skip to Main Content
بابرکت لمحہ

بابرکت لمحہ

حسین صحرائی

………………………..

ریحان کو بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس نے اپنا ہر امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ اس کا خط بھی خوش خط تھا۔ اس کی ان ہی خوبیوں نے اسے ہر دل عزیز بنا رکھا تھا۔ والدین کی توجہ، محنت اور شوق و لگن کی وجہ سے وہ اپنے اسکول میں اساتذہ میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آج اس کے اسکول میں الوداعی پارٹی تھی۔ اس کی تعلیم کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا تھا۔ جب اس نے ادارے کے سربراہ بشارت صاحب سے سرٹیفکیٹ اور ٹرافی وصول کی تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ خوشی سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان، جان چھڑکنے والے والدین، محبت اور نیکی کا راستہ دکھانے والے اساتذہ کا ممنون تھا۔ ان سب نے مل کر اس کی تعلیم و تربیت میں اپنا حصہ ادا کیا تھا جو وہ آج اپنی اگلی منزل کی طرف پیش قدمی کے لئے تیار تھا۔
ریحان نے زندگی کے بارے میں ایک واضح مقصد اپنے ذہن میں بنالیا تھا، اب وہ اس میں صرف رنگ بھرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسکول کی تقریب ختم ہوئی تو وہ گھر پہنچا جہاں محبت کرنے والی امی جان اس کی منتظر تھیں۔ سلام کرنے کے بعد ٹرافی اور سرٹیفکیٹ انہیں تھماتے ہوئے وہ کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ اس سے فارغ ہوکر وہ امی کو تقریب کی روداد سنانے لگا۔ ماں کی خوشی دیدنی تھی۔
’’شاباش بیٹا! تم سے ہمیں ایسی ہی اُمید ہے اگر آئندہ آنے والے پانچ سال بھی تم نے اسی طرح محنت سے گزارے تو انشااللہ تم میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرلوگے‘‘۔
ریحان اپنی امی جان کی باتیں توجہ سے سُن رہا تھا۔ پُرجوش لہجے میں بولا ’’اللہ نے چاہا تو میں آپ کی یہ تمنا ضرور پوری کردکھاؤں گا‘‘۔
شام ہوچلی تھی۔ ریحان کے ابو کے گھر آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ کال بیل کی آواز اس بات کا اعلان تھی کہ ان کے ابو آگئے ہیں۔ بشریٰ نے دروازہ کھولا سامنے سلیم کا مسکراتا چہرہ نظر آیا۔ بریف کیس کے ساتھ مٹھائی کا ڈبہ بھی تھا۔ ’’السلام علیکم‘‘۔ وہ دھیمے لہجے میں بولے۔
’’وعلیکم السلام!‘‘۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے بولیں۔ ضروریات سے فارغ ہوکر تینوں میز پر آبیٹھے جہاں چائے، مٹھائی اور پکوڑے ان کے منتظر تھے۔ ریحان کی کامیابی کی خبر وہ پہلے ہی فون پر سُن چکے تھے۔ بیٹے کی کامیابی پر وہ بہت خوش تھے۔
ریحان کو مقامی ہائی اسکول میں داخل کرادیا گیا، جہاں چھٹی سے لے کر دسویں تک تعلیم دی جاتی تھی۔ آج اُس کا پہلا دن تھا۔ عمارت بڑی اور ہوا دار تھی، لائبریری، تجربہ گاہ، کھیل کا وسیع میدان، کمپیوٹر لیب، ورکشاپ اور تقریبات منانے کے لئے ایک بڑا ہال بھی تھا۔ وہ روزانہ پابندی سے اسکول جارہا تھا۔ پورا ماہ ہوچلا تھا۔ اس دوران سوائے دو ٹیچرز سر بشیر اور زاہد صاحب کے کسی نے بھی پابندی وقت سے اپنی کلاس نہ لی تھی۔ انگریزی اور اردو کے علاوہ باقی مضامین میں کام صفر تھا۔ طلباء کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اساتذہ اسٹاف روم میں بیٹھ کر نہ جانے کن بحثوں میں اُلجھے رہتے تھے۔ دھواں دھار تقریریں کرتے، چائے سموسے سے لطف اندوز ہوتے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو حاضر ہوتے تنخواہیں تقسیم کرتے اور چلے جاتے۔ نائب ہیڈ ماسٹر مسرور صاحب اسکول کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اساتذہ کا ایک گروہ ہمہ وقت ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تیار رہتا۔ انہیں طلباء کی پڑھائی سے زیادہ اپنے حقوق کے حصول کا جنون تھا۔ اکثر سارا وقت یوں ہی گزر جاتا تھا۔ ابتدائی دو پیریڈ کے بعد بچے ٹیچرز کی شکل ہی نہ دیکھ پاتے۔ طلباء اگر بھولے سے شکایت کر بیٹھتے تو آنے والے ’’صاحب‘‘ اپنا مضمون پڑھانے کی بجائے استاد کی اہمیت، عزت و توقیر پر باتیں کرتے گھنٹہ گزار دیتے تھے۔
ریحان کے لئے یہ صورتحال بڑی تکلیف دہ تھی۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا کہ یہ کیسا تعلیمی ماحول ہے جہاں وقت برباد ہونے کا احساس ہی نہیں۔ نونہالوں کو ’’مولا بخش‘‘ کے زور پر سنوارا جاتا ہے۔ کسی کو بھی قومی خیانت اور بربادی کا احساس ہی نہیں ہے؟ آج وہ جب گھر لوٹا تو بہت ہی افسردہ تھا۔ اس کی امی سے اس کی یہ حالت چھپی نہ رہ سکی۔ ’’کیا بات ہے تم افسردہ ہو؟‘‘ وہ فکرمندی سے بولیں۔
ریحان نے اسکول کی صورتحال سنا ڈالی۔ ’’بیٹا اگر ایسا ہے تو واقعی بہت افسوسناک ہے۔ اساتذہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ کاش! وہ قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کی طرف سے غفلت و لاپروائی چھوڑ کر اپنے فرائض اس طرح ادا کریں جس کا تقاضا ان کا پیشہ کرتا ہے‘‘۔
ریحان بولا ’’جی ہاں امی جان آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مجھے اپنے پرائمری کے دور کے ٹیچرز یاد آتے ہیں وہ سب علم سے محبت کرنے والے اور ہر وقت بچوں کی فلاح و بہبود کے متعلق سوچنے اور بچوں کی کردار سازی پر توجہ دیتے تھے اور ایک یہ اسکول ہے جس کے۔۔۔۔۔۔؟ میں سوچ رہا ہوں امتحان کیسے پاس کرسکوں گا‘‘۔
امی جان بولیں ’’بیٹا ایسے مت مایوس ہو۔ ضرور کوئی راہ نکالنی پڑے گی‘‘۔
سلیم شام کو گھر لوٹے تو بشریٰ نے بیٹے کی پڑھائی سے متعلق فکرمندی بتادی۔
سلیم بولے ’’ہاں بھئی یہ تو واقعی پریشانی کی بات ہے۔ کچھ کرنا پڑے گا‘‘۔
صبح ریحان حسبِ معمول اسکول پہنچا۔ اسمبلی کے بعد تمام طلباء اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ آج تو اسٹاف روم سے تیز تیز بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی لڑ رہا ہو۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ یہ شور و ہنگامہ کیسا ہے؟
منیر جو کلاس مانیٹر تھا۔ دوڑتا ہوا آیا اور پھولی ہوئی سانس کے دوران بتایا کہ ’’کسی نا معلوم بات پر سر خان اور سر فہیم میں جھگڑا ہوگیا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر گھونسے مارے اب فیصلہ ہورہا ہے۔ نائب ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں پورا اسٹاف موجود ہے‘‘۔
سر خان نے سر فہیم کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’سالانہ امتحان میں تمہیں دیکھ لوں گا‘‘۔
سر فہیم نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیتے ہوئے کہا! ’’ضرور آپ مجھے ہر طرح تیار پائیں گے‘‘۔
سرور صاحب نے دونوں کا یہ انداز گفتگو دیکھا تو بولے ’’اگر یہی بات ہے تو پھر آپ حضرات شوق سے اپنا خواب پورا کرلیجیے۔ بات کرنا بے کار ہے، کیوں نہ آپ دونوں کو یہاں سے فارغ کرکے دفتر بھیج دیا جائے‘‘۔ یہ سُنتے ہی دونوں خاموش ہوگئے۔ سر جلال کی درخواست پر دونوں میں صلح کرادی گئی اور اس طرح معاملہ ٹل گیا۔ اسٹاف روم کی رونق دوبارہ بحال ہوگئی۔
سالانہ امتحان ہونے والے تھے۔ ریحان پوری توجہ سے تیاری کررہا تھا۔ آج اس کا پہلا پرچہ تھا۔ کلاس میں تمام طلباء اپنے اپنے سیٹ نمبرز پر بیٹھے پرچہ ملنے کا انتظار کررہے تھے۔
سر خان کلاس میں داخل ہوئے۔ آج ریاضی کا پرچہ تھا۔ گھنٹہ بجتے ہی انہوں نے پرچہ تقسیم کیا اور یہ ہدایت دوہرائی کہ اگر کوئی طالب علم ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اُسے امتحانی ہال سے باہر نکال دیا جائے گا۔ طلباء دیکھ رہے تھے سرخان اپنے پسندیدہ گروہ کے طلباء نوید، دانش، بلال، فضل اور چوہان کوجو کلاس میں بدتمیز طلباء میں شمار ہوتے تھے، انہیں خود ناجائز ذرائع سے مدد دے رہے ہیں۔ یاالٰہی یہ کیسی ستم ظریفی ہے!
اگر کوئی طالب علم ذرا سا ہلتا بھی ہے تو ڈانٹتے ہیں ’’تم نقل کررہے ہو‘‘۔
اچانک ہی انہوں نے ریحان کو حکم دیا ’’کھڑے ہوجاؤ تم نقل کررہے ہو لاؤ پھرّا دو‘‘۔
ریحان اس افتاد کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھا۔ ادب سے بولا ’’سر میرے پاس نہ تو نقل کا کوئی مواد ہے اور نہ ہی میں کوئی ناجائز طریقے اختیار کررہا ہوں‘‘۔
سر خان نے غصے سے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم ہے تم بہت ہوشیار ہو زیادہ چالاک مت بنو‘‘۔
ریحان ’’سر یقین کیجیے میرے پاس کچھ نہیں۔ انہوں نے جیب کی تلاشی لی اور پھر گھورتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کام میں مصروف ہوگیا۔ مقررہ وقت میں اس نے پرچے کے تمام سوال حل کرلئے تھے۔ اسے سر خان کے رویے پر افسوس ہورہا تھا، جنہوں نے بلاوجہ اُسے کھڑا کیا تھا۔ سر خان اچھی طرح جانتے تھے ریحان ایسا لڑکا نہیں ہے، یہ تو محض اپنا رعب جھاڑنے کے لئے انہوں نے اُسے کھڑا کرنا ضروری خیال کیا تھا۔ وہ خوب جانتے تھے ریحان کوئی ناجائز ذریعہ استعمال نہیں کررہا تھا۔
وہ کئی مرتبہ چور نظروں سے ریحان کا جائزہ لے چکے تھے۔ لیکن نہ جانے کیوں اپنی انا کی تسکین کی خاطر انہوں نے اُسے جھاڑ پلانا ضروری سمجھا تھا۔
وقت ختم ہونے پر دیگر طالب علموں کی طرح ریحان نے بھی اپنی کاپی سر خان کے پاس جمع کرائی اور خاموشی کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اُس کے جانے کے بعد خان صاحب نے ریحان کی کاپی اُٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگے۔ پہلے ہی صفحہ پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں تحریر تھا۔
’’جو اپنے سے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب یہ تحریر آنکھوں کے راستے ان کے دل میں اُترتی چلی گئی۔ ان کی حالت غیر ہوگئی۔ دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے صاف نظر آرہے تھے۔ وہ بڑبڑائے میں نے تو کبھی گھر میں اپنے بچوں سے بھی محبت سے بات نہیں کی، ہمیشہ انہیں اپنے سے دور رکھا۔ کلاس میں بھی میرا رویہ ۔۔۔تو کیا میں۔۔۔۔۔۔؟
نہیں نہیں میرے خدا تو مجھے معاف کردے۔ سر خان لرز کر رہ گئے۔ ان کا جسم یوں کانپ رہا تھا جیسے سخت سردی میں بغیر کپڑے کے ہوں۔ وہ جھکتے چلے گئے ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ ایک چھوٹے طالب علم نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top