skip to Main Content

اک بات سمجھ میں آئی نہیں

راحمہ خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھہریے یہ وہ بات نہیں ہے جو’’ امی نے سمجھائی نہیں‘‘
پھر کون سی بات ہے؟ ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دروازہ زور و شور سے بج رہا تھا اور میں اپنے کان پہ جوں رینگنے ہی نہیں دے رہا تھا ورنہ بہت پہلے کھول چکا ہوتا۔
’’حمزہ دروازہ کھولو۔‘‘ امی نے مجھے دور سے ہی آواز دی۔
’’میں ہی کیوں کھولوں؟‘‘ میں نے بُرا سا منھ منایا۔
’’کیونکہ تمھارا ہی نام حمزہ ہے۔‘‘ باجی نے مجھے سمجھایا۔
’’تو کیا صرف حمزہ نام کے لوگ دروازہ کھولتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، صرف حمزہ نام کے وہ لوگ دروازہ کھولتے ہیں جن کے گھر پہ کوئی آتا ہے۔‘‘ باجی نے مزے سے کہا۔
’’تو جن حمزہ نام کے لوگوں کے گھر کوئی نہیں آتا وہ کبھی دروازہ نہیں کھولتے؟‘‘میں نے دوسرا سوال داغا۔
’’وہ پھر انتظار کرتے ہیں کسی کے آنے کا۔‘‘
میں نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اسی لمحے دروازہ بجانے والے نے دروازے کو بُری طرح پیٹ ڈالا تو میں بالآخر اُٹھ ہی گیا۔
’’ہمارے گھر میں کسی نے قرض نہیں لیا۔‘‘ میں دروازہ کھولتے کھولتے بڑبڑایا۔
’’حمزہ کے بچے! ایک تو تم لوگو ں نے گھر بھی چوتھے فلور پہ لیا ہے اور دروازہ بھی دیر سے کھولتے ہو۔‘‘ بلال نے تیزی سے اند ر آتے ہوئے کہا۔ بلال میرا خالہ زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ، میرا ہم عمر، ہم جماعت اور ہم محلہ بھی تھا۔
میں اس کے پیچھے پیچھے اندر آیا۔ ’’تو جب میں دروازہ نہیں کھول رہا تھا تو تم واپس چلے جاتے۔‘‘
’’ایسے کیسے چلا جاتا؟ اتنی ساری سیڑھیاں میں نے واپس جانے کے لیے تھوڑی چڑھی تھیں۔‘‘بلال صوفے پہ پسینہ پونچھتے ہوئے بیٹھ چکا تھا۔
’’تو اب تم کبھی واپس نہیں جاؤ گے؟‘‘
’’باہر تمھارے فلیٹ میں دو لوگوں میں لڑائی ہورہی ہے۔ ایک آدمی نے تو گَن بھی نکال لی ہے۔‘‘ بلال نے گرم گرم خبر ہم تک پہنچائی۔ میں اچھل کر کرسی پر چڑھا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
اسی وقت امی کمرے میں داخل ہوئیں: ’’کون آیا ہے حمزہ؟‘‘
’’میں آیا ہوں خالہ۔‘‘ بلال نے ہاتھ لہرا کر امی کو تسلی کروائی۔
’’نیچے رَش تو ہورہا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کون کس سے لڑ رہا ہے۔‘‘ میں نے کافی گھورنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا۔
’’اور لو چوتھی منزل پہ گھر۔‘‘ بلال نے منھ بنایا۔
’’اور پڑھو اندھیرے میں کتابیں۔‘‘ باجی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
’’اور دیکھو چوبیس گھنٹے ٹی وی۔‘‘ امی نے کہا۔
’’بھاڑ میں جائے ایسی لڑائی جس کو دیکھنے سے تمام گھروالے آپ کے دشمن ہوجائیں۔‘‘ میں ہاتھ جھاڑتا ہوا کھڑکی سے دور ہٹ گیا۔
’’میں نے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘ اب تک خاموش رہنے والا فرد بھی اس گفتگو میں حصہ ڈالنے آگیا تھا۔
’’تو تم بھی کچھ کہہ دو، میں نے کب کسی کو روکا ہے؟‘‘ میں نے کاشف کو ہاتھ ہلا کر شروع ہونے کے لیے کہا۔
’’تمھارے فلیٹوں میں زیادہ ہی لڑائیاں نہیں ہوتیں؟‘‘ بلال نے مصنوعی دلچسپی سے پوچھا۔’’پچھلی دفعہ جب میں آیا تھااس وقت بھی کسی کی پٹائی ہورہی تھی۔‘‘
’’ارے وہ لڑائی تو ختم ہوچکی تھی۔ہر لڑائی کے اختتام پر اسجد کی پٹائی ہوتی ہے۔ آپ اس کو ہمارے فلیٹ کی رسم بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن اتنے دنوں سے میں سمجھ نہیں سکا کہ ہر لڑائی کے اختتام پہ وہ ہی کیوں پٹتا ہے؟ اس فلیٹ میں اتنے سارے لوگ پٹائی کے لائق ہیں کہ اگر روز نئے لڑکے کی پٹائی کی جائے تو شاید ایک سال میں سب سے فارغ ہوسکیں۔ ہوسکتا ہے اسجد ہر کسی کی لڑائی میں حصہ ڈالتا ہو لیکن ایسا بغیر تصدیق کے کہنا مشکل ہے۔‘‘ کاشف نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
’’چلو یہ تو اچھا ہے کہ تم لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ لڑائی کب ختم ہونے والی ہے۔‘‘ بلال نے خوشی سے کہا۔
’’ہمارے لیے اچھا ہوگا لیکن اسجد تو دعا کرتا ہوگا کہ لڑائی کبھی ختم ہی نہ ہو۔‘‘ میں اُٹھ کر دوبارہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا جہاں اب کوئی پٹ رہا تھا۔ میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں وہ اسجد ہی تھا۔

*۔۔۔*

آج آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ۲۰۱۳ء میں پاکستان کا دوسرا میچ تھا۔ بلال حسبِ معمول آج پھر ہمارے گھر کے دروازے پر زور و شور سے مکے مار مار کر پاکستانی کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھا رہا تھا۔ جب ٹی وی کی آواز اس کے شور کی وجہ سے مکمل طور پر دب گئی تو تنگ آکر میں نے دورازہ کھول دیا۔
’’کیا ہے آئن سٹائن کی شکل والی مخلوق؟‘‘ میں نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک تو اتنی دیر سے دروازہ کھولتے ہو اور پھر بُرا بھلا بھی کہتے ہو۔‘‘ بلال نے دکھی لہجے میں کہا۔
’’بھائی میں صرف بُرا، بُرا کہتا ہوں۔ بھلا کہنے کے لیے دنیا کے اور لوگ موجود ہیں۔‘‘ میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔ ’’آج کس لیے آپ نے ہمارے غریب خانے کو رونق بخشی ہے؟‘‘
بلال اپنی بے عزتی بھول کر پُرجوش ہوکر کہنے لگا:’’وہ اصل میں نیچے تمھارے فلیٹ میں لوگ بڑی اسکرین پر میچ دیکھ رہے ہیں تو میں نے سوچا کہ تمھیں بھی بتادوں۔‘‘
’’تمھیں ہمیشہ میرے فلیٹ کے بارے میں مجھ سے زیادہ کیوں پتا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے جل کر کہا۔
’’چلو ناں! بہت مزہ آئے گا۔‘‘ بلال نے مجھے کھینچ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’کس کو؟‘‘ کاشف نے اچانک کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم سب کو ! تم کو بھی! ہم میچ دیکھنے جارہے ہیں۔ وہ بھی بڑے پردے پہ! چلو چلو چلو!‘‘ بلال نے جوش میں آکر اگر میرا ہاتھ نہیں توڑا تھا تو اس کے پیچھے ضرور کسی معجزے کا ہاتھ تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم تینوں ایک بڑے مجمعے کے ساتھ کھڑے ہوکر میچ دیکھ رہے تھے۔
’’ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘بلا ل نے سوچوں میں گم ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مجھے بھی۔‘‘ کاشف نے ہاں میں ہاں ملائی۔ میں نے ان دونوں کو بیزاری سے دیکھا۔
’’تمھاری سمجھ میں کون سی بات نہیں آئی؟‘‘ بلال نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’یہی کہ یہ آخری آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کیوں ہے؟‘‘ کاشف نے آنکھوں سے اسکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس کے بعد اور کیوں نہیں ہوں گے؟‘‘
’’پھر میری سمجھ میں دو باتیں نہیں آئیں۔‘‘ بلال نے خوشی خوشی اعلان کیا۔
’’اور مجھے یہ سن کر اتنی خوشی ہورہی ہے جو میرے بیان سے باہر ہے۔‘‘ میں نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
’’پوچھو گے نہیں وہ کون سی بات ہے جو میری سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’نہیں پوچھوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں پوچھوں یا نہ پوچھوں تم پھر بھی مجھے بتادوگے۔‘‘ میں مکمل طور پر اُکتایا ہوا تھا۔
’’زبردست! تم تو مجھے میری والدہ ماجدہ سے بھی زیادہ جانتے ہو!‘‘ بلال فرطِ جذبات میں میرے گلے لگ گیا۔
’’دوسری بات کیا ہے؟‘‘کاشف نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
’’یہ سب لوگ جو میچ دیکھ رہے ہیں، وہی لوگ ہیں جو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور آج ایسے ساتھ بیٹھے ہیں جیسے کسی میں سے پسینے کی بدبو نہیں آرہی۔‘‘ بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اصل میں یہ سب اتنے برسوں سے ساتھ رہ رہے ہیں کہ اب انہیں پسینے کی بدبو آنا بند ہوگئی ہے۔ عادت ہوگئی ہے بے چاروں کو۔‘‘میں نے تاسف سے تمام افراد پر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’وہ دیکھووہاں کیا ہورہا ہے؟‘‘ بلال ایک بار پھر مجھے گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگا۔
’’چھوڑو بلال! میں اب اتنا بڑا ہوگیا ہوں کہ خود چل سکوں۔‘‘میں نے ہاتھ چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’شش!‘‘بلال نے میرے منھ کے سامنے ہاتھ ہلا کر میرا منھ بند کروایا۔
وہ مجھے جس جگہ گھسیٹ کر لایا تھا وہاں کچھ لوگ زور و شور سے شرطیں لگا رہے تھے کہ آج کا میچ کون جیتے گا۔
’’آج کا میچ پاکستان جیتے گا۔‘‘ ایک صاحب اعلان کررہے تھے۔
ایک لڑکا خوشی خوشی سب کو بتا رہا تھا: ’’آج پاکستان کا دوسرا میچ ہے۔ پہلا ہم ہارے تھے، اس کا مطلب ہے دوسرا میچ پکا ہم ہی جیتیں گے۔‘‘ 
’’کن خیالوں میں ہو تم لوگ؟ آج نہیں جیتنے والے ہم۔‘‘ یہ اسجد تھا۔
’’کیسے نہیں جیتنے والے؟ دیکھ رہے ہو کتنا اچھا اسکور جارہا ہے؟‘‘ایک صاحب نے بُرا مان کر کہا۔
’’ارے انکل یہ اسکور ابھی آپ کو اچھا لگ رہا ہے۔ ابھی ہمارے سارے ہیرو اتنی جلدی زیرو بنیں گے جتنی جلدی میں چاے پیتا ہوں۔‘‘ اسجد کو عجیب و غریب وقت پر عجیب و غریب مثالیں دینے کی عجیب و غریب عادت تھی۔
’’مطلب ہمارے ہیرو پورا دن کھیلتے رہیں گے۔‘‘ پیچھے سے کسی نے اعلان کیا۔
’’کیسے؟‘‘ مجمع میں کئی جگہوں سے آواز آئی۔
’’اسجد پورے دن چاے پیتا ہے۔‘‘ اعلان کرنے والے نے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’لیکن کیا تم لوگ جانتے ہو میں چاے کا ایک کپ چاہے وہ کتنا بھی گرم ہو کتنی دیر میں پی سکتا ہوں؟تین سیکنڈ! اتنی ہی جلدی ہوجائیں گے زیرو!‘‘ اب وہ تمام مجمعے کا مذاق اُڑا رہا تھا۔
میں نے اس سے پہلے اتنے سارے لوگوں کو مٹھیاں بھینچتے اور دانت پیستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
’’میں شرط لگا کر کہتاہوں کہ پاکستان جیت جائے گا۔‘‘پہلے والے صاحب جذباتی ہوگئے۔
’’میں سو روپے کی شرط لگا تا ہوں پاکستان ہار جائے گا۔‘‘اسجد نے مزے سے کہا۔
’’میں دس روپے کی شرط لگاتا ہوں پاکستان جیتے گا!‘‘
’’میں پچاس روپے کی۔‘‘
’’میں پندرہ روپے کی ۔۔۔اور ایک ٹافی کی۔‘‘
سب اپنی اپنی شرطیں لگا رہے تھے۔بلال یہ سب دیکھ کر جذباتی ہوگیا اور چیخ کر کہنے لگا:’’میں بھی شرط لگاتا لیکن میری امی نے منع کیا ہے۔‘‘
وہاں موجود تمام افراد نے اسے گھور کر دیکھا اور وہ کھسیا کر ہنسنے لگا۔
’’میری سمجھ میں آگیا۔‘‘ اچانک کاشف کہیں سے نمودار ہوا۔
’’کیا؟‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’وہ وجہ جو آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔‘‘ کاشف نے بتایا: ’’وجہ دراصل یہ ہے کہ ہم چاہے کتنا بھی لڑ لیں ، خود کو سندھی کہہ لیں، پنجابی کہہ لیں، پٹھان کہہ لیں۔۔۔جب بات پاکستان کی آتی ہے تو ہمیں یہ سب یاد نہیں رہتا۔ اس وقت صرف یہ پتا ہوتا کہ ہم پاکستان ہیں اور پاکستان ہم سے ہے۔‘‘
میں اپنے چھوٹے بھائی سے متاثر نہیں ہوسکتا تھا: ’’یہ تو مجھے پتا ہے۔‘‘
’’یہ ہم سب ہی کو پتا ہے۔‘‘ بلال نے اطمینان بھری مسکراہٹ سے بڑی اسکرین کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
جب میچ کا اختتام ہوا تو پاکستان ہار چکا تھا اور اسجد ایک بار پھر پٹ رہا تھا۔ ہماری قوم مختلف مقاصد کے لیے وقتاًفوقتاً ایسے اتفاق کر ہی لیتی ہے۔

*۔۔۔*

 نئے الفاظ کے معنی
گَن: بندوق
تصدیق: کسی بات کی تحقیق کرنا کہ وہ صحیح ہے یا غلط
غریب خانہ: گھر( انکساری کے ساتھ کہنا)
فرطِ جذبات: جذبات کی شدت
مٹھیاں بھینچنا: غصہ میں آکر لڑنے کے لیے تیار ہوجانا
کھسیانا: چِڑانا
دانت پیسنا: غصے میں آنا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top