skip to Main Content
بریف کیس چور

بریف کیس چور

اعظم طارق کو ہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ خوب صورت فرنیچر سے آراستہ اس کمرہ میں صفائی ایسی بہترین تھی کہ اگر خوردبین کی آنکھ سے بھی گرد ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی تو ناکامی شاید اُس کا مقدر ٹھہرتی اور یہی بہترین صفائی کمرہ کی زینت میں چار چاند لگانے کا سبب بن رہی تھی۔ کمرے میں ایک بھاری بھر کم میز موجود تھی، جس کے پیچھے بیٹھا ہوا گرانڈیل جسم کا مالک مسٹر ’’کاظم عباسی ‘‘ایک بیضوی پیپرویٹ سے کھیل رہا تھا۔ کہنے کی حد تک تو وہ کھیل رہا تھا مگر پیشانی پر پھیلی ہوئی لاتعداد تہ در تہ سلوٹیں کچھ اور ہی پیغام دے رہی تھیں۔ اس خُنک موسم میں بھی کاظم عباسی کے ماتھے پر پسینے کے چمکتے ہوئے قطرے بخوبی دیکھے جاسکتے تھے۔ 
اچانک ماحول کا سکوت، فون کی خوف ناک چنگھاڑ نے توڑا۔ خیالوں کی دنیا میں کھوئے ہوئے کاظم عباسی نے چونک کر فون کو دیکھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا۔ دوسری جانب ملک کے مشیر داخلہ بذاتِ خود موجود تھے۔ جب ہی کاظم عباسی کی بے خیالی کا نشہ ’’ہرن‘‘ ہو گیا۔ 
’’ یس سر، یس سر۔۔۔ آپ بے فکر رہیں۔۔۔ سر! میں نے تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔۔۔ امید ہے کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مجرم قانون کی گرفت میں ہوگا۔‘‘
’’سنو آفیسر! یہ کیس اتنا اہم نہیں تھا جتنا اب ہو چکا ہے۔ پرائم منسٹر صاحب نے اس کیس کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ آج صبح ان کے ایک قریبی عزیز کا بریف کیس بھی ایئر پورٹ میں وہی چور اڑا کر لے گیا ہے۔ وہ قریبی عزیز پرائم منسٹر کی خصوصی دعوت پر لندن سے آئے ہیں اور انہوں نے بریف کیس کے چوری ہونے پر پرائم منسٹر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ملک کے چور کافی تیز ہیں ۔۔۔وزیراعظم کے رشتہ دار کو بھی نہ بخشا۔ اُن رشتہ دار صاحب کی شکایت پر پرائم منسٹر سخت غصے میں ہیں۔ اب اچانک انہیں ایک غیر ملکی دورے پر جانا پڑاہے۔ جیسے ہی وہ واپس آئیں گے وہ ایک بار پھر اس معاملے پر سیخ پا ہوجائیں گے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ مجرم ان کے آنے سے پہلے پہلے پکڑا جائے، تاکہ یہ ان کے لیے سرپرائز ثابت ہو۔‘‘ دوسری جانب مشیر داخلہ نے پولیس آفیسر کاظم عباسی کوسخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
’’سر! ۔۔۔ آپ بے فکر رہیں۔۔۔ آپ کی توقع سے بھی پہلے مجرم پکڑاجائے گا۔‘‘ کاظم عباسی کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔
’’خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘ دوسری جانب سے یہ کہہ کر فون رکھ دیا گیا۔ کاظم عباسی نے بھی شکستہ خوردہ ہو کر فون کریڈل پر پٹخا۔ مشیر داخلہ کے فون پر کاظم عباسی کا منھ بن چکا تھا۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ’’کونین‘‘ کا پورا پیکٹ اس کے حلق کے نیچے اتار دیا ہو۔ کاظم عباسی پریشانی کے عالم میں بار بار پہلو بدلنے لگا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

گزشتہ ایک ماہ سے ایئر پورٹ اور ریل گاڑیوں کے مسافروں کے سوٹ کیس چوری ہونا شروع ہونے لگے تھے۔ شروع میں تو یہ چوریاں عام لوگوں کے بریف کیسوں تک محدود تھیں مگر اب یہاں تک کہ حکومتی اشخاص اور شہر کے امراء کے بھی یکے بعد دیگرے سوٹ کیس غائب ہونے لگے۔
بریف کیس چوری کی یہ وارداتیں ملک کے مختلف علاقوں میں ہورہی تھی مگر زیادہ وارداتیں اب تک اسلام آباد اور کراچی میں ہوئی تھیں شاید اس کی وجہ یہاں کی زیادہ آبادی ہے اور پکڑے جانے کا خدشہ بھی دوسرے شہروں کی نسبت کم ہے۔ چور کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ سوٹ کیس اٹھاتا ہوا بھی کوئی نظر آیا اور نہ بریف کیس چوری کے دوران چور کی پولیس سے مڈبھیڑ ہوئی ہو اور یہ ایک عجیب بات تھی۔ 
لیکن بات کہاں تک چھپی رہتی بلا آخربات بڑھتے بڑھتے اعلا حکام تک جا پہنچی۔ تب جا کر یہ کیس مشہور پولیس آفیسر ’’کاظم عباسی‘‘ کو دے دیا گیا مگر ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود نتیجہ ’’صفر‘‘ تھا۔ 
چور انتہائی چالاک وعیار تھا جو یقیناًکوئی خاص ٹیکنیک کااستعمال کررہا تھا۔ البتہ اتنا اندازہ ہوچکا تھا کہ چوری کوئی یک وتنہا کررہا ہے۔ اس لیے یہ کام اور بھی پیچیدہ تھا۔ مسٹر کاظم عباسی نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دے کر انہیں سوٹ کیسوں کے ہمراہ مختلف ریل گاڑیوں اور ایئر پورٹس میں بھجوادیا تھا۔ اب کاظم عباسی کو اس بات کا انتظار تھا کہ ان دونوں میں کون سی ٹیم کامیاب ہو کر لوٹتی ہے اگر دونوں ناکام ہوجاتے تو کاظم عباسی کا خود اس مشن پر نکلنے کا ارادہ تھا۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہیں تھاکیوں کہ کاظم عباسی کو اپنے افسروں کی صلاحیت پر کچھ زیادہ اعتماد تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور باہر بیٹھا ہوا چپڑاسی اندر داخل ہوا۔ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مسٹر کاظم عباسی اس سے پہلے حلق پھاڑ کر چیخا: ’’نالائق، کوڑھ مغز تمہیں دس بار کہہ چکا ہوں کہ ان دروازوں کے قبضوں میں گریس لگا دو، یہ چرچر کی آواز میرے دماغ میں کسی ہتھوڑے کی مانند برستی ہے۔ لیکن شاید تمہیں ۔۔۔‘‘ کاظم عباسی نے بات ادھوری چھوڑی شاید اسے اس چورکا خیال آگیا تھا۔
’’ہاں! تم اندر کیوں آئے ہو۔۔۔کہو کیا کام ہے۔‘‘
’’سر خاقان جاوید آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ چپڑاسی نے خفیف ساہو کر کہا۔
’’کیا۔۔۔! خاقان جاوید کے آنے کی خبر مجھے اب دے رہے ہو، میں کب سے اس کا انتظار کررہا ہوں۔جاؤ میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔بلاؤ اسے۔‘‘ مسٹر کاظم عباسی پھر زور سے چیخا۔ اس کیس نے اسے چڑچڑا بنا دیا تھا۔
چپڑاسی کے باہر جانے کے تھوڑی دیر بعد پولیس آفیسر خاقان جاوید کاظم عباسی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ 
’’کیا رپورٹ ہے خاقان جاوید۔ ‘‘ کاظم عباسی نے اپنی بے تابی کو ظاہر نہ ہونے دیا۔
’’سرمیں فیل ہوگیا۔‘‘ خاقان جاوید نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب! تم ناکام لوٹے ہو۔‘‘
’’سر۔۔۔! ہم نے بھرپور کوشش کی مگر کسی قسم کا سراغ نہیں مل سکا۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ تمہاری ٹیم ہی ناکارہ ہے۔ اب دیکھو وہ دوسرا کیا گل کھلائے گا۔‘‘
’’سر ! ۔۔۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ عمار یہ کیس حل کرسکے ، وہ تو ابھی بچہ ہے۔‘‘ خاقان جاوید نے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔ ’’اور سر یہ کیس حل کرتے ہوئے مجھے بھی دانتوں پسینہ آگیا مگر حل نہ کرسکا۔‘‘
’’مجھے جلنے کی بو آرہی ہے۔‘‘ مسٹر کاظم عباسی نے ناگواری سے کہا۔ ’’آلینے دو پھر دیکھتے ہیں ورنہ تو مجھے ہی ہاتھ پیر ہلانے پڑیں گے۔ وزیر داخلہ کو ۲۴ گھنٹوں کا وقت دے چکا ہوں۔‘‘ کاظم عباسی نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

تقریباً دو گھنٹوں کے بعد عمار احمدتمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ آفس میں داخل ہوا۔ 
’’اس کا پرجوش چہرہ بتا رہا ہے کہ اس نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘‘ خاقان جاوید نے دل میں سوچا۔
’’عمار! مجھے امید ہے کہ تم کامیاب لوٹے ہو۔‘‘ کاظم عباسی اس کا کھلا چہرہ دیکھ کر مفہوم سمجھ چکا تھا۔ 
’’یقیناًکوئی بے گناہ شخص ہوگا۔‘‘ خاقان جاوید نے لقمہ دیا۔ خاقان جاوید کی اس بات پرکاظم عباسی نے اُسے صرف گھورنے پر اکتفا کیا۔
’’سر آپ کا مجرم لاک اپ میں بند ہے۔‘‘ عمار نے احتراماً ٹوپی اتارتے ہوئے کہا۔ 
’’شاباش! مجھے تم سے یہی امید تھی تم یقیناً’’جیمز بونڈ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دو گے۔‘‘ کاظم عباسی رطب اللسان ہوتے ہوئے بولا۔ 
’’چلو مجھے اس چالاک اور عیار مجرم سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہو چلا ہے۔‘‘ کاظم عباسی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
عمار نے اپنا منھ خاقان جاوید کے کان کے قریب لایا مسکرا کر بولا: ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔‘‘ 
جواب میں خاقان جاوید ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

دوسرے دن لندن کے تمام اخبارات بریف کیس چور کی خبروں سے چنگھاڑ رہے تھے۔ خبر کچھ یوں چھپی تھی کہ سوٹ کیس چور بالآخر رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔ 
خبر کی تفصیل میں لکھا تھا: ’’ جمیم نامی ایک چالاک عورت سوٹ کیس غائب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔ اس چالاک عورت نے ایک ایسا سوٹ کیس تیار کر رکھا تھا جس کے تلے چند اسپرنگ کچھ ایسی حکمت سے لگائے گئے تھے کہ جب اس سوٹ کیس کو کسی دوسرے چھوٹے سوٹ کیس پر رکھا جاتا تھا تو وہ اپنے بوجھ کے ساتھ خودبخود نیچے بیٹھنا شروع ہوجاتا تھا۔ اس کا تلا اندر کی جانب گھستا جاتا اور نیچے والے سوٹ کیس کو اپنے اندر لاتا جاتا تھا حتیٰ کہ تھوڑی دیر میں اس سوٹ کیس کا لقمہ بن کر غائب ہو جاتا تھا۔ یہ چور نی اپنے اسی سوٹ کیس کو ہاتھ میں لیے گاڑی پر سوار ہوتی اور کسی مناسب سوٹ کیس کے اوپر اسے رکھ کر اطمینان سے بیٹھ جاتی اور اگلے اسٹیشن پر اترجاتی تھی۔ اسی چال سے اس نے سینکڑوں سوٹ کیس اڑائے۔ مگر بدقسمتی سے انسپکٹر عمار کی عقابی نگاہوں سے وہ بچ نہ سکی۔
جرم کبھی نہیں چھپتا کا قول آج پھر امر ہو گیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top