skip to Main Content
ایک سوال۔۔۔!

ایک سوال۔۔۔!

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کہانی کو دوسری بار بھی پڑھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا گھر لاکھ تنگ وتاریک سہی۔۔۔ مگر میرے لئے گوشہ عافیت تھا۔ میرا بھرا پرا خاندان میرے ساتھ تھا۔ ہمارے آس پاس، میرے جیسے کئی خاندان آباد تھے۔ جو یونہی تنگی، ترشی میں گزارا کر رہے تھے۔ اس کے باوجود ہم اپنے حال میں مست تھے کہ ایک دن اچانک ہمارا سکون درہم برہم ہوگیا۔ ہمارے علاقے میں کچھ پراسرار سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ کبھی دھماکوں کی آواز آتی اور کبھی چیخ وپکار کے ساتھ اٹھا پٹخ کا شور سنائی دیتا اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ ہمارے پورے محلے میں سراسمیگی پھیل گئی۔۔۔ صورتحال واضح نہیں تھی۔۔۔ کہ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
میں نے اپنے سب بچوں کا بلایا اور سمجھایا کہ خواہ کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہو گھر سے باہر نہ نکلیں۔ میں نے بیوی کو آواز دی تو معلوم ہوا کہ وہ حسب معمول پڑوس میں گئی ہوئی ہے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ محلے میں فساد برپا ہے اور محترمہ کو گھومنے سے فرصت نہیں۔ ایک حادثے میں میری بیوی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، اس کے باوجود صبح ہوتے ہی وہ ایک ٹانگ پر چلتی گھر سے نکل جاتی اور پورے محلے کی خبریں اکٹھی کر کے شام تک گھر لوٹتی۔ جب میں تھکا ہارا کام سے واپس آتا تو ریڈیو کی طرح بجنا شروع ہوجاتی یہ سوچے بغیر کہ کوئی اس کی بات سن رہا ہے یا نہیں۔
حالات دن بہ دن بگڑے جارہے تھے۔۔۔ مگر مجھے روٹی روزی کے چکر میں نکلنا ہی پڑتا تھا۔ میں خاصی محتاط طبیعت کا مالک تھا۔ اللہ نے مجھے یہ صلاحیت دی تھی کہ خطرے کو اس کے آنے سے پہلے ہی بھانپ لیا کرتا تھا۔ ایک دن میں گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ منجھلا لڑکا گھر سے غائب ہے۔ یہ سنتے ہی میرا دم سرک گیا۔ پوچھا کہ کب سے غائب ہے؟ تو بیوی نے کہا معلوم نہیں۔۔۔ جب میں پڑوسن کے ہاں سے واپس آئی تو گھر میں نہیں تھا، اب رات ہونے کو آئی مگر اس کا کچھ پتہ نہیں۔ میں نے غصہ سے کہا ’’لاکھ دفعہ سمجھایا ہے کہ گھر میں ٹکا کرو۔۔۔ اور کچھ کام نہیں۔۔۔ تو کم از کم صبح شام بچے گن لیا کرو۔۔۔ کہ کہیں کوئی کم تو نہیں!‘‘ بیوی نے تنک کر کہا ’’ارے بچہ ہے! کہیں دوستوں کے ساتھ مٹر گشت کرنے نکل گیا ہوگا۔ گھومتے گھومتے تھک جائے گا تو خود ہی گھر یاد آئے گا۔ آپ کو تو پریشان ہونے کی عادت ہے‘‘۔ افسوس کہ میری کم عقل بیوی کو حالات کی سنگینی کا کچھ احساس ہی نہ تھا۔ مگر میرا دل انجانے خطرے سے دھڑک رہا تھا۔ میں گھر سے نکلا اور پاگلوں کی طرح اپنے بچے کو ڈھونڈنے لگا۔ مگر کچھ پتہ نہ چلا۔
’’کیا وہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے یا کسی حادثے کا شکار ہوگیا؟‘‘ طرح طرح کے وسوسے میرے دل میں سر اٹھانے لگے ’’شاید وہ گھر پلٹ آیا ہو!‘‘ میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بہت دور نکل آیا تھا۔ ایک موہوم سی آس لئے میں واپس پلٹا۔ واپسی کے لئے میں نے شارٹ کٹ اختیار کیا۔ ایک پتلی سی گلی سے گھستے ہی جیسے میرے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ میرا بچہ، میرے جگر کا ٹکڑا فرش پر بے حس وحرکت پڑا تھا۔ قریب جائے بغیر ہی میں سمجھ گیا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس ظالم دنیا سے بہت دور جاچکا ہے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ مگر گلی میں سناٹا تھا۔ حالات سے سب ہی خوفزدہ تھے اور اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ کاش میرے بچے نے میرا کہنا مانا ہوتا اور گھر سے نہ نکلتا۔ میں نے اسے اٹھانا چاہا مگر اٹھا نہ پایا، مدد کے لئے چلانا چاہا مگر پھر سوچا کہ دشمن یہیں کہیں موجود نہ ہو۔ میری آہٹ میرے لئے موت کا پروانہ بھی ثابت ہوسکتی تھی۔ میں نے اپنے حواس برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اپنے بچے کی لاش گھسیٹتا ہوا گھر کی جانب چلنے لگا۔ میرا دل رو رہا تھا اور قدم من من بھرکے ہورہے تھے۔ دروازے پر بیوی کھڑی، میری راہ دیکھ رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صدمے سے بے ہوش ہوگئی۔
میں نے بچے کو چھوڑ کر اسے سنبھالا۔ خاندان کے سب افراد جمع ہوگئے۔ صدمے اور دہشت کے مارے سب کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے سب کو تسلی دی۔ صبرکے سوا ہم کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔
حالات جوں کے توں تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ رات بھر سکون اور سناٹا رہتا اور دن چڑھتے ہی دہشت گرد دوبارہ دھاوا بول دیتے اور ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ شروع کردیتے ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ میرے بچے کی ہلاکت کو ابھی تین ہی دن ہوئے تھے کہ میرے سالے کے بیٹے نے کوئی زہریلی چیز کھالی۔ معلوم نہیںیہ محض اتفاق تھا یا یہ بھی انہی سفاک لوگوں کی کارستانی تھی، موت کے سائے ہمارے تعاقب میں تھے اس ننھی سی جان نے ہماری آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ ہمارے پورے خاندان پر ایک مسلسل سوگ کی کیفیت طاری تھی۔ ہم نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا۔ سانس لیتے بھی ڈرتے کہ کہیں دشمن ہماری آہٹ نہ پالے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم معصوم جانوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟ جو وہ یوں ہماری جان کے دشمن ہوئے جارہے ہیں۔ کیا ہمارا یہاں رہنا انہیں پسند نہیں اگر ایسی بات تھی تو شروع میں ہی ہمیں بتا دیتے کہ ان کو ہمارا س علاقے میں آنا ناگوار گزرا ہے اور یہ ’’نوگو‘‘ ایریا ہے۔ تو ہم یہاں اپنی بستیاں نہ بساتے حالات سازگار دیکھ کر جب ہم نے یہاں اپنا گلشن سجا لیا تو اچانک ہلہ بول دیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ پہلے خود ہمیں رہنے اور پنپنے کی جگہ دی اور اب دیس نکالا دینا چاہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ مگر میرے سارے سوال تشنہ ہی رہے کون تھا جو ان کے جواب دیتا؟
ادھر چند روز سے محلے میں بڑی خاموشی تھی، جو کسی طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہورہی تھی۔ اور یہی ہوا، ایک دن شام کو میں نے محسوس کیا کہ کوئی زہریلی گیس فضا میں تحلیل ہورہی ہے۔ گھر میں کسی کو بھی یہ بو محسوس نہ ہوئی اور سب ہی نے اسے میرا وہم قرار دیا۔ مگر آدھے گھنٹے بعد میری سالی جو کسی کام سے ہمارے ہاں آئی ہوئی تھی چکرا کر گڑ پڑی۔ اس کے گرتے ہی گھر بھر میں کھلبلی مچ گئی اور میرے اندیشوں کی تصدیق ہوگئی۔
میری بیوی اپنی بہن کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی مگر خود اس کا سر چکرا رہا تھا۔ایسے میں ہمارے ایک بزرگ نے چیخ کر کہا، اب وقت نہیں۔۔۔ بھاگ چلو۔۔۔ یہاں سے کہیں دور۔۔۔ ورنہ ہم میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔ ہم نے اپنے گھر کی جانب آخری نظر ڈالی اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہم سب پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ راستے میں کئی بچے چکرا کر گرتے رہے۔ میں نے رک کر ایک بچے کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تو اچانک میرے سر پر کسی بھاری چیز کا سایہ نظر آیا۔ دشمن میرے سر پر پہنچ گیا تھا۔ اگر میں پھرتی سے نکل کر ایک گڑھے میں نہ چھپ گیا ہوتا تو آج یہ داستان سنانے کے لئے زندہ نہ ہوتا۔
بالآخر ہم نے ایک ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیا۔۔۔ مگر اس ہجرت میں اپنے بے شمار ساتھی کھودیئے۔ اس علاقے میں ہماری آمد کا کسی نے نوٹس نہ لیا۔ کسی کی نظر ہم پر پڑتی بھی تو وہ ایسی بے نیازی سے گزر جاتا جیسے ہماری کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ دل میں آیا کہ روک کر پوچھیں کہ اچھی طرح دیکھ لیں، اگر ہم ایسے ہی گئے گزرے ہیں کہ ہمارے ساتھ آپ کا گزارا نہ ہوسکے تو ابھی بتا دیجئے۔ پھر اگر ہم یہاں بس گئے تو ہماری بنی بنائی بستی نہ اجاڑیئے گا۔ مگر افسوس کہ ہماری ان سے کچھ ایسی بے تکلفی نہ تھی کہ کوئی مذاکراہ یا مباحثہ ہوسکتا۔
وہ لوگ یونہی ’’نولفٹ‘‘ کا بورڈ لٹکائے پھرتے رہے۔۔۔ شاید ہماری بقا وسلامتی کے لئے یہی بہتر تھا۔ مگر دل کچھ اداس سا تھا۔ میری بیوی کو نیا محلہ کچھ زیادہ پسند نہ آیا۔ مگر میں نے اسے سمجھایا کہ ہم جیسی معمولی ہستیوں کی پسند کیا اور ناپسند کیا؟ سر چھپانے کو جگہ مل جائے یہی کافی ہے۔ ابھی ہماری آبادکاری کو بمشکل ایک ہی سال گزرا تھا کہ ہمارے ستارے پھر گردش میں آگئے۔ 
ایک دن ہم سب سورہے تھے کہ اچانک میرے حواس جاگ اٹھے۔ میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کردیا۔۔۔ آنکھیں کھول کر سونگھنے کی کوشش کی۔ فضا میں وہی مخصوص زہریلی بو تیزی سے پھیل رہی تھی۔۔۔ اف میرے مالک!! یہ لوگ ہمیں چین سے کیوں نہیں رہنے دیتے۔۔۔ ہم کب تک بھاگتے رہیں گے۔۔۔کیا ہمیں جینے کا کوئی حق نہیں؟ ہم ہمیشہ ہر ظلم پر چپ رہے۔ مگر اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔۔۔ آج ہمارے خاندان کا ہر ’’لال بیگ‘‘ یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ’’انسان‘‘ ہر سال عید کے عید گھر کی صفائی کیوں کرتا ہے!!
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top