skip to Main Content
ایک کہانی چار لکھاری

ایک کہانی چار لکھاری

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تینوں ثمرہ کے چہرے کو انہماک سے دیکھ رہے تھے جبکہ ثمرہ تو کہانی ختم کر چکی تھی اور یہ کہانی تھی کس کی یہ جھگڑا ابھی باقی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج چھٹی کا دن تھا ۔ حماد، جواد ،فواد اور ثمرہ نے صبح سے ہی اودھم مچایا ہواتھا۔آج گھر کے در ودیوار کو پتا چل رہا تھا کہ چھٹی کا دن ہے اور بچے گھر میں ہیں اور پتا کیوں نہ چلتا۔وہ شرارتی جو بہت تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ذہین بھی تھے اور ان کا ذہن شرارتوں میں بھی اتنا ہی چلتا تھا۔آج بھی حسب معمول وہ صبح اٹھتے ہی شرارتوں میں مصروف تھے کہ امی نے آکر دھمکی دی کہ اگر وہ شرارتوں سے باز نہ آئے تو گھر میں آنے والے تمام رسائل بند کر دئے جائیں گے۔ اس دھمکی کے بعد مجبوراً وہ چپ چاپ بیٹھے تھے کہ فواد نے خاموشی کو توڑا۔
’’دیکھوناں ثمرہ!چھٹی کادن کتنابور گزرتا ہے ناں۔کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا اور اگر تھوڑی بہت شرارتیں کرلوتو امی کہتی ہیں اب تو شرارتیں چھوڑدو کیوں کہ اب تو تم میٹرک میں آ گئے ہو۔‘‘
’’ہاں بھئی میٹرک میں ہیں تو کیا ہوا؟ ہیں تو ہم ابھی بچے ہی ناں!‘‘ثمرہ نے فواد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جواد کی طرف دیکھا۔جواد نے گھٹنے سے ٹھوڑی اٹھا کر سر کو زور زور سے اوپر نیچے کیا اورٹھوڑی دوبارہ گھٹنے پر ٹکادی۔فواد دوبارہ مخاطب ہوا۔’’اب چھٹی کادن گزارنے کے لئے کوئی اور ہی مشغلہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ور نہ بچوں کے رسائل بند ہو جائیں گے۔‘‘
اتنے میں خاموش بیٹھے حماد نے اطمینان سے کہا’’بھئی میں نے تو سوچ لیاہے۔‘‘ثمرہ بولی ’’وہ کیا؟‘‘اور تینوں دلچسبی سے حماد کی طرف دیکھنے لگے۔’’میں نے سوچاہے کہ میں کہانی لکھوں گا۔‘‘حماد نے جواب دیا۔
’’اووہ…….نیوآئیڈیا تو تم نے سوچا تمہاری کہا نی کیسے شروع ہو گی۔‘‘جواد نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ہاں ……..کیوں نہیں۔‘‘ حماد نے پر عزم لہجے میں جواب دیا۔
’’تو پھر ہمیں بھی بتاؤ۔‘‘جواد نے فرمائش کی۔
’’کہانی اس طرح شروع ہوگی۔‘‘حماد نے کہانی شروع کی۔’’وہ وسطِ ایشیا کی ایک ریاست کا نیا بادشاہ تھا۔ نہایت بہادر مگر بے تدبیر۔اس نے کچھ ہی عرصے قبل حکومت سنبھالی تھی۔باقی تمام معا ملات تو اس نے کنٹرول کر ہی لئے تھے مگر قابو نہ ہوا تو ڈاکو راج قابو نہ ہوا۔اس کی بڑی وجہ ڈاکوؤں کا منظم ہونا تھا۔جبکہ با اثر لوگوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا۔جو ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے تھے۔
آج بادشاہ نے محل میں اس مسئلے کے حل کے لئے ایک اجلاس بلایا ہوا تھا۔وہ کہہ رہا تھا ’’ہم نے اس سے پہلے بھی کئی اجلاس بلائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔آبادیوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔تجارتی قافلوں سے مال ومتاع چھین لیا جاتاہے۔لگتا ہے ہمارے ملک میں لٹیروں کی حکومت ہے۔آج ہم اس چیز کا جائزہ لینے جمع نہیں ہوئے کہ جو تجاویز پہلے اجلاسوں میں آئیں وہ ناقص تھیں یا ان پر عمل در آمد میں کمی رہی۔آپ سب با تد بیر لوگ بیٹھے ہیں۔ہمیں کوئی انقلابی تد بیر بتائیں جس سے عوا م بھی سکھ کا سانس لیں اور ہمیں بھی اطمینان نصیب ہو سکے۔‘‘
ابھی حماد یہیں تک پہنچا تھا کہ بیچ میں جواد نے رخنہ ڈال دیا۔’’بھئی تمہاری کہانی کو آگے میں بڑھاؤں گا۔‘‘
’’بھئی تم کیسے آگے بڑھا سکتے ہوسوچا میں نے اور آگے تم بڑھاؤگے۔‘‘حماد نے حیرانگی سے سوال کیا۔
’’ہاں اس سے آگے میں تمہاری کہا نی کوبہتر انداز میںآگے بڑھاسکتا ہوں۔‘‘جواد خود اعتمادی کے ساتھ بولا۔دونوں میں کافی بحث وتکرار ہوئی۔آخر حماد نے ہتھیار ڈ ال دئیے اور جواد نے کہانی کو آگے اسی انداز میں بڑھانا شروع کیا۔
’’اجلاس میں ایک نوجوان وزیر کھڑا ہو اور بولا۔حضور کی اجازت ہوتوکچھ عرض کروں ۔بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بولنے کی اجازت دے دی۔وزیر بولا۔حضو ر والا!جب تک ہم گزشتہ اقدامات کا جائزہ نہیں لیں گے۔ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔حضور !نئی اور انقلا بی تجاویز تو پہلے بھی بہت آئیں۔مگر وہ کون سے عوامل تھے جنکی وجہ سے یہ تدابیر ناکام رہیں۔ہمیں اس کاجائزہ لے کر آگے بڑھنا چاہئے۔ باقی وزراء اس نوجوان وزیر کو قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگے۔کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ ناکامیوں کا ذکر ہوگاتو ان سے بھی جواب طلبی ہو گی۔ایک وزیر اٹھا اوربولا’’ ظل الٰہی!جلی ہوئی ہانڈی کوبھلا اور کیا جلانا۔میرے خیا ل میں ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے او ر آگے کی سو چنی چاہئے۔
بادشاہ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ہم تمہاری بات سے با لکل متفق ہیں ۔سا نپ وہی تھے جو گزر چکے اور ہم لکیروں کو نہیں پیٹنا چاہتے بلکہ ان کے بلوں تک پہنچنا چاہتے ہیں کافی بحث و مباحثے کے بعد ایک تجویزپر سب متفق ہوگئے کہ ڈاکوؤں کے سر داروں کو حکومت میں شامل کر لیا جائے وہ جب حکومت میں شامل آ گئے تو ڈاکہ زنی خود بخود ختم ہو جا ئے گی۔‘‘
کہانی اس موڑ تک پہنچی تھی کہ فواد نے شور مچانا شروع کردیاکہ اب کہانی کو وہ آگے چلائے گااور اب جبکہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ڈاکوؤں کو عہدے ہی دینے ہیں تو پھر وہ خود ہی انہیں مسندوں پر بٹھائے گااور انکی خدمات کو بیا ن کریگا۔تھوڑی سی تکرار کے بعد فواد کی بات مان لی گئی کیوں کہ یہ روایت پہلے ہی پڑ چکی تھی اور یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ فواد جب ضد پر آجائے تو پو لیس بھی بلا لیں کچھ نہ ہو گا اس کی کو شش تھی کہ وہ بہتر اندا زمیں کہا نی کو آگے چلائے ۔وہ یوں مخاطب ہوا۔
’’کچھ عر صے بعد ڈاکوؤں کو وزارتو ں سے نواز دیا گیااو ر وزارتِ عظمیٰ سب سے بڑے ڈاکو سردار کو دے دی گئی۔ اس طرح ملک میں بڑی حد تک سکون ہوگیااور ڈاکوؤں کو عوام کی فلاح و بہبود کی فکر لاحق ہو گئی ۔ اب میں ان نیک دل لوگوں کی خدمات پر روشنی ڈالوں گا۔وزیر جنگلات کا ہاضمہ ایسا کو ئی لکڑ ہضم تھا کہ سڑکوں کے کنارے لگے درخت تک ہضم کر گیا۔وزیر تعلیم ایک علم دوست شخصیت تھے وہ چاہتے تھے کہ تعلیمی اداروں میں نیا فر نیچر آئے۔اس لئے وہ پہلے والا فر نیچر بیچ کر کھا گئے۔وزیر تعمیر وترقی جانتے تھے کہ ترقی کے لئے نئی عمارتوں کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے۔مگرنئی عمارتیں کیسے بنائی جا سکتی تھیں۔ملکی خزانے میں تو پیسے ہی نہیں تھے۔اس لئے انھوں نے پرانی سرکاری عمارتوں کو تاجروں کے ہاتھوں فروخت کردیا تاکہ وہ ان کی جگہ نئی عمارتیں تعمیر کر سکیں۔وزیر قانون نے عوامی سہولیا ت کے لئے دوکان لگا لی اور اس طرح انصاف سستا بکنے لگا۔تھوڑے سے پیسوں سے میں اچھ خاصاانصاف مل جاتا۔وزیر خزانہ نے ملک کے خزانے کی صفائی کردی بلکہ خزانے پر جھاڑو پھیر دی ۔ڈاکو بننے سے پہلے وہ گلیوں میں جھاڑو دیاکرتے تھے۔عوام کی خدمت کرنا انکا مقدر تھا سو وہ وزارت تک پہنچ گئے۔‘‘
اب ثمرہ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لئے۔ سب اسکی طرف متوجہ ہو گئے تو وہ بو لی۔’’اب آگے کہانی سنا نے کا حق میرا ہے اور میں اپنا حق کسی کو نہیں کھانے دوں گی۔‘‘اور پھر اس نے بو لنا شروع کیا۔
’’سب وزیروں کے بعد پھر وزیر اعظم نے بھی قوم کی خدمت میں اپنے ہا تھ دکھا ہی دئیے۔ہوا یوں کہ باد شاہ اپنے محل میں پریشان بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ بغیر روک ٹوک محل میں گھس آئے اور بادشاہ سے کہا ’’حضور والا !چلئے ہمارے ساتھ۔‘‘بادشاہ نے قدرے حیرانگی پوچھا ’’ہمیں کہاں لئے چلتے ہو؟‘‘جواب ملا ’’حضور آپ بک چکے ہیں اور ہم نے آپ کو خرید لیا ہے ۔‘‘بادشا ہ بے ساختہ اٹھ کر چلنے کے لئے تیا ر ہو گیا اور بولا۔’’اس بکی ہو ئی ریاست کی شہنشا ہی سے تو کسی کے ہاتھوں بک جانا اچھا ہے۔‘‘اتنے میں شاہی دربان آگے بڑھا اور بولا۔’’حضور اب آپ کو پتا چلا کہ ریاست بکی ہو ئی ہے۔جب آپ کا اپنا سودا ہو گیا۔‘‘باد شاہ نے سوال کیا کہ’’ ہمیں کس نے بیچا؟‘‘جواب ملا’’وزیر اعظم نے‘‘۔وزیر اعظم نے دست بستہ معصومیت سے درد بھری آواز میں نظریں جھکا کر کہا۔’’حضور! دیکھیں نا ں ملک وقو م کے مفاد میں یہ کرنا تو ضروری تھاناں۔آپ کو فروخت کرکے ہم ملک وقوم کا بہت سا قرض اتار سکتے ہیں۔اور ہمارے پاس بیچنے کو بچا ہی کیا تھا؟یقین کیجئے آپ کی اس قربانی کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘بادشاہ نے پھر سوال کیا۔’’ہم کتنے میں بکے؟‘‘محل کے کسی گوشے سے آواز آئی۔’’ارے حضور!اونے پونے ہی بکے ہوگے۔اس ملک میں ہر چیز مہنگی ہے سوائے انسانوں کے۔‘‘بادشاہ نے تیسرا سول کیا کہ’’ آپ کون ہیں اور ہم سے کیا کام لیں گے؟‘‘جواب ملا۔’’ہم لوہار ہیں اور آپ کو ہماری دوکان چل کر لوہا کوٹنا ہوگا‘‘اور پھر بادشا ہ کو تصور میں اپنے ہاتھ میں پھاوڑا نظرآ نے لگا۔اور وہ اس لمحے کو کوسنے لگا جب اس نے ڈاکوؤں کو وزیر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
وہ تینوں ثمرہ کے چہرے کو انہماک سے دیکھ رہے تھے جبکہ ثمرہ تو کہانی ختم کر چکی تھی اور یہ کہانی تھی کس کی یہ جھگڑا ابھی باقی تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top