skip to Main Content

بندوق

سید محمد کا شف زیدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹور میں بہت کباڑ جمع تھا، جبکہ دادا گرد میں اٹی ہوئی چیزیں ہٹا ہٹا کر کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ بالآخر انہیں ایک لمبا سا ڈبہ مل ہی گیا۔ وہ اس کی گرد جھاڑتے ہوئے لے کر آئے اور ڈرائنگ روم میں صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔ میں بھی دادا کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ دادا نے جب ڈبے کی اچھی طرح گرد جھاڑ لی تو اسے کھولا۔ پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور جب آیا تو بڑی حیرت ہوئی۔ اس میں ایک بندوق تھی اور وہ بھی کوئی چھوٹی موٹی نہیں، بلکہ تقریباً آج سے ڈیڑھ سو سال پرانی۔
دادا نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ بندوق انہیں ان کے ایک انگریز دوست نے تحفے میں دی تھی۔ یہ بندوق جنگِ آزادی میں بھی استعمال ہوچکی تھی۔ جب دادا نے مجھے بتایا کہ یہ اپنے زمانے کی وہ بندوق ہے جس میں باقاعدہ گولی ڈال کر چلایا جاتا تھا تو‘‘۔ میں نے ہنس کر کہا ’’کیا باقی بندوقیں بغیر گولی کے چلتی تھیں؟‘‘
دادا بھی مسکرائے پھر کہا ’’ہاں! جب شروع شروع میں بندوق بنائی گئی تو اس قسم کی گولیاں جیسی اس میں یا اب استعمال ہوتی ہیں نہیں ہوا کرتی تھیں، بلکہ پہلے تو بندوق بھی اس قسم کی نہیں ہوتی تھی۔ میرا تجسس کافی بڑھ چکا تھا۔ اس لئے میں نے دلچسپی سے سوال کیا کہ ’’آپ مجھے شروع سے بتائیں کہ یہ بندوق کب، کس نے، کہاں، کیسے اور کیوں ایجاد کی؟‘‘
دادا نے میرا سر تھپکتے ہوئے مسکرا کر کہا ’’یوں تو سوال کرنے والے بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھی مشکل میں بھی ڈال دیتے ہیں۔ چلو جتنا کچھ میں جانتا ہوں تمہیں بتاتا ہوں‘‘۔
’’تمہیں یہ معلوم ہی ہے کہ پرانے زمانے میں پتھر، غلیل، تلوار، تیر اور نیزے وغیرہ اپنی حفاظت کرنے اور دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے لیکن ان ہتھیاروں کو چلانے کے لئے انسان کو اپنی طاقت استعمال کرنی پڑتی تھی۔ بندوق کی ابتدا کہاں سے ہوئی، کس نے کی واضح طور پر معلوم نہیں۔ لیکن معلومات یہ بتاتی ہیں کہ اس قسم کی آتش بازی کا آغاز چین میں ہوا۔ انہوں نے گن پاؤڈر جو پوٹاشیم نائٹریٹ، سلفر اور تارکول کا مرکب ہے سے دھماکہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس دھماکے میں تو بڑی قوت ہے۔ اگر اس دھماکے کی قوت کو کسی بھی مضبوط چیز پر استعمال کیا جائے تو وہ اس کے زور سے اچھی خاصی دور جاکر گرتی ہے۔ لیکن کھلی فضا میں اُڑنے والی چیز کا پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کہاں جائے گی۔ اس طرح دھماکہ کرنے والے کے خود زخمی ہونے کا بھی بڑا خطرہ تھا۔ اس لئے اس دھماکے کو کرنے کے لئے ایک لوہے کی نالی ڈھالی گئی، نالی کے ایک سرے سے دھماکہ کیا جاتا تو دوسرے سرے سے نکلنے والی چیز اُسی سمت میں جاتی جس طرف نالی کا رُخ ہوتا تھا۔ اس طرح توپ بندوق کی ابتدا کا باعث بنی اور اس کی چھوٹی شکل بندوق کی صورت میں سامنے آئی اور جس مضبوط چیز کو دھماکے سے پھینکنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا وہ پتھر تھے، کیونکہ پتھر بھی ٹوٹ سکتا ہے اس لئے پتھر کو سیسے سے لیپ کر گولے اور گولیاں بنائی جاتی تھیں۔ یوں تو توپ سے پہلے منجنیق جیسی بڑی غلیلیں جنگوں میں دشمن پر بڑے بڑے پتھر پھینکنے کے لئے استعمال ہوتی تھیں، لیکن 1390ء کی دہائی میں یورپی فوجوں نے توپ اور بندوق کا باقاعدہ استعمال شروع کیا۔ لیکن یہ بندوقیں کوئی زیادہ قابلِ بھروسہ نہیں تھیں۔ کبھی نشانے پر لگتی تھیں، کبھی نہیں لگتی تھیں، خصوصاً فاصلے سے تو شاذونادر ہی ٹھیک لگتی تھیں، مارو کہیں لگتی کہیں تھیں‘‘۔
’’یعنی مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ میں نے آگے سے جملہ لگایا۔ دادا مسکرائے اور بولے ’’ان بندوقوں کو چلانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا اور نہ ان کی شکل موجودہ بندوق سے ملتی جلتی تھی۔ اس کے چلانے کے بھی مختلف طریقے تھے، کوئی دھماکہ کرنے کے لئے ہتھوڑے کا استعمال کرتا کوئی کچھ کرتا کوئی کچھ۔
17 ویں صدی میں فلنٹ لاک سسٹم نے بندوق کی دنیا میں ایک نئی جدت پیدا کی۔ اس بندوق کی مختلف چھوٹی بڑی قسمیں تیار کی گئیں، جس میں ٹرائیگر کے اوپر چھوٹے سے حصے میں گن پاؤڈر ڈال کر ڈھکن بند کردیاجاتا، پھر نال کے ایک سرے سے گولیاں ڈالی جاتیں، ٹرائیگر دبانے پر ایک چقماق (لائٹر کا پتھر) ڈھکن سے رگڑ کر چنگاری پیدا کرتا اور ایک دھماکے کے ساتھ گولی بندوق کی نالی سے باہر نکل جاتی اور بارود کا دھواں فضا میں اُڑنے لگتا۔
19 ویں صدی میں بندوق کی صنعت نے مزید ترقی کی اور بریچ لوڈڈ بندوقیں میدان میں آئیں۔ اس کے ساتھ ہی گولی اور بارود کو ایک کرکے موجودہ گولی جیسی شکل میں بنایا گیا۔ اس طرح بندوق میں بارود اور گولی کو الگ الگ ڈالنے کے بجائے ایک گولی ڈالی جاتی جس کے پچھلے حصے کو چوٹ مارنے سے دھماکہ ہوتا اور گولی چل جاتی تھی۔ اس میں گولی ڈال کر بار بار لوڈ کرنا پڑتا تھا، لیکن یہ پہلے طریقے سے زیادہ آسان اور تیزی کے ساتھ ممکن تھا۔
یہ جو بندوق ہے یہ اسی زمانے کی بندوق ہے‘‘۔
دادا نے جب اس بندوق کا اس بار تعارف کرایا تو مجھے اسے دیکھ کر ایک فخر کا سا احساس ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس جدید زمانے کے ساتھ ساتھ میں نے پرانے دور کی زندگی کا بھی لطف حاصل کرلیا ہو۔
1880ء میں اس طریقے کو مزید آسان بنانے کے لئے میگزین کا استعمال شروع ہوا جس میں بیک وقت ایک سے زیادہ گولیاں بندوق کے ساتھ منسلک کردی جاتی تھیں۔ بندوق کو لوڈ کرتے ہی گولی نالی میں جگہ بنا لیتی تھی اور پھر استعمال کے بعد گولی کا خالی خول دوبارہ لوڈ کرنے سے باہر نکل جاتا اور دوسری گولی اس کی جگہ لے لیتی تھی۔ یہی طریقہ کار موجودہ بندوقوں میں بھی ہے، لیکن انہیں بار بار لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس طرح یکے بعد دیگرے زیادہ سے زیادہ گولیاں چلانے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ گولی سازی میں مزید اقدام یہ ہوا کہ بارود ایسا بنایا جانے لگا جس میں دھواں نہیں اُٹھتا تھا۔
بندوق سازی میں دور مار کرنے والی بندوقوں کی نال جتنی لمبی رکھی جاتی ہے اس میں اتنی زیادہ دور تک مار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نال کا سوراخ بھی گولی کی رفتار بڑھانے میں اہمیت رکھتا ہے۔ سوراخ میں جس جگہ سے گولی ڈالی جاتی ہے وہ گولی کے سائز کے مطابق ہوتا ہے اور جہاں سے گولی نکلتی ہے وہ دہانا چھوٹا ہوتا ہے۔ اس لئے گولی کو نال سے باہر نکلنے کے لئے کافی قوت لگانی پڑتی ہے اس لئے جب وہ نال سے باہر آتی ہے تو اتنی تیز رفتار پکڑتی ہے کہ نظر ہی نہیں آتی‘‘۔
پھر جدید زمانے میں خودکار ہتھیاروں کا دور شروع ہوا۔ جس میں سب سے پہلے مشین گن بنائی گئی۔ جس کا نام ’’میکسم‘‘ تھا۔ اس میں گولیوں کی ایک بیلٹ نال کے حصے میں فٹ کردی جاتی ہے۔ اس حصے کو چیمبر کہتے ہیں۔ اس میں گولیاں ایک طرف سے داخل ہوتی جاتی ہیں اور دوسری طرف سے خالی بیلٹ باہر نکلتی جاتی ہے۔ مشین گن میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ ایک منٹ میں کئی سو گولیاں بیک وقت چلا سکتی ہے۔ مشین گن کے علاوہ خودکار ہتھیاروں میں چھوٹی اور ہلکی بندوقیں بھی بنائی گئیں، جن میں کلاشنکوف، ماؤزر اور ٹی ٹی نے کافی شہرت حاصل کی۔دوسری جنگِ عظیم میں ترقی یافتہ ممالک نے خودکار ہتھیاروں کو بے دریغ استعمال کیا، جس کی وجہ سے لاکھوں معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں اور یہ آج بھی اپنی درندگانہ روش پر قائم ہیں۔
’’دادا آپ نے یہ بندوق اپنے پاس کیوں رکھی ہے؟‘‘ میں نے بے ساختہ پوچھا۔
دادا نے کہا ’’بیٹا دشمنوں اور موذی عناصر سے بچاؤ کرنا مردوں کا کام ہے اس لئے ہتھیار مردوں کا زیور ہے۔ اپنی، اپنے دین اور وطن کی حفاظت کے لئے ہمیں دشمنوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور اس لئے مومن کو اپنا ہتھیار ہمیشہ تیار رکھنا چاہئے اور ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا ہے ’’یاد رکھو قوت نشانے بازی میں ہے‘‘۔ اس لئے ہمیں جہاد کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے‘‘۔
پھر دادا مجھے ساتھ لے کر گھر کے باغیچے میں گئے اور نشانے کے بورڈ پر نشانہ باندھ کر بندوق سے گولی چلائی۔ ’ٹھا‘‘ کی آواز فضا میں گونج اُٹھی اور گولی ٹھیک نشانے پر لگی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top