skip to Main Content
ایک ملاقات

ایک ملاقات

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔

جب ہماری ملاقات بچوں کے زندہ اور صحت مند ادب سے ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کتنے کی کتب لینی ہیں… اور کون کون سی لینی ہیں ۔میں اپنے انہی خیا لوں میں گم اردو بازار میں داخل ہوااور سب سے پہلے بچوں کی کتابوں کی ایک دوکان کی طرف بڑھاکیوں کہ میں کچھ اور لیتا یا نہ لیتا مگر مجھے بچوں کی کتب ضرور لینی تھیں مجھے علم تھاکہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لئے کہانیاں ضرور لینی تھیں ورنہ اس کارونا شروع ہوجاتاتو اسے چپ کرانا مشکل ہوجاتااور پھر میں اس سے وعدہ بھی تو کرکے آیا تھا۔ابھی میں اس دوکان سے کچھ دور تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پہ پڑی ۔سفید اجلے کپڑے،پاؤں میں نفیس جوتی اور پیچھے کی طرف پڑے ہوئے بال ،وہ صاحب بڑے اطمینان کے سا تھ دھیمی چال چلتے ہوئے جا رہے تھے۔مجھے لگا کہ جیسے میری بھی ان سے تھوڑی بہت شناسائی ہے۔پہلے میں نے سوچا کہ ان سے پو چھ لیا جا ئے کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے پھر سوچا کہ اس طرح تو بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوتا ہے تو کیا ہر کسی سے پو چھا جاتا ہے کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے۔میں نے یہ خیال دل سے نکالا اور آگے چل کر بچوں کی کتابوں کی ایک دوکان سے کچھ کتابیں لیں اور جب اس دوکان سے نکلنے لگا تووہی صاحب داخل ہو تے ہوئے نظر آئے اور جب ان کا اور میرا سا منا ہو ا تومجھے پھر لگا جیسے میں نے انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھا ہے۔ انہوں نے نظریں اوپر اٹھائیں اور میں نے بے اختیار انہیں سلام کیا۔انہوں نے بھی مسکراتے ہو ئے سلام کا جواب دیااور مجھے ایسالگا جیسے وہ بھی مجھے پہچا ننے کی کو شش کر رہے ہیں اگلے ہی لمحے وہ اندر چلے گئے اور میں باہر آگیا،تھوڑی دیر میں مجھے تھکن محسوس ہو ئی اور سر میں بھی درد محسوس ہونے لگا ۔چوں کہ پچھلے چند دنوں سے میری اچھی خاصی طبعیت خراب رہی تھی شا ید یہی وجہ تھی کہ آج جلد ہی تھکن ہو نے لگی تھی۔میں چائے کے ایک ہوٹل پر آکر بیٹھ گیاابھی تھوڑی دیرہی ہوئی تھی کہ وہ صاحب بھی اندر داخل ہوئے اور مناسب جگہ کی تلاش کے لئے جائزہ لینے لگے اتفاق سے میری ٹیبل پر سا منے وا لی دو کرسیوں کے علاوہ اور کوئی کر سی خالی نہیں تھی ۔انہوں نے آکر سب سے پہلے اپنی کتب کو میز پر رکھا۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے بھی میری طرح بچوں کی کتب ہی خریدی تھیں،وہ خودسامنے والی کرسی پر بیٹھے اور اپنی بغل میں دبایا ہوا بستہ ساتھ والی کرسی پر رکھ دیا،چائے کا کہہ کر وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے اور پھر میں نے ہی ان کی اس سوچ کو توڑا’’میں شا ید آپ سے کہیں ملا ہوں مگر اب مجھے یاد نہیں آرہا ہے‘‘۔وہ چند لمحے مسکرا کرمجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔’’ارے دیکھا کہاں ہو گا …… اردو بازارمیں ہی دیکھا ہوگا۔میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے کہیں اور ہی دیکھا ہے۔’’ بچوں کے ادب کے کسی ادارے میں دیکھا ہو گا ،یا کسی چلدرن میگزین کے دفتر میں دیکھا ہو گا،دفتر میں نہیں تو کسی چلڈرن میگزین میں دیکھا ہوگااور بھلا اپنا کہاں ٹھکا نا ہے‘‘۔ مجھے بڑی حیرانی ہو ئی کہ دفتر تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر یہ میگزین میں……میں نے کہا آپ میگزین میں کسی کمپنی کے اشتہا ر میں آتے ہیں؟….مگرآپ کی صورت اشتہا ر سے بھی نہیں ملتی …اچھا چھوڑیئے …یہ بتائیں آ پ کا نام کیا ہے ۔کہنے لگے مجھے ’’ادب ‘‘کہتے ہیں……’’بچوں کا ادب‘‘۔اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ مجھے دیکھے دیکھے کیوں لگ رہے تھے اور انہوں نے بھی بچوں کی ہی کتب کیوں خریدی تھیں۔میں نے کہا آپ سے مل کر بہت خوشی ہو ئی مہربا نی کر کے آپ اپنے بارے میں کچھ بتا ئیے ناں ….کیا حال ہیں آپ کے؟۔کہنے لگے ’’ارے چندا …..کیا بتائیں آج کل ہماری حالت توکا فی اچھی ہے …..ہم صحت مندبھی ہوگئے ہیں مگر……۔مگر کیا؟ میں نے سوال کیا۔مگر یہ کہ آج کل ہم یتیم ہو گئے ہیں ‘‘۔اور سا تھ ہی وہ افسردہ ہو گئے۔مگر…وہ کیسے؟میں نے پھر سوال کیا۔’’وہ اس طرح کہ اب بڑے ادیبوں نے ہماری طرف توجہ دینا اور سر پر ہاتھ رکھنا چھوڑ دیاہے ۔ پہلے کے تو بہت بڑے بڑے نام ملتے ہیں جنہوں نے بچوں کے لئے لکھاکیوں کہ وہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ جس بچے کو شروع سے ہی کتاب کا چسکا لگا دیا جائے پھر وہ پوری عمر اس کو نہیں چھوڑتا۔علامہ اقبال کو ہی لے لیں کیسی شاندار نظمیں لکھیں انہوں نے بچوں کے لئے ‘‘۔ابھی یہی گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں چند نوجوان آئے اور بچوں کے ادب سے سلام کلام کیا اور حال احوال پوچھنے کے بعد چند سوال کئے اور ایک نوجوان نے اپنی تازہ تحریر بھی پیش کی جسے سرسری دیکھنے کے بعدادب کے چہرے پر کا فی رونق آ گئی اور وہ بڑے خوش ہو ئے اور نوجوان کی حوصلہ افزائی کی لڑکوں کے چلے جا نے کے بعد میں نے پھر گفتگووہیں سے شروع کی۔تو بڑے ادیب آپ کی طرف توجہ نہیں دے رہے توگویا آپ اس صورت حال سے مایوس ہیں؟۔میں نے ان سے سوال کیا۔پوری آنکھیں کھول کے مجھے دیکھا اور جلدی سے بولے ’’نائیں نئیں…….بالکل نئیں……کیوں …..مایوس کیوں….؟تم نے دیکھا نہیں کہ اب اس طرف نوجوان آچکے ہیں اور جب تک تمہارے جیسے نوجوان لکھتے رہیں گے مجھے کو ئی مایوسی نہیں ہے ، آج تم اپنے سے چھوٹے سا تھیوں کے لئے محنت کرکے لکھتے ہو تو کل کو اپنی آنے والی نسل یعنی اپنے بچوں کے لئے کیوں نہیں لکھو گے جبکہ اس وقت تک اللہ نے چاہا تو تمہاری مشق اتنی ہو چکی ہو گی کہ تمہیں اتنی محنت نہیں کرنی پڑے گی جتنی کہ آج تم کرتے ہوتو اس لئے مجھے مایوسی نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے بڑی امیدہے بلکہ’’ امیدیں ‘‘ہیں‘‘۔ میں نے کہاکچھ اپنے بچوں کے با رے میں بتائیے۔وہ چائے کی چسکی لیتے ہو ئے بولے ’’بیٹا میرے چار بچے ہیں دو بیٹے اور دو ہی بیٹیاں،بڑی بیٹی’’کہانی بیگم‘‘پھر’’نظم آراء‘‘اس کے بعد بڑا بیٹا’’مضمون خان‘‘اور سب سے آخر میں’’ڈراماکتا بی‘‘۔ میں نے پھر پوچھا اب کچھ پڑھنے پڑھانے کا رجحان کم نہیں ہو گیابچوں میں …آپ کا کیا خیال ہے؟۔انھوں نے الٹا مجھ سے سوال کیا’’تو کیا بڑوں میں بڑھ گیا ہے ‘‘اور ساتھ ہی کھلکھلا کر ہنس دئیے۔ اس کے بعدتھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے پھر بولے ’’ہمیں تو اس ٹیکنالوجی نے مروادیا۔اول تو اسکولوں کا نصاب اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس کے لئے اچھا خاصاوقت چاہئے پھر جو وقت بچتا ہے وہ کمپیوٹر،انٹر نیٹ۔گیموں اور موبائل کی نظر ہو جاتا ہے۔اب دیکھو نا اگر بچہ کمپیوٹر سے دور بھی ہویا بجلی نہ بھی ہو تووہ رسالے یا کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ موبائل اس کی جان نہیں چھوڑتا(سر کو کھجاتے ہوئے)…یا….شاید…. وہ موبائل کی جان نہیں چھوڑتا…ا ور پھر کتا بی علم اور کسی چیز سے تونہیں سیکھا جا سکتاناں…..مگر اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میرا مستقبل ہی خطرے میں ہے میری اس بات کو تم دوسری طرح سمجھو اور یہ بتاؤکہ بچوں کے رسائل پہلے سے زیادہ چھپ رہے ہیں یا کہ کم ؟‘‘۔میں نے کہا جناب پہلے سے کہیں زیادہ چھپ رہے ہیں۔’’کیااخبارات بچوں کے صفحات نہیں چھاپتے‘‘؟۔میں نے ہاں میں سر ہلایا۔پھر فرمایا’’کیا! بچوں کے ادب کا معیار بلند نہیں ہوا؟‘‘۔ میں نے کہا بہت اچھا ہو گیا ہے۔’’اور ہاں! شوق کی بات ہو رہی تھی تو کچھ بچے ایسے بھی تو ہیں کہ جن کا مہینے میں ایک شمارے سے گزارا ہی نہیں ہو تا اور ان کی خواہش ہو تی ہے کہ مہینے میں دودو شمارے آجائیں تو مجھے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور میرا مستقبل بڑا ہی روشن ہے‘‘۔ وہ اطمینان سے بولے۔ میں نے بھی ان شاء اللہ کہا پھر سوال داغاتو کیا آپ ٹیکنالوجی کے استعمال کے مخالف ہیں؟۔فوراًسنبھل کر بولے’’نہیں بالکل نہیں!یہ تو ضروری ہیں اس کے بغیر ہم زمانے کے سا تھ اور دنیاکے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔میں تو ان سب چیزوں کے غیر ضروری ،فضول اور حد سے زیادہ استعمال کی بات کررہا ہوں۔میں نے کہا اچھا یہ بتا ئیے کہ کس قسم کی تحریریں لکھنی چا ہئیں؟۔ ’’دیکھوبیٹا!کسی بھی قسم کی لکھو مگر اس کے پیچھے کوئی مقصد ہو نا چاہئے کیوں کہ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ بے مقصد کو ئی چیز پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرے ۔کہانی صرف کہانی کے لئے نہ ہو بلکہ کہانی کسی مقصد کے لئے ہواور دوسری بات یہ کہ جنوں،پریوں کے بجا ئے اسی زمین کی کہانی لکھی جا ئے تو زیادہ اچھا ہے۔اتنے میں مغرب کی اذان کی آواز آئی اور ہم دونوں بادل نخواستہ کھڑے ہو گئے میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ کو ئی اچھی بات ،کوئی اصول یا کو ئی نصیحت جو آپ ہمیں بتانا چاہیں مگر مختصر کیوں کہ اذانیں ہو رہی ہیں۔فرمایا’’کم لکھو،اچھا لکھواور اپنا لکھو‘‘میں اس نصیحت کو جیب میں ڈالا(کیوں کہ میرا پلونہیں تھاکہ جس کے ساتھ میں اسے گرہ باندھ لیتا)اور تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیاآسمان پر چاند ابھی آہستہ آہستہ روشن ہو نا شروع ہوا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس دور کی بڑھتی ہو ئی تاریکی میں اس ’’ادب ‘‘ کا مستقبل بھی ایساہی روشن ہو گا جیسا کہ تھوڑی دیر میں یہ چاند اندھیری رات میں روشن ہو جا ئے گا….

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top