skip to Main Content
بھائی جان کی تلاش

بھائی جان کی تلاش

حماد ظہیر

………………………..

ہمارے بچپن ہی سے کوئی بھائی نہیں تھا اور نہ ہی مستقبل میں کہیں ہونے کا امکان تھا۔ پہلے پہل تو ہم بہت زیادہ احساس کمتری سے احساس ابتری کی جانب رواں ہوگئے تھے۔ ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ ہمارے بھی کوئی بھائی جان ہوتے تو اس دنیا کا نقشہ ہی الگ ہوتا۔ بھائی نہ سہی کوئی بھائی صاحب بھیا ہی ہوتے، ہم گزارا کرہی لیتے مگر ہماری تو کوئی باجی آپا دھاپی بھی نہیں تھیں۔
ہم بڑی حسرت سے اپنے ان دوستوں کو دیکھتے جن کے بڑے بڑے بھائی بہن وغیرہ تھے۔ ہمیں لگتا کہ اب ان کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی انہیں کوئی کچھ کہہ سکتا ہے کہ ان کے بھائی‘ باجی جو موجود ہیں۔ اور ہوتا بھی یہی۔ کلیم نے ثاقب کا قیمتی قلم چرایا تھا تو ثاقب کی بڑی بہن جو کہ ہیڈ گرل تھیں۔ انہوں نے نہ صرف ساری کلاس کی تلاشی لے کر اس کا قلم برآمد کرلیا تھا بلکہ کلیم بے چارے کا بھی برا حشر کردیا تھا۔
احسن ہاف ٹائم میں مزے سے کھیلتا کودتا رہتا، اس کے بھائی جان اس کو کینٹین سے لنچ لے دیتے جبکہ ہم کو لائن میں بیس بیس منٹ کھڑا رہنا پڑتا۔
ہمیں امی جان اگر فرائی انڈا بھی دیتیں وہ ہم سے سنبھالا نہ جاتا اور اس کا تیل بستہ میں پھیل جاتا، جبکہ فرحان کی آپی کباب، پوری اور نہ جانے کیا کیا چیزیں سنبھالتی پھرتیں اور بریک میں اسے دے دیا کرتیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ اچانک بچوں کے ناخن چیک ہوئے تو سلیم پانی پینے کے بہانے باہر جا کر اپنی باجی سے ناخن کٹوا آیا اور ہم نے باجیوں کے شدید بحران کی وجہ سے فقط سزا کاٹی۔
غرض صرف ہم تھے کہ جنہیں اپنا اور اپنی چیزوں کا خود سے خیال رکھنا پڑتا تھا پھر بھی تقدیر کے قاضی کا فتویٰ صرف ہم ہی پر لگتا تھا۔ باقی سب بے فکر اور آزاد لوگ تھے۔ خود نہیں آتے تھے تو ان کے بڑے درخواست دے کر ان کی رخصت لگوا جاتے تھے اور اگر خود آتے تھے اور کوئی بھی سامان بھول آتے تھے تو ان کے بھائی جان باجی انہیں فراہم کردیتے تھے۔
اصغر جس روز اپنے بھاری بھرکم بستے کے بجائے اپنے دادا کا بکسا اٹھا لایا تھا اس دن بھی اس کے بڑے بھائی اکبر نے دوسرے سیکشن کے ایک لڑکے سے کتابیں ادل بدل کر اس کا سارا دن بخیر و عافیت گزروا دیا تھا۔ پنسل باکس، کلر باکس، لنچ باکس یہ سب تو آئے دن بھول کر آتے تھے لیکن باجیوں اور بھائی جانوں کی وجہ سے کبھی انہیں کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔
ٹائی ان کے یونیفارم کا نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی بہنوں کی ذمہ داری کا حصہ تھی جبکہ ہمارے یونیفارم اور موزے روزانہ کھو جایا کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بوقت ضرورت بھائی جان لوگ بوٹ پالش تک اسکول ہی میں مہیا کردیتے تھے۔ کوئی اگر ہوم ورک وغیرہ کرکے نہ لاتا تو اس کی ڈانٹ اور شکایت اس کے بھیا سے کی جاتی جبکہ ہمیں اپنا سارا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
راشد کو ہمیشہ اردو کی کلاس میں شاباشی ملتی، اس کے جملے سب کو پڑھ پڑھ کر سنائے جاتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا اس کے بھائی جان جملے ہی اس قدر دلچسپ بنایا کرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ایک پیراگراف بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتا لیکن اس کی تحاریر اکثر ’’ساتھی‘‘ میں شائع ہوتیں کہ اس کے بھائی جان ایک اچھے مصنف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اسکول میں راشد الخیری بنا پھرتا۔ دوسری طرف ہم جو کہ ہر طرح لکھنے کے فن سے مالا مال تھے۔ اپنی تحاریر درازوں، میزوں اور الماریوں میں ہی بھرتے رہتے کہ ان کی کوئی کہیں تک رسائی نہ تھی۔ دوسرے لفظوں میں درمیان میں کوئی بھائی جان نہ تھے۔ ڈرائینگ کا وہ کام جو ہم سے چھپائی کرنے سے بھی ہفتوں میں نہ ہوتا، نصیر اپنے آرٹسٹ بھائی سے منٹوں میں کرالیا کرتا اور کلاس میں سب کی آنکھیں چکا چوند کرکے ان سے داد و ہشت وصول کرتا۔
فرید کی باجی اسے انگریزی میں آگے کے اسباق پڑھادیا کرتیں اور وہ مشکل مشکل الفاظ کے معنی اسے بتادیا کرتیں جن کو ہم ڈکشنری میں گھنٹوں ڈھونڈا کرتے۔ وہ نہ صرف کلاس میں نمایاں رہتا بلکہ اس کا ہوم ورک بھی ہاتھوں ہاتھ ہوجاتا۔
ہم اکثر ریاضی میں ایسی غلطی کر بیٹھتے کہ جس کی وجہ سے ہمارا سوال چار چار صفحات پر جا کر بھی ختم نہ ہوتا، جبکہ ندیم کو اس کے بھائی وہ سوالات شارکٹ کٹ سے کرادیا کرتے۔ انہوں نے اسے ایسے ایسے فارمولے یاد کرائے ہوئے تھے کہ وہ میتھس کی کلاس کا بے تاج بادشاہ تھا اور دوستوں کے درمیان راجہ اندر بنا رہتا۔
غرض اسکول ہی کیا ہر جگہ اور ہر وقت ہمیں بھائی جان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی۔ کہیں کوئی ٹکٹ وغیرہ مل رہا ہوتا تو اونچے اونچے بھائی جان اچک کر پہلے لے لیا کرتے۔ شادیوں میں چھوارے زیادہ ملتے۔ بھائی جان والوں کی بیٹنگ بالنگ پہلے آیا کرتی۔ آؤٹ کو مشتبہ بنا کر لڑ بھڑ کر دوسری بیٹنگ بھی دلادی جاتی۔ بھائی جان کے نہ ہونے سے ہمیں کم ایک ایک فائدہ ضرور ہوا تھا۔ ہم فیلڈنگ اچھی کرلیا کرتے تھے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

یہ حقیقت ہم پر اچھی طرح عیاں ہوچکی تھی کہ بھائی جان ہیں تو جہان ہے لہذا ہم کمر بستہ ہو کر بھائی جان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ہمیں رشک آتا ان لوگوں پر جن کے بڑے بڑے بھائی اور کئی کئی بھائی بہن تھے۔ کسی کے پاس دس دس سال بڑے بھائی تھے اور ہمارے پاس ایک سال بڑا بھی نہ تھا۔ کسی کی تین تین آپیاں تھیں اور ہماری ایک بھی نہ تھی۔
پریم چند کی کسی کہانی کو اتنی مرتبہ نہیں پڑھا جتنا کہ بڑے بھائی صاحب کو پڑھا۔ اشتیاق احمد کا ناول بھائی جان کی تلاش تو ہمارے سرہانے ہی رکھا رہتا۔ اس نے ہمیں ایک نئی راہ سجھائی۔ ہم نے سوچا کہ جس کو اولاد نہ ہو وہ بچہ گود لے لیتا ہے، ہمارے بھائی جان نہیں تو کیوں نہ ہم بھائی جان کو۔۔۔
ہم نے ہمت کی اور یہ شعر گنگناتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔
’’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘۔
بھائی جان کے حصول کے لیے ہمارا پہلا لائحہ عمل یہ تھا۔
 بھائی جان کو جو ہے جہاں ہے کی بنیاد پر ضبط کرلیا جائے۔
ہمارے گھر سے ایک بس اسٹاپ قریب تھا۔ ہم نے ادھر ہی کا رخ کیا۔ وہاں کئی لوگ کھڑے تھے۔ ہم نے ان میں سے ایسوں کی تلاش شروع کردی جن پر ابا انکل ہونے کا گمان کم اور بھائی جان ہونے کا امکان زیادہ ہو۔ ان میں سے تین ہمارے ممکنہ بھائی جان ہونے کا نشانہ بن سکتے تھے۔
ہم ان میں سے ایک کے قریب گئے اور سوچ میں پڑگئے کہ اب کہیں کیا۔ سوچ بچار میں کوئی موزوں لفظ تک سجھائی نہ دے رہا تھا۔ اس کام کا کوئی پچھلا تجربہ بھی نہ تھا کہ پہلی مرتبہ کسی کو بھائی جان بنانے جارہے تھے۔ ہم نے بہت کوششوں کے بعد یہ سلسلہ کلام ترتیب دیا۔
ہم کہیں گے:’’السلام علیکم بھائی صاحب‘‘۔
وہ کہیں گے: ’’وعلیکم السلام، کیا بات ہے بھائی‘‘
ہم کہیں گے: ’’بس یہی بات تھی ہم نے آپ کو بھائی صاحب کہا اور آپ نے ہم کو بھائی۔ لہٰذا آج سے ہم اس رشتہ میں منسلک‘‘۔
اور وہ اس پیاری بات پر ہمیں گود میں اٹھا کر اور خوشی سے جھوم کر ہمارا ہاتھ چوم لیں گے۔ اپنے ماتھے پر ان کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے شرم کے مارے نظریں زمین پر گاڑے ہم نے انتہائی مشکل سے انہیں سلام کیا لیکن جواب ندارد۔ کافی دیر ہم انتظار میں رہے کہ شاید کچھ کہے سنے بغیر ہی انہوں نے سب کچھ بھانپ لیا ہو اور اب ہمیں گود میں اٹھائیں گے لیکن کب۔۔۔! نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہونے والے بھائی جان خود کسی کوچ کی گود میں سوار ہو کر کب کے وہاں سے کوچ کرچکے ہیں۔
ہم نے گھبرا کر ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو باقی دو میں سے بھی صرف ایک بچے تھے۔ ہم نے مزید وقت ضائع کرنا حماقت خیال کرتے ہوئے تیزی سے ان کی جانب پیش قدمی کی اور جاتے ہی دو ٹوک الفاظ میں انہیں بھائی جان بننے کی پیشکش کردی۔
ان کے ہاتھ میں کچھ نوٹس کی فوٹو اسٹیٹ تھی اور وہ ان کا کسی وظیفہ کی طرح ورد کررہے تھے۔ ہم نے دوبارہ پوچھا۔
’’کیا آپ ہمارے بھائی جان بن سکتے ہیں؟‘‘
’’کام کیا ہے صاف صاف بتاؤ، شکل سے بھیک منگے تو نہیں لگتے؟‘‘
’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے بس ہمارے بھائی جان نہیں ہیں اس لیے‘‘۔ ہم نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’نہیں ہیں؟ کیا مطلب؟ کہاں گئے‘‘۔
’’کہیں نہیں گئے، ہیں ہی نہیں، کیا آپ بن جائیں گے؟‘‘ ہم نے بڑی امیدوں سے کہا۔
’’آخری ایسی کون سی مشکل آپڑی ہے؟‘‘
اب ہم کیا بتاتے، بس یہی کہا کہ ’’یہ ہی کیا کم ہے کہ ہمارے کوئی بھائی جان نہیں ہیں؟‘‘
’’ہونہہ نئے ہی قسم کے ٹھگ آرہے ہیں مارکیٹ میں۔‘‘ وہ خودکلامی کے انداز میں کہہ رہے تھے۔
’’بھائی جان بنانے چلے ہیں۔۔۔ واہ رے وا۔۔۔ ضرورت کے وقت تو انسان گدھے کو بھی باپ بنالیتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا تو ہم چونکے۔ انسان تو یقیناًہم تھے پھر وہ۔۔۔

*۔۔۔*۔۔۔*

ابھی تک ہم صرف ایسے بھائی جان کو تلاش کررہے تھے جو کہ ہینڈسم اور اسمارٹ ہوں۔ یعنی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے ہی بھائی لگیں۔ ذہین ہونے کے علاوہ بے شمار خوبیوں کا مالک ہونا شرط ہے آسمانی جینز کے علاوہ بھی کوئی چیز پہنتا ہو۔ سگریٹ، نسوار کا عادی نہ ہو۔ ہر بات کرنے سے پہلے پان پراگ نہ تھوکتا ہو وغیرہ۔
لیکن اول تو ایسے لوگ ملے ہی بہت کم اور اگر ملے بھی تو انہوں نے ہمیں کسی نہ کسی طرح ٹال دیا۔ ہم نے اپنے لائحہ عمل میں معمولی تبدیلی کی۔ اب ہم بھائی جان کو ’’جو ہے جیسا ہے‘‘ کی بنیاد پر تلاش کررہے تھے۔
ہم نے دکان پر ایک لڑکے کو گھیرنے کی کوشش کی۔
’’آپ ہمارے بھائی جان بن جائیں گے‘‘۔ ہم نے مسمسی صورت بنا کر کہا۔
پہلے تو اس نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ پھر منہ کھولا اور بہت مشکل سے ایک عجیب سی آواز نکالی۔ ساتھ ہی اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ ہنس رہا تھا۔
’’ٹرائل (جانچ) ہی کے لیے بن جائیں۔ پسند نہ آؤں تو تو۔۔۔ واپس‘‘۔ ہم اٹکے۔
’’ٹھیک ہے۔ ایک ہفتے کے لیے بن جاتا ہوں۔ کتنے پیسے دوگے؟‘‘
’’پپ، پیسے، پیسے بھی دینے پڑیں گے؟‘‘ ہم بوکھلا اٹھے۔
’’تو اور کیا۔۔۔ میں نے سب کے بھائی بننے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا؟‘‘ وہ پاؤں پٹختا ہوا چل دیا۔
ہم نے لائحہ عمل میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔ ہمارا خیال تھا کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ نرم دل واقع ہوتی ہیں لہٰذا ہم نے بھائی جان کو باجی سے بدل ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی بہنوں کی محبت کے تمام قصے ایک ایک کرکے یاد آنے لگے۔ طرح طرح کی چیزیں پکا پکا کر دینے والی، کپڑے استری کردینے والی، ہوم ورک کرادینے والی (یا خود ہی کردینے والی)، بالوں میں تیل لگا کر کنگھا کردینے والی بہنوں سے لے کر بھائیوں پر چلنے والی گولی کے سامنے آکر جان دے دینے والی بہنوں تک کے سارے گوشے ہمارے ذہن میں روشن ہوگئے۔ اپنے بارے میں تو ہمیں کوئی شبہ نہیں تھا لہٰذا ہمیں بس فاطمہ جناح کی تلاش تھی۔
ہماری ممکنہ ہونے والی باجیوں کی قطار میں کھڑی ہوئی پہلی شخصیت کو جب ہم نے بہت پیار سے باجی کہا تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بولیں: ’’ہاں ہاں میں تو سو سال بڑی ہوں تم سے۔ آنٹی کیوں نہیں کہہ دیا‘‘۔
ہم کو گمان گزار شاید ہم نے باجی کے بجائے دادی کہہ دیا ہو۔ چنانچہ اب ہم نے حقیقتاً دادی اماں ٹائپ باجی کی تلاش شروع کردی جن کی لمبی سی چوٹی ہو، آنکھوں پر بھاری فریم کا موٹا سا چشمہ ہو۔ ہر چھوٹی بڑی بات پر زبان اور ہر اچھے برے کام میں ٹانگ لڑانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہو۔ پھرتا رہا فلک برسوں، تب جا کر خاک کے پردے سے مطلوبہ دادی نما باجی ملیں۔ ہم نے ان سے کہا۔
’’آداب باجی‘‘۔
تو کہنے لگیں: ’’بڑوں کو یہ نہیں کہتے کہ آجا باجی، کھاجا باجی۔۔۔ بلکہ کہتے ہیں باجی آجائیے، باجی کھا جائیے وغیرہ‘‘۔
ہم نے ازراہ ہمدردی پوچھا۔ ’’کیا آپ کو بھوک لگی ہے‘‘۔
انہوں نے جلدی جلدی اپنے کپڑوں کو جھاڑنا جھٹکنا شروع کیا اور کوئی چیز تلاش کرتے ہوئے بولیں۔
’’کہاں لگی ہے تھوک۔ ایک تو آج کل لوگوں کو جگہ بے جگہ تھوکنے کی عادت لگی ہے‘‘۔
ہم نے سمجھ لیا کہ انہیں ایسی ہی ایک اور عینک کانوں پر بھی لگانے کی ضرورت ہے۔
طحہٰ بھی باجیوں میں خودکفیل تھا لیکن اس نے آج تک کبھی اپنا برگر اور کولڈرنگ تک ہم سے شیئر نہ کی بھلا وہ اپنی کسی باجی میں ہماری حصہ داری کیسے برداشت کرسکتا تھا۔
پھر بھی ہم چھپتے چھپاتے اس کی آمنہ باجی کے پاس پہنچ گئے اور ساری بات گوش گزار کردی۔ انہوں نے کہا۔
’’ایک اکیلے بھائی ہی نے میرا ناک میں دم کررکھا ہے۔ میرا مطلب ہے ایک ہی کی کافی ذمہ داریاں ہیں، دو کے چکر میں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی پر بھی توجہ نہ دے سکوں‘‘۔
غرض پھر ہم نے ایسے باجی کو تلاش کیا جن کا کوئی بھائی پہلے سے موجود نہ ہو، ہمارا خیال تھا کہ وہ بھائی کی محبت کو ترسی ہوئی ہوں گی۔ اندھا کیا چاہے، کم از کم ایک آنکھ، خوب بنے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو وغیرہ۔۔۔ مگر انہوں نے عجیب ہی با ت کردی۔
’’دیکھو بھئی، مجھے تو کسی قسم کے بھائی کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور مجھے نئے نئے تجربات کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے لہٰذا سوری‘‘۔
ہم نے اپنے دل کو یہ تسلی دی کہ ڈرپوک قسم کی باجی بھلا ہمارے کس کام کی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

کافی خوار ہوچکنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر کام کے لیے اور ہر کام کے لیے بندہ ہونا شرط نہیں کئی جگہ صرف نام ہی کافی ہوتا ہے۔ ہم نے ایک بھائی کا تخیل قائم کیا۔ ان کو ہر قسم کی چیزوں، عادات اور علوم و فنون سے آراستہ کیا۔ اسکول میں بتادیا کہ وہ دوسرے ملک سے تشریف لائے ہیں (ملک عدم یا مملکت تخیل سے) محلہ میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنی ذہانت سے کام چلالیا۔ اب ہر وقت ہماری زبان پر انہی کے قصے اور انہی کا تذکرہ رہتا۔ البتہ وہ سارے کام جو ہمارے بھائی جان ہمارے لیے کیا کرتے ہمیں خود ہی کرنے پڑتے۔ ہم نے بڑی محنت سے نہ صرف اچھی ڈرائینگ اور رائٹنگ سیکھی بلکہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ریاضی کے کئی مشکل فارمولے اور شارکٹ کٹ بھی یاد کرلیے۔ ہم بڑی جانفشانی سے آگے کے اسباق پڑھتے اور اس کی مشقیں بھی رف کاپی پر کرلیا کرتے، لیکن یہ سارے کام ہم اپنے بھائی سے منسوب کرتے۔ اب ہم بھی اپنی کلاس میں نمایاں تھے۔ لوگ ہماری اور ہمارے بھائی جان کی خوب تعریفیں کرتے۔ محلہ میں بھی ہماری انتھک مشق کے باعث اور کارکردگی اچھی ہونے کے باعث ہمیں کھیل کود اور دوسرے کاموں میں آگے آگے رکھا جاتا۔ بھائی جان کے صرف نام ہی سے وہاں بھی ہمارا سر اونچا ہوگیا تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

رات گئے ہم اپنے حصہ کا ہوم ورک مکمل کرلینے کے بعد بھائی جان کے حصے کا کام کررہے تھے کہ ’’سارہ‘‘ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آئی۔ اس کے ہاتھ میں میتھس (حساب)کی کتاب تھی۔
’’وہ ایک سوال۔۔۔‘‘ اس نے موٹے موٹے چشموں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے ہم سے کہا۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ تمہیں چھ چھ صفحات کے ناول پڑھنے سے فرصت ملے تو سوچا نا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں‘‘۔ ہم نے ڈانٹ کر کہا۔
’’بہت مشکل ہے۔۔۔‘‘ اس نے سوال کی خاصیت بتائی۔
’’کوشش کرو گی تو ہوگا نا۔ کوئی کام مشکل نہیں‘‘۔ ہم نے کہااور وہ سر جھکائے واپس مڑگئی۔
اچانک ہماری یادوں کے دریچہ سے ایک جھماکا روشن ہوا، جب ہم ایک سوال میں پھنس کر کئی گھنٹے اور اس سے بہت زیادہ صفحات خراب کرکے سوچ رہے تھے کہ کاش ہمارے کوئی بھائی جان ہوتے۔
ہم دوڑے دوڑے سارہ کے کمرے میں پہنچے اور جلدی سے کاپی ہاتھ میں لے کر اس کا سوال دیکھنے لگے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ اسے تاکید کردیں کہ آئندہ وہ ہمیں صرف بھائی کے بجائے ’’بھائی جان‘‘ کہا کرے۔یہ اس سے کہیں زیادہ اچھا تھا۔۔۔ ہم کسی کو بھائی جان بنانے کے بجائے کسی کے کیوں نہ بھائی جان بن جائیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top