skip to Main Content

اچھا کام

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔

سردی نے اپنے رنگ دکھانے شروع کیے تو عائشہ بیگم کو بچوں کے گرم کپڑوں کی فکر نے آگھیرا۔انہوں نے چھٹی والے دن تمام بچوں کو اپنے پاس بٹھایا اور ان سے ان کی پسند پوچھنے لگیں۔ننھا خرم آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا:
”امی!میں کالے رنگ کی جیکٹ لوں گا۔“
”میر ے پاس جیکٹ تو ہے،مفلر نہیں۔میں تو خوب صورت مفلرلوں گا۔“یہ افضل تھا۔
”اور میں گرم جرسی لوں گی،امی جان!“تانیہ نے کہا۔بیگم عائشہ مسکرائیں اور بولیں:
”آپ لوگوں کو آپ کی پسند کے کپڑے مل جائیں گے،لیکن ایک شرط پر۔“
شرط کا سن تینوں بچوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔کپڑوں کے سلسلے میں شرط!یہ پہلی دفعہ ہواتھا،اس لیے ان کی حیرت فطری تھی۔عائشہ بیگم بچوں کی حالت بھانپ گئیں اور بولیں:
”یہ ٹھیک ہے کہ پہلے شرط والی بات کبھی نہیں ہوئی،لیکن بھئی،اس بار آپ کو کپڑے اسی صورت میں ملیں گے جب آپ میری شرط پوری کریں گے۔“
”آپ کی شرط کیا ہے امی جان؟“خرم نے پوچھا۔
”شرط یہ ہے کہ آپ میں سے جو سب سے اچھا کام کرے گااسے اس کی پسند کی چیز تو ملے گی ہی، اس کے علاوہ ایک خوب صورت تحفہ بھی دوں گی۔“عائشہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”ہاں!اب آپ جائیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر کوئی اچھا ساکام کرکے مجھے بتائیں۔“عائشہ بیگم نے کہا توتینوں بچے وہاں سے ہٹ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
جب ان بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا تو افضل کی عمر دس سال تھی، تانیہ آٹھ سال کی،خرم چارسال کا تھا۔تینو ں بچوں نے باپ کی کمی کو بہت محسوس کیا۔ان کے والد وقار صاحب کو بھی بچوں سے بڑالگاؤ تھا۔ان کی ہرجائزہ خواہش کو پوراکرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ دفتر سے واپسی پر وہ بچوں میں گھل مل جاتے اور ان کے ساتھ کھیلتے بھی۔یہی وجہ تھی کہ بچوں نے انہیں بہت یاد کیا،لیکن یہ عائشہ بیگم تھیں کہ جنہوں نے بچوں کو ماں کی شفقت بھی دی اور باپ کا پیاربھی۔وہ بچوں کو محسوس نہیں ہونے دیتی تھیں کہ ان کا باپ نہیں ہے۔بڑے اچھے اندازہ میں اپنے بچوں کی تربیت کررہی تھیں۔خرم چھٹے سال میں تھا،تانیہ دس برس کی ہوگئی تھی اور افضل ان سب سے بڑا تھا،اس لیے حساس تھا۔اسے معلوم تھا کہ بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ کام کرے اور اس کی امی اب گھر میں رہیں،مگر عائشہ بیگم نے اس سے بہت امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔وہ اسے بڑا آدمی دیکھنا چاہتی تھیں،اس لیے انہوں نے اس کی اس خواہش کوردکردیاتھا۔وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے محنت کررہی تھیں۔تینوں بچے دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دینی علم بھی حاصل کررہے تھے اور خودعائشہ بیگم بھی مختلف طریقوں سے ان میں نیکی کا جذبہ پیدا کرنے لگی میں ہوئی تھیں۔
اب جو انہوں نے کپڑوں کے ساتھ شرط کا اعلان کیا تو مقصد یہی تھا۔
تین دن گزرگئے اور وہ تینوں ایسا کوئی کام نہ کرسکے کہ فخرسے امی کوبتائیں۔اس دن تینوں ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔
”میں پانچوں وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھتاہوں۔میرے خیال میں اس سے اچھا کام کوئی اور نہیں۔“افضل نے کہا۔
”نماز تو ہم دونوں بھی پڑھتے ہیں اور یہ بات امی جان جانتی ہیں۔ہمیں اس کے علاوہ کوئی کام کرنا ہے۔“ تانیہ نے کہا۔خرم نے اس کی تائید میں سرہلادیا۔
”وہ وہ مارا!ایک اچھا کام،نہایت ہی اچھاکام،میرے ذہن میں آیاہے۔“ افضل نے کہا۔
”کیا کام؟“تانیہ نے پوچھا۔
”تمہیں بتادوں تاکہ تم تحفہ حاصل کرلو!یہ نہیں ہوگابھئی!“ افضل نے کہا اور اٹھ کر چلاگیا۔تانیہ اورخرم ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔اچانک خرم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔تانیہ نے کہا۔
”لگتا ہے کہ تمہیں بھی کوئی اچھاکام سوجھ گیا!“
”ہاں، یہی بات ہے۔لو، میں بھی چلا۔“ خرم نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔تانیہ اکیلی رہ گئی۔پھر وہ بھی اٹھ کر باہر چلی گئی۔
ٹھیک سات دن بعد عائشہ بیگم نے پوچھا:
”ہاں بھئی!آپ لوگوں نے کون کون سا اچھا کام کیا،نماز کے علاوہ۔“
”میں چوں کہ ان دونوں سے بڑاہوں، اس لیے پہلے بتاتاہوں امی جان!میرا ایک دوست ہے فیصل۔بے چارہ بہت غریب ہے۔ اس کی ماں انتقال کرچکی ہے۔ باپ نشہ کرتاہے۔وہ جو کچھ کماتاہے۔اس سے اپنا نشہ پوراکرلیتاہے۔گھر میں کچھ نہیں دیتا۔فیصل اور اس کی چھوٹی بہن بہت تنگ رہتے ہیں۔شام کے وقت فیصل مزدوری بھی کرتاہے۔پچھلے تین چاردنوں سے فیصل کو کام نہیں مل رہاتھاجس کی وجہ سے ان کے گھر میں فاقے ہورہے تھے۔میں نے اپنی جمع کی ہوئی رقم اسے دی۔“ یہ کہہ کر افضل چپ ہوگیا۔
”بہت خوب!یہ تو واقعی اچھا کام کیا آپ نے۔“عائشہ بیگم نے کہا اور پھر تانیہ کی طرف دیکھنے لگیں۔تانیہ نے کھنکارکر گلا صاف کیااور بولی:
”امی جان!اوپر والے کمرے میں چڑیوں نے گھونسلا بنارکھا ہے۔میں نے دیکھا کہ چڑیا کا ننھا سا بچہ گھونسلے سے نیچے گراہوا۔میں نے اسے اٹھاکر گھونسلے میں رکھ دیا۔ایسا کرتے وقت میں کئی بارگری بھی جس کی وجہ سے میری کمر میں شدید چوٹ بھی آئی۔“
”بے شک تم نے بھی اچھا کام کیا ہے۔“ عائشہ بیگم نے کہا اور خرم کی طرف دیکھا۔
خرم نے کہنا شروع کیا:
”امی جان!آپ جانتی ہیں کہ ہمارے پڑوس میں سلیم رحمان صاحب رہتے ہیں۔ بے چارے نابینا ہیں اور بوڑھے بھی۔پانچوں وقت کی نماز مسجد میں اداکرنے جاتے ہیں۔چوں کہ ان دنوں ہماری گلی میں مرمت کا کام ہورہاہے،اس لیے سلیم رحمان صاحب بڑی مشکل سے مسجد تک پہنچ پاتے ہیں۔میں آج کل ان کا ہاتھ پکڑکرمسجد لے جاتا ہوں اور نماز کے بعد پھر واپس بھی لے آتاہوں۔وہ مجھے دعائیں دیتے ہیں۔بس میں نے یہی کام کیا ہے۔“ خرم کے خاموش ہوتے ہی افضل بولا:
”تب ہی تم میرے ساتھ آتے جاتے نہیں تھے۔۔“
”ہاں!“خرم مسکرایا۔
عائشہ بیگم بہت خوش تھیں۔بولیں:
”ا س میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے بہت اچھے کام کیے ہیں او ر میں امید رکھتی ہوں کہ آئندہ بھی اچھے اچھے کام کرتے رہیں گے۔اپنے وعدہ کے مطابق میں تحفہ دوں گی،مگر اس کا حق دارکون ہے؟میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے، لہٰذا میں نے طے کیا ہے کہ آپ تینوں ہی کو تحفے دوں،لیکن آپ تینوں یہ بات سمجھ لیں کہ اچھا کام بدلے کے لالچ میں نہیں کرنا چاہیے۔ اچھا کام کرنے سے جو خوشی ہوتی ہے وہ خود انعام ہے۔“
”سچ، امی جان؟“ تانیہ خوشی بولی۔
”ہاں میرے کمرے میں الماری میں تین تحفے رکھے ہوئے ہیں۔وہ تم تینوں لے لو اور ہاں آپ کے گرم کپڑے بھی وہیں رکھے ہیں۔“
عائشہ بیگم کی بات ختم ہوتے ہی تینوں خوشی سے اچھلتے کودتے چلے گئے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top