skip to Main Content

ایک خرگوش اور غار

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تھا پہاڑ۔اس پہاڑ کے نچلے حصے میں تھا ایک غار،نہ بہت گہرا اور نہ بہت چھوٹا۔اس کے اندر رہتا تھا ایک بوڑھا خرگوش۔جب جوان تھا تو سارا دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزار دیتا تھا۔کوئی فکر نہیں تھی،کوئی غم نہیں تھا۔بوڑھا ہوا تو زیادہ گھوم پھر نہیں سکتا تھا۔خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ایک روز اسے اس غار کا علم ہو گیا۔بس پھر کیا تھا،کھا پی کر غار میں آجاتا تھا اور ساری رات سوتا رہتا تھا۔
آدمی ہو یا کوئی جانور اسے تنہائی زیادہ دیر تک پسند نہیں آتی۔خرگوش کو اور تو کوئی تکلیف نہیں تھی،مگر تنہائی کا اذیت ناک احساس اسے اس قدر ستاتا رہتا تھا کہ بے چارہ رو پڑتا تھا اور دل میں یہ سوچ لیتا تھا کہ وہ دوسرے دن صبح ہی کو جو بھی ہرن، بارہ سنگھا یا کوئی اور جانور نظر آئے گا اسے اپنا دوست بنا کر اپنے گھر میں لے آئے گا۔غار کو وہ اپنا گھر سمجھتا تھا اور یہ غار اس کا گھر نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
ایک دن ملی اسے ایک بکری سفید رنگ کی۔نیچے میدان میں گھاس چر رہی تھی۔خرگوش اس کے پاس پہنچا اور ادب سے بولا،”بہن بکری! سلام۔“
بکری نے جو خرگوش کو اپنے سامنے دیکھا تو ہنس کر کہنے لگی:
”ارے، تو کب سے میرا بھائی بن گیا۔میں بکری تو ذرا سا خرگوش۔میرا تجھ سے کیا واسطہ؟“
خرگوش کو اس کی یہ بات اچھی نہیں لگی، تاہم اس نے تو سوچ رکھا تھا کہ کسی کو اپنے گھر میں لاکر ہر وقت کی تنہائی دور کر دے گا۔دوبارہ بکری سے مخاطب ہوا:
”بکری بہن! میں نے تو کوئی بری بات نہیں کی،سلام کیا ہے۔“
”اچھا سلام کیا ہے؟وعلیکم السلام۔مزاج کیسے ہیں حضور کے،کہاں رہتے ہیں۔“بکری نے ذرا محبت سے پوچھا۔
خرگوش خوش ہوگیا کہ بکری نرم پڑ گئی ہے۔بولا:
”وہ سامنے میرا گھر ہے۔پسند فرمائیں تو تشریف لے چلیں۔“
بکری نے کہا: ”ذرا ٹھہر جاؤ،ابھی میرا پیٹ پوری طرح نہیں بھرا۔“اور جب بکری کا پیٹ بھر گیا تو وہ خرگوش کے ساتھ اس کے غار میں آگئی۔
”واہ وا،بہت اچھا گھر ہے۔“وہ غار دیکھ کر خوش ہوگئی۔
”تو بہن بکری! میری بات مانیں گی؟“خرگوش بولا۔
”ضرور ضرور کہو۔ماننے والی ہوگی تو مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
”بکری بہن! آپ نے اس گھر کو پسند کر لیا ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ آپ بھی ا سے اپنا گھر بنا لیں۔دونوں مزے سے رہیں گے۔“
خرگوش نے جیسے ہی یہ لفظ کہے بکری کا تو ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔بے اختیار ہنسے جا رہی تھی۔جب ذرا سنبھلی تو کہنے لگی:
”اے خرگوش میاں! تو نے کیا سمجھ کر یہ بات کہی ہے۔میرا اپنا گھر نہیں ہے جو میں اس واہیات غارکے اندر رہوں گی؟میری ماں ہے،باپ ہے،خالہ ہے،کتنے ہی رشتے دار ہیں۔ہم سب سامنے جنگل کے اس پار ایک آدمی کے گھر میں رہتے ہیں جو ہمارا بہت خیال رکھتا ہے۔ ہمیں ہر روز اپنے ساتھ لے کر یہاں آتا ہے۔میرے عزیز ندی کے کنارے پھر رہے ہوں گے۔میرا جی چاہا کہ ذرا پہاڑی کی سیر کر لوں، اس لئے آگئی۔“
بکری نے یہ کہا اور ایک منٹ ہی میں نظروں سے غائب ہوگئی۔خرگوش اسے دیکھتا رہ گیا۔
ایک بار اس نے ایک مور سے بھی اپنے گھر میں رہنے کے لیے کہا۔اس کا بھی وہی رویہ تھا جو بکری کا تھا۔
خرگوش مایوس ہوگیا۔اس نے پھر کسی سے یہ بات نہ کہی۔
اس پہاڑ پر بارش تو ہوتی ہی رہتی تھی،لیکن زیادہ نہیں۔ایک بار ایسا ہوا کہ بارش جو شروع ہوئی تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔خرگوش کا گھر بالکل محفوظ تھا۔نہ صرف گھر محفوظ تھا بلکہ اردگرد بھی پانی جمع نہیں ہوا تھا۔
پورا دن گزر گیا اور بارش کے زور میں کوئی کمی نہ ہوئی۔خرگوش اپنے گھر میں مزے سے بیٹھا تھا۔اس کے جی میں آئی،ذرا باہر جاکر تو دیکھوں پانی کہاں کہاں تک پھیل گیا ہے۔اس نے دیکھا کہ ایک جنگلی بلی بری طرح کانپ رہی ہے۔وہ اس کے پاس گیا،”سلام خالہ جان! کہیے کیا حال ہے؟“
بلی کے منہ سے بڑی مشکل سے نکلا:
”مر رہی ہو ں،کوئی جگہ بتاؤ۔“
”آﺅ خالہ! کیا یاد کرو گی۔تمہارا یہ بھانجا آخر کس دن تمہارے کام آئے گا؟“
خرگوش بلی کو اپنے گھر میں لے آیا۔غار کی گرم فضا میں بلی کی جان میں جان آئی۔شکریہ ادا کر کے کہنے لگی:
”پیارے بھانجے! تو بہت ہی اچھا اور پیارا بھانجا ہے۔میری ایک بہن بھی ہے جو میری طرح باہر سردی میں کہیں پڑی ہو گی۔شاباش۔ذرا ڈھونڈ تو اسے۔“
”کہاں ڈھونڈوں خالہ؟“
”بیٹا! یہیں کہیں ہو گی،سردی سے مر جائے گی۔“
خرگوش غار سے نکل آیا۔ایک جگہ اسے بلی کی بہن مل گئی۔اس طرح کانپ رہی تھی کہ لگتا تھا تھوڑی دیر بعد مر جائے گی۔خرگوش نے اسے بتایا کہ وہ اس کی بہن کو اپنے گھر لے گیا ہے اور اب اسے لے جانے کے لیے باہر آیا ہے۔وہ فوراً اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگئی۔وہ دونوں آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے کہ ایک ہرن ملا جس کی ایک ٹانگ زخمی تھی۔بڑی مشکل سے قدم اٹھاتا تھا۔کہیں دور سے آیا تھا۔برف اس کے جسم پر جمی تھی۔اس نے خرگوش کو دیکھا تو کہنے لگا:
”خرگوش بھائی! سنا ہے تم ایک غار میں رہتے ہو، جو بڑا گرم ہے۔میں کافی دیر سے تمہارا یہ غار ڈھونڈ رہا ہوں۔اللہ کے واسطے مجھے لے چلو۔“
خرگوش کہنے لگا،”چلو بھائی جان! یہاں کیوں کھڑے تھے،آجاتے۔“
ہرن بولا،”تمہارا یہ غار نہ جانے کہاں ہے۔نظر ہی نہیں آتا۔“
خرگوش نے اسے بھی ساتھ لے لیا۔دونوں غار میں پہنچے تو غار کی گرمی سے ان کی حالت بالکل ٹھیک ہوگئی۔
خرگوش تھوڑی دیر کے بعد غار سے باہر آگیا،” ہوسکتا ہے کوئی اور بھی میری مدد کا منتظر ہو۔“اس نے غار سے باہر نکلتے ہوئے سوچا۔
اب کے ایک بارہ سنگھا اس کے ساتھ غار میں آگیا۔خرگوش بہت خوش تھا کہ اس نے ان جانوروں کی بہت مدد کی ہے۔اب وہ ضرور اس کے دوست بن جائیں گے اور ممکن ہے کہ کوئی اس کے ساتھ رہنے پر بھی آمادہ ہوجائے۔
دونوں بلیاں،بارہ سنگھا اور ہرن خرگوش کے بہت ممنون تھے اور بار بار اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔
خرگوش نے دل میں کہا،”بارش بڑے زور سے ہو رہی ہے۔اگر کوئی اور جانور اس طرح بارش سے پناہ مانگ رہا ہو تو اسے بھی یہاں لے آؤں۔“ جب اس نے اپنے اس ارادے کا اظہار ان جانوروں سے کیا تو ہر ایک نے اس کی بڑی تعریف کی۔ہر ایک نے اس کے نیک ارادے کو سراہا۔
خرگوش تو نکل آیا باہر اور ان چاروں کی نیت خراب ہونے لگی۔
ایک بلی بولی،”اتنی اچھی جگہ ہو اور اس میں صرف ایک خرگوش رہے،مجھے تو بات کچھ پسند نہیں ہے۔“
”ہاں آپا! بوڑھا تو ہے،اسے بھلا اتنی گرم جگہ کی کیا ضرورت ہے؟“اس کی بہن نے یہ کہہ کر اس کی تائید کی۔
ہرن نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا:
”میں تو کہتا ہوں یہ جگہ ہم جیسے جوانوں کو درکار ہے۔یہاں دشمن سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔“
”اور کیا،خرگوش کو بھلا کیا ضرورت ہے یہاں رہنے کی۔“
ہرن کو یک لخت ایک اور خیال آگیا:
”خرگوش کسی اور کو بھی لے آئے گا۔غار چھوٹا ہے،ہم بہ مشکل یہاں رہ سکتے ہیں۔“
سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ خرگوش کو اندر آنے ہی نہ دیا جائے اور اس لیے انہوں نے یہ انتظام کیا کہ جیسے ہی وہ اندرآئے بارہ سنگھا اسے سینگ مار کر باہر پھینک دے۔مر جائے گا اور اگر مرے گا نہیں تو پھر کبھی غار میں آنے کی جرات نہیں کرے گا۔
خرگوش کچھ دیر ادھر ادھر گھومتا رہا۔اسے کوئی جانور دکھائی نہ دیا۔اسے سردی لگنے لگی تو وہ غار کی طرف آنے لگا۔اندر آیا تو سب نے کہا،”خوش آمدید،نیک خرگوش!“
خرگوش نے کہا:
”میرے معزز ساتھیو! میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔آپ نے میری بڑی عزت افزائی کی ہے۔“
بارہ سنگھا بولا:
”ہم آپ کی اور عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں۔“اور یہ کہتے ہوئے اس نے خرگوش کو جو سینگ مارا تو وہ غار کے منہ سے دس فٹ دور جا پڑا۔
”ہیں یہ کیا؟“خرگوش حیران پریشان ہوگیا۔
بارہ سنگھے نے سینگ اس زور سے مارا تھا کہ وہ مرتے مرتے بچا۔اس کے سارے جسم میں درد ہونے لگا۔اتنے میں اسے بارہ سنگھے کی آواز سنائی دی:
”خبردار! جو کبھی ادھر آنے کی جرات کی۔“
اب وہ کیا کر سکتا تھا۔اس نے تو کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ اسے نیکی کا یہ بدلہ ملے گا۔یہ اچھا ہوا کہ بارش تھم گئی ورنہ وہ سردی سے مر جاتا یا پانی کے ریلے میں بہہ جاتا۔وہ سخت مایوس تھا کہ ادھر سے ایک سفید ریچھ کا گزر ہوا۔اس کے ساتھ کبھی خرگوش کی دوستی رہ چکی تھی اس لئے وہ اسے خوب جانتا تھا۔
”کیا بات ہے ننھے دوست؟“سفید ریچھ نے پوچھا۔
خرگوش نے اسے ساری بپتا سنا دی۔
”اچھا تو یہ معاملہ ہے۔اب تم خاموشی سے تماشا دیکھو۔“
ریچھ غار کے دروازے پر پہنچا اور اندر منہ کرکے بولا:
”دوستو! غار کا منہ چھوٹا ہے اور میں بہت موٹا ہوں۔اندر نہیں آسکتا۔میرے ننھے دوست خرگوش نے کہا ہے کہ تم لوگوں کی ہر ضرورت پوری کروں۔کسی کو کھانے پینے کی ضرورت ہو تو بتا دے۔“
بلی بولی،”خالو جان! اور تو کچھ نہیں چاہئے۔بس ذرا بھوک لگی ہے۔“
”ابھی اس کا علاج کرتا ہوں۔نرم نرم گوشت لاتا ہوں۔“
اور یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد واپس آ کر بولا:
”مزے دار گوشت لے آیا ہوں۔دونوں بلیا ںآجائیں۔“
بلیاں باہر آئیں تو ریچھ نے ایک بلی کو ایسا پنجہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔دوسری فوراً بھاگ گئی۔
چند منٹ بعد ریچھ بولا:
”ہرن اور بارہ سنگھے کو کیا چاہیے۔ابھی حاضر کرتا ہوں۔“
ہرن بولا:
”چچا جان! وہ بلیاں گوشت لے کر اندر کیوں نہیں آئیں؟“
ریچھ بولا:
”بھتیجے! انھوں نے زیادہ کھا لیا ہے۔آرام کر رہی ہیں۔“
کافی دیر گزر گئی اور بلیاں غار کے اندر نہ پہنچیں۔ہرن نے بار سنگھے سے کہا:
”دوست،مجھے تو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔ذرا باہر دیکھنا تو وہ کہاں آرام کر رہی ہیں۔“
ہرن نے غار کے باہر دیکھا۔ایک بلی بے حس وحرکت پڑی تھی۔بولا،”دوست! بلی ہمیشہ کے لیے آرام کر رہی ہے۔ہم باہر نکلیں گے تو یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوگا۔وہ جھٹ میرے سینگوں کو پکڑ کر مجھے بے بس کر دے گا۔“
”تو اب کیا کریں؟“
”سوچتے ہیں۔“اور بارہ سنگھے نے سوچ کر کہا:
”ماموں جان! ہمیں کچھ نہیں چاہئے۔ذرا گھومنا چاہتے ہیں،کیوں کہ یہ غار بہت تنگ ہے۔“
”بہتر،تشریف لائیے۔“
بارہ سنگھا بولا،”ماموں جان!آپ کے سامنے سیر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔“
”تو کوئی بات نہیں۔ میں چلا جاتا ہوں۔“
ریچھ پیچھے ہٹ گیا اور ایسی جگہ کھڑا ہو گیا کہ غار سے باہر آنے والے کو نظر نہیں آ سکتا تھا۔بارہ سنگھا جیسے ہی باہر آیا،ریچھ تو اسی تاک میں کھڑا تھا،اس نے اس کے سینگ پکڑ لیے اور ایسا جھٹکا دیا کہ سینگ ٹوٹ گئے اور وہ چیختا چلاتا ہوا بھاگ گیا۔ ہرن نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ وہ بھی بھاگ گیا، مگرریچھ نے اس کی کمر پر زور سے دو ہتڑ مارا اور وہ بلبلا اٹھا۔
اب میدان صاف ہو گیا تھا۔
خرگوش نے ریچھ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top