skip to Main Content

ایمپائرنگ کی دنیا کا افتخار ۔۔۔ علیم ڈار

رانا محمد شاہد

………………
اسے ایمپائرنگ سے زیادہ کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا

………………

’’میں ۲۰۰۳ء کے ورلڈ کپ میں امپائرنگ کے لیے جنوبی افریقہ گیا ہوا تھا۔ اس وقت تک میں نے صرف ۱۲؍بین الاقوامی میچز میں امپائرنگ کی تھی۔ پاکستان میں میری اکلوتی سات ماہ کی بیٹی جویریہ علیم کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور چند دن بعد وہ انتقال کرگئی۔ میری اہلیہ نے یہ سوچتے ہوئے کہ میں خبر سنتے ہی واپس پاکستان آجاؤں گا اور میرا کیریئر ختم ہوجائے گا۔ مجھے بیٹی کے بارے میں کچھ نہ بتایا اور فون پر بات چیت کرکے میرا حوصلہ بلند کرتی رہیں۔ میری اہلیہ اس وقت شدید دُکھ میں مبتلا تھی۔ لیکن میرے کیریئر کے لیے اس نے اپنا یہ دُکھ چھپا کر رکھا اور آج جب میں بہترین امپائر کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو اپنی اہلیہ کی ہمت کو داد دیتا ہوں ۔ مجھے اپنی بیٹی بھی بہت یاد آتی ہے۔ میں شاید اس واقعہ کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔‘‘
یہ اس شخص کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔ جس نے تین بار دنیا کے بہترین امپائر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ جی ہاں، پاکستان کے اس عظیم سپوت کا نام ہے ۔۔۔ علیم ڈار۔
امپائرنگ میں اپنی بہترین خدمات کے پیش نظر مسلسل تیسری مرتبہ آئی سی سی ایوارڈ آف دی ایئر حاصل کرکے اُنھوں نے ملک و قوم کا نام فخر سے بلند کردیا ۔ سبز ہلالی پرچم ساری دنیا میں اُونچا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری قوم کو علیم ڈار پر فخر ہے۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد ان کے کلب پی اینڈ ٹی نے علیم ڈار کے لیے تقریب کا اہتمام کیا اور ان کی تاج پوشی کی۔ 
۲۰۱۱ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران علیم ڈار واحد امپائر تھے کہ جن کے کسی ایک فیصلے کو بھی چیلنج نہ کیا جا سکا۔ مسلسل تیسری بار سال کے بہترین امپائر کا اعزاز حاصل کرکے اُنھوں نے ملک کا نام روشن کیا۔ سٹیوڈیوس، ای ین گولڈ اور پانچ مرتبہ یہ اعزاز اپنے نام کرنے والے آسٹریلوی امپائر سائمن ٹوفل بھی ڈیوڈ شیفرڈ ٹرافی کے امیدواران میں شامل تھے۔ تاہم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں سو فیصد جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں ۹۸ فیصد درست فیصلوں کا تناسب رکھنے والے پاکستانی سپوت نے کسی دوسرے کو اپنی مسند پر قابض نہ ہونے دیا ۔ آئی سی سی کی دس ممبر ٹیموں کے کپتانوں اورایٹ پینل میچ ریفریز کے ووٹ حاصل کرکے علیم ڈار ایوارڈ کی ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیاب رہے۔ تیسری مرتبہ بہترین امپائر کا اعزاز اُنھوں نے ستمبر ۲۰۱۱ء میں حاصل کیا۔
۴۳سالہ علیم ڈار نے ۱۳؍اگست ۲۰۱۰ء سے ۳؍اگست ۲۰۱۱ء تک کے عرصے میں ورلڈ کپ فائنل سمیت ۱۳؍ون ڈے اور ۵ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کرتے ہوئے کئی بار اپنے فیصلوں سے ٹیکنالوجی کو مات دی۔ جس ٹیم نے بھی ان کا فیصلہ چیلنج کیا تو اسے منھ کی کھانی پڑی۔ مضبوط اعصاب اور انسانی آنکھ کی مدد سے درست فیصلے تک پہنچنے کی اس صلاحیت نے نہ صرف دنیا بھر کے کروڑوں شائقین کو حیران کر دیا بلکہ اس سے علیم ڈار کی عزت و احترام میں بھی اضافہ ہوا۔
علیم ڈار کو ابتدا سے امپائرنگ کا نہیں کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ وہ ایک دہائی تک مڈل آرڈر بیٹسمین اور لیگ سپنر کے طور پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے۔ کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ گریجویشن کرنے کے بعد الائیڈ بینک میں ملازمت بھی کی۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میرے کرکٹ کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک روز پی اینڈ ٹی کے صدر اطہر زیدی نے کہا کہ انڈر ۱۹کے لیے تمھاری عمر زیادہ ہوگئی ہے۔ اب اگر چاہو تو تم امپائرنگ میں نام پیدا کرسکتے ہو۔ یوں امتحان پاس کرنے کے بعد میں انڈر ۱۹میں امپائرنگ کرنے لگا۔ پہلے سال ہی مجھے فرسٹ کلاس اور پھر بین الاقوامی میچوں میں امپائرنگ مل گئی۔ علیم ڈار نے ۲۰۰۰ء میں پہلا انٹرنیشنل سپر وائز کیا ۔ یہ میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان گوجرانوالہ میں کھیلا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ۳۲سال تھی۔ دو برس کے عرصے میں ہی وہ آئی سی سی پینل میں شامل کرلیے گئے۔ 
۲۰۰۳ء میں پہلی بار ورلڈ کپ میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ پھر اکتوبر میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین سیریز میں پہلی بار ٹیسٹ امپائرنگ کا موقع ملا۔ سخت دباؤ میں کئی بار ان کے فیصلوں نے ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کیا۔ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں وہ آئی سی سی ایلیٹ پینل کا حصہ بن چکے تھے۔ سائمن ٹوفل اور علیم ڈار سینئرامپائرز کی نسبت کم عمر ہونے کی وجہ سے زیادہ پراعتماد اور قابل اعتماد دکھائی دیے۔
علیم ڈار کے کیریئر کا بُرا وقت وہ تھا جب ورلڈ کپ ۲۰۰۷ء کے فائنل میں خراب روشنی کے حوالے سے قوانین کے بارے میں ان کی غلط فہمی ان کا بُرا وقت لے کر آئی۔ جس کی وجہ سے وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے مقابلوں میں معطل بھی رہے۔
علیم ڈار کے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے کو قرآن پاک حفظ کروا یا ہے۔ کہتے ہیں :’’ مجھے آخرت کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔ اچھے اعمال پر یقین رکھتا ہوں۔ اسی لیے اپنے ایک بیٹے کو قرآن پاک حفظ کروا رہا ہوں۔ امپائرنگ کے دوران نماز قضا ہوجائے تو بعد میں ادا کرتا ہوں۔‘‘
بچپن کی شرارت کے حوالے سے وہ ایک واقعہ سناتے ہیں۔
’’اسکول کے زمانے میں کرکٹ کھیلنے کا بہت جنون تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میچ والے روز چھٹی کی درخواست لکھ کر والد صاحب کے دستخط کرکے اسکول بھیج دیتا تھا۔ ایک بار پکڑے جانے پر والد صاحب نے خوب پٹائی کی۔ لیکن پھر میرے شوق کو دیکھتے ہوئے کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔‘‘ علیم ڈار ایشیا میں سب سے زیادہ ون ڈے انٹرنیشنل میچ سپر وائز کرچکے ہیں۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ میچز میں ان کا دوسرا نمبر ہے۔ دو مرتبہ چمپئنز ٹرافی اور دو مرتبہ ورلڈ کپ کے فائنل میں امپائرنگ کے فرائض ادا کرچکے ہیں۔
امپائرنگ کی دنیا میں ڈکی برڈ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ڈکی برڈ امپائر ریویو سسٹم کے حامی نہیں۔ ان کے خیال میں اس نظام سے امپائر روبوٹ بن کر رہ گیا ہے اور اس کے اختیارات کو کم کیا جا رہا ہے۔ ان کے نزدیک یہ بہت تحقیر آمیز رویہ ہے کہ امپائر ایل بی ڈبلیو قرار دے اور کھلاڑی میدان میں کھڑا ہو کر آپ کی اتھارٹی کو چیلنج کرتا پھرے۔ وہ ایسے عمل کو اچھا نہیں سمجھتے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ مدت ہوئی، وہ اس قسم کا سسٹم آنے سے پہلے کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ ڈکی برڈ جب تک امپائر کی حیثیت سے کام کرتے رہے، دنیا بھر میں ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ عمران خان ڈکی برڈ کو اپنا پسندیدہ امپائر قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ڈکی برڈ علیم ڈار کو دنیا کا بہترین امپائر قرار دیتے ہیں۔ وہ سائمن ٹوفل کو بھی اچھا امپائر سمجھتے ہیں۔ لیکن علیم ڈار کو ان سے کہیں بہتر کہتے ہیں۔ علیم ڈار کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹھنڈے مزاج کا حامل ناپ تول کر فیصلے کرنے والا امپائرہے وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔
کھیل کی دنیا میں سپرٹ و اعلا ظرفی سے کھلاڑی امپائر کی عزت و مقام میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ ایک ون ڈے میچ کے دوران علیم ڈار نے انگلش بولر فلنٹوف کی گیند پر ٹنڈولکر کو وکٹ کیپر میٹ پرائر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ قرار دے دیا۔ لیکن بعد میں احساس ہوا کہ گیند بیٹ کے بجاے پیڈ سے ٹکرایا تھا۔ چنانچہ بعد میں انھوں نے اعلا ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور ٹنڈولکر سے معذرت بھی کی۔ ایسا حوصلہ بھی بہت کم امپائرز میں ہوتا ہے۔
کم گو اور اپنے کام پر بھرپور توجہ رکھنے والے اس امپائر نے ناخوشگوار لمحات کو ذہن میں جگہ دینے کے بجاے اپنی نظر پیشہ ورانہ ذمہ داری و ایمانداری پر رکھی ہے۔ جس کے صلے میں نہ صرف آئی سی سی نے مسلسل تین سال بہترین امپائر کا ایوارڈ دیا بلکہ انھیں ٹیموں کے کپتانوں، کھلاڑیوں اور شائقین کی طرف سے عزت و احترام بھی ملا۔
علیم ڈار کا کہنا ہے کہ جدید دور میں امپائرنگ اتنی بھی آسان نہیں۔ ٹیکنالوجی مختلف زاویوں سے لیے گئے ری پلے کے ذریعے آپ کے ایک ایک فیصلے پر نظر رکھتی ہے۔ ایک عام انسان کا ہر فیصلہ درست ہونا ممکن نہیں۔چنانچہ غلطی کا امکان بہرحال موجود ہوتا ہے۔ تاہم میری کوشش ہوتی ہے کہ ذہنی و اعصابی طور پر خود کو مضبوط رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرسکوں اور اگر کبھی غلطی ہوجائے تو اس سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ دہرانے سے گریز کروں۔

*۔۔۔*

نئے الفاظ:
سپوت: لائق اور سعادت مند بیٹا تاج پوشی: نوازنا
ہیٹ ٹرک: کوئی کام مسلسل تین دفعہ کرنا
اَعصاب: وہ باریک رگوں کا جال جو دماغ سے لیکر جسم کے مختلف حصوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔
سپروائز: کسی کام کو نگرانی میں کروانا قلیل: تھوڑا، کم
جنون: کسی چیز کا حد سے زیادہ شوق ہونا
امپائر ریویو سسٹم:ٹیکنالوجی کے ذریعے فیصلے پر نظرِ ثانی کا سسٹم
کنارہ کشی: دوری اختیار کرنا، چھوڑ دینا 
سپرٹ: جوہر، روح

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top