skip to Main Content

ایک ملاقات اُن کے ساتھ(نجیب احمد حنفی)

مئی ۲۰۰۴ء میں ہم نے رسالے کو ایک نیا رُخ دیا
مدیر کی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ رسالہ کسی طرح دلچسپ ہوجائے
مستقبل میں ماضی کو یاد کرنے کے بجاے کیوں نہ ابھی اس حال کی قدر کرلیں؟
تین رسائل کے مدیر اعلیٰ اور ساتھی کے سابق مدیر نجیب احمد حنفی سے ملاقات کی رُوداد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھی: ’’آپ ساتھی کے سابق مدیر رہے ہیں، یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن اس کے سوا آپ کا مکمل تعارف کیا ہے؟ قارئین جاننا چاہتے ہیں۔‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’نجیب احمد حنفی میرا نام ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں‘ میں نے ماسٹرز کیا ہے۔ کراچی میں پیدا ہوا، کراچی میں ہی رہتا ہوں۔ میرے والد کا نام جلال الدین حنفی ہے۔ میری والدہ کا نام صبیحہ سلطانہ ہے (والدین کے بغیر میرا تعارف نامکمل ہے)۔ اس وقت ماہنامہ وی شائن (انگریزی)، جگمگ تارے (اُردو) اور بچیوں کے ایک رسالے ’’کھلتی کلیاں‘‘ کا مدیر اعلیٰ ہوں۔ صبح دفتر جانے سے پہلے ایک تعلیمی ادارے میں بچوں کو کچھ وقت پڑھاتا ہوں کیوں کہ پڑھانا میرا شوق بھی ہے اور مشن بھی۔ مجھے سب سے زیادہ فخر بھی اپنے استاد ہونے پر ہی ہے۔ کھانے میں سب کھاتا ہوں۔ تین وقت چاے پیتا ہوں۔ چاے میں دودھ پتی پسند ہے مگر چاے آدھی کپ ہونی چاہے اور کیا بتاؤں۔۔۔!‘‘ (یہ معلومات ان کے لیے ہیں جو نجیب احمد حنفی کو گھر بلانا چاہیں)
ساتھی: ’’سب سے پہلے تو ساتھی کے حوالے سے ہی سوال ہے کہ ساتھی میں کتنا عرصہ رہے؟ بطور مدیر کون سے خاص کام سرانجام دیے؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’میں ساتھی رسالہ۱۹۹۲ء سے باقاعدگی کے ساتھ پڑھ رہا ہوں۔ ۲۰۰۱ میں پہلی کہانی بھیجی۔ ’’اُف یہ وردی والے‘‘ وہ اگلے ماہ ہی چھپ گئی اور اس پر بہترین کہانی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد دو کہانیاں اور لکھیں پھر ساتھی والوں نے خصوصاً اس وقت کے مدیر راحیل یوسف بھائی نے ہمیں نظروں میں رکھ لیا اور ۲۰۰۳ء میں ہمیں ساتھی کی مجلس ادارت میں لے لیا گیا۔ دسمبر ۲۰۰۵ء میں ساتھی کا مدیر بن گیا اور مارچ ۲۰۱۰ء تک ساتھی کا طویل ترین دور تک مدیر رہا۔
جہاں تک خاص کام سرانجام دینے کی بات ہے تو ساتھی کا ہر شمارہ مُرتّب کرنا ہی خاص کام ہوتا ہے۔ الحمد اللہ جب سے میں ساتھی میں آیا۔ مجھے ایک مضبوط ٹیم ملی۔ شروع میں مدیر راحیل یوسف بھائی تھے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اس کے بعد کاشف شفیع بھائی مدیر بنے۔ میں اور کاشف زیدی بھائی ادارت میں تھے۔ اس وقت ہم سب نے سوچا کہ رسالے کو ایک نئے انداز میں شائع کرتے ہیں پھر مئی ۲۰۰۴ء میں ہم نے رسالے کو ایک نیا رُخ دیا۔ جس میں نئے نئے عنوانات اور موضوعات پر کام کیا۔ اسی میں ’’جیتو کمپیوٹر کوئز‘‘ کا آغاز کیا جس میں ہر دو ماہ بعد کمپیوٹر انعام میں دیا جاتا تھا۔ ہم نے نئے نئے عنوانات پر خاص شمارے شائع کیے جس میں ’’جنگل نمبر‘‘ کو غیر معمولی پذیرائی ملی اس کے علاوہ جب میں مدیر تھا اس وقت ہم نے ’’بور نمبر‘‘، ’’کارنامہ نمبر‘‘، ’’قائد اعظم نمبر‘‘ اور ’’عالم اسلام نمبر‘‘ شائع کیے۔ بطور مدیر زیادہ کوشش یہ تھی کہ ساتھی کو ایک انتہائی دلچسپ رسالہ بنایا جائے۔ اس کی سرکولیشن میں اضافہ کیا جائے اور چوں کہ ساتھی کی ٹیم مسلسل تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اس لیے ریکارڈ کو بہترین انداز میں مرتب کیا جائے اس وقت جن ساتھیوں نے اس کام میں بھرپور ساتھ دیا۔ ان میں عمیر صفدر، بلال حنیف، شمعون قیصر اور فصیح اللہ حسینی شامل تھے۔ ‘‘
ساتھی: ’’آپ نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ مدیر بننے اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے آپ کے اندر کا وہ کہانی کار کہیں گم ہوگیا ہے۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’میں نے کہانی لکھنے سے ہی اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور یقیناً بہت سے قارئین میری کہانیوں کو پسند بھی کرتے تھے جس کا اندازہ خطوط سے ہوتا تھا مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی رسالے کا مدیر بننے کے بعد مصروفیات کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں ہوتی ہے کہ اتنی ساری اچھی کہانیوں کو پہلے موقع دیا جائے۔ اگر کوئی آئیڈیا ذہن میں آتا بھی ہے تو مدیر اس پر کسی بھی لکھاری سے کہانی لکھوالیتا ہے۔ اصل میں مدیر کی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ رسالہ کسی طرح دلچسپ ہوجائے۔
جہاں تک اندر کا کہانی کار گم ہونے کی بات ہے۔ یقیناً کہانی سے انسان کی ذہن سازی ہوتی ہے مگر کہانی لکھنا ہی سب کچھ نہیں کبھی کبھی کہانی کا کردار بھی بننا پڑتا ہے اور آج کل میں اسی کردار بننے کی کوشش میں ہوں۔ علامہ اقبال بہت اچھے شاعر تھے آج تک ہم ان سے رہنمائی لیتے ہیں فرض کریں اگر قائد اعظم بھی شاعر ہوتے۔۔۔؟‘‘
ساتھی: ’’آپ کے خیال میں ایک ادیب اور لکھاری کو ایڈیٹر بننا چاہیے؟ اور ان دونوں میں سے کون سا کام زیادہ اہم اور فائدہ مند ہے؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’اگر ایک ادیب اور لکھاری مدیر نہیں بنے گا تو کیا کسی انجینئر یا دکان دار کو مدیر بنائیں گے؟ ایک لکھاری ہی اچھی طرح ادب کے مزاج کو سمجھتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا لکھاری ایک اچھا مدیر بھی ہو۔ جیسا کرکٹ میں ضروری نہیں کہ کوچ بہت اچھا کھلاڑی رہا ہو مگر اسے کرکٹ کی سمجھ بوجھ اچھی ہونی چاہیے جس سے وہ بہتر کھلاڑیوں پر مبنی ٹیم تشکیل دیتا ہے۔ یہی حال مدیر کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
ساتھی: ’’بچوں کے ادب میں ایک طبقے کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۸۰ کی دہائی کے بعد سے بچوں کا ادب زوال پذیر ہوا ہے۔ اس کے بعد نامور قلمکاروں یا بڑے ادیبوں نے بچوں کے لیے لکھنا ترک کردیا ہے؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’میں ۱۸۹۰ء یعنی تقریباً سو سال پہلے کے ایک انگریز ادیب کا مضمون پڑھ رہا تھا جس میں اس نے رونا رویا تھا کہ ’’ادب زوال پذیر ہورہا ہے۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ ہر دور میں ماضی کی خوبصورت یادیں ہمیں ستاتی ہیں اور ہمیں حال اتنا بھلا معلوم نہیں ہوتا مگر مستقبل میں یہی حال جب ہمارا ماضی بن جاتا ہے تو ہمیں اس کی قدر ہوتی ہے۔ مستقبل میں اسے یاد کرنے کے بجاے کیوں نہ ابھی اس حال کی قدر کرلیں؟
ویسے بھی بہت سے عظیم ادیبوں نے ابتدا میں بچوں کے لیے لکھا اور بعد میں عظیم کہلائے۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی لکھنے والے بہت سے لکھاری مستقبل میں عظیم ہوجائیں اور ہم اس وقت کہیں کہ ’’پہلے نامور لکھاری بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔‘‘
ساتھی: ’’آپ ساتھی کے دور ادارت کے دوران پیش آنے والے چند دلچسپ واقعات قارئین کے گوش گزار کردیں تو وہ بہت محظوظ ہوں گے۔‘‘
نجیب احمد حنفی:’’ ایک دلچسپ واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک دن ہم اچانک ساتھی کی ٹیم میں شامل ہوگئے اس سے زیادہ دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ایک دن ہمیں ساتھی سے باہر کردیا گیا۔ اس دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے ہوں گے مگر چند ایک جو یاد ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر قارئین کو یاد ہو تو قائد اعظم نمبر میں ہماری قائد اعظم کا انٹرویو لیتے ہوئے تصویر چھپی تھی جسے کافی پذیرائی ملی۔ ایک دن میرے اسکول کا ایک بچہ جسے میں پڑھاتا تھا وہ مجھے ضد کرکے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں پر اس کے امی ابو نے ہماری خوب آؤ بھگت کی اور بتایا کہ یہ آپ کو ہم سے ملوانے اس وجہ سے لایا ہے کہ اس نے اسکول میں قائد اعظم نمبر میں آپ کی تصویر قائد اعظم کے ساتھ دیکھی ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ہمارے سر دیکھنے میں تو چھوٹے لگتے ہیں مگر ہیں ’’سو سال‘‘ کے۔ ہمیں یقین دلانے کے لیے یہ آپ کو لایا ہے۔
اسی طرح جب ساتھی کی ٹیم کو ’’شرارت نمبر‘‘ کے لیے ہوٹل میں کام کرنا پڑا تو جس سے ملو وہ اسی کا پوچھتا تھا حتیٰ کہ ایک مرتبہ ہم بلوچستان گئے تو وہاں پر بھی ایک بڑے ذمہ دار شخص نے ہم سے پوچھا: ’’آپ وہی ہو نا جس نے ہوٹل میں کام کیا تھا۔‘‘
ایک مرتبہ ایک دلچسپ واقعہ ہوا کہ ایک دن جب ہم لوگ ساتھی کے کمپوزنگ والے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کمپیوٹر کے ساتھ بلی نے چار بچے دیے ہیں پہلے تو سب کو بہت غصہ آیا پھرعمیر صفدر بھائی نے کہا کہ یہ ساتھی کے چار نئے قارئین آئے ہیں اس پر تو دعوت ہونی چاہیے۔ پھر ساتھی کے چار ’’نئے قارئین‘‘ کی خوشی میں جلیبیاں منگوائی گئیں اور پورا سالنامہ انہی بچوں کے ساتھ نکالا گیا۔
اب کچھ بات ہوجائے عجیب و غریب لکھاریوں کی۔
ایک مرتبہ ایک صاحب جن کو نئی نئی شاعری کا شوق چڑھا تھا اپنا پورا دیوان لے کر ہمارے پاس آئے اور گزارش کی کہ میں کب سے آپ کو اپنی نظمیں بھیج رہا ہوں مگر شاید آپ چند مخصوص شاعروں کی نظمیں ہی چھاپتے ہیں۔ ہم نے ان کی شاعری پڑھ کر انہیں بتایا کہ آپ ’’ قافیہ‘‘ اور ’’وزن ‘‘ وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے جس پر وہ کہنے لگے ’یہ کیا ہوتا ہے۔ ‘ہم نے سر پیٹ لیا بڑی مشکلوں سے ان سے جان چھڑائی ۔
ساتھی: ’’ساتھی کی دوا ہم شخصیات (جو ہمارے درمیان نہیں ہیں) چودھری بلال حنیف اور شمعون قیصر کے ساتھ آپ کا کافی عرصہ گزرا، ان دونوں کو ساتھی کے کاموں کی انجام دہی میں کیسا پایا؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’ساتھی میں سات سال گزارنے کے دوران بہت سے اچھے ساتھیوں کا ساتھ رہا۔ چودھری بلال حنیف اور شمعون قیصر کے حوالے سے ان کے بارے میں لکھے گئے مضامین میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ بلال حنیف بھائی جب ساتھی میں نائب مدیر کی حیثیت میں آئے تو اُنھوں نے تمام کام کو انتہائی محنت اور محبت سے کیا۔ آج ہم جو مختلف تربیتی امور میں کام کررہے ہیں اس کا ابتدائی خاکہ میں نے بلال حنیف بھائی کے ساتھ بنایا تھا، بلال حنیف بھائی کا آنکھ کے آپریشن میں انتقال ہوگیا تھا، آپریشن سے ایک دن پہلے وہ مسلسل دن رات ساتھی کے اگلے پندرہ دن کا کام نمٹاتے رہے تاکہ ان کی غیر حاضری میں کوئی کام نہ رُکے۔ اس کے علاوہ وہ فرائض اور نوافل کا بہت اچھی طرح اہتمام کرتے تھے۔
شمعون قیصر بھائی چودھری بلال حنیف بھائی کے انتقال کے بعد ساتھی کی ٹیم میں شامل ہوئے اُنھوں نے بلال حنیف بھائی کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا اور پوری محنت اور لگن سے ساتھی کے مشن کو آگے بڑھایا۔ شمعون بھائی بچوں سے انتہائی محبت کرتے تھے، ایک اسکول میں بچوں کو پڑھاتے بھی تھے اور اپنے طلبہ میں ہر دلعزیز استاد کے طور پر مشہور تھے، شمعون بھائی میرے بعد مدیر ساتھی بنے اور انتہائی مہارت سے رسالے کو آگے بڑھایا۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کے بہت سے خواب تھے۔ جو ان شاء اللہ جلد ہم، اُن کے شاگرد اور قارئین مل کر پورا کریں گے۔‘‘
ساتھی: ’’ساتھی کی موجودہ ٹیم اور ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ ساتھی کو مستقبل میں کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’ساتھی کی موجودہ ٹیم بہت اچھا کام کررہی ہے۔ رسالہ بہت اچھا نکل رہا ہے اور میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں جس طرح اپنا کھانا پکا کر کھانے میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا دوسرا بنائے اور ہم کھائیں، البتہ آپ نے کھانا بنایا ہو اور دوسرے تعریف کریں تو زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ہم رسالہ نکالتے تھے تو تعریف زیادہ اچھی لگتی تھی مگر اب آپ کے نکالے گئے رسالے کا مزہ لیتے ہیں۔‘‘
ساتھی: ’’پہلے ایک رسالے کا مدیر ہونا اور پھر تین رسائل کا مدیر اعلیٰ ہونا۔۔۔ آپ کے مدیر اعلیٰ ہونے سے آپ کے خاندان میں کسی نے فائدہ اٹھایا۔ کسی میں ادبی جراثیم پیدا ہوئے؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’ہوسکتا ہے کہ کسی رسالے کا مدیر یا مدیر اعلیٰ ہونا میرے یا آپ کے لیے بڑی بات رکھتا ہو مگر درحقیقت یہ اللہ کی طرف سے دی گئی ذمہ داریاں ہیں۔ اللہ نے ہر کسی کو مختلف کام دیے ہیں۔ قیامت میں اللہ تعالیٰ کو ہم اپنے عہدوں سے متاثر نہیں کرسکتے البتہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے ادا کرکے ضرور اسے خوش کرسکتے ہیں ۔ اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ اس کا کام بظاہر چھوٹا یا بڑا ہو۔ اسے مکمل ذمہ داری سے ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کیے گئے کاموں کو قبول فرمائے۔ آمین
جہاں تک رشتہ داروں کا فائدہ اٹھانے کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے میرا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ میں اپنے کسی رشتہ دار کی لکھی گئی کہانی نہیں پڑھتا بلکہ اسے اپنے کسی دوسرے ذمہ دار کو دے دیتا ہوں۔ اگر وہ اسے قابل اشاعت سمجھتے ہیں تو وہ رسالے میں لگ جاتی ہے ورنہ واپس۔۔۔
یہ میں آپ کو بتا دوں کہ گوریلا فائٹر کے مصنف ’’شان مسلم‘‘ یعنی حبیب احمد حنفی میرے بڑے بھائی ہیں اور وہ کافی عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ اسی طرح میری اہلیہ بھی اب باقاعدہ لکھنے لگی ہیں۔
ساتھی: ’’قارئین ساتھی، قلمکاران ساتھی کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟‘‘
نجیب احمد حنفی: ’’قارئین ساتھی اور قلمکاران ساتھی یہ دو خط بہت غور سے پڑھیں اور بتائیں یہ کس کے ہیں۔۔۔؟
۱:’’ جون کا ٹائٹل دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ ’’چھن‘‘ (راحیل یوسف) اور ’’دلشاد خان پوری‘‘ پر کیا گزری۔ (قاسم بن نظر) بہترین کہانیاں تھیں۔’’فیفا ورلڈکپ‘‘ کے حوالے سے ہاشمی کا مضمون پڑھ کر اپنی معلومات میں خوب اضافہ کیا۔ لطائف چٹخارے دار تھے۔ ’’الیکٹران پر رہنے والے ‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ حماد ظہیر پورے ردھم میں آگئے ہیں۔ یہ کہانی اس شمارے کی جان ثابت ہوئی۔ ’’حسین کی خواہش‘‘ (فوزیہ خلیل) پڑھ کر ایمانی جذبہ بیدار ہوگیا۔ آپ سے شکایت ہے کہ خطوط میں شامل بہت سی اہم باتیں گول کر جاتے ہیں‘‘۔
۲:’’ اگست کا شمارہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ ملا۔ رسالے کو نئے ڈیزائن اور بہترین کہانیوں کے ساتھ مدیر انکل نے اچھے انداز میں مزین کیا ہے جس کے باعث رسالے کی مقبولیت میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ ٹائٹل ہماری توقعات پر پورا اترا۔ اس دفعہ کی بہترین کہانیوں میں ’’روبوٹ‘‘ (نجیب احمد حنفی) ’’کوہ پیمائی کا شوق‘‘ (قاسم بن نظر) ’’بھائی جان کی تلاش‘‘ (حماد ظہیر) نے دماغ و دل پھیپھڑوں، جگر اور معدے سمیت پورے جسم کو روشن کردیا۔ جس کے باعث لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کسی موم بتی کے بجائے ہر جگہ مجھے لے جایا جانے لگا۔ ایک کہانی بھجوارہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کی توقعات پر پورا اترے گی‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نہیں بتاسکے؟ چلیں کوئی بات نہیں ہم بتادیتے ہیں۔ یہ خط آپ کے پیارے رسالے کے پیارے مدیر محترم جناب محمد طارق خان کے ہیں ۔ جب وہ چھوٹے تھے اور ہمیں آپ کی طرح کے تعریفی؍ تنقیدی خط لکھا کرتے تھے۔ کل تک ہم ان کے خط چھاپتے تھے آج وہ ہمارا انٹرویو چھاپ رہے ہیں۔ ہے ناں مزے کی بات۔۔۔
میرے خیال سے اس میں بڑا پیغام ہے مدیر کے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی اگر آپ سمجھ سکیں تو۔۔۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top