skip to Main Content

بڑا آدمی

رابعہ حسن

۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ ابھی شام ڈھلے زیادہ وقت نہیں بیتا تھا مگر اس چھوٹے سے دیہاتی ہوٹل میں ابھی سے گاہک نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو اس گاؤں کے لوگ شام ڈھلے ہوٹل میں آنا پسند نہیں کرتے تھے اور دوسری یہ کہ اس گاؤں کے بیچوں بیچ گزرنے والی سڑک سے بھی لوگ کم ہی سفر کرتے تھے۔ اس لیے ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ کوئی مسافر چاے یا کھانے کے لیے رک کر اس ہوٹل کا رخ کرتا۔ بلب کی پیلی روشنی نے اس چھوٹے سے ہوٹل کے اندرونی ماحول کو بہت پر اسرار بنا رکھا تھا۔ 
لوئی میں لپٹا وہ شخص شائد اس گاؤں میں نیا تھا۔ ہوٹل کے چھوٹے سے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھا رشید اس کے چہرے سے شناسا نہیں تھا۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں لوگ ہی کتنے بستے تھے کہ جنھیں وہ نہ جانتا ہو۔ 
اسی لیے تو رشید نے اور چھوٹے نے اسے چونک کر دیکھا۔ اس پہاڑی گاؤں کی فضا میں خنکی ضرور تھی مگر یہ اتنی بھی نہیں تھی کہ لوئی لپیٹنے کی نوبت آجائے۔ 
’’صاحب جی ۔۔۔چاے یا کھانا۔۔۔‘‘ چھوٹا میز کے قریب آرڈر لینے کے لیے آیا۔
’’چاے۔۔۔‘‘
آدھے سے زیادہ چہرہ لوئی میں چھپے ہونے کی وجہ سے وہ اسے بہت پراسرار لگ رہا تھا۔ 
’’چاے صاحب۔۔۔‘‘ چھوٹا اس کی میز پر سبز رنگ کی چھوٹی سی کیتلی اور مٹی کی پیالی رکھ کر چلا گیا۔ 
چہرے اور سر سے لوئی ہٹا کرابھی وہ کیتلی سے چاے پیالی میں انڈیل ہی رہا تھا کہ ہوٹل کا بیرونی دروازہ بری طرح چرچرایا۔ اس نے چونک کر دیکھا تو اسے دروازے سے سفید شلوار قمیص میں ملبوس، باریش شخص اندر آتا دکھائی دیا۔ اس کی ڈاڑھی کے بال کہیں کہیں سے سفید تھے۔ 
’’شاید میں اسے جانتا ہوں۔۔۔‘‘ شناسائی کی ایک لہر اس کی آنکھوں میں دوڑ گئی۔ 
آنے والے کو دیکھتے ہی کاونٹر پر بیٹھا رشید اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔ اس کا انداز مؤدبانہ تھا۔ ہوٹل میں اس وقت کوئی اور گاہک نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی کا راج تھا۔ وہ چاے کے گھونٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ ترچھی نظر سے ان دونوں کو بھی دیکھ رہا تھا۔ 
اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ اس شخص کو جا کر مخاطب کرے، جس پر اسے گمان تھا کہ وہ اس کے بچپن اور لڑکپن کا دوست ہے۔ لیکن چاہنے کے باوجود وہ اپنی جگہ سے نہیں اُٹھ سکا۔
’’کیا معلوم یہ وہ ہو ہی نہیں؟‘‘
’’کیا معلوم مجھے پہچانے بھی یا نہیں پہچانے؟‘‘
طرح طرح کے وسوسے تھے جو اسے روک رہے تھے۔ وہ اپنے خیالات کو جھٹک کر چاے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ابھی چاے کی پیالی میں کچھ گھونٹ باقی ہی تھے کہ اچانک اسے کسی نے مخاطب کیا۔
’’السلام علیکم۔۔۔‘‘
اس نے چونک کر دیکھا، اس کے سامنے وہی سفید لباس والا شخص کھڑا تھا۔ 
’’آپ شاید اس قصبے میں مہمان ہیں؟‘‘
’’جی۔۔۔جی۔۔۔‘‘ وہ ذرا سی دیر کو ہچکچایا۔ اگرچہ کچھ دیرپہلے وہ خود اس شخص سے ملنے کا متمنی تھا مگر اب اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ 
’’ارے۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر غور سے دیکھنے پر اچانک ہی سفید لباس والے شخص کے منھ سے بے ساختہ نکلا۔ 
’’تم۔۔۔ تم کہیں زیاد تو نہیں؟ میرے دوست۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔اور ۔۔۔تم کہیں ریحان تو نہیں۔۔۔‘‘ لوئی میں لپٹے شخص نے اپنے خیال کی تصدیق چاہی۔
’’ہاں دوست۔۔۔‘‘ سفید لباس والے نے جو کہ ریحان تھا بازو کھولے تو وہ بے ساختہ اٹھ کر اس سے بغل گیر ہو گیا۔ اس کا گمان درست نکلا تھا۔ وہ واقعی اس کا پرانادوست تھا۔ 
تھوڑی ہی دیر میں دونوں دوست وہاں بیٹھے بچپن اور لڑکپن کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ 
’’اچھا دوست یہ بتاؤ کہ تم نے یہ پچیس سال کہاں گزارے؟‘‘ ریحان نے زیاد سے پوچھا۔
’’ تم جانتے تو تھے کہ بچپن ہی سے مجھے بڑا آدمی بننے کا کتنا شوق تھا۔ بس میں اپنے شوق کی تکمیل میں مگن رہا۔ ‘‘ زیاد نے بتایا۔
’’اچھا۔۔۔تو تم بڑے آدمی بن گئے؟‘‘ ریحان کے لہجے میں تجسس تھا۔ 
’’ہاں۔۔۔آج میرے پاس بینک بیلنس ہے، کوٹھیاں ہیں، گاڑیاں ہیں، نوکر چاکر ہیں۔ ‘‘ وہ بہت فخر سے بتا رہا تھا۔ 
’’واقعی۔۔۔‘‘ ریحان کی آنکھوں میں اس کے لیے رشک ہی رشک تھا۔ 
’’ہاں۔۔۔‘‘اس کی آنکھوں میں اپنے لیے رشک دیکھ کر اس کی گردن اَکڑ گئی۔ 
’’ اس کے لیے تمھیں بڑی محنت کرنی پڑی ہو گی۔ صرف پچیس سال میں یہ سب کیسے حاصل کر لیا؟‘‘ ریحان جاننا چاہتا تھا کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا۔
’’بس میں نے وہ راستے اختیار کیے جن پر چل کر مجھے یہ سب آسانی سے مل سکتا تھا۔ ‘‘
’’ اونہہ ۔۔۔‘‘ اس نے اثبات میں گردن ہلائی ۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد اچانک ہی اس نے پوچھ لیا۔ ’’اتنے برس بعد یہاں کیسے آنا ہوا ؟ اور یہ لوئی ۔۔۔؟‘‘ ریحان کو اندازہ تھا کہ وہ کم از کم اس سے یا کسی اور سے ملنے تو یہاں نہیں آیا۔ اس موسم میں اور اتنے امیر آدمی کے ساتھ لوئی اسے کھٹک رہی تھی۔ 
جواباً تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ کچھ سوچ کر دھیرے سے بولا:’’دراصل۔۔۔یہاں مجھے پناہ مل سکتی ہے۔‘‘
’’پناہ۔۔۔‘‘ ریحان کی آنکھوں میں حیرت تھی، اتنے بڑے اور امیر آدمی کو ایک چھوٹے سے قصبے میں پناہ چاہیے تھی۔ 
’’ہاں۔۔۔کچھ لوگ میرے پیچھے ہیں اور پولیس بھی۔ ‘‘ زیاد نے اپنے پرانے دوست کو اپنا راز بتانے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔
’’اوہ اچھا۔۔۔‘‘ اس نے یوں گہری سانس خارج کی کہ جیسے وہ سمجھ چکا ہو کہ اس کے دوست نے ’’بڑا آدمی‘‘ بننے کے لیے کون سا راستہ اختیا ر کیا ہے؟
’’تم نے زندگی میں کیا کیا؟‘‘ زیاد کو اچانک ہی ریحان سے اس کی زندگی کے بارے میں پوچھنے کا خیال آیا۔ 
’’دوست۔۔۔میں مال و دولت تو نہیں کما سکا ۔۔۔بس ایک اسکول ٹیچرہی بن سکا۔ ‘‘ ریحان نے اطمینان بھرے لہجے میں اسے بتایا۔ تھوڑی دیر پہلے اس کی امارت نے جو رعب ودبدبہ اس پر قائم کیا تھا اب وہ جاتا رہا تھا۔ 
’’بس۔۔۔تم نے عمر بھر کی محنت کے بعد یہی حاصل کیا؟‘‘ زیاد کے لہجے میں طنز تھا۔
’’ہاں۔۔۔پر میں نے تم سے بھی زیادہ کمایا ہے۔‘‘
’’کیا‘‘؟ اسے حیرت ہوئی کہ بھلا ایک سکول ٹیچربھی کچھ کما سکتا ہے۔ 
’’ حلال رزق ، عزت، نیک نامی، محبت۔۔۔‘‘ اس نے پرسکون انداز میں بتایا مگر زیاد نے اس کی بات کاٹ دی۔ 
’’ یہ اتنی اہم چیز نہیں ۔‘‘
’’ہاں۔۔۔پر اس سے سکون ملتا ہے اور کہیں پناہ لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ‘‘ وہ نہ چاہنے کے باوجود اس پر طنز کر بیٹھا۔ 
’’پر پیسا طاقت ہے اور آج کل طاقتور کی ہی عزت کی جاتی ہے۔ ‘‘ زیاد بھی کہاں ہار ماننے والا تھا۔ 
’’نہیں۔۔۔طاقتور کی نہ تو عزت کی جاتی ہے اور نہ اس سے محبت بلکہ لوگ تو اپنے مفاد کے لیے اس سے چپکے رہتے ہیںیا ڈر یا خوف کی وجہ سے ہی ہر بات مانتے ہیں۔‘‘ وہ سانس لینے کو رکا۔’’۔۔۔اور سب سے بڑی بات کہ ہمارا اللہ ہمیں رزق حلال کمانے کا حکم دیتا ہے۔ اچھائی اور نیکی کے رستے پر چلنے کا حکم دیتا ہے۔ میرے خیال میں تو بڑا آدمی وہی ہے جس کا کردار بڑا ہے۔ ‘‘
زیاد کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اس سے متفق نہیں۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا اچانک باہر پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی۔ ریحان پرسکون بیٹھا رہا جبکہ زیاد سائرن سنتے ہی اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔
’’پو۔۔۔پولیس یہاں کیسے؟ ‘‘ اس کے چہرے پر تشویش کے آثار تھے جبکہ انداز میں بوکھلاہٹ تھی۔
’’معلوم نہیں۔۔۔ آگے کہیں کوئی قتل ہوا ہے شاید وہاں جا رہی ہو۔ ‘‘ریحان نے ٹھہرے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ 
’’پر۔۔۔‘‘ پولیس کی گاڑی کا سائرن اب دور ہوتا جا رہا تھا، مگر زیاد کی بے چینی اب بھی ویسی کی ویسی ہی تھی۔ ریحان نے اسے تسلی دینے کی بہت کوشش کی مگربے سود۔۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی لمحات بعد وہ لوئی لپیٹتے ہوئے باہر نکل گیا۔ ریحان نے روکنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہیں رکا۔
او ر وہ کھلے دروازے میں کھڑا سے تاریکی میں گم ہوتے دیکھ کرسوچ رہا تھا کہ اچھائی کا راستہ امن کا راستہ ہے ، پناہ کا راستہ ہے۔ حلال کا لقمہ سکون کا باعث ہے۔ اور بڑا آدمی۔۔۔بڑا آدمی تو وہی ہے جو اللہ کے بتائے رستے پہ چلے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top