے میں کتنے دن لگیں گے؟‘‘

’’میرے آقا صرف ایک ہفتہ!‘‘

دارتا چیخ پڑا:

’’نہیں یہ تو بہت دیر ہو جائے گی۔‘‘

ڈیوک نے جوہری سے کہا:

’’میں تمہیں ایک ایک ہیرے کی قیمت تین تین ہزار اشرفیاں دوں گا اگر تم کل تک دو ایسے ہیرے بنا دوکہ اصل اور نقل میں ذرا بھی فرق نہ رہے اور کوئی بھی پہچان نہ سکے کہ نقلی کون سے ہیں اور اصلی کون سے ۔‘‘

’’ میرے آقا! آپ کو کل دو بالکل اصلی ہیرے مل جائیں گے؟‘‘

اور جوہری نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔دوسرے دن دوپہر تک اس نے دونوں ہیرے اس مہارت سے بنائے کہ خود ڈیوک بھی فرق محسوس نہ کر سکا‘ڈیوک نے ہیروں کے ربن کا ڈبا دارتا کے حوالے کرتے ہوئے اس سے کہا:

’’میں جو کچھ کر سکتا تھا‘ میں نے کر دیا ۔اب ان کو حفا ظت اور جلدی سے لے جانا تمہارا کام ہے۔میں نے ایک جہازکا انتظام کر دیاہے جو تمہارے انتظار میں ہے اور تمہیں فرانس لے جائے گا ۔وہاں سے شہر تک لے جانے کے لیے گھوڑوں کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے۔وہاں ہم بہت جلد میدان جنگ میں شاید دشمنوں کی حیثیت سے ملیں‘لیکن اس وقت ہم دوستوں کی طرح جدا ہو رہے ہیں۔دارتا ! میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں ۔‘‘

دارتا جس شام کو پیرس پہنچااسی شام کو بادشاہ کے ہاں پارٹی ہونے والی تھی۔دارتا پہلے تریول صاحب کے پاس پہنچا تا کہ اپنے تینوں بندوقچی دوستوں کی خیریت معلوم کرے۔ تریول صاحب نے بتایا کے وہ تینوں واپس آگئے ہیں اور ان کو جو چوٹیں آئی تھیں وہ اچھی ہو رہی ہیں ۔

اب دارتا محل پہنچا تا کہ وہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے اور وہ خاص ڈبا محترم خاتون کے حوالے کرے۔

جس حال میں پارٹی ہونے والی تھی اس میں مہمان جمع ہونے شروع ہو گئے تھے۔کاردینال اور بادشاہ ملکہ کو ان کے خاص کمرے سے ہال تک لانے کے لیے اوپر جا رہے تھے۔دروازہ کھلا اور ملکہ نمودار ہوئی ۔کاردینال رشیلیو نے بادشاہ کے کان میں کھسر پسر کی۔بادشاہ نے سر اٹھا کر اپنی ملکہ کی طرف غور سے دیکھا ۔ملکہ کے گلے میں ہیروں کا ربن نہیں تھا ۔بادشاہ غصے سے بولا:

’’ملکہ ! آپ نے ہیروں کا ربن نہیں پہنا؟میں نے آپ سے خاص طور پر فر مائش کی تھی!‘‘

ملکہ کی نظر کاردینال رشیلیو کے چہرے پر پڑی جس سے شرارت اور مسخرہ پن ٹپک رہا تھا۔

ملکہ نے بادشاہ سے کہا:

’’سر تاج من!مجھے ڈر لگا کہ اتنے بڑے مجمع میں ‘میں اسے کھو نہ دوں!‘‘

’’مادام!آپ کا خیال غلط ہے۔میں آپ کے اس طریقے سے بہت نا خوش ہوں!‘‘

’’عالی جاہ !تو پھرمیں ابھی واپس اپنے کمرے میں جاتی ہوں اور ہیرے پہن کر آتی ہوں۔‘‘

’’ہاں ایسا ہی کیجئے ۔میں نیچے آپ کا انتظار کر رہا ہوں ۔پارٹی شروع ہونے والی ہے۔‘‘

ملکہ ادب سے جھک کر پیچھے ہٹی اور اپنی خادماؤں کے ساتھ اپنے خاص کمرے میں واپس چلی گئی۔

کاردینال رشیلیو اور بادشاہ نیچے جانے کے لیے دھیرے دھیرے زینے سے اترنے لگے۔اسی دوران کاردینال نے ایک چھوٹا سا خوب صورت بکس بادشاہ کے ہاتھ میں دیا۔بادشاہ نے بکس کھولا تو اس میں ہیرے کے دو بٹن تھے۔اس نے کاردینال سے پوچھا:

’’یہ کیا ہے؟‘‘

کاردینال نے دبی دبی آواز میں جواب دیا:

’’کچھ نہیں بادشاہ سلامت!اگر ملکہء محترمہ ہیرے کے بٹن لگا کر آتی ہیں ‘جس کے بارے میں مجھے شبہ ہے تو پھر تکلیف کر کے ان کو گنیے گا کہ کتنے ہیں ۔اگر وہ بٹن دس ہوں تو باقی دو بٹن یہ ہیں ۔پھر ملکہ ہی سے پوچھئے گا کہ یہ بٹن کہاں چلے گئے اور کس طرح گئے تھے؟‘‘

لیکن اس سے پہلے کہ بادشاہ کچھ کہتا یا کاردینال سے کوئی اور سوال کرتا پارٹی کے مہمانوں نے استقبا لیہ اور تعریفی نعرے لگائے۔حسین ملکہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ زینے سے شاہانہ انداز میں اتر رہی تھی‘ملکہ فرانس پر تمام لوگو ں کی نظریں جم گئیں۔تحسین و آفرین کے ساتھ عقیدت کے الفاظ سے ہال گونج اٹھا۔ملکہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی ‘لیکن چار آنکھیں بڑی بے چینی کے ساتھ ملکہ کی گردن میں ہیرے تلاش کر رہی تھیں ۔بادشاہ بڑی خوشی اور اطمینان کے ساتھ دیکھ رہا تھا ‘مگر کاردینال کا غصے اور پریشانی کے مارے برا حال تھا‘لیکن ملکہ ابھی اتنی دور تھی کہ اس کی گردن میں لگے ہوئے ہیروں کو گننا مشکل تھا ۔

جیسے ہی ملکہ قریب آئی‘بادشاہ نے خوشی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہنے لگا:

’’بہت شکریہ مادام!آپ نے میری خواہش پوری کرنے کے لیے دوبارہ جانے کی تکلیف اٹھائی‘لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دو ہیرے کم ہیں اور وہ یہ رہے۔میں آپ کے لیے واپس لے آیا ہوں!‘‘

ملکہ نے بات پوری طرح سمجھ لی مگر بادشاہ پر ظاہر نہیں کیا بلکہ بات بناتے ہوئے بولی:

’’اوہ‘ شکریہ‘بہت شکریہ!‘‘

پھر بکس ہاتھ میں لے کر بناوٹی حیرت سے بولی:

’’اچھا، دو اورہیرے! بہت خوب!اب تو میرے پاس چودہ ہیرے ہو گئے ۔میں بہت شکرگزارہوں۔‘‘

بادشاہ نے ملکہ کی گردن کی اطراف ہیرے گنے۔پورے بارہ تھے۔اس نے فوراًکار دینال کو آواز دی:

’’یہ کیاقصہ ہے؟‘‘

’’جناب والا!قصہ یہ ہے کہ میں ملکہ عالیہ کو دو ہیرے پیش کرنا چاہتا تھا‘لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی‘اس لیے میں نے یہ دلچسپ طریقہ اختیار کیاتا کہ آپ کے دست مبارک سے یہ ہیرے ملکہ کو پیش ہوں‘‘

ملکہ مسکرائی۔اس مسکراہٹ سے کاردینال رشیلیوسمجھ گیا کہ ملکہ بے وقوف نہیں بنی ۔وہ سمجھ گئی ہے کہ اصل قصہ کیا ہے۔ملکہ نے بناوٹی اخلاق سے کہا:

’’محترم کاردینال صاحب !میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں۔یقیناان دو ہیروں پر آپ کا اتنا ہی خرچ آگیا ہو گا جتنا خرچ بادشاہ سلامت نے بارہ ہیروں پر کیا ہوگا۔‘‘

یہ کہہ کر ملکہ دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کے سامنے جھکی اور پھر مہمانوں کی طرف چلی گئی ۔مہمانوں کے درمیاں پہنچتے پہنچتے راستے میں ملکہ ایک نوجوان محافظ کے سامنے رکی اور مسکرائی ۔نوجوان محافظ جواب میں گھٹنوں کے بل جھکا۔ملکہ نے خاموشی سے ایک انگوٹھی اس کے ہاتھ میں تھمادی ۔یہ محافظ دارتا تھا اور ملکہ نے اس کو لندن سے ہیرے لانے کا انعام دیا تھا ۔ان ہیروں کے آجانے سے ملکہ ذلیل اور بد نام ہونے سے بچ گئی تھی۔مہمانوں میں سے دو نے ملکہ کی اس حرکت کو بڑی توجہ سے دیکھا۔ایک کاردینال رشیلیو اور دوسری میلادی ونٹر۔میلادی ونٹر نے کاردینال سے کہا:

’’اچھا! تو دارتا وقت پر پیرس پہنچ گیا ۔اب آپ اس لڑکے کو سزا دینے کے لیے کیاکریں گے‘جس نے آپ کی انتقام کی ساری کوشش نا کام کر دی؟‘‘

’’انتقام نہیں لوں گا بلکہ میں اس بہادر نوجوان سے کام لینا چاہوں گا اور اس کو اپنا بنانے کی کوشش کروں گا۔‘‘

میلادی نے یہ سن کر اپنی بات کہی :

’’جناب والا نے تو بڑی خوبی سے بات بنا لی اور حالات کو سنبھال لیا‘لیکن میں اپنے مشن میں ناکام ہو گئی‘صرف اس آدی کی وجہ سے اور اس عورت کی وجہ سے جو اس کی دوست ہے۔مجھے ان دونوں سے انتقام لینا ہے۔‘‘

کاردینال یہ سن کر چونک پڑا:

’’اچھا وہ عورت !بوناسیو کی بیوی ؟اس کا علاج ہونا چاہیے۔اس کو ملکہ اور ڈیوک کے درمیان خط لانے لے جانے سے روکنا چاہیے اور ایسا انتظام بھی ہونا چاہیے کہ وہ ملکہ اور ڈیوک کی ملا قات نہ کرا سکے۔روشفور کو میرے پاس فوراََبھیج دو۔‘‘

’’ بہت بہتر حضرت والا!‘‘کہہ کر میلادی دل میں ہنسی۔اس کے دل میں انتقام کا جذ بہ بڑھ رہا تھا ۔

روشفور ابھی تک کمزور تھا ۔کیلائس میں دارتا کی تلوار سے جو زخم اس کو لگے تھے وہ ابھی تک ہرے تھے‘لیکن کاردینال نے اسے حکم دیا کہ وہ بیگم بوناسیو کو قید کر لے تو وہ یوں بھی خوش ہوا کہ بیگم بوناسیو کی گرفتاری سے دارتا کو بھی تکلیف پہنچے گی اور اس سے بھی روشفور کے انتقامی جذبے کی تسکین ہوگی۔دارتا نے اس کو بہت زخمی کیا تھا اور اس کو مار مار کر اس سے انگلستان کا ’’پاس‘‘ چھینا تھا ۔رو شفور نے دل میں کہا :’’ہاں میں اس گاسکونی لڑکے کو خوب اچھی طرح سمجھوں گا ۔‘‘

دارتا کی ڈیوٹی پارٹی کے انتظام میں لگی ہوئی تھی۔صبح چار بجے تک پارٹی چلتی رہی ۔جیسے ہی پارٹی ختم ہوئی دارتا اور اس کے ساتھیوں کوچھٹی مل گئی۔دارتا محل سے باہر اسکوائر میں آگیا۔وہ کانستانس سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔اول رات کو جب دارتا نے کانستانس کو ملکہ کو پہنچانے کے لیے ہیرے دیے تھے تو کانستانس نے پارٹی کے بعد اس سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔

وہ ایک بغلی گلی میں مشکل سے کوئی دس قدم چلا ہوگاکہ اس نے اپنے سے ذرا آگے ایک گھوڑا گاڑی دیکھی۔گاڑی کی کھڑ کی سے ایک سنہرے بالوں والی حسین عورت باہر جھک کر دیکھ رہی تھی۔وہ ایک حملہ آور سے جھگڑ رہی تھی جو اس کو گاڑی سے باہر کھینچ رہا تھا۔دارتا چیخا:

’’غنڈا!‘‘

اور وہ گھوڑاگاڑی کی طرف دوڑا۔اس نے تلوار نکال لی تھی۔عورت نے دارتا پر نظرڈالی اورحملہ آورسے چپکے سے کہا:

’’بھاگ جاؤ‘تم نے اپنا کردار بڑی خوبی سے ادا کر دیا۔‘‘وہ آدمی گاڑی کے پائیدا ن سے جلدی سے کودااور ایک اندھیری تنگ گلی کی طرف بھاگ گیا۔دارتا نے اس کا پیچھا کیا‘مگر وہ آدمی نظروں سے غائب ہو گیا۔دارتا ہانپتا ہوا گاڑی کے پاس واپس پہنچا۔اس نے عورت کے حسین چہرے پر نظریں جما کر پوچھا:

’’مادام‘آپ کو چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘

میلادی ونٹر نے جواب دیا:

’’نہیں جناب‘لیکن میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے بچایا ۔آپ ایک بہادر نو جوان ہیں میں آپ کی بے حد شکر گزار ہوں ۔میں آپ کا بدلا کیسے اتار سکتی ہوں؟‘‘

دارتا نے جواب دیا:

’’آپ کو محفوظ دیکھنا ہی میرا صلہ ہے۔‘‘

دارتا اس عورت کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔عورت نے جواب دیا:

’’تو پھر آپ مجھ سے کل صبح ضرور ملئے تا کہ میں آپ کا دوبارہ شکریہ ادا کر سکوں۔یہ ہے میرا نام اور پتا۔‘‘

دارتا نے کانپتے ہاتھوں سے کارڈ لیا اور ہکلا تے ہوئے کہا:

’’شکریہ میلادی! میں حاضر ہونے میں فخر محسوس کروں گا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی کوچوان نے گھوڑوں کو چابک ماری اور گاڑی روانہ ہو کر اندھیرے میں گم ہو گئی۔میلادی نے مسکرا کر اپنے آپ سے کہا:

’’یہ بہت آسان ہوگا؟یہ بچوں کے کھیل کے برابر ہوگا۔‘‘

دارتا نے گلی میں تیز تیز چلتے ہوئے زور سے کہا:

’’میں انتہائی خوش ہوں ۔میرا دل محبت سے پھٹا جا رہا ہے۔‘‘

جب وہ اپنے گھر واپس پہنچا تو کانستانس وہاں نہیں تھی۔دارتا اس وقت بے چین ادھر ادھر ٹہلتا رہا‘یہاں تک کہ پیرس پر صبح کا سورج طلوع ہوگیا۔جب اس سے مزید برداشت نہیں ہواتو اس نے آتو کے پاس جانے کا فیصلہ کیا‘کیوں کہ آتو عورتوں کے متعلق سب کچھ جانتا تھا۔جب دارتا نے کانستانس کی وعدہ خلافی کی داستان ختم کی تو آتو نے کہا:

’’عورت پر۔۔۔کسی عورت پر کبھی بھروسہ نہ کرو!‘‘

دارتا نے جواب دیا:

’’لیکن کانستانس تو مجھے بہت چاہتی تھی اور میں بھی اسے پسند کرتا ہوں ۔اس نے مجھے اپنے کام کے لیے استعمال کیا اور پھر فوراََچھوڑ دیا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔آتو‘کیا تم نے کبھی کسی کو چاہا ہے؟‘‘

آتو چلایا:

’’محبت؟آہاہا!میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں کہ ایک آدمی پر کیا گزری ۔میرا ایک دوست تھا ۔بے شک میں نہیں! وہ ایک معزز آدمی تھا‘صوبے کے نوابوں میں سے ایک۔وہ مال دار‘مہربان ‘خوب صورت ‘معزز آدمی اپنی پسند کی عورت سے شادی کر سکتا تھا۔لیکن اس کو ایک سنہرے بالوں والی ۱۶ سالہ لڑکی سے لگاؤ ہو گیا۔اس نے اتنی خوبصورت لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔میرے دوست کو اس کے بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں تھی۔بس وہ اتنا جانتا تھا کہ وہ اس صوبے میں اپنے بھائی کے ساتھ رہنے کو آئی ہے۔اس کا بھائی پادری تھا۔میرا دوست شریف آدمی تھااور اس نے صحیح راستہ اختیار کیا اور اس سے شادی کر لی۔کوئی غلط طریقہ اختیار نہیں کیا۔اس نے اس لڑکی کا نام اپنے نام کے ساتھ لگایا‘اپنی دولت دی ‘اور محبت دی‘لیکن اس میں عقل نہیں تھی‘وہ احمق تھا۔‘‘

دارتا نے حیرت سے کہا:

’’لیکن اس میں حماقت کی کیا بات ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ شادی کے کچھ ہی دن بعد میرے دوست پر ایک خوف ناک راز کا انکشاف ہوا۔ایک دن وہ دونوں میاں بیوی گھوڑے پر سوار کہیں جا رہے تھے کہ اس کی بیوی یکایک گھوڑے پر سے گر پڑی۔اس کی آستین اتر گئی اور کندھا نظر آنے لگا ۔میرے دوست نے دیکھا کہ اس کے کندھے پر داغنے کا نشان ہے جو فرانس کے شاہی پھول کا نشان تھا ۔یہ نشان اس شخص کے کندھے پر بنایا جاتا ہے جس نے گرجا سے مقدس چیزیں چرائی ہوں۔‘‘

’’تو پھر نواب نے کیا کیا؟‘‘

آتو نے بتایا:’’میرا دوست صرف ایک ہی چیز کر سکتا تھا۔قانون یہ ہے کہ ایسے مجرم کو موت کی سزا دینی چاہیے۔میرے دوست نے اس عورت کو درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی۔‘‘

یہ کہہ کر آتو نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپالیا اور سسکیاں لینے لگا اور کہنے لگا کہ اس طرح میں نے اس حسین بلا سے نجات پائی۔وہ یہ بھول گیا کہ اس نے دارتا کو یہ کہانی اپنے دوست نواب کے نام سے سنائی تھی ۔دارتا نے پوچھا کہ توپھر وہ مر گئی؟

’’میرا یہی خیال ہے۔‘‘

’’اور اس کا پادری بھائی؟‘‘

آتو نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے جواب دیا:

’’میں اس کا معلوم کرنے دوسرے دن گیا ‘مگر وہ غائب ہو چکا تھا ۔‘‘

اس کے بعد دونوں دوست باتیں کرتے اور کھاتے پیتے رہے۔شام ہونے کو آئی تو دارتا نے سوچا کہ آٹھ بجے رات کو میلادی ونٹر کے گھر اس کا انتظار کیا جائے گا۔اس نے آتو کو پچھلی رات کا قصہ بتایا تو اس کو بہت تعجب ہوا۔اس نے کہا:

’’کیا یہی وہ عورت نہیں ہے جس کے متعلق تمہارا خیال تھا کہ وہ کاردینال رشیلیو کی جاسوسہ ہے؟‘‘

دارتا نے کہا:

’’ہاں میرے دوست‘مگر اس کے باوجود میں اس کی طرف بری طرح کھنچ رہا ہوں!‘‘

آتو نے بڑی گہری آواز میں کہا:

’’آہ دارتا! ابھی تو تم نے کانستانس کی بے وفائی کا ذکر کیا تھا اور اب تم میلادی کے پیچھے دوڑ رہے ہو‘کانستانس کا خیال دل سے نکال کر۔بہر حال جاؤ میرے دوست‘ دل بہلاؤ‘مگر ہر وقت چوکنے رہنا کہ کہیں کسی جال میں نہ پھنس جاؤ۔‘‘

اور اس طرح دارتا کا میلادی کے ہاںآنا جانا شروع ہوگیا۔روز بہ روز میلادی کا جادو اس پر اثر کرتا جارہا تھا اور اس کے متعلق شروع میں جو شک وشبہ تھا وہ دور ہوتا جا رہا تھا۔ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک دن دارتا‘میلادی کے گھر پہنچا تو اسے حیرت ہوئی کہ میلادی وہاں نہیں ہے۔مگر اس کی خادمہ کٹی اس کو معمول کے مطابق گھر کے اندر لے گئی۔وہ خاصی کم عمر لڑکی تھی ۔اس نے دارتا سے کہا :

’’جناب !میں آپ سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’ضرور ‘ضرور کرو۔کیا بات ہے کٹی؟‘‘

کٹی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا:

’’آپ میری مالکہ کو دوست سمجھتے ہیں ؟ہے نا؟‘‘

’’ہاں ہاں‘بہت زیادہ۔ہماری دوستی میں شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

’’جناب یہ بڑے افسوس کی بات ہے!آپ اس کے سچے دوست ہیں مگر میری مالکہ کو آپ سے ذرا ہمدردی نہیں ہے۔وہ آپ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔‘‘

دارتا کو سخت دھکا لگا۔اس نے کہا کہ تم مجھ سے یہ کیوں کہہ رہی ہو؟

کٹی نے بڑی صفائی سے بتایا کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔اب دارتا نے غور کیا تو یاد آیا کہ ہر بار جب وہ یہاں آتا تھا تو کٹی اسے بڑی ہمدردی سے دیکھتی تھی۔اگر کٹی سچ کہہ رہی ہے تویہ میرے کام آسکتی ہے۔وہ ابھی کچھ کہنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ انھوں نے باہر کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔کٹی نے گھبرا کر کہا:

’’اوہ میرے اللہ!میری مالکہ واپس آگئی۔آپ کو جلدی سے چلے جانا چاہیے۔‘‘

دارتا نے جلدی سے اپنا ہیٹ اٹھایا‘جیسے وہ جارہا ہے مگرجب اس نے دیکھا کہ کٹی کمرے سے نکل چکی ہے تو وہ چپکے سے ایک الماری میں چھپ گیا۔اس نے کٹی کی آواز سنی۔وہ کہہ رہی تھی:

’’میں آرہی ہوں مالکہ!‘‘

وہ دونوں میلادی کے سونے کے کمرے میں چلی گئیں مگر دروازہ کھلا رہ گیا۔دارتا تک ان کی باتوں کی آواز آرہی تھی۔میلادی نے کٹی سے پوچھا:

’’کیا وہ نوجوان آیا تھا؟‘‘

کٹی نے صاف جھوٹ بولا:

’’نہیں مادام‘شاید اس نوجوان نے کوئی اور دوست تلاش کر لی ہے۔‘‘

میلادی نے جواب دیا:

’’بہت مشکل ہے مجھ سے اسکی دوستی بہت پکی ہے اور وہ میرے قبضے میں ہے۔‘‘

کٹی نے اپنی مالکہ کو بھڑکا نے کے لیے شرارت سے کہا:

’’اچھا؟میں سمجھتی تھی کہ آپ اس کو پسند کرتی ہیں۔‘‘

’’پسند کرتی ہوں ؟میں تو اس سے نفرت کرتی ہوں ۔وہ احمق ہے۔میں نے کاردینال کے لیے ایک کام انجام دیا تھا۔دارتا نے اسے پورا نہیں ہونے دیا ۔مجھے اس سے انتقام لینا ہے۔‘‘

دارتا اپنے متعلق اس عورت کے یہ الفاظ سن کر غصے سے کانپتے لگا۔میلادی نے اپنی بات جاری رکھی:

’’میں کئی ہفتوں سے اس سے انتقام لینے کا منصوبہ بنا رہی ہوں۔‘‘

کٹی نے کہا:

’’لیکن مادام‘آپ اس عورت سے انتقام لے چکی ہیں جس سے وہ محبت کرتا تھا۔‘‘

’’ارے وہ !بوناسیو کی بیوی؟دارتا تو اس کو اس طرح بھول چکا ہے جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں ۔یہ میرا ہی کارنامہ ہے۔نواب روشفور کی مدد سے میں نے بوناسیو کی بیوی کواس انجام تک پہنچایاہے۔‘‘

یہ سن کردارتا کے پسینے چھوٹ گئے۔اس نے دل میں کہا:’’یہ عورت بہت بد باطن اور خبیث ہے۔مجھے معلوم کرنا چاہیے کہ اس نے کانستانس کے ساتھ کیا کیاہے۔‘‘وہ الماری میں سے نکل کر میلادی کے کمرے میں گھس گیا اور چیخ کر میلادی سے کہا:

’’تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے بد نصیب عورت!‘‘

میلادی پیلی پڑ گئی اور پیچھے ہٹ کر دارتا سے دور ہو گئی۔اس نے اپنے لباس میں ہاتھ ڈالا اور ایک خنجر نکال لیا۔وہ غصے کے مارے بل کھا نے لگی اور دارتا پر جھپٹ پڑی۔دارتا نے لپک کر اس کی کلائی زور سے پکڑ لی اور اس کی بند مٹھی سے خنجر چھین لیا۔وہ گھٹنوں کے بل گر پڑی۔دارتا نے اس کا گلا دبوچ لیا اور چلایا:

’’کانستانس بوناسیو کہاں ہے؟مجھے بتا کہ وہ کہاں ہے ورنہ میں تیرا گلہ گھونٹ دوں گا۔‘‘

میلادی نے اپنے کپڑوں میں سے بڑی پھرتی سے اپنا بروچ کھینچ کر نکال لیا اوراس کو دارتا کے چہرے پر ٹھیک اس کی آنکھ کے نیچے چبھو دیا۔ایک لمحے کے لیے دارتا نے میلادی کے گلے پر اپنی گرفت ڈھیلی کی اور بروچ اس کے ہاتھ سے چھین لیا‘لیکن اسی لمحے میلادی نے اپنے آپ کو چھڑالیااور ایک میز کی طرف لپکی تا کہ دوسرا خنجر نکال لے ۔جب وہ واپس دارتا کے پاس پہنچی تو دارتا نے اپنی تلوار سونت لی اور دروازے کی طرف کھسکا۔جب وہ خنجر لے کر دارتا پر جھپٹی تو دارتا نے تلوار چلائی اور میلادی کی قمیص کی آستین کے دو ٹکڑے ہو گئے۔دارتا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔میلادی کے کندھے پر فرانس کا شاہی پھول دکھائی دیا جو مجرم کے کندھے پر داغا جاتا ہے۔دارتا حیرت کے مارے چند لمحے کے لیے اپنی جگہ جم کر رہ گیا۔

میلادی چلائی:

’’خبیث!تم نے میرا بہت اہم راز معلوم کر لیا‘لیکن تمہیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا کہ تم دوسروں کو بتا سکو۔‘‘

جیسے ہی اس نے خنجر دارتا کے سینے کی طرف بڑھایا دارتا ہوش میں آگیا۔وہ مڑا اور دروازے سے نکل کر دروازہ باہر سے بند کر دیا۔وہ زینے سے تیزی سے نیچے اترا اور گلی میں بھاگنے لگا۔میلادی کی چیخیں اس کو دور تک سنائی دے رہی تھیں ۔وہ آتو کے گھر تک دوڑ تا ہوا چلا گیا۔آتو سے اس نے ہانپتے ہوئے کہا :

’’میں ایک خوف ناک حادثے سے دو چار ہوا ہوں۔‘‘

آتو نے پوچھا:

’’کیا اس حادثے کا تعلق اس بروچ سے ہے جو تم اپنے ہاتھ میں دبائے ہوئے ہو؟‘‘

دارتا نے اپنے ہاتھ کو دیکھا ۔اس کو خیال نہیں رہا تھاکہ اس نے میلادی سے جو بروچ چھینا تھا وہ اب تک اس کی مٹھی میں دبا ہوا ہے۔اس نے کہا کہ ہاں‘اس واقعے میں بروچ کا بھی دخل ہے۔

’’مجھے دیکھنے دو!‘‘آتو نے دارتا سے بروچ اپنے ہاتھ میں لے کر اچھی طرح الٹ پلٹ کر غور سے دیکھا۔اچانک وہ پیلا پڑ گیا۔وہ بڑ بڑایا:

’’یقین نہیں آتاکہ دنیا میں اس جیسے دو بروچ ہو سکتے ہیں ۔‘‘

دارتا نے پوچھا:

’’کیا تم نے اسے پہچان لیا؟‘‘

’’ہاں‘یہ ہمارے خاندان میں کئی نسلوں سے تھا۔پھر میں نے یہ اس عورت۔۔۔اپنی بیوی کو دے دیا‘لیکن یہ بتاؤ کہ یہ تمہیں کیسے ملا؟‘‘

میلادی کے کمرے میں جو کچھ بیتی تھی دارتا نے آتو کو سنا دی۔جب وہ واقعے کے اس پر پہنچا جہاں اس نے میلادی کے کندھے پر پھول کا نشان دیکھا تھا تو آتو کراہنے لگا اور پیلا پڑ گیا۔

اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔اس نے پوچھا:

’’ یہ عورت ‘یہ میلادی کیا سنہرے بالوں والی ہے؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’کیا اس کی آنکھیں بہت ہلکے نیلے رنگ کی ہیں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’کیا وہ لمبی اور مضبوط جسم والی ہے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’اور کیا پھول کا نشان چھوٹا سا اور سرخ رنگ کا ہے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ وہ انگلستان کی ہے؟‘‘

’’لوگ اس کو میلادی کہتے ہیں جو ایک انگریزی نام ہے‘لیکن وہ فرانس کی ہو سکتی ہے۔وہ بہت اچھی زبان بولتی ہے ۔اس کے لہجے میں ذرا بھی غیر ملک کی جھلک نہیں ہے۔‘‘

یہ سن کر آتو چلایا:

’’تو پھر میرا اندیشہ صحیح نکلا۔اف میرے اللہ!میں تو سمجھا تھا کہ وہ مر گئی ہے، لیکن وہ تو مجھے ستانے کے لیے واپس آگئی۔

’’تمہارا مطلب ہے …وہ عورت….وہ جو تمہارے صوبے میں تھی…گھناؤنے جرم کی سزا میں جس کے کندھے پر پھول کا نشان داغا گیا تھا۔‘‘

’ہاں دارتا،میلادی ہی وہ عورت ہے۔وہی میری…میری بیوی ہے۔اور اب جبکہ تمہیں اس کا راز معلوم ہو گیا ہے وہ تمہیں ہرگز نہیں بخشے گی، زندہ نہیں چھوڑے گی۔ تمہیں فرانس چھوڑ دینا چاہئے۔ تمہیں فوراً یہاں سے بھاگ جانا چاہئے۔‘‘

’’لیکن آتو، تمہارا کیا ہوگا؟‘‘

’’میں محفوظ رہوں گا۔ اسے نہیں معلوم کہ میں زند ہ ہوں۔ اس کو نہیں معلوم کہ نواب ویلا فیر نے بندوقچی آتو کا روپ دھار لیاہے لیکن وہ تمہارے متعلق جانتی ہے اور وہ تمہاری جان کی دشمن ہو گئی ہے۔‘‘

’’میری کمپنی پروٹسٹنٹس سے لڑنے کے لیے کل روانہ ہو رہی ہے۔ اس طرح میں کچھ عرصے کے لیے اس عورت سے بہت دور رہوں گا۔‘‘

’’تم اس عورت کی پہنچ سے کبھی دور نہیں ہو سکتے صاحب زادے! میری تنبیہہ یاد رکھنا۔‘‘

برسوں سے فرانس کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹس آپس میں مل کر امن سے رہتے تھے۔ یہ دونوں عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ پروٹسٹنٹ عقیدے کے لوگ فرانس کے چند قصبوں میں رہتے تھے۔ وہ ان علاقوں میں اپنا قانون چلاتے تھے اور بادشاہ لوئی ۱۳ کیتھولک تھا ان کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا تھا۔ کاردینال رشیلیو نے پورے ملک فرانس کو کیتھولک قانون اور حکومت کے تحت متحد کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کی فوجوں نے تیزی سے پروٹسٹنٹ قصبوں پر بھی قبضہ کر لیا صرف ایک قصبہ لا روش باقی رہ گیا۔ لاروش میں پندرہ مہینے سے لڑائی جاری تھی۔ اس وقت بادشاہ اور کاردینال اپنے محافظوں اور بندوقچیوں کے ساتھ وہاں پہنچے۔

ایک شام بادشاہ کے بندوقچیوں کی چھٹی ہو چکی تھی، آتو، پارتو ، ارامی نے قریب کے ایک قصبے میں جانے کا ’’پاس‘‘ حاصل کیا۔ دارتا کی کمپنی کے محافظوں کو ڈیوٹی سے چھٹی نہیں ملی تھی، وہ خندقوں میں کام کر رہے تھے، اس لیے دارتا تینوں بندوقچیوں کے ساتھ نہیں جا سکا۔ ان تینوں نے کچھ دیر’’ ریڈ ڈو سرائے‘‘ میں گزاری اور پھر واپس اپنے کیمپ کے لئے روانہ ہو گئے۔ ایک موڑ پر انہوں نے دیکھاکہ دو گھڑ سوار ان کی طرف آرہے ہیں۔ پارتو نے زور سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس کے ہاتھ پستول پر جم گئے ۔

ایک گھڑسوار نے اس سے زیادہ زور سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ آتو نے سمجھ لیا کہ ہو نہ ہو یہ ان افسروں میں سے ہے جو رات کو چکر لگاتے ہیں ، اس لیے اس نے جواب دیا :

’’ بادشاہ کے بندوقچی۔‘‘

گھڑ سوار چند فٹ دور ہی رک گئے۔ ان کے لمبے چغوں میں ان کے چہرے چھپے ہوئے تھے۔ اسی تحکمانہ لہجے میں گھڑ سوار نے پوچھا:

’’حضرات! آپ کے کیا نام ہیں؟‘‘

آتو برہم ہونے لگا:

’’ آپ کون ہیں جناب!اور آ پ کو ہم سے سوال کرنے کا کیا اختیار ہے؟‘‘

گھڑ سوار افسر نے اپنا نقاب نیچے گرا کر اپنا چہرہ دکھایا،بندوقچیوں نے زور سے کہا:

’’کاردینال صاحب!‘‘

کاردینال رشیلیو نے جواب میں کہا:

’’اچھا، اب میں پہچانا، آپ لوگ ہیں۔مسٹر آتو،مسٹر پورتو اور مسٹر ارامی!میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میرے خاص دوست نہیں ہیں،لیکن چونکہ آپ لوگ بہادر ہیں،اس لیے میں چاہوں گا کہ آپ میرے ساتھ ریڈ ڈو سرائے تک چلیں۔‘‘

آتو نے جواب دیا:

’’محترم!یہ ہماری عزت کا باعث ہوگا، اس کے علاوہ ہم نے راستے میں چند مشکوک آدمیوں کو گزرتے دیکھاہے، بلکہ ایک سے تو سرائے میں ہمارا جھگڑا بھی ہوا ہے۔‘‘

کاردینال بولا:

’’جھگڑا؟آپ جانتے ہیں کہ میں جھگڑاپسند نہیں کرتا۔‘‘

’’لیکن محترم! وہ آدمی بہت پیئے ہوئے تھا۔پھر وہ ایک خاتون کا دروازہ توڑنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ وہ خاتون ذرا دیر پہلے پہنچی تھی۔‘‘

کاردینال نے بڑی دلچسپی سے پوچھا:

’’کیا وہ خاتون جوان اور سنہرے بالوں والی تھی اور حسین بھی؟‘‘

’’جناب! ہم نے اسے دیکھا نہیں۔‘‘

کاردینال نے اطمینان کا سانس لیا اور بولا:

’’اچھا آپ نے اسے نہیں دیکھا۔خیر آپ نے اس کی حفاظت کرکے اچھا کیا۔بہرحال اب ہمیں روانہ ہو جانا چاہئے۔‘‘

جب وہ سب سرائے پہنچے تو سرائے والا دوڑتا ہوا ان کے استقبال کو پہنچا اور اس نے کاردینال کو جھک کر سلام کیا۔کاردینال رشیلیو نے اس سے پوچھا:

’’کیا نچلی منزل میں ایک کمرا خالی ہے جہاں یہ حضرات اس وقت تک سردی سے محفوظ رہیں جب تک میں یہاں ہوں؟‘‘

سرائے والا بندوقچیوں کو ایک بڑے کمرے میں لے گیا۔ کاردینال جلدی جلدی زینہ چڑھ کر اوپر چلا گیا جیسے کہ وہ اس جگہ سے پہلے سے خوب واقف ہو۔ پورتو اور ارامی آگ کے ساتھ بیٹھ گئے اور تاش کھیل کر دل بہلانے لگے، لیکن آتو اس عرصے میں ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا کہ کاردینال کس سے ملنے یہاں آیا ہے۔ جب وہ آتش دان کے ایک پائپ کے پاس سے گزرا جو چھت میں سے پار ہوتا ہوا اوپرکے کمرے تک پہنچتا تھا تو اس کوکھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں۔ چند جملے سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے اور اس نے اشارے سے اپنے ساتھیوں کو خاموش رہنے کے لیے کہا۔ اس نے پائپ سے اپنا کان لگا لیا تو اس نے سنا کہ کاردینال کہہ رہا تھا:

’’سنومیلادی! تمہیں حکم دیا جاتاہے کہ تم آج رات انگلستان روانہ ہو جاؤ اور ڈیوک اوف بکنگھم سے ملاقات کرو!‘‘

ایک عورت کی آواز آئی:

’’ لیکن مجھے ڈر ہے کہ ڈیوک مجھ پر بھروسہ نہیں کرے گا۔ وہ ہیروں کے بٹنوں کے واقعے کے بعد سے مجھ سے بدگمان ہو گیا ہے۔‘‘

کاردینال رشیلیو نے جواب دیا:

’’لیکن میں تمہیں ڈیوک کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے نہیں بھیج رہا ہوں۔تم کو صرف یہ پیغام پہنچانا ہے۔ اگر وہ انگلستان کی فوجیں پروٹسٹنٹ لوگوں کی مدد کے لیے بھیجنے کے ارادے پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب فرانس سے جنگ ہوگا۔اس کے علاوہ ملکہ الگ برباد ہو جائے گی۔‘‘عورت کی آواز آئی:

’’اگر وہ اس پر یقین نہ کرے تو؟‘‘

کاردینال نے کہا:

اس کو یقین دلاؤ کہ ہمارے پاس ایسے ثبوت ہیں جو ملکہ کو بدنام کر دیں گے۔‘‘

’’اور اگر ڈیوک پھر بھی اپنے ارادے سے باز نہ آئے؟‘‘

’’ تو پھر ڈیوک کو ایک حادثے کا شکار ہونا پڑے گا۔‘‘

میلادی نے جواب دیا:

’’میں خوشی سے اس کی کوشش کروں گی اور اس کے بعد میں اپنے ذاتی دشمنوں کی خبر لوں گی۔ سب سے پہلے بونا سیو کی بیوی کی…‘‘

’’لیکن وہ تو نانتے کی جیل میں ہے!‘‘

’’محترم کاردینال صاحب! اب وہ وہاں نہیں ہے۔ملکہ کو پتا چل گیا تھا کہ بونا سیو کی بیوی کہاں ہے، اس لیے اس نے بیگم بونا سیو کو ایک خانقاہ میں حفاظت سے رکھوا دیا ہے۔‘‘

کاردینال نے پوچھا:

’’کون سی خانقاہ میں؟‘‘

میلادی نے بتایا:

’’اس کو راز میں رکھا گیا ہے۔‘‘

کاردینال نے بڑے اعتماد سے کہا:

’’کوئی بات نہیں، میں معلوم کر لوں گا۔‘‘

میلادی نے کہا:

’’بہت خوب! اور میرے دشمنوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جس آدمی نے میرے ہیروں کے کام کو خراب کیا اور سارا کیا دھرا بیکار ہوا، اور جس آدمی نے روشفور کو زخمی کیا اور جس آدمی نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں اس کی دوست کانستانس کو اغواء کرنے میں شامل تھی۔‘‘

کاردینال نے پوچھا:

’’ تمہارا مطلب دارتا سے ہے؟ میں اس کو آسانی سے باستیل جیل بھیج سکتاہوں، اس کے بعد دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے گا۔‘‘

میلادی نے خوش ہو کر کہا:

’’عالی مرتبت!بہت اچھا سودا ہے۔ میں ڈیوک اوف بکنگھم کا کام تمام کر دوں گی۔ اس کے صلے میں دارتا کو ختم کرنے میں میری مدد فرمائی جائے۔ اب مجھے آپ کی طرف سے اجازت نامہ چاہیے کہ میں جو کچھ بھی کروں اس کا مجھے اختیار ہے۔ میں ملک فرانس کی بہتری کے لیے جو چاہوں اس کی مجھے اجازت ہو۔‘‘

کاردینال رشیلیو فوراً میز پر بیٹھ گیا۔ آتو نے کاغذ پر قلم چلنے کی آواز سنی تو وہ فوراً پائپ کے پاس سے ہٹ گیا۔ اس نے پورتو اور ارامی کو اشارے سے بلایا اور کمرے کے دوسرے سرے پر لے آیا۔ اس نے دونوں سے کہا:

’’مجھے فوراً روانہ ہونا ہے۔‘‘

پورتو نے پوچھا:

’’مگر ہم کاردینال کو کیا بتائیں کہ تم کہاں گئے ہو؟‘‘

آتو نے جواب دیا:

’’تم اس سے صرف یہ کہنا کہ آتو ذرا دیر پہلے چلا گیا ہے تاکہ ذرا راستے کو دیکھ لے کہ کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہے۔تم دونوں کیمپ پہنچنے کے بعد دارتا کی حفاظت کابہت خیال رکھنا، اس کے قریب رہنا ، ایک لمحے کے لئے بھی اس کو اکیلا نہ چھوڑنا۔‘‘

یہ کہہ کر آتو فوراً گھوڑے پر سوال ہو کر لاروش کی طرف روانہ ہو گیا۔

چند منٹ بعد ہی کاردینال کیمپ واپس جانے کے لیے نیچے آگیا۔پورتو نے آتو کے موجود نہ ہونے کی وجہ بتائی اور کاردینال کو یقین دلایا کہ ہم دونوں آپ کے ساتھ لاروش تک چلیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے۔

ادھر آتو سرائے سے نکل کر آگے بڑھا تو ایک بڑی چٹان ملی، اس کی آڑھ میں اس نے اپنا گھوڑا روک لیا۔ وہ وہاں اس وقت تک رہا جب تک کہ کاردینال اور اس کے دونوں ساتھی گزر نہیں گئے۔ ان کے جاتے ہی وہ واپس سرائے کی طرف دوڑا۔ اس نے سرائے کے مالک سے کہا کہ کاردینال صاحب خاتون سے ایک ضروری بات کہنا بھول گئے ہیں۔ انہوں نے مجھے وہ بات خاتون سے کہنے کے لیے بھیجا ہے۔ سرائے والے نے کہا:

’’ہاں وہ خاتون اوپر کمرے میں ہیں، جاؤ کہہ دو!‘‘

آتو جلدی جلدی اوپر چڑھا۔کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میلادی اپنا ہیٹ پہن رہی ہے۔ آتو کمرے میں گھس گیا اور آہستہ سے دروازہ اندر سے بند کر لیا، مگر جیسے ہی آتو نے کنڈی بند کی میلادی نے پلٹ کر دیکھا اور چلائی:

’’تم کون ہو؟ اور تم نے میرے کمرے میں داخل ہونے کی جرات کیسے کی؟‘‘

آتو نے اپنا ہیٹ اتارا اور اپنا چہرہ دکھایا اور پوچھا:

’’مادام!کیا آپ مجھے نہیں پہچانتیں؟‘‘

میلادی کے منہ سے ایک آہ نکلی۔ اس کی سانس اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئی۔ وہ پیلی پڑ گئی اور ڈر کے مارے پیچھے ہٹنے لگی۔ مشکل سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:

’’نواب ویلا فیر !‘‘

آتو نے کہا:

’’ہاں میلادی! میں ہی نواب ویلا فیر ہوں۔ تم سمجھ رہی تھیں میں مر چکا ہوں؟ جیسے کہ میں نے سمجھا تھا کہ تم مر چکی ہو۔‘‘

میلادی ڈر کے مارے کانپنے لگی۔آتو نے اپنی بات جاری رکھی:

’’نواب ویلا فیر کئی سال تک آتو بندوقچی کے روپ میں چھپا رہا، بالکل اسی طرح جس طرح چارلوت بیوئل، میلادی دی ونٹر کے نام سے چھپی رہی۔ لیکن نہ تو چالوت اپنے جسم پر سے جرم کا نشان چھوٹا سا سرخ پھول مٹا سکی اور نہ میلادی اس میں کامیاب ہوئی ۔‘‘

میلادی نے جواب میں لرزتے ،کانپتے ہوئے کہا:

’’خیر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘

آتو نے جواب دیا:

’’سنو مادام! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو۔مجھے ڈیوک اوف بکنگھم کی زیادہ پروا نہیں ہے۔ وہ انگلستان کا ہے اور اس لیے میرا دشمن ہے ،لیکن اگر تم نے دارتا کا ایک بال بھی توڑنے کی جرات کی تو میں قسم کھاتا ہوں کہ تمہارا گلا گھونٹ دوں گا اور اس بار یہ یقین کر لوں گاکہ تمہارا دم نکل گیا ہے۔‘‘

میلادی ڈر کے مارے ٹھنڈی پڑ گئی۔ آتو نے اپنا پستول میلادی کے سر کی طرف کرکے اپنی بات جاری رکھی:

’’اور مادام، اب مجھے اجازت نامہ تھما دو جس پر کاردینال نے ابھی دستخط کیے ہیں۔ میں تمہیں پانچ سینڈ دیتاہوں۔ ایک….دو…تین….چار….‘‘

ابھی آتو کی انگلی پستول کی لبلبی دبانے ہی کو تھی کہ میلادی نے اپنے لباس میں سے کاغذنکالا اور آتو کی طرف پھینکتے ہوئے بولی:

’’لو،یہ لو،لیکن میں بھی تم سے ضرور انتقام لوں گی!‘‘

آتو نے اجازت نامے کا کاغذ کھولا اور پڑھنے لگا:

’’یہ میرا فرمان ہے اور فرانس کے مفاد میں ہے۔ یہ اجازت نامہ جس کے پاس ہے اس نے جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ کاردینال رشیلیو، ۳،دسمبر۱۶۲۷ء‘‘

یہ پڑھ کو آتو نے کہا:

’’کاردینال نے سمجھا ہوگا کہ تمہیں قتل کی یہ اجازت دے کر وہ عقل مندی کر رہا ہے،لیکن مادام! ایک دن وہ اس کا شکار خود ہو جائے گا۔‘‘

اس کے بعد آتو کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا ۔ سرائے کے بڑے دروازے پر دو محافظ کھڑے تھے۔ ان کو میلادی کو اپنے ساتھ لے جانا تھا۔ آتو نے ان سے کہا:

’’دوستو!کاردینال نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کہہ دوں کہ آپ لوگ اس عورت کو سیدھا جہاز پر پہنچا دیں۔ راستے میں کوئی اس سے بات نہ کر سکے اور یہ کوئی پیغام نہ بھیج سکے۔‘‘

محافظوں نے ’’بہتر ہے‘‘ کہا اور آتو گھوڑے پر سوار ہو کر چل پڑا۔

جب وہ لاروش میں اپنے کیمپ پہنچا تو پورتو اورارامی پہلے سے موجود تھے۔ دارتا بھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی ڈیوٹی ختم کرکے پہنچا تھا۔ تین بندوقچیوں نے دارتا کو بتایا کہ میلادی کے کیا منصوبے ہیں۔ یہ سن کر دارتا چیخ پڑا:

’’اف خدایا! ہمیں ملکہ کو خبردار کر دینا چاہیے۔اور ملکہ کو چاہیے کہ وہ ڈیوک کو خبردار کرے۔ہم کسی قیمت پر اس شیطان عورت کو اس کے قتل و غارت کے ارادے پور ے کرنے نہیں دیں گے۔‘‘

آتونے کہا:

’’مگر ہم اس وقت لڑائی کا میدان نہیں چھوڑ سکتے۔ ڈیوک کو پچانے کے لیے بھی ہم اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘‘

دارتا نے مشورہ دیا :

’’ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے وفادار نوکر پلانشے کو بھیج دیں۔‘‘

یہ تجویز سب نے پسند کی۔پلانشے کو اس کے خیمے سے بلایا اور اس کو ایک بند لفافہ دیا کہ ملکہ کو پہنچا دے۔

دارتا نے کہا کہ تمہیں فوراً پیرس روانہ ہو جانا چاہیے۔ پیرس میں ملکہ سے مل کر جو پیغام بھی وہ دیں وہ لندن میں ڈیوک کو جلد پہنچاؤ اور ملکہ سے پوچھنا کہ میری عزیز کانستانس کو کہاں پہنچایا گیا ہے۔

اس کے بعد پورتو نے مطمئن ہو کر کہا کہ دوستو! اب ہمیں پلانشے کی کامیابی کے لیے ایک جام پینا چاہیے۔ دارتا نے بھی خوش ہو کر کہا:

’’بہت اچھا خیال ہے!‘‘

اس کے بعد دارتا نے ایک بوتل نکالی اور دوستوں کے لیے گلاسوں میں انڈیلنی شروع کی اور بولا:

’’اور میرے دوستو!میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے یہ بوتل بھیجی تھی۔یہ تمہاری مہربانی تھی کہ تم نے مجھے ریڈ ڈو سرائے میں بھی یاد رکھا جبکہ میں لڑائی کے میدان میں تھا۔‘‘

آتو نے یہ سن کر جلدی سے کہا:

’’مگر ہم نے تمہیں کوئی بوتل نہیں بھیجی۔‘‘

آتو نے جواب میں کہا:

’’لیکن سرائے کے مالک کا یہ پرچہ ہے کہ تم تینوں نے یہ بوتل مجھے بھیجی ہے۔‘‘

پورتو شراب خانہ خراب کے شوق میں اپنا گلاس اٹھاتے ہوئے بولا:

’’ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے بھیجی ہے ، ہمیں تو پینے سے مطلب ۔‘‘

دارتا نے پورتو کے ہاتھ سے گلاس چھین لیا اور’’ نہیں،نہیں‘‘کہتا ہوا خیمے سے باہر دوڑا۔جیسے ہی اس نے قدم باہر رکھا اس نے دیکھا کہ خیمے کے باہر زمین پر اس کی کمپنی کا ایک محافظ پڑا ہوا ہے۔اس محافظ کا جسم بری طرح اینٹھ رہا تھا اور اس کا سانس گھٹ رہا تھا ۔ ذرا سی دیر میں اس کا جسم اکڑ گیا۔ وہ ختم ہو چکا تھا۔ ہوا یہ کہ چند منٹ پہلے ہی دارتا نے اسی بوتل میں سے اس بد نصیب کے گلاس میں یہ ذلیل سیال انڈیلا تھا۔ جیسے ہی تین بندوقچی دوستوں سے اس کو معلوم ہوا کہ یہ بوتل انہوں نے نہیں بھیجی تھی تو وہ اس پورے منصوبے کو سمجھ گیا اور محافظ کو دیکھنے باہرآیا کہ اس کا کیابنا۔آتو نے کہا:

’’زہر ملی ہوئی شراب ہے جو ریڈ ڈو سرائے سے بھیجی گئی تھی ۔ اب تو بالکل ظاہر ہو گیاکہ یہ کس نے بھیجی تھی ۔‘‘

دارتا پریشان ہو کر بولا:

’’ہمیں میلادی کے سفاکانہ منصوبوں کو آگے بڑھنے سے ہر قیمت پر روکنا چاہیے، کیوں کہ وہ جب تک ہم سب کو ختم نہیں کر دے گی چین سے نہیں بیٹھے گی۔‘‘

دودن بعد ادھر پلانشے پیرس شہر کے دروازے میں داخل ہوا ادھر میلادی کی گاڑی بکنگھم محل کے گیٹ کے سامنے پہنچی۔ڈیوک خود اس کا استقبال کرنے باہر آیا ۔میلادی نے اس کو دیکھ کر کہا:

’’جناب عالی!میں اس وقت کاردینال رشیلیو کے ایلچی کی حیثیت سے حاضر ہوئی ہوں۔‘‘

ڈیوک نے جواب دیا:

’’خوب، بہت خوب! تو کاردینال کی جاسوسہ دوبارہ تشریف لائی ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس اب ہیرے کے بٹن نہیں ہیں جو آپ چرا سکیں۔ ‘‘

’’میں آپ کو خبردار کرنے آئی ہوں کہ اگر آپ نے لاروش کو جہاز اور سازوسامان پہنچایا تو آں جناب کی تباہی کے برابر ہوگا۔‘‘

ڈیوک نے بڑے سکون سے جواب دیا:

’’آپ عزت ماب کو مطلع کر سکتی ہیں کہ میں نہ تو ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہوں گا اور نہ ان کی جاسوسہ کے حسن سے متاثر۔میرے جہاز پروگرام کے مطابق روانہ ہوں گے۔‘‘

میلادی نے اپنے پرس میں سے چھوٹا سا پستول نکالا اور چیخ کربولی:

’’بکنگھم کے مالک !آپ اپنے ان الفاظ پر پچھتائیں گے!‘‘

فوراً ہی چار محافظوں نے بڑھ کر میلادی کو قابو کرلیا اور اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔میلادی نے کہا:

’’میں عزت ماب کاردینال کو بتا دوں گی کہ آپ نے اپنا ارادہ نہیں بدلا ہے۔‘‘

ڈیوک آف بکنگھم نے اونچی آواز میں جواب دیا:

‘‘تم کاردینال سے کچھ بھی نہ کہہ سکو گی‘کیوں کہ میں تمہیں ٹاور اوف لندن میں بند کر رہا ہوں جو اتنی ہی عمدہ جگہ ہے جتنی کہ ان کی باستیل جیل۔‘‘

میلاد نے کہا :

’’آپ کی یہ جرات نہیں ہو سکتی!‘‘

ڈیوک نے کہا:

’’جرات نہیں ہو سکتی؟اور پھر اونچی آواز سے لیفٹیننٹ فیلٹن کو بلایا ۔ایک نوجوان افسر آگے آیا اور ڈیوک کو جھک کے سلام کیا ۔ ڈیوک نے کہا :

’’جان فیلٹن!اس عورت کو دیکھو ۔یہ نوجوان اور خوبصورت ہے ‘لیکن اسی کے ساتھ بہت بڑا فتنہ بھی ہے ۔میں اسے تمہاری نگرانی میں دے رہا ہوں۔ اسے ٹاور اوف لندن میں بند رکھو ۔میں تمہیں اپنا وفادار مانتا ہوں ،میں نے جنگ کے میدان میں تمہاری جان بچائی ہے اور تمہیں ترقی دے دے کر اس درجے پر پہنچایا ہے ۔میں نے تمہارے ساتھ اپنی اولاد کا سا سلوک کیا ہے ۔یہ عورت مجھے قتل کرنے لندن آئی تھی ۔ذرا ہوشیار رہنا ۔اپنی حفاظت بھی کرنا ‘یہ تمہیں بھی قتل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔‘‘

جان فیلٹن نے جواب میں کہا :

’’حضور !آپ کے احکام کی پابندی کی جائے گی ‘یہا ں تک کہ میں اپنی عزت اور اپنی جان کی قیمت پر بھی آپ کا حکم بجا لاؤ ں گا ۔‘‘

بچارے فیلٹن کو اس وقت معلوم نہ تھا کہ یہ عورت کس طرح کسی آدمی کی عزت اور جان کو اپنی غرض پر سے قربان کر سکتی ہے ، اور اس کا مقصد صرف انتقام اور اپنی رہائی ہے۔

اس عورت نے اس نوجوان افسر کو استعمال کرنے کا اردہ کر لیا۔اس نے قید میں پہلا دن اور پہلی رات دو زانوں ہو کر عبادت میں گزاری۔جب وہ فیلٹن کے آنے کی آہٹ سنتی تو فوراسسکیاں لینے لگتی ۔فیلٹن ایک مذہبی مزاج کا آدمی تھا ‘اس نے میلادی کو بھی اپنی طرح مذہبی عورت سمجھنا شروع کر دیا ۔

پھر کئی دن تک اس نے کھانے پینے سے انکار کر دیا اور اپنے نگران سے گڑ گڑا ‘گڑ گڑاکر کہنے لگی کہ اسے مرنے دیا جائے اور اچھا تو یہ ہے کہ اس کو ایک چاقو دے دیا جائے تا کہ وہ جلدی سے اپنی یہ ذلت کی زندگی ختم کر دے۔فیلٹن نے اس پر رحم کھانا شروع کر دیا ۔

آخر جب میلادی کو یقین ہو گیا کہ فیلٹن کی ہمدردی اور رحم دلی،اس کی محبت میں بدل چکی ہے تو ایک دن فیلٹن کے قدموں میں گر گئی اور کہنے لگی :

’’میری مدد کیجئے،مجھے میرے دشمن کے پنجے سے چھڑا لیجئے۔‘‘

فیلٹن نے اس کو اپنے پیرو ں میں سے اٹھایا اور پوچھنے لگا کہ تمہارا دشمن کون ہے ۔

میلای نے پوچھا :

’’وہ آدمی جس نے مجھے میرے خاندان سے چرایا ‘اس وقت میں ایک نو عمر لڑکی تھی ۔وہ آدمی جس نے مجھے بے عزت کیا …وہ آدمی جس کی آپ اتنی وفاداری سے خدمت کرتے ہیں ۔‘‘

میلادی نے یہ جھوٹی باتیں رو رو کر بیان کیں۔آنسوؤں سے اس کا چہرہ تر بترہو رہا تھا ۔فیلٹن کو پھربھی یقین نہیںآرہا تھا ۔اس نے زور دے کر کہا :

’’ارے میلادی !‘‘مجھے یقین ہے تم ڈیوک اوف بکنگھم کا ذکر نہیں کر رہی ہو ۔‘‘

میلادی نے فیلٹن کے قریب ہو کر سسکیاں لیتے ہوئے کہا :

’’ہاں اسی کا ذکر ہے ۔اسی کا یہ سیا ہ کارنامہ ہے ۔مجھے شرم سے مر جانا چاہیے۔‘‘

فیلٹن کو یقین آگیا تو وہ بولا :

’’نہیں، نہیں، تمہیں مرنا نہیں چاہیے ۔تمہیں انتقام لینا چاہئے ۔میں تمہاری مدد کروں گا ۔مجھ پر بھروسہ کرو۔میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔میں فوراً روانہ ہو رہا ہوں تاکہ تمہیں یہاں سے فرار کرانے کا انتظام کروں ‘میری عزیز ازجان خاتون!‘‘

جیسے ہی فیلٹن نے باہر قدم نکالا اور دروازہ بند ہوا میلادی مسکرا ئی:

’’فیلٹن میرا ہے۔‘‘

دو گھنٹے بعد فیلٹن واپس آگیا ۔اس نے خاموشی سے جیل کے پیچھے کی پتھر کی سیڑھیوں سے میلادی کو نیچے اتارا ۔وہاں دریا کے کنارے ایک چھوٹی سی کشتی بندھی ہوئی تھی۔ وہ دونوں اس میں بیٹھ گئے ۔فیلٹن نے چپو سنبھال لیے اور کشتی کا رخ دریا کے دہانے پر بندھی ہوئی بڑی کشتی کی طرف کردیا۔ اس نے میلادی کو بتایا کہ میں نے یہ بڑی کشتی تمہارے لیے کرائے پر لی ہے۔ تم اس میں حفاظت سے رہو گی ۔

میلادی چلائی:

’’ مگر ڈیو ک کے بارے میں کیا خیال ہے؟اس کو اپنے سیاہ کرتوتوں کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔‘‘

فیلٹن نے جواب دیا :

’’وہ اپنے جہاز میں لاروش پہنچنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔‘‘

میلادی پھر چلائی :

’’وہ انگلستان سے نکلنے نہ پائے۔‘‘

فیلٹن نے دھیرے سے کہا :

’’فکر نہ کرو ۔وہ یہاں سے ہل بھی نہیں سکے گا۔‘‘

میلادی اپنی کامیابی کے تصور سے مسکرائی۔اس نے نوجوان فیلٹن کے چہرے ہر اپنی نظریں گڑا دیں ۔اس کے چہرے پر ڈیوک کی موت لکھی ہوئی تھی۔

ٍٍٍ فیلٹن نے میلادی کو سہارا دے کربڑی کشتی میں سوار کرایا۔اس نے بتایا کہ میں دس بجے تک واپس آجاؤ ں گااور تمھارے ساتھ کشتی میں فرانس چلوں گا ۔فیلٹن کے پاس تین گھنٹے تھے جس میں اس کو اپنی چہیتی کی طرف سے ڈیوک سے انتقام لینا تھا۔وہ واپس کنارے پر پہنچا اورجہاز کی طرف مارچ کر تے ہوئے فوجی دستوں کی طرف چل پڑا ۔اس کو لوگوں کی اس بھیڑ میں سے گزرنا پڑاجو فوجی دستوں کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہو گئی تھی ۔فیلٹن نے اپنی جیکٹ میں چھپے ہوئے چاقو کو ہاتھ سے دبا کر دیکھا ۔اسی لمحے اس کی ایک موٹے آدمی سے ٹکر ہوئی جو فرانسیسی خوشامدیوں کے سے کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔اس نے فرانسیسی زبان میں کہا :

’’صاحب ‘معاف کیجئے گا۔‘‘کیا فیلٹن نے پلانشے کے معافی چاہنے کی پرواہ نہیں کی۔اس نے چاقو پر اپنے ہاتھ کی پکڑ اور مضبوط کی۔اصل میں وہ دونوں آدمی بھیڑ میں سے تیزی سے ڈیوک کے جہاز کی طرف جانے کی کوشش میں تھے۔ڈیوک آگے نظر آرہا تھا۔وہ بڑے فخر سے اپنے معزز وزیروں کو اپنا جہازی بیڑا دکھا رہا تھا۔پلانشے نے بھی ڈیوک کو دیکھا اور اس کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔

فیلٹن معزز آدمیوں کی لائن میں سے یکایک نکل کر آگے آگیا۔وہ ڈیوک پر جھپٹا اور اس کے سینے میں چاقو اتاردیا۔اس نے زور سے کہا:

’’میلادی نے انتقام لے لیا!‘‘

محافظوں نے فیلٹن کو گھیر لیا اور زمین پر گرادیا۔یہ دیکھ کر پلانشے رکا اور دہشت زدہ ہوکر گھورنے لگا۔اس کو بس ذرا سی دیر ہو گئی تھی۔ڈیوک اوف بکنگھم قتل کیا جا چکا تھا۔

فیلٹن کو گھسیٹ کر لے جایاجانے لگا تو لوگوں کا مجمع چیخ پکار کرنے لگا۔قریب کے گھنٹے نے آٹھ بجائے تو فیلٹن نے نگاہیں گھما کر دریا کے کنارے کی طرف غور سے دیکھا۔میلادی کو لیے ہوئے بڑی کشتی فرانس کے ساحل کی طرف روانہ ہوچکی تھی۔جس عورت کے لیے وہ اپنی جان قربان کر رہا تھا اس نے فیلٹن کا انتظار نہیں کیا تھا۔

فرانس کے ساحل پر پہنچتے ہی میلادی نے کاردینال رشیلیو کو لاروش پیغا م بھیجوایا۔اس میں لکھا تھا:

’’میں کام یاب ہوگئی ہوں ۔ڈیوک اب کبھی انگلستان نہیں چھوڑ سکے گا ۔میں آپ کے دوسرے حکم کی منتظر ہوں۔‘‘

دوسرے دن اس سرائے کے دروازے پر ایک گاڑی آکر رکی جس میں میلادی پچھلی رات سے ٹھہری ہوئی تھی۔ایک لمبا پکے رنگ کا نواب گاڑی سے اترا۔اس کو میلادی کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔میلادی نے مسکرا کر نواب روشفور کا استقبال کیا۔نواب نے میلادی سے کہا:

’’آپ کا پیغام چند گھنٹے پہلے ہی لاروش پہنچا ہے۔عزت ماب کاردینال آپ کی کام یابی سے بہت خوش ہیں۔‘‘

میلادی نے جواب میں کہا:

’’بہت خوب !اور اب جب کے کاردینال کا کام پورا ہوگیا ہے میں اپنے منصوبوں پر پوری توجہ دوں گی۔کیا کاردینال نے معلوم کر لیا کہ بوناسیو کی بیوی کہاں ہے؟‘‘

روشفور نے بتایا:

’’بے شک !عزت ماب جو بات معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور معلوم کر لیتے ہیں ۔بیگم بوناسیو بیتھون کی خا نقاہ میں ہے۔‘‘

میلادی خوش ہو کر بولی:

’’تو پھر ہمیں بیتھون روانہ ہو نے کی فوراََ تیاری کرنی چاہیے۔‘‘

وہ دونوں نیچے اترے اور روشفور کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔روشفور نے کوچوان سے کہا کہ بیتھون کی خانقاہ چلو۔اور وہ روانہ ہو گئے ۔

نہ تو روشفور نے دیکھا اور نہ میلادی نے کہ ایک موٹا نوجوان پلانشے سرائے کی طرف آرہا ہے۔ابھی ابھی ایک جہاز ساحل پر لگا تھااور پلانشے اس سے آیا تھا۔ان دونوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ پلانشے نے ان کو پہچان لیا ہے اور روشفور نے جو کچھ کوچوان سے کہا تھا وہ بھی سن لیا ہے۔پلانشے بڑ بڑایا:

’’اچھا!بیتھون جا رہے ہیں۔وہاں تو ملکہ اور بیگم بوناسیو چھپی ہوئی ہیں۔مجھے فوراََاپنے آقا (دارتا)کو مطلع کرنا چاہیے۔‘‘

پلانشے نے ایک گھوڑا کرائے پر لیا اور پوری رفتار سے لاروش روانہ ہوگیا۔دو گھنٹے ہی میں وہ دارتا کے خیمے میں پہنچ چکا تھا ۔اس کو دیکھتے ہی دارتا چلایا:

’’خوش آمدید پلانشے!تم ہماری فتح کے لمحے میں پہنچے ہو۔لاروش فتح ہو گیا‘مگر تم کیا خبر لائے ہو؟‘‘

پلانشے نے جواب دیا :

’’آقا !مجھے افسوس ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ۔ڈیوک کو قتل کر دیا گیا۔‘‘

دارتا بے اختیار چیخ پڑا:

’’قتل کر دیا گیا! ارے اللہ!اس بدصورت عورت نے اپنی خباثت دکھائی۔اچھا خیر ‘تم کانستانس کی کیا خبر لائے ہو؟‘‘

’’وہ بیتھون کی خانقاہ میں ہے ‘لیکن لوگ وہاں کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔‘‘

’’کون؟کون لوگ؟‘‘

پلانشے نے دارتا کو وہ سب بتادیا جو اس نے سرائے میں سنا تھا اور کہا:

’’روشفور اور میلادی بیتھون کے لیے روانہ ہو چکے ہیں ۔‘‘

دارتا نے بڑی دردناک آواز میں کہا:

’’نہیں ‘نہیں ‘میرے دو بد ترین دشمن میری کانستانس کو ہلاک کر نے چلے ہیں۔مجھے فوراََ بیتھون روانہ ہو جانا چاہیے ۔پلانشے ‘تم جلدی سے آتو ‘پورتواور ارامی کو بلا لاؤ ۔اتنی دیر میں میں تیار ہو جاتا ہوں ۔‘‘

اس عرصے میں میلادی اور روشفور کو لیے ہوئے گاڑی بیتھون کی خانقاہ کے صحن میں داخل ہو گئی۔میلادی نے روشفور سے کہا:

’’میرا انتظار کیجئے۔یہ انتقام میں تنہا لوں گی۔‘‘

میلادی گاڑی سے اتری اور خانقاہ کے دروازے پر بڑی راہبہ (نَن )کے سامنے پہنچی اور اس سے کہا :

’’میں یہاں عزت ماب کاردینال کے حکم پر آئی ہو ں۔‘‘

راہبہ نے بڑی شفقت سے جواب دیا :

’’آؤ میری بچی ! میں تمہاری کیا خدمت کر سکتی ہوں۔‘‘

میلادی نے جواب دیا:

’’میں کاردینال کا ایک پیغام مادام بوناسیو کے لیے لائی ہوں۔‘‘

’’اچھا ‘غریب کانستانس ! وہ ان تمام مہینوں سے بالکل تنہائی کی زندگی گزار رہی ہے۔وہ تمہارا استقبال کر کے کس قدر خوش ہو گی۔اس کا کمرہ زینے کے بالکل اوپر ہے۔تم اسے عبادت میں مشغول پاؤ گی۔‘‘

میلادی نے زینے پر چڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ایک نرم و ملائم آواز میں جواب ملا :’’اندر تشریف لے آئیے۔‘‘

میلادی نے بھی بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا:

’’مادام بوناسیو! میں تمہیں ہر جگہ تلاش کرتی رہی۔ آخر اس نے مجھے تمہاراپتا بتایا۔‘‘

کانستانس نے پوچھا:

’’تمہیں کس نے میرے متعلق بتایاہے؟‘‘

’’کیوں؟دارتا کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔‘‘

’’دارتا؟آپ نے اس کو دیکھا ہے؟‘‘

’’بے شک میری پیاری بچی!وہ یہاں تم سے ملنے کے لیے روانہ ہو چکا ہے ۔اس نے مجھ سے کہا کہ میںآگے چلوں اور تمہیں تیار ہو نے میں مدد دوں۔‘‘

’’واقعی دارتا میرے پاس آرہا ہے؟میں مہینوں سے یہ خواب دیکھ رہی ہوں۔‘‘

’’یہاں پہنچنے میں اسے کئی گھنٹے لگیں گے‘اس لیے میری عزیز!جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔کھانا کھانے اور گپ شپ کرنے کے لیے ہمارے پاس خاصا وقت ہے۔‘‘

تھوڑی دیر ہی میں ان کے لیے کھا نا کمرے میں آگیا ۔کانستانس کے خوشی کے مارے ہاتھ پیر پھول گئے تھے اور اس سے کھانا کھایا نہیں جا رہا تھا‘لیکن میلادی نے اصرار کیا کہ اس کو پیٹ بھر کر کھانا کھا لینا چاہیے تاکہ پیرس تک کے سفر کے لیے اس میں طاقت رہے۔ میلادی نے اس کی رکابی میں مرغی کا ٹکڑا ڈالا اور جگ سے اس کے لیے گلاس میں پانی انڈیلا‘پھر اس میں ایک سفوف ملا دیا اور بولی :

’’کھاؤ‘کھاؤ‘اچھی طرح کھاؤ!‘‘

کانستانس نے دل نہ چاہتے ہوئے بھی مروت میں بڑے بڑے نوالے لینے شروع کر دیے۔اسی وقت انہوں نے خانقاہ کے باہر گھوڑوں کی آوازیں سنیں۔کانستانس سے نہ رہا گیا۔وہ اشتیاق میں اٹھی اور کھڑکی کی طرف جانا چاہتی تھی کہ گر پڑی اور کم زوری کے مارے سفید پڑ گئی‘لیکن میلادی کھڑکی تک دوڑ کر پہنچی اور اس نے بندوقچیوں کے لباس سے ان کو پہچان لیا۔ فوراََوہ کمرے سے نکل بھاگی۔ کانستانس نے اپنے آپ گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑی مشکل سے میلادی سے کہا:

’’میرا انتظار کرو!‘‘

لیکن وہ بڑی دقت سے چند انچ ہی کھسک سکی اور فرش پر لیٹ گئی۔وہ زینے پر چڑھنے والے کے جوتوں کی آواز اور اپنا نام لے کر پکارنے والے کے الفاظ سننے کے قابل بھی نہیں رہی ۔یکایک دارتا کمرے میں گھس آیا۔اس کے پیچھے اس کے دوست بھی آگئے۔دارتا نے گھٹنوں کے بل جھک کر کانستانس کو اٹھایا ‘لیکن کانستانس اس کی آمد سے خوش ہونے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔

پورتو مدد کے لیے اپنی پو ری قوت سے چلایا۔ارامی میز پر سے پانی کا گلاس اٹھا نے کے لیے دوڑا تا کہ کانستانس کو پلائے ‘لیکن اس نے دیکھا کہ آتو میز کے پاس کھڑا ہے اور ہاتھ میں پانی کا گلاس اٹھا کر خوف اور دہشت کے ساتھ غور سے دیکھ رہا ہے۔وہ پریشان اور مایوس ہو کر چلایا:

’’یا اللہ یہ کیا ہوا؟‘‘

پھر وہ دارتا کے قریب پہنچا جو کانستانس کے بے جان جسم کو ہاتھوں میں لیے بیٹھا تھا اور زارو قطار رورہا تھا ۔آتو نے اس سے کہا:

’’میرے پیارے دوست !مرد بنو۔اس طرح تو عورتیں روتی ہیں ۔مرد انتقام لیتے ہیں۔‘‘

دارتا نے آتو کو گھور کر دیکھا اور جذبات سے بھرے ہوئے لہجے میں بولا:

’’تو پھر پہلے روشفور کو ختم کرنا ہے‘اس کے بعد میلادی کا کام تمام کروں گا۔‘‘

آتو نے جواب دیا :

’’نہیں! میلادی کو تو میں ٹھکانے لگاؤں گا۔یہ میرا انتقام ہو گا۔ایک شوہر کا بیوی پر زیا دہ حق ہے۔‘‘

پورتو اور ارامی نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر آتو کو دیکھا ۔ان کو تعجب تھا کہ آتو میلادی کو اپنی بیوی کہہ رہا تھا‘لیکن دارتا نے کہا :

’’ہاں‘یہ انتقام آتوہی اپنی بیوی سے لے گا۔‘‘

یکایک دارتا اٹھا اور نیچے دوڑا۔ صحن میں پہنچ کر اس نے روشفور کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکالا اور چلایا:

’’تم قاتل ہو ۔تمہیں اپنے گناہوں کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘

اس کے بعد دونوں کے درمیان تلواریں بڑے خوف ناک طریقے سے چلنے لگیں۔فرانس میں تلواروں کی ایسی خوف ناک لڑائی شاید ہی پہلے کبھی ہوئی ہو۔دونوں لڑتے لڑتے کبھی اوپر پہنچ جاتے‘کبھی عبادت کے حجرے میں گھس جاتے ‘کبھی پتھروں کی راہداری سے ہوتے ہوئے کمروں میں جا پہنچتے۔دونوں شیروں کی طرح ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے ۔دس منٹ ہوئے…پھر بیس منٹ…اور پھر تیس منٹ ہو گئے۔یکایک روشفور کی تلوار نے دارتا کی تلوار کے دوٹکڑے کر دیے‘لیکن دارتا پھر بھی نہیں رکا۔اس کے دل کو روشفور کو ختم کیے بغیر چین نہیںآسکتا تھا۔کٹی ہوئی تلوار کا ٹکڑا اس نے روشفور کے سینے میں اتار دیا جو اس کے جسم کے آر پار ہوگیا۔

دونوں زمین پر گر پڑے۔روشفور مر چکا تھا اور دارتا ہانپ رہا تھا۔پورتواور ارامی دونوں بھاگتے ہوئے اس کی مدد کو آئے۔

میلادی چھپی ہوئی تھی اور ایک دروازے سے یہ ’’تماشا‘‘دیکھ رہی تھی۔وہ اس انتظار میں تھی کہ کب وہ چپکے سے نکل بھا گے اور کوئی اسے دیکھ نہ سکے ۔بندوقچیوں کو دارتا کی طرف متوجہ دیکھ کر وہ گاڑی کی طرف دوڑی ۔وہ گاڑی میں قدم رکھنے کو ہی تھی کہ ایک پستول اس کے سر کے پیچھے چبھتا ہوا محسوس ہوا۔آتو نے بڑے اطمینان سے کہا:

’’میلادی !تمہیں اب اس گاڑی کی ضرورت نہیں ہے۔تمہیں اب میں جہاں بھیج رہا ہوں وہاں گاڑی نہیں لے جائے گی۔میں نے تمہیں تنبیہہ کر دی تھی۔ہے نا؟‘‘

آتو نے میلادی کے ہاتھ پاؤں کس کر باندھ دیے اور اس کو گاڑی میں ڈال دیا۔پھر اس نے پورتو ‘ارامی اور دارتا سے کہا:

’’دوستو!اس کی اچھی طرح نگرانی کرنا اس بار اسے فرار ہونے کا موقع نہیں دینا ہے۔مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے ‘جس میں دو گھنٹے لگیں گے۔‘‘

تینوں نے آتو کو غور سے دیکھا۔وہ حیران تھے ‘مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ پوچھے کہ کہاں جا رہے ہو۔اپنے کہنے کے مطابق آتو ٹھیک دو گھنٹے میں واپس آگیا۔اس کے ساتھ لال رنگ کا چغا پہنے ہوئے ایک لمبا سا آدمی تھا۔اس کے چہرے پر ایک کالی نقاب پڑی ہوئی تھی۔آتو نے اشارے سے اپنے دوستوں کو گاڑی میں پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔وہ خاموشی سے چل پڑے ۔چند میل چلنے کے بعد ایک دریا کے کنارے پہنچے۔وہاں گاڑی روک کر وہ اتر گئے۔

نقاب پوش آدمی نے گاڑی میں سے میلادی کو کھینچ کر باہر نکالا اور دریا کے کنارے لے گیا۔وہاں وہ سب اکھٹے ہو گئے ۔میلادی نے چلا کر پو چھا:

’’تم لوگ آخر مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘

آتو نے آہستہ سے کہا:

’’ہم یہاں تمہارے جرائم کا فیصلہ سُنانے آئے ہیں ۔دارتا ! پہلے تم بتاؤ۔‘‘

دارتا نے آگے بڑھ کر کہا:

’’میں میلادی پر کانستانس بوناسیو کو زہر دینے کا الزام لگاتاہوں اور اس نے خودمجھے بھی زہر دینے کی کوشش کی۔اس نے ریڈ ڈو سرائے سے زہرملی ہوئی شراب بھیج کر مجھے ختم کرنا چاہا۔اللہ نے مجھے بچایا‘لیکن ایک دوسرا بے گناہ آدمی اس شراب سے ختم ہو گیا۔وہ بادشاہ کا ایک بہادر محا فظ تھا۔‘‘

اب پورتو آگے بڑھ کر بولا:

’’میں اس عورت کو ڈیوک اوف بکنگھم کے قتل کا انتظام کرنے کا مجرم قرار دیتا ہوں۔‘‘

پھر ارامی کی باری تھی۔وہ کہنے لگا:

’’میں اس شیطان کی بچی کو جان فیلٹن کی موت کا ذمے دار قرار دیتا ہوں۔وہ اس بے رحم عورت کی وجہ سے قتل ہوا۔‘‘

آتو نے کہا:

’’اب میری باری ہے۔میں نے اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف اس عورت سے شادی کی۔میں نے اس پر اپنی شہرت ‘اپنی محبت اور اپنی دولت قربان کردی ۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ عورت مجرمہ ہے۔‘‘

میلادی نے جواب دیا:

’’تم میرا جرم ثابت نہیں کر سکتے۔تم اس آدمی کا نام نہیں بتا سکتے جس نے میرے بازو پر مجرم ہونے کا نشان لگایا تھا۔‘‘

ایک آواز بلند ہوئی :

’’خاموش ! اب میری بار ی ہے۔‘‘

سب لوگوں کی نگاہیں اس آواز کی طرف گھوم گئیں ۔میلادی چلائی:

’’تم کون ہو؟‘‘

وہ آدمی آہستہ آہستہ میلادی کے سامنے آکھڑا ہوا ۔اس نے اپنی نقاب اتاردی۔

میلادی نے اس کے پیلے چہرے‘بجھی ہوئی آنکھوں اور صفائی سے منڈے ہوئے سر کو غور سے دیکھا اور خوف سے چلا اٹھی:

’’آہ !نہیں …نہیں…صوبہ للی کاجلاد…یہ آدمی کہاں سے آگیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے میرے بازو پر جرم کا نشان لگایا تھا۔‘‘

آتو حیران تھا۔اس کے سب دوست حیران تھے۔آتو اس آدمی کو اس صوبے کے جلاد کی حیثیت سے جانتا تھا ۔جب آتو اس آدمی کو معاو ضہ دے کر یہاں لایا تھا تو اس کو خود بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ میلادی کو جانتا ہے۔ہ تو اس کو بس میلادی کو قتل کرانے کے لیے لایا تھا۔

اس شخص نے کہنا شروع کیا:

’’ہاں میں نے ایک بار سزا کے طور پر میلادی کے بازو پر مجرم ہونے کا نشان لگا یا تھا۔میں اپنی کہانی سناتا ہوں۔‘‘

اس نے بات جاری رکھی:

’’یہ عورت ایک بار راہبہ(نن)بننے کی تربیت لے رہی تھی۔جو نوجوان پادری اس کی تر بیت پر مقرر تھا وہ اس کے حسن اور اس کی پر کشش شخصیت سے گھائل ہو گیا۔یہ عورت اس کو ور غلا کر گرجا لے گئی۔ان کے پاس پیسہ کوڑی نہیں تھا‘اس لیے انھوں نے گرجا کے خزانے سے کچھ چیزیں چرائیں ۔یہ چیزیں بڑی مقدس تھیں۔انھوں نے یہ چیزیں بیچ ڈالیں ‘مگر پکڑے گئے۔یہ عورت جیل بھیج دی گئی‘مگر اس نے جیلر کو بھی ورغلا لیا اور اس کی مدد سے جیل سے نکل بھاگی۔نوجوان پادری کو بھی سزا ہوئی۔وہ دس سال کے لیے قید کر دیا گیااور اس پر جرم کا نشان لگا نے کا فیصلہ کیا گیا۔جلاد کی حیثیت سے میرا فرض تھاکہ میں اس پادری پر بھی جرم کا نشان لگاؤں۔

میں نے قسم کھائی کہ اس عورت کو بھی سزا دوں گا۔چنانچہ میں نے اسے بھی ڈھونڈ لیا اور اس کے بازو پر بھی جرم کا نشا ن لگا دیا۔

اس عر صے میں میرا پادری بھائی بھی جیل سے فرار ہو گیااور مجھ پر اس کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا اور مجھے میرے بھائی کے بجائے جیل بھیج دیا گیا۔میرے بھائی کو اس بات کی خبر نہیں ہوئی‘اس لیے وہ اس عورت سے پھر مل گیااور دونوں ایک گاؤں میں بھائی بہن بن کر رہنے لگے۔بھائی گرجا میں کام کرنے لگا۔

صوبے کا بڑاسردار اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا ۔اس عورت نے پادری کو چھوڑ دیا اور سردار کی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے ساتھ رہنے لگی۔سردار نے اس کو بڑی عزت دی۔اس کی بیوی کی حیثیت سے یہ عورت’’بیگم وی لافیر ‘‘بن گئی۔‘‘

سب لوگ آتو کی طرف دیکھنے لگے ‘جس نے کہا ہاں یہ سب سچ ہے۔

جلاد نے اپنی بات جاری رکھی:

’’میرا بھائی یہ ذلت برداشت نہ کر سکا ۔وہ’’ للی‘‘ واپس چلا گیا۔جب اس نے سنا کہ میں اس کی جگہ سزا بھگت رہا ہوں تو اس نے خود کشی کر لی۔یہ ہیں اس عورت کے جرائم۔‘‘

’’آتو آگے آیا اور بولا:

’’صاحبو !آپ نے اس عورت کے جرائم کی کہانی سنی! آپ کے خیال میں اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟‘‘

پورتو نے کہا:

’’موت!‘‘

ارامی نے کہا:

’’موت!‘‘

دارتا نے کہا:

’’موت!‘‘

للی کے جلاد نے کہا:

’’موت!‘‘

آتو نے کہا:

’’اور میں بھی کہتا ہوں‘موت!‘‘

میلادی کے منھ سے ایک زور کی چیخ نکلی اور وہ گھٹنوں کے بل گر گئی۔جلاد نے اس کو اٹھایااور ایک چھوٹی سی کشتی کی طرف لے گیا۔کشتی دریا کے کنارے بندھی ہوئی تھی۔میلادی نے بہت ہاتھ پیر مارے اور چلائی:

’’تم لوگ جج نہیں ہو ۔تم لوگ قاتل ہو!‘‘

میلادی کی چیخیں اتنی دردناک تھیں کہ دارتا کا دل پسیجنے لگا۔وہ میلادی کی طرف بڑھنے لگا‘لیکن کسی نے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑ کر اسے روک لیا۔یہ آتو تھا۔اس نے کہا:

’’دارتا !تم نے اب اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو میں تلوار نکال لوں گااور اس بارمیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

جب کشتی دوسرے کنارے پہنچی تو جلاد نے میلادی کو اٹھا کر زور سے زمین پر پٹخا۔جلاد نے اپنی تلوار سر سے اونچی اٹھائی اور پھر اس کی پوری طاقت کے ساتھ تلوار میلادی کے جسم پر پڑی۔ایک خوفناک چیخ کی آواز دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچی۔میلادی ختم ہو چکی تھی۔جلاد نے اپنا چغا اتارا اور زمین پر پھیلادیا۔اس نے لاش کو چغے پر رکھا اور چا روں کونوں کو ملا کر گٹھری بنا دی۔گٹھری کندھے پر رکھ کر وہ واپس کشتی پر آگیا۔

وہ کشتی کو دریا کے بیچ تک لایا اور رک گیا۔کشتی میں کھڑے ہو کر اس نے گٹھری کو اونچا اٹھایا اور زور سے کہنے لگا:

’’قدرت کا انصاف پو را ہونے دو!‘‘

گٹھری پانی میں ڈال کر وہ دیکھتا رہا‘یہاں تک کہ وہ پانی کی تہہ میں بیٹھ گئی۔

دریا کے کنارے کھڑے ہوئے چاروں آدمیوں نے اپنے اپنے ٹوپ اتا رے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

جب دارتا اور تینوں بندوقچی پیرس میں داخل ہوئے تو وہاں لاروش کی عظیم فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔جب وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو کاردینال کے محافظوں نے ان کو زبر دستی روک دیا۔محافظوں کا لیڈر بولا:

’’دارتا صاحب !میں عالی مرتبت کاردینال صاحب کے حکم سے آپ کو گرفتا ر کرتا ہوں۔مجھے ہدایت ملی ہے کہ میں آپ کو فوراََکاردینال صاحب کے سامنے پیش کروں۔‘‘

دارتا کے ساتھیوں نے کہا:

’’میرے دوست !بالکل نہ ڈرو۔ہم تمہارے ساتھ کاردینال رشیلیو کے پاس چلتے ہیں ۔‘‘

محافظ دارتا کو کاردینال کے کمرے میں لے گئے‘لیکن تینوں بندوقچیوں کو اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔آتو نے اونچی آواز سے کہا:

’’دارتا!ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

آتو چاہتا تھا کہ یہ آواز کاردینال تک پہنچ جائے۔

دارتا‘کاردینال کی میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔یہ اس کی کاردینال سے پہلی ملاقات تھی اور اس کو ڈر تھا کہ آخری بھی ہو گی۔کاردینال نے ا س سے کہا:

’’مسٹر!مجھے امید تھی کہ میں ایک نہ ایک دن آپ سے دوستی کا ہاتھ ملاؤں گا۔آپ کی بہادری کی داددوں گا‘لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں اب ایسا نہیں کر سکتا‘کیوں کہ آپ پر فرانس کی ایک سچی خدمت گار کے قتل کا الزام ہے۔‘‘

دارتا نے جواب دیا:

’’وہ عورت کئی جرائم کر چکی تھی ‘جس میں قتل بھی شامل تھا۔ایک بار نہیں کئی بار اس نے انسانوں کی جانیں لیں۔میں نے اس کے جرائم کی سزا دی ہے۔‘‘

کاردینال بولا:

’’تو آپ نے یہ قتل کیا…اور روشفور نے بھی۔ایک نوجوان کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘لیکن آپ کی کام یابیاں بہت مہنگی پڑیں ‘میرے لیے بھی اور ملک فرانس کے لیے بھی۔آپ کو اس کے بدلے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔‘‘

دارتا نے ہنستے ہوئے بڑے اطمینان سے جواب دیا:

’’جناب والا!میں ایسا نہیں سمجھتا‘کیوں کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے میرے پاس با قاعدہ اجازت نامہ ہے۔‘‘

کاردینال رشیلیونے بڑی حیرت سے پوچھا:

’’اجازت نامہ ہے؟اس پر کس کے دستخط ہیں؟‘‘

دارتا نے کاغذ ہاتھ میں لے کر اس کو دکھا تے ہوئے کہا :

’’جناب والا کے دستخط ہیں۔‘‘

یہ کاغذ آتو نے ریڈ ڈو سرائے میں میلادی سے لیا تھا۔

کاردینال نے یہ کاغذ دارتا سے لے لیا اور پڑھنے لگا:

’’یہ میرا حکم ہے اور فرانس کی بہتری کے لیے ہے۔جس کے پاس یہ اجازت نامہ ہے اس نے جو کچھ کیا ہے وہ میری اجازت سے کیا ہے۔‘‘

اجازت نامہ پڑھنے کے بعد کاردینال سوچنے لگا۔وہ کئی منٹ تک گہری سوچ میں غرق رہا۔اجا زت نامہ ہاتھ میں لے کر وہ الٹ پلٹ کر بار بار دیکھتا رہا۔پھر اس نے نگاہیں اٹھا کر اوپر دیکھا اور مسکرایا:

’’ہر شخص کو کاغذپر قلم چلانے سے پہلے بہت اچھی طرح سوچ لینا چاہیے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اجازت نامے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔پھر اس نے قلم اٹھایا اور چر می کاغذ کی ایک بڑی شیٹ پر لکھنا شروع کیا۔

دارتا نے دل میں سوچا:

’’میرا آخری وقت آگیا ۔یہ میری موت کا حکم لکھ رہا ہے‘لیکن مجھے بہادر کی سی موت مرنا ہے۔‘‘

کاردینال نے لکھنے کے بعد کاغذ دارتا کو دیتے ہوئے کہا:

’’یہ لیجئے جناب!‘‘

دارتا چیخ کر بولا:

’’کیا؟یہ تو لیفٹیننٹ کی حیثیت سے تقرر نامہ ہے۔‘‘

کاردینال نے جواب دیا :

’’ہاں جناب !آپ صرف اس میں اپنا نام لکھ لیجئے۔‘‘

دارتا نے اپنے گھٹنے زمین پر ٹکا دیے اور کہنے لگا:

’’نہیں جناب !میں اس افسری کا مستحق نہیں ہوں۔بندوقچیوں کے ساتھ نجی طور پر خدمات انجام دینا میرے لیے بہت ہے۔میرے تین دوست ہیں اور لیفٹیننٹ کے عہدے کے مجھ سے زیادہ اہل ہیں۔‘‘

کاردینال نے جواب دیا:

آپ جو چاہیں کریں ‘لیکن یاد رکھئے یہ میں نے آپ کے لیے دیا ہے۔اچھا اللہ حافظ دارتا صاحب !‘‘

دارتا گھبرایا ہوا کمرے سے باہر آگیا۔

آتو نے پو چھا :

’’تم ٹھیک ہو نا میرے دوست؟‘‘

دارتا نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا:

’’ہا…ہاں ٹھیک ہوں۔آتو دیکھو‘کاردینال نے یہ مجھے دیا ہے‘لیکن میں اسے قبول نہیں کر سکتا ۔یہ عہدہ تمہیں ملنا چاہیے۔‘‘

آتو نے کاغذ پڑھنے کے بعد کہا:

’’میرے دوست ! یہ عہدہ آتو جیسے عام سپاہی کے لیے بہت بڑا ہے اور ’’وی لافیر کے نواب‘‘کے لیے بہت چھوٹا۔تم نے یہ حاصل کیا ہے اور تم ہی اسے رکھو۔‘‘

اب دارتا نے کاغذ پورتو کی طرف بڑھایا:

’’اور میرے دوست تم؟تم لیفٹیننٹ کی وردی میں بہت شان دار لگو گے۔‘‘

پورتو نے کاغذ دارتا کو لو ٹا تے ہوئے کہا:

’’میرے عزیز ساتھی!میں بہت جلد ایک معزز آدمی کے لباس میں ہو ں گا‘کیوں کہ میری عزیز منگیتر کو ابھی ابھی ایک بہت بڑی رقم ملی ہے۔وہ برسوں سے میرا انتظار کر رہی ہے ۔اب ہم شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے اورمیں اس کے ساتھ اور اس کی دولت کے ساتھ آرام سے رہوں گا ‘اس لیے اس عہدے کو اپنے پاس رکھو۔یہ ایک معزز مال دار آدمی کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔‘‘

اب دارتا نے کاغذ ارامی کی طرف بڑھایا اور بولا:

’’تم ایک تعلیم یا فتہ اور عقل مند انسان ہو۔تم مجھ سے کہیں زیادہ لیفٹیننٹ کے عہدے کے اہل ہو!‘‘

ارامی نے فوراََجواب دیا:

’’میرے پیارے دارتا!تم شاید بھول گئے کہ میں صرف عارضی طور پر بندوقچی کا کام کر رہا ہوں۔میرا ارادہ اب بھی یہ ہے کہ جب بھی موقع ملے پادری کی حیثیت سے کام شروع کر دوں۔تم یہ عہدہ خود سنبھالو ۔تم ایک حوصلہ مند اور بہادر لیفٹیننٹ ثابت ہو گے۔‘‘

دارتا نے زور دے کر کہا:

’’لیکن میرے ساتھیو!اگر میں یہ عہدہ قبول کر لوں تو میں اپنے دوستوں کو کھو دوں گا۔ایک افسر دوست نہیں بنتا۔‘‘

آتو نے یہ سن کر بڑے اطمینان سے کاغذ کی خالی جگہ میں دارتا گناں کا نا م لکھتے ہوئے کہا:

’’بالکل نہ ڈرمیرے دوست! جیسے ہم چاروں اس وقت بندوقچی ہیں اسی طرح ہم سب ہمیشہ ایک رہیں گے۔ہم سب ایک ہیں اور ہم سب میں سے ہر ایک سب کے لیے ہے۔‘‘

وہ سب مل کر زور سے چلائے:

’’ہم سب ایک ہیں اور ہم میں سے ہر ایک سب کے لیے ہے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top