skip to Main Content
بہادر اقبال

بہادر اقبال

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انا طول فرانس کی ایک کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کا سُہانا سماں ہے ۔ننھی زہرہ اور ننھا اقبال گیت گاتے،تالیاں بجاتے،اُچھلتے کُودتے مدرسے چلے جا رہے ہیں۔وہ دونوں بُلبُل کی طرح چہچہا رہے ہیں،اور وہی پُرانا گیت گا رہے ہیں جسے کبھی اُن کی بڑی بوڑھیاں بھی اپنے لڑکپن کے زمانے اپنی ہمجولیوں کے ساتھ مل کر گایا کرتی تھیں۔ایک دن آئے گا کہ یہی گیت ان کے بچے گائیں گے،کیوں کہ گیت ایسے نازک پھول ہیں جو کبھی نہیں مُرجھاتے۔وہ صدیوں سے ایک زبان سے دوسری زبان پر چڑھتے چلے آتے ہیں۔زبانوں کو موت خاموش کردیتی ہے۔لیکن یہ پُھو لوں کی طرح ہمیشہ ہی کی طرح تروتازہ رہتے ہیں۔

زہرہ اور اقبال گاتے جا رہے ہیں۔جب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے گول گول منہ کھولتے ہیں،تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو چھوٹے سے ننھے مُنے سے کھلے ہوئے پُھول ہوا کے ہلکے خوش گوار جھونکوں میں ہلکورے لے رہے ہیں۔

ہائیں ہائیں یہ کیا ہوا!اقبال گاتے گاتے یکایک چُپ کیوں ہو گیا۔وہ ایسی کون سی چیز تھی،جسے دیکھتے ہی اس کی آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی۔

ہر روز صبح کے وقت اقبال زہرہ کے ساتھ مدرسے جاتا تو راستے میں تھوڑی دُور تک تو خوشی خوشی گیت گاتا رہتا،لیکن جُوں ہی وہ بازار کے موڑ پرقصاب کی دُکان کے پاس پہنچتا تو ایک دم خاموش ہو جاتا اور قصاب کے کتے کو دیکھ کر اُسے سارا راگ رنگ بھول جاتا۔ڈر اور خوف کے مار ے اُس کا ننھا سا دل دھک دھک کرنے لگتا۔منہ پر ہوائیاں اُڑنے لگتیں اور اس کی ٹانگیں کانپنے لگ جا تی تھیں۔

اس میں توشک نہیں ہے کہ قصاب کا یہ کتا بے حد مسکین تھا۔کاٹنا اور جھپٹنا تو بہت دور کی بات تھی،وہ تو آج تک کسی پر بھونکا تک نہ تھا۔بے چارہ اپنے آقاکی دکان کے پاس چُپ چاپ بیٹھا رہتا تھا۔اگر قصاب نے کوئی ہدی یا چھیچھڑا پھینک دیا تو آہستہ سے سرک کر اُٹھا لیا اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔لیکن اس میں اُس غریب کا کیا قصور۔اگر اللہ میاں نے اُس کی شکل و صورت اتنی ڈراؤنی بنائی ہو۔ ایک تو بکری کے برابر قد،اس پر سر سے لے کر دُم تک سیاہ رنگ۔آنکھیں ایسی جیسے دہکتے ہوئے دو انگارے۔دانت سفید سفید نوکیلے اور جبڑوں سے باہر نکلے ہوئے۔

اقبال نے آج پہلے سے کچھ زیادہ بہادری دکھائی کہ بڑھ کر ایک بڑا سا پتھراُٹھا لیا۔اُٹھا تو لیا،مگر مارنے کی جرأت کہاں سے لائے۔خوفزدہ اور سہماہوا سامنے کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ سرکتا ہوا وہاں سے گزر گیا۔

زہرہ بڑے غور سے یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔اقبال کی اس بزدلوں جیسی حرکت پر زہرہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔اُس نے ظاہر میں تو اقبال سے کچھ نہ کہا، مگر گیت کو کچھ ایسے طنزیہ لہجے میں ادا کرنے لگی کہ اقبال فوراً سمجھ گیاکہ یہ میری بزدلی پر چوٹ ہے۔اُس کے معصوم چہرے پر سُرخی دوڑ گئی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ اقبال نے گانے میں زہرہ کا ساتھ نہ دیا۔زہرہ اکیلی ہی گیت گاتی رہی۔

اقبال اُداس اُداس کسی گہری سوچ میں ڈوبا زہرہ کے پیچھے پیچھے سر جُھکائے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔

مدرسے میں پُہنچ کر بھی اقبال نے دن بھر کسی سے بات نہ کی،نہ ہی اُس نے کھیل کُودمیں حصہ لیا۔سارا دن اُس کے ننھے سے دل میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر سینکڑوںآفتیں اور ہزاروں بلائیں بھی سامنے ہوں،تو ایک شرمندگی ان سب سے بڑھ کر خوف ناک ہے۔

اب اُسے صرف ایک بات کا ڈر تھا کہیں میں قصاب کے کتے سے پھر نہ ڈر جاؤں۔

جب مدرسے سے چھٹی ہوئی تو زہرہ اور اقبال گھر لوٹتے ہوئے پھر قصاب کی دکان کے پاس پہنچے مگر اب اقبا ل بہادروں کی طرح تن کر کھڑا ہو گیااور بالکل بے خوف ہو کر کتے کی لال لال آنکھوں کے سامنے اکسٹھ باسٹھ کرتا ہوا گُزر گیا۔

دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جب اقبال سر اُونچا کیے سینہ تانے چل رہا تھا تو کن آنکھیوں سے زہرہ کو بھی دیکھتا جاتا تھا کہ وہ میری اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ تو رہی ہے۔

کسی نے یہ کیا ہی سچ بات کہی ہے:

’’اگر دُنیا میں عورت ذات نہ ہوتی ،تو مردوں کی اتنی شجاعت کہاں سے آتی۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top