skip to Main Content

تیرہ بجے

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے معاذ سکول سے گھر جا رہا تھا۔ اس نے راستے میں بہت خوبصورت ککرانے کے پھول اُگے ہوئے دیکھے۔ تمام بچے ککرانے کے پھولوں کو جانتے ہیں ان کی سفید پنکھڑیاں بہت ہی نازک ہوتی ہیں اور ان کی بناوٹ ایسی ہوتی ہیں جیسے گھڑی کے ڈائل پر وقت بتانے والی سوئیاں۔ یہ پھول کم لگتے ہیں اور گھڑی کا ڈائل زیادہ۔ چھوٹے ہوتے ہوئے تمام بچوں کا یہ مشغلہ ہوتا ہے کہ وہ پھونک مار کر اس کی تمام پنکھڑیاں ہوا میں اڑاتے رہتے ہیں۔ اس نے ایک پھول توڑا اور کہنے لگا ”کیا خوبصورتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ مجھے گھڑی کی طرح صحیح وقت بتائے گا۔“ یہ کہہ کر اس نے پھونک ماری تو پھول سے پنکھڑی نما کئی بیج ہوا میں اڑے۔ مگر ابھی بھی بہت سے اپنے ڈنٹھل کے ساتھ جڑئے ہوئے تھے۔ اس نے مزید پھونکیں مار کر بیچ اڑائے اور ساتھ گنتی بھی شروع کر دی۔ ایک بجے۔۔۔ دو بجے۔۔۔ پانچ بجے۔۔۔ دس بجے۔۔۔ گیارہ بجے۔۔۔ بارہ بجے ۔۔۔ تیرہ بجے۔۔۔ تیرہ پھونکوں کے بعد پھر کوئی پنکھڑی یا بیج بقایا نہیں رہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب واقعات ہونا شروع ہوئے۔ معاذ کو اپنے پاؤں کے قریب کئی ننھی ننھی آوازیں سنائی دیں۔ معاذ نے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔اس کے پیروں کے قریب کتنے ہی پری زادوں کی ٹولی کھڑی تھی۔ جو زور زور سے چلا رہی تھی۔ وہ پوچھ رہے تھے ”کیا آپ نے تیرہ بجے کا نام لیا ہے۔“ معاذ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا ”ہاںکیونکہ ککرانے کے پھول پر تیرہ پنکھڑیاں ہی تھیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ تیرہ بجے ہیں۔“ یہ سن کر پری زادوں میں سے سب سے معزز دکھائی دینے والے پری زاد نے کہا۔ ”تیرہ تو مدتوں میں کبھی ایک آدھ بار بجتے ہیں۔ پتا نہیں اب ہمیں کیا کرنا چاہےے۔“ تو معاذ نے ان سے پوچھا ”آخر مسئلہ کیا ہے، تم لوگ پریشان کیوں ہو؟“ تو تمام پری زاد اکٹھے چلا کر کہنے لگے ” کیا واقعی تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم پریشان کیوں ہیں؟ کیونکہ تیرہ بجے تمام جادوگرنیاں جادو کے شہر سے اپنے اپنے جھاڑو پر سوار ہو کر نکلتی ہیں اور اڑتے ہوئے اگر وہ کسی پری زاد، بونے یا بالشتیے کو دیکھ لیں تو وہ اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ ”معزز پری زاد نے معاذ کو جواب دیتے ہوئے کہا۔ ”اس بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے لیکن ہو سکتا ہے وہ بچوں کو بھی اٹھا لیتی ہوں۔ اچھا اب خاموشی سے سنو مجھے لگتا ہے میں جادوگرنیوں کے اڑنے سے تیز ہوا کو محسوس کر رہا ہوں۔“ معاذ نے خاصی توجہ سے سنا تو اسے بھی تیز ہواچلنے کی آواز آ رہی تھی ہوا تیز بھی اور عجیب بھی۔اِس طرح چل رہی تھی جیسے سرگوشیاں کر رہی ہو۔ پری زاد معاذ کو کہنے لگا۔ ”چھوٹے بچے تمہیں فوراً گھر کی طرف بھاگ لینا چاہےے کیونکہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ تیز ہوا جادوگرنیوں کے آنے کی نشانی ہے۔ “ لیکن معاذ نہیں چاہتا تھا کہ وہ بے چارے پری زادوں کو تنہا چھوڑ کر چلا جائے۔ وہ بہت خوفزدہ تھے اور معاذ چاہتا تھا کہ وہ وہیں رک کر پری زادوں کی مدد کرے۔ اس نے کہا ”میں تمہارے ساتھ ہی رکتا ہوں۔ لیکن کیا تم مجھے اپنے جتنا منا سا بنا سکتے ہو۔ کیونکہ اگر میرا قد اتنا ہی بڑا رہا تو جادوگرنیاں مجھے آسانی سے دیکھ لیں گی اور پکڑ لیں گی۔“ تو معزز پری زاد نے کہا ”یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اپنے ہاتھ اپنے کان پر رکھ کر سرگوشی کرتے ہوئے بولو ”ہو۔۔۔ و۔۔۔نا۔۔۔ لوکوپائی۔۔۔ الو۔۔۔ تمہیں یہ الفاظ تین دفعہ دہرانے ہوں گے۔ تو تم ہماری طرح بالشتیے ہو جاؤ گے اور جب تم چاہو کہ تم دوبارہ بڑے ہونا چاہتے ہو تو یہی عمل دوہرا لینا۔ لیکن یہ تمہیں الٹا دہرانا ہوں گے۔ “ معاذ بہت پرجوش محسوس کر رہاتھا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور کانوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور پھر تین دفعہ سرگوشی میں بتائے گئے الفاظ دہرائے اور پھر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ پری زادوں جتنا چھوٹا ہو چکا تھا۔ پری زادوں نے اسے گھیر لیا اور اس سے ٹھٹھا کرنے لگے۔ معزز لگنے والے پری زاد نے بتایا۔ ”میرا نام بنٹی ہے۔ یہ میرا دوست سیمی ہے۔“ معاذ نے بڑی گرم جوشی سے دونوں سے ہاتھ ملایا۔ تبھی ہوا تیز ہو گئی۔ تمام پری زاد پریشان ہو کر ایک دوسرے کے نزدیک ہو گئے اورپریشان ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ سیمی کہنے لگا ”ہمیں کہا چھپنا چاہےے۔ جلدی سوچو کوئی تو سوچو ورنہ جادوگرنیاں آ کر ہمیں قیدی بنا لیں گی۔سبھی بڑے ارتکاز سے سوچنے لگے تبھی معاذ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے سب کو بتاتے ہوئے کہا”میں جب ادھر آرہا تھا تو میں نے کوڑے میں ایک پرانی کیتلی پڑی ہوئی دیکھی تھی۔ آؤ اسے ڈھونڈ کر اسے الٹا کر کے اس کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ ہم سبھی باآسانی اس کے نیچے چھپ سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر معاذ چلا تو پری زاد بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ اس کی نظر جلدی ہی کیتلی پر پڑ گئی۔ پھر سب نے بھرپور زور لگا کر اسے الٹا کیا تاکہ اس کے نیچے چھپ سکیں۔ کیتلی کی ایک دیوار میں سوراخ بھی تھا جہاں سے وہ باآسانی باہر جھانک سکتے تھے۔ لیکن تبھی سیمی اچانک کہنے لگا ”میرا رومال باہر ہی گر گیاہے۔ وہ مجھے پڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے میں باہر جا کر اسے لے کر آتا ہوں۔“ لیکن بنٹی کہنے لگا ”ہرگز نہیں تم باہر گئے تو پکڑے جاؤ گے۔ جادوگرنیاں کسی بھی لمحے یہاں پہنچنے والی ہیں۔ دیکھو ہوا میں کتنی تندی آ گئی ہے۔ “ سیمی بضد ہو کر کہنے لگا ”لیکن مجھے ہر صورت جانا ہی ہے کیونکہ اگر جادوگرنیوں کی نظر اس پر پڑی تو وہ نیچے اتر کر دیکھیں گی تو انہیں پتالگ جائے گا کہ یہ کیا چیز ہے ۔وہ نزدیک آئیں تو وہ پری زاد کی خوشبو سونگھ لیں گی اور پھر یہ کیتلی ان کی دسترس سے دور نہیں ہو گی۔ “ تمام پری زاد یہ بات سن کر پریشان ہو گئے۔ تب بنٹی نے سیمی کو کہا ”ٹھیک ہے تو پھر جلدی سے جاؤ اور رومال لے کر آ جاؤ۔“ سیمی چھپتا چھپاتا کیتلی کے نیچے سے نکلا اب سبھی پری زاد بے چینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ ہوا میں مزید شدت آ رہی تھی۔ تبھی ہوا میں سے ایسے آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی سرگوشی میں بتا رہا ہو۔”جادوگرنیاں آ رہی ہیں۔ جادوگرنیاں آ رہی ہیں۔“ معاذ نے کیتلی کی دیوار کے سوراخ سے جھانک کر دیکھا کہ سیمی کیا کر رہا ہے۔ وہ لہراتا بل کھاتا تیزی سے ہلتی ہوئی گھاس میں چلا جا رہاتھا۔ آخر وہ اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں اس کا رومال گرا ہوا تھا۔ اس نے رومال اتھایا اور اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اور پھر۔۔۔ پھر اوہ میرے خدا۔ پری زادوں نے سوراخ سے کیا دیکھا کہ پہلی تین جادوگرنیاں خراماں خراماں چلی آ رہی ہیں۔ انہوں نے چلا کر سیمی کو خبردار کیا تو اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ان تینوں نے لمبے لمبے سیاہ چغے پہنے ہوئے تھے سروں پر نوکیلے ہیٹ تھے وہ اپنے اپنے جھاڑو پر بیٹھیں گھنے بادلوں میں پرواز کر رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی سیمی کے سر سے گزریں۔ سیمی نے کیتلی کی طرف دوڑ لگا دی۔ پری زادوں نے چلا کر پھر اسے خبردار کیا کہ دو جادوگرنیاں اور آ رہی ہیں۔ سیمی نے دیکھا کہ پہلے جادوگرنیوں سے خاصی نیچی پرواز کر رہی تھیں۔ سیمی جلدی سے اردگرد بڑی بڑی گھاس میں دم سادھے پڑا رہا جب تک کہ وہ گزر نہیں گئیں۔ بنٹی نے تاسف سے کہا ”بے چارہ سیمی۔ آخرکار اسے پکڑا جانا ہے۔“ لیکن جادوگرنیوں کے جاتے ہی سیمی بھاگتا ہوا آخر کیتلی کے نیچے پہنچ ہی گیا۔ تمام پری زاد بہت خوش تھے۔ ادھر معاذ سوراخ سے باہر کا نظارہ دیکھ رہا تھا اور وہ خوشی سے کہنے لگا ”ذرا ان جادوگرنیوں کو اڑتا ہوا دیکھو۔ کیا نظارہ ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے۔ میری آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ واقعی بہت دلکش نظارہ تھا۔ آسمان اڑتی ہوئی جادوگرنیوں سے اٹا پڑا تھا۔ کئی جادوگرنیوں نے تواپنی سیاہ بلیاں اپنے ساتھ جاڑو پر بٹھائی ہوئی تھیں۔ دم دبائے ہوئے بلیاں جھاڑو کو بندروں کی طرح چمٹی ہوئی تھیں۔ معاذ نے پوچھا ”کیا جب بھی ککرانے کے پھول کے ڈنٹھل پر تیرہ بجتے ہیں یسا ہی ہوتا ہے۔“ تو سیمی نے آنکھ جھپکے بغیر اسے جواب دیتے ہوئے کہا”بالکل ہمیشہ لیکن تیرہ ہمیشہ دس سال کے وقفے کے بعد بجتے ہیں۔ لگتا ہے دس سال پورے ہو گئے ہیں۔ “پھر معاذ اچانک چلاتے ہوئے بولا ”اوہ وہ دیکھو ایک جادوگرنی کی بلی جھاڑو سے گر گئی ہے۔“ پری زاد نے کیتلی کے سوراخ سے باہر جھانکا واقعی ایسا ہی تھا۔ بلی زمین کی طرف آ رہی تھی اور پیچھے پیچھے انتہائی تیز رفتائی سے جھاڑو پر سوار جادوگرنی بھی اسے زمین پر گرنے سے پہلے پکڑنے کے لیے آ رہی تھی۔ آخرکار اس نے بلی کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی دبوچ لیا۔ لیکن زمین پر زور سے گرنے کی وجہ سے اس کا جاڑو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اور جادوگرنی نرم اور گھنی گھاس پر گر کر قلابازیاں لینے لگی۔ لیکن ابھی بھی اس نے اپنی بلی کو مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ پھر وہ بیٹھ کر بھوں بھوں کر رونے لگی اور شور مچانے لگی۔ ©”میری جھاڑو ٹوٹ گئی اب میں دوبارہ نہیں اڑ سکوں گی۔“ معاذ جادوگرنی کو لڑھکنیاں کھاتے دیکھ کر تھوڑا سا ڈر گیا۔ اس نے سوچا شائد جادوگرنی گر کر زخمی ہو جائے گی۔ وہ بہت ہی رحم دل لڑکا تھا۔ وہ چاہتاتھا کہ وہ اس کے پاس جائے اور جادوگرنی کا حال پوچھے۔ اس نے آہستگی سے کیتلی سے ہاہر نکلنے کی کوشش شروع کر دی لیکن پری زادوں نے اسے واپس کھینچنا شروع کر دیا۔ وہ سرگوشی کرتے ہوئے اسے یاد کروا رہے تھے کہ وہ جادوگرنی کے قریب نہ جائے، ایسا نہ ہو وہ معاذ کو جھینگر بنا دے۔ معاذ نے کہا ”وہ کیوں ایسا کرے گی؟ میں اس کا حال پوچھنے جا رہا ہوں۔ ویسے بھی شکل سے وہ کوئی مہربان قسم کی جادوگرنی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا چہرہ بالکل میری دادی سے ملتا جلتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی ظالم جادوگرنی نہیں ہو سکتی۔“‘ یہ کہہ کہ اس نے خود کو پری زادوں کی گرفت سے آزاد کروایا اور دوڑ کر جادوگرنی کے پاس پہنچا۔ وہ ابھی بھی گھاس پر بیٹھی ہوئی ا ٓنسو بہا رہی تھی۔ بلی اس کی گود میں چھپی بیٹھی تھی۔ وہ ابھی بھی خوف زدہ لگ رہی تھی۔ جادوگرنی اس کو قریب دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ معاذ اس کے پاس جا کر رک گیا۔ جادوگرنی کے ہیٹ کے سرے بہت نوکیلے تھے اور اس نے بہت کھلا چغہ پہنا ہواتھا۔ اس سے پہلے کہ کالی بلی اس کو دیکھ کر غراتی۔ معاذ نے نہایت شائستگی سے کہا ”میں نے آپ کو زمین پر گرتے دیکھا تھا جب آپ کی جھاڑو ٹوٹی۔ میں صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ کہیں آپ کو چوٹ تو نہیں لگی۔“ جادوگرنی اپنا بایاں ہاتھ دباتے ہوئے بولی ”میں زخمی نہیں ہوئی۔ صرف میرے بائیں ہاتھ پر تھوڑی سی چوٹ آئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ گرتے وقت میرا ہاتھ کسی پتھر سے ٹکرایا ہے۔ “ تو معاذ نے اسے کہا ”لائیں میں اپنے رومال سے پٹی کر دیتا ہوں۔ یہ رومال بالکل صاف ہے۔ “ جادوگرنی یہ سن کر اور بھی حیران ہوئی۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور معاذ نے اس کے پٹی باندھ دی۔ جادوگرنی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی ”تم بہت اچھے ہو دیکھو میرا جھاڑو بری طرح ٹوٹ گیا ہے۔ شائد اب کبھی نہ اڑ سکوں۔“ معاذ نے اس کے جھاڑو کو دیکھا۔ صرف اس کو پکڑنے والا ہینڈل ٹوٹا تھا۔ باقی جھاڑو سلامت تھا۔ معاذ نے اپنی جیب کو تھپتھپا کر دیکھا کہ کیا وہ اپنا جیبی چاقو ساتھ لایا ہے۔ اس نے جادوگرنی سے کہا ”میں ہینڈل کے لیے کوئی اور شاخ توڑ لاتا ہوں۔ تب آپ اسے پرانے ہینڈل کی جگہ جھاڑو میں پیوست کر لیں۔ اس سے آپ جھاڑو کو دوبارہ استعمال کر کے اڑ سکیں گی۔“ جادوگرنی نے کہا ”تم نہ صرف نیک دل ہو بلکہ ذہین بھی ہو۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ زیادہ تر لوگ تو جادوگرنیوں سے ویسے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جادوگرنیاں انھیں جھینگر بنا دیں گی۔ لیکن یہ خیال اب بہت پرانا ہو چکا ہے ہو سکتا ہے پرانے دور کی جادوگرنیاں ایسی ہوں۔ لیکن آج کل کی جادوگرنیاں بہت بااخلاق ہیں۔ وہ صرف ایسے منتر تیار کرتی ہیں جس سے کسی کا فائدہ ہو نقصان نہ ہو۔“ معاذ نے جان بوجھ کو اونچی آواز میں جادوگرنی کی تعریف کی تاکہ کیتلی کے نیچے چھپے پری زاد اس کی بات سن لیں۔ پھر وہ جادوگرنی کے لیے لکڑی کاٹنے چلا گیا۔ جو لا کر اس نے جھاڑو کے ہینڈل کی جگہ جھاڑو میں نصب کردی۔ جادوگرنی بہت خوش تھی۔ جادوگرنی نے ایک منتر پڑھ کر جھاڑو پر پھونک ماری تاکہ جھاڑو اڑنے کے لیے تیار ہو جائے۔ پھر وہ معاذ کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی ”کیا تم میرے ساتھ اڑنا پسند کروں گے؟ بہت مزا آئے گا۔ میں اس بات کا دھیان کروں گی کہ تم محفوظ رہو۔“ معاذ فوراً کہنے لگا ”میں ضرور اڑنا پسند کروں گا لیکن آپ پہلے وعدہ کریں مجھے اپنے ساتھ جادوگرنیوں کے دیس میں تو نہیں لے جائیں گی۔“ جادوگرنی نے اسے کہا ”میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ آج کل کی جادوگرنیاں ایسی حرکتیں نہیں کرتیں۔ کیا میں تمہیں ظالم قسم کی جادوگرنی دکھائی دیتی ہوں۔ “ معاذ نے کہا ”نہیں نہیں بالکل بھی نہیں۔ ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ آ رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے رات کے کھانے پر مجھے دیر ہو جائے گی۔ لیکن اتنی بڑی پیشکش میں نہیں ٹھکرا سکتا۔ “ وہ جھاڑو پر سوار ہو گیا۔ جادوگرنی اپنی سیاہ بلی کو لے کر جھاڑو پر اس سے آگے بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا سفر شروع کرتے۔ پری زادوں نے کیتلی الٹ دی اور شور مچاتے، اچھلتے کودتے کیتلی کے نیچے سے نکل آئے۔ وہ شور مچار رہے تھے کہ ہمیں بھی سیر کے لیے لے چلو۔ ہمیں بھی سیر کے لیے لے چلو۔جادوگرنی نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ پری زاد اس کے اتنے قریب چھپے ہوئے ہیں۔ پھر وہ بے تحاشہ ہنسنے لگی جب اس نے دیکھا کہ وہ ایک کیتلی کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ اس نے ہنستے ہوئے سب کو کہا ”آ جاؤ سب جھاڑو پر آ جاؤ۔ میں تمہیں بھی سیر کرواتی ہوں۔ اب تو جھاڑو پر بیٹھے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پری زادوں نے ساری جگہ گھیر لی تھی جادوگرنی نے کچھ جادو کے الفاط بدبدائے اور ایک جھٹکے سے جھاڑو فضا میں بلند ہو گیا۔ معاذ نے مضبوطی سے جھاڑو پکڑ لی۔ پری زاد نعرے لگانے کے بعد اب کوئی اپنا پسندیدہ گیت گنگنا رہے تھے۔ فضا میں تیرتی دوسری جادوگرنیاں بھی جھاڑو پر اتنا مجمع اکٹھا دیکھ کر بے اختیار ہنس رہی تھیں۔ معاذ بھی بے حد محظوظ ہو رہا تھا۔ وہ فضا میں بہت بلندی پر سفر کر رہا تھا۔ ہوا سیٹیاں بجاتے اس کے کانوں کو گدگدا رہی تھی۔ آخر جادوگرنی بولی ”اب ہم نیچے اترنے لگے ہیں۔“ یہ الفاظ سن کر جھاڑو خودبخود نیچے جانے لگا۔ جھاڑو نے بڑے آرام سے سب کو زمین پر اتار دیا۔ معاذ نے جادوگرنی کا بہت شکریہ ادا کیا۔ وہ کہنے لگی ”اب مجھے چلنا چاہےے۔ تیرہ بجے کا گھنٹہ ختم ہونے والا ہے۔ اور مجھے گھر لوٹ جانا چاہےے۔ اب جب بھی دوبارہ تیرہ بجے تو معاذ میں تمہیں دوبارہ سیر کرواؤں گی۔ تم میرا یہیں انتظار کرنا۔ میں تمہیں جادوگرنیوں کی سرزمین لے چلوں گی اور واپس بھی لے آؤں گی۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنی بلی سنبھالی۔ معاذ کو گھاس میں کھڑا چھوڑا اور فضا میں بلند ہو گئی۔ پری زاد اسے خداحافظ کہتے ہوئے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے بہت مزے کی سیر تھی۔ اب ہم دوبارہ کسی بھی جادوگرنی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔“ معاذ نے کہا میں خیال ہے میں بھی چلتا ہوں۔ تیرہ کے بعد کیا بجتا ہے؟ میرا خیال ہے چودہ بجتے ہیں۔ تو سیمی کہنے لگا ارے نہیں تیرہ بجتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔ یہ کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔ یہ بارہ کے بعد بجتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد ایک بج جاتا ہے اور یوں لگتا ہے درمیان میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ کہیں گھنٹے پر ایک بجا۔ معاذ نے غور سے سنا لیکن دوسری گھنٹی نہیں بجی۔ پری زاد کہہ رہے تھے لیکن ان کی آوازیں بہت دھیمی ہوتی جا رہی تھیں وہ کہہ رہے تھے ”ایک بج گیا۔ ایک بج گیا۔ تیرہ بجے کا وقت ختم ہو گیا۔ خدا حافظ خداحافظ۔ معاذ نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ دھند میں جیسے تحلیل ہو رہے تھے۔ اب وہ وہاں نہیں تھے۔ معاذ نے سوچا اسے اب بڑا ہو جانا چاہےے۔ اسے مطلوبہ الفاظ اچھی طرح یاد تھے۔ اس نے آنکھیں بند کیں۔ کانوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور پھر اچھی طرح سوچ سوچ کر بولا ”ہائی آلو۔۔۔ لوکی۔۔۔ ہونا“ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ دوبارہ اپنی اصل قامت حاصل کر چکا تھا۔ وہ جتنی تیز بھاگ سکتا تھا گھر کی طرف بھاگا۔ کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اس کی امی اسے نہ پا کر پریشان ہو رہی ہوں گی۔ وہ گھر پہنچا تو امی جان کھانا تیار کر رہی تھیں۔ ان کے رویے سے بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ وہ دیر سے گھر پہنچا ہے۔ انہوں نے معاذ سے کہا ”بیٹا تم بالکل ٹھیک وقت پر گھر پہنچے ہو۔ میرا خیال ہے تم راستے میں کہیں نہیں رکے اور سیدھا سکول سے گھر آئے ہو۔ شاباش بیٹے اچھے بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔“ معاذ کہنے لگا ”لیکن امی جب سے میں سکول سے نکلا ہوں تو بہت کچھ ہوا ہے۔“ میں تو سمجھتا ہوں کہ مجھے بہت دیر ہوگئی ہے۔ امی نے کہا ”نہیں بیٹا۔ ہرگز نہیں ابھی صرف ایک ہی بجا ہے۔“ معاذ نے پوچھا ”کیا آپ کے پاس تیرہ نہیں بجے۔“ وہ بیٹھ گیا۔ ماں نے ہنستے ہوئے پوچھا ”تم کیسی باتیں کر رہے ہو تیرہ بجے۔ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ کبھی تیرہ بھی بجے ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ پرستان میں ہوتا ہو۔ وہ بھی شائد دس سال بعد۔“ معاذ سوچنے لگا واقعی یہ صحیح تھا۔ تیرہ کا گھنٹہ واقعی ہی پریوں کے لیے مخصوص تھا۔ وہ کتنا خوش قسمت تھا اس نے تیرہ بجے کا گھنٹہ پری زادوں اور جادوگرنی کے ساتھ گزارا تھا۔ اس نے کہا ”امی مجھے امید ہے تیرہ پھر بجیں گے۔“ تو امی نے کہا ”کھانا کھاؤ اور بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔“ لیکن یہ بے وقوفی کی بات نہیں تھی۔ معاذ اب جو بھی ککرانے کا ڈنٹھل دیکھتا ہے تو پھونک مار کر اس کی پنکھڑیوں جیسے بیج اڑاتا ہے وہ انتظار کرتا ہے کہ کب تیرہ بجیں گے۔ اگر آپ بھی پھونک مار کر ککرانے کی پنکھڑیاں اڑاؤتو دھیان سے کیونکہ کسے پتا ہے جادو کا گھنٹہ کب شروع ہو جائے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top