skip to Main Content
ایک غلطی!

ایک غلطی!

طارق ریاض خاں

……………………….……………………….……………………….……………………….

اگلے روز وہ بیرون ملک فون کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے آئندہ ایسی غلطی کرنے سے تو بہ جو کرلی تھی۔

………………………………………………………………………………………………….

یوں تو ہر برس میٹرک کی الوداعی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ مگر اس برس خاص بات یہ تھی کہ سائنس کے ٹیچر کی ذاتی دلچسپی کے باعث الوداعی تقریب کی باقاعدہ وڈیو فلم بھی بنائی جارہی تھی۔ نویں جماعت کے طلبہ بڑھ چڑھ کر انتظامات میں مصروف تھے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب تھے جبکہ دوران سال اچھی کارکردگی کے حامل طلبہ کے چند ایک والدین بھی اس میں شریک تھے۔ سلیم نے پورے تعلیمی سال میں ششماہی اور نوماہی امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے کے ساتھ ساتھ انٹراسکولز ٹورنامنٹ میں بحیثیت ہاکی پلیئر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی چند طلبہ تھے۔ جنہوں نے مختلف میدانوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی تھی۔
سلیم کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور اپنے سائنس کے ٹیچر کے حکم پر ہی اس نے والدہ کو اعتماد میں لے کر وڈیو فلم کے انتظامات کا خرچہ اٹھایا تھا۔ اس کے والد صنعتکار تھے جو سلسلہ کاروبار کی وجہ سے بیرون ملک مقیم تھے۔ سلیم اور اس کے والدہ بھی چاہتے تھے کہ اسکول کی زندگی کے اختتام پر ہونے والی اس تقریب میں اس کے ابو بھی شریک ہوں لیکن فی الحال ایسا ممکن نہ تھا۔ سلیم نے جب اپنی اس آرزو کا تذکرہ اپنے ٹیچر نذیر صاحب سے کیا تو انہوں نے ویڈیو فلم بنوانے کا مشورہ دیا تاکہ اس کے والد بھی اپنے بیٹے کو حسن کارکردگی کی شیلڈ وصول کرتا دیکھ لیں۔ اسی لیے آج سلیم بہت اچھے اور متضاد رنگوں کا لباس پہن کر شریک محفل تھا تاکہ اس کی فلم اچھی بن سکے۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور بعد میں نعت رسول مقبولﷺ پیش کی گئی۔ نویں جماعت کے طلبہ نے الوداعیہ کلمات کہے۔ چند ایک نے مزاحیہ خاکے سنا کر محفل کو کشت وزعفران بنا دیا۔ کسی نے کلام اقبالؒ سنا کر روحوں کو تڑپایا۔ اس کے بعد دسویں جماعت کے طلبہ نے اپنے اپنے دل کی بات کی۔ اساتذہ نے اپنے تجربات بیان کیے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنے جذبات کی ترجمانی کی۔ پروگرام میں شریک بچوں کے والدین نے بھی اظہار خیال کیا۔ ویڈیو فلم کی روشنی مسلسل تقریب کے ہر لمحے محفوظ کرنے میں مصروف تھی۔ کیمرہ میں کمال ہوشیاری سے فلمبندی میں مصروف تھا۔ اس وقت سلیم کو اپنے ابو بہت یار آرہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس لمحے اس کے والد بھی کیمرے کا سامنا کرتے۔ لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ البتہ مہمانوں میں اس کی امی جان موجود تھیں۔ جنہوں نے اتنے مردوں کے سامنے آنے سے انکار کردیا تھا۔ لہٰذا وہ ابھی اپنے تاثرات فلم بند نہ کرواسکیں۔ کھانے پینے کا دور چلا۔ ہر کوئی سرجھکائے اپنے اپنے لنچ بکس سے انصاف میں مصروف تھا۔ اس کے بعد تقسیم انعامات کا دور چلا اورحسب توقع سلیم نے اس برس میٹرک کے طلبہ میں سب سے عمدہ کارکردگی کی شیلڈ وصول کی۔ اساتذہ نازاں تھے ۔ ماں کو اس کے روشن مستقبل کی آس تھی۔ وہ خود بھی ڈاکٹر بن کر وطن عزیز کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔ آخر دو ڈیڑھ گھنٹے بعد تقریب ختم ہوئی اور دوست ہار گلے مل کر ایک دوسرے سے رخصت ہوگئے۔ چند لڑکوں نے ویڈیو فلم کی کاپیاں حاصل کرنے کے لئے کیمرہ مین کا پتہ بھی لیا۔ یوں ایک خوشگوار تقریب اداس یادیں لیے اپنے انجام کو پہنچی۔
میٹرک کے سالانہ امتحان ایک ہفتہ بعد شروع ہوچکے تھے۔ جو بیس بائیس دن بعد اختتام پذید ہوئے پھر پندرہ دن پریکٹیکل امتحان کے نذر ہوگئے۔ تمام لڑکے زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کے چکر میں تھے۔ ہر کوئی اپنا اپنا زور لگارہا تھا۔ سلیم بھی دن رات ایک کئے تھا۔ اس تمام عرصہ میں وہ یہ بھی بھول چکا تھا کہ اس نے ابو جان کو الوداعی تقریب کی ویڈیو ارسال کرنا تھی۔ خیر ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد جب وہ فارغ ہوا تو اسے خیال آیا ۔ اس دوران اس کی امی اور ابو نے بھی اس کی توجہ امتحان پر مرکوز رکھنے میں تعاون کیا۔ لیکن امتحان ختم ہوتے ہی ابو جان کا ٹیلی فون آگیا۔ جس میں ویڈیو فلم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’’اوہ! میں تو بھول گیا تھا!‘‘ وہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
اگلے روز اس نے کوریئر سروس کے ذریعے ویڈیو فلم کی ایک کاپی اور چند تصویریں ابو کو بھجوادیں۔وہ خوش تھا کہ اس کے ابو جان اس پر نازاں ہوکر اچھا سا تحفہ ضرور بھجوائیں گے۔
پندرہ بیس دن بعد ابو جان کے خط نے اس کو فکر مند کردیا جس میں مبارک باد اور نیک تمناؤں کے ساتھ لکھا تھا۔ ’’بیٹا! مجھے تمہاری کامیابیوں پر خوشی ہے! اللہ تمہیں ہر امتحان میں سرخرو کرے۔ الوداعی تقریب بڑی شاندار تھی۔ تم بہت اچھے لگ رہے تھے لیکن اس میں تم نے ایک سنگین غلطی کی ہے۔ جس کی نشاندہی تمہارے اساتذہ، دوستوں حتیٰ کہ ماں نے بھی نہیں کی۔ وہ یہ کہ ویڈیو فلم میں کھانے پہنے کے مناظر میں اکثر لوگ بیٹھ کر کھاپی رہے تھے لیکن تم اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوکر بوتل پی رہے تھے اور وہ بھی الٹے ہاتھ سے !بیٹا ہم جتنی مرضی کامیابیاں حاصل کرلیں اول وآخر ہم مسلمان ہیں۔ حضرت محمد ﷺ پیروکار ہیں۔ آپؐ نے بیٹھ کر پینے اور سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس میں ہمارا بھلا ہے۔
الٹا ہاتھ شیطان کا ساتھ ظاہرکرتا ہے۔ پھر کھڑے ہوکر کھانے پینے سے کش ثقل کے باعث غذا معدہ میں کم عرصے ٹھہرتی ہے۔ یوں ہاضمے پر اثر پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں گردے خراب ہوتے ہیں۔ ہمارے ہر گردے میں لاکھوں نالیاں ہیں جنہیں نیفرونWephronsکہتے ہیں۔ وہاں خرابی ہوجاتی ہے۔ یہ اہم نالیاں ہیں جو گردے کے ساخت اور فعل کی اکائی بھی کہلاتی ہیں۔ تم سائنس کے طالب علم ہو۔ مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ تمہیں تحفہ اس لئے نہیں بھیجوا رہا کہ تم نے غلطی کی ہے۔ غلطی کی جنرا، سرا ہوتی ہے انعام نہیں۔ اگر وعدہ کرو کہ ہمیشہ بیٹھ کر کھاؤ پیو گے اور سیدھے ہاتھ سے کھاؤ تو ایک بڑا اچھا تحفہ بھجوانے کو تیار ہوں!، امی کو بھی سلام کہنا!
فقط تمہارا والد!‘‘
ابو جان کا خط پڑھ کر وہ اٹھا اور ویڈیو فلم میں اپنی غلطی دیکھنے لگا۔ وہ واقعی خطا کار تھا۔ اگلے روز وہ بیرون ملک فون کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے آئندہ ایسی غلطی کرنے سے تو بہ جو کرلی تھی۔ بچوں! ہمیں روز مرہ زندگی میں پاک نبیﷺ کی ابتاع کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ہمیں روحانی اور سائنسی دونوں فائدے ملتے ہیں! *

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top