skip to Main Content

اے حضرت مچھرّ ر ر ر

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں نمرود نامی ایک بادشاہ تھا ۔بڑا مغرور اور شیخی خورا۔ایک دن بیٹھے بٹھائے اس کی شامت جوآئی تو تمام ملک میں ڈُگی پٹوا دی کہ میں خدا ہوں ۔مجھے پوجو۔میری عبادت کرو ۔مجھ سے بڑا کوئی نہیں ۔

اللہ میاں نے ایک حقیر انسان کو اتنی بڑی ڈینگ ما رتے دیکھا تو اس کی شیخی کر کری کرنے کے لئے مچھروں کی ایک فوج بھیج دی،جس نے آتے ہی وہ تباہی مچائی کہ خدا کی پناہ!جس کے کاٹا ،وہ کھجاتے کھجاتے ہی مر گیا اور اس طرح نمرود اور اس کی ساری فوج ہلاک ہو گئی۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب نہ تو نمرود باقی ہے اور نہ ہی اس کی خدائی۔مگر حضرت مچھر بدستور موجود ہیں اور رات کو ایسی شان و شوکت کے ساتھ تشریف لاتے ہیں کہ بے چارے سونے والوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ تمام کاٹنے والوں کیڑوں میں صرف مچھر ہی ایک ایسا بہادر کیڑا ہے جوڈنکے کی چوٹ کاٹتا ہے ۔للکار پکار کر کہتا ہے کہ اے بد نصیب انسان !ہوشیار ہو جا ۔میں تجھے کاٹنے والا ہوں ۔تجھ سے کچھ کیا جائے تو کر لے۔مگر بھئی خاک پڑے ایسی بہادری پر اور بھاڑ میں جائے ایسی دلیری ۔ارے بھئی کاٹنے سے کون بے وقوف منع کرتا ہے ۔کاٹواور خوب کاٹو۔ٹانگ میں کاٹو ۔ہاتھ میں کاٹو۔ منہ پر کاٹو۔بالوں میں گھس کر بیچ کھوپڑی میں کاٹو ۔ناک میں گھس کر بھیجا چاٹ لو۔مگر خدا کے واسطے کان پر آکر بینڈ تو نہ بجاؤ۔اس سے ہماری نیند اچاٹ ہوتی ہے اور صبح کواسکول میں بیٹھ کر اونگھو توماسٹر صاحب کے جوتے کھانے پڑتے ہیں۔مگر کسے سمجھائیں اور کون سمجھے؟حضرت مچھر اپنی عادت سے باز آنے والے تھوڑی ہیں ۔کان پر ہی آکر شور مچائیں گے۔اب کسی سے کچھ کیا جائے، تو کر لے ان کا۔

آخر بے چارے کھٹمل بھی تو ہیں ۔کتنے شریف ،کتنے نیک اور کتنے خدا ترس ۔کاٹتے ہیں ،یہ مانا ۔مگر نہایت سلیقے اور تمیز کے ساتھ کہ کاٹنے والا بھی خوش اور کٹوانے والا بھی۔اگر ایک پہلو میں کاٹ لیں تو دوسرا بدل لو ۔اس میں کاٹ لیں تو پیٹھ کے بل لیٹ جاؤ ۔پیٹھ میں بھی کاٹ لیں تو اوندھے پڑ جاؤ۔پھر بھی کاٹ لیں تو اٹھ کر بیٹھ جاؤ۔اب بھی نہ مانیں تو کھڑے ہو جاؤ اور خدا نخواستہ اس پر بھی باز نہ آئے تو اس چارپائی پر تو بھیجو دو حرف اور کسی دوسری چارپائی پر لیٹ کر آرام سے سو جاؤ ۔چلو جھگڑا ختم ہوا۔

لیکن یہ حضرت مچھر اتنے موذی واقع ہوئے ہیں کہ کسی کروٹ لیٹو،چت لیٹو،پٹ لیٹو ،دوسری چاپائی پر چلے جاؤ،غرض کہ کوئی جتن کر لو ،یہ پیچھا نہیں چھوڑتے اور پھر کاٹتے بھی ہیں اور ملہار بھی گاتے ہیں۔گویا ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔

خدا معلوم ان کم بختوں کو مجھ ہی سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ دنیا کے ہر انسان کو اسی طرح پریشان کرتے ہیں ۔دن بھر کے تھکے ہارے سونے لیٹو تو بن بلائے مہمان کی طرح جھٹ آمو جود ہوتے ہیں اور کان کے سوراخ کے بیچوں بیچ لہرا کر ،بل کھا کر ،مٹک مٹک کر ایسی بے سری اور بے تال قوالیاں گاتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ یا تو دونوں ہاتھوں سے منہ نوچ لو اور یا کپڑے پھاڑ کر جنگل کو نکل جاؤ۔

امی جان کہتی ہیں:’’بیٹا ،رات بھر پٹ پٹ کرتا رہتا ہے۔مچھر دانی لگا کر کیوں نہیں سوتا؟‘‘

اب انہیں کون سمجھائے کہ مچھر دانی میں دم جو گھٹتا ہے ہمارا ۔ایک تو ویسے ہی سڑی گرمی ،اور اوپر سے مچھر دانی تان لی جائے۔ہمیں تو ایسی گھٹن میں نیند نہیں آتی۔روز روز کے رونے سے تنگ آکر ایک دن سر پکڑ کر سوچنے بیٹھا کہ ان کم بخت مچھروں سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔آخر سوچتے سوچتے ایک ترکیب سمجھ میں آئی ۔خوشی کے مارے اچھل پڑا اور تالیاں بجا کر بولا ’’اچھا میاں مچھرو!تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کس عقل مند سے پالا پڑا تھا ۔دیکھوں گا کہ آج کس طرح تم میرے کان پر ریڈیو بجاتے ہو۔‘‘

رات ہو ئی اور سونے کا وقت آیا تو میں نے صحن میں اسی طرح چارپائی بچھائی جس طرح روز بچھاتا تھا مگر بجائے سرہانے کی طرف سر کرنے کے پائینتی کی طرف سر کیا اور چادر تان کر لیٹ گیا۔ہت تیری کی !یہ ترکیب پہلے کیوں نہ سوجھی ؟اب مچھر خاں اپنے کنبے سمیت آئیں گے تو یہی سمجھیں گے کہ میرا منہ سرہانے کی طرف ہے ۔لہٰذا وہ ادھر ہی شور مچانا شروع کر دیں گے اور میں اطمینان سے سوتا رہوں گا ۔واہ !سبحان اللہ !کیا مزے کی ترکیب ہے !معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ میاں اپنے بندوں کو عقل بانٹ رہے تھے توہم سب سے آگے تھے۔

خیر صاحب ،دل ہی دل میں خوش ہو کرمیں سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ابھی آنکھیں پوری طرح بند بھی ہونے نہ پائی تھیں کہ ایک نہایت ہی سریلی آواز آئی:

آئے موسم رنگیلے سہانے ایں ایں ایں 

دوسری آواز آئی ۔

سو جا راج کماری ری ری سو جا

اور تھوڑی دیر بعد ایسا معلوم ہوا جیسے نزاکت علی سلامت علی اینڈ کمپنی نے قوالی شروع کر دی ہے۔

جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا اور دیوانوں کی طرح ناک ،کان اورمنہ کھسوٹنے لگا ۔ہائے اللہ !کیا کروں ؟کہاں جاؤں ؟خدا معلوم ان کم بختوں کو کس طرح پتا چل گیا کہ میرا منہ سرہانے کی طرف نہیں پائینتی کی طرف ہے ۔ذرا سا کیڑا اور اتنی سمجھ!کمال ہے صاحب!

خیر ،میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ آج چاہے کچھ ہو جائے ،ان مچھروں کوجُل دئیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔پھرسر پکڑ کر سوچنے بیٹھا ۔یکا یک ایک بڑی ہی انوکھی اور اچھوتی ترکیب سمجھ میںآئی جسے سوچ کر پہلے تو خوب ہنسا اور پھر دہاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ہنسا اس لیے کہ ترکیب نہایت شان دار تھی اور رویا اس لئے کہ اس میں ذرا تکلیف بھی تھی۔

سب سے پہلے میں نے ایک بڑا سہ ڈنڈا لے کر سارے مچھروں کو بھگا دیا کہ یہ میری کارستا نی نہ دیکھ لیں ۔پھر بڑی پھرتی سے دو تین تکیوں کو چادر اوڑھا کر چارپائی پر لٹا دیا اور خود چارپائی کے نیچے زمین پر لیٹ گیا۔

چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا ۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا ۔میرا خیال تھا کہ مچھر کیا مچھروں کا باپ بھی مجھے چارپائی کے نیچے نہ دیکھ پاسکے گالیکن ابھی لیٹے ہوئے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ حضرت مچھر نے اپنی پارٹی سمیت دھاوا بول دیا اور حسب دستور قوالی شروع کر دی۔

اب بھئی میں تنگ آچکا تھا۔روہانسا ہو کر چارپائی کے نیچے سے نکلا اور ہاتھ جوڑ کر بولا :’’اے حضرت مچھر!جب تم نے نمرود جیسے طاقتور اور زبردست بادشاہ کو ناکوں چنے چبوا دئیے تو میں نا چیز حقیرفقیر کس گنتی شمار میں ہوں ۔لو میاں ،کاٹو اور خوب کاٹو مگر ذرا ٹھہر جاؤ۔‘‘

یہ کہہ کر میں کمرے میں گیا ۔تھوڑی سی روئی لے کر کانوں میں ٹھونسی اور پھرچارپائی پر آکر لیٹ گیا۔اس کے بعد مجھے خبر نہیں کہ مچھروں نے مجھے کاٹا کہ میں نے مچھروں کو۔رات بھر بڑے مزے کی نیندآئی اور صبح کو اٹھا تو چودہ طبق روشن تھے ۔سر میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور جسم بخار سے پھنک رہا تھا ۔ہاتھ پیر اور چہرہ دیکھا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے نشانہ بازی کی مشق کی ہے۔اٹھ کر ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ بولے ’’میاں ،مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا ہو گیا ہے ۔لو،یہ دوا کھاؤ اور مچھر دانی لگا کر سویا کرو ۔ ورنہ مر جاؤ گے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے جو الٹی سیدھی سنائیں توڈر لگا ۔وہ دن اور آج کا دن ،مچھر دانی لگا کر سوتا ہوں ۔بلا سے دم گھٹتا ہے توگھٹاکرے۔ مچھر تو نہیں کاٹتے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top