skip to Main Content
ایک عید کا ذکر ہے

ایک عید کا ذکر ہے

ar

حماد ظہیر

 ………………………….
جب ٹیپو تخت کے نیچے دُبکا اپنی رہائی کا، اور عفت اسٹور میں چھپی آٹا گوندھنے کا انتظار کر رہی تھی۔

………………………….

آزاد ہوتے ہی شیطان کے چیلے سیدھے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ عید کا چاند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی اور سارا گھر زور و شور سے کل کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ایسے میں ہمارے چچا زادوں نے آکر عید کے چاند کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر میں مزید چار چاند لگا دیئے اور ہم توقع کر رہے تھے کہ ہماری چاند رات اور عید کی خوشیاں بھی رات دگنی اور دن چگنی ترقی کریں گی۔
ہم، سنی، ٹیپو، عفت اور فوزی آپی۔۔۔ ٹیم مکمل تھی اور ہم اپنے ذمے لگائی جانے والی ذمہ داریوں کو بھول بھال کر ادھم مچانے میں مصروف تھے۔ بڑے کچھ ضروری کام نمٹانے کیلئے گھر سے باہر تھے ۔ لہٰذا ہم حقیقتاً آزادی محسوس کر رہے تھے۔
وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا اور بڑے واپس آگئے۔ تب ہمیں یاد آیا کہ ہمیں استری کرنے کا کام شام ہی کو سونپ‘ دیا گیا تھا اور سختی سے ہدایت تھی کہ کوئی کام رات پر نہیں اٹھا رکھا جائے۔ ہمارے ابا چاند رات کو جلد ہی بتیاں بجھا دیا کرتے اور کسی کو باہر جانے یا شور شرابا کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔
ابھی ہم گھبرا ہی رہے تھے کہ ہم سے پوچھ نہ ہوجائے، کہ سونے پر سہاگا بجلی بھی چلی گئی۔ پہلی زور دار گونجنے والی آواز یہ تھی 
’’حمزہ! کپڑے استری ہو گئے تھے؟‘‘ ہمارے دل کی حرکت تیز ہو گئی۔ ہم نے اپنے کسی یار سے سرگوشی میں کہا ’’مارے گئے!‘‘ سنی جلدی سے اپنا منہ ہمارے کان کے پاس لا کر بولا
’’فکر نہ کرو۔ میں کسی نہ کسی طرح استری کرا ہی دوں گا، تم بس ہاں کر دو!‘‘
ہم بولے ’’ لیکن ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہوگا؟ اگر کسی نے چیک کر لیا‘‘
وہ بولا ’’اندھیرا ہو گا آرسی۔۔۔ اندھیرا کون دیکھ سکے گا!‘‘ غرض بڑی مشکلوں سے ہم نے کسی دلہن کی طرح ’ہاں‘ کی!
’’ٹھیک ہے ۔ بس پھوپھو کو دوا کھلا دو اور سب بچے سونے کیلئے لیٹ جاؤ۔‘‘
یہ بھی ہماری ذمہ داری تھی۔ پھوپھو کو ہم نے نیند کی دوا کھلائی تو انہوں نے احتیاطاً ہم سے صبح کھائی جانے والی بلڈ پریشر کی دوا بھی لے کر رکھ لی کہ صبح ہماری غیر موجودگی یا مصروفیت کی صورت میں کوئی دشواری نہ ہو۔
بظاہر ہم سب سونے کیلئے لیٹے لیکن دراصل یہ انتظار تھا کہ باقی لوگ سوئیں تو ہم جاگیں! پروگرام یہ تھا کہ ہمارے ساتھ جلدی جلدی کپڑے استری کرائے جائیں گے اور پھر چھت پر جا کر ڈھیروں باتیں کریں گے۔
پھوپھو کے خراٹے سنائی دیئے نہ ہی بجلی آئی۔ آخر خطرہ مول لینے ہی کا فیصلہ ہوا۔ پھوپھو بیچ دالان میں سوتی تھیں۔ بیرونی دروازہ اور چھت کی سیڑھیاں دونوں یہیں سے تھیں۔ بلی کی طرح دبے پاؤں پھونک کر قدم رکھتے ہم سب ہی خیریت سے چھت پر پہنچ گئے۔
’’اب کیا ہوگا؟ لائٹ تو آہی نہیں رہی!‘‘ ہم نے روتی صورت بنائی۔
’’پورا علاقہ اندھیرا پڑا ہے، ورنہ کسی اور کے یہاں جا کر کاروائی ہو سکتی تھی! ‘‘ سنی نے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’ارے تمہارے دوست کے پاس کوئلے والی استری ہے نا۔۔۔ جو اس کی دادی استعمال کرتی تھیں!‘‘ فوزی آپی چمک کر بولیں۔ 
’’ ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ جاوید کے پاس ہے کوئلے سے چلنے والی استری۔‘‘ ہم نے چٹکی بجائی۔
’’استری بھلا کوئلہ سے کیسے چلتی ہے؟‘‘ عفت نے حیرت سے پوچھا۔
’’کوئلے سے بڑی بڑی ملیں اور لمبی لمبی ٹرینیں چلتی ہیں تو یہ تو چیز کیا ہے!‘‘ ٹیپو نے اپنی معلومات جھاڑی۔
’’چلو بس جلدی کرو۔ وقت نہیں ہے!‘‘ سنی نے کہا تو ہم اور ٹیپو جلدی سے جاوید سے استری لینے چل دیئے۔ جب ہم واپس آرہے تھے تو اوپر سے فوزی آپی اور سنی وغیرہ کی چہ مگوئیاں سنائی دے رہی تھیں۔
’’یہ لوگ استری کو اتنی بڑی سے کڑاہی میں رکھ کر کیوں لا رہے ہیں‘‘
’’شاید اس میں اور بھی کوئی وزنی سامان رکھا ہے۔ ان دونوں سے مل کر بھی کڑاہی نہیں اٹھ رہی۔‘‘
’’ میں ابھی جا کر ان کی خبر لیتا ہوں۔‘‘ ہم یہاں استری کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ جلیبیاں بنانے اور تلنے کا سامان لے کر آرہے ہیں۔‘‘
جب ہمارے اور ٹیپو کے ساتھ سنی بھی منہ لٹکائے اوپر پہنچا تو عفت چہکی ’’ ہم تو جلیبیوں کے ساتھ ساتھ سموسے بھی تلیں گے۔‘‘
’’ یہ استری ہے اور صرف استری ہی ہے۔ یعنی کہ یہ سارا کچھ فقط صرف ایک استری ہے!‘‘ ٹیپو نے مختلف انداز سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ مفہوم یہ تھا کہ جو کچھ بھی ہم تینوں سیڑھیوں سے اٹھا کر اوپر چھت پر لائے تھے وہ استری تھا۔
’’ اس سے استری کرنے گا کون؟‘‘ فوزی آپی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’ اتحاد میں برکت ہے۔ سب مل کر کریں گے۔‘‘
’ لیکن پہلے تو اس میں کوئلے ڈالنے کا مسئلہ ہے، کوئلے کہاں سے آئیں؟‘‘ سنی نے کہا۔
’’ میں نے نیچے دیکھی تھی کوئلوں کی تھیلی!‘‘ عفت نے بتایا تو سنی اس ہی کی رہنمائی میں نیچے چلا گیا۔
’’ میں مکمل کام کرنے کا عادی ہوں۔‘‘ سنی نے واپس آکر فخر سے بتایا۔
’’ نہ صرف کوئلے بلکہ ماچس، تیل اور سلگانے کیلئے ایک تسلہ بھی لیتا آیا ہوں۔‘‘
’’تسلہ کیسے ملا تمہیں؟‘‘ فوزی آپی نے پوچھا۔
’’سامنے ہی گندے برتنوں کے ساتھ رکھا تھا۔ میں نے اس کا گندا پانی پھینکا اور دھو کر لے آیا۔‘‘
’’ چلو پہلے تو کوئلہ جلائیں۔‘‘ ٹیپو نے کہا اور ہم سب نے ایک اور مشکل بلکہ ناممکن کام کا آغاز کیا۔ ہوا تیز تھی اور ہم نوخیز ، کوئلے تیل کی موجودگی میں ایک آدھ منٹ جلتے اور پھر بجھ جاتے۔
آخر فوزی آپی جھلا کر بولیں۔
’’بھاڑ میں ڈالو کوئلوں کو۔ یہ استری ایسی ہے کہ اس کے نیچے انسان آجائے تو وہ بھی پریس ہو جائے کپڑے بھلا کیا چیز ہیں‘‘ غرض ٹیپو تسلہ اور کوئلے نیچے رکھ آیا اور ہم نے بارسنگ اور غبار جنگ کی طرح استری کا کام نمٹایا۔
ٹیپو نے آکر بتایا کہ پھوپھو جاگ رہی ہیں۔ وہ ان کے سامنے سے تو گزر نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا ان کے تخت کے نیچے ہی تسلہ دبا آیا ہے۔
صورتحال سنگین ہوگئی ۔ نہ جانے نیند کی دوا نے کیوں اثر نہیں کیا۔ استری کو لے جانے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے ‘‘ استری شدہ‘‘ کپڑے سب کو بانٹے گئے اور باری باری نیچے کا سفر شروع ہوا۔ رپورٹ دینے کیلئے باورچی خانہ منتخب ہوا۔
ہم لوگوں میں اور کوئی صلاحیت ہو نہ ہو، یہ ضرور تھی کہ پنجوں کے بل اس خاموشی سے چلتے تھے کہ سانس تک روک لیا کرتے تھے۔
سوسب ہی کامیابی سے باورچی خانے میں پہنچے ۔
’’ کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ عفت نے پوچھا۔
’’ دیکھنا پڑے گا۔‘‘ دیکھنے پر ایک ڈیگچی کے اندر سے سوئیاں برآمد ہوئیں۔ پھر تو سب ہی کی بھوک چمک اٹھی۔ اندھیرے میں پتا تو چل نہیں رہا تھا۔ ہم سب ’’تھوڑی سی‘‘ نکالتے گئے اور کھاتے گئے۔ شکم سیر ہونے کے بعد بقیہ سارے پروگرام منسوخ کرکے ہم نے سیدھا بستروں کا رخ کیا۔
عید کا آغاز ابا کی گرجدار آواز سے ہوا جس سے ہماری آنکھ کھلی۔ وہ درزی کو کوس رہے تھے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود اس نے ان کی شلوار تنگ اور چھوٹی سی دی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد چچا کو ایک بڑی سی شلوار بڑی مشکل سے سنبھالتا دیکھ کر تو ہمارا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اوہ ! ہم نے رات اندھیرے اور پریشانی میں شلواریں ہی بدل دی تھیں۔ ہمیں اپنی عید یہیں سے کچھ پھیکی پھیکی معلوم ہوئی۔
پھوپھو نے کہا ’’ ذرا مجھے ایک پیالہ پانی دے جاؤ میں بلڈ پریشر کی دو گولیاں کھالوں!‘‘ ہم پانی لے کر گئے اور یہ دیکھ کر ہماری روح فنا ہو گئی کہ رات ہم نے نیند کی ایک گولی کے بجائے انہیں بلڈ پریشر کی گولی کھلا دی تھی اور اب وہ جھٹ پٹ نیند کی دو گولیاں ، بلڈ پریشر کی سمجھ کر نگل گئیں! 
’’ نہ جانے کیا بات ہے رات نیند کی دوا نے اثر ہی نہیں کیا اور بستر تو ایسا گرم ہو رہا تھا جیسے تندور! ‘ ‘ ہم روتی آواز میں بولے ’’ دیکھیں ساری رات جاگی ہیں آپ تو شاید اب نیند آجائے آپ کو!‘‘
’’ اے بتاؤ۔۔۔ یہ عید کا دن ایک مرتبہ آتا ہے کون بیوقوف ہے جو اس میں سوئے‘‘ انہوں نے کہا اور ایک بڑی سی جماہی لی۔ پھر حیرت سے سوچنے لگیں کہ یہ کیا ہوا؟ 
فوزی آپی نے سارے رمضان کھانے پکانے کی مشق کی تھی اور آج کے دن باورچی خانہ انہیں سنبھالنا تھا۔
’’فوزی بیٹی ۔ سارے بڑوں کو سوئیاں چکھاؤ۔ لیکن ذرا خیال سے نکالنا، عید کے دن اور کچھ ہو نہ ہو مہمانوں کیلئے سوئیاں ضرور موجود ہونی چاہیے۔‘‘
فوزی آپی کو سوئیاں نکالنے میں کافی دیر ہو گئی تو ہم اور سنی ان کی خیریت پوچھنے باورچی خانے پہنچے۔ ان کا منہ لٹکا ہوا تھا۔
وجہ پوچھنے پر انہوں نے تقریباً خالی ڈیگچی ہمیں دکھائی تو ہم حیران رہ گئے ’’ ہم نے تو تھوڑی سی کھائی تھی۔‘‘
’’سب نے ہی تھوڑی سی کھائی تھی۔ اب دیکھو اتحاد کی برکت!‘‘ وہ جل کر رہ گئیں۔
سنی نے مشورہ دیا کہ فی الحال پونچھ پانچھ کر ایک آدھ پیالہ تو نکالا جائے تاکہ گلشن کا کاروبار چلے، پھر دیکھی جائے گی۔
اپنے پیالے میں آدھا یا ایک چمچ سوئیاں دیکھ کر ابا بولے ’’بیگم ! ہماری بیٹی کنجوس تو نہیں ہے۔ لیکن کفایت شعار بہت ہے۔!‘‘
پھوپھو جو تقریباً اونگھ رہی تھیں بڑی مشکل سے اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھول کر بولیں۔
ہم زیادہ میٹھا نہیں کھا سکتے، ہمارے لیے تو دہی بڑے بنواؤ۔‘‘ 
’’تسلے میں ماش کا آٹا بھیگا ہو گا۔ اسے پھینٹ کر دہی بڑے بنا لو!‘‘
’’اوہ! نہیں!‘‘ سنی سر پکڑ کر رہ گیا۔ جو ’’گندا‘‘ پانی رات اس نے بیسن میں بہا دیا تھا اس کی حقیقت اب کھلی۔ ہم تینوں لڑکے بیٹھے ابھی افسوس کر ہی رہے تھے کہ عفت پیغام لے کر آئی۔ ’’تسلہ تو بھجوا دیں اندر!‘‘
ہم نے سنی کو اور اس نے ٹیپو کو دیکھا۔ ٹیپو کی نظریں پھوپھو کے تخت کے نیچے گڑی تھیں۔
پھوپھو تو چلو جاگنے کی اور آنکھیں کھلی رکھنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں، لیکن امی اور ابا کی موجودگی میں تسلے نکالنے کا تصور بھی نہ تھا۔
ایک ایک لمحہ پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا تھا۔ ابا کو اپنے دوستوں سے ملنے جانا تھا، لیکن وہ ناکافی سوئیوں کے بعد دہی بڑوں کا انتظار کر رہے تھے۔ جبکہ دہی بڑے خود بننے کیلئے تسلے کا انتظار کر رہے تھے۔
آخر ابا ہی نے ہمت کی ’’ میں ذرا اپنے دوستوں سے مل کر آتا ہوں۔‘‘ ان کے باہر نکلتے ہی ٹیپو تخت کے نیچے گھسا اور پھر اس کی گھٹی گھٹی چیخ کی آواز آئی۔ وہ کوئلے جو کل رات جلنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے اس وقت سب کے سب جل کر راکھ ہو گئے تھے، اور ٹیپوبے چارے کا ہاتھ جلا چکے تھے۔
پھوپھو نے ٹھیک ہی کہا تھا ’’رات بستر ایسا گرم ہو رہا تھا جیسے تندور!‘‘
دروازے پر کھٹ پٹ کی آواز سن کر سنی نے بہت ہمت کی ایک رومال سے تسلہ پکڑ کر باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ ٹیپو کا صرف سر ہی باہر نکلا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ابا اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ اندر داخل ہو رہے ہیں۔ وہ جلدی سے دوبارہ تخت کے نیچے روپوش ہو گیا۔
’’سلام آپا!‘‘ انکل پھوپھو کو سلام کرکے ابا کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ابا بولے ’’ بھئی مہمان آگیا ہے۔ ذرا سوئیاں اور دہی بڑے تو بھجوا دو۔‘‘
ہم جلدی سے باورچی خانے کے محاذ پر پہنچے تو سر جوڑ کانفرنس کا آغاز ہوا۔ اس کے اختتام پر یہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ 
۱۔ ٹیپو کو فی الحال اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس کی ابھی فوراً کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔
۲۔ ہزاروں گھروں میں عید کے روز سوئیاں پکتی ہیں لہٰذا ہم کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوئیاں پیدا کریں۔
۳۔ کچے یاپکے ، جیسے بھی ہوں دہی بڑے ایجاد کیے جائیں۔
جاوید بہت اچھا دوست ثابت ہوا۔ حیران تو بہت ہوا جب ہم نے اس سے دو پیالے پکی پکائی سوئیاں مانگیں، لیکن زیادہ جرح نہ کی۔
واپس گھر پہنچے تو سمجھ نہ آیا یوں دو پیالہ سوئیاں باہر سے لا کر مہمان کو کیسے پیش کی جائیں۔ پہلے اندر باورچی خانہ میں لے جانا ضروری تھا، لیکن یہ بھی چھپ کر کرنا تھا۔
ہم شرماتے ڈگمگاتے کچن پہنچے اور ایک ٹوکری حاصل کی جس میں دو پیالے چھپائے جا سکیں۔ یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا کہ دونوں لڑکیاں ہاتھ پر ہاتھ دہرے کھڑی ہیں۔ پتا چلا کہ ماش کا آٹا ختم ہو چکا ہے اور بھاری مالیت کی عیدی سے سنی خریدنے گیا ہے۔ ہم ٹوکری لے کر باہر نکلا ہی چاہتے تھے کہ ابا نے روک لیا۔
’’ کہاں چلے میاں؟‘‘
’’وہ بس ذرا یہیں تک۔‘‘ ہمارے منہ سے بے ترتیب نکلا۔
’’ یہ کوئی نئی جگہ ہے یہیں تک۔ ابھی سنی بھی وہیں گیا ہے۔‘‘ 
ہمارے انکل نے تو ہم سے سوالات جوابات کی لائن لگا دی۔ ادھر گیٹ پر ہمارا دوست آصف آگیا۔ یہ سدا کا چٹورا تھا۔ اس کی آواز آئی۔
’’واہ بھئی۔ مہمان نوازی ہو تو ایسی گیٹ ہی پر سوئیاں سجی ہیں۔ آہا کتنے مزے کی ہیں۔ چھپ ہپ ہپ۔‘‘
آواز ہی سے لگ رہا تھا کہ سوئیاں کھائی نہیں بلکہ انڈیلی جا رہی ہیں۔ ہم سخت پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ اور دل ہی دل میں تلملا رہے تھے ۔ جبکہ انکل یوں مزے سے ہمارا انٹرویو کر رہے تھے جیسے ہمیں دنیا میں فقط ان کو انٹرویو دینے بھیجا گیا ہو۔
خیر سے انہیں خود ہی کوئی کام یاد آیااور وہ اور ابا ساتھ ہی باہر نکلے۔ ہم نے ٹیپو کو بھی گرین سگنل دے کر باہر نکالا۔عید کا دن تھا اس لیے آصف کی جان بخشی کی اور خالی پیالے کر اسے دروازے ہی سے لوٹایا۔
کچن میں پہنچ کر ایک حیرت انگیز منظر دیکھنے کو ملا۔ فوزی آپی وہاں کھڑی دھڑادھڑ دہی بڑے تل رہی تھیں اور امی جان ان کے پاس ہی کھڑی تھیں۔جبکہ سنی ابھی تک ماش کا آٹا لے کر نہیں آیا تھا۔فوزی آپی انتہائی مشقی سے گیہوں کا آٹا ختم کر چکی تھیں۔
امی کا حکم آیا کہ اب تو دن چڑھنے کو آیا ہے لہٰذا روٹیا ں بھی پکا لو ہم اور سنی باہر کے چکر لگا چکے تھے چنانچہ اب ٹیپو کا نمبر تھا۔ وہ مزے سے تخت کے نیچے تخت نشیں تھا ۔ وہ عیدی جس کو خرچ کرنے کیلئے ہم مہینوں کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے تیزی سے خرچ ہوئی جا رہی تھی۔ ایک خطیر رقم دے کر ٹیپو کو روانہ کیا۔
چھپا کر آٹا گوندھنے کیلئے بے چاری عفت کو تسلہ ڈونگا اور پانی وغیرہ دے کر اسٹور میں بٹھا دیا اور آٹے کی بوری کو بحفاظت دروازے سے اسٹور منتقل کرنے کے طریقوں پر غور شروع ہوا۔ 
مگر ٹیپو پہلے ہی کام خراب کرچکا تھا۔ اسے ابا نے باہر ہی آٹے کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔
ا ن دونوں کے گھر آتے ہی ہم سب کی پیشی ہو گئی۔ ہم سب ایک قطار میں سرجھکائے مجرموں کی طرح کھڑے تھے۔ بات جب کھلنے پر آئی تو گویا موتیوں کی مالا ٹوٹ گئی اور ایک ایک کرکے سارے ہی موتی نکل نکل کر بکھر گئے۔
ہمیں پتا تھا کہ ابا بہت سخت ہیں اور اب خیر نہیں۔ جو جو دعائیں یاد آتی جا رہی تھیں پڑھتے جا رہے تھے اور شاید انہی میں سے کوئی دعا قبول ہو گئی۔ سننے والا تو ہر وقت سنتا ہے اور ہر کسی کی سنتا ہے۔
ابا بولے
’’ تم لو گ کسی قسم کی نرمی کے مستحق نہیں ہو، مستحق تو ہم بھی نہیں تھے پھر بھی آج کے دن خدا نے ہم سب کو معاف کیا اور ہم بخشے بخشائے عیدگاہ سے لوٹے، تو جاؤ میں نے بھی تم سب کو معاف کیا۔ تم سب بھی بخشے بخشائے ہوگئے، تمہارا کوئی جرم نہیں۔‘‘
معافی تو ہمیں مل گئی لیکن یہ عید اور آٹے کے بڑے ہم کبھی نہ بھولے جو بعد میں ہم ہی سب کو زبردستی کھلائے گئے!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top