skip to Main Content

ایک اوور میں چھ چھکے

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن ہماری طبیعت کچھ ناساز تھی، لہٰذا ہم اسکول نہیں گئے بلکہ آپ سے کیا چھپانا طبیعت کی ناسازی تو بہانہ تھی اصل میں اس دن عالمی کپ کا ایک میچ ٹی وی پر آرہا تھا جس میں پاکستان کا مقابلہ سری لنکا سے تھا۔ ہم نے سوچا کہ اسکول سے چھٹی کرکے میچ کے مزے لوٹے جائیں۔ میچ شروع ہونے میں بہت دیر تھی۔ ابھی تو صرف آٹھ بجے تھے۔ لہٰذا ہم ناشتہ کرکے بستر پر لیٹ گئے اور اخبار میں کھیلوں کی خبروں کا صفحہ کھولا تو ایک خبر پر ہماری نظر جم گئی۔ خبر یوں تھی: ”پاکستان ٹیم کو آل راﺅنڈر کی ضرورت۔“
لاہور (۹۱ اکتوبر) معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے دو تین کھلاڑیوں کے زخمی اور بیمار ہوجانے کی وجہ سے ٹیم میں آل راﺅنڈرز کی کمی ہوگئی ہے۔ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے کرکٹ بورڈ سے درخواست کی ہے کہ دو تین نئے کھلاڑیوں کو فوری طور پر ٹیم میں شامل کیا جائے تاکہ پاکستان کی عالمی کپ میں جیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ کراچی اور لاہور میںنئے کھلاڑیوں کا آزمائشی امتحان ہورہا ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کو چاہیے کہ صبح نو بجے اسٹیڈیم پہنچ جائیں۔“
ہم نے گھڑی دیکھی۔ نو بجنے میں بہت دیر تھی۔ ہم اسٹیڈیم پہنچ سکتے تھے۔ کرکٹ کھیلنے کا ہمیں بہت شوق تھا اور ہمیشہ سے ہماری خواہش تھی کہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں کھیل سکیں۔
”لیکن کیا ہمارا کھیل اتنا اچھا ہے کہ ہمیں منتخب کرلیا جائے؟“ ہم نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ”لیکن آزمانے میں کیا حرج ہے۔ اگر ٹیم میں لے لیے گئے تو بہت خوب، ورنہ ٹھنڈے ٹھنڈے گھر واپس آجائیں گے۔ کوئی مار تھوڑی ڈالے گا۔“ ہم نے اپنے آپ کو سمجھایا اور اسٹیڈیم جانے کا پکا ارادہ کرلیا۔
اسٹیڈیم پہنچے تو یہ دیکھ کر ہوش اُڑ گئے کہ ہزاروں لڑکے پہنچے ہوئے ہیں لیکن ہم نے حوصلہ ہارنے کے بجائے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ! تو ہی مدد کرسکتا ہے۔ آخر خدا خدا کرکے ہماری باری آئی اور شام کو نتائج کا اعلان ہوا۔ یہ سن کر ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ ہمیں منتخب کرلیا گیا ہے۔
وسیم اکرم کھلاڑیوں کا امتحان لے رہے تھے۔ اُنھوں نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا: ”آپ جانتے ہیں کہ پاکستان نے سیمی فائنل میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ پرسوں لاہور میں آسٹریلیا سے سیمی فائنل ہے اور آج ہمارا ایک کھلاڑی زخمی ہوگیا ہے۔ لہٰذا آپ کل ہوائی جہاز سے لاہور جائیے۔ آپ کو میچ کھیلنا ہے۔ ہم نے آپ کا اچھا کھیل دیکھ کر آپ کو ٹیم میں لیا ہے۔ امید ہے آپ ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔“
”جناب! آپ اطمینان رکھیے۔ میں جان لڑادوں گا۔ ان شاءاللہ عالمی کپ ہم جیتیں گے۔“ ہم نے جواب دیا۔
”شاباش! مجھے بھی اپنی ٹیم سے یہی اُمید ہے۔ آپ کل صبح مجھ سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے لیجیے گا۔ جانے کی تیاری کیجیے۔“
اس کے بعد حنیف محمد نے ہمیں بہت ساری ہدایتیں اور ایک خط دے کر رخصت کردیا۔
ہماری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پاﺅں رکھتے کہیں تھے اور پڑتا کہیں تھا۔ گھر آکر سب کو بتایا تو کسی نے یقین نہیں کیا بلکہ سب اُلٹا مذاق اُڑانے لگے۔
بھائی جان کہنے لگے: ”میاں! تم کھیلو گے کرکٹ! تمھیں تو گلی ڈنڈا بھی کھیلنا نہیں آتا۔“
امی کہنے لگیں: ”میرے لال! تجھے کیا ہوگیا ہے، کیوں بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔ طبیعت ٹھیک نہیں تو ڈاکٹر سے دوا لے آ۔“
اور ہماری بہنوں کا تو یہ حال تھا کہ ہماری نقلیں اُتار رہی تھیں۔ ہم نے سب کچھ برداشت کیا کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ کل اخبار میں خبر آئے گی اور ہم جہاز میں بیٹھ کر لاہور روانہ ہوں گے، میچ کھیلنے کے لیے، تو ان کو یقین آجائے گا لیکن جناب! یہ خبر تو رات ہی کو خبرنامے میں ٹی وی پر نشر ہوگئی، بس پھر کیا تھا، دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں نے مبارک باد کا تانتا باندھ دیا۔ ہم اور ابا جان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے کرتے تھک گئے۔ اس رات ہم جلدی سو گئے۔ آخر صبح اُٹھ کر لاہور جانا تھا۔
لیکن صبح تھوڑی سی گڑبڑ ہوگئی۔ ہمیں لاہور جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ نہ مل سکا۔ کیوں کہ لاہور جانے والے کسی ہوائی جہاز میں کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ لوگ عالمی کپ کرکٹ کا سیمی فائنل دیکھنے بہت بڑی تعداد میں لاہور جارہے تھے اور کیوں نہ ہو آخر پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ورلڈ کپ کا سیمی فائنل تھا اور توقع تھی کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ان دونوں ٹیموں کا مقابلہ بہت دلچسپ اور سنسنی خیز ہوگا۔
آخر کار بڑی مشکل سے ہمیں اگلے دن یعنی میچ والے دن صبح چھ بجے کے ہوائی جہاز میں جگہ مل سکی۔ بدقسمتی سے یہ جہاز بھی لیٹ ہوگیا اور ساڑھے آٹھ بجے جب ہم اس ہوٹل میں پہنچے جہاں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں ٹھہری ہوئی تھیں تو پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ٹیم اسٹیڈیم روانہ ہوچکی ہے اور پاکستان کی ٹیم بھی جانے کے لیے بالکل تیار تھی، بس کپتان سرفراز احمد کا انتظار تھا۔ سارے کھلاڑی بس میں بیٹھ رہے تھے جب ہم وہاں پہنچے توشعیب ملک، حسن علی سے کہہ رہے تھے: ”یار! یہ نیا کھلاڑی رﺅف پاریکھ ابھی تک کیوں نہیں پہنچا؟“
ہم فوراً آگے بڑھے اور کہا: ”جناب میں حاضر ہوں۔“
شعیب ملک اور حسن علی نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کہنے لگے: ”جاﺅ بھئی جاﺅ! اپنا کام کرو، کیوں مذاق کرتے ہو۔ جب بڑے ہوجاﺅ گے تو کرکٹ کھیلنا۔ جاﺅ شاباش۔“ محمد حفیظ بس کی کھڑکی سے جھانک رہے تھے۔ ہم نے ان کی طرف مدد کے لیے دیکھا تو اُنھوں نے بھی دانت نکال دیے۔
ہم نے یہ حال دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیا اور سوچنے لگے کہ اب کیا کریں۔ اتنے میں سرفراز احمد اور ٹیم کے منیجر آتے دکھائی دیے۔ سرفراز منیجر سے کہہ رہے تھے۔ ”میں نے وسیم اکرم سے فون پر ابھی ابھی کراچی بات کی ہے، وہ بتارہے تھے کہ نیا کھلاڑی بس پہنچنے ہی والا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نیا کھلاڑی بہت اچھا کھیلتا ہے۔“
ہم نے یہ سن کر اُنھیں روک لیا اور کچھ کہنے کے لیے الفاظ سوچ ہی رہے تھے کہ سرفراز نے ہم سے کہا: ”آپ شاید آٹو گراف لینے آئے ہیں لیکن اس وقت ہم بہت جلدی میں ہیں، ٹیم ویسے ہی لیٹ ہوگئی ہے۔“
اچانک ہمیں وسیم اکرم کا وہ خط یاد آگیا جو اُنھوں نے ہمیں کراچی سے چلتے وقت دیا تھا۔ وہ خط ہم نے جیب سے نکال کر جھٹ سرفراز احمد کو دے دیا۔ سرفراز خط پڑھ کر ہماری شکل دیکھنے لگے۔ پھر بولے: ”آپ ہی وہ نئے کھلاڑی ہیں؟ لیکن جناب! یہ ورلڈ کپ کرکٹ ہے اور آپ….“ بات ادھوری چھوڑ کر وہ ہمارے دبلے پتلے جسم کو دیکھنے لگے۔
”جناب! آپ مجھے موقع تو دیں، میں ان شاءاللہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بالنگ میں بھی کچھ کرکے دکھاﺅں گا۔“
آخر کار یہ سارے مرحلے طے ہوئے اور ہم ٹیم کے ساتھ اسٹیڈیم پہنچے۔ ٹاس ہوا۔ پاکستان نے ٹاس جیت لیا اور بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن آسٹریلیا کی طوفانی بالنگ کے سامنے پاکستان کا کوئی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا اور سب یکے بعد دیگرے آﺅٹ ہوتے چلے گئے۔ صرف ایک سو پانچ رنز پر ہمارے آٹھ کھلاڑی آﺅٹ ہوچکے تھے۔ ہم نئے تھے اس لیے آخر میں بیٹنگ کرنے گئے۔ ایک تو تماشائیوں کا اتنا بڑا مجمع دیکھ کر ویسے ہی ہوش اُڑے ہوئے تھے۔ دوسرے آسٹریلیا کی فاسٹ بالنگ زوروں پر تھی۔ ہم پہلی ہی گیند پر آﺅٹ ہوگئے اور ہمارے بعد آنے والے کھلاڑی نے بھی ہماری تقلید میں کوئی رن نہ بنایا۔ اس طرح پوری ٹیم صرف ایک سو پانچ رنز پر آﺅٹ ہوگئی۔
شکست سامنے نظر آرہی تھی اور جب آسٹریلیا نے بیٹنگ شروع کی تو ان کی دھواں دھار بیٹنگ نے ہمارے بالروں کا جلوس نکال دیا۔ پچاس اوور کا میچ تھا لیکن اُنھوں نے تو بیس اوورز ہی میں اسّی رنز بنالیے تھے اور ان کے صرف تین کھلاڑی آﺅٹ ہوئے تھے۔ ڈین جونز اور شین واٹسن کھیل رہے تھے اور ان کا انداز جارحانہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بقیہ چھبیس رنز وہ دو تین اوورز ہی میں بنا کر میچ جیت لیں گے۔ تماشائی مایوس ہو کر چپ بیٹھے ہوئے تھے۔ لگ رہا تھا کہ پاکستان سیمی فائنل ہی میں ہار جائے گا۔ ایسے میں سرفراز احمد نے ہمیں بالنگ دی۔
ہم اسپن بالنگ کیا کرتے تھے۔ لہٰذا چھوٹا سا اسٹارٹ لے کر اللہ کو یاد کرتے ہوئے گیند پھینکنے کے لیے آگے بڑھے۔ ہمارے سامنے کھلاڑی بلا تھامے مسکرا رہے تھے۔ ہم نے سوچا گیند کو اوف کی طرف ٹرن کرائیں گے لیکن یہ کیا! گیند ذرا بھی نہیں گھومی اور واٹسن نے ایسا گھما کر شارٹ مارا کہ گیند تارا ہوگئی لیکن باﺅنڈری لائن پر کھڑے ہوئے حسن علی نے اسے کیچ کرلیا۔ اسٹیڈیم میں ہلکا سا شور اُٹھا۔ کھلاڑیوں نے ہمیں مبارک باد دی لیکن ابھی آسٹریلیا کے چھ کھلاڑی باقی تھے اس لیے کوئی بھی زیادہ خوش نظر نہیں آرہا تھا۔
اگلے کھلاڑی جارج بیلی تھے۔ ہم نے سوچا کہ پھر گیند اوف پر ٹرن کرائیں اور اگلی گیند گھومی بھی لیکن بالکل ذرا سی۔ گریگ رچی اسے سیدھا سمجھ کر اسٹروک کھیلنے لگے۔ گیند بلے کا کنارا چھو کر وکٹ کے پیچھے گئی جہاں وکٹ کیپر سرفراز احمد نے اسے کیچ کرلیا۔ اب آسٹریلیا کے پانچ کھلاڑی آﺅٹ ہوچکے تھے۔
اسٹیڈیم ایک دفعہ پھر تالیوں سے گونج اُٹھا۔ سرفراز بھاگے بھاگے ہمارے پاس آئے اور ہمیں شاباشی دی۔ دوسرے کھلاڑی بھی ہمارے گرد جمع ہوگئے۔ اس کے بعد ہیڈن کھیلنے آئے اور ہمارا پورا اوور اُنھوں نے بڑی احتیاط سے کھیلا۔ اگلا اوور سرفراز نے حفیظ کو دیا۔ جس میں جونز نے دو چوکے ماردیے، آسٹریلیا کا اسکور اٹھاسی ہوگیا۔ میچ جیتنے کے لیے اُنھیں اٹھارہ رنز کی ضرورت تھی۔ سرفراز نے ہمیں پھر گیند دی۔ اس اوور کی پہلی گیند پر ہیڈن نے ایک رن بنایا۔ اب ڈین جونز کی باری تھی۔ ہم نے سوچا اب گیند کو لیگ کی طرف ٹرن کرائیں لیکن توبہ کیجیے صاحب! گیند ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر بغیر پچ پر گرے ہی جونز کے پاس پہنچی اور انھوں نے گھما کر زور دار شارٹ کھیلا کہ لگتا تھا کہ چھکا ہوگا مگر گیند باﺅنڈری لائن سے کچھ پہلے زمین پر گرنے والی تھی کہ شعیب ملک نے لپک کر اسے کیچ کرلیا۔ آسٹریلیا کے چھ کھلاڑی آﺅٹ ہوچکے تھے۔ اسٹیڈیم میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے لگے۔ سرفراز نے کہا: ”تم اچھی بالنگ کررہے ہو، کوشش کرکے باقی وکٹ بھی لے لو۔“
اسی اوور میں ہم نے ایک اور آﺅٹ کردیا۔ اب آسٹریلیا کو سترہ رنز بنانے تھے اور اس کے تین کھلاڑی باقی تھے لیکن شنواری کے اوور میں تین چوکے لگ گئے اور صرف پانچ رنز باقی رہ گئے۔
سرفراز نے پھر ہمیں بلایا۔ تماشائیوں میں زبردست جوش تھا۔ ہمیں پانچ رنز کے اندر اندر تین آﺅٹ کرنے تھے۔ ہم نے اللہ کو یاد کیا اور اللہ نے ہماری سن لی۔ حالاں کہ ہماری بالنگ کچھ خاص نہیں تھی لیکن دو کھلاڑی آسانی سے آﺅٹ ہوگئے جبکہ ہم نے صرف تین رنز دیے۔ اس طرح آسٹریلیا کا اسکور ۴۰۱ تھا اور ان کا آخری کھلاڑی باقی تھا۔ اگلا اوور حفیظ نے کرایا۔ اس اوور میں آخری کھلاڑی بھی آﺅٹ ہوگیا۔
پاکستان ایک رن سے میچ جیت کر فائنل میں پہنچ گیا۔ اسٹیڈیم میں اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کھلاڑی خوشی سے ناچ رہے تھے، تماشائی پٹاخے چلا رہے تھے۔ لوگوں کی خوشی کا حساب نہیں تھا۔ ہم نے صرف تین رنز دے کر چھ وکٹ لی تھیں۔ مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھی ہمیں ملا تھا۔
اگلے دن کے اخبارات ہماری تعریفوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہماری تصویریں بھی چھپی تھیں۔ ٹیم کے کھلاڑیوں، کپتان اور منیجر نے بھی ہمیں بہت شاباشی دی اور کہا کہ فائنل میں بھی تمھیں ایسا ہی کھیل دکھانا ہے۔ فائنل کلکتہ میں تھا۔ فائنل میں پہنچنے والی دوسری ٹیم بھارت کی تھی جو ویسٹ انڈیز کو ہرا کر فائنل میں آئی تھی۔ ہماری ٹیم ہوائی جہاز کے ذریعے کلکتہ پہنچی۔ وہاں بھی ہمارے کھیل کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
اب ہمیں ڈر لگنے لگا۔ ہم نے سوچا کہ پہلے میچ میں تو اللہ نے عزت رکھ لی۔ ورنہ ہم کہاں اور کرکٹ کہاں۔ اب فائنل میں کیا ہوگا؟ میچ کے دن صبح ہم نے آئینہ دیکھا تو اپنے آپ سے بولے: ”مولانا! بہت شوق تھا کرکٹ کھیلنے کا، ذرا نہیں کھیل سکوگے تو اخبار والے جتنی تعریف کررہے ہیں اتنا ہی بُرا کہیں گے۔“
خیر صاحب! اسٹیڈیم پہنچے، میچ شروع ہوا۔ تقریباً ایک لاکھ تماشائی موجود تھے۔ میچ ٹی وی پر براہ راست بھی دکھایا جارہا تھا۔ دنیا بھر کے اخباری نمائندے اور کرکٹ کے ماہرین موجود تھے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اس میچ کے مین آف دی میچ کو ایک لاکھ روپیہ انعام دیا جائے گا۔
ٹاس ہوا، پاکستان نے پھر ٹاس جیت لیا اور پہلے بھارت کو کھیلنے کی دعوت دی۔ بھارت کی ٹیم بہت اچھے کھیل کا مظاہرہ کرنے لگی۔ اُنھوں نے ابتدا ہی سے جارحانہ کھیل پیش کرکے صرف پچیس اوورز میں ایک سو تیس رنز بنالیے تھے۔ سرفراز احمد نے ہمیں بالنگ دی لیکن اس دن ہماری بالنگ نہیں چلی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی ہماری بالنگ کی ایسی پٹائی ہوئی کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ بھارتی کھلاڑیوں نے چھکے اور چوکے مار مار کر ہمارے چھکے چھڑادیے۔ بڑی مشکل سے پچاس اوور پورے ہوئے۔ پچاس اووروں کے اختتام پر بھارت کا اسکور دو سو اسی رنز تھا۔ پاکستان کے لیے میچ جیتنا مشکل نظر آرہا تھا اور جب ہمارے چار کھلاڑی صرف چالیس رنز پر آﺅٹ ہوگئے تو بھارتی تماشائیوں نے تالیاں بجا بجا کر اور شور مچا مچا کر آسمان سر پر اُٹھالیا۔ اس کے بعد سرفراز احمد اور شعیب ملک نے کچھ ٹیم کو سنبھالا لیکن جب اسکور سو رنز پر پہنچا تو سرفراز بھی آﺅٹ ہوگئے۔ اس کے بعد تین کھلاڑی دس رنز کا اضافہ کرکے آﺅٹ ہوئے۔ اب صورت حال بہت نازک تھی۔ ایک سو دس پر پاکستان کے آٹھ کھلاڑی آﺅٹ ہوچکے تھے۔ بھارتی تماشائیوں نے پٹاخے چھوڑنے شروع کردیے۔ پاکستان ہارنے والا تھا بیس اوورز میں ایک سو اکھتر رنز بنانے تھے اور صرف دو کھلاڑی باقی تھی۔ البتہ ایک اطمینان یہ تھا کہ عمر اکمل ابھی آﺅٹ نہیں ہوئے تھے۔
ایسے میں ہماری باری آئی۔ ہمارے تو ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ بڑی مشکل سے وکٹ پر پہنچے۔ ویرات کوہلی بالنگ کررہے تھے۔ اُنھوں نے پہلی گیند ایسی پھینکی کہ ہمیں نظر ہی نہیں آئی اور ہم آﺅٹ ہوتے ہوتے بچے۔ اب ہم نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ میری اور میرے ملک کی عزت رکھنا اور پھر دل میں طے کیا کہ ہر گیند پر زور دار اسٹروک کھیلنا ہے۔ اگلی گیند جب آئی تو ہم نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ پوری طاقت سے بلا گھمایا۔ گیند ہوا میں اُڑتی ہوئی تماشائیوں میں جاگری۔ امپائر نے چھکے کا اشارہ دیا۔ اس کے بعد اگلی تین گیندوں پر ہم نے دو دو رنز بنائے۔
اسکور آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ دوسری طرف عمر اکمل تھے۔ اُنھوں نے بھی اسکور میں اضافہ کیا۔ دونوں کھیلتے گئے۔ یہاں تک کہ چالیس اوورز کے خاتمے پر پاکستان کا اسکور ہم نے دو سو تک پہنچادیا۔ اب آخری دس اوورز میں ہمیں میچ جیتنے کے لیے اکیاسی رنز درکار تھے لیکن یہاں عمر اکمل کا یوراج نے ایک بہت مشکل اور خوب صورت کیچ لے لیا۔ پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا۔ اس کے بعد حسن علی کھیلنے آئے۔ وہ آخری کھلاڑی تھے۔ ہم نے اُنھیں سمجھایا کہ آپ کو صرف گیند روکنی ہے، رنز ہم بنائیں گے۔ اس وقت تک ہم پچاس رنز بناچکے تھے جس میں دو چھکے اور چھ چوکے شامل تھے۔
پاکستان کا صرف ایک کھلاڑی باقی تھا اس لیے اب ہم نے احتیاط سے کھیلنا شروع کیا تھا۔ اس لیے رنز بنانے کی رفتار کم ہوگئی۔ اگلے پانچ اوورز میں اِکھتر رنز درکار تھے اور آخری وکٹ بچی تھی۔ مگر اب ہمیں تیز کھیلنا تھا۔ ویرات گیند لے کر اپنا اوور کرانے بالنگ کے نشان پر پہنچے، ہم نے فیلڈ کا جائزہ لیا۔ کور پر خاص بڑا خلا تھا۔ ویرات کی پہلی گیند آف اسٹیمپ سے باہر جارہی تھی۔ ہم نے اسے کور میں موڑ دیا۔ وہاں کوئی کھلاڑی نہیں تھا اور گیند بہت تیز تھی۔ اس لیے چار رنز بن گئے۔ اگلی گیند پر ویرات نے باﺅنسر پھینکا۔ ہم نے پوری طاقت سے ہک کیا اور چھکا ہوگیا۔ اس اوور میں مزید چھ رنز بنے۔ اس طرح پاکستان کا کل اسکور دو سو چھبیس ہوگیا۔ گویا میچ جیتنے کے لیے چار اوورز میں پچپن رنز درکار تھے۔ اگلے اوور کی پہلی گیند حسن علی نے کھیلی۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ آﺅٹ نہ ہوجائیں۔ مگر اُنھوں نے اس گیند پر ایک رَن لے کر ہمیں کھیلنے کا موقع دیا۔ وہ اوور محمد شامی کا تھا۔ اس میں ہم نے تین چوکے مارے۔ تینوں انتہائی خوب صورت جان دار، پاکستان کا اسکور دو سو اڑتیس ہوگیا۔ اب منزل سامنے نظر آرہی تھی۔ تین اوورز میں تینتالیس رنز بنانے تھے لیکن یوراج کا اگلا اوور تجربے اور مہارت کا شاہکار تھا۔ انھوں نے حسن علی کو کھیلنے ہی نہیں دیا۔ بڑی مشکل سے اُنھوں نے آخری گیند پر دو رنز بنائے۔ اب اسکور دو سو چالیس تھا یعنی دو اوورز میں اکتالیس رنز بنانے تھے۔ بُھمرا کے اوور کی پہلی گیند پر ہم نے تین رنز بنائے اور یہ ایک غلطی تھی کیوں کہ اب بقیہ پانچ گیندیں حسن علی کو کھیلنی تھیں۔ بڑی مشکل سے اس نے پانچویں گیند پر ایک رن لیا۔ آخری گیند ہم نے کھیلی اور اس پر ایک رن بنالیا۔ اس طرح ہمارا ذاتی اسکور پچاسی ہوگیا۔ ہم نے سر اُٹھا کر اسکور بورڈ کو دیکھا۔ دو سو پینتالیس رنز کا ہندسہ ہمارا منھ چڑارہا تھا۔ آخری اوور میں چھتیس رنز بنانے تھے یعنی ہر گیند پر چھ رنز، بھارتی تماشائی پٹاخے چھوڑ رہے تھے۔ ہر طرف شور تھا۔ اسٹیڈیم میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بھارت کی جیت یقینی تھی۔ کیا بھارت عالمی کپ جیت جائے گا؟ ”نہیں، نہیں“ ہم نے پورے عزم سے کہا۔ ”چھ گیندوں پر چھ چھکے، اور فتح ہماری ہوگی۔“
آخری اوور پھینکنے کے لیے شامی نے بھاگنا شروع کیا۔ شور کچھ اور بلند ہوگیا۔ شامی نے پہلی گیند یارکر پھینکی۔ ہم نے ایک قدم آگے بڑھایا اور گیند کو فل ٹاس بنا کر پوری طاقت سے مڈ آن کی طرف کھیل دیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح میاں داد نے شارجہ میں آخری گیند پر چھکا مارا تھا اور یہ بھی چھکا تھا۔
شامی نے اپنی گیند کا یہ حشر دیکھا تو کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے، شاید وہ اگلی گیند کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ادھر ہم بھی تیار تھے۔ اگلی گیند باﺅنسر تھی۔ اس کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلی دو گیندوں کا ہوا تھا یعنی چھکا۔ شامی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کہ رَنز رُک جائیں یا کم از کم چھکا نہ لگے لیکن ہم تو پاکستان کو عالمی چیمپین چاہ رہے تھے۔ لہٰذا گلی تین گیندوں پر لگاتار تین چھکے لگے۔ پاکستان میچ جیت چکا تھا اور اب پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپین تھا۔ پاکستان نے یہ اعزاز بھارت سے اسی کی سرزمین پر چھینا تھا۔
اسٹیڈیم میں گویا بھونچال آگیا۔ سرفراز احمد اور تمام پاکستانی کھلاڑی ہماری طرف دوڑ پڑے۔ مین آف دی میچ کا اعزاز اور ایک لاکھ روپے کا انعام ہمارا منتظر تھا۔ فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی۔
لیکن…. اچانک آواز آئی: ”یہ صاحب زادے آج ابھی تک کیوں استراحت فرمارہے ہیں؟ کیا اسکول نہیں جائیں گے؟“
اتنا کہہ کر کسی نے ہمیں ٹانگ سے پکڑ کر اٹھادیا: ”چلو! برخوردار، اسکول کا وقت ہورہا ہے۔“
ہماری آنکھ کھلی تو ابا جان ہمیں گھور رہے تھے۔ ہمارے ہاتھ میں اخبار تھا۔ جس میں کھیلوں کی خبروں کا صفحہ کھلا ہوا تھا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top