skip to Main Content

بارش اور گلاب

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

گلاب کے پتوں پر شکنیں آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ایک خوب صورت کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔

بچو! آپ کو پتا ہے جب ہم غصہ ہوتے ہیں تو ہمارے ماتھے پر اکثر بل پڑتے ہیں۔ یہ ماتھے کے بل، تیوری یا شکن بھی کہلاتے ہیں۔ آج کی ہماری کہانی میں انہیں شکنوں کا ذکر ہے۔
شکنوں والی خالہ بہت عجیب و غریب بوڑھی عورت تھیں۔ وہ ایک بوڑھے برگد کے تنے میں رہتی تھیں۔ برگد کے تنے میں ایک مضبوط دروازہ بنا ہوا تھا۔ جسے ان کے منتر کے علاوہ کوئی نہیں کھول سکتا تھا۔ ارے منتر…. جی ہاں تھیں تو وہ جادوگرنی لیکن سارے پرستان میں خالہ کے نام سے مشہور تھیں۔ سارا وقت وہ دروازہ بند کرنے اور کھولنے میں مصروف رہتیں لیکن کیا مجال جو ان کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن آئی ہو۔ شکنیں جو چہرے پر پڑ جاتی ہیں ان سے وہ بہت ڈرتی تھیں کیونکہ غصے سے بننے والی شکنیں بعد میں جھریوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اب تو پرستان میں بسنے والی ننھی مخلوق جن میں پریاں، پری زاد یہاں تک کہ جل پریاں اور بونے بھی اپنی جھریاں نکلوانے خالہ کے پاس آتے تھے۔ پریاں تو ویسے بھی بوڑھی نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اگر وہ کسی بات کے بارے میں فکرمند ہوتیں یا کسی وقت غصے میں ہوتیں اور منھ بسورتیں تو شکنیں ان کے چہرے پر نمودار ہوجاتیں۔
یہ اکثرہوجاتا ہے۔ کبھی آپ بھی اپنا چہرہ دیکھیں۔ جب آپ غصے میں ہوں تو دیکھیے کتنی بدصورت شکنیں چہرے پر ابھر آتی ہیں۔ شکنوں والی خالہ اپنے آنے والوں کی پرانی سے پرانی شکنیں بھی دور کردیتی تھیں۔ وہ پری جس کے چہرے پر شکنیں ہوتیں۔ وہ اس کو لے کر برگد کے درخت میں بنے ایک گول کمرے میں لے جاتیں۔ پری کو ایک کرسی پر بٹھاتیں اور پھر اس کے چہرے کا بغور جائزہ لے کر اسے بتاتیں:
”لگتا ہے اس ہفتے تم دوستوں سے خاصی ناراض رہی ہو۔ اس لیے تمہارے ماتھے کے بیچوں بیچ ایک شکن بن گئی ہے۔ اب بالکل سکون سے بیٹھ جاؤ اور مجھے کام کرنے دو۔“
پھر وہ پری کے ماتھے پر ایک عجیب سی خوشبو والی کریم ملتیں۔ تاکہ ماتھے کی شکن ڈھیلی پڑ جائے۔ پھر وہ ایک بہت ہی نازک سی چمٹی لیتیں اور اس سے شکن کو ہلکا سا کھرچ کر ماتھے سے اٹھا لیتیں اور پری کو فراغت کے بعد روانہ کردیتیں لیکن جاتے وقت اسے نصیحت ضرور کرتیں کہ اب وہ دوبارہ کسی پر غصہ نہ ہو ورنہ اس کا خوبصورت چہرہ دوبارہ خراب ہوجائے گا۔ شکنوں والی خالہ پچھلے دو سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے یہ کام کررہی تھیں اور اب ان کا یہ کمرہ شکنوں سے بھرا پڑا تھا۔ انہیں چیزیں ضائع کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ انہیں گھر سے باہر پھینکنے کے بجاے ڈبوں میں تہہ کرکے رکھتی رہی تھیں اور ان ڈبوں میں اب لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے چہروں سے اتری ہوئی شکنیں جمع تھیں۔ اب تو خود خالہ بھی کبھی کبھار سوچنے پر مجبور ہوجاتی تھیں کہ وہ ان سب ڈبوں کا کیا کریں۔ شکنوں کو دور کرنے کا خالہ کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ کبھی کوئی پری اپنی خوشی سے خالہ کو تھوڑا سا شہد دے جاتی یا کوئی پری اسے اوڑھنے کے لیے کوئی شال دے دیتی لیکن جس چیز کی آج کل انہیں شدت سے ضرورت تھی۔ وہ تھی رقم اور ان کے پاس اتنے سارے سال محنت کرنے کے بعد بھی پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ انہیں اپنے گھر میں ایک نئے میز کی ضرورت تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے پاس ایک بہت ہی آرام دہ کرسی ہو۔ جس پر بیٹھ کر وہ سکون سے سویٹر بُنا کریں۔ پھر ان کے گھر میں پہننے والے جوتے بھی پرانے ہورہے تھے لیکن یہ سب خریدنے کے لیے اس کو روپوں کی ضرورت تھی۔ ایک دن گوشی انہیں صبح بخیر کہنے آیا۔ وہ ایک خرگوش تھا جو قریب ہی رہتا تھا۔ اس نے اپنے سر کو اپنے لمبے کانوں سمیت جھکا کر خالہ کو سلام کہا۔ خالہ نے اسے اپنی مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے خالہ کو مشورہ دیا کہ وہ روپے حاصل کرنے کے لیے اپنی جمع شدہ شکنیں بیچ سکتی ہیں۔ خالہ یہ مشورہ سن کر حیران رہ گئیں۔
انہوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا تھا۔ انہوں نے گوشی سے کہا:” میں تو خوشی سے یہ شکنیں بیچ دوں مگر کوئی خریدے بھی تو سہی۔ لوگ تو ان سے چھٹکارہ حاصل کرکے جاتے ہیں وہ انہیں دوبارہ خریدنے کے لیے رقم کیوں خرچ کریں گے؟ بلکہ وہ سمجھیں گے یہ خرگوش بڑا بے وقوف ہے۔“ خرگوش بھی ان کے چہرے کے تاثرات سے سمجھ گیا اور شرمندہ ہو کر پھدکتا ہوا آگے بڑھ گیا لیکن راستے میں بھی وہ شکنوں والی خالہ کے متعلق ہی سوچتا جارہا تھا۔ وہ دراصل ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
اس نے راستے میں پری زادوں سے اس کے متعلق بات کی۔ اس نے مینڈکوں سے مشورہ کیا۔ اس نے اڑتے ہوئے نیل کنٹھوں سے پوچھا اور آخرکار وہ گلاب کے پھولوں کی پری سے ملا اور اسے سارا معاملہ بتایا۔ اس نے گوشی کی ساری بات بہت غور سے سنی اور اس کے متعلق بہت سوچا۔ دراصل وہ پچھلے پچاس سالوں سے گلاب کے پھولوں کے لیے بہت پریشان تھی۔ کیوں کہ بارش انہیں بہت نقصان پہنچاتی تھی۔ جب بھی تیز بارش ہوتی تو گلاب کے پودوں پر اگے ہوئے پتوں پر بارش کے قطرے ٹھہر جاتے اور پھر وہاں سے وہ بہتے ہوئے عین گلاب کے پھولوں میں آجاتے۔ جن سے ان پھولوں کی پنکھڑیوں کا بہت نقصان ہوتا۔ یہ گلاب کے پھولوں کی پری کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ اس صدمے سے اس کے ماتھے پر بننے والی بیس شکنیں اب تک خالہ اتار چکی تھیں لیکن اب گوشی کی بات سن کر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ خالہ سے شکنوں والے ڈبے خریدتی ہے اور ان شکنوں کو سیدھا کرکے گلاب کے پتوں پر چسپاں کرتی ہے تو بارش کا پانی ان پر یوں بہے گا۔ جیسے پانی ندیوں میں سفر کرتا ہے اور اس طرح فوراً پانی پتوں پر بہتا ہوا نیچے گر جائے گا اور پھولوں کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ پھر جیسے ہی اس کے ذہن میں یہ ترکیب آئی ۔ وہ یکدم خوش ہوگئی اور اس سے شکنوں کا ایک ڈبہ خریدا۔
اس ڈبے کو لے کر وہ گلاب کی کیاریوں میں پہنچی اور پھر کام میں جت گئی۔ ان دنوں یہ پتے بالکل سیدھے اور ملائم ہوا کرتے تھے لیکن جب گلابوں کی پری نے ان پر شکنیں چسپاں کرنی شروع کیں تو وہ بالکل مختلف نظر آنے لگے۔ ایک کے بعد ایک پتا تبدیل ہوتا گیا۔ اب ان پتوں کی سطح غیر ہموار اور کھردری نظر آنے لگی اور ابھی پری یہ کام کرہی رہی تھی کہ آسمان برس پڑا۔ بڑے زوروں کی بارش ہونے لگی لیکن پری کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ شکنوں نے بالکل اس کی خواہش کے عین مطابق کام کیا اور پانی کے قطرے شکنوں کے راستے سے نیچے بہتے رہے اور انہوں نے گلاب کے پھولوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ پھر اس نے گلاب کے پودوں سے بھی درخواست کی کہ آئندہ بھی وہ ایسے ہی پتے اگنے دیا کریں۔ جیسے اب شکنوں سے بنے ہیں اور ان پتوں کے سرے نیچے کی طرف مڑے ہوں۔ تاکہ پانی ان پر نہ ٹھہرے اور ان پر اگنے والے پھولوں کو نقصان نہ ہو۔ اسی طرح گلاب کے پھولوں کی پری شکنوں والی خالہ سے شکنیں خریدتی رہی اور پتوں پرچسپاں کرتی رہی۔
خالہ نے شکنوں سے ملنے والی رقم سے اپنے لیے ایک نیا میز خریدا۔ ایک گھومنے والی آرام دہ کرسی اور پھر آرام دہ جوتے بھی مارکیٹ سے لے لیے۔
بچو! اگر آپ کو یہ کہانی کچھ عجیب سی لگے تو تم گلاب کے پودوں کے کنج *میں جاؤ اور ان کے پتوں کو غور سے دیکھو۔ تم ان پتوں پر پڑی شکنوں کو صاف دیکھ سکو گے۔ تمہیں لگے گا جیسے یہ راستے بنے ہوئے ہیں۔ جن سے بارش کا پانی بہتا ہوا زمین پر گرتا ہے اور پتوں کا رخ بھی عمودی ہوگا۔ تاکہ بارش کا پانی گلاب کے نازک پھولوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
(*کنج…. گوشہ، کونا)
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top