skip to Main Content

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

حسینہ معین
۔۔۔۔۔

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں ……
دوسروں کی کہانیاں لکھتے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا،آج جب لکھنے کو کہا گیا توسوچا اپنی کہانی لکھ ڈالیں۔ گو کہ بچپن کی باتیں لکھنے کے لیے بہت پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا،اتنے پیچھے کہ بعض مناظر دھندلا سے گئے ہیں۔بعض صورتیں وقت کی کہر کے پیچھے اس طرح چھپ گئی ہیں کہ پہچاننا مشکل ہورہاہے،لیکن پھر بھی آج کی کڑی دھوپ میں کھڑے ہو کر گزرے ہوئے کل کی بات کرنا بڑا اچھا لگ رہا ہے جیسے اچانک ٹھنڈی چھاؤں میں آگئے ہوں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ بچپن ہر ایک کا بڑا مزیدار ہوتا ہے۔نہ کوئی غم، نہ فکر، نہ خوف۔ہر بچہ بڑا بہادر ہوتا ہے۔حماقت کی حد تک بہادر،خطرناک حد تک بہادر۔آج یہ سوچ کر حیرت ہو رہی ہے کہ پہلے ہم بھی کتنے بہادر تھے۔ نڈر،بے خوف اور انتہائی شیطان،لیکن عمر کے ساتھ ساتھ بزدلی بڑھتی گئی۔(چہ افسوس)
بچپن میں سنا ہے اماں میرے بارے میں کہتی تھیں، اس لڑکی کے جسم میں بجلی بھری ہوئی ہے، ایک منٹ چین سے نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کا ثبوت کچھ میری تاریخ سے ملتا ہے کہ جب میں کوئی سال بھر کی تھی تو نوکر نے شام کوباغ کے بیچ میں بنے ہوئے تالاب(جس کے بیچ میں فوارہ لگا ہوا تھا)کے کنارے منڈیر پر بٹھا دیا اور خود ایک تتلی پکڑنے کو ذرا دیر کو ہٹا۔واپسی پر مڑ کر دیکھا تو میں غائب تھی۔بے چارہ ہکا بکا ادھر ادھر دیکھنے لگا تو اچانک تالاب کے اندر سے چیخوں کی آوازیں سنیں،پتا چلا،میں تالاب میں تیرنا سیکھ رہی تھی۔غڑاپ سے کپڑوں سمیت کود گیا، نکالا گیا۔سنا ہے کہ صورت حال سنجیدہ ہوتے ہوتے بال بال بچی تھی۔۔۔ورنہ آج یہ کہانی لکھنے کا موقع نہ ملتا۔بعد میں البتہ اس نوکر کو بڑا افسوس ہوا ہوگا کہ ناحق اس فتنے کو نکال لیا کیونکہ سنا یہ بھی گیا ہے کہ نوکر ہم سے بڑے عاجز تھے۔تمام گڑبڑ اور شرارتیں ہم کرتے تھے اور ڈانٹ ان کو پڑتی تھی۔نام وہ ہمارا س لیے نہیں لے سکتے تھے کہ بعد میں بھی انہیں زندہ رہنا تھا۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میں اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھی۔اس لحاظ سے میری پیدائش پر کہرام مچنا ہی چاہیے تھا۔کیونکہ سنا گیا ہے کہ مجھ سے بڑی بہن کی پیدائش پر ہماری نانی جان باقاعدہ روئی تھیں۔اور ہماری اماں کی آنکھیں کچھ پر نم ہوگئی تھیں۔(نتیجہ یہ ہے کہ آج تک ہماری ان بہن کو بڑی جلدی رونا آجاتا ہے۔)لیکن ہماری خوش قسمتی کہ نانی اماں کو کسی نے ڈرا دیا کہ تیسری بیٹی کے اوپر اگر بیٹا آجائے تو بڑا منحوس ہوتا ہے،گھر اجڑ جاتا ہے۔اس لیے جب میں آرہی تھی توسب سہمے ہوئے تھے،نانی جان اور اماں دعائیں کررہی تھیں کہ بس اس بار لڑکا نہ آئے۔اس لیے جب میں آئی تو بڑا شاندار استقبال ہوا۔(جیسے میں نے آکر سب کو مصیبت سے بچالیا۔) خوب خوشیاں منائی گئیں اور دروغ بر گردن راوی یہ بھی سنا گیا ہے کہ میری پیدا ئش پر جمعداروں اور جمعدارنیوں نے ناچ بھی کیا تھا۔جس کے طعنے مجھے بعد میں بھی ملتے رہے کہ ان سے ملیے، ان کی پیدائش پر جمعدار جمعدارنیاں ناچی تھیں۔شروع میں تو میں اس بات پر بہت برا مانتی تھی لیکن جب عقل آگئی تو میں نے خود ہی نہایت فخرسے سب کے سامنے کہنا شروع کیا کہ ہم تو جناب وہ ہیں جس کے لیے جمعدار تک ناچے تھے(بس لفظوں کی الٹ پھیر ہی میں سب کچھ ہے) مجھے سے جو بڑی بہن تھیں وہ حد درجہ سیدھی اور معصوم سی تھیں انہیں گڑیا وغیرہ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔گڑیوں کے بڑے بڑے گھر بنائے جاتے تھے۔بہت ساری گڑیاں جمع تھیں۔ شادیاں ہوتی تھیں اور مجھے گڑیاں کھیلنا سخت حماقت لگتا تھا۔یہ بولتی تو ہیں نہیں بالکل بے کار ہیں۔ اس لیے میں ہر دوسرے تیسرے دن ان کی ایک آدھ گڑیا توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی تھی۔وہ بے چاری چپکے چپکے رو رو کر خاموش ہو جاتی تھیں۔کیونکہ دوسری صورت میں باقی گڑیوں کی بھی خیر نہیں تھی۔دوپہر کو ہمیں سلانے کی بڑی کوشش کی جاتی،لیکن مجال ہے کہ ہم کبھی سوتے۔جہاں نوکروں کی نظر بچی، ہم کود کر باہر آجاتے اور ساری دوپہر اچک پھاند کرتے،شام سے پہلے آکر پھر چپ چاپ لیٹ جاتے اور سامنے سڑک پر چلنے والوں کوپتھر مارتے۔وہ پریشان ہوتے کہ کہاں سے آیا ہے۔مجھ سے بڑی بہن کو محلے کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کرایا گیا، کیونکہ وہ چھوٹی تھی اور دور بس میں جانے کو بالکل تیار نہیں تھی۔ان کو داخل کیا گیا تومیں بھی مچل گئی کہ میں بھی اسکول جاؤں گی۔اماں نے بڑا منع کیا کہ تم ابھی چھوٹی ہو۔اگلے سال تمہیں بھیجا جائے گا۔لیکن میں ضد پر آگئی اور رونا دھونا شروع کردیا۔ابا نے کہا چلو ٹھیک ہے۔بھیج دو۔تو صبح صبح ہم بھی اسکول پہنچ گئے۔
ہمارے گھرکے سامنے ایک بڑا سا بچوں کا پارک تھا،اس کی دوسری طرف سڑک پر اسکول تھا۔ہم بڑے خوش، گلابی رنگ کی فراک اور گلابی رنگ کے ربن باندھ کر پہنچ گئے۔اسکول کے بارے میں جو ہمارا تصور تھا وہ خاک میں مل گیا۔مختلف کمروں میں بچے بیٹھے تھے،ٹیچرز غالباً پڑھا رہی تھیں، مجھے بھی نرسری کلاس میں بٹھا دیا گیا۔ایک سلیٹ اور رنگین چاک پکڑا دی کہ اس پر تصویر بناؤ۔ ابھی تصویر بنانا شروع ہی کی تھی کہ دوسری طرف بیٹھے ہوئے ایک لڑنے نے کوئی شرارت کی۔مس نے اسے زور سے ڈانٹا،میں نے دہل کر دیکھا تو بچے نے سیاہی اپنے منہ پر لگائی ہوئی تھی۔میں نے سلیٹ اٹھا کر بڑی زور سے بچے کے سر پر ماری۔شاید ایک لمحہ مجھے یہ سین ہضم کرنے میں لگا،یا خوف کے مارے ذرا دیر کو میں جمی رہ گئی۔پھر اچانک جیسے اسپرنگ نے اچھال دیا ہو۔میں سلیٹ اور چاک دھڑ سے زمین پر پھینکا ایک چھلانگ لگائی اور تیز دوڑتی ہوئی کلاس سے نکل گئی۔پیچھے سے مس کی اور بچوں کی چیخوں کی آواز آئی لیکن میں نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہ کی۔ناک کی سیدھ میں چلتی چلی گئی۔ معلوم نہیں کیسے گیٹ تک پہنچی۔
چوکیدار نے روکنا چاہا لیکن میں اس کے ہاتھوں کے نیچے سے نکل گئی۔گیٹ سے نکل کر سڑک پر آئی، نہ ادھر دیکھا نہ ادھر،بھاگتی ہوئی پارک میں گھسی۔اصل میں اس پارک میں کھیلنے روز شام میں آتے تھے۔اس لیے یہاں سے گھر تک کا راستہ یاد تھا۔اب یہ عالم کہ چوکیدار پیچھے پیچھے تھا اور میں آگے آگے، الانگتی پھلانگتی پورا پارک طے کر گئی اور دوسرے گیٹ سے تیر کی طرح نکل گئی۔کافی چوڑی سڑک تھی،خدا جانے کس طرح طے کی اور سیدھی اپنے گیٹ پر پہنچ گئی۔ذرا دیر بعد اماں کو پتا چلا کہ صاحب زادی جو بڑے طمطرق سے اسکول گئی تھیں، دس منٹ بعد واپس آگئی ہیں۔مقدمہ ہوا۔سزا کے طور پر تھوڑی سی پٹائی بھی ہوئی۔وہ اس بات پر کہ اسکول سے اکیلی گھر کیوں آئی۔بہرحال ہم نے صاف کہہ دیا کہ ہم اس اسکول میں نہیں پڑھیں گے۔
اس کے بعد پھر اس اسکول میں مجھے نہیں بھیجا گیا بلکہ بہن کو بھی اٹھا لیاگیا۔بعد میں جس اسکول میں داخل کیا گیا وہ دریا کے کنارے بہت خوب صورت جگہ پر تھا۔بہت بڑی عمارت، لق و دق میدان، ہم بس میں بیٹھ کر جاتے تھے۔ہمارے ابا بھی اسکول کی گورننگ باڈی میں تھے۔ ہیڈ مسٹرس ہمیں جانتی تھیں۔اسی لیے بس میں اکثر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیتی تھیں اور میں بڑے فخر سے اپنے ساتھیوں کو سناتی تھی کہ آج میں صوفے پر بیٹھ کر آئی ہوں۔
(ہیڈ مسٹرس خوب موٹی تھیں۔)حیرت صرف اس بات پر ہے کہ اتنی قیامت خیز شرارتیں کرنے کے باوجود میری پٹائی شاذونادر ہی ہوئی۔
جب نرسری کلاس میں تھی تو ایک انگریز مس پڑھاتی تھیں،پڑھاتی اس طرح تھیں کہ ہم ان کی گود میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔اگر اتفاق سے وہ اتار دیتیں (بے چاری تھک بھی جاتی ہوں گی، ہم موٹے بھی بہت تھے)۔۔۔تو فوراً خفا ہو کے باہر باغ میں چلے جاتے۔درخت کے نیچے منہ پھلا کر بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں ڈھونڈتی ہوئی آتیں اور ہمیں پھر اٹھا کر لے جاتیں۔ کچھ عرصے بعد وہ چلی گئیں۔(پتا نہیں کیوں) ہمیں تب پتا چلا جب ایک کالی سی ٹیچر ہماری کلاس میں آئیں۔اس کے بعد جو فیل ہم نے مچائے ہیں وہ دیکھنے کے قابل تھے۔ فرش پر لوٹ لوٹ کر رو رہے تھے کہ ہم اس کالی سی مس سے نہیں پڑھیں گے۔بعد میں پرنسپل آئیں۔ بہت سمجھایا بجھایا کہ تھوڑے دن بعد مس واپس آجائیں گی۔اس بھروسے پر چپ ہوگئے۔وہ دوبارہ نہ آئیں۔اورہم بھی کچھ دن بعد بہل گئے۔(وہ کالی والی مس بھی بری نہیں تھیں۔)
پہلی سنجیدہ پٹائی جو مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ کراچی آئے تو کچھ عرصے کو ایک فلیٹ میں رہے۔اور فلیٹ میں تو کھیلنے کودنے کی کوئی جگہ نہ تھی،کبھی کبھار بھائیوں کے ساتھ نیچے جاکر کھیلنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ایک روز میں، میری بہن،میری کزن سب نیچے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ ایک بارات گزری،لوگ دلہن کی گاڑی پر سے پیسے پھینک رہے تھے۔ہمارا کزن بہت شیطان تھا۔اس نے کہا چلو پیسے جمع کرتے ہیں۔ آئس کریم کھائیں گے۔میں کہاں پیچھے رہنے والی تھی، میں بھی بھیڑ میں گھس گئی، پتا نہیں کتنے پیسے جمع کیے، پھر اس کی آئس کریم کھاتے ہوئے اوپر آئے۔اماں نے پوچھا آئس کریم کہاں سے آئی توہم تو سمجھ رہے تھے کہ کوئی زبردست کارنامہ کیا ہے۔ساری کہانی الف سے یے تک سنا دی۔ توقع یہ تھی کہ اماں داد دیں گی، لیکن اماں نے پہلی بار بید اٹھا کر سب کے ہاتھ لال کردیے،آئسکریم پھنکوائی،توبہ کروائی کہ آئندہ کسی کے پیسے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔تو اس کا حشر یہ ہوا کہ آج بھی اگر سڑک پر کوئی چیزپڑی نظر آتی ہے تو گھبرا کر ہاتھ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں،جن پر کچھ لال لال سے نشان ابھرنے لگتے ہیں۔جب آٹھویں کلاس میں تھی تو پتا چلا کہ ایک پیریڈ سلائی کا ہوگا۔اب سلائی وغیرہ سے ہمارا میلوں دور کا واسطہ نہیں۔نہ کبھی سوئی پکڑی تھی،نہ اون سلائی کو چھوا تھا۔مس نے کہا کل سب لڑکیاں اون اورسلائیاں لے کر آئیں گی۔ہم نے اماں سے ضد کرکے ایک اون کا گولا اور دو سلائیاں لے لیں۔مگر جب کلاس میں پہنچے تو ایک سلائی گر چکی تھی۔مس نے ایک سلائی کی مدد سے انگوٹھے کی مدد سے خانے ڈالنا سکھائے جو ہم نے فوراً سیکھ لیے۔ہوا یہ کہ پہلے دن دوسرے دن چوتھے دن اور ہم بیٹھ جاتے اور ایک سلائی پربے شمار خانے ڈالتے۔ایک روز مس کی نظر پڑ گئی۔انہوں نے پوچھ گچھ کرلی۔ میں نے معصومیت سے جواب دیا۔ ”اماں نے کہا ہے کہ اچھی طرح سے سیکھ لینا۔“
”دوسری سلائی کہاں ہے؟“مس فوراً سمجھ گئیں۔کان پکڑ کر فوراً کھڑا کیا۔دوسرا واقعہ بھی اسی کلاس کا ہے کہ وہی سلائی کی مس سلائی بھی کرواتیں جو ہم آرام سے گھر سے کرواکے لے آتے،لیکن ہوا یہ کہ امتحان میں بچے کی فراک سینے کو دے دی، ہمیں کیا پتا کہ بچے کی فراک کیسے بنتی ہے۔ کاٹ کر انہوں نے دے دی۔ ہمیں صرف اتنا معلوم تھا کہ گھیر پر GATHERINGدی جاتی ہے اور Gathering دینے کا طریقہ یہ ہے کہ دھاگہ بھر کے کھینچ لیا جاتاہے۔ یہ کام ہمیشہ اچھا لگا۔ہم نے خوب دھاگہ کھینچ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب فراک بن کر تیار ہوئی تو ایک سال کے بچے کی کمر تین انچ کی ہوگئی۔مس نے ہمارا والا فراک رزلٹ والے دن پورے اسکول کو دکھایا اور باوجود اس کے کہ سیکنڈ آئے تھے خوب ڈانٹ پڑی۔
یہ چھوٹی سی کہانی ہے ان دنوں کی جب ہم بہت چھوٹے ہوتے تھے۔ یہ پتا نہیں چل سکا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس وقت سدھر گئے۔انسان غیر معمولی طور پر کچھ سے کچھ ہوتا چلاجاتا ہے،اسے خود پتا نہیں چلتا کہ وہ بدل رہا ہے۔جب بدل چکتا ہے تو حیران سا دیکھتا ہے۔اپنے کو بھی، زمانے کو بھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top