skip to Main Content

تم کہاں ہو؟

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔

”ہشام میاں تم کہاں ہو؟“ رضوانہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں آواز لگائی۔
”امی میں یہاں ہوں۔“
ہشام کی آواز باورچی خانے کی طرف سے آئی تھی…. وہ فوراً باورچی خانے کی طرف بڑھیں۔ لیکن ہشام وہاں نہیں تھا۔
”ہشام میاں تم کہاں ہو؟“ انہوں نے پھر آواز لگائی۔
”امی میں یہاں ہوں۔“
اس مرتبہ اس کی آواز ڈرائنگ روم سے آئی تھی۔ وہ فوراً وہاں پہنچیں، لیکن ہشام یہاں بھی نہیں تھا۔
” ایک تو میں اس شریر سے تنگ آگئی ہوں۔“وہ جھلا اٹھیں۔
” کیا ہوا بیگم…. خیر تو ہے…. کس سے تنگ آگئی ہیں آپ ۔“ ان کے شوہر غسل خانے سے نکلتے ہوئے بولے۔
” ہشام سے…. کبھی کہیں چھپ جاتے ہیں اور کبھی کہیں…. اور اس کام میں خوب مہارت حاصل کر لی ہے اس نے۔“
”مہارت ! کیا مطلب….؟“ وہ چونکے۔
” آواز دیں گے حضرت باورچی خانے سے اور اس کے فوراً بعد باورچی خانے سے نکل کر کہیں اور چھپ جائیں گے…. اور پھر وہاں سے کہیں گے…. امی میں یہاں ہوں…. لیکن پھر وہاں بھی نہیں رکتے…. کہیں اور جا چھپتے ہیں۔“
” یہ تو پھر ان کی ذہانت ہے۔“
” حد ہو گئی فیصل صاحب…. یہ ذہانت نہیں…. شرارت ہے۔“ انہوں نے منہ بنایا۔
”ہر شرارت ذہانت سے شروع ہوتی ہے…. جس میں ذہانت نہ ہو ، وہ کیا خاک شریر ہو گا۔“ فیصل انعام مسکرائے۔
” لیکن میں انہیں تلاش کرتے کرتے تھک جاؤں اور ان کی شرارت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔“
”اچھا خیر…. میں سمجھاتا ہوں۔ ہشام یہاں آؤ….تم کہاں ہو۔“
”ابو میں یہاں ہوں۔“
جس طرف سے آواز آئی تھی…. فیصل صاحب وہاں پہنچے، لیکن ہشام میاں وہاں نہیں تھے۔ اب انہوں نے پھر کہا۔
”ہشام میاں! آپ کہاں ہیں؟“
” ابو میں یہاں ہوں۔“
وہ اس طرف گئے تو ہشام میاں وہاں بھی نہیں تھے۔ انہوں نے جھلا کر کہا۔
” ہشام میاں ! یہ اچھی شرارت نہیں ہے…. اس میں ہمیں پریشانی ہوتی ہے….لہٰذا اس شرارت سے باز آجائیں۔“
” تو آپ مجھے ڈھونڈ لیں ناں۔“ ہشام کی شوخ آواز گونجی۔
دونوں اس طرف گئے جس طرف سے آواز آئی تھی…. لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھے۔
” اب آپ یہا ں بھی نہیں ہیں…. ہے کوئی تک۔“
” وہ پیچھے میں آگیا۔“
وہ نہ جانے کس کونے سے نکل کر سامنے آگئے…. دونوں ہنس پڑے…. انہوں نے پہلے تو انہیں خوب پیار کیا۔ پھر دیر تک سمجھاتے رہے…. دوسرے دن ہشام نے پھر یہی شرارت شروع کر دی۔ جب سے انہیں یہ شرارت سوجھی تھی…. وہ اس سے باز آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چار سال کی عمر کے تھے…. ماں باپ انہیں پیار سے سمجھا ہی سکتے تھے…. اور کیا کرتے….
گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ ہمیشہ مری جاتے تھے۔ اس سال بھی تینوں مری پہنچ گئے۔ فیصل انعام کافی دولت مند تھے…. ان کے پاس ایک شاندار کوٹھی تھی۔ بڑی سی کار تھی۔ صبح سویرے وہ سیر کے لیے نکل گئے۔ سیر کرتے دور نکل گئے…. ایسے میں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی…. وہ بارش کا نظارہ کرنے کے لیے ایک بنچ پر بیٹھ گئے…. وہ ایک پارک سا تھا۔ بیٹھنے کے لیے بنچ رکھ دیے گئے تھے۔ بارش کا نظارہ کرتے کرتے ماں کو اچانک احساس ہوا…. ہشام ان کے ساتھ نہیں ہے۔
”حد ہو گئی…. انہیں یہاں بھی شرارت کی سوجھ گئی…. “رضوانہ بیگم بول اٹھیں۔
”ارے!“ فیصل انعام کے منہ سے نکلا، پھر وہ پکارے۔
”ہشام میاں تم کہاں ہو؟“
”ابو میں یہاں ہوں۔“
”تو پھر آپ یہاں بنچ پر آجائیں ہمارے ساتھ۔“
” میں آرہا ہوں….“
دونوں مطمئن ہو کر بارش کا نظارہ کرنے لگے۔ پانچ منٹ گزر گئے۔ ہشام یہاں نہ آئے۔ دونوں جلدی سے کھڑے ہو گئے اور پکارے۔
”ہشام میاں آپ کہاں ہیں؟“
جواب میں ہشام کی آواز سنائی نہ دی…. وہ چلا اٹھے۔
”ہشام میاں آپ کہاں ہیں؟“
اب تو دونوں پاگلوں کی طرح ہشام کو تلاش کرنے لگے…. ساتھ میں ماں نے کئی بار کہا۔
”تنگ نہ کریں…. اب سامنے آجائیں۔“
پارک میں اس وقت ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا…. یہ پارک ایک چٹان پر تھا۔ اس کے تین طرف گہری کھائیاں تھیں…. اور چوتھی طرف سڑک تھی۔ کھائیوں کی حفاظت کے لیے خاردار تار لگایا تھا۔ لہٰذا اس طرف تو ہشام جا ہی نہیں سکتا تھا۔
سڑک کی طرف جا سکتا تھا…. دونوں سڑک پر دور تک دوڑتے چلے گئے…. ہشام نظر نہ آیا…. اب انہوں نے دوسری طرف دوڑ لگائی۔ہشام اس طرف بھی نظر نہ آیا۔
”نہیں…. نہیں۔“ رضوانہ بیگم پاگلوں کی طرح چلائیں۔ فیصل کا دل بھی بیٹھا جا رہا تھا۔وہ چیخے چلائے…. تاکہ کچھ لوگ ان کی مدد کو آسکیں اور لوگ آ بھی گئے…. اب کوئی ادھر دوڑا تو کوئی اور طرف…. لیکن ہشام کو ملنا تھا نہ ملا۔
دونوں کی حالت اس وقت تکلیف دہ ہو چکی تھی۔ جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے…. اس کی انتظامیہ کے بھی چند افراد ان کے پاس پہنچ گئے…. اب سب نے مل کر ہشام کو تلاش کیا…. لیکن وہ نہ ملا۔ ایک بیرے نے ایسے میں تبصرہ کیا۔
”ایسا لگتا ہے کہ وہ سڑک سے نیچے جا گرے ہیں…. اور نیچے والی سڑک سے کوئی ٹرک گزر رہا تھا…. بس ان کا جسم اس ٹرک پر جا گرا۔“
” نن…. نہیں…. نہیں…. خبردار …. خاموش۔“ رضوانہ بیگم چلا اٹھیں۔
اور پھر انہیں یہ حقیقت معلوم ہو گئی کہ ان کا ہشام گم ہو چکا ہے۔ اس کا دور دور تک پتا نہیں…. اب پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی…. دونوں کا برا حال تھا۔ شہر سے قریبی رشتے دار بھی وہیں آگئے…. کئی روز تک وہ سب پہاڑ کی آبادیوں کو چھانتے رہے۔ پولیس نے بھی اعلانات کرائے…. انعام کی رقوم کا بھی اعلان کیا گیا…. لیکن ہشام میاں کا کوئی پتا نہ چلا۔
٭….٭
سفید بالوں والی ایک عورت ایک چٹان پر بیٹھی تھی کہ آٹھ نو سال کا ایک لڑکا ان کی طرف دوڑ کر آیا اور ان کے پیچھے چھپتا ہوا بولا۔
”بڑی اماں…. بتانا نہیں کہ میں یہاں چھپا ہوا ہوں۔“
” کیا مطلب بیٹے۔“ بڑھیا نے حیران ہو کر کہا۔
” وہ میرے ابو امی بیٹھے ہیں…. مجھے تلاش کرتے ہوئے ادھر آئیں گے…. بس آپ بتائیے گا نہیں۔“
”بری بات بیٹے! بہت بری بات…. ایسی شرارت نہیں کرتے۔“ بڑھیا نے سرد آہ بھر کر کہا۔
”بڑی اماں! بس ایک دو منٹ کی تو بات ہے…. پھر میں خود ان کے سامنے آبیٹھوں گا۔ وہ …. وہ دیکھئے…. میرے ابو امی پریشان ہو کر اس طرف آرہے ہیں…. بس آپ انہیں بتائیے گا نہیں۔“ لڑکا شوخ انداز میں بولا۔
بڑھیا نے گھبرائے ہوئے انداز میں اپنے پیچھے دیکھا اور پھر جیسے مطمئن ہو گئی…. اتنے میں ایک مرد اور ایک عورت بہت گھبرا ئے ہوئے اس کے پاس پہنچ گئے…. دونوں ایک ساتھ بولے۔
” اس طرف ہمارا بیٹا تو نہیں آیا….“
پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر خاتون پکاری۔
”حنظلہ تم کہاں ہو۔“
”امی میں یہاں ہوں…. “ لڑکے کی آواز سنائی دی۔
دونوں اس بڑھیا کے پیچھے گئے اور حیران ہوکر بولے۔
”ارے…. وہ تو یہاں نہیں ہے۔“
” میں یہاں ہوں۔“ ایک درخت کے پیچھے سے آواز آئی۔
دونوں نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔
”دیکھو بیٹا! تمہیں کتنی بار منع کیا ، یہ شرارت اچھی نہیں…. اس شرارت نے تو مجھ سے میرے ماں باپ چھڑا دیئے تھے۔“ نوجوان بولا۔
” کیا مطلب ؟“ بڑھیا جو پہلے بھی بری طرح بے چین ہو چکی تھی۔ چلا اٹھی۔
” آپ…. آپ کو کیا ہوا؟“
” یہ …. یہ آپ نے کیا کہا…. آپ اپنے ماں باپ سے بچھڑ گئے تھے۔“
” ہاں ! اور وہ جگہ بھی یہی تھی…. چھپنے کے چکر میں میرا پاؤں پھسل گیا تھا اور میں نچلی سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک پر جا گرا تھا۔ اس طرح میں کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
” تت…. تمہارا نام کیا ہے بیٹا۔“
” جی…. میرا نام…. میرا نام ہشام ہے۔“
”نن…. نہیں…. نہیں…. مجھے دیکھو…. مجھے پہچانو…. میں ہوں تمہاری امی…. رضوانہ بیگم اور …. اور…. دیکھو…. تمہارے ابو چلے آرہے ہیں…. فیصل انعام۔“
”کیا…. “ ان سب کے منہ سے نکلا۔
فیصل انعام نزدیک آگئے…. انہوں نے بھی یہ باتیں سن لی تھیں…. وہ کہہ رہے تھے….
”ہم تو اس دن کے بعد یہاں ہر سال ان دنوں میں ضرور آتے ہیں…. اس امید پر کہ یہاںہمارا لال گم ہوا تھا۔ شاید یہیں پھر مل جائے….“
”اور انہوں نے ہشام کو اپنے گلے سے چمٹا لیا۔ اس کی بیوی اور بیٹا یہ منظر حیرت زدہ انداز میں دیکھ رہے تھے…. ایسے میں فیصل انعام نے پوچھا۔
” ہم نے اخبارات میں اتنے اشتہارات چھپوائے …. کیا اس ٹرک والے نے یہ اشتہارات نہیں دیکھے۔“
” اسے تو مفت کا ایک بیٹا مل گیا تھا…. اس نے مجھے اپنے ساتھ ایک قیدی کی طرح رکھا…. اور میں اپنے گھر کا پتا بتانے کے قابل نہیں تھا…. اس طرح پانچ سال گزر گئے پھر میں اس کے گھر سے بھاگ نکلا اور ایک نیک آدمی تک پہنچ گیا۔ انہوں نے مجھے تعلیم دلوائی…. پھر اپنے بھائی کی بیٹی سے میری شادی کر دی…. بہت خوش حال گھرانے ہیں دونوں…. لیکن میں ہمیشہ آپ کو یاد کرتا رہا…. میرے دماغ میں آپ کے جملے گونجتے رہے…. ہشام تم کہاں ہو…. پھر میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا…. یہ بھی بالکل میری والی شرارت کرنے لگا…. اس وقت میں بہت خوف زدہ ہوا کہ کہیں یہ بھی میری طرح اپنے ماں باپ سے جدا نہ ہو جائے لیکن …. اس کی بھی شرارت ہمارے ملن کا سبب بن گئی“
” اﷲ تیرا شکر ہے۔“
اور وہ پھر ایک دوسرے سے چمٹ گئے…. ان سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے…. یہ آنسو ان تمام آنسوؤں کا بدل تھے…. جو انہوں نے ایک دوسرے کی جدائی میں برسوں بہائے تھے۔
٭….٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top