skip to Main Content
ایک ٹانگ کا بادشاہ

ایک ٹانگ کا بادشاہ

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تھا بادشاہ!اسے شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ہر دوسرے تیسرے دن اپنے امیروں اور وزیروں کے ساتھ آس پاس کے جنگلوں میں چلا جاتا اور ہرنوں،ہرنیوں اور دُوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کھیلا کرتا۔

اس بادشاہ کو گھوڑے پالنے کا بھی بہت شوق تھا۔جہاں کہیں بھی کوئی چالاک اور پُھرتیلا گھوڑا اسے نظر آجاتا ،جھٹ اس کے مالک سے سودا طے کر لیتا اور اسے مُنہ مانگی قیمت دے کر گھوڑا خرید لیا۔

ایک دن کرنا خُدا کا کیا ہوا کہ اس بادشاہ کے دربار میں عرب کے ایک مُلک سے گھوڑوں کا ایک سودا گر آیا۔

جُھک کر آداب بجا لایا اور عرض کی:

’’حضور عالم پناہ!غلام ایک گھوڑا لایا ہے۔آپ اُسے دیکھ کر ضرور خوش ہوں گے۔ایسا پُھرتیلا گھوڑا کے پل بھر کو اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے،آنکھ کے ایک اشارے پر ہوا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔لیکن حضور !اس گھوڑے میں ایک نقص بھی ہے،یہ مزاج کا بہت کڑوا بھی ہے۔بدکتا بہت زیادہ ہے،کسی کو بھی اپنے پاس آسانی سے پھٹکنے نہیں دیتا،ہر وقت دو لتیاں چلایا کرتا ہے،حتیٰ کہ وہ اپنے سائے سے بھی بدک جاتا ہے اگر حضور اس گھوڑے کو دیکھنا پسند فرمائیں تو غلام حاضر کر سکتا ہے۔‘‘

بادشاہ نے عرب کے سودا گر سے گھوڑے کی تعریف سنی ا ور ہنس کر کہا:

’’میاں سوداگر!تم بے فکر ہو کر اپنا گھوڑا لے آؤ۔ہم نے یہاں بڑے بڑے ٹیڑھے گھوڑوں کو سیدھا کر ڈالا ہے۔‘‘

دُوسرے دن عرب سوداگرگھوڑا لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔گھوڑے کو دیکھ کر بادشاہ کی باچھیں کھل گئیں۔ایسا خُوب صُورت اور پُھر تیلا گھوڑا بادشاہ نے اپنی عمر میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔بادشاہ نے خوش ہو کر سوداگر کو انعام سے مالا مال کر دیا۔اور گھوڑا اپنے ملازم کے حوالے کرتے ہوئے کہا:

’’اس گھوڑے کو شاہی اصطبل میں لے جاؤ اور اس کے لیے چارے کا انتظام کرو۔کل ہم اس گھوڑے پر سواری کریں گے اور اپنے امیروں اور وزیروں کے ساتھ شکار کھیلنے کے لیے جائیں گے۔‘‘

دوسرے دن صبح سویرے پروگرام کے مطابق بادشاہ اپنے نئے گھوڑے پر سوار ہو کر امیروں ، وزیروں اور سپاہیوں کے ساتھ شکار کھیلنے کے لیے روانہ ہوگیا۔

کچھ دیر تو خیر خیریت سے گزر گئی،لیکن بادشاہ ایک شیر کا شکار کر رہا تھا تو ایک دم شیر بادشاہ کی طرف جھپٹا۔شیرکے جھپٹنے سے بادشاہ کا عربی گھوڑا اچانک بھڑک اُٹھااور بادشاہ کو زمین پر پٹخ کر سرپٹ ایک طرف کو بھاگ کھڑا ہوا۔جب بادشاہ کے سپاہی اس کی مدد کو پہنچے،شیر نے بادشاہ پر حملہ کر دیا تھا اور اپنے تیز دانتوں سے اُس کی بائیں ٹانگ بُری طرح سے چبا ڈالی۔

بادشاہ کے ساتھی اُسے اُٹھا کرمحل میں لائے اور فورا شاہی حکیموں اور ویدوں کو بُلایا گیا۔حکیموں اور ویدوں نے علاج شروع کردیا،اُنھوں نے اپنی طرف سے کوئی کوشش اُٹھا نہ رکھی،لیکن بادشاہ کی ٹانگ شیر نے بُری طرح سے کُچل دی تھی کہ وہ اچھی نہ ہو پائی۔اور آخر سب حکیموں اور ویدوں نے یہی فیصلہ کیا کہ بادشاہ کی جان اسی صورت میں بچ سکتی ہے کہ اس کی ٹانگ کاٹ دی جائے۔چنا نچہ حکیموں اور ویدوں نے ایک آپریشن کر کے بادشاہ کی ٹانگ کاٹ دی۔

تھوڑے ہی دنوں کے اندر ٹانگ کا زخم بھر گیا،اور بادشاہ بالکل صحت یاب ہوگیا،لیکن ایک ٹانگ کٹ جانے کا بادشاہ کو بہت صدمہ تھا۔اب وہ ہر وقت اُداس اور غمگین رہنے لگا تھا۔اب اس نے شکار پر جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ہر وقت مسہری پر خاموش پڑا رہتا تھا۔

اس بادشاہ کی ایک بہت خوب صورت بیٹی تھی۔اس کا نام مہ جبیں تھا۔یہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتی تھی۔اس کا دل بہلانے کے لیے گھنٹوں اس کی مسہری کے پاس بیٹھی رہتی اور ستار بجا بجا کر اپنی میٹھی اور سُریلی آواز سے اس کو پیارے پیارے گیت سُنایا کرتی۔لیکن اس کا غم کسی طرح دُور نہ ہوتا تھا۔

بادشاہ کے محل سے دور ایک پہاڑی تھی،اس پر ایک بڈھا رہتا تھاجو بہت عقلمند اور دانا تھا۔دُور دُور سے لوگ اس کے پاس آتے اور اپنی مصیبتیں بیان کرتے،اور یہ دانا آدمی ان کو بہت مفید مشورے دے کر ان کی ضرورتیں پُوری کیا کرتا۔

ایک دن بادشاہ کے وزیروں نے آپس میں بیٹھ کر صلاح مشورہ کیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس بڈھے کو بُلانا چاہیے شاید یہ بادشاہ کا غم دور کر سکے۔

جب بڈھا بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا تو بادشاہ نے اُسے عزت سے اپنے پاس بٹھایااور کہا:

’’بڑے میاں تم میرے مُلک میں سب سے زیادہ دانا اور عقلمند ہو۔اگر تم کسی طرح میرا غم دور کر دو تو میں تم کو اپنی آدھی بادشاہت دے دوں گااور اپنی بیٹی کی شادی بھی تم سے کر دوں گا۔‘‘

بڈھے نے مسکرا کر بادشاہ سے کہا:

’’حضور!میں پہاڑی پر ایک چھوٹی سے کُٹیا میں رہتا ہوں میں تخت و تاج لے کر کیا کروں گا۔میری عمر اس وقت تقریبا اسی برس کے قریب ہو چکی ہے،اور شہزادی ابھی جوان ہے،بھلا بڈھے اور جوان کا کبھی ساتھ ہوا ہے۔آپ ایسا کیجئے کے اپنے مُلک میں ڈھنڈورا پٹوا دیجئے کہ جو کوئی بادشاہ سلامت کے لیے نئی ٹانگ لائے گا اسے آدھی سلطنت انعام میں دے دیں گے اور اُس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی بھی کر دیں گے۔کیا معلوم کوئی ایسا عقلمند اور بہادر نوجوان مل جائے جو حضور کی خواہش پوری کردے۔‘‘

یہ سُن کر بادشاہ خوشی سے اُچھل پڑا اور بولا:

’’بہت خوب ! مجھے تمہاری یہ رائے بہت پسند آئی ہے میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘

؂دوسرے دن بادشاہ کے حکم کے مطابق سارے شہر میں یہ ڈھنڈوراپٹوا دیا گیا کہ جو کوئی ہمارے لیے ایک نئی ٹانگ لے کر آئے گا،مابدولت اسے آدھا تخت اور اپنی بیٹی کی شادی بھی اس سے کریں گے۔

یہ ڈھنڈورا سُن کر سینکڑوں لوگوں کا جی للچایا اور وہ جلدجلد ٹانگیں بنانے لگے۔

چند دن بعد سینکڑوں لوگ مصنوعی ٹانگیں لے کر بادشاہ کے محل کے سامنے آجمع ہوئے اور لگے ایک دوسرے کو دھکے دینے اور چلا چلا کر کہنے لگے:

’’ بادشاہ سلامت ٹانگ حاضر ہے۔‘‘

’’حضور ! میں نے بہت اچھی ٹانگ بنائی ہے۔آپ کو یقیناپسند آئے گی۔‘‘

ہر شخص کی یہی کوشش تھی کہ میں سب سے پہلے بادشاہ کے سامنے پہنچوں اور اپنی بنائی ہوئی ٹانگ پیش کرکے بہت سا انعام واکرام حاصل کروں۔

لوگوں نے اتنا شوروغل مچا رکھا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔محل کے داروغہ نے انھیں زبردست ڈانٹ پلائی اورکہا:

’’اگر تم لوگ چُپ نہ ہوگے تو میں ابھی تم سب لوگوں کے سر اُڑادوں گا۔‘‘

آخر بادشاہ نے حکم دیا:

’’انھیں ایک ایک کرکے ہمارے سامنے لے آؤ۔‘‘

پہلا شخص بادشاہ سلامت کے سامنے پیش ہوا۔وُہ لکڑی کی ٹانگ بنا کر لایا تھا۔کہنے لگا:

’’بادشاہ سلامت !ذرا اس ٹانگ کو تو آزمائیے، اگر ٹھیک نہ آئی تو میں اپنی ناک کٹوا دوں گا۔‘‘

جب بادشاہ نے وہ لکڑی کی ٹانگ اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر لگائی تو وہ ایسی بھاری کہ بادشاہ کو اپنی جگہ سے ہلنا جلنا دوبھر ہو گیا۔

بادشاہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اور اُس نے وہی ٹانگ اُٹھا کر اس آدمی کے سر پر دے ماری۔

اب دوسرا آدمی حاضر ہوا۔یہ ٹین کی بنی ہوئی ٹانگ لایا تھا۔دیکھنے میں تو یہ ٹانگ بہت خوب صورت تھی،لیکن جب بادشاہ نے اُسے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کے اُوپرلگایا تو وہ وہیں پھنس کر رہ گئی۔

ٹانگ لانے والے آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور وہ تھر تھر کانپنے لگا۔

بادشاہ کے امیروں اور وزیروں نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح یہ ٹین کی ٹانگ اُترآئے،لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی ،آخر لوہار کو بلوایا گیا اور اس نے بادشاہ کو اس مصیبت سے بڑی مشکل سے چھٹکارا دلایا۔

بادشاہ اس تکلیف کے باعث سخت آگ بگولہ ہو رہا تھا،اُس نے حکم دیا:

’’اس بدتمیز آدمی کے گلے میں یہی ٹین کی ٹانگ باندھ کر اسے بطخوں والے تالاب میں پھینک دیا جائے۔‘‘

اس کے بعد اور بھی بہت سے لوگ ٹانگیں لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ان میں ایسے بھی بے و قوف لوگ شامل تھے جو کہ روئی اور کپڑوں کی ٹانگیں بنا کر لائے تھے اور کئی ایک بانس کی ٹانگیں بھی لائے تھے۔یہ سلسلہ شام تک جاری رہا۔

غرض طرح طرح کی ٹانگیں بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کی گئیں،لیکن سب کی سب بے کار۔چنانچہ ان ٹانگوں کے لانے والوں کا بہت بُرا حال ہوااور انھیں دھکے دے کر محل سے نکال دیا گیا۔

اب بادشاہ پھر اُداس اُداس رہنے لگا۔وہ سارا دن غم کی مورت بنا تخت پر بیٹھا خلا میں گھورتا رہتا۔نہ کسی سے بات کرتا نہ کہیںآتا نہ جاتا،ہر وقت غم میں ڈوبا رہتا۔محل میں ہر کوئی اُداس تھا۔

کئی مہینے بیت گئے مگر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہ آئی۔شہزادی مہ جبیں اپنے باپ کی یہ حالت دیکھ کر ہر وقت روتی رہتی۔

دربا کے حکیموں اور ویدوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگر ہمارا بادشاہ سلامت اسی طرح اُداس رہا اور غم کھاتا رہا تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد مر جائے گا۔

اسی طرح کچھ عرصہ اور گزر گیا۔

ایک دن بادشاہ کے دربار میں بہت خوب صورت نوجوان شہزادہ حاضر ہوا۔اور بادشاہ سلامت سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

بادشاہ نے اس نوجوان کو اپنے پاس بلوایا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔اسی وقت بادشاہ کی بیٹی مہ جبیں بھی اپنے باپ کے پاس ہی ایک چھوٹے سے خوب صورت تخت پر بیٹھی تھی۔وہ خوب صورت شہزادے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔شہزادے نے بھی شہزادی کو بڑے محبت بھرے انداز سے دیکھا اور مسکرانے لگا۔شہزادی شر ما گئی۔

شہزادے نے کہا:

’’بادشاہ سلامت!اس غلام کو آپ کے دُکھ درد کا سب حال معلوم ہے اور میں نے آپ کی اُداسی اور غم کا راز بھی معلوم کر لیا ہے۔آپ اسی وقت اپنے تمام امیروں اور وزیروں کو اپنے پاس بُلا لیں۔اُس وقت میں حضور کی خدمت سے سچ مچ کی ٹانگ پیش کروں گا۔وہ لکڑی ،ٹین ،کپڑے یا روئی کی ایسی واہیات ٹانگ نہیں ہوگی،بلکہ خون اور گوشت کی بنی ہوئی ٹانگ ہوگی۔‘‘

بادشاہ سلامت کی آنکھیں شہزادے کی بات سن کر خوشی سے چمک اُٹھیں۔کہنے لگا:

’’اے نوجوان!کیا تم سچ کہتے ہو؟‘‘

شہزادے نے کہا:

’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے!کل اسی وقت دربار میں حضور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں گے۔‘‘

یہ کہہ کر شہزادے نے بڑے ادب کے ساتھ جُھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور تیزی سے دربار سے باہر چلا گیا۔

دوسرے دن بادشاہ نے اپنے سب امیروں اور وزیروں کو دربار میں جمع کر لیا۔

بادشاہ کی بیٹی مہ جبیں کل کی طرح آج بھی اس کے پاس ایک چھوٹے سے تخت پر بیٹھی تھی۔سب لوگ بہت بے صبری سے شہزادے کا انتظار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد نوجوان شہزادہ دربار میں داخل ہوا۔اُس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا لکڑی کا بکس تھا۔وہ بادشاہ کے تخت کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیااور کہنے لگا:

’’لیجئے بادشاہ سلامت!یہی وہ خون اور گوشت کی بنی ہوئی ٹانگ ہے جس کا کل میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لکڑی کا بکس کھولااور ایک ہرن کی ٹانگ نکال کر بادشاہ کے سامنے پیش کردی۔

تمام دربار پر سناٹا چھا گیا۔امیروں اور وزیروں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔اُس نے شہزادے کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا،اور پھر اچانک ایک دم اس کا سارا غصہ اُتر گیا اور اس نے زور سے ایک قہقہہ لگایا۔یہ دیکھ کر دربار کے لوگ پہلے تو بہت حیران ہوئے مگر جب انھوں نے بادشاہ کو ہنستے دیکھا تو وہ بھی سب ہنسنے لگے اور مہ جبیں کا تویہ حال تھا کہ ہنسی کے مارے دُہری ہوئی جا رہی تھی۔

بادشاہ نے کہا:

’’اے نوجوان شہزادے تم نے جس ہوشیاری اور عقل مندی سے مجھ سے شرط جیتی ہے میں اس کی داد دیتا ہوں اور اب میں کبھی غمگین نہ رہوں گا۔کل شہزادی سے تمہاری شادی ہوگی۔‘‘

دوسرے دن شہزادے اور مہ جبیں کی شادی ہوگئی۔اس روز بادشاہ نے اپنے سب امیروں اور وزیروں کی دُھوم دھام سے ضیافت کی اور بادشاہ ،مہ جبیں اور شہزادے نے وہ ہرن کی ٹانگ خوب مزے لے لے کر کھائی۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top