skip to Main Content

باورچن کا اغوا

ش کاظمی

…….

صبح کا وقت تھا، میں حسب معمول اپنے دوست سراغ رساں ہرکیول پائرو کو اخبار پڑھ کر سنا رہا تھا۔ کچھ سنسنی خیز خبریں بھی تھیں۔ مثلاً ”بنک کا ایک کلرک، ڈیوڈ پچاس ہزار پونڈ لے کر فرار ہو گیا۔“
”زندگی سے تنگ آکر آدمی نے لیمپ کے تار سے خودکشی کر لی۔“
”ایڈنا فیلڈ کی پراسرار گمشدگی۔“
یہ خبریں سنانے کے بعد میں نے پائرو سے پوچھا:
”کیوں جناب!آپ ان میں سے کوئی کیس لینا چاہتے ہیں؟“
”جی نہیں، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں آج چھٹی کرنا چاہتا ہوں۔ کئی روز سے نہانے اور کپڑے بدلنے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ میرا ارادہ ہے کہ……“
وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکا، دروازے پر گھنٹی بجی اور تھوڑی دیر بعد ایک عورت پائرو کے سامنے بیٹھی تھی۔ چند لمحے خاموش رہ کر اس نے اچانک سوال کیا:
”پائرو آپ ہی کانام ہے؟“
”جی فرمائیے۔“ پائرو نے قدرے بے نیازی سے کہا۔
”تعجب ہے، میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ…… میرا مطلب ہے مشہور سراغ رساں ہرکیول پائرو آپ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور اگر یہ سچ ہے تو شاید آپ نے اخبار والوں سے کوئی معاملہ طے کررکھا ہے جو آپ کی جھوٹی تعریفیں چھاپتے ہیں۔ چچ چچ، کتنی بری بات ہے۔“
”آخر قصہ کیا ہے؟ آپ مجھ سے اتنی بدظن کیوں ہیں؟“ پائرو نے حیران ہو کر پوچھا۔
”آپ کو دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی، بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ میری باورچن گم ہو گئی ہے۔ بہت اچھی لڑکی تھی، بڑے مزے دار کھانے پکاتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہاں چلی گئی۔ میں اپنے ملازموں سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتی ہوں۔ آج تک کسی ملازم کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اسے جانا ہی تھا، تو کم از کم پوچھ کر جاتی۔ میں ہمیشہ……“
”معاف کیجئے، یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔ ملازم ناراض ہو کر اکثر چلے جاتے ہیں۔ میں ایسی معمولی باتوں پر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ آپ کسی دوسری باورچن کا بندوبست کر لیجئے۔“
”ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ آخر آپ یہاں کس لیے بیٹھے ہیں؟ میں چاہتی ہوں آپ یہ کھوج لگائیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟“
”کیا وہ نقدی یا کوئی اور چیز لے کر فرار ہوئی ہے؟“ پائرو نے سوال کیا۔
”افوہ! وہ ایسی حرکت کیسے کرسکتی تھی۔ آپ کو میری باورچن پر الزام دھرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں کہتی ہوں فوراً معافی مانگئے۔“
پائرو ہنس پڑا۔ ملاقاتی عورت اسے ہنستے دیکھ کر غصے میں آگئی۔
”آپ قیمتی ہیرے اور جواہرات برآمد کرنے میں تو بڑے ماہر ہیں مگر آپ کے نزدیک ایک انسان کی کوئی وقعت نہیں۔ میری باورچن ایک نیک لڑکی تھی اور مجھے یقین ہے کہ وہ بغیر اطلاع دیئے یوں گھر چھوڑکر نہیں جا سکتی۔ ڈرتی ہوں کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو۔“
پائرو چند لمحے خاموش رہا، پھر سنجیدہ ہو کر بولا۔ ”محترمہ، آپ درست فرماتی ہیں۔ میں آپ کی گمشدہ باورچن کا کیس لینے کوتیار ہوں۔ واقعی اس کی گمشدگی بہت بڑا قومی مسئلہ ہے۔ اچھا، ذرا یہ تو بتائیے کہ عظیم قومی سرمایہ کب اور کیسے گم ہوا؟“
”وہ بدھ کے روز گھر سے نکلی اور پھر واپس نہیں آئی۔“
”ہو سکتا ہے کسی حادثے کا شکار ہو گئی ہو، کیا آپ نے ہسپتالوں میں پتا کیا؟“
”کل تک میرا بھی یہی خیال تھا، مگر آج صبح اس نے اپنا بھاری صندوق منگوا لیا۔ میں گھر پر نہیں تھی ورنہ اسے صندوق کبھی نہ لے جانے دیتی۔“
”کیا آپ اس کا حلیہ بتا سکتی ہیں؟“ پائرو نے استفسار کیا۔
”جی ہاں، اس کی عمر تیس سے کچھ اوپر ہے، بال سیاہ، کہیں کہیں سفیدی، بہت ذمے دار اور شریف لڑکی ہے، میرا مطلب ہے اس حرکت سے پہلے ذمے دار اور شریف تھی۔“
”بدھ کے روز یا ایک آدھ دن پہلے آپ کا اس سے جھگڑا تو نہیں ہوا؟“
”جی نہیں، میں نے بتایا نا، وہ مجھے بہت عزیز تھی۔“
”گھر پر اور ملازم بھی ہیں؟“
”جی ہاں، ایک نوجوان خادمہ”اینی“ بھی ہے،اچھی لڑکی ہے، کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔“
”اینی کی باورچن سے لڑائی تو نہیں ہوئی؟“
”دونوں ایک گھر میں رہتی تھیں، اس لیے کبھی کبھار تلخی ہوجاتی تھی، مگر ایسی کوئی لڑائی نہیں ہوئی کہ گھر ہی چھوڑ دیا جائے۔ ویسے بھی اینی اس کی عزت کرتی تھی۔“
”ٹھیک ہے، آپ کہاں رہتی ہیں، ہم خود آکر تفتیش کریں گے۔“
”کلیپ ہام، ۸۸ پرنس البرٹ روڈ پر، میں آپ کا انتظار کروں گا۔“
وہ چلی گئی تو ہم دیر تک ہنستے رہے۔ پائرو نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔

”بھئی ایسی موکلہ آج تک نہیں دیکھی، اس نے مجھے بے بس کر دیا۔ مجھ پر آخر یہ دن بھی آگیا کہ میں لوگوں کی باورچنیں ڈھونڈتا پھروں گا۔ کھانے سے فارغ ہولیں، پھر البرٹ روڈچلیں گے۔

٭……٭

پرنس البرٹ روڈ پر ۸۸ نمبر مکان تلاش کرنے میں ہمیں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ بیگم ٹوڈ، ہمیں ملاقاتی دروازے پر مل گئیں۔ پائرو نے سب سے پہلے خادمہ اینی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ بے ضرر اور معصوم نظر آنے والی اینی کی عمر اٹھارہ انیس برس سے زیادہ نہ تھی۔ پائرو نے بیگم ٹوڈ سے کہا۔
”اگر برا نہ مانیں تو میں آپ کی غیر موجودگی میں اینی سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“
بیگم ٹوڈ کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ بات انہیں پسند نہیں آئی تاہم وہ مصلحتاًخاموش رہی۔ دروازہ بند ہوتے ہی پائرو نے سوالات شروع کر دیئے۔
”اپنی شکل و صورت سے تم ذہین لڑکی دکھائی دیتی ہو، باورچن کی گمشدگی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“
”جناب، میں سمجھتی ہوں اسے کوئی بردہ فروش اغوا کرکے لے گیا۔ وہ ہمیشہ مجھے سمجھایا کرتی تھی کہ کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہ کھانا اور نہ کسی کی دی ہوئی خوشبو استعمال کرنا۔مجھے یقین ہے اس نے ان نصیحتوں پر خود عمل نہیں کیا اور وہ لوگ اسے اٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ شاید افریقا لے جا کر بیچ دیں گے۔“
”بہت خوب، تم نے بہت پتے کی بات کہی، مگر اینی اگر اسے بردہ فروشوں نے اغوا کیا ہے، تو آج صبح اسے اپنا صندوق منگوانے کی کیا ضرورت تھی؟“
”جناب، صندوق میں اس کے کپڑے اور استعمال کی دوسری چیزیں تھیں۔ کیا افریقا میں اسے کپڑوں کی ضرورت پیش نہ آتی؟“
میں بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا سکا۔ پائرو نے بڑی شفقت سے پوچھا۔
”یہ صندوق کون لینے آیا تھا؟“
”پیٹرسن چھکڑے والا۔“
”کیا اس میں کپڑے اور دوسری چیزیں تم نے رکھی تھیں؟“
”جی نہیں، صندوق مقفل تھا اور اس پر پتے کا کارڈ لگا تھا۔“
”کیا تم باورچن کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں؟“
”جی نہیں، میرا کمرا الگ ہے۔“
”کیا تمہاری مالکن واقعی ملازموں پر مہربان ہے؟“
”جی، جی ہاں۔“ اس نے اٹک کر جواب دیا۔
”ڈرو نہیں، سچ سچ بتا دو، ہم کسی سے نہ کہیں گے۔“
”دراصل میری مالکن کچھ سنکی ہیں۔ کبھی کبھی تو شبہ ہونے لگتا ہے جیسے ان کا دماغ چل گیا ہو، مگر دل کی اچھی ہیں۔ ہمیں زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا، اچھی تنخواہ ملتی ہے، سال میں ایک مہینے کی چھٹی اور ہفتے میں ایک دن کی۔“
”تمہیں مالکن سے کوئی شکایت تو نہیں؟“
”جی نہیں۔“
”کیا باورچن ہر بدھ کو چھٹی کرتی تھی؟“
اینی نے اثبات میں جواب دیا۔ پائرو نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بیگم ٹوڈ کو اندر بلا لیا۔ وہ بہت بے چین نظر آتی تھی۔ پائرو نے معذرت کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مسٹرٹوڈ بھی باورچن کی گم شدگی پر فکر مند ہیں؟“
”جی نہیں، انہیں اپنے کاموں سے اتنی فرصت نہیں کہ گھریلو امور پر توجہ دے سکیں۔ ایک دو بار میں نے باورچن کی بات کی، تو وہ تیز لہجے میں بولے۔
”پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے، نئی باورچن تلاش کر لو۔“
”اینی نے بتایا ہے کہ آپ کے ہاں ایک کرائے دار بھی رہتا ہے، وہ کون ہے اور کیا کرتا ہے؟“ پائرو نے سوال کیا۔
”مسٹر سیمسن بنک میں ملازم ہیں، صبح کا ناشتہ یہاں کرتے اور رات کے کھانے پر لوٹتے ہیں، سارا دن باہر رہتے ہیں، بہت بھلے آدمی ہیں بے چارے۔“
”ان کی عمر کیا ہوگی؟“
”پچیس برس۔“
”بیگم ٹوڈ، ہم شام کو پھر حاضر ہوں گے تاکہ آپ کے شوہر اور مسٹر سیمسن سے مل سکیں۔ اس وقت کے لیے اجازت دیجئے، خدا حافظ۔“
٭……٭
واپسی پر میں نے پائرو سے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں یاد ہوگا، آج صبح اخبار میں بنک کے ایک کلرک ڈیوڈ کی خبر چھپی تھی جو پچاس ہزار پونڈ لے کر فرارہو گیا۔ یہ مسٹر سیمسن بھی اسی بنک میں ملازم ہیں۔ میرا خیال ہے ڈیوڈ، سیمسن سے ملنے یہاں آتا ہوگا۔ یہیں اس کی ملاقات باورچن سے ہوئی، چنانچہ اس نے پچاس ہزار پونڈ چرائے اور باورچن کے ساتھ فرار ہو گیا، کیوں کیسی کہی؟“
”یہ سب بعد کی باتیں ہیں، پہلے تو ہمیں مسٹرٹوڈ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔“ پائرو نے ہنستے ہوئے کہا اور ہاکی میچ کے بارے میں بات کرنے لگاجو ایک روز پہلے ہم نے دیکھا تھا۔
اسی روز شام کے وقت ہمیں مسٹرٹوڈ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ پائرو کی بات سن کر ہنستے ہوئے بولے۔

”مسٹر پائرو، یہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں، نوکر آتے جاتے رہتے ہیں، کسی بات پر خفا ہو گئی ہوگی، کچھ کہے بغیر چلی گئی اور اگلے روز اپنا سامان بھی منگوا لیا۔ آپ ہی بتائیں، ہم کسی کو اس کی مرضی کے بغیر کیسے ملازم رکھ سکتے ہیں؟“
نوجوان مسٹر سیمسن نے صرف اتنا بتایا کہ وہ باورچن کو اچھی طرح نہیں جانتا کیونکہ اس کے زیادہ تر کام اینی کرتی ہے۔ اس سے پوچھ گچھ کے بعد ایک بار پھر بیگم ٹوڈ کا وہی بیان سننا پڑا جسے ہم صبح دوبارسن چکے تھے۔ بہرحال پائرو نے اس سے وعدہ کیا کہ جلد باورچن کو تلاش کر لیا جائے گا۔
اگلے روز صبح کی ڈاک میں ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا۔
”بیگم ٹوڈ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ باورچن کی گمشدگی زیادہ تشویش ناک نہیں، اس لیے آپ اس کیس پر مزید وقت ضائع نہ کریں۔ آپ نے اب تک جتنا کام کیا ہے، اس کے معاوضے کے طور پر ایک گنی پیش خدمت ہے۔“
پائرو میز پر ہاتھ مار کر بولا۔”میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ خط مسٹر ٹوڈ نے لکھا ہے، لیکن اس طرح وہ مجھے راستے سے نہیں ہٹا سکتے۔ میں ایک گنی تو کیا اپنی جیب سے ہزاروں پونڈ صرف کروں گا، مگر اس کیس کی تہہ تک پہنچے بغیر چین سے نہ بیٹھوں گا۔
سنو دوست، ہم اخبار میں اشتہار دیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی ساری پونجی اس کام پر صرف کردیں گے۔ تم آج ہی اس مضمون کا اشتہار بناؤ کہ ایلزاڈن باورچن جہاں کہیں ہو، ہم سے فوراً ملے۔ ہمارے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جو اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ اشتہار کم از کم ایک ہفتے تک ہر چھوٹے بڑے اخبار میں روزانہ چھپنا چاہیے۔ اب تم یہاں بیٹھو، میں چند ضروری کاموں سے فارغ ہو لوں۔“
میں نے اس کے کہنے کے مطابق تمام بڑے اخبارات میں اشتہار بھجوا دیا۔ وہ رات گئے واپس آیا اور دن بھر کی رپورٹ دیتے ہوئے بولا۔
”میں نے مسٹرڈ ٹوڈ کے بارے میں ساری معلومات حاصل کر لی ہیں، وہ اچھی عادات کا مالک ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وقتی طور پر غصے میں آکر ہمیں یہ خط لکھ دیا۔ دراصل وہ شخص اپنی بیوی کی باتوں سے تنگ آچکا ہے جسے ہر وقت باورچن کی فکر لگی ہوئی ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ اس کے چال چلن کی تصدیق ہو گئی ورنہ اسے ملزم سمجھ کر ہم اپنا وقت ضائع کرتے۔
اس کے بعد میں نے مسٹر سیمسن کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ڈیوڈ کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم تھے لیکن وہ بدھ کے روز دفتر میں حاضر تھا، لہٰذا ایلزا کو اغوا کرنے میں اس کا ہاتھ نہیں۔ جمعرات کو البتہ وہ بیمار پڑ گیا اور دفتر نہ آسکا۔ یاد رہے کہ بینک میں چوری بھی بدھ کے دن ہوئی، یوں اس اغوا میں اس کا ہاتھ نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایلز ابھی اسی روز گھر نکلی اور واپس نہیں آئی۔ کوشش کے باوجود مجھے کوئی سراغ نہ مل سکا۔ چوری کا کیس پولیس کے پاس ہے اور تفتیش جاری ہے۔ اب ہمیں زیادہ تر اسی اشتہار پر بھروسہ کرنا ہوگا جو کل سے اخبارات میں شائع ہو رہا ہے۔“
اس دن کے بعد ہم بڑی بے تابی سے ایلزا کی راہ دیکھنے لگے۔ پائرو کو یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گی۔ اس کا اندازہ صحیح نکلا۔ آٹھ دن بعد دروازے پر گھنٹی بجی اور تیس بتیس برس کی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔
”مسٹر پائرو آپ ہیں، میرا نام ایلزا ڈن ہے۔“ اس نے بڑی سادگی سے کہا۔
”میں نے آپ کو جو زحمت دی اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ دراصل آپ کی مالکن بیگم ٹوڈ بہت متفکر ہیں۔ انہیں ڈر تھا کہیں آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ آپ نے انہیں اطلاع بھی نہیں دی۔“ پائرو بولا۔
”حیرت ہے۔“ میں نے تو انہیں خط لکھا تھا کہ بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر میں اچانک رخصت ہو رہی ہوں، میرا سامان بھجوا دیں۔“
”کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ خط کب اور کیسے لکھا گیا؟“
”جی ہاں، میں آپ کو پورا واقعہ سناتی ہوں۔ بدھ کے روز مجھے چھٹی ہوتی ہے۔ سارا دن گھومنے پھرنے کے بعد میں واپس آرہی تھی کہ راستے میں ایک شخص نے آواز دے کر مجھے بلایا۔ وہ طویل قد کا آدمی تھا، سر پر بہت بڑی ٹوپی، لمبی ڈاڑھی اور سیاہ چشمہ۔
”مس ایلزا ڈن۔“وہ بولا۔ ”میں ابھی ابھی آپ کے مکان سے آرہا ہوں۔ اچھا ہوا آپ راستے میں مل گئیں ورنہ میں مایوس ہو کر واپس جا رہا تھا۔“
”آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟“ میں نے استفسار کیا۔
”محترمہ، میں آسٹریلیا سے محض آپ سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ کو اپنی دادی کا نام یاد ہے؟“
”جی ہاں، جین ایمٹ، کیوں؟“
”بالکل ٹھیک، قصہ یہ ہے کہ آپ کی دادی کی ایک بہت گہری سہیلی الیسا لیچ تھی۔ وہ یہاں سے آسٹریلیا چلی گئی اور ایک مال دار آدمی سے شادی کر لی۔ اس کے ہاں دو جڑواں بچے پیدا ہوئے، لیکن بدقسمتی سے جلد مر گئے۔ شوہر کی موت کے بعد وہ ساری جائیداد اور روپے پیسے کی وارث بنی۔ حال ہی میں اس کا انتقال ہوا ہے۔ وصیت کے مطابق جائیداد میں سے ایک مکان اور اچھی خاصی رقم آپ کے حصے میں بھی آئی ہے۔“
یہ سن کر میں حیران رہ گئی۔ جب سے ہوش سنبھالا، خود کو ملازمہ کے روپ میں دیکھا اور اب میں جائیداد کی مالکہ تھی۔ اب مجھے کسی جگہ نوکری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ تصور کہ میں خود کسی کو ملازم رکھ سکتی ہوں، بہت مسرت انگیز تھا۔ خوشی کے مارے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ وہ شخص بولا۔
”آپ کو شاید یقین نہیں آرہا، یہ لیجئے کا غذات اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔“
میں نے کاغذات پر نظر ڈالی، ملبورن کی قانونی فرم ”ہرسٹ اور کراچٹ“ کی طرف سے ایک خط تھا، جسے فرم کے انتظامی شراکت دار مسٹر کراچٹ خود میرے پاس لے کر آئے تھے۔ میں نے پوچھا۔

”مسٹر کراچٹ، اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟“
”محترمہ شاید آپ کی دادی کی سہیلی کچھ سنکی واقع ہوئی تھی کیونکہ وصیت میں یہ شرط درج ہے کہ آپ کو دس روز کے اندر اندر مکان پر قبضہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسے مقامی یتیم خانے کے حوالے کر دیا جائے گا۔ آپ جانتی ہیں مرحومہ کا انتقال آسٹریلیا ہی میں ہوا۔ دو تین روز تک ہم قانونی کارروائی مکمل کرتے رہے۔ اس کے بعد یہاں آنے اور آپ کو تلاش کرنے میں دو دن صرف ہو گئے۔ اب صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اگر آپ نے کل شام سے پہلے پہلے آسٹریلیا پہنچ کر مکان پر قبضہ نہ کیا، تو وصیت کی رو سے آپ جائیداد کے اپنے حصے اور نقدی سے محروم ہو جائیں گی۔“
”افوہ! اب کیا ہو سکتا ہے؟ مسٹر کراچٹ، آپ ہی بتائیے، میں کیا کروں؟ کس طرح کمبر لینڈ پہنچوں؟“
”فکر نہ کیجئے، میں نے سب انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ چھٹی کی وجہ سے آپ شام سے پہلے نہیں مل سکتیں، اس لیے میں نے آج رات کے لیے ایک ٹکٹ خرید لیا تھا۔ اگر آپ کوشش کریں تو کل شام تک کمبر لینڈ پہنچ سکتی ہیں۔“
”میں تیار ہوں۔“
”وصیت کی ایک شرط اور ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کسی جگہ گھریلو ملازمہ مثلاً باورچن، کھلائی یا برتن دھونے والی خادمہ ہیں تو آپ کوجائداد یا نقدی میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ ہم وصیت کے الفاظ کی پابندی کرتے ہیں۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ مرحومہ یہی چاہتی تھیں کہ آپ کوئی ایسا کام نہ کریں۔“
”لیکن میں تو یہاں باورچن ہوں۔“
”مجھے افسوس ہے، اس صورت میں آپ کو کچھ نہیں مل سکتا۔“
”مگر…… میں …… یہ ظلم ہے، سراسر زیادتی ہے۔ دادی کی سہیلی نے جو کچھ چھوڑا، وہ مجھے ہر قیمت پر ملنا چاہیے۔ خدا کے لیے کچھ کیجئے، کوئی نہ کوئی صورت نکالیے۔“
مسٹر کراچٹ تھوڑی دیر سوچتے رہے، پھر بولے۔
”میں سمجھتا ہوں وصیت کے الفاظ اتنے سخت نہیں۔ اگر آپ فوراً یہ ملازمت چھوڑ دیں اور کمبر لینڈ جا کر مکان پر قبضہ کر لیں، تو کوئی مشکل پیش نہ آئے گی، کیونکہ مکان پر قبضہ کرتے وقت آپ گھریلو ملازمہ نہیں رہیں گی۔“
”میں ابھی اپنی مالکن سے بات کرتی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوں گی۔ آپ بھی میرے ساتھ چلئے۔“
”ٹھیک ہے، مگر پرواز میں بارہ منٹ باقی ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ فوراً سے پیشتر ہوائی اڈے کی طرف چلی جائیں۔ وہاں سے آسٹریلیا جانے والے ہوائی جہاز میں نشست مل جائے گی۔ ٹکٹ میں نے خرید رکھا ہے۔“
”بہت بہت شکریہ، مگر مالکن کیا سوچیں گی، ان سے اجازت لینی ضروری ہے۔ ویسے بھی میں خالی ہاتھ ہوں، سامان گھر پڑا ہے، جمع پونجی بھی وہیں ہے۔“ میں نے پریشان ہو کر کہا۔
”اس بات کی فکر نہ کیجئے۔ آپ مجھ سے پچاس پونڈ عاریتاً لے سکتی ہیں۔ مجھے چند ضروری کام ہیں، پرسوں تک میں بھی پہنچ جاؤں گا، تو واپس کر دیجئے گا۔ رہا مالکہ سے اجازت لینے کا سوال، آپ مجھے ان کے نام خط دیجئے، میں انہیں یہ خط پہنچا دوں گا۔ سامان پر میں آپ کا کمبر لینڈ کا پتا لکھوا دوں گا۔ آپ یہاں کسی سے کہہ دیجئے کہ کل آپ کا سامان بکنگ کے دفتر پہنچا دے۔پھر
”اس نے مجھے کاغذ قلم دیا۔ میں نے جلدی سے مالکن کے نام خط لکھ کر اس کے حوالے کر دیا۔ اتفاق سے گلی کے موڑ پر مجھے پیٹرسن چھکڑے والا نظر آگیا۔ وہ اکثر سامان لے کر ہمارے گھر آتا تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ اگلے روز میرا بڑا صندوق اٹھا کر بکنگ کے دفتر چھوڑ آئے۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ میں نے مسٹر کراچٹ سے پچاس پونڈ لیے اور ایک طویل سفر پر روانہ ہوگئی۔
”آسٹریلیا میں ان کے دیئے ہوئے پتے پر پہنچ کر میں نے کاغذات دکھائے۔ اس قانونی فرم کے منیجر نے ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان میرے حوالے کر دیا اور بتایا کہ مجھے ۰۰۳ پونڈ سالانہ ملیں گے۔ پہلی ششماہی کے ۰۵۱ پونڈ شام سے پہلے پہلے ادا کر دیئے گئے۔ میں نے اپنی دادی کی سہیلی کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ پتا نہ چلا۔ منیجر نے صرف یہ بتایا: ”لندن سے کسی صاحب نے یہ مکان اور ڈیڑھ سو پونڈ آپ کے حوالے کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ مکان کے واجبات اور کچھ زائد رقم ایک ایسی فرم کو دے چکے ہیں جن سے ہمارے کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم نے اس فرم سے تصدیق کرنے کے بعد آپ کو مکان دے دیا اور نقدی بھی۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔“
”جب میں نے اس سے مسٹر کراچٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں، کچھ دن بعد آئیں گے۔
”چند روز بعد مجھے کپڑے اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی مل گئیں جو مسٹر کراچٹ نے غالباً لندن سے بھجوائی تھیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ سامان صندوق کے بجائے کپڑے کے تھیلوں میں بند تھا، حالانکہ میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میرا سامان ایک آہنی صندوق میں تھا اور میں نے پیٹرسن چھکڑے والے سے کہا تھا کہ وہ اسے بکنگ کے دفتر پہنچا دے۔ معلوم ہوتا ہے مالکن نے کسی وجہ سے وہ صندوق نہیں بھیجا۔ بہرحال مکان کا قبضہ لے کر میں آخری بار لندن آئی ہوں، جلد چلی جاؤں گی۔“
یہ کہہ کر ہمارے سامنے بیٹھی ہوئی عورت خاموش ہو گئی۔ پائرو سر جھکائے سوچ میں غرق تھا۔ میں نے ایلزاڈن کا بیان پوری توجہ سے سنا اور پائرو کی ہدایت کے مطابق خاص خاص باتیں لوگوں کے نام اور پتے لکھ لیے تھے۔ دفعتہً وہ بولا:
”محترمہ، کیا مالکہ کی طرف سے آپ کو کوئی خط ملا؟“
”جی نہیں، میرا خیال ہے وہ مجھ سے ناراض ہیں، اسی لیے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔“
پائرو مسکرایا اور اپنے الفاظ پرزور دیتے ہوئے بولا:

”میں سب سمجھ گیا، اب آپ جا سکتی ہیں۔ خدا کا شکر ادا کیجئے کہ آپ کا نقصان نہیں ہوا۔ جلد حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ اس وقت آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ واپس بیگم ٹوڈ کے ہاں آجائیں، وہ آپ کو بے حد چاہتی ہیں اور باورچن کا پیشہ بھی کچھ برا نہیں۔“
”یہ آپ کہہ رہے ہیں مسٹر پائرو، کچھ مجھے بھی بتائیے۔“
”مجھ پر اعتماد کیجئے، آپ خطرے سے باہر ہیں۔ چند روز تک آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے گی۔“
باورچن ایلز اڈن کے جاتے ہی پائرو نے مجھے ٹیکسی لانے کو کہا اور خود ایک کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ میں ٹیکسی لے کر آیا تو وہ دروازے پر منتظر تھا۔ سب سے پہلے میں نے انسپکٹر جاپ کو وہ خط پہنچایا جسے پائرو نے میری غیر موجودگی میں لکھا تھا، پھر پائرو نے ٹیکسی والے کو پرنس البرٹ روڈ کا بتایا۔
میں نے سوال کیا: ”ہم وہاں کس لیے جا رہے ہیں؟“
”مجرم کا پتا چلانے۔“
”تم اسے جانتے ہو؟“
”مجھے یقین ہے، نیک دل اور خوش مزاج مسٹر سیمسن تمہیں اچھی طرح یاد ہوں گے۔“
”سیمسن، بنک ملازم اور مسٹر ٹوڈ کا کرایہ دار؟“
”جی ہاں، وہی شخص مجرم ہے۔“
”مگر اس نے کیا جرم کیا ہے؟ باورچن ایلزا ڈن تو خیریت سے ہے۔“
”تم بھی عقل کے اندھے ہو۔ بھئی اس باورچن کو تو بڑی خوبصورتی سے ایک طرف ہٹایا گیا تاکہ جرم کا بھید نہ کھلے۔“
”مگر جرم ہے کیا؟“
”قتل۔“
”قتل…… کس کا؟“
”ابھی پتا چل جائے گا۔“
”کیا ایلزاڈن کو اس قتل کا علم ہے؟“
”نہیں، اسے تو محض آہنی صندوق حاصل کرنے کے لیے آسٹریلیا بھجوایا گیا۔“
”آہنی صندوق، آخر اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیا سیمسن بازار سے صندوق نہیں خرید سکتا تھا۔“
”ہیسنگز، تم ہمیشہ سے بے وقوف چلے آئے ہو اور شاید عمر بھر رہو گے۔ سیدھی سی بات ہے کہ سیمسن کو اپنا جرم چھپانے کے لیے ایک ایسے صندوق کی ضرورت تھی جسے سب پہچانتے ہوں۔ اس نے نقلی داڑھی استعمال کی، اوورکوٹ پہنا، چشمہ لگایا اور رات کے اندھیرے میں مسٹر کراچٹ بن کر باورچن سے ملا۔ اس نے کسی ذریعے سے پتا چلا لیا ہوگا کہ آسٹریلوی فرم کا شراکت دار، کراچٹ چند دن غیر حاضر رہے گا۔ دادی کی سہیلی والی ساری کہانی غلط تھی۔ سیمسن نے لندن کی ایک فرم کو ایک سو پچاس پونڈ اور مکان کا چھ ماہ کا کرایہ دے کر ہدایت کی کہ اپنے نمائندے کے ذریعے ایلزا ڈن کو آسٹریلیا میں یہ چیزیں دے دے۔
”بعد ازاں اس نے باورچن کو پچاس پونڈ نقد دیے اور اسے آسٹریلیا جانے والے ہوائی جہاز میں بٹھا دیا۔ رات کو اس نے صندوق میں سے کپڑے اور سامان نکال کر تھیلوں میں ڈالا اور آسٹریلیا کا پتا لکھ کر بکنگ کے دفتر پہنچا دیا۔ اب صندوق اس کے پاس تھا۔ اس نے مالکہ کے نام باورچن کا دیا ہوا خط پھاڑ دیا تھا لہٰذا کسی کو باورچن کا اصل پتا معلوم نہ ہو سکا۔ اگلے روز پیٹرسن چھکڑے والا آیا اور صندوق لے کے گھر سے نکلا۔
”اینی کا بیان ہے کہ صندوق مقفل تھا اور اس پر پتے کی ایک پرچی لگی ہوئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باورچن پہلے سے جانے کی تیاری کرچکی تھی، حالانکہ وہ خود بتا کر گئی۔ بدھ کی صبح اس کا ملازمت چھوڑنے کا ہر گز ارادہ نہ تھا اور یہ فیصلہ اس نے مسٹر کراچٹ کی باتیں سننے کے بعد کیا۔ پس ثابت ہوا کہ سیمسن ہی نے یہ صندوق مقفل کیا اور اس پر مسٹر کراچٹ کے نام کی چٹ لگائی۔ اس طرح کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکا کہ صندوق کے اندر سیمسن کا جرم مجسم شکل میں موجود ہے……“
”اس صندوق کے اندر کیا تھا؟“ میں نے سوال کیا۔
مجھے اپنی بات مکمل کرنے دو، بدھ کے روز سیمسن نے بنک سے پچاس ہزار پونڈ چرائے اور گھر لے آیا۔ وہ پہلے سے سارے انتظامات کرچکا تھا، چنانچہ رات کا اندھیرا پھیلتے ہی گلی کے کنارے پر مسٹر کراچٹ بن کر باورچن سے ملا اور اسے فوری طور پر آسٹریلیا جانے پر مجبور کر دیا۔ اب آگے سنو، سیمسن کو معلوم تھا کہ جلد چوری کا پتا چل جائے گا، لہٰذا اس نے اگلے روز بیمار بننے اور چھٹی کی درخواست بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اسی رات اس نے اپنے دوست ڈیوڈ کو فون پر پیغام دیا کہ صبح اس سے مل کر دفتر جانا۔
”تمہیں معلوم ہے جمعرات کی صبح بیگم ٹوڈ سودا سلف خریدنے جاتی ہیں، اس لیے گھر پر نہ تھیں۔ مسٹر ٹوڈ دفتر میں تھے، باورچن ایک روز پہلے سے غائب تھی اور خادمہ اینی ہمیشہ جمعرات کو چھٹی کرتی تھی۔ گھر میں صرف سیمسن تھا جس نے بیمار ہونے کا بہانہ کر رکھا تھا۔ ڈیوڈ وعدے کے مطابق بنک جانے سے پہلے اسے ملنے آیا۔
سیمسن پہلے سے طے کر چکا تھا کہ اگر ڈیوڈ کو غائب کر دیا جائے، تو بنک میں سب لوگ اسی پر چوری کا شبہ کریں گے اور وہ خود معصوم اور بے گناہ بن کر اطمینان سے ملازمت کرتا رہے گا۔ سال چھ مہینے بعد جب بات پرانی ہوجائے گی اور ڈیوڈ کہیں نہیں ملے گا، تو وہ کسی بہانے ملازمت چھوڑ کر پچاس ہزار پونڈ لیے ملک سے باہر چلا جائے گا۔ چنانچہ اس نے ڈیوڈ کو ہمیشہ کے لیے غائب کرنے کی ٹھان لی۔

ڈیوڈ کو قتل کرنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ ہو سکتا ہے سیمسن نے اسے گلا دبا کر مارا ہو یا زہر پلا کر۔ بہرحال اسے ختم کرکے سیمسن نے لاش آہنی صندوق میں بند کی، اسے مقفل کیا اور پتے کی پرچی لگا دی۔ قاتل کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہی ہوتی ہے کہ لاش کیونکر چھپائے، مگر سیمسن کا طریقہ کامیاب رہا۔ بنک میں ڈیوڈ کو غائب پا کر چوری کا الزام بھی اس پر لگا اور گھر میں کسی کو شبہ نہ ہوا کہ صندوق میں ایک لاش لے جائی جا رہی ہے، شبے کی بات بھی نہ تھی۔ باورچن نوکری چھوڑ کر چلی گئی، تو اس نے اگلے روز اپنا صندوق بھی منگوا لیا، عام سی بات تھی۔
چند روز بعد سیمسن نے مسٹر کراچٹ بن کر یہ صندوق وصول کیا اور کسی فرضی نام اور پتے پر اس ہدایت کے ساتھ کہیں بھیج دیا کہ اسے ایک ماہ تک سامان خانے میں رکھا جائے تاآنکہ وہ اسے دوبارہ وصول کرلے۔ ظاہر ہے کسی چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر یہ صندوق ابھی تک پڑا ہوگا۔ ایک ماہ تک ریلوے والے انتظار کریں گے، پھر صندوق کھول کر دیکھیں گے، تو اندر سے لاش کے گلے سڑے اعضا برآمد ہوں گے، مگر سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہ ہوگا کہ لندن کے کسی اسٹیشن سے ایک آسٹریلوی نے اسے بک کروایا تھا۔ کیوں کیسی کامیاب تدبیر ہے؟“
میں جواب دینے ہی والا تھا کہ ٹیکسی رک گئی، بیگم ٹوڈ کا گھر آگیا تھا۔ پائرو کی باتیں سو فیصد صحیح ثابت ہوئیں۔ بیگم ٹوڈ سے معلوم ہوا کہ سیمسن دو روز سے کہیں گیا ہوا ہے۔ وہاں سے ہم انسپکٹر جاپ کے پاس پہنچے۔ اس کے احکام پر پولیس نے جلد سیمسن کو گرفتار کر لیا، وہ امریکہ جانے کے لیے جہاز ”اولمپیا“ کا ٹکٹ خرید چکا تھا اور ایک گھنٹے بعد فرار ہونے ہی والا تھا کہ دھر لیا گیا۔
کنیٹر کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر باروچن کا صندوق بھی مل گیا۔ اس پر لکھا تھا ”مسٹر ہنری رنگٹن اس صندوق کو ایک ماہ بعد حاصل کریں گے“ کرایہ پیشگی ادا کیا جا چکا تھا۔ اس صندوق میں ڈیوڈ کی گلی سڑی لاش موجود تھی۔
مسٹر ٹوڈ کی بھیجی ہوئی گنی پائرو کے پاس اب تک محفوظ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زندگی میں اتنی تھوڑی فیس پر اس نے کوئی کیس حل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ گتھی سلجھانے کے لیے اسے اپنی جیب سے دو سو پونڈ صرف کرنے پڑے۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top